Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسی رہگذر پر

نجمہ نکہت

اسی رہگذر پر

نجمہ نکہت

MORE BYنجمہ نکہت

    پاوشان نے شونا کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا اور مسکرا کے بولا ’’اس آسمان کو دیکھو شونا کس قدر نیلا ہے اور بادلوں پر شفق کا ہلکا سرخ رنگ چڑھ گیا ہے اور کہیں کہیں سفید چمکیلی جھلک وہ دیکھو۔ ادھر مغربی پہاڑی پر وہ۔ وہ۔‘‘

    شونا نے اپنی بھدری نیم وا آنکھوں سے اوپر دیکھا۔ کوریا کا کھلا ہوا آسمان اوپر ہی اوپر بڑھتا ہوا۔ پھیلتا ہوا، رنگین نیلا، سرخ اور سفید آسمان جہاں بادلوں کے غباروں نے محل بنا رکھے تھے۔ پہاڑیاں، انسان اور جانور بادلوں میں بن بن کے مٹ رہے تھے۔ اس کی نظریں اس سرخ لکیر پر جا کے رک گئیں جہاں دھرتی اونچی اٹھ کے آسمان سے مل گئی تھی۔

    شونا نے اپنے سیاہ اونی۔ پینٹ کا چمکدار بلٹ کس کر کمر پر لگایا اور خواب اور آوا زمیں بولی۔ یہ سرخ لکیر دیکھ رہے ہو۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرخ چوڑی لکیر ایک راستہ ہے جو زمین کی گود سے آسمان کے سینے تک چلا گیا ہے۔ تم شاید ہنسو اور یقین نہ کرو کہ میں خواب میں ہزاروں بار، اس راستہ پر چلی ہوں مگر یہ سفر پورا ہونے سے پہلے مری آنکھ کھل جاتی جاتی یا میرا چھوٹا بھائی کمار سن سردی سے گھبرا کے میرے گرم کمبل میں گھس جاتا اس طرح یہ سفر کبھی پورا نہ ہوا

    شونا نے اپنا ہاتھ پادشان کے ہاتھ پر رکھ دیا جو اس نے شونا کی کمر سے ہٹا کے پل کے بانس پر رکھ دیا تھا اور اداس ہو کے بولی ’’جانے کم ارسن کیسا ہے اب؟‘‘

    مجھے معلوم ہے وہ بالکل تندرست ہے اور کمیونسٹ چین میں آرام سے زندگی گذار رہا ہے۔ پاوشان نے شگفتہ لہجے میں کہا اور اپنے ہاتھ سے شونا کا ہاتھ سہلانے لگا۔

    پھر شونا کو بدستور اداس دیکھ کے اس نے باتوں کا رخ بدل دیا اور نیچے بند میں رکے ہوئے پانی پر نظریں ڈال کے بولا ‘‘میں بہت دن بعد تم سے ملا ہوں، شاید تم ناراض ہو۔‘‘

    شونا کے گلابی ہونٹوں پر ہنسی دوڑ گئی۔ اس نے بانس سے سر لگا دیا۔ میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ ‘‘مجھے غصہ کبھی نہیں آتا۔ وہ دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھی اور پاوشان پانی سے نظریں ہٹتا کے اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ شونا بھی مسلسل اس کی طرف دیکھتی رہی پھر دفعتاً چونک کے بولی’’ تم نے ہمارے دھان کے کھیت دیکھے تھے نا؟ جن میں ذرا ذرا سے پودے نکل آئے تھے۔ اب ان میں سنہرے دھان آ گئے ہیں تم کو وہاں آنا ہوگا۔

    اس کی آنکھوں میں خوشی ناچ رہی تھی اور ہونٹوں پر ہندوستانی شہد کی سی چمک تھی اور مسکراہٹ میں ویسی ہی تند مٹھاس۔

    شونا نے اپنے قمیص کی آستین کے بٹن کھول دیئے اور اس کو لپیٹ کر کندھوں تک کر لیا۔ اس کے مضبوط گداز بازو عریاں ہو گئے اور ان پر موٹی موٹی نیلی نیلی دریدیں ابھر آئیں۔

    اس نے اپنے بھورے روئیں بھرے ہاتھ پر اپنا دوسرا ہاتھ پھیرا اور پاوشان کی طرف مسکرا کے دیکھا۔

    مسکراہٹ، جس میں خوشی تھی، حسن تھا، رنگینی تھی اور تازگی تھی جیسی سویرے کھلنے والے پھولوں میں ہوتی ہے۔ اس کے ننھے ننھے سفید دانتوں کی لڑی نیم وا ہونٹوں سے جھانک رہی تھی اور گالوں میں دو خوبصورت گڑھے پڑ گئے تھے۔

    پاوشان نے اس کو شانوں سے پکڑ کے ہندوستانی شہد کی میٹھی گرمی چوس لی۔

    مجھے بوڑھے باپ کو کھانا دینا ہے پاوشان۔ اس نے پاوشان کے مضبوط بازوؤں سے اپنے آپ کو چھڑا کر کہا اور جاتے جاتے مڑ کر بولی۔

    ’’کل ضرور آنا۔ میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘

    پاوشان نے جواب میں سر ہلایا اور شونا کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

    دوسرے دن وہ دونوں دھان کے کھیت میں کھڑے تھے اور شونا مسکرا مسکرا کر پاوشان کو ہری بھری فصل دکھا رہی تھی۔ سبز، دور تک پھیلے ہوئے کھیت جن میں ہوا کے جھونکے گاتے ہوئے گذر رہے تھے سنہری بالیاں جھوم رہی تھیں سرسرا رہی تھیں۔

    بالیاں۔ جن کو چھونے سے جن کی نرم سرسراہٹ سنتے سے ایک عجیب سی لذت ملتی تھی۔ ایسی لذت جو نیند سے بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ ہرے پودوں کے سروں پر سونے کے رنگ کی بالیاں، دھوپ میں چمک رہی تھیں۔

    شونا کھیت کے درمیان والی مینڈھ پر بیٹھی پاوشان کو پیار بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔ وہ نظریں جو کہہ رہی تھیں دنیا میں اور کچھ نہ ہو۔ میں رہوں، تم رہو، کھیت سرسراتے رہیں۔ ہوا بہتی رہے اور زندگی گذر جائے جیسے ہوا کا تیز جھونکا سن سے گذر جاتا ہے۔

    پاوشان نے شونا کے قریب بیٹھ کے نرم آواز میں پوچھا۔

    ’’اب ہم شادی کر لیں گے نا شونا؟‘‘

    ہاں اس فصل کے کٹتے ہی ہم شادی کر لیں گے۔ وہ پاوشان کے چوڑے سینے پر سر رکھ کے یقین سے بولی۔

    پاوشان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک آ گئی۔ اس نے شونا کی بھوری سرخی مائل بالوں کی لٹوں میں انگلیاں پھیریں اور پیار سے اس کے گال تھپک کر بولا ’’وہ دن بہت مسرتوں بھرا ہو گا میں تمہیں اپنے وطن شنگھائی لے جاؤں گا۔‘‘

    نہیں پاوشان۔۔۔ مجھے ان کھیتوں سے بڑی محبت ہے۔ تمہیں نہیں معلوم مجھ کو ریا کی زمین سے کتنا پیار ہے۔ مجھے کو ریا کا آسمان کتنا پسند ہے۔ اپنے کچے مکان سے مجھے کتنا انس ہے۔ وہ بڑے والہانہ انداز میں کہتی گئی۔ تم نہیں جان سکتے۔

    ’’میں جانتا ہوں شونا۔ مجھے خود کو ریا سے محبت ہے۔ میری ماں کو ریائی تھی، ہاں باپ چینی تھا۔ انسان ہزاروں پابندیوں کے باوجود ایک دوسرے سے رشتہ جوڑ لیتا ہے۔ خواہ وہ کوئی ہو، کہیں ہو، انسان فطری طور پر کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتا شونا، یہی وجہ ہے کہ افریقہ میں سخت پابندیوں کے باوجود بہت سے گورے انسان خفیہ طور پر حبشیوں سے میل جول رکھتے ہیں اور جنوبی افریقہ کے حبشی خاندانوں کا بھی یہی حال ہے۔جہاں کوریا تمہارا وطن ہے وہاں میرا وطن بھی ہے۔ کوریا میری ماں کا وطن ہے اور شنگھائی میرے باپ کا اس طرح میں دو ملکوں کی، دو تہذیبوں کی اور دو نسلوں کی نئی تخلیق ہوں۔‘‘

    وہ خاموش ہو کر شونا کی آنکھوں میں دیکھنے لگا جہاں خوشی آنسو بن کے تیر رہی تھی۔

    تمہاری ماں کو ریائی تھی۔ اوہ۔ شوما نے بڑی عقیدت سے آہستہ سے کہا۔ ہاں۔ میرے بچوں کی مان بھی کوریائی ہوگی۔ پاوشان شرارت سے بولا اور دونوں ہنسنے لگے۔

    بڑی دیر تک دونوں اپنی زندگی کا بکھرا نظام ترتیب دیتے رہے نئے نئے خواب دیکھتے رہے۔ دونوں نے آزاد گنگنائے، شونا کی سریلی مرتعش آواز کے ساتھ پاوشان کی بھاری گونج دار آواز دھان کی سرسراہٹ میں مل کے بڑا حسین نغمہ بن گئی۔ ان نغموں میں آنے والی زندگی کا دھندلا سا عکس تھا امنگیں تھیں، خوشیاں تھیں، رنگین خواب تھے اور دو دلوں کی دھڑکن تھی اور وہ سب کچھ تھا جس کی تمنا زندگی کو ہوتی ہے۔

    شونا کے مشترکہ کھیت میں دھان کی فصل مشینوں سے کاٹی جا رہی تھی اور شونا کے طاقتور ہاتھ مشین کا ہتھ گھما گھما کر دھان کے لمبے لمبے جوان پودے کاٹ رہے تھے۔ کبھی وہ مستقبل کی درخشانیوں کو سوچ کر مسکراتی کبھی ماضی کو یاد کر کے کھو جاتی۔ اس کے ذہن میں بچپن کے نقوش بہت واضح اور گہرے تھے اور مستقبل غیرمانوس اور اجنبی دور تھا مگر پھر بھی اس کے خوش آئند تصور سے خوشی ہوتی تھی۔

    اس کو اچھی طرح یاد تھا کہ بچپن میں وہ اور کم ارسن نہیں کھیتوں کی ہری بھری مینڈھ پر دوڑا کرتے تھے۔ مغربی پہاڑی پر لمبی ڈنڈی والے بڑے بڑے پھولوں کے گچھے اکٹھے کیا کرتے تھے۔

    کم ارسن شونا کو شدت سے یاد آنے لگا اور اس کی نظروں کے سامنے بچپن کے بہت سے واقعات گھوم گئے۔

    جب وہ بہت سی چھوٹی سی تھی تو اس کا باپ اسی کچے مکان میں جلتی ہوئی لکڑیوں کے قریب بیٹھا شونا اور اس کے بھائی کو ان کی مرحوم ماں کے قصے سنایا کرتا۔

    اس وقت شونا کا باپ جوان تھا، اس کی آنکھوں میں ایک قسم کی چمک تھی اور چہرے پر جھریاں نہیں تھیں۔ وہ اپنا موٹا سرمئی کوٹ پہن کے پاؤں سیکوڑے بیٹھ جاتا اور دونوں بچوں کو گھسیٹ کر اپنے قریب کر لیتا اور کم اوسن کو مخاطب کر کے کہتا۔ دیکھو میرے بچے! تمہاری ماں کی شکل بالکل شونا سے ملتی جلتی تھی۔

    کم ارسن دو چار ادھ جلی لکڑیوں کو پھر آگ میں جھونک دیتا۔ دبی ہوئی چنگاریوں کو لکڑی سے کرید کر چلاتا۔

    ہاں۔۔۔ میں جانتا ہوں، مجھے اپنی ماں یاد ہے۔ اس کی آنکھیں بھوری تھیں اور خوبصورت بھی تھیں۔

    اس کا آنکھیں چمکانا، اس کے ذہنی نقش کو اور گہرا کر دیتا۔ شونا کھسک کر اپنے باپ کی گود میں بیٹھ جاتی۔ وہ شونا کے سفید گول مول ننھے بازوں کو سہلا کر کم ارسن سے کہتا۔

    ہاں تو تمہاری ماں بہت اچھی تھی۔ بہت مہربان۔ جب تم دونوں پیدا نہ ہوئے تھے تو ہم دونوں کھیتوں پر مل کے کام کرتے تھے میں اس وقت بہت موٹا تازہ تھا مجھے دیکھ رہے ہو نا اس سے دوگنا پھولا ہوا جسم تھا۔ ہاتھ پاؤں بڑے مضبوط تھے۔ تمہاری ماں بھی بڑی طاقتور عورت تھی۔ اس کے چہرے پر نرمی و ملائمت تھی۔ وہ بہت معصوم تھی اور تھوڈی تک جیسے نور کا عجیب و غریب حلقہ سا بنا ہوا تھا اور آنکھوں میں بجلی کی سی چمک تھی۔ جب کم ارسن پیدا ہوا تو ہم بہت خوش ہوئے۔

    اور بات بھی تو خوش ہونے کی تھی۔ وہ یہاں تک شونا سے کہہ کے دم لینے کو رک جاتا تو کم ارسن اپنی چھوٹی چھوٹی چندھی آنکھیں دبا کے شرارت سے سونا، کو منہ چڑا دیتا اور شونا منہ بسور کے اپنے اپ کو رحم طلب نظروں سے گھورنے لگتی۔وہ مصنوعی خفگی کے آثار چہرے پر پیدا کر کے ڈانٹ دیتا اور یہ کہہ کے چپ ہو جاتا کہ اب آگے نہیں بتاؤں گا۔

    کم ارسن گھنٹوں کے بل بیٹھ کے خوشامد کرتا۔ آگ میں بہت سی لکڑیاں ڈال کے منہ سے پھونکنے لگتا اور لمبی لکڑی سے آگ الٹ پلٹ کر کے خوشامدی لہجے میں کہنا۔

    نہیں اب میں سونا کو کچھ نہیں کہوں گا۔ بس یہ آگ بجھ جائے تو قصہ ختم کر دینا۔

    یہ کم ارسن کی پرانی عادت تھی کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر سے سوکھی لکڑیاں الاؤ میں جھونکتا رہا تاکہ آگ سرد نہ ہو اور قصہ جاری رہے حتی کہ نیند اس کے سارے احساسات پر چھا جاتی اور اونگھنے لگتا چنانچہ وہ نیند آنے تک برابر الاؤ گرم رکھتا۔

    ہاں۔ تو بچو! میں کیا کہہ رہا تھا۔ اس کا باپ موٹی موٹی بھنویں سکوڑ کر حافظہ پر زور دیتا۔

    یہی کہ آپ لوگ مری پیدائش پر بہت خوش ہوئے اور بات بھی تو خوش ہونے کی تھی۔ ‘‘وہ شونا کو کنکھیوں سے دیکھ کے مسکرادیتا۔‘‘

    مگر شونا ان باتوں کی پرواہ کئے بغیر بڑے دھیان سے قصہ سننے کی منتظر رہتی۔

    ’’ہم بہت خوش ہوئے کہ لڑکا جو ان ہو کر ہمارا بوجھ ہلکا کرے گا۔ اسی طرح دن گذرتے ہے اور پھر پانچ سال بعد ہمارے گھر پیاری سی لڑکی نے جنم لیا اس کے باپ نے شونا کے گالوں کو چوم کر کہا اور اب دیکھو۔ مری گود میں بیٹھی ہے گڑیا۔ وہ ننھی شونا کو گدگداتا اور وہ ہنستے ہنسے بے دم ہو جاتی۔ پھر جم کے گود میں بیٹھ جاتی۔ پھر کیا ہوا۔ کم ارسن ان باتوں کو نظر انداز کر کے پوچھتا اور دل ہی دل میں چاہتا کہ اس کا باپ شونا کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرنا بھول جائے۔‘‘

    پھر اس کے باپ کا منہ لٹک جاتا۔ آنکھوں کی روشنی معدوم ہو جاتی اور ان کے گرد سیاہ حلقے پیدا ہو جاتے۔ ٹھڈی کانپنے لگتی اور مدھم آواز میں وہ لمبی سانس کھینچ کر آہستہ آہستہ کہتا۔

    پھر شونا کی پیدائش میں اس کی ماں مر گئی۔

    الاؤ کے گرد مکمل سکوت طاری ہو جاتا۔ وہ تینوں ایسے جمود کی آغوش میں بیٹھے رہتے جس میں افسردگی غمناک خاموشی اور ہیبت رینگتی۔ الاؤ میں چٹکتی لکڑیاں کوئلہ بن جاتیں اور پھر کوئلے سرمئی راکھ کا چھوٹا سا ڈھیر بن جاتے جس کے اندر چھپی ہوئی چنگاریاں چاروں طرف ہلکی ہلکی گرمی بکھیرتیں تینوں کمبل میں سکڑ کر ایک دوسرے سے چپک جاتے۔ شونا کو وہ دن بھی گذرے ہوئے کل کی طرح یاد آ رہے تھے جب وہ اور اس کا بھائی باپ کے ساتھ کھیتوں میں بڑی دلچسپی اور محنت سے کام کرتے تھے وہ بھی کیسا عجب زمانہ تھا۔

    وہ کھیتوں میں بڑی بڑی نالیاں بناتے اور ان کی حفاظت بڑی ہوشیاری سے کرتے۔ جب دھوپ زیادہ تیز ہونے لگتی تو وہ تینوں گھنے درخت کے نیچے سستانے بیٹھ جاتے اور دونوں جبر کر کے اپنے باپ سے روئی کے میدانوں کی کہانیاں سنتے۔ یہ کہانیاں ان لڑکیوں کی ہوتیں جو کپاس کے سفید کھلے ہوئے پھول اپنی بڑی بڑی ٹوکریوں میں بھر کے اپنی پیٹھ پر باندھ لیتیں اور شہر کی منڈیوں میں لے جاتیں۔

    شونا کے باپ نے گھنی چھاؤں میں بیٹھ کے اس کو بتایا تھا کہ اس کی ماں بھی انہیں کھیتوں میں روئی کے اجلے پھول چنتی تھی اور گیت گایا کرتی تھی یہ گیت بہت میٹھے اور رسیلے ہوتے تھے جب وہ اپنی رنگین ٹوکری میں خوب بھر کے پھول جمع کر لیتی اور شہر جانے لگتی تو شونا کا باپ آگے بڑھ کے ٹوکری کو اپنی پیٹھ لاد لیتا اور پھر دونوں ہنستے ہنساتے شہر کی بڑی منڈی تک پہونچ جاتے۔

    جب دونوں کی شادی ہوئی تو وہ اسی کچے مکان میں رہ گئی اس کا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ یہاں کھیتوں میں اس نے دل لگا کے محنت کی تھی۔ وہ جنوبی کوریا سے شمالی کوریا محض ایک ساتھی کیلئے چلی آئی مگر اس وقت جنوبی و شمالی حصوں کا تصور نہیں تھا بلکہ کوریا ایک ملک تھا جس کے حصے بخرے نہیں ہوئے تھے۔ یہاں اس مکان میں اس نے اپنی زندگی کا سب سے حسین دور شروع کیا اور دو بچوں کو جنم دے کے مر گئی۔

    یہ تھی وہ سیدھی سادھی کہانی جو اس کی زندگی سے وابستہ تھی۔ شونا کو یہ سوچ سوچ کر رنج ہوتا تھا کہ وہ اپنی ماں کی موت کا باعث بنی مگر ایسے لمحوں میں باپ کی شفقت اس کی غمگساری کرتی جب وہ اپنا چوڑی، ہتھیلی والا ہاتھ شونا کے بھورے بالوں پر پیار سے پھیرتا تو اس میں نئی طاقت آ جاتی، نئی ہمت پیدا ہو جاتی اور وہ مسکراتی ہوئی کھیتوں میں چلی جاتی۔

    وہ دن بھی شونا نہیں بھولی تھی جس رات دیر تک وہ اور کم ارسن آگ تاپتے اور باتیں کرتے رہے۔ وہ عجیب سی رات تھی۔ مغربی پہاڑی کی آخری چوٹی پر چاند چمک رہا تھا اور کم ارسن معمول سے زیادہ مہربان تھا رات کا بڑا حصہ باتوں میں بیت گیا تھا اور صبح جب شونا بستر سے اٹھی تو کم ارسن بستر سے غائب تھا۔ اس کا باپ اب کافی بوڑھا ہو چکا تھا اور اس کیلئے کم اور سن کے غائب ہو جانے کی خبر بڑی تکلیف دہ تھی۔ بوڑھا اور شونا سارا دن ہر اس مقام پر گھومتے رہے جہاں اس کے جانے کا امکان تھا۔ وہ دونوں شام کو ناکام گھر آئے تو بوڑھا دروازہ کھولتے ہوئے بولا ’’میرا خاندان گھٹتا جا رہا ہے۔ وہ دن قریب آ رہا ہے۔ جب میں پہلے کی طرح بالکل تنہا رہ جاؤں گا۔‘‘

    شونا بلک بلک کر روئی مگر بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ ٹپکا۔ ہاں چہرے کی جھریاں اور گہری ہو گئی تھیں۔ آنکھوں کے گرد حلقے زیادہ سیاہ ہو گئے تھے اور فکرمند پیشانی رپ بہت سے بل اڑی ترچھی لکیروں کی طرح کھینچ گئے تھے۔ وہ چپ چاپ بیٹھا آسمان کی طرف نظر اٹھائے پھیلتے ہوئے بادلوں کو دیکھتا رہا جو ڈوبتے سورج کی زرد کرنوں سے سنہرے ہو گئے تھے پھر ایک دم سراٹھا کے بولا۔ آسمان کی گود سے یہ کھیلتے بادل چھٹ جائیں گے اور آسمان کی گود پھر خالی ہو جائےگی۔

    اس جملے میں ہزاروں آنسووں کا سیلاب امنڈ رہا تھا۔ اس خاموشی میں سینکڑوں چیخیں خاموش تھیں۔ وہ رات بھر اپنا تیز تمباکو پائپ میں بھر بھر کے پھونکتا رہا۔

    شونا کی یادداشت میں وہ دن بھی تازہ تھا جس دن وہ پادشان سے ملی تھی کم ارسن کے جانے کے ایک ماہ بعد پاوشان اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کے شونا کے گھر تک آیا تھا۔ جہاں سامنے کھیت میں شونا کام کر رہی تھی اور دروازے پر بوڑھا بیٹھا خوشبودار چائے کا گہرا جوشاندہ پی رہا تھا۔ وہ پہلے شونا کی طرف بڑھا۔ اس نے شونا کو بڑی دلچسپی سے دیکھا۔ اس کے سونے کے باریک تاروں جیسے سنہرے سرخی مائل بالوں کو اس کی چمکتی پیشانی کو خوبصورت کانچ کی سی بھوری آنکھوں کو اور شاداب ہونٹوں کی میٹھی مسکراہٹ کو اس نے آنکھیں جھپکا کر غور سے دیکھا اور بالکل اسی دلچسپی سے شونا بھی اسے دیکھتی رہی۔ اس نے کم ارسن کے بارے میں شونا کو اتنا بتایا تھا کہ ’’وہ میرا دوست ہے، میں تمہیں اتنا بتا سکتا ہوں کہ وہ چین میں آرام سے ہے۔‘‘ پھر وہ بوڑھے کے پاس بیٹھ گیا۔ بوڑھے نے جب یہ سنا کہ کم ارسن زندہ ہے تو قہقہہ مار کے ہنس پڑا۔

    اس ملاقات کے بعد شونا کا ہاتھ بٹانے وہ بھی کھیتوں میں چلا آتا اور اس رات شونا کا باپ الاؤ کے پاس بیٹھے بیٹھے پائپ دھنکتا اور دھوئیں کے نیلے مرغولے بنا بنا کر باتیں کیا کرتا۔ اب تو شونا کے باپ سے پاوشان پچھلی دوسری جنگ عظیم کے قصے بھی بیان کرنے لگا تھا۔ جب وہ سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوکر گیا تھا۔ وہ جرمن قیدیوں کی داستانیں چٹخارے لے لے کے سناتا اور ہر داستان کے ختم پر ایسا گونج دار قہقہہ لگاتا جیسے بجلی کڑک جائے گویا وہ جرمن قیدیوں پر نہیں ہنس رہا تھا بلکہ ظلم وستم کا مذاق اڑا رہا تھا۔

    وہ جب بھی شونا کے پاس آتا تو ہفتہ بھر کے اخبار اکٹھے کر کے ساتھ لاتا اب الاؤ کے گرد روئی کے میدانوں کی کہانیوں کی بجائے دنیا کے محنت کشوں کی عملی جدوجہد، سیاسی پارٹیوں کے نئے پروگرام اور طبقاتی کشمکش سے متعلق بحث و مباحثہ ہوتا یا پادشان کسی سیاسی موضوع پر گھنٹوں بوڑھے سے الجھا رہتا۔

    شونا کو بھی ان نئی باتوں سے دلچسپی ہوتی جا رہی تھی۔ یوں بھی وہ اور اس کا باپ دنیا کے حالات سے بےخبر نہیں تھے۔ کسانوں کا اخبار پڑھا جاتا تھا مگر پادشان کی باتوں کا انداز بالکل علیحدہ تھا۔

    اپنا چوڑا خوبصورت ہاتھ گھما کر اور آنکھوں میں چمک پیدا کرے زور دار لہجے میں جب وہ کسی مسئلہ کی تائید کرتا تو پھر کسی کی ہمت نہ پڑتی کہ تردید کر دے۔ اس کی باتوں میں خاص وزن تھا۔

    جب شونا کو فرصت مل جاتی تو وہ اپنے کھیتوں کی مینڈھ پر بیٹھ جاتی اور جب پاوشان آتا تو دونوں اپنی شادی کے متعلق باتیں کرتے۔ رات کو اخباروں کے موٹے موٹے فائیل کھلتے اور شونا کو اپنی زندگی کا مستقبل بھول کر ان کروڑوں انسانوں کا مستقبل سوچنا پڑتا جو دنیا کے مختلف حصوں میں نئی زندگی کے لئے لڑ رہے ہیں اور طبقاتی خلیج پاٹنے کے لئے پوری توانائیوں اور طاقتوں کے ساتھ میدان میں اتر پڑے ہیں۔

    شونا کے مشترکہ کھیت میں مشینوں سے دھان کی کٹائی ہو گئی۔ گیت گا گا کر اس نے کٹائی میں حصہ لیا۔ بچپن کو یاد کیا۔ بچپن سے اب تک کی زندگی کے یادگار لمحوں کو یاد کیا۔ اپنی مرحوم ماں کو یاد کیا اپنے بھاگے ہوئے بھائی کو یاد کیا۔ اپنے ہمدرد محبوب کو یاد کیا اور آخر میں آنے والی خوشیوں کو یاد کیا جب وہ شنگھائی جائےگی۔

    گیت گنگنا کر اور مشین کا ہتھا گھما گھما کر اس نے ساری زندگی پر غور کیا جانے پہچانے ماضی سے لے کر اجنبی مستقبل تک۔

    دھان کٹ گئے۔ کھیت کی خالی مینڈھ پر بھیٹھی وہ پاوشان کا انتظار کرتی رہی۔

    دن گذرے، راتیں گذریں۔ الاؤ میں سرخ انگارے دہکتے شعلے اپنی لال زردی مائل زبانیں نکالے بھڑکتے اور بوڑھا پاؤں سیکڑے کمبل کا گھونسلہ بنائے پڑا پڑا پائپ کا سرمئی گاڑھا دھواں اگلتا۔ شونا الاؤ میں موٹی موٹی لکڑیاں ڈال کر الاؤ گرم رکھتی اور بیٹھی پاوشان کی راہ تکتی حتی کہ الاؤ میں راکھ کا ڈھیر لگ جاتا اور وہ دو تین انگڑائیاں لے کے لیٹ جاتی۔

    کھیتوں کی کٹائی کے بعد جب سارے حصہ داروں میں دھان کے برابر حصے بٹ گئے تو شونا بیکار سی ہو گئی۔ اس کو پاوشان کا شدید انتظار تھا۔ زمین نے سورج کے گرد گھوم کر اپنا ایک چکر مکمل کر لیا اور جب شونا بالکل مایوس ہو گئی تو اچانک وہ آ گیا مگر بہت گھبرایا ہوا۔ اس نے فوجی وردی پہن رکھی تھی۔ اس کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی۔ شونا دوڑ کے اس سے لپٹ گئی ’’تم آ گئے؟‘‘ چاول کے کھیتوں کی کٹائی کب کی ختم ہو گئی۔ ’’اب ہم شنگھائی چلیں گے نا؟‘‘

    اس نے آہستہ سے شونا کو الگ کیا اور شونا کے باپ سے لپٹ کر بولا میں محاذ پر جا رہا ہوں۔ تمہارے دیہات میں جو وحشت پھیلی ہوئی ہے وہ یونہی نہیں ہے۔ آج کوریا جل رہ ا ہے، برا کٹھن وقت۔ اگر اس وقت کوریا کو بچایا نہ گیا تو سامراجیوں کا زبردست اڈہ بن جائےگا اور سنو۔ میں جا رہا ہوں، تم کو اور شونا کو بچانے کے لئے۔ اس خوبصورت کچے مکان اور ہرے بھرے کھیتوں کو محفوظ رکھنے کے لئے۔ اس سرزمین کو غلامی کے چنگل سے بچانے کے لئے۔

    بوڑھے نے دھندلی آنکھ سے اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کی نظریں معصوم شونا کی طرف اٹھ گئیں جو سس رہی تھی۔ ہونٹ چبا رہی تھی اور چھوٹے چھوٹے سفید ہاتھ ایک دوسرے سے رگڑ رہی تھی۔

    بوڑھے نے زور سے درخت کے تنے پر تھوک کر کہا ’’سامراجیوں کا اڈہ ہمارا کوریا بن جائےگا؟ نہیں بن سکتا۔ کبھی نہیں‘‘۔ اس نے دوبارہ تھوک کر یقین کے ساتھ سر ہلایا۔

    پاؤں شان شونا کی طرف مڑا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے بولا ’’شونا! جہاں کوریا تمہارا وطن ہے وہاں میرا بھی ہے اور جب میرا ہے تو اس کو بچانا میرا فرض ہے۔ جب کوریا نہ رہےگا تو ہماری محبت کہاں محفوظ رہےگی۔ یہ میری ماں کا وطن ہے جہاں میرا باپ اس سے پہلی بار ملا تھا جہاں تمہاری ماں نے روئی کے پھول اپنے حسیں ہاتھوں سے چنے تھے۔ وہ روئی کے کھیت جل جائیں گے۔ تمہارے دھان کے کھیت راکھ بن جائیں گے اور یہ خاندانی و آبائی مکان، ملبے کا ڈھیر ہوگا۔ کیا تم اپنے وطن کی تباہی برداشت کر سکوگی؟ مجھے جانے دو، میں پھر آؤں گا۔ تمہیں شنگھائی لے جانے آؤں گا‘‘ وہ روتی ہوئی، کانپتی ہوئی شونا کو سہارا دے کے بوڑھے سے بولا کم ارسن چین کے ان فوجی دستوں کے ساتھ کوریا آ رہا ہے جسے چین کوریا کی مدد کے لئے بھیج رہا ہے شاید وہ محاذ پر جانے سے پہلے تم سے ملنے آئے۔

    بوڑھے نے حیرت و خوف سے آنکھیں پھیلا کر کہا ’’کم ارسن؟ اپنے وطن کو بچانے آئےگا؟ اچھا۔ آناں۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور وہ سرجھکا کے آنکھوں سے ٹپکتا پانی پونچھنے لگا۔ جب اس نے سر اٹھایا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ شاید شونا پوشان کو پل تک چھوڑنے گئی تھی۔‘‘

    پاؤشان کے چلے جانے کے بعد شونا پہلی جیسی نہیں رہی۔ بیٹھے بیٹھے اس کی رگ رگ میں چنگاریاں سی دوڑتیں۔ اس کی کنپٹیاں گرم ہو جاتیں اور مٹھیاں کس جاتیں۔ وہ سارے دیہات میں پھیلی ہوئی بے چینی اور سراسیمگلی سے متاثر ہو جاتی۔ اس کا جی چاہتا وہ بھی چلی جائے محاذ پر۔ زخموں سے بھرے ہوئے چہروں پر مرہم لگائے۔ دم توڑتے ہوئے انسانوں کا سر اپنی گود میں رکھ لے اور موت اور زندگی کے درمیان کہی ہوئی چند ادھوری باتیں سنے۔ انھیں دلاسہ دے۔ مرتے ہوئے انسان کو دلاسہ بڑی پرسکون موت دیتا ہے۔

    مگر وہ اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگی جس کا آخری سہارا وہ خود تھی۔ وہ بھی بدل گیا تھا۔ شونا محسوس کرتی وہ بہت سوچتا ہے، سارا دن سوچنے میں گذار دیتا ہے اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ ہونٹ آپ ہی آپ بھینچ جاتے ہیں اور کسی اندرونی خفتی سے پیشانی کی نیلی درید ابھر کر موٹے کینچوے کی طرح حرکت کرتی ہے۔ ایسی حالت میں وہ شونا کو ایسی نظروں سے دیکھتا جیسے وہ ایک رکاوٹ ہے۔

    ایک دیوار جس کو عبور کرنا ناممکن ہے۔ یہی حالت شونا کی تھی جب اس کی رگیں تن جاتیں، مٹھیاں کس جاتیں اور آنکھوں میں گرم پانی بھر آتا تو وہ دھندلائی ہوئی آنکھوں سے بوڑھے کو بغور دیکھنے لگتی۔ اس پر نظر پڑتے ہی رگیں ڈھیلی پڑ جاتیں، بھنچی ہوئی مٹھیاں کھل جاتیں اور جسم ایک دم کمزور پڑ جاتا۔

    ایک دن صبح شونا بوڑھے باپ کی پسندیدہ چائے لے کے اس کے بستر پر گئی تو کمبل بے ترتیب پڑی تھی اور بستر خالی تھا۔۔۔ اس کے سرہانے سے سکوّں کی تھیلی غائب تھی۔ وہ کچھ ڈری، گھبرائی اور پلٹ کے اپنے بستر تک آئی۔ سکوں کی تھیلی خود اس کے سرہانے رکھی تھی۔ اس نے بھنویں سکیڑ کر کچھ سوچا اور پھر سرہلا کر باہر نکل گئی۔ اس کو اپنے آس پاس بہت سے لوگ ملے مگر اس نے کسی سے کوئی سوال نہ کیا۔ وہ غیرشعوری طور پر پُل کی طرف بھاگی۔۔۔

    ابھی سورج پوری طر ح ابھرا نہ تھا۔ فضا میں سیاہ وسفید لکیریں سی کھنچی ہوئی تھیں اور اندھیرا اجالا ملا جلا سا تھا۔ جنگلی پرندے اپنے بڑے بڑے پر پھیلائے آسمانی بلاؤں کی طرح اڑ رہے تھے۔ بوڑھا پانی کے بند کے قریب بے حس و حرکت پڑا تھا اور اس کے پیرسے تا زہ خون بہہ کر مٹی پر جم گیا تھا شونا نے جھُک کر بوڑھے کی چھاتی سے سرلگا دیا مگر دھڑکن غائب تھی۔

    اس نے جلدی سے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے، کھردرے بلے روئیں بھرے ہاتھ کو پکڑ کر نبض ٹٹولی۔۔۔ آہ۔۔۔ ہوں۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ وہ سسکنے لگی۔

    یہ پانی کا بندھ جہاں اس نے دو زندگیوں کو خدا حافظ کہا تھا ایک مضبوط، توانا، گرم جسم، بھو،ری آنکھوں کی نیلگوں چمک اور ہنستا ہوا چہرہ ایک محبوب ۔۔۔ دوسراباپ ۔۔۔ دونوں زندگیاں اس سے کس قدر گہرا تعلق رکھتی تھیں۔۔۔

    مگر یہ پانی کا بند اور لمبا چوڑ ا پل جہاں سے شہر کو راستہ جاتا تھا یہ پل شہر کے راستے پر لے جاتا تھا اور روانہ بیسیوں دیہاتی نوجوان اس پل پر روتی ہوئی بیویوں، ماؤں، بہنوں اور بچوں سے جدا ہو جاتے تھے۔

    شام کو ہر روز شونا پل پر کھڑی ہوکے جانے والوں کو دیکھا کرتی اور روز جیسے ہر زخم تازہ ہوکے مہکنے لگتا تھا۔ یہ پل کس قدر پراسرار تھا یہیں سے اس کا بھائی شہر گیا تھا۔ شاید یہاں آکر اس نے ایک دفعہ مڑ کر اپنے مکان اور کھیتوں کو دیکھا ہو اور پھر پل پار کر گیا ہو۔۔۔ یہیں اس کا محبوب اس سے یہ کہہ کر بچھڑ گیا تھا کہ ’’شاید یہ آخری ملاقات ہو‘‘ اسی پل پر کھڑے ہوکر اس نے کھیتوں کی طرف دیکھا تھا پھر شونا کے آنسووں کو، سوجی ہو ٹی آنکھوں کو اور شونا کو ایک بار اپنے سینے سے لگا کے الگ کر دیا تھا۔ اس کے تصور میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ پُل پر چل رہا ہے اور مُڑ مُڑ کے شونا کے اترے چہرے کو دیکھ رہا ہے۔

    شونا پر آخری نظر ڈال کے جب وہ اوجھل ہو گیا تھا تو شونا کوسخت جھٹکا لگا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا تپا اور اب یہیں اس کا بوڑھا باپ اس سے جدا ہو گیا تھا۔ وہ شہر جانے اور محاذ تک پہونچنے کی حسین تمنا لے کے گھر سے نکلا تھا۔ اس نے اس رہگذر پر پاؤں بڑھائے تھے جس پر چل کر کئی مضبوط قدم محاذ سے قریب ہو جاتے تھے۔ شہر جا کے فوجی بھرتی میں نام لکھا نا مشکل نہیں تھا۔شاید شونا کا باپ اس رہگذر پر جاتے ہوئے پلٹ پلٹ کر اپنی نوجوان بیٹی کا چہرہ ڈھونڈ رہا تھا اور اسی کوشش میں پتھر سے ٹکرا گیا تھا۔۔۔ جسم چھوڑ کراس کی روح پل پار کر گئی تھی۔

    شونا نے زور سے سسکی لے کرآنسو پونچھ ڈالے۔ اس کو یوں لگا جیسے کو آگ لگ گئی ہے۔ کھیتوں سے شعلے نکل رہے ہیں اور اس کے دیہات کی ہموار زمین پر بڑے بڑے خوفناک کھڈ بن گئے ہیں جن میں انسانی ہڈیاں چٹخ رہی ہیں۔ کھوپڑیاں بکھر رہی ہیں اور ہاتھ پیر رینگ رہے ہیں، سسکیاں، کراہیں اور چیخیں بلند ہو رہی ہیں، فوجی دردیاں پہنے ہوئے و حشی لا شوں، کو کچل رہے ہیں، قہقہے لگا رہے ہیں اور ان کے بھاری قدموں کے نیچے نازک ہونٹ، دودھ بھری چھاتیاں، گول مول باز واورسرخی مائل بھورے بال روندے جا رہے ہیں۔

    شونا نے ہلکی چیخ مادری، اپنے بڈھے باپ کی لاش کو دیکھا، گھبرائی ہوئی نظریں دیہات پر ڈال کے وہ پُل پر دوڑ گئی۔۔۔

    سورج ابھر چکا تھا۔ آسمان کی رفعتوں پر سفید چڑیوں کا غول اڑتا ہوا جا رہا تھا۔ کرنوں کی چمک میں پانی لہریں لے رہا تھا۔ آسمان کے مشرقی کنارے پر آفتاب کا بڑا سا تھال چمک رہا تھا۔ پہاڑیوں کے نوکدارسرے رو پہلی ہو رہے تھے اور ایک خوبصورت جوان لڑکی پل پر دوڑ کر شہر والے راستے پرجا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ بھوئیں تنی ہوئی تھیں، مٹھیاں کسی ہوئی اور ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور سرخ ریشمی بال اڑ رہے تھے۔ اُس کے لئے پل پر خدا حافظ کہنے والا کوئی نہ تھا مگر وہ اُس سے بے نیاز پوری طاقت سے دوڑ رہی تھی۔۔۔ اسی رہگذر پر!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے