پھولوں سے لدی بگن وِلا کی بیلوں نے دیوار میں نسب نیم پلیٹ کو تقریباً ڈھک لیا تھا۔ میں نے ذرا جھک کر نیم پلیٹ پڑھنے کی کوشش کی۔ کرنل قیصر بیگ C-11۔ پھر میں نے اپنی فہرست میں درج نام کی تصدیق کرتے ہوئے کال بیل پر انگلی رکھ دی اور کچھ فاصلے سے کھڑے ہوکر آنے والے کا انتظار کرنے لگی۔ خود بہ خود میری نظریں کوٹھی کی باہری صورت حال کا جائزہ لینے لگیں۔ کوٹھی پرانے طرز کی تھی۔ خاص دروازے کے دونوں طرف نقشین قمقمے نصب تھے۔ باونڈری کی دیوار پہ یکساں فاصلے سے تقریباً تین فٹ اونچی محرابیں بنی تھیں اور ان کے سِرے پر قندیلیں نصب تھیں۔ میں سوچنے لگی سب ایک ساتھ جلتی ہوں گی تو کتنا چراغاں ہوتا ہوگا۔ میں اس کوٹھی کے مکینوں کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ گیٹ کے درمیان لگی کھڑکی کھول کر ایک دُبلا پتلا درمیانے قد کا شخص جھک کر باہر نکلا اور سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھنے لگا۔ شخص کی عمر تقریباً پچاس پچپن رہی ہوگی۔ بالوں کی سفیدی سے اندازہ ہوتا تھا کہ وقت سے پہلے ہی وہ اپنی منزل کو پہنچ چکا ہے۔ اس کی سوالیہ نظریں دیکھ کر میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔
کرنل صاحب سے ملنا ہے۔ یہ سوچ کر کہ یہی کرنل صاحب نہ ہوں میں نے انتہائی شائستگی سے جملہ ادا کیا۔ میں مردم شماری کے لیے آئی ہوں۔‘‘
کرنل صاحب موجود نہیں ہیں۔ آپ کو کچھ دیر انتظار کرنا پڑےگا۔
کیا بہت دیر لگےگی؟
نہیں نہیں۔ وہ بس آتے ہی ہوں گے۔
اس شخص نے پورا گیٹ کھولتے ہوئے مجھے راستہ دیا اور میں اندر داخل ہو گئی۔ چوڑی راہ داری کے دونوں اطراف بہت خوبصورت لان تھا۔ گرمی کی شدت کو جھیلنے والے تمام موسمی خوشنما پھولوں سے کیاریاں بھری ہوئی تھیں۔ گلاب کے بڑے بڑے پھولوں سے کئی شاخیں جھکی جارہی تھیں۔ پودوں اور پھولوں کی کئی قسمیں دیکھ کر مکینوں کے ذوق کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ باٹل پام اور اشوکا کے اونچے اونچے پیٹر عمر رفتہ کا بیان کر رہے تھے۔ ایک طرف بانس کی کھپچیوں کے جال پر مالتی کی بیلوں کو چڑھا کر سایہ بنایا گیا تھا۔ سائے کے نیچے کین کی ایک میز کے اردگرد کئی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔
بیٹھ جائیے۔ ان صاحب نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
جی میں ٹھیک ہوں۔
اب تک کے بیس بائیس گھروں کے سینسس کے بعد یہ پہلا گھر ایسا ملا تھا جہاں کوئی اتنی شائستہ گفتگو کررہا تھا۔ حالانکہ یہ علاقہ پڑھے لکھے مہذب لوگوں کا ہی تھا۔ اندرونی دروازے کے باہر شیڈ کے نیچے ایک سفید گاڑی کھڑی تھی۔ کوٹھی کے احاطے کی پوری دیواریں زرد گلابی اور سفید بگن وِلا سے لدی تھیں۔ دروازہ کھولنے والا شخص کٹنگ مشین کو بڑی پھرتی سے گھاس پر چلا رہا تھا۔ مخملی سبزہ بچھتا جارہا تھا اور ایک طرف کٹی ہوئی گھاس کا ڈھیر لگ گیا تھا۔
کیا کوئی اور نہیں ہے گھر میں؟؟ بھیا! کرنل صاحب کی بیگم بھی تو ہوں گی انہیں سے ملوا دیجئے۔ لیکن میری آواز گھاس کڑ میں کہیں گم ہو گئی۔ میں پھر پیڑپودوں میں دلچسپی لیتے ہوئے ادھر ادھر ٹہلنے لگی... ارے ..... واہ! اچانک میری نظر دیوار میں لگے ایک چال پر ٹِک گئیں۔ جو دیوار کے سہارے ٹکا تھا یا پھر نصب تھا۔ قریب جاکر میں نے دیکھا رنگ برنگی دیسی بدیسی کئی قسم کی چڑیاں اور طوطے اِدھر سے اُدھر اس سنہرے جال میں پھدک رہے تھے۔ کئی مختلف سائز کی ہانڈیوں میں ان کے گھونسلے بھی بنے تھے۔ نہانے کے لیے پانی سے بھری ناند بھی رکھی تھی۔ جال کچھ اس طرح سے فٹ کیا گیا تھا یا ہو گیا تھا کہ پیڑوں کی کئی شاخیں جال کے اندر سے ہوکر گزر رہی تھیں۔ جال کی لمبائی چوڑائی تقریباً چار فٹ بائی چھ فٹ رہی ہوگی۔ اتنے لمبے چوڑے جال میں اپنے عیش و آرام کی مکمل رہائشی سہولیات سے شاید ان پرندوں کو اپنے قید ہونے کا احساس مٹ چکا تھا۔ وہ اپنی دنیا میں مست تھے۔ میں بڑی دلچسپی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ کرنل صاحب کے انتظار میں باربار میری نگاہیں خاص گیٹ کی جانب بھی اٹھ جاتیں۔ غالباً انتظار ختم ہوا۔ خاص دروازہ کھلا اور ایک بہت ہی پروقار وجیہہ شخص سفید کرتے پاجامے پر کالی پشاوری جوتیاں، بالوں کی سفیدی نے اس شخص کے چہرے میں بلا کی جاذبیت اور کشش پیدا کر دی تھی۔ قریب آتے ہوئے انہوں نے اجنبی تیز لیکن ملائمت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
سر کو خفیف سی جنبش دے کر میں نے سلام عرض کیا۔ وہ چند سکنڈ میرے قریب رکے تو میں نے اپنا مقصد بیان کیا جناب، میں سینسز کے لیے آئی ہوں۔
اچھا۔ اچھا... ارے، خان بہادر... بٹھایا نہیں محترمہ کو۔ وہ ذرا اونچی آواز میں بولے۔
آئیے تشریف لائیے باہر سخت گرمی ہے۔
جی۔ لیکن میں اچھا محسوس کر رہی تھی۔ اور پھر میں... ان کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہو گئی۔
صوفے کے نرم نرم گدے پر ایئرکنڈشنڈ ڈرائنگ روم میں مجھے بٹھا کر وہ خود باہر چلے گئے۔ میں خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی۔ تھکان سے بوجھل پلکیں ٹھنڈک پاکر بس مندنا ہی چاہتی تھیں کہ ڈرائنگ رو م کی سجاوٹ اور ساز و سامان خاص کر لکڑی کی ایک دیوار پر چھوٹے بڑے فریم میں جڑی تصویروں نے اپنی طرف متوجہ کر لیا اور میں کھڑے ہوکر ان تصاویر کو دیکھنے لگی۔ یقیناً یہ کرنل صاحب کی خاندانی تصویریں ہوں گی۔ اتنے میں کرنل صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک چھوٹی ٹرے میں دو گلاس سرخ مشروب لیے۔ یہ لیجیے تھوڑا جھکتے ہوئے انہوں نے ٹرے میری جانب بڑھائی تو میں نے فوراً ہی گلاس اٹھا لیا۔ شکریہ...
مجھے تصویروں کی طرف متوجہ پاکر وہ خود بھی میرے قریب آ گئے اور ان تصویروں کے بارے میں بتانے لگے۔ یہ میرے والد ہیں۔ فوج میں کیپٹن تھے۔ یہ میرے تایا ہیں یہ بھی لیفٹیننٹ تھے۔ انہوں نے بڑے ہی فخر سے دونوں کا تعارف دیا اور شاید یادوں میں کھو گئے.....
اس وردی کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ ماشاء اللہ بہت بارعب خاندان ہے آپ کا۔ کیا کوئی آپ کی اولادوں میں سے بھی؟؟
نہیں؛ بس میرے بعد..... یہ سلسلہ ختم۔
یہ شاید آپ کی تصویر ہے؟ میں نے ایک تصویر پر انگلی جماتے ہوئے کہا۔
جی ہاں! چالیس برس پرانی۔
عمر کے ساتھ ساتھ ماشاء اللہ آپ میں کافی گریس آ گیا ہے۔
میرے اس جملے پر وہ خفیف سا مسکرائے اور خوش ہوکر اپنی بہادری کے کئی قصے بھی سنا ڈالے۔ جنہیں میں بھی بڑی دلچسپی سے سنتی رہی۔
زندگی کے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہوں گے آپ نے۔
بہت..... وہ سنانے کے لیے بےچین تھے لیکن مجھے ابھی کئی گھروں میں اور سینسز کرنا تھا۔
یہ شاید آپ کی فیملی کے دوسرے ممبران ہیں۔
ہاں۔ یہ میرا بڑا بیٹا ہے۔ یہ چھوٹا، یہ امریکہ میں سٹل ہے۔ میڈیسن کمپنی میں ملازم ہے۔ بڑا بیٹا ہالینڈ میں ہے۔ بیٹی آسٹریلیا میں ہے۔ یہ ان کے بچوں کی تصویریں ہیں۔ اب تو یہ بھی بڑے ہو گئے ہوں گے۔
ہو گئے ہوں گے۔ مطلب۔ آپ نے انہیں کب سے نہیں دیکھا۔
کئی برس ہو گئے۔ سب کی اپنی اپنی مصروفیات ہیں۔ وقت بدلتا جا رہا ہے۔ اب معمولات پہلے جیسے کہاں ہیں۔ سب اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں اور یہ ٹھیک بھی ہے۔
اور یہ..... یہ کس کی تصویر ہے؟
یہ ہم اور ہماری بیگم ہیں۔
بہت خوب...
کہاں ہیں وہ؟
بیمار ہیں کئی برس سے۔
اوہ.....
اپنا خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے میں صوفے پر بیٹھنے لگی تو انہوں نے کچھ اور چیزیں بھی دکھائیں۔ نایاب کتابیں، تصاویر اور دوسری چیزیں جیسے آرام کرسی، چھت میں لگا فانوس، قالین، ٹیبل لیمپ، رائفلیں انعامات و اعزازات، ایک لکڑی کا اور سینگ کا بینت یعنی عصا بھی، ہر چیز چالیس پچاس برس پرانی اور ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی یاد وابستہ۔ اپنے خاندانی انمول ذخیرے کو تاریخی بنا دیا تھا انہوں نے ۔ میں سوچنے لگی یہ کمرہ تو ایک بہت بڑا عجائب گھر ہے۔ اور۔ اور کرنل صاحب اس عجائب گھر کی ایک بےچین آتما.....
صوفے پر بیٹھتے ہوئے میں نے میز پر کاغذات پھیلا دئیے اور معلومات درج کرنے لگی۔ اس گھر میں صرف چار افراد تھے۔ ستر سالہ کرنل صاحب اور ان کی بیگم، خان بہادر اور ان کی اہلیہ، خان بہادر کرنل صاحب کے فوج کے زمانے کے خانصامہ کے بیٹے تھے جو کئی وجوہات کی بنا پر کرنل صاحب کی تحویل میں آ گئے تھے اور تقریباً بیس برس سے گھر کے فرد کی طرح رہتے ہیں۔ ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ کرنل صاحب نے بتایا کہ ان کی بیگم فردوس فاطمہ پر پانچ برس پہلے فالج کا شدید حملہ ہوا تھا تب سے وہ بستر کی ہی ہوکر رہ گئی ہیں۔ خان بہادر کی اہلیہ ذرینہ ہی اب ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
اوہ..... میں نے افسوس ظاہر کیا۔
کرنل صاحب کی پہلودار شخصیت سے میں بہت متاثر ہوئی۔ میرا دل چاہتا تھا ان سے مزید گفتگو کروں لیکن وقت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ کاغذات سمیٹتے ہوئے میں نے اجازت چاہی تو وہ بھی میرے ساتھ ساتھ کمرے سے باہر نکل آئے۔
خان بہادر پائپ سے پودوں کو پانی سینچ رہے تھے۔
کرنل صاحب بہت اچھا لگا آپ سے ملاقات کرکے۔ واقعی طبیعت خوش ہو گئی۔ آپ کا گھر بھی بہت اچھا ہے بہت خوبصورتی سے سجایا ہے آپ نے۔ بہت بہت خوبصورت ہے آپ کا گھر۔ آپ تشریف رکھیں میں چلتی ہوں۔ یکایک ان کے جملے نے میرے مڑتے قدم جامد کر دئیے۔
گھر.....؟؟ گھر کہاں.....؟ یہ تو بس ایک عمارت ہے۔
کرنل صاحب کے چہرے پر ابھرتی کرب کی لکیروں کی تاب نہ لاتے ہوئے میرے لبوں سے بس اتنا نکلا... خدا حافظ اور پھر میں واپس مڑ گئی۔ اچانک گلاب کی کیاری پر نظر پڑی، پانی کی زیادتی سے بہت سی گلاب کی پنکھڑیاں جھڑکر گر گئی تھیں اور ان پر گیلی مٹی چڑھ چکی تھی...
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.