Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انڈونیشی سگریٹ

رفاقت حیات

انڈونیشی سگریٹ

رفاقت حیات

MORE BYرفاقت حیات

    غلام رسول دن بھر کی آمدنی، گندے اور کسیلے نوٹ گن رہا تھا۔ اس کی بس جب آخری اسٹاپ پر کھڑی ہو گئی اور بچے کھچے لوگ اس میں سے اتر گئے۔ ڈرائیور نے چابی نکالی۔ نشست سے اٹھا اور کھڑکی ے باہر کود گیا۔ غلام رسول نے اسے ایک نظر دیکھا تو، مگر اس کا دھیان نوٹوں کی گڈی پر لگا رہا۔ تھوڑی دیر بعد یہ رقم تین حصوں میں تقسیم نہ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ سب سے کم روپے اس کے حصے میں آئیں گے۔

    مختلف روٹوں کی بسوں پر کنڈکٹری کرتے غلام رسول کو پچیس برس بیت گئے تھے۔ وہ گالیوں، نفرت آمیز جملوں، دھکوں اور غصیلی نظروں سے اٹی زندگی سے مطمئن تھا۔ اسے پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ حجامت کروائے کتنے دن گزر گئے۔ بال جمع ہوئے تھے یا گردوغبار اور ڈیزل سے چپ چپ ہو گئے تھے۔ چہرے پر سفید شیُو اگ آئی تھی یا گردن پر میل کی موٹی تہہ جم گئی تھی۔ کبھی کبھار چھٹی کے دن وہ صابن کی پوری ٹکیا سے نہا دھوکر غسل خانے سے باہر نکلتا تو اس کے گھر والے بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ وہ اپنے ہم پیشہ لوگوں میں طبیعت کی سنجیدگی اور اپنی ایمانداری کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس نے کبھی اپنی حیثیت کو سمجھنے یا اس کے بارے میں سوچنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وقت نے اسے سکھایا تھا کہ بغیر سوچے سمجھے زندگی بسر کرنے میں بڑی عافیت تھی۔

    نوٹوں کی گنتی ختم کر کے اس نے بس کی نشتوں پر نگاہ ڈالی۔ سب سے پچھلی سیٹ پر ایک بوڑھا شخص سویا ہوا تھا۔ اس کی گردن داہنی طرف ڈھلک گئی تھی اور اس کے سفید بال پیشانی پر بکھرے تھے۔ غلام رسول جلدی میں اس کے قریب پہنچا۔ اس کی سانسوں کی سرسراہٹ سن کر اسے کچھ اطمینان ہوا۔ وہ چند لمحے نیند میں گم آدمی کے پاس کھڑا سوچتا رہا کہ آواز دے کر اسے جگائے یا ہاتھوں سے جھنجھوڑ کر۔

    اس نے پہلے دھیرے سے، پھر بلند لہجے میں اسے مخاطب کر کے نیند سے جگانے کی کوشش کی۔

    بوڑھے آدمی نے مزے سے آنکھیں کھولیں، جیسے گھر میں صوفے پر بیٹھے اسے اونگھ آ گئَی ہو۔ اگلے ہی لمحے اس نے پہلے سیٹ پر ہاتھ مارا۔ پھر نیچے کچھ ٹٹولنے لگا۔

    اس کا بریف کیس بائیں طرف لڑھک گیا تھا۔

    غلام رسول نے جھک کر بریف کیس باہر نکالا اور اسے بوڑھے کے حوالے کر دیا۔

    بوڑھے مسافر نے ممنون نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بریف کیس کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔

    ’’کوئی لے جاتا، تو چوری کا الزام میرے سر آتا۔ اسی لیے تولکھ کر لگوایا ہے۔ اپنے سامان کی حفاطت خود کریں۔ وہ دیکھو، غور سے پڑھو۔‘‘ اس نے انگلی سے لکھی ہوئی عبارت کی طرف اشارہ کیا۔

    وہ کنڈکٹر کی خفگی دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور چہرے پر تھکن کے آثار تھے۔

    ’’اب کیا دیکھتا ہے‘‘۔ جاؤ نا غلام رسول جھلا کر بولا۔

    ’’میں دیکھتا ہوں کہ تم کتنے اچھے ہو۔ یہ بتاؤ۔ سگریٹ پیتے ہو۔‘‘ اس نے ملائم لہجے میں کہا۔ غلام رسول نے زچ ہو کر مختصر جواب دیا ’’ہاں۔‘‘

    بوڑھے آدمی نے بریف کیس کھولا اور ایک سگریٹ کا پیکٹ نکال کر اسے دیا۔

    اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ لیے۔

    رکھ لو اسے۔ میری طرف سے تحفہ سمجھ کر۔ یہ انڈونیشی سگریٹ ہے۔ خوشبودار اور میٹھا۔ تم نے کبھی اتنا مزیدار سگریٹ نہیں پیا ہوگا۔ وہ منحنی آواز میں آہستگی سے کہتا رہا۔

    غلام رسول نے مسکراتے ہوئے پیکٹ لے لیا۔

    اس نے بوڑھے آدمی کو اترنے میں مدد دی۔ کچھ دیر تک وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ بوڑھا شخص کمر جھکائے آہستگی سے چلتا اندھیرے میں گم ہو گیا۔

    بس کنڈکٹر نے خوشگوار ٹھنڈا سانس بھرا، پہلی مرتبہ سگریٹ کی دیدہ زیب ڈبیا کو غور سے دیکھا اور بس کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے لگا۔

    یہ بوڑھا آدمی گورا قبرستان اور نرسری کے درمیان بس پر سوار ہوا تھا۔ غلام رسول نے اس کے رعشہ زدہ بازوؤں سے پکڑ کر اسے بس پر چڑھایا تھا۔ اس نے ایک نوجوان کو نشست سے زبردستی اٹھا کر اسے بیٹھنے کے لیے جگہ دلوائی تھی۔

    اس نے ڈبیا کو جیب میں رکھا اور ہوٹل کی طرف چل دیا۔

    اسے بوڑھے آدمی کا تعریفی جملہ یاد آیا۔ وہ ہنسنے لگا۔ اس نے بغلی جیب میں نویں نکور پیکٹ کر چھو کر محسوس کیا۔

    بس کے ڈرائیور اور مالک سے تمام دن کی کمائی کا حساب کر کے اس نے اپنی دہاڑی وصول کی۔

    کل غلام رسول کی چھٹی تھی۔ اس لیے وہ رات کا کھانا اپنی گھر والی کے ساتھ کھانا چاہتا تھا۔ لیکن بس کے مالک نے اس کی ایمانداری سے ہونے والی زائد آمدنی کی خوشی میں اسے زبردستی روک لیا۔

    آدھی رات ڈھلنے کو تھی۔ غلام رسول یہ سوچ کر کڑھائی مرغ اڑانے لگا کہ گھر میں اس سے اچھا کھانا ملنا محال تھا۔ یوں بھی اس کا جسم تھکاوٹ سے چُور تھا۔ اس کے خیال میں یہ غذ ا اس کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے بہترین تھی۔

    یہ بات جزوی طور پر تو ٹھیک تھی۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنی پیاری بیوی سے روٹیاں پکوانا نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ شام کے وقت چولہے کی لکڑیاں جلاتے ہوئے اس کی خوبصورت آنکھوں کا بہت سا پانی بہہ گیا ہو گا۔وہ دن بھر کی گھریلو مشقت سے تھک چکی ہوگی۔

    بیوی کے بارے میں سوچتے سوچتے اسے جیب میں رکھے پیکٹ کا خیال آ گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی سانسوں میں خوشبو رچ گئی تھی اور اس کے ہونٹ بہت میٹھے ہو گئے تھے۔

    تندور کی گرم روٹیاں اور کڑھائی مرغ اڑانے کے بعد غلام رسول نے ان دونوں سے اجازت لی۔

    اس کا گھر تھوڑے فاصلے پر ملیر ندی کے کنارے واقع تھا۔

    وہ سنسان سڑک پر روشنی اور اندھیرے کے دائروں میں چلتا رہا۔ دونوں جانب چھوٹے بڑے مکان تھے۔ بیشتر گلیاں چپ اور تاریک تھیں۔ ہوا بند تھی اور آسمان پر سفید بادل ٹھہرے ہوئے تھے۔

    ایک ٹیکسی گرداڑاتی اس کے قریب سے گزری۔

    وہ بجلی کے کھمبے کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ کھمبے کے اطراف دو دھیا روشنی کاہالہ تھا۔

    اس نے مڑ کر دیکھا کہ ڈرائیور یا مالک میں سے کوئی پیچھے تو نہیں آ رہا۔ لیکن دور تک روشنی اور اندھیرے کے دائروں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

    اس نے فوراً جیب سے انڈونیشی سگریٹ نکال لیا۔ وہ کچھ دیر اس کے سرخ اور سنہری رنگوں کو دیکھتا رہا۔ پیکٹ بہت چھوٹا سا تھا اور اس پر ایک چوکھٹا بنا ہوا تھا۔ جس میں پہاڑ، مکان اور سڑک دکھائے گئے تھے۔ اس پر انگریزی سے ملتی جلتی زبان میں کچھ لفظ لکھے ہوئے تھے۔

    اس نے بلند لہجے میں اٹکتے، ہچکچاتے ہوئے سگریٹ کا نام پڑھا’’ گڈانگ گرام‘‘۔

    اپنی کامیابی پر مسکراتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔ ’’فلٹر سگریٹ۔‘‘

    ڈبیا کے اوپر لے حصے پر ایک ٹکٹ لگا ہوا تھا۔ وہ پڑھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی قیمت تین ہزار روپے تھی۔ اس نے خوشی سے پلاسٹک چاک کی اور ایک سگریٹ نکال کر سلگایا۔ پہلا کش لیتے ہی اس کے گلے میں ٹھنڈک اور ناک میں خوشبو بھر گئی۔ اس نے نچلے ہونٹ پر زبان پھیر کر مٹھاس کو محسوس کیا۔

    غلام رسول کو سگریٹ پیتے بائیس برس ہو گئے تھے۔ اس نے اب تک جتنے بھی سگریٹ پیئے تھے۔ وہ سب کڑوے اور کسیلے تھے۔ ان سے ہونٹ جلتے تھے اور حلق تلخی سے بھر جاتا تھا۔

    اس نے ادھر ادھر دیکھا اور چلنے لگا۔

    تھوڑا فاصلہ طے کر کے وہ ایک لمبی تاریک گلی میں مڑ گیا جو سیدھی ملیر ندی تک جاتی تھی۔

    نجانے کیوں بس والے آدمی کا وہ معمولی سا جملہ اسے باربار یاد آتا رہا۔ اس نے اپنی ہتک آمیز اور پامال زندگی میں کبھی کسی مسافرکی زبانی اپنے لیے ایسی بات نہیں سنی تھی۔ ایک لمحہ میں وہ سارے غلیظ فقرے اس کی یادداشت سے محو ہو گئے اور وہ بےضرر جملہ مدھر موسیقی کی طرح اس کی سماعت میں بجنے لگا۔

    اسے اپنی پور پور میں کوئی خوشگوار شے رینگتی محسوس ہوئی۔ وہ مسکرایا۔

    اس نے جیب سے پیکٹ نکالا۔ اندھیرے میں اسے دیکھتا رہا، پھر چومنے لگا۔

    وہ ریتیلی اور ناہموار گلی میں ڈگمگاتے قدموں سے چلتا رہا۔ اس کاجسم نڈھال تھا لیکن روح سرشار تھی اور سبک تر۔ ہوا کے آوارہ جھونکے نے اس کے چہرے پر بوسہ دیا۔ گلی کے آخری سرے پر کتا بھونکا۔

    صبح کو وہ دیر سے اٹھا۔ رات ہوٹل سے گھر تک کا سفر اس کے ذہن میں خواب کی طرح دھندلا گیا تھا۔ اس نے جیب میں انڈونیشی سگریٹ کی ڈبیا کو ٹٹولا تو ایک مختلف قسم کی خوشی کو محسوس کیا۔

    یہ کسی نئی چیز کو اپنے تصرف میں لانے اور اس پر قبضہ جمانے کی خوشی تھی۔

    غسل خانے میں ہاتھ منہ دھوتے ہوئے مچھروں کے کاٹے کے نشان سلگنے لگے۔ اس نے پرواہ نہیں کی۔

    وہ کھاٹ پر بیٹھا چائے کا انتطار کر رہا تھا کہ اس کا بوڑھا باپ حقہ اٹھائے اس کے پاس آ بیٹھا۔

    وہ ستر برس کا لاغر اندام شخص تھا۔ رات دن کھانستا رہتا تھا۔ پھر حقہ نوشی ترک کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ بیٹے سے اس کی ملاقات کم ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ فجر سے پہلے جاتا تھا اور آدھی رات کے بعد واپس آتا تھا۔

    ’’بیٹے کے ساتھ رہتے ہوئے اسے دیکھ نہیں پاتا۔ کیسا زمانہ آ گیا ہے‘‘۔ اس نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

    ’’کیا کروں بابا۔ روزی کا مسئلہ ہے‘‘۔ غلام رسول اس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔

    وہ اس سے شہر کے حالات پوچھتا رہا۔ پھر بسوں اور مسافروں کی باتیں کرنے لگا۔

    تو شہر بھر گھومتا ہے۔ نئے لوگوں سے ملتا ہے اور میں یہاں موت کا انتظار کرتا ہوں۔ بات پوری کر کے وہ حقے کا کش لینے کے لیے جھکا اور جھکا رہ گیا۔

    غلام رسول ہنستے ہوئے بولا۔ کل میرے ساتھ شہر چل۔ جی بھر کے گھومنا۔

    اس کا والد مسکرایا تو اس کے گال اور ہونٹ پچک گئے۔ ’’دودھ کے باڑے تک جاؤں تو سانس پھول جاتی ہے۔ ہڈیاں کڑ کڑانے لگتی ہیں، دو دن پہلے تیری ماں کے ساتھ شرافی گوٹھ کے قریب ایک مزار پر گیا تھا۔ بہت دور تھا وہ۔ ابھی تک ٹانگوں میں درد باقی ہے۔ تیری ماں تو ابھی تک پری ہے، مجال ہے، جو رستے بھر تھکاوٹ کا نام لیا ہو۔ بوڑھی ہو گئی لیکن جوان بہو سے زیادہ کام کرتی ہے‘‘۔ بات کرتے ہوئے اس پر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ اس کی کمر خمیدہ ہو گئی اور آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔

    غلام رسول کو باپ کی کھانسی کی عادت پڑ گئی تھی۔ اس نے چیخ کر اپنی بیوی کو چائے لانے کے لیے کہا۔

    بوڑھے آدمی کی طبیعت سنبھلی تو وہ ڈھکن اٹھا کر حقے کی راکھ دیکھنے لگا، جو تقریًبا ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ کوئی بھی۔ اس کے لیے حقہ گرم نہیں کرےگا، نہ بیٹا، نہ بہو اور نہ بیوی۔ کیونکہ سارے نافرمان تھے اور وہ بہت بوڑھا ہو گیا تھا۔ اسے چولہے کے پاس جاکر کوئلے حقے میں ڈالنے تھے۔

    غلام رسول کا بیٹا چائے کا پیالہ تھما کر چلا گیا۔

    اپنے والد کو حقہ گرم کرنے کے لیئے فکر مند دیکھ کر اسے قلق ہوا۔ مگر وہ اس کا بھی عادی ہو گیا تھا۔ وہ بے نیازی سے چائے پیتا رہا۔

    بوڑھا شخص کچھ دیر ٹھنڈے حقے کے کش لیتا رہا۔ پھر سر جھکا کر کسی خیال میں غرق ہو گیا۔

    غلام رسول نے سوچا کہ انڈونیشی سگریٹ کی پوری ڈبیا والد کو دے دے۔ لیکن اسے خود غرضی نے روک لیا۔ اس نے خود کو سمجھایا کہ ڈبیا پر صرف اس کا حق تھا۔ کیونکہ وہ اسے تحفے میں ملی تھی۔

    اس نے یاد کیا کہ دو ہفتے پہلے حقہ ٹوٹ گیا تھا۔ تو اس نے مہنگے والا حقہ اپنے باپ کو خرید کر دیا تھا۔ اسے نسوار کی عادت بھی تھی۔ آس پاس کے علاقوں سے اچھی نسوار نہیں ملتی تھی وہ ہر دوسرے دن صدر سے اس کے لیے اسپیشل نسوار لاتا تھا۔

    اس کی وجہ سے باپ بیٹے میں تکرار ہوتی رہتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا باپ صرف حُقہ استعمال کرے کیونکہ نسوار سے اس کے مسوڑ ھوں میں خون رستا تھا اور دانتوں میںدرد بھی رہتا تھا۔

    اس کا والد اس کے مشورے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کا بیٹا اس سے بیزار ہو گیا تھا اور اس کے وجود کو بوجھ سمجھتا تھا۔

    حقہ بالکل بے مزہ ہو گیا تو اس نے خفگی سے اسے ایک طرف سرکا دیا۔ اس نے بلغم کا لچھا زمین پر پھینکا اور دھوتی کے پلو سے منہ صاف کیا۔

    اسے پہلے ہی انڈونیشی سگریٹ کے بارے مین سن گن مل چکی تھی۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور غلام سول سے مخاطب ہوا۔ ’’زینت بتا رہی تھی کہ کہ تجھے باہر لے ملک کا سگریٹ تحفے میں ملا تھا۔ ذرا ڈبی نکال، دیکھوں تو سہی‘‘۔ اس نے مشکل سے اپنی بے صبری پر قابو رکھا۔ گرچہ وہ بے چینی سے غلام رسول کے اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے سگریٹ چکھنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ یہ اس کی پرانی عادت تھی وہ چاہتا تھا کہ اس کی ضرورت بغیر کہے خود بخود پوری کر دی جائے۔

    کچھ دن پہلے اس کی چپلیں گھس گھس کر کاغذ جیسی ہو گئی تھیں۔ مگر وہ پھر بھی استعمال کرتا رہا۔ تا آنکہ ایک روز غلام رسول کی نظر نہ پڑ گئی۔

    اس نے اپنے والد کو غصیلی نگاہ سے دیکھا مگر زبان سے کچھ نہیں بولا۔ اس نے چائے کی آخری چسکی بھری اور پیالہ زمین پر رکھ دیا۔

    اس نے انڈونیشی سگریٹ کی ڈبیا اپنے والد کو نہیں دی بلکہ ایک سگریٹ نکال کر اسے تھما دیا۔ اگلے ہی لمحے اسے اپنی بدتمیزی کا احساس ہوا۔ تلافی کرنے کے لیے اس نے اپنے باپ کو رات والا واقعہ سنایا۔

    بوڑھا شخص غور سے سنتے ہوئے ایک ایک لفظ کانوں میں جذب کرتا رہا۔

    غلام رسول نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس میں لونگ کی خوشبو ہے اور یہ ہونٹوں کو میٹھا کر دیتا ہے‘‘۔

    یہ سن کر اس کا والد ہنسنے لگا اور شہادت کی انگلی جتنے غیر ملکی سگریٹ کو غور سے دیکھتا رہا۔

    اس نے پیکٹ جیب میں رکھ لیا اور ماچس کی تیلی سے اپنے والد کا سگریٹ سلگایا۔

    ناشتہ کرتے ہوئے اس نے اپنی بیوی سے باز پرس کی کہ اس نے والد کو انڈونیشی سگریٹ کے بارے میں کیوں بتا دیا تھا۔ ناشتے کے بعد وہ دوستوں سے ملنے گھر سے نکلا۔ تاکہ ڈبیا دکھا کر انہیں مرعوب کر سکے۔

    وہ قبرستان کے نزدیک پیر عاشق علی شاہ کے آستانے پر پہنچا۔ مزار کے احاطے میں اس کے دوست سفیدے کے درختوں کے نیچے خوش گپیوں میں مصرو ف تھے۔ وہ سب چھوٹے موٹے کام کرنے والے مزدور لوگ تھے۔ وہ چھٹی کا دن یہیں بیٹھے بیٹھے گزار دیتے تھے۔

    وہ ایک دوسرے پر پھبتیاں کستے، مذاق اڑاتے اور آپس میں فحش گوئی کرتے۔ کوئی دوست اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سناتا تو وہ سننے کے لیے خاموش ہو جاتے۔

    غلام رسول بھی بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا رہا، لیکن اس کی باتیں بےمزہ تھیں۔

    کئی مرتبہ وہ رات والا واقعہ سنانے سے رہ گیا۔ وہ ڈبیا نکالنے سے بھی ہچکچاتا رہا۔ کیونکہ دوستوں کی ٹولی میں صرف تین سگریٹ پینے والے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ جب دوسروں کو پتہ چلےگا کہ سگریٹ باہر لے ملک کا تھا، تو وہ بھی پینے کی ضد کریں گے اور اس کے انکار کی صورت میں سب کی ناراضگی یقینی تھی۔

    اس نے حساب لگایا تو پیکٹ میں صرف نو سگریٹ باقی بچے تھے۔

    بہت دیر وہ آپس میں ٹھٹھہ مخول کرتے رہے۔

    غلام رسول اٹھ کر لاری اڈے والے ہوٹل کی طرف چلا گیا۔

    ہوٹل میں ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کا جھمگھٹا لگا ہوا تھا۔کچھ پاؤں پسارے پڑے تھے اور کچھ ٹولیوں کی شکل میں چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔

    وہ بھی ایک ٹولی میں شامل ہو گیا۔

    اپنے ہم پیشہ لوگوں کے درمیان وہ پھر اسی مشکل سے دو چار تھا، اس نے کئی بار ڈبیا کو جیب میں ہاتھ لگایا اور آہ بھر کے رہ گیا۔

    لوگ ہنس رہے تھے۔ قہقہے لگا رہے تھے۔ مگر غلام رسول آزردہ خاطر تھا۔

    شام ڈھلنے والی تھی۔ آسمان سرمئی بادلوں سے اٹا ہوا تھا۔ سمندر کی تیز ہوا مٹی کے بگولے اڑائے پھرتی تھی۔

    غلام رسول ہوٹل سے اٹھا اور گھر کی جانب چل دیا۔ سگریٹ کی ڈبیا کی نمائش نہ کر سکنے کا اسے بہت ملال تھا۔اس کے دوست آئے دن اپنی چیزوں کی نمائش کرتے تھے اور ان کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے تھے۔ اسے پہلی بار ایسا موقع ملا تھا۔ پہلی بار ایک بیش قیمت چیز اس کے ہاتھ لگی تھی اور وہ اسے اپنی جیب سے باہر بھی نہیں نکال سکا۔

    وہ اپنی حماقت پر مسکرایا اور پھر بے ساختہ ہنسنے لگا۔

    اس نے اپنے آپ سے کہا کہ سگریٹ کی ڈبیا کوئی تلے والی کھیڑی تو نہیں تھی، کہ بہت برسوں تک استعمال میں آتی رہتی، جلد یا بدیرا سے ختم ہونا تھا۔

    اس نے اپنی بیوقوفی پر زور دار قہقہہ لگایا، پھر چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

    جیب سے ڈبیا کو ٹھکانے لگانے کے لیے ایک مناسب فیصلہ کر لیا۔ اس نے یہ فیصلہ بغیر سوچے کیا تھا۔ چلتے چلتے یکایک اسے اپنے باپ کا خیال آیا اور اسے اک شدید گناہ کے احساس نے گھیر لیا۔ اس نے محسوس کیا کہ صبح کو باپ کے ہاتھوں میں ڈبیانہ تھما کر اس نے زیادتی کی تھی۔

    وہ گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ نیم تاریک صحن میں اس کا باپ کھاٹ پر بیٹھا کھانس رہا تھا۔ اس کا حقہ نزدیک ہی پڑا تھا۔

    بوڑھا شخص حقے کا کش لینے کے لیے جھکا تو جھکا ہی رہ گیا۔

    غلام رسول کو اس وقت اپنے آپ پر غصہ آیا مگر اگلے ہی لمحے وہ مسکرانے لگا۔ وہ اپنے والد کے پائینتی جا بیٹھا۔ اس نے بوڑھے آدمی کو سہارا دے کر کھاٹ پر لٹا دیا۔

    اس کے والد کے پورے چہرے پر اداس مسکراہٹ پھیل گئی۔

    غلام رسول نے دونوں ٹانگیں کھاٹ پر چڑھالیں اور اپنے باپ کے جسم کو نرمی سے دبانے لگا۔

    تھوڑی دیر بعد اس نے جیب سے ڈبیا نکالی اور ماچس کی تیلی سے دو سگریٹ سلگائے۔ ایک اپنے لیے اور دوسرا والد کے لیے۔

    اس نے سلگتے ہوئے سگریٹ کے ساتھ انڈونیشی سگریٹ کی ڈبیا بھی اسے تھما دی۔

    بوڑھا شخص اٹھ بیٹھا اور ٹٹول ٹٹول کر غیرملکی سگریٹ کی ڈبیا کو دیکھنے لگا۔

    غلام رسول بے نیازی سے کش پر کش کھینچ رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے