Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انٹرویو

فیاض احمد

انٹرویو

فیاض احمد

MORE BYفیاض احمد

    ایک دفتر میں نوکری کے لیے انٹرویو ہونے والا تھا۔ صبح سے ہی لوگوں کا ہجوم دفتر کے باہر جمع تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگوں کا سیلاب امڈ پڑا ہو۔ کہیں پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ انور بھی انٹرویو دینے والوں میں شامل تھا۔ اس کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لیے اسے اس انٹرویو سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ اس نے اس انٹرویو کے لیے خوب تیاری کی تھی۔ کمرے کے اندر کیا پوچھا جائے گا اس کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن تھا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں ایسے امیدوار کا انتخاب نہ ہو جائے جس کے پاس کسی کی سفارش ہو۔ انور کے پاس سفارش کے نام پر صرف ماں کی دعائیں اور بہنوں کا پیار تھا۔ گھر سے جب نکلا تھا تو صرف دعائیں ہی اس کے ساتھ تھیں۔

    جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا انور کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ جب انٹرویو شروع ہوا تو یکے بعد دیگرے کئی امیدوار اندر گئے اور فوراً واپس آ گئے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اندر کیا پوچھا جا رہا تھا۔ جو بھی نکلتا تو اس انداز میں نکلتا کہ اس کی نوکری پکی ہو چکی۔ خیر وہ وقت بھی آ گیا جب انور کا نام پکارا گیا۔ گھبراہٹ اور اعتماد اس کے چہرے پر ایک ساتھ نمایاں تھے۔ ایک پل کے لیے اس نے خود کو قابو میں کیا اور پراعتماد طریقے سے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ انٹرویو لینے والوں نے انٹرویو کے ضابطوں کی تفصیل بتائی۔ انہوں نے کہا، ’’ہم تمہیں دو چوائس دیں گے۔ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے تم جواب دے سکتے ہو۔ تمہارے پاس پہلا چوائس یہ ہے کہ تم سے صرف ایک سوال کیا جائے گا۔ اگر تم نے سہی جواب دے دیا تو تمہیں یہ نوکری مل جائے گی۔ لیکن یہ سوال بہت مشکل ہوگا اور تمہارے پاس بہت زیادہ وقت بھی نہیں ہوگا۔ تمہیں فوراً جواب دینا ہوگا۔ دوسری صورت میں تم سے دس سوال پوچھیں جائیں گے جو کہ بہت آسان ہوں گے اور وقت کی بھی پابندی نہیں ہوگی۔ مگر تمہیں نوکری اسی حالت میں ملے گی جب تم سبھی دس سوالوں کے جواب دے دو گے۔‘‘ انور کے دل میں اچانک خیال آیا کہ وہ دس آسان سوالوں کے لیے حامی بھر لے لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اپنا ارادہ بدلا اور پہلے چوائس کے لیے رضامندی کی مہر لگا دی۔

    انٹرویو لینے والوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر انور کی طرف مسکراتے ہوئے پوچھا، ’’دن پہلے ہوتا ہے یا رات؟‘‘ سوال پوچھ کر دونوں نے انور کے چہرے پر نظریں جما دیں۔ انور کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی۔ اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، ’’پہلے دن ہوتا ہے؟‘‘ انٹرویو لینے والوں نے فوراً ہی دوسرا سوال داغا، ’’کیسے؟‘‘ انور اس سوال کے لیے پہلے سے ہی تیار تھا۔ بڑی معصومیت سے کہا، ’’جناب میں نے پہلے چوائس کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے مطابق مجھ سے صرف ایک سوال پوچھا جانا ہے۔ اس لیے آپ کے پاس دوسرا سوال پوچھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔‘‘ اب انٹرویو لینے والوں کے پاس کوئی چارا ہی نہیں تھا۔ وہ انور کی عقلمندی کے قائل ہو گئے اور اسے نوکری کے لیے منتخب کر لیا گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے