Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اک گھر ایسا بنانا چاہیے

محمود ظفر اقبال ہاشمی

اک گھر ایسا بنانا چاہیے

محمود ظفر اقبال ہاشمی

MORE BYمحمود ظفر اقبال ہاشمی

    ’’سر آپ اس ملک کے مایہ ناز بلڈر اور Real Estate Tycoon ہیں۔ آپ نے اس ملک میں شہر کے شہر بسائے ہیں۔ مگر سننے میں آیا ہے کہ آپ دوکمروں کے چھوٹے اور سادہ سے گھر میں رہتے ہیں۔ اس کے پیچھے کوئی فلاسفی ہے، سادہ مزاجی یا پھر آپ کے ماضی سے جڑی کوئی کہانی؟‘‘

    ٹی وی اینکرنے انٹرویو کے دوران ایسا سوال کر ڈالا کہ ایک لمحے کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے کسی ماہر آرتھوپیڈک نے ہڈی میں چھپے کسی ہیئرلائن فریکچر کو ایکس رے پر ایک نظر ڈالتے ہی باآسانی دریافت کر لیا ہو!

    میرے لیے یہ محض ایک سوال نہیں تھا۔ اس کا جواب دینے کا مطلب یہ تھا کہ میں اور میرا ماضی ایک ایسے پرانے سویٹر کی مانند ہو جاتے جس میں اون کا چھوٹا سا سرا کسی کے ہاتھ آ جائے تو وہ با آسانی ادھڑتا چلا جاتا ہے!

    میں اسے کیسے بتاتا کہ واقعی اس کے پیچھے فلاسفی بھی تھی، سادگی بھی اور میرے تلخ ماضی سے جڑی ایک کہانی بھی۔ اس ایک سوال نے میری زندگی کو فاسٹ ریوایئنڈ کرکے مجھے برسوں پیچھے پہنچا دیا اور مجھے وہ چھوٹا سا دو کمروں کا سرکاری کواٹر یاد دلا دیا جہاں ہم آٹھ بہن بھائی اپنے والدین اور دادی کے ہمراہ رہا کرتے تھے۔ اس گھر کے کمرے اتنے چھوٹے تھے کہ ادھر اندر داخل ہوئے، ادھر آگے دیوار اوربس کمرہ ختم! ایک کمرے میں امّی کے جہیز کی بڑی سی پیٹی نے پہلے ہی آدھے کمرے کو کچھ یوں گھیر رکھا تھا کہ بمشکل ایک چارپائی ہی اس میں سما پاتی تھی اور رہی سہی کسر جائے نماز کے طور پر استعمال ہونے والا تخت پوش پوری کر ڈالتا تھا۔ دوسرے کمرے کی حالت تو اس سے کہیں زیادہ دگرگوں ہوا کرتی تھی۔ ایک تو وہ ویسے ہی چھوٹا تھا اور اوپر سے پرانے زمانے کا دیو ہیکل پلنگ۔ واحد کونا جو خالی بچا تھا وہاں ایک بوسیدہ شیلف سہمے سہمے انداز میں اپنے ناتواں کاندھوں پر پرانا ٹی وی، ڈھیرساری کتابیں اور گھریلو استعمال کی متفرق چیزوں اپنے دامن میں سمیٹے دیوار سے لگا یوں دکھائی دیتا تھا جیسے گھر والوں نے رحم کھاکر اسے پناہ دے رکھی ہو۔ اسی کمرے میں بیٹھ کر ہر روز رات کو ہم آٹھ بہن بھائی، ابا، امی اور دادی سمیت آٹھ بجے والا ڈرامہ تقریباً بغل گیرہو کر دیکھا کرتے تھے۔ اس گھر کے برآمدے کا ایک تہائی حصہ ہم نے زبردستی ایک سٹور میں بدل رکھا تھا۔ جب سخت سردیوں کا قہر آسمان سے زمین پر اترتا تو یہ برآمدہ کچن کا روپ دھار لیا کرتا تھا اور ہم گیس کا چولہا جلائے، بھاری بھر کم غلاف زدہ چق گرا کر اسی برآمدے میں سردی سے پناہ لیا کرتے تھے۔ اس گھر میں جو واحد کھلی جگہ تھی وہ اس کا آنگن تھا جو کمروں کی کل جگہ سے تقریباً دو تہائی زیادہ تھا۔ جگہ کے نا معقول استعمال کے باوجود ہمیں وہ آنگن پوری کائنات کی طرح لگا کرتا تھا جہاں گرمیوں میں اس کی شمالی دیوار کے سائے تلے کھجور کی سوکھی چھال سے بنی چٹائی پر بیٹھ کر ہم ہر روز اپنی امی کے ارد گرد جمع ہوکر ناشتہ کیا کرتے، رات کا کھانا کھایا کرتے اور رمضان المبارک میں سحری و افطاری کیا کرتے تھے۔ آنگن کے بیچوں بیچ لگ اسرس کا بزرگ درخت آنگن سے کہیں زیادہ ہمارے برآمدے کی چھت پراپنی سبز قبا بکھیرے اونگھتا رہتا تھا۔ اسی آنگن میں ہم سب بہن بھائی مل کرصرف پٹھوگرم، چھٹاپو، کوکلا چھپاکی ہی نہیں بلکہ ہاکی، فٹ بال اور کرکٹ بھی با آسانی کھیل لیا کرتے تھے۔ اسی آنگن میں بیٹھ کر موسموں کی مناسبت سے کبھی ہم مل کر گنے چوسا کر تے، کبھی لیموں، نمک مرچ لگا کر ابلے ہوئے سنگھاڑوں اور بھنے ہوئے بھٹوں پر ہاتھ صاف کیا کرتے تو کبھی بلا حساب آم، کینو، امرود، خربوزے اور انار کھایا کرتے تھے اور کچھ بھی میسر نہ ہوتا تو کالے نمک کے ساتھ مولیوں، ککڑیوں اور گاجروں کی ہی پر تکلف دعوتِ شیراز اڑا ڈالتے تھے۔ گرمیوں کی سہ پہروں میں جب ہم آنگن میں پانی کا چھڑکاؤ کرتے توگویا اس کی پرانی سرخ اینٹیں کھِل کھل اٹھتیں، جیسے ان کا جوبن لوٹ آتا اور ان کی ہر ایک درز سے نوجوانی کی انگڑائیاں اور عہد شباب کی مخصوص خوشبو پھوٹنے لگتی۔ اس آنگن کا دامن اتنا بڑا تھا کہ گرمیوں کی راتوں میں ہم گیارہ باسیوں کی الگ الگ چارپائیاں باآسانی اس میں سما جایا کرتی تھیں۔ سرشام بچھنے والے بستر رات تک اتنے ٹھنڈے ہو جایا کرتے تھے کہ رات سونے کے لیے تھکے ہوئے بدن ان پر پڑتے ہی نیند سب کی پلکوں پر ہلکی ہلکی تھپکیاں دینے لگتی۔

    اس سرکاری کالونی میں سو سے زیادہ گھر تھے۔ جس طرح اس کالونی کے سب گھروں کا نقشہ ایک سا تھا، بالکل اسی طرح اس کالونی میں رہنے والے سب لوگوں کی خوشیاں، لڑائیاں، ترجیحات، غم، شکایتیں، مسائل، باتیں، چہرے اور خواب بھی تقریباً ایک سے تھے۔ آج میں مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اصل طلسم ان گھروں کے نقشے میں محسوس ہوتا ہے جہاں نہ کوئی ایک پل کے لیے ایک دوسرے سے دور ہوتا تھا اور نہ ہی جدا! چھوٹے گھر تھے مگر ان میں خوشیاں بڑی تھیں!

    محدود آمدنی کے باوجود اس گھر میں ہم نے زندگی کے آسودہ ترین انیس سال گذارے۔ گھر کیا تھا ایک پناہ گاہ تھی جو ہمارے مالی مسائل، مشکلات اور سفید پوشی کی یوں حفاظت کرتا جیسے برفیلے موسموں میں دہکا ہوا آتشدان ٹھٹھرے جسموں کو پالے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس گھر میں کوئی ایسا کونا کھدرا نہیں تھا جہاں کوئی اپنا راز چھپا سکتا سو جلد یا بدیر سب کے راز یا تو افشاء ہو جاتے یا پھر بانٹ لیے جاتے۔ اسی طرح کسی کی کوئی بھی مشکل یا الجھن زیادہ دیر تک اس کی ذاتی ملکیت نہیں رہ پاتی تھی۔ تعلیمی میدان میں ہم سب بہن بھائیوں کے اوج کمال کی ایک بنیادی وجہ بھی ہمارا گھر ہی تھا۔ بچپن سے لے کر لڑکپن تک اور لڑکپن سے لے کرنوجوانی تک ہم سب تقریباً پاس پاس بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ ایسے میں ابا اور دادی کی ہلا شیری کے باعث صحت مندانہ مقابلے کی فضا قائم رکھتی اوران کے اعلان کردہ چھوٹے چھوٹے انعام جیتنے کے لیے ہم سر دھڑ کی بازی لگا دیا کرتے تھے۔ اسی گھر میں ہم نے اپنی امی کے بالوں میں پہلی بار چاندی اترتے دیکھی، اسی گھر میں ہم سب نے اپنی بڑی بہن کو شادی کے بعد رخصت کرکے ایک دوسرے کے آنسو پونچھے اور اسی گھر میں ہم سب کو جوڑ کر رکھنے والی اپنی پیاری دادی کا جنازہ بھی دیکھا۔

    پھر ایک دن ایسا آیا کہ ابا جی ریٹائر ہو گئے!

    آنسوؤں سسکیوں کے ساتھ جب ہم نے ایک مضمحل سہ پہر کو اس چھوٹے گھر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑا تو تب ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ چھوٹا سا گھر کتنا بڑا تھا اور اس چھوٹے سے گھر نے کیا کچھ سمیٹ رکھا تھا!

    ہمارا کرائے کا نیا گھر اتنا بڑا تھا کہ شروع میں سب کو جتنا عجیب لگتا، اس کے کہیں زیادہ برا بھی!

    خواہ مخواہ پھیلے ہوئے کمرے۔۔۔ کوئی بہت ادھر تو کوئی بہت ادھر!

    ہر کسی کو الگ الگ کمرہ مل گیا جس میں ہم سب بار بار گم ہو جاتے اور بار بار ایک دوسرے کو ڈھونڈنا پڑتا۔ ایسے میں ہم اپنے چھوٹے گھر کو بہت یاد کیا کرتے اور اکثر سب مل کر تانگے پر اس گھر کو صرف ایک نظر باہر سے دیکھنے ہی چلے جایا کرتے۔ جب کچھ وقت اس نئے بڑے گھر میں گزر گیا تو وہی ہوا جو اکثر انسانوں کی یاداشت کے حوالے سے مشہور ہے۔ ہمیں اس نئے بڑے گھر کی عادت ہونے لگی اور اس میں کئی فائدے نظر آنے لگے۔ میں شاید ماضی پرست تھا یا قناعت پسند کہ سوائے میرے آہستہ آہستہ سب اپنے چھوٹے گھر کو بھولتے چلے گئے۔ بڑے بھائی جب کچھ عرصے بعد ڈاکٹر بن کر شہر کے ایک نواحی قصبے میں تعینات ہو گئے تو سب سے واضح تبدیلیاں میں نے ان میں محسوس کیں۔ وہ شام ڈھلے واپس آتے اور اپنے الگ کمرے میں گم ہو جاتے۔ ان سے بات کرنا تو دور کی بات اب ان کی صورت بھی فلم کے کسی مہمان اداکار کی مانند لگتی۔ پرانے گھر میں وہ باقاعدگی کے ساتھ ہم سب کے ساتھ مل کر کیرم کھیلا کرتے تھے، ٹی وی پر ڈرامے دیکھا کرتے تھے اور خوب گپیں لگا کرتی تھیں مگر اب ان سے خال خال ہی ملاقات ہوتی۔ چھٹی والے دن بھی ان کا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں ہی گذرنے لگا۔ نجانے صرف مجھے کیوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کی باتوں میں اب خود غرضی جھلکنے لگی تھی۔ ان سے چھوٹی بہن لیکچرارشپ ملنے کے بعد یکایک اتنی مصروف ہو گئی کہ اسے بھی اب پوری کائنات میں اپنا کمرہ ہی واحد پناہ گاہ محسوس ہوتا تھا۔ چھوٹی تینوں بہنیں اور منجھلا بھائی بھی اپنے اپنے کمرے میں گھسے رہتے اور میرے والدین ان کو آوازیں دے دے کر تھک جاتے۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اصولاً میری یاداشت سب سے پہلے کمزور ہونا چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ آپس کی گفتگو اب قصۂ پارینہ بنتی چلی جا رہی تھی۔ ایسے میں میں اکثر گھر میں چھائی گہری خاموشی سے گھبراکر اپنی پرانی کالونی کی طرف نکل جاتا، اپنے پرانے دوستوں سے ملتا اور اپنے پرانے چھوٹے گھر کے سامنے اپنی بائیسکل پر کھڑا کتنی ہی دیر حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا رہتا!

    چھوٹے گھر سے بچھڑے ہوئے جب دو برس اور بیت گئے تو والدین نے بڑے بھائی کو شادی کے متعلق اشارے دینے شروع کیے۔ بڑے بھائی نے حامی تو بھری مگر جب بڑی بےرحمی کے ساتھ ساتھ والدین کے تجویز کنندہ رشتے ایک ایک کر کے ٹھکرانے شروع کر دئیے تو والدین کی تیوری پر پہلی بار میں نے کچھ سنجیدہ اور کچھ رنجیدہ بل دیکھے۔ بڑے بھائی کے خیال میں اب ان کا ایک سوشل سٹیٹس بن چکا تھا اور کوئی بھی رشتہ قبول کرتے ہوئے اس عنصر کا خیال رکھنا لڑکی کی موزونیت سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا تھا۔ ابھی ان کی شادی کا معاملہ کٹھائی میں پڑا ہوا تھا کہ منجھلے بھائی نے نوکری ملتے ہی اپنی شادی کا مقدمہ پیش کر دیا۔ اسے ایک لڑکی پسند آ گئی تھی اور انہیں بڑے بھائی اور اپنے سے بڑی دو جوان بہنوں سے زیادہ اپنی شادی کی فکر نئے جوتے کی طرح ستانے لگی تھی۔ اس معاملے پر ہمارے گھر میں سخت ناچاقی ہوئی۔ ابا اور امی نے منجھلے بھائی کو بہتیرا لتاڑا اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ منجھلے بھائی نے والدین کی پرواہ کیے بغیر خود ہی شادی کرلی اور گھر داماد بن کر اس نے بلا آخر اپنا گھر بسا لیا۔ اس پر ناراض ہوکر والدین نے منجھلے بھائی سے قطع تعلق کر لیا اور چھ ماہ بعدبڑے بھائی نے بھی اپنے لیے ایک ایسی شریک سفر کا انتخاب کر لیا جو خود بھی ایک ڈاکٹر تھی۔ وہ بیاہ کر گھر آئی تو اس نے بڑے بھائی کو لے کر اپنے بیڈ روم کی کنڈی اندر سے اتنی مضبوطی کے ساتھ بند کی کہ باوجود مسلسل دستکوں کے کسی سے کتنا ہی عرصہ کھل ہی نہ سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال کے تکلیف دہ گھریلو جھگڑوں کے بعد وہ اور بڑے بھائی ٹرانسفر کا بہانہ کر کے گھر سے ایسے نکلے کہ اس کے بعد کم از کم میں نے ان کی آنکھوں میں والدین اور بہن بھائیوں کے لیے کبھی محبت نہیں دیکھی۔ اگلے چند برسوں میں جب ایک ایک کر کے باقی چاروں بہنوں کی شادیاں ہو گئیں تو میں اور والدین اس بڑے گھر میں اکیلے رہ گئے۔۔۔ حالانکہ مجھے یقین ہے کہ ہم اس بڑے گھر میں ساتھ رہنے کے باوجود پہلے دن سے اکیلے تھے!

    ایک مضبوط گانٹھ میں بندھے کنبے کو چند برسوں میں اتنی آسانی کے ساتھ یوں ایک دوسرے سے الگ ہوتے اور بکھرتے دیکھنا میری زندگی کا ایسا تکلیف دہ تجربہ تھا جس نے میری شخصیت پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ میں ہر وقت یہی سوچتا کہ مسئلہ میرے والدین کی تربیت اور محبت میں تھا یا دونوں گھروں کے رقبے میں۔ اس بارے میں جتنا سوچتا نجانے کیوں ہمیشہ اسی نتیجے پر پہنچتا کہ اس نفاق کی اصل وجہ بڑا گھر تھا جس کے الگ کمروں نے ہمارے تعلق کو پہلے عدم گفتارکے ذریعے گھائل کیا، پھر ہم سب کے اردگرد لا تعلقی کی اونچی دیواریں تعمیر کیں اور آخر میں پرائیویسی اور سٹیٹس کی کوچیاں لے کر ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دُوری اور فاصلوں کی زرد قلعی پھیر ڈالی۔

    میرے والدین مجھے بھی ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگرمیں نے سول انجینئر بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ والدین اپنے بڑے دونوں بیٹے کے حسنِ سلوک سے اس قدر خوف زدہ تھے کہ یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں اختلاف کرنے پر ان کا چھوٹا بیٹا بھی انہیں چھوڑ کر نہ چلا جائے انہوں نے بلا تاخیر میری خواہش کے احترام کرتے ہوئے میرا داخلہ سول انجینئرنگ میں کروا دیا۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں گزرے اگلے پانچ برسوں نے والدین سے دور رہتے ہوئے مجھے ان کے کچھ مزید پاس کر دیا۔ ان پانچ برسوں میں میں کبھی اپنے چھوٹے گھر کے کرم اور بڑے گھر کے جرم کو فراموش نہیں کر سکا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسی تجربے نے مجھے اپنی زندگی کا نصب العین طے کرنے میں مدد دی۔ سول انجینئرنگ کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کرنے کے بعد جب مجھے سرکاری نوکری ملی تومیری پہلی تعیناتی دوسرے شہرمیں ہو گئی۔ مجھے الاٹ ہونے والے بے ہنگم بڑے گھر کو دیکھتے ہی میرا زخم پھر سے ہرا ہو گیا۔ میں کھانا کھاکر جب رات کو ٹہلنے باہر نکلتا تو مجھے اپنے جیسے تمام افسروں کے بڑے بڑے گھر اژدہے لگنے لگتے جو انسانوں، رشتوں اور ان کی خوشیوں کو زندہ نگل جاتے ہیں۔ چھٹی گذارنے جب بھی میں اپنے شہر جاتا تو مجھے اپنے بوڑھے والدین اپنے بڑے گھر کی دہلیز پر خالی نظریں جمائے تنہا بیٹھے ملتے۔ وہ آٹھ بچوں کے والدین ہوتے ہوئے بھی اکیلے تھے۔ بیٹیاں تو پھر بھی کبھی کبھار ان سے مل جایا کرتی تھیں مگر دونوں بڑے بیٹے اپنی اپنی دنیا میں مکمل طور پر گم ہو چکے تھے۔

    ’’اولاد اور ان کے بچوں کی کلکاریوں کے بغیر یہ بڑا گھر اب کچھ کچھ اولڈ ہوم جیسا لگنے لگا ہے!‘‘ جب ایک بارمیرے والد نے از راہ تفنن مجھے یہ کہا تو میرا دل گویا کٹ کر رہ گیا۔ اس روز تو میری آنکھیں چھلک ہی اٹھیں جب انہوں نے ایک واقعہ مجھے پڑھ کر سنایا کہ ایک شخص نے ٹیلی فون مکینک کو گھر بلایا اور اپنا ٹیلی فون چیک کرنے کو کہا۔ مکینک نے اچھی طرح ٹیلی فون چیک کرنے کے بعد انہیں بتایا کہ ان کا ٹیلی فون بالکل ٹھیک ہے تو اس شخص نے ڈبڈبائے لہجے میں پو چھا ’’اگر یہ فون بالکل ٹھیک ہے تو پھر اس پر میرے بچوں کا کبھی کوئی فون کیوں نہیں آتا؟‘‘ ان کا پیغام مجھ تک پہنچ گیا اور میں واپسی پر ایک گمنام احساسِ جرم کا شکار ہوکر کئی روز تک مسلسل مضطرب رہا۔ اگلی بار میں دونوں کو ضد کر کے اپنے ساتھ لے تو آیا مگر دو گھروں میں بٹے میرے والدین کا دھیان اس تمام عرصے بٹا ہی رہا۔ تین برس بڑے بڑے سرکاری گھر تعمیر کرتے ہوئے مجھے یہی محسوس ہوتا جیسے میں کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو رہا ہوں اور جب میرا صبر حد سے تجاوز کر گیا تو میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر ڈالا۔ ایسا فیصلہ جو یونیورسٹی کے دنوں سے میرا اولین نصب العین تھا اور جسے اب پورا کرنے کا وقت آن پہنچا تھا!

    اور پھر والدین، دوست و احباب کے لاکھ سمجھانے کے باوجود میں نے سرکاری نوکری چھوڑ دی!!!

    آج مجھے اس ملک کا نامور رئیل اسٹیٹ ٹائیکون تصور کیا جاتا ہے لیکن میں بخوبی جانتا ہوں کہ میں نے اپنے آپ کو کتنی محنت سے اور کتنی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد تعمیر کیا۔ برسوں پہلے جب میں نے اپنی ’’گھروندہ‘‘ نام کی ایک کنسٹرکشن کمپنی کھولی، اپنے جمع سرمائے کا تقریباً آدھا حصہ اپنے ادارے کے وژن اور مشن کی تشہیرپر صرف کیا اور اس کے بعد بہت عرصہ اپنے پہلے ٹھیکے کا انتظار بالکل یوں کیا جس طرح کسان فصل کی بوائی کے بعد پہلی باران رحمت کا انتظار کیا کرتا ہے۔ میرے ادارے کا نصب العین صرف چھوٹے گھروں کی تعمیر تھا جبکہ پوری دنیا کو بڑے گھر درکار تھے، اتنے بڑے بڑے گھر جہاں لوگ تمام عمر ایک دوسرے کو تلاش کرنے کے لیے لکن میٹی کا کھیل خوشی خوشی کھیل سکیں۔ اپنی کمپنی کی بقا کے لیے چند ابتدائی برس مجھے بڑے گھروں کی تعمیر کے کچھ کڑوے گھونٹ براشت کرنا پڑے لیکن پھر وہ دن آ ہی گیا جب مجھے عوامی گھر نامی سکیم کے لیے چھوٹے گھروں کی تعمیر کا پہلا بڑا سرکاری پراجیکٹ ملا۔ ان چھوٹے گھروں کی تعمیر کا معیار، ڈیزائن اور قسطوں پرقیمت ادائیگی اس وقت بالکل اچھوتا آئیڈیا تھا سو اسے متوسط طبقے کے لوگوں میں بےحد پذیرائی ملی۔ اس کے بعد قسمت نے میرا ساتھ دیا اور اگلے چند برس میں نے اوپر تلے چھوٹے گھروں کی تعمیر کے دو تین کامیاب پراجیکٹس کیے اور بحیثیت ڈیزائنر اور بلڈر دراصل مجھے چھوٹے گھروں کے ان پراجیکٹس نے ہی تعمیر کیا۔ اپنی زندگی کی سب سے فیصلہ کن اور عظیم کامیابی مجھے تب ملی جب صوبائی حکومت نے صوبے کے مختلف شہروں میں کم آمدنی والے لوگوں کے لیے چھوٹے گھروں کے ڈیزائن اور تعمیر کی سکیم ’’مسکن‘‘ کو متعارف کروایا اور اس کا ٹھیکہ میری کمپنی کو ملا۔ اس منصوبے کے ڈیزائن اور معیاری تعمیر نے مجھے اور ’’گھروندہ‘‘ کوپورے ملک میں شناخت عطا کی۔ اس کے بعد اگلے چودہ برس تک میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا!

    اور اب اس ٹی وی اینکر کا ایک سلگتا ہوا سوال اس شعلے کو پھر سے ہَوا دے رہا تھا!

    ملک کا مایہ ناز بلڈر اور رئیل اسٹیٹ ٹائی کُون جس نے اس ملک میں شہر کے شہر بسائے تھے مگر خود ایک دو کمروں کے چھوٹے اور سادہ سے گھر میں رہتا تھا۔ یقیناًاس کے پیچھے فلاسفی بھی تھی اور ماضی سے جڑی ایک تلخ کہانی بھی!

    ’’سر آپ اتنی شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔ آپ ہمیشہ چھوٹے گھرانوں کے لیے گھر بناتے ہیں مگر آپ کا اپنا کوئی گھرانہ نہیں ہے۔ آپ اتنے پراسرار اور تنہا کیوں ہیں۔ آپ نے دوسرے بڑے لوگوں کی طرح اس مقام تک پہنچنے کی کیا قیمت ادا کی ہے؟‘‘

    ’’محترمہ۔ میں ٹی وی پروگراموں، انٹرویوز اور میڈیا سے دور رہنے والا شخص مانا جاتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ محض یہ رہی ہے کہ مجھے اپنی تشہیر اور خود نمائی سے سخت نفرت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے کبھی کسی نے میری ذات کے اس مخفی پہلو کے متعلق کوئی ایسا سوال مجھ سے کبھی نہیں پوچھا۔۔۔ میں چاہوں تو آپ کے سوال کو ذاتی قرار دے کر با آسانی نظر انداز کر سکتا ہوں مگر زندگی میں کسی نے پہلی بار یہ سوال پوچھا ہے تو آج میں اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں چند باتیں ضرور کہنا چاہوں گا۔ میں نے اپنی زندگی میں سب بڑی باتیں اپنے اس چھوٹے سے گھر سے سیکھیں جہاں میں نے آنکھ کھولی۔ ہمارا بڑا کنبہ جب تک اس چھوٹے سے گھر میں تھا ہم ایک تھے۔ ہمارے خواب، ہماری خوشیاں، ہمارے مسئلے ایک تھے۔ ہم سب ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے،ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے، ایک جگہ بیٹھ کر ہنستے اور ایک جگہ بیٹھ کر رویا کرتے تھے۔ پھر وقت نے ہم سے وہ چھوٹا گھر چھین کر ہمیں بڑا گھر دیا۔ اس بڑے گھر نے ہم سب کو چھوٹا اور تنہا کر دیا۔ محبتیں گھٹنے لگیں، لہجوں میں خود غرضیاں جھلکنے لگیں، باتیں چھپائی جانے لگیں، ہنسی قہقہے گم ہونے لگے اور ایک ایک کر کے سب اپنی الگ دنیاؤں میں کھو گئے۔ اس بڑے گھر نے ہمیں ایسا جدا کیا کہ آج تک ہم دوبارہ نہیں مل سکے اور نہ ہی شاید کبھی مل سکیں۔ سول انجینئرنگ کرتے ہوئے میں نے تہیہ کیا تھا کہ میں ایک دن اپنی تعمیراتی کمپنی بناؤں گا، ساری زندگی چھوٹے گھر بناؤں گا اور ہمیشہ چھوٹے گھروں کو پروموٹ کروں گا۔ ایسے چھوٹے گھر جن کے سب دروازے ایک جگہ کھلتے ہوں۔ جہاں ایک ساتھ رہتے ہوئے لوگ کبھی ایک دوسرے سے دور نہ ہوں۔ ان کے درمیان گفتگو کبھی موقوف نہ ہو۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے جب لوگ ایک دوسرے سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ دراصل ایک دوسرے کے بیچ ایسی اونچی دیوار تعمیر کر رہے ہوتے ہیں جس کو وہ چاہیں بھی تو عبور نہیں کر سکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کو کبھی دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے اس نصب العین کے لیے اپنی سرکاری نوکری چھوڑکر اپنی کنسٹرکشن کمپنی کھولی۔ ابتدائی چند سالوں کے سوا زندگی میں اربوں روپے کے پروجیکٹ صرف اس لیے چھوڑ دئیے کیونکہ ان میں مجھے بڑے گھر تعمیر کرنا پڑتے اور یہ مجھے کسی صورت گوارا نہیں تھا کیونکہ مجھے بڑے گھروں سے اور ان کی تعمیر سے کمائے جانے والے پیسے دونوں سے نفرت ہے۔‘‘

    ’’لوگوں نے مجھے پاگل کہا۔ کئی لوگ میرا ساتھ چھوڑ گئے مگر میں نے اپنے نصب العین پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ زندگی میں جس لڑکی سے میں نے شدید محبت کی اس نے مجھے صرف اس بنا پر ٹھکرا دیا کہ وہ خود بڑے گھر میں پلی بڑھی تھی اور ساری زندگی میرے ساتھ چھوٹے گھر میں رہنے کے لیے آمادہ نہیں تھی۔ اس واقعے کے بعد مجھے بڑے گھروں کے ساتھ ساتھ شادی سے بھی نفرت ہو گئی۔ آج میرے پاس کتنا پیسہ ہے مجھے خود بھی اس کی خبر نہیں مگر میں آج بھی اپنے ضعیف والدین کے ساتھ دو کمروں کے ایک چھوٹے گھر میں رہتا ہوں۔ تعمیراتی زبان میں مکان کی بنیاد بھلے ہی اینٹوں، ریت، سرئیے اور سیمنٹ سے رکھی جاتی ہو مگر مضبوط انسانی تعلقات کی بنیاد ایک دوسرے پر توجہ، ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو برقرار رکھنے اور محبت و اخلاص جیسے اوصاف کی مدد سے رکھی جاتی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ ایک چھوٹا گھر ہی انسانوں کو مضبوط ڈور میں باندھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عمر کی اڑتالیس بہاریں دیکھنے کے باوجود اگرچہ میرا اپنا کوئی گھرانہ نہیں مگر میرے گھروں کا ڈیزائن مضبوط گھرانوں کی تعمیر کرتا ہے۔ میرے بنائے گھروں میں آج تک جتنے بھی گھرانے آباد ہوئے وہ سب میرے گھرانے ہیں۔ جب تک زندہ ہوں چھوٹے گھر تعمیر کرتا رہوں گا اور دنیا کو چھوٹے گھر کی افادیت یاد دلاتا رہوں گا۔ وقت ایک روز میرے نقطۂ نظر کوصحیح ثابت کرے گا کہ صرف چھوٹے گھر میں ہی یہ صلاحیت ہے کہ وہ دلوں میں وسعتیں، محبتیں پیدا کرتا اورانہیں قائم رکھتا ہے اور میرا ایمان ہے کہ دل میں جتنی محبت اور وسعت ہو، گھر کا رقبہ اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے!!!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے