انتقام
وہ ایک چھوٹے سے قصبہ کا باشندہ تھا۔ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔ قصبہ سے دور شہر میں چوکیداری کرتا تھا لہذا گاؤں تک آنے جانے میں اس کا بیشتر وقت ضائع ہو جاتا تھا۔ قدرت نے اس کے جسم کی طرف سے بڑی بے اعتنائی برتی تھی۔ چپٹی ناک پستہ قد موٹے ہونٹ اور سانولی رنگت کا یہ آدمی واقعی بدصورت تھا۔ شادی کے چند برسوں بعد ہی اس کی بیوی اسے ناپسند کرنے لگی۔ اس کی دن بھر کی غیر حاضری میں ایک نوجوان جو اسی قصبہ کا باشندہ تھا اور اس کا دوست بھی تھا اس کے گھر اس کا آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔
یہ کہانی آپ مجرم کی زبانی ہی سنیں اور فیصلہ کریں کہ آیا وہ مجرم تھا یا مجرم بنا دیا گیا۔
ایک دن ایک چھوٹی سی کوتاہی پر مجھے نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ سخت محنت اور بے پناہ محبت کا انجام مجھے نفرت حقارت اور فریب کی شکل میں ملا۔ میں اپنی معمولی سی نوکری سے جو کچھ کماتا اپنی بیوی اور بچوں پر صَرف کر دیتا تھا۔ مجھے اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ میرا دوست میری بیوی سے بہت قریب ہو چکا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی۔ میں بدصورت اور غریب ضرور تھا لیکن اپنی بیوی اور بچوں سے محبت اور کفالت کا قانونی حق مجھے حاصل تھا۔ لیکن میری بیوی کی نگاہ میں اب مجھ جیسے بھکاری کے لیے کوئی نظر عنایت و التفات نہ رہی تھی۔
میں نے اپنے گھر میں قیمتی تحائف بھی دیکھے مجھے معلوم تھا یہ کہاں سے آتے ہیں۔ میں نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی بڑی کوشش کی لیکن اس کا سخت دل نہ پسیجا جو میری محبت سے خالی ہو چکا تھا۔ میری آہ و زاری کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا نہ ہی میری التجائیں اس پر اثر انداز ہو سکیں۔ میں نے بہت جلد اندازہ کر لیا کہ میرے دوست کی دریا دلی نے میری بیوی کا دل پوری طرح موہ لیا ہے اور وہ اس کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو چکی ہے۔ دھیرے دھیرے میرے دل میں اپنے دوست کے لیے رقابت اور بیوی کے لیے نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا چلا گیا۔
میں غریب اور مجبور تھا پھر بھی چند دوستوں کے مشورہ پر پولیس اور عدالت تک معاملہ پہنچایا۔ پولیس نے بھاری رشوت اور عدالت نے سیاسی رسوخ کے آگے اپنی بے بسی کا برملا اظہار کیا۔ میری بیوی نے اپنے اوپر لگائے سارے الزامات سے صاف انکار کیا اور مجھے ذہنی مریض بتایا گیا۔ کوئی پکا ثبوت میرے پاس موجود نہ تھا۔ شک کی بنیاد پر کوئی الزام عدالت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا اس لیے اس معاملہ کو میرا دماغی خلل قرار دے کر عدالت نے کیس خارج کر دیا۔
اب میری بیوی سے رہے سہے تعلقات بھی ختم ہو چکے تھے۔ مجھ میں اچھا بننے کی اب کوئی خواہش نہیں بچی تھی۔ کیونکہ دنیا اس کا صلہ دینے کو تیار نہ تھی۔ میری صحت بھی کافی گر چکی تھی۔ میں طبعاً بھی کمزور واقع ہوا تھا۔ میں کام کے لیے در بدر بھٹکتا رہا لیکن مجھ جیسے کمزور اور لاغر آدمی کو کوئی کام پر رکھنے کو تیار نہ ہوا۔ اس بےعزتی سے میری دماغی کیفیت بالکل تبدیل ہو گئی۔ میرے لئے اس کرب اور دکھ سے نجات کا صرف ایک ہی راستہ بچا تھا کہ مجھے بھیک مانگ کر گزر اوقات کرنی چاہیے۔
اپنے ہی گھر میں اب مجھے ذرہ برابر سکون حاصل نہ تھا چنانچہ میں گھر میں اب کم ہی رہنے لگا۔ آوارہ گردی کرتے ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا۔ کسی طرح مانگ چانگ کر ایک دو وقت کا کھانا میسر آ جاتا تھا۔ دھیرے دھیرے چند جرائم پیشہ لوگوں سے میری دوستی ہو گئی۔ ان کے ساتھ رہ کر اب میں نے چوری کرنا شروع کر دیا تھا۔ نشہ کرنا اور جوا کھیلنا بھی سیکھ گیا تھا۔
میرے رقیب نے میری پوشیدہ کارگزاریوں کا پتہ چلانے کی کوشش شروع کر دی اور ایک دن میں چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا گیا۔ میرا جرم اتنا سنگین نہ تھا لیکن میرے ساتھی کی گواہی نے مجھے مجرم بنا دیا یہ سب پہلے سے طے تھا جس میں میرے ہی گروہ کا کوئی آدمی شامل تھا۔ کسی پولیس آفیسر وکیل اور جج نے میری دماغی کیفیت کا اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی۔ میں گرفتار ہوا مجھ پر کیس درج کیا گیا اور مجھے جیل ہو گئی۔
میرے دل سے قانون کا خوف عدالت کا احترام اور پولیس پر بھروسہ اور اعتماد بالکل جاتا رہا تھا۔ دنیا میں آزاد رہنے کی خواہش نے قید خانے کی زندگی کو انتہائی تکلیف میں بدل دیا تھا۔ اس فریبی دوست نے مجھے کس کس طرح سے پریشان کیا اور ستایا تھا جو بیان سے باہر ہے، یاد کر کے کلیجہ منھ کو آتا تھا۔ یہ سب سوچ کر قید و بند کی مصیبتیں دوگنی ہو جاتی تھیں۔
گھر کی یاد جیل خانہ میں اور بڑھ گئی۔ مجھے اپنی رہائی کی فکر ستانے لگی۔ پورے ایک برس کی قید کاٹنے کے بعد میں جیل سے رہا ہوا اور اپنے گاؤں پہنچا۔ بیوی بچوں سے محبت کی زنجیر اب تک میرے پیروں میں بندھی ہوئی تھی لیکن سب لاحاصل اور بے سود ثابت ہوا۔
میں نے جرم کی اس دنیا سے اب کنارہ کشی اختیار کر لی تھی لیکن اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کی تڑپ مجھے صبح و شام بے چین رکھتی تھی۔ میں نے زندگی کے دھارے کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور محنت مزدوری سے پیٹ پالنے کی فکر شروع کر دی۔ جیل میں میری صحت قدرے بحال ہو گئی تھی۔ اب میں ٹھیلا رکشا چلا کر زندگی گزار رہا تھا۔
میری شدید خواہش تھی کہ میں اپنے دشمن کے خلاف کوئی اقدام کروں، یہ وہی جرم تھا جس کے خیال سے میں کبھی کانپ اٹھتا تھا۔ میں کیا چاہتا تھا مجھے نہیں معلوم لیکن میں نے اتنا ضرور محسوس کیا کہ آتش انتقام میرے سینے میں بھڑک رہی ہے۔ میں نے ایک بندوق حاصل کی اور اپنے کام میں لگ گیا جو بظاہر مشکل تھا۔
کئی ہفتے یوں ہی گزر گئے۔ ایک دن حسب معمول میں رات کی تاریکی میں اپنے گھر کے پچھواڑے اُس خبیث کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ کافی دیر بعد ایک ہیولا سا دکھائی دیا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے میرے بہت قریب آ گیا۔ میں نے اسے فورآ پہچان لیا۔ یہ وہی تھا جس نے میری زندگی برباد کر دی تھی۔ وہ دروازے کے قریب آکر ایک کونے میں کھڑا ہو گیا، کنڈی بجائی اور دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے نشانہ لیا ہی تھا کہ دروازہ کھلا اور وہ فورآ اندر داخل ہو گیا۔ اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ کر میری حالت اس وحشی جانور کی طرح ہو گئی جس کا ہاتھ آیا شکار اچانک کہیں دور چلا گیا ہو۔ یہ سوچ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ پچھلے واقعات ایک ایک کر کے میرے ذہن میں تازہ ہوتے گئے۔ جوش جنون اور جذبہ انتقام سے میں آپے سے باہر ہو رہا تھا۔ یہ آدمی میرے لئے دنیا میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا۔ میں نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ تقریبآ دو گھنٹے بعد وہ باہر آیا۔ اب وہ میری بنددق کی زد میں تھا۔ اس وقت مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری زندگی کی تمام نفرت و حقارت اور انتقام کی قوت میری انگلی میں جمع ہو گئی ہے جو بندوق کے گھوڑے پر تھی۔ میری سانس میرے پھیپھڑے میں رک رک کر میرا دم گھونٹ رہی تھی۔ میرا ہاتھ کانپ رہا تھا میرے دانت بج رہے تھے۔ میں نے بندوق کو اپنا نشانہ منتخب کرنے کی اجازت دے دی۔ مجھے یقین تھا کہ میرا نشانہ خطا نہ ہوگا۔ میری بندوق نے اچوک نشانہ لگایا۔ ایک ہی گولی میں میرا دشمن ڈھیر ہو گیا تھا۔ میرے ہاتھوں یہ پہلا خون تھا۔ میں نے شدید غصے میں اپنا ہونٹ چباتے ہوئے اس ناہنجار کی طرف دیکھ کر کہا جو زمین پر مردہ پڑا تھا۔ میرے دوست میرا انتقام پورا ہوا اور میری زندگی کا عظیم مقصد بھی۔
جائے وقوع سے سڑک چند گز دور تھی۔ مجھے اپنی حفاظت کی فکر لاحق ہوئی۔ گولی کی آواز سن کر میری بیوی باہر نکل آئی اور ہائے واویلا کرنے لگی۔ پکڑے جانے کا خوف میرے اعصاب پر سوار تھا۔ میں وہاں سے فورآ نکل بھاگا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک شاہراہ جنگل کو جاتی تھی جنگل میلوں پھیلا ہوا تھا۔ میں رات کی تاریکی میں بھاگتا رہا بھاگتا رہا یہاں تک کہ ایک درخت سے جا ٹکرایا۔ بہت دیر تک میں اس درخت کے نیچے خاموش بیٹھا کچھ سوچتا رہا۔ اب مجھے ایک بات پسند کرنی تھی یا تو میں ایسی زندگی بسر کروں جس میں ہر وقت موت کا خطرہ ہو یا خودکشی کر لوں۔ مجھ میں دنیا چھوڑنے کی ہمت بالکل نہ تھی۔ ابھی مجھے اور بھی قرض چکانے باقی تھے۔ میرے لیے دنیا میں عزت سے جینے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تھی۔ باعزت زندگی بسر کرنے کا حق مجھ سے پہلے ہی چھین لیا گیا تھا۔ ایک عجیب و غریب سی کیفیت تھی جس سے میں گزر رہا تھا۔ پکڑے جانے پر پھانسی کا خوف یہ دونوں ہی میرے لیے ناقابل قبول تھے۔ یہ سوچتے ہی بندوق میرے ہاتھ سے گر گئی۔ میں نے بندوق اٹھائی اور انھیں خیالات میں غرق گھنے جنگل کی ایک پگڈنڈی پر ہو لیا۔
میری بیوی بھی اس جرم میں برابر کی شریک تھی۔ میں اسے بھی مار ڈالنا چاہتا تھا لیکن دونوں معصوم بچوں کا خیال آتے ہی میرے قدم اکثر رک جاتے تھے میں پس و پیش میں پڑ جاتا تھا۔ یہ سب سوچ کر مجھ پر پژمردگی سی چھائی ہوئی تھی۔ اپنے دل کو ہزار تسلیاں دینے کے باوجود بھی میں اپنے آپ کو گنہگار ہی سمجھتا رہا۔ شاید دنیا کے ہر مجرم کے ساتھ پہلی بار ایسا ہی ہوتا ہو اس خیال سے ذرا سی تسکین حاصل ہوئی۔ دھیرے دھیرے میرے دل سے ہر قسم کا ڈر اور خوف ختم ہوتا گیا مگر کوئی نامعلوم سا خطرہ میرے خیالات کو منتشر اور پراگندہ کیے رکھتا تھا۔
میں سال بھر روپوش رہا پولیس میری تلاش میں تھی۔ ایک دن میں پکڑ لیا گیا۔ عدالت میں میری پیشی ہوئی۔ وکیل استغاثہ نے مجھ سے خوب جرح کیا لیکن میں نے اپنا جرم قبول نہیں کیا۔ اس بار میری بیوی اور میرا ایک ساتھی جو گرفتار کر لیا گیا تھا ان دونوں نے میرے خلاف عدالت میں ایک لفظ منھ سے نہ نکالا وہ سب موت سے ڈر گئے تھے اور مجھ سے حد درجہ خائف تھے۔ مجھ پر عدالت کا شک پختہ تھا اور قید کا شکنجہ کسا ہوا تھا۔ لیکن کسی معتبر گواہی کے بغیر اور ثبوت کی عدم دستیابی کی بنا پر میری میعاد کم کر دی گئی۔ مجھے چار سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
میں فطرتاً مجرم نہ تھا لیکن جیل خانے میں پورا مجرم بن گیا۔ قید خانے میں مجھے جن قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا ان میں کئی خونی تھے باقی غنڈے بدمعاش چور اچکے اور موالی، جنہوں نے چار سال تک میرے اندر پنپتے جرم اور بغاوت کی خوب پرورش کی اور بے خوفی و دلیری کے خطرناک جراثیم میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دیے اور مجھے پولیس حکومت قانون اور عدالت کا پوری طرح سے باغی بنا دیا۔
کسی طرح چار سال بھی گزر گئے میں رہا ہو گیا۔ رہائی کے بعد جرم میرا شوق بن گیا تھا۔ اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں تھا۔ اب مجھے کون کام پر رکھتا؟ میں سب کی نظروں میں خطرناک مجرم اور بے رحم قاتل تھا۔ میرے دل سے گرفتاری اور جیل جانے کا خوف قطعی نکل چکا تھا۔ اب میرے دشمنوں کے لیے میرے پاس پستول تھی اور ڈھیر ساری گولیاں بھی۔
اب میری بقیہ زندگی میری نہیں تھی۔ یہ قتل و خون اور فتنہ و فساد سے بھری پڑی تھی پھر بھی انسانیت کہیں نا کہیں اب تک مجھ میں زندہ تھی۔ بس ایک خواہش بچی ہوئی تھی کہ میں جیتے جی اپنی بیوی کی کربناک زندگی اور اذیت ناک موت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں جس کا مجرم میں ہرگز بننا نہیں چاہتا تھا۔ یہ فیصلہ میں نے خدا پر چھوڑ رکھا تھا جس کے عدل پر مجھے یقین کامل تھا۔ یہ ایک بہت ہی ڈراونا اور خوفناک خیال تھا جس کی گرفت دھیرے دھیرے میری زندگی کا دائرہ میرے لیے تنگ کر رہی تھی اور میں شدید اضطراب کا شکار ہو رہا تھا۔
دن یونہی گزرتے گئے اور میرے اندر دھیرے دھیرے تبدیلی آتی گئی۔ میرا دل اب مجھے مجبور کر رہا تھا کہ میں جرم کی اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالہ کر دوں لیکن جذبہ انتقام نے ابھی تک میرے پیروں میں بیڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ کبھی خیال آتا اپنی بیوی کے پاس واپس چلا جاؤں اسے معاف کر دوں اپنے بچوں سے مل لوں اور پرانی یادوں کو تلف کر کے پھر سے ایک نئی زندگی شروع کروں۔ چنانچہ ایک دن میں نے زندگی کو پوری طرح بدل دینے کا ارادہ پختہ کر لیا اور ان تکالیف سے نجات کا راستہ تلاش کیا۔ میں اپنے مجرم دوستوں سے نظریں بچا کر شہر سے بھاگ نکلا سیدھا گاؤں پہنچا اور گھر کی راہ لی۔
چوراہے پر مجھے چند اوباش لونڈے نظر آئے جو ایک عورت کو دیکھ کر سیٹی بجا رہے تھے اور گندے اشارے کر رہے تھے۔ وہ عورت سیٹی کی آواز سن کر پیچھے مڑی۔ میری نظر اچانک اس پر پڑی میں نے دیکھا یہ تو میری ناجو ہے میری بیوی۔ میں اس کی طرف دیوانہ وار دوڑا، میرے خانہ خراب دل میں اب تک اس کی محبت موجزن تھی۔ ایسے گھٹیا دل پر بھی ہزار لعنت ہے۔ وہ مجھے پہچان گئی اور فرط جذبات میں یہ کہتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئی تم آ گئے راجو شکر ہے کہ تم واپس آ گئے۔ میں اپنی خطا و لغزش پر بے حد شرمندہ ہوں مجھ گنہگار و خطاکار کو ایک بار معاف کر دو۔
مفلوک الحالی اس کے لباس سے صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ اس کا خوبصورت جسم اب ایک ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ مفلسی و تنگ دستی نے اس کے حسن کو پوری طرح نچوڑ لیا تھا۔ اس کے بدن سے بدبو پھوٹ رہی تھی۔ اس کے بال سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ اس کے منھ پر شرمناک بیماریوں کے نشانات تھے۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس ذلیل پیشے کی بدولت بربادی اور تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
مجھے سمجھتے دیر نہ لگی، سیٹی اشارے غیر اخلاقی حرکتیں اور نہ جانے کیا کیا۔ وہ آوارہ و بدچلن ہو گئی تھی۔ میرے منھ سے یک بیک نکلا فاحشہ عورت، میں نے اپنے آپ کو بمشکل اس سے الگ کیا اور دیر تک چوراہے پر کھڑا زور زور سے ہنستا رہا۔ شاید میں اسی دن کو دیکھنے کے لیے آج تک زندہ تھا جس کی آج تکمیل ہو گئی تھی۔
وہاں موجود آوارہ لونڈے مجھے پہچان گئے تھے۔ وہ سب مجھے دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ میرے جرم کی داستان دور دور تک پھیل چکی تھی۔ سب مجھ سے ڈرنے لگے تھے۔ ان چند لمحات میں مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اس سے کبھی محبت نہیں کی ہے بلکہ میں اس سے شدید نفرت کرتا ہوں۔ اس کی دی ہوئی سخت ذہنی کوفت اور بے پناہ اذیت یک لخت ہی میرے سینے سے یوں اترتی چلی گئی جسے کوئی تھکا ہوا مسافر دھیرے دھیرے نیند کی آغوش میں جا کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جائے۔
میں کافی دیر تک حقارت آمیز نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ میں نے پستول نکال لی قریب تھا کہ میں گولیوں سے اسے چھلنی کر دوں اور ماندہ زندگی جیل میں گزاروں۔ پھر کچھ سوچ کر میں رک گیا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا چند لمحے کی تکلیف دہ موت سے زندگی بھر کی اذیت زیادہ بہتر ہے۔ میں قدرت کا کھیل بگاڑنا نہیں چاہتا تھا مجھے خالق کے انصاف میں مخل نہیں ہونا تھا۔ میں نے اپنی ذلت بھری زندگی کا اس بدکار عورت سے کوئی انتقام نہیں لیا لیکن قدرت نے اس کی بے وفائی کا بھرپور بدلہ اسے دیا تھا۔
وہ مجسمہ کی شکل بے حس و حرکت خوفزدہ سی میرے سامنے کھڑی تھی۔ اس کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کچھ بھی ہو پھر بھی وہ میری بیوی تھی۔ میرے دل میں کہیں نا کہیں اس کی محبت موجود تھی۔ غصہ سے میرا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ میرے اوپر دیوانگی سوار تھی۔ آخرکار میں نے دل کو تسلی دی ایک فیصلہ لیا آنسو پوچھا گلا کھنکار کر صاف کیا اور اس کے منھ پر تھوکتے ہوئے اس کے روبرو کھڑے ہو کر کہا۔ بے وفائی سے بڑا سنگین جرم اور کوئی نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ قتل بھی نہیں۔ تو ناقابل معافی ہے اب تو میرے لائق ہرگز نہیں۔ تیرے لیے یہی سزا کافی ہے جو تجھے مل رہی ہے تو اسی کی حقدار تھی۔ تجھے اس سے بھی زیادہ سخت سزا ملی چاہیے۔ میں مجرم ہی سہی، میں بے گھر سہی، میں برباد سہی لیکن پوری دنیا میں کم از کم میں تجھ جیسی بدذات عورت سے تو کہیں بہتر ہوں یہ کہتا ہوا اور زاروقطار روتا ہوا میں شہر کی جانب اپنے اڈّے پر دوبارہ چل پڑا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.