Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

الزام

ذاکرہ شبنم

الزام

ذاکرہ شبنم

MORE BYذاکرہ شبنم

    سیما ان آٹھ دنوں میں مجھ سے کافی گھل مل گئی تھی، اس بار چھٹی میں مامی کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے میں شہر گلستان چلی آئی۔ روزانہ شام کو کسی نہ کسی جگہ کی سیر ہو جاتی، دن میں اکثر سیما کی باتوں سے ہی میرا دل بہلتا یہ لڑکی پہلی ہی نظرمیں مجھے بڑی پیاری لگی اس کی عمر تقریباً ۳۱ سال کی ہوگی۔ بڑی بڑی آنکھوں والی نازک سی خوبصورت سیما صبح آ ٹھ بجے چلی آتی، آتے ہی جھاڑو دینا، سارے گھر کی صفائی کرنا، برتن دھونا اور بازار سے سودا لانا، یہ اس کا روز کا معمول تھا، وہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنا کام نپٹا دیا کرتی جیسے اسے اس کام میں کافی تجربہ ہو۔

    پہلی بار مجھے دیکھا تو مامی سے پوچھنے لگی کہ آپ کے گھر کون مہمان آئے ہیں، پھر مجھے دیدی دیدی کہتی ہوئی بے تکلف ہو گئی اس نے مجھے بتا یا کہ اس کے گھر میں صرف تین افراد ہیں، ایک ماں، ایک چھوٹا بھائی اور وہ خود، اس کا باپ تو اس دنیا سے چل بسا تھا، میں نے اس سے پو چھا سیما کیا تمہیں سب بچوں کی طرح اسکول جانے اور پڑھنے کی خواہش نہیں ہوتی، وہ ہنستی ہوئی کہنے لگی (ہمیشہ مسکرا ہٹ اس کے لبوں پر پھیلی رہتی) دیدی شوق تو پڑھنے کا ہمیں ہے مگر ہم جیسوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ میں اور میری ماں گھر گھر برتن وغیرہ دھوکر کچھ روپیے کماتے ہیں جو پیٹ بھرنے میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس سماج میں ہم غریبوں کا کوئی مقام نہیں، ہمیں اپنے ارمانوں کو دلوں میں ہی دفن کر لینا پڑتا ہے۔ وہ کہے جا رہی تھی میں اس کے چہرے کو تکے جا رہی تھی۔ یکلخت وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں گھماکر بولی، دیدی میرا چھوٹا بھائی ہے نا ہم محنت کرکے اسے ضرور پڑھائیں گے اور بڑا آدمی بنائیں گے۔۔۔ میں سو چنے لگی نجانے ان معصوم آنکھوں میں کتنی تمناؤں نے دم توڑا ہے پتہ نہیں اور اس معصوم دل کے کتنے ارمانوں کا خون ہوگا۔۔۔ مجھے آئے ہو ئے پندرہ دن ہو گئے میں اپنے شہر جانے کی تیاری کر نے لگی۔ دروازے پر دستک ہوئی جیسے ہی دروازہ کھولی سیما کو پایا۔ السلام و علیکم دیدی، وعلیکم السلام سیما تم تو بڑی وقت کی بڑی پابند ہو، صبح ٹھیک وقت پر آ جاتی ہو، اچھا میرا ایک کام کر دو مجھے لفافہ چاہیے لاکر دے دو کیا تم لا سکوگی۔۔۔؟ ہاں ہاں کیوں نہیں دیدی میں ابھی لائے دیتی ہوں۔ کچھ ہی لمحوں میں اس نے لفافہ لاکر مجھے دے دیا۔ شکریہ تم بہت ہوشیار ہو سیما، ہم جیسے غریبوں کا شکریہ نہیں ادا کر تے دیدی، ارے واہ تم نے میرا کام کیا میں نے تمہیں شکریہ کہا اس میں کیا برائی ہے۔ وہ سنجیدگی سے کہنے لگی۔۔۔ دیدی ہر کو ئی ایسا نہیں سو چتا ہم بہت حقیر سمجھے جاتے ہیں، اس سماج میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں نے اس کی پشت پر ہاتھ مارتے ہو ئے کہا۔ تم دیکھنے میں تو بہت چھوٹی ہو لیکن ہر بات پر کافی سنجیدگی سے سوچتی ہو، تمہیں ایسا نہیں سو چنا چاہیے، چلو اپنا کام کرو، مجھے بھی اپنے بھیا کو خط لکھنا ہے میں کل یہاں سے جا رہی ہوں۔

    اس نے میرے ہاتھوں کو تھا متے ہو ئے کہا، سچ مچ آپ جا رہی ہیں اور تھوڑے دن رک جایئے نا دیدی، آپ کے آنے سے گھر میں بہار آ گئی ہے، میں اس کی باتوں پر مسکرا ئے بغیر نہ رہ سکی۔ نہیں سیما میری چھٹیاں ختم ہو چکی ہیں۔ میں پھر کبھی آؤں گی، اگلی بار آؤں گی تو تمہیں پڑھنا بھی سکھاؤں گی، وہ خوش ہو تے ہو ئے بولی پھر آپ جلدی آئیےگا۔۔۔ اس کے بات کر نے کا انداز بہت پیارا تھا۔ اس کی مسکرا ہٹ میں جتنی مٹھاس تھی اس سے کہیں زیادہ زبان سے نکلے ہو ئے الفاظ میں تلخ سچائی پنہاں تھی۔ وہ تعلیم سے انجان تھی لیکن بچپن سے کئی اچھے اچھے گھروں میں کام کرتی رہی ہے۔

    یہی وجہ ہو سکتی ہے اس کے اتنے اچھے انداز گفتگو کی، انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔۔۔ سیما صحن میں برتن دھو رہی تھی پاس ہی مامی بیٹھی کپڑے دھو رہی تھیں کپڑے مامی خود دھو لیا کرتیں کیونکہ سیما کو یہ کام نہیں دیا گیا تھا۔ اس جیسی چھوٹی لڑکی کے لیے یہ کام مشکل ترین تھا ظاہر سی بات ہے۔۔۔ میں کمرے میں خط لکھ رہی تھی، اتنے میں مامی کی غصہ سے بھری آواز کانوں میں پڑی، میں نے جاکر دیکھا وہ سیما پر برس رہی تھیں۔ میں نے کچھ دیر پہلے یہاں پر انگو ٹھی نکال کر رکھی تھی ضرور تم نے ہی اٹھائی ہوگی۔ سیما سہمی ہو ئی سی کہہ رہی تھی آپا میں نے تو انگوٹھی کو دیکھا تک نہیں۔۔۔ میں نے مامی سے پو چھا مامی آپ کی انگوٹھی بات کیا ہے؟ سیما اٹھ کر میرے قریب آ گئی اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈب ڈبا رہی تھیں، دیدی میں جب سے آئی ہوں اپنے کام میں مشغول ہوں، خدا کی قسم میں نے انگوٹھی کو دیکھا ہی نہیں مامی کہنے لگیں دیکھو سیما تم بچی ہو تمہارا دل مچلا ہوگا تم نہیں جانتی چوری کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ میں نے یہیں زمین پر کپڑے دھو نے کی خاطر انگوٹھی نکال کر رکھی تھی۔ یہاں تمہارے علا وہ اور کوئی نہیں آیا۔۔۔ میں نے مداخلت کرنا چاہا مامی یہ تو کہہ رہی ہے کہ اس نے دیکھا نہیں۔۔۔ لیکن وہ میری بات کہاں سننے والی تھیں ان کا سارا گمان تو سیما پر ہی ٹکا ہو ا تھا، انہوں نے مجھے بھی یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ تم نہیں جانتی ایسے لوگوں کی یہی فطرت ہے۔ کتنا بھی بڑا جرم ان سے سر زد کیوں نہ ہو جائے، ان کی زبان یہی کہتی ہے، ہم نے دیکھا ہی نہیں، کیا پھر انگوٹھی زمین کھا گئی۔۔۔

    سیما ان باتوں کو برداشت نہیں کر سکی وہ رو تی ہوئی چلی گئی۔۔۔ حقیقت سے میں بھی ناواقف تھی مگر بڑا ترس آ رہا تھا اس پر مجھے، مامی غصے میں بکے جا رہی تھیں، میرا ذہن منتشر سا ہو گیا۔ میں باورچی خانے میں پانی پینے کی غرض سے گئی جیسے ہی سلف پر سے گلاس اٹھانا چاہا وہیں پر انگوٹھی کو پایا۔ جلدی سے انگوٹھی کو اٹھائے مامی کے پاس چلی آئی، مامی یہ دیکھئے آپ کی انگوٹھی تو مجھے سلف پر ملی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میں لیتے ہو ئے کہا میں تو بھول ہی گئی۔ درمیا ن میں اٹھ کر جب باورچی خانے گئی تبھی لے جاکر رکھ دی تھی۔۔۔ دیکھا مامی بیکار ہی اس معصوم پر الزام لگایا۔ اس سے پہلے آپ کو ایک بار اچھی طرح سونچ لینا چاہیے تھا۔ ہم لوگ کچھ سو چے سمجھے بغیر ان غریبوں پر الزام لگا دیتے ہیں، یہ بھی تو ہماری طرح انسان ہیں ہمارا اس طرح کا برتاؤ ہی انہیں بری راہ پر لے جاتا ہے۔ وہ مفلس ہیں مگر ان کے سینے میں بھی ایک دھڑکتا ہو ا دل ہے جس میں جذبات ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہر گز ایسا سلوک نہیں کر نا چاہیے۔۔۔ مامی کف افسوس مل رہی تھیں، ندامت سے انہوں نے کہا تم ٹھیک کہتی ہو۔ مجھ سے زیادتی ہوئی ہے کم سے کم ایک بار اچھی طرح دیکھ لیتی، سوچ لیتی، بیچاری سیما اسے میں کل مناکر بلا لوں گی۔۔۔ مامی کی باتوں سے مجھے تھوڑی بہت تسلی ہوئی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہے اور وہ سیما کو سمجھا کر بلا لیں گی۔ لیکن میں سونچنے لگی وہ معصوم لڑکی پہلے ہی سے احساس کمتری کا شکار ہے۔ کیا سیما کے معصوم سے دل پر لگی یہ الزام کی چوٹ وقت کے ساتھ بھر سکےگی۔۔۔؟ دوسرے دن علی الصبح میں وہاں سے نکل پڑی۔ ذہن پر ایک بوجھ سا مسلط تھا۔ میری نگاہوں کے سامنے سیما کی بے بسی آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں گھوم رہی تھیں، کانوں میں اس کی تلخ آواز گونج رہی تھی۔ ”دیدی ہم بہت حقیر سمجھے جاتے ہیں، اس سماج میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے۔“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے