Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عطر کافور

نیر مسعود

عطر کافور

نیر مسعود

MORE BYنیر مسعود

    کہانی کی کہانی

    افسانہ زندگی کے تضادات پر مبنی ہے اس تضاد کو عطر کافور کی علامت کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے واحد متکلم کو کافور سے عطر بنانے کا طریقہ معلوم ہے۔ جس کی خوشبو تمام خوشبوؤں سے منفرد ہے اور ماہ رخ سلطان کے لیے زندگی بخش ہے. اس کے علاوہ اسے مٹی کے چھوٹے چھوٹے کھلونے بنانے کا بھی شوق ہے۔ اس نے ایک چڑیا بنائی جس کا نام کافوری چڑیا رکھا جب ماہ رخ سلطان کو دکھایا تو انھوں نے کہا کہ اس سے مرنے کا خیال آتا ہے۔ کافور جو زخموں کے اندمال اور دیگر کاموں کے لئے نفع بخش ہے اسی سے موت کا خیال آنا مرنے کے بعد کافور کا استعمال زندگی کے تضاد کو نمایاں کرتا ہے۔

    (۱)

    عطر بنانے کا وہ پیچیدہ اور نازک فن جو قدیم زمانوں سے چلا آرہا ہے اور اب ختم ہونے کے قریب ہے، بلکہ شاید ختم ہو چکا، میں نے نہیں سیکھا۔ مصنوعی خوشبوئیں تیار کرنے کے نئے طریقوں سے بھی میں واقف نہیں، اس لئے میرے بنائے ہوئے عطر کسی کی سمجھ میں نہیں آتے اور اسی لئے ان کی نقل تیارکرنے میں بھی ابھی تک کسی کوکامیابی نہیں ہوئی ہے، اسی لئے لوگوں کو خیال ہونےلگا کہ میرے علم میں عطریات کے نایاب نسخے ہیں جنہیں میں اپنے سینے میں لئے ہوئے معدوم ہو جاؤں گا اوراسی لئے کبھی کبھی مجھ پر اصرار ہوتا ہے کہ ان نسخوں کواپنے بعد کےلئے محفوظ کرجاؤں۔

    میں جواب میں خاموش رہتا ہوں، اس لئے کہ میرے تیار کئےہوئے عطروں میں کوئی خاص بات نہیں، سوا اس کے کہ میں عام خوشبوؤں کوعطر کافور کی زمین پر قائم کرتا ہوں۔ میرا بنایا ہوا ہر عطر اصل میں عطرکافور ہے جوکسی دوسری، مانوس خوشبو کے عطر کا بھیس بناکر سامنے آتا ہے۔ میں نے خوشبوؤں کے بہت تجربے کئے۔ ایک زمانے میں تومیرے پاس خوشبودار چیزوں کا اتنا ذخیرہ ہوگیا تھا کہ اس کے قریب کھڑےہونے سے سر چکرانے لگتا تھا۔ ان میں سے ہر چیز کی خوشبو اپنے آپ پھیلتی اور اڑتی رہتی تھی۔ آخر ایک وقت ایسا آتا تھا کہ چیزباقی رہتی اور اس کی خوشبو اڑ جاتی تھی اور شناخت کے لئے چیز کو دیکھنا یا چھونا پڑتا تھا لیکن کافور کو میں نے ان چیزوں سے مختلف پایا۔ اس لئے کہ کافور اپنی خوشبو کے ساتھ ساتھ خود بھی اڑتا رہتاہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کافور باقی رہے اور اس کی خوشبو اڑ جائے، یہ البتہ ممکن ہے کہ کافوراً اڑ چکا ہو مگر اس کی خوشبو باقی ہو۔

    لیکن میرے عطر کافور میں کافور کی خوشبو محسوس نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی بھی خوشبو نہیں محسوس ہوتی۔ یہ سفیدچینی کے نیچے سے چوکور مرتبان میں بھرا ہوا ایک بے رنگ محلول ہے۔ گول ڈھکنا ہٹانے پر مرتبان کے تنگ دہانے سے کسی قسم کی خوشبو نہیں نکلتی اور محلول کو سونگھنے سے خالی ویرانی کا احساس ہوتا ہے، لیکن دوبارہ پوری سانس کھینچ کر سونگھنے سے اس ویرانی میں کچھ دکھائی دیتا ہے۔ کم سے کم مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ دوسروں کو کیسا محسوس ہوگا، میں نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ میرے سوا کسی اور نے عطرکافور کوخاص شکل میں نہیں سونگھا ہے، لیکن جب میں اس پر کسی خوشبو کو قائم کرکے کوئی عطر بناتا ہوں تو سونگھنے والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ اس عطر کی عام خوشبو کے نیچے کچھ اور بھی ہے۔ ظاہر ہے وہ اسے پہچان نہیں سکتے اس لئے کہ میرے عطر کافور میں کوئی خوشبو نہیں ہے۔

    کافور کی طرح عطر کافور کو بھی اپنے آپ اڑتے رہنا چاہئے اور اپنی خوشبو کے ساتھ بلکہ اس سے پہلے ہی ختم ہو جانا چاہئے۔ میرا کمال یا جوکچھ بھی اسے کہا جائے، صرف یہ ہے کہ میں عطر کافور کو اس کی خوشبو کے ساتھ ختم نہیں ہونے دیتا۔ ۔ جب میں کافور کو محلول کی شکل میں لاتا ہوں تو اس کی خوشبو زیادہ تیز ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد میں محلول کو روکتا ہوں اوراس کی خوشبو کو زائل ہونے دیتا ہوں، کبھی کبھی یہ خوشبو اس طرح زائل ہوجاتی ہے کہ محلول اور سادے پانی میں فرق نہیں رہ جاتا اور میں اسے پھینک دیتاہوں، لیکن ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب اس عمل کے دوران میرا دھیان بھٹکتا اور ہاتھ رکتا ہے۔ میرا دھیان آسانی سے نہیں بھٹکتا۔ جب میں عطر کافور بنانے میں لگ جاتا ہوں تو بڑے شور مجھے سنائی نہیں دیتے، قریب کی آوازیں بھی مجھے نہیں سنائی دیتیں، لیکن دور سے آئی ہوئی کسی پرندے کی مدھم سی پکاریا ایسی ہی کوئی مبہم آواز میرا دھیان بھٹکا دیتی ہے۔ میرا ہاتھ رک جاتا ہے اور جب میں دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ سیدھی ڈور کی طرح اوپر کھنچتی ہوئی خوشبو کا آخری سرا محلول میں سے باہر نکل کر چھت کی طرف جا رہا ہے اور اسے واپس نہیں لایا جا سکتا۔

    اپنی محنت کے رائیگاں جانے میں افسوس نہیں کرتا اور دوبارہ اپنے کام میں لگ جاتاہوں، پھر میرا دھیان نہیں بھٹکتا اور میں دیکھتا ہوں کہ نئے محلول کی خوشبو اوپر اٹھنے کےلئے زور کر رہی ہے۔ میں محلول کو آہستہ آہستہ گردش دیتا رہتا ہوں یہاں تک کہ اس میں چھوٹا سا بھنور پڑنے لگتا ہے۔ خوشبو اس بھنور کے ساتھ گھومتی ہے، پھر ایک کمزور بگولے کی طرح اوپر اٹھتی ہے۔ میں اسے اٹھنے دیتاہوں۔ اس کا پہلا سرا گھومتا ہوا چھت کی طرف جانے لگتا ہے لیکن جب اس کا آخری سرا باہر آنے کو ہوتا ہے تومیں محلول کودوسری طرف گردش دیتا ہوں، یہاں تک کہ اس کا چھوٹا سا بھنور الٹا گھومنے لگتا ہے اورخوشبو کاکمزور بگولا نیچے بیٹھنا شروع ہوتا ہے۔

    میں کبھی وقت کا حساب نہیں کر سکا، پھر بھی میرا خیال ہے اس میں بہت دیرلگتی ہے، لیکن میں اپنا ہاتھ رکنے نہیں دیتا اورمحلول کوباری باری ایک طرف اوردوسری طرف گردش دیتا رہتا ہوں۔ آخر بار بار اوپر اٹھتی اور نیچے بیٹھتی ہوئی خوشبو نڈھال ہوکر دھندھلانا شروع ہوتی ہے۔ اس وقت کوئی چیز اس کی طرف سے میرا دھیان نہیں ہٹا سکتی۔ خوشبو آہستہ آہستہ بھرتی اور دبتی رہتی ہے اور اسی میں کسی وقت غائب ہوجاتی ہے۔ بے رنگ محلول کومیں سفیدچینی کے نیچے سے چوکور مرتبان میں بھرکراس کا ڈھکنا بندکرتا ہوں اوراس کی طرف سے اپنا دھیان ہٹا لیتا ہوں، پھر بے خیالی میں ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہے۔ ویرانی کا احساس، پھر اس ویرانی میں کچھ دکھائی دینا، اب صرف عطر کافور کے سونگھنے پر موقوف ہے، لیکن اس ویرانی میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ عطر کافور کے بننے سے پہلے تھا، بلکہ عطر کافور کا بننا اسی پر موقوف ہے۔

    (۲)

    مجھے پرندوں کی زیادہ پہچان نہیں۔ لڑکپن میں تومیں گنے چنے گھریلو پرندوں سے زیادہ کے نام بھی نہیں جانتا تھا، البتہ جب کوئی خوش آواز پرندہ میرے مکان کی منڈیر پر یاباغ کے کسی درخت کی شاخوں میں بولتا تومیں گھرکے بڑوں سے اس کا نام معلوم کرتا اور اسی دن بھول جاتا، لیکن خود میرے گھر میں جوپرندے پالے جاتے تھے ان سب کے الگ الگ انسانی نام میں اپنی مرضی سے رکھ دیتا تھا۔ ان میں سے کسی کسی پرندے کوجب اپنے دیے ہوئے نام سے پکارتا تووہ واقعی میری طرف متوجہ ہوجاتا تھا۔ یہ پرندے مرتے رہتے تھے اورمیں ہرپرندے کے مرنے کے بعد کچھ دن اسے یاد کرتا پھر بھول جاتا، پھریہ بھی بھول جاتا کہ میں نے اس کانام کیا رکھا تھا۔ اب میں ایک کے سوا اپنے رکھے ہوئے سارے نام بھول چکا ہوں اور جومجھے یاد رہ گیاہے وہ انسانی نام نہیں تھا۔ وہ کسی زندہ پرندے کا بھی نام نہیں تھا۔ وہ نام میں نے ایک تصویری پرندے کا رکھا تھا۔

    یہ تصویر میرےہی گھرانےکی کسی لڑکی نے بنائی تھی اور چوں کہ وہ لڑکی تھوڑے ہی دن بعدمرگئی تھی اس لئے تصویر کو مکان کے بڑے کمرے میں آتش دان کے اوپر اس طرح رکھا گیا تھا کہ کمرے میں داخل ہونے والے کی نظر سب سے پہلے اسی پرپڑتی تھی، اور نیا آنے والا اسے کچھ دیر تک ضرور دیکھتا رہتا تھا، پھر قریب جاکر غور سے دیکھتا۔ وہ واقعی دیکھنے کے قابل چیز تھی۔ بنانے والی سیاہی مائل لکڑی کے تختے پر کسی درخت کی چھال ایک پتلی لمبی شاخ کی شکل میں تراش کر چپکائی تھی، اس کے اوپر روئی کے بے داغ سفید پہل جماکر پرندے کا بدن بنایا تھا۔ کھلےہوئے بازوؤں کے لئے روئی کے ساتھ اصلی سفید پر بھی چپکائے تھے۔ آنکھ کی جگہ سرخ شیشے کاگول دانہ لگایا تھا اور نوکیلے پنجے کسی جھاڑی کے کانٹوں سےبنائے تھے لیکن پرندے کے پنجے شاخ پرٹکے ہونے کے بجائے اس سے ذرا اوپر اٹھے ہوئے تھے۔ اس لئے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ پرندہ شاخ پر اتر رہا ہے یا اس پرسے اڑ کر جا رہا ہے، شاید اسی لئے اسے دیر تک دیکھنے سے الجھن سی ہونے لگتی تھی، لیکن میرے خاندان میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ اڑکر جاتے ہوئے پرندے کی تصویر ہے۔

    میں اسے کافوری چڑیا کہتا تھا۔ سیاہی مائل لکڑی کے تختے پر اس کی صاف دھلی ہوئی روئی اور بے داغ پروں کی سفیدی دیکھ کر ٹھنڈک محسوس ہونے لگتی تھی۔ ایسی ہی ٹھنڈک مجھے کافور کوبھی دیکھ کر محسوس ہوتی تھی جو میرے گھرمیں اکثر موجود رہتا تھا اس لئے کہ ہمارے یہاں کافور کا مرہم بنتا تھا۔ یہ مرہم مفت بانٹا جاتا اور ٹھنڈا مرہم کہلاتا تھا۔ ایک دن گھر کی ایک ملازمہ اس مرہم کے لئے پتھر کی بڑی سل پر کافور پیس رہی تھی اور میں اس کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ ملازمہ کسی کام سے اٹھ کرگئی تو میں نے پتھر پر پھیلے ہوئے سفوف کو سمیٹ کر اس کی ڈھیری بنا دی۔ پھر اسے ہتھیلی سے دبا دبا کر ادھر ادھر پھیلانے لگا۔ اتنے میں ملازمہ واپس آگئی۔ اس نے پکار کر کسی سے میری شکایت کی: ’’دیکھئے سب خراب کر رہے ہیں۔‘‘

    اورمیں ہاتھ جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ سل پرپھیلے ہوئے سفید سفوف کو دیکھ کر مجھے بڑے کمرے والے پرندے کے کھلے ہوئے بازوؤں کا اور اسے دیکھ کر محسوس ہونے والی ٹھنڈک کا خیال آیا اور اسی دن سےمیں نے اس کا نام کافوری چڑیا رکھ دیا اور میرے گھر میں اس کا یہی نام پڑگیا۔ اس لئے کہ اس کا اصل نام کسی کو نہیں معلوم تھا بلکہ اصلیت میں اس قسم کے پرندے کا شاید وجود بھی نہیں تھا اور بنانے والی نے محض اپنے تصور سے ایک شکل بنائی تھی، البتہ اس میں پرندوں کی مشابہت موجود تھی جن میں بعض شکاری پرندے بھی تھے۔ مجھ کویہ سب معلوم تھا لیکن ایک دن میں نے شکار پر سے آئے ہوئے کچھ مہمانوں کوبڑے کمرے میں لکڑی کے تختے کے سامنے باتیں کرتے دیکھا۔ وہ کافوری چڑیا کے بدن کے ایک ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف پرندوں کے نام لے لے کر ایک دوسرے کو قائل کر رہےتھے۔ ان کی گفتگو کا زیادہ حصہ میری سمجھ میں نہیں آیا لیکن ذرا ہی دیر میں کافوری چڑیا مجھے کوئی بڑی پیچیدہ چیز معلوم ہونے لگی، اورمہمانوں کے جانے کے بعد میں دیر تک آتش دان کے سامنے کھڑا اسے دیکھتا اور الجھتا رہا، اس کی بناوٹ میں کوئی پیچیدگی نہیں تھی۔ میں نے اس کی ایک ایک چیز کو غور سے دیکھا۔ آخر مجھے یقین ہوگیا کہ بنانے والی نے اسے بڑی سادگی اور آسانی کے ساتھ تھوڑی ہی دیر میں بنا لیا ہوگیا اور میں خود بھی کسی مشکل کے بغیر اسے بنا سکتا ہوں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی کہ ابھی تک میں نے اسے بنانے کی کوشش نہیں کی، اور اسی وقت میں نے اس کے لئے سامان اکٹھا کرنا شروع کردیا۔

    اس کے بعد کئی دن تک میں لکڑی کا ایک تختہ ہاتھ میں لئے کافوری چڑیا کے سامنے کھڑا اسے بنانے کی کوشش کرتا رہا، لیکن مجھ سے ایک چیز بھی نہ بن سکی۔ یہاں تک کہ بڑے کمرے میں، جسے مہمانوں کے خیال سے ہر وقت صاف ستھرا اور آراستہ رکھا جاتاتھا، ہر طرف نچی ہوئی روئی کے ٹکڑے اورمڑے تڑے سفید پر پھیلے رہنے لگے اوردوتین معمولی سی پابندیوں کے بعدآخر مجھے بڑے کمرے میں اپنا سامان لانے سے بالکل روک دیا گیا۔ اب میں اپنےچھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر کام کرنے لگا لیکن مجھے بار بار اٹھ کر تصویر کو دیکھنے جانا پڑتا تھا۔ اس میں مجھے زیادہ فاصلہ نہیں طے کرنا ہوتا تھا اس لئے کہ میرے اس کمرے کا ایک دروازہ بڑے کمرے میں کھلتا تھا۔ میں کچھ دیر تک کافوری چڑیا کو غور سے دیکھتا پھر لپکتا ہوا اپنے کمرے میں آتا اور لکڑی کے تختے پر روئی کے پہل چپکانا شروع کر دیتا۔ کبھی کبھی مجھے خیال ہوتا کہ میں نے اس کا کوئی حصہ بالکل صحیح بنا لیا ہے لیکن جب میں دوسرا حصہ بناتا تو پہلا حصہ غلط معلوم ہوتا اور اس کی وجہ سے دوسرا حصہ بھی غلط معلوم ہونے لگتا، لیکن اتنی مشکلوں کے بعد بھی یہ خیال میرے دماغ سے دور نہیں ہوا کہ میں اسے آسانی سے بنا سکتا ہوں اور تھوڑی تھوڑی دیر بعدمیں اس کے سامنے جا کھڑا ہوتا اور تعجب کرتا کہ وہ مجھ سے بن کیوں نہیں پاتی۔

    ایک دن دوپہر کے وقت میں اس کے سامنے کھڑا ہوا تھا کہ میرے ساتھ کا کھیلنے والا ایک لڑکا مجھے ڈھونڈتا ہوا بڑے کمرے میں آگیا۔ کچھ دیر تک وہ بھی اسے دیکھتا رہا، پھر بولا، ’’بالکل ایسی ہی ایک وہاں بیٹھی ہے۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’کنویں والے پیڑ پر۔‘‘ اس نے کہا اور باہر کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’تم وہاں گئے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    اس نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا۔

    ’’ہم تو روز وہاں جاتے ہیں۔‘‘

    ’’اب وہاں کون لوگ ہیں؟‘‘

    ’’کوئی نہیں۔ خالی پڑا ہے۔‘‘

    میں نے کافوری چڑیا کی طرف اشارہ کرکے پوچھا: ’’وہ بالکل ایسی ہی ہے؟‘‘

    ’’پتوں میں ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہی ہے، ’’اس نے کہا، ’’ لیکن پر بالکل ایسے ہی ہیں۔ چل کر دیکھ لو۔‘‘

    ’’اب وہ اڑ گئی ہوگی۔‘‘

    ’’نہیں سویرے سے ایسے ہی بیٹھی ہے۔‘‘

    میرا تجسس بڑھ گیا۔

    ’’آو دیکھیں۔’’ میں نے کہا اور ہم دونوں باہرنکل آئے۔ احاطے کے مغربی سرے کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے اس سے پھر دریافت کیا: ’’وہاں کوئی نہیں رہتا؟‘‘

    ’’کہہ تو دیا، خالی پڑا ہے۔‘‘

    وہ زیادہ تر خالی ہی پڑا رہتا تھا۔ اس احاطے میں ہمارے مکان کے علاوہ وہی ایک مکان تھا۔ اس کا صدر دروازہ باہر سڑک پرکھلتا تھا لیکن اس کے بڑے سے عقبی صحن کا چھوٹا دروازہ احاطے میں ہمارے صدر دروازے کے عین سامنے تھا۔ اس کے ڈھیلے ڈھیلے پٹ کچی زمین پرٹکے ہوئے تھے اورمٹی میں قریب قریب جم گئے تھے، پھر بھی میری عمر کے لڑکے اپنا بدن سمیٹ کر ان کے درمیان سے گزرسکتے تھے۔ جب وہ مکان خالی ہوتا تو میں اور میرے دوست احاطے میں کھیلتے کھیلتے کبھی کبھی اس عقبی صحن میں بھی چلے جاتے تھے اور وہاں ہمارے آنے جانے کا راستہ یہی ڈھیلے پٹوں والا چھوٹا دروازہ تھا۔

    اس دروازے میں سے باری باری گزر کر ہم صحن میں داخل ہوئے۔ درخت تک پہنچنے کی جلدی کے باوجود میں نے دروازے پر رک کرپورے صحن پرنظردوڑائی۔ جھاڑ جھنکاڑ کی کثرت سے وہ اسی طرح جنگل بناہوا تھا۔ جگہ جگہ کوڑے کے چھوٹے بڑے ڈھیروں میں ان لوگوں کی نشانیاں تھیں جو اس مکان میں آکر رہتے اور چلے جاتے تھے۔ میں نے ہرچیز کو سرسری دیکھا اور اپنے ساتھی سے پوچھا: ’’کہاں پر ہے؟‘‘

    اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے چپ کرایااور ہم دونوں دبے پاؤں چلتے ہوئے بائیں جانب کنویں کے قریب پہنچے۔ کنواں مٹی، کوڑے اوردرخت کی ٹوٹی ہوئی ٹہنیوں سے قریب قریب پٹ گیا تھا اور اس میں گولائی سے چنی ہوئی شش پہل اینٹوں کی صرف دوتین اوپری قطاریں کھلی رہ گئی تھیں۔

    درخت صحن کی بائیں دیوار اور کنویں کے بیچ میں تھا۔ ایک طرف دیوار کی روک ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ حصہ کنویں پر جھکا ہوا تھا۔ ہم لوگ اس پرچڑھتے نہیں تھے اس لئے کہ اس کی وزنی ٹہنیاں دیکھنے میں مضبوط نظر آتی تھیں لیکن ذرا سا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ اس کے بڑے گول پتوں پرہلکے ہلکے روئیں تھے جن پر زیادہ تر گرد جمی رہتی تھی اور بدن میں ان کی رگڑ لگنے پر کھجلی ہوتی تھی۔ اس وقت ہوا بند تھی، اس لئے درخت بے حرکت تھا اور مرا ہوا سا معلوم ہو رہا تھا، ہوا چلتی تو پورا درخت ایک ساتھ اور ایک ہی طرح سے ہلتا اور اس جنبش کی وجہ سے اوربھی مرا ہوامعلوم ہوتا۔ اگر ہوا زیادہ تیز ہو جاتی تو اس میں سے چرچراہٹ کی آواز نکلتی اور اس کے ایک دو ٹہنے ضرور ٹوٹ کر زمین پر آرہتے تھے۔

    میرا ساتھی درخت کے نیچے کھڑا گردن اوپر اٹھائے اس کی شاخوں کوغور سے دیکھ رہا تھا۔ میں بھی بے آواز چلتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔ درخت کے تنے سے پیٹھ لگا کر میں نے اوپردیکھا۔ اس کے پتے پرانے ہوگئے تھے اور گرنے کے قریب تھے۔ بعض بعض پتوں کے بیچ میں جال سے کھل گئے تھے جن کے پیچھے کھلی فضا کی سفیدی نظر آرہی تھی۔ مجھے کئی بار ان کھلی ہوئی جگہوں پرکسی سفید پرندے کا شبہہ ہوا۔ آخر میرے ساتھی نے میرے پہلو میں کہنی مارکر انگلی سے اوپرایک طرف اشارہ کیا۔ تین چار بڑے پتوں میں کچھ چھپے ہوئے اورکچھ دکھائی دیتے ہوئے بدن پر شروع میں مجھے فضا کی سفیدی کا گمان ہوا پھر اس سفیدی کے ایک طرف کٹاؤ دار پروں کی ترتیب نظر آئی۔ پرندہ بہت بلندی پرنہیں تھا اوراس کا منھ پتوں میں چھپا ہوا تھا۔ میں نے اپنے ساتھی کو اشارے سے بتایا کہ میں درخت پر چڑھنے جا رہا ہوں۔ اس نے اشارے سے مجھے روکنے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک میں تنے پر ایک پاؤں رکھ چکا تھا۔

    اس درخت پراس دن سے پہلے میں صرف ایک بار اپنے ساتھیوں سے شرط لگا کر چڑھا تھا لیکن کچھ دور تک جاکر اتر آیا تھا، اس لئے کہ میرے سب ساتھی مجھے شرط جیتتے دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے، لیکن مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ بدن کا زیادہ بوجھ ڈالے بغیر درخت کے اوپرتک پہنچاجاسکتا ہے۔ اسی اندازے سے کام لیتے ہوئے میں نے موٹی شاخوں کے سہارے سے اوپرکی طرف بڑھنا شروع کیا۔ آخر میں اتنی بلندی پرپہنچ گیا کہ پرندہ میرے داہنے ہاتھ کی زدمیں آ سکتا تھا۔ میں نے بائیں ہاتھ سے ایک شاخ کوحلقے میں لیا اور اس کے نیچے والی شاخ پرمضبوطی سے پیر جما کر اپنے پورے بدن کو پرندے کی سمت جھکایا۔ اس کا صرف ایک طرف کا بازو دکھائی دے رہا تھا اور میں اس کے دونوں بازوؤں کو ایک ساتھ گرفت میں لینا چاہتا تھا تاکہ وہ پھڑپھڑا نہ سکے۔

    اس کوشش میں میرا ایک پیر نیچے والی شاخ پر تھوڑا آگے بڑھا اور شاخ آہستہ سے چرچرائی۔ نیچے سے میرے ساتھی نے پکارکرکچھ کہا۔ میں نے ایک جھٹکے سے دونوں پیر اٹھاکر اوپر والی شاخ کو اپنے ہاتھ کے حلقے میں جکڑ لیا۔ میرا دوسرا ہاتھ پرندے سےکچھ اوپر تھا۔ نیچے والی شاخ پھر چرچرائی اور پورا درخت ایک ساتھ ہلا۔ میرے ساتھی نے پھر پکار کر کچھ کہا لیکن اتنی دیر میں پرندہ میری مٹھی میں آ چکا تھا۔ میں نے چرچراتی ہوئی شاخ کو دیکھا اور نیچے اترنے کے لئے کئی اور شاخوں پرباری باری پیر ٹکایا لیکن میرا پیر لگتے ہی ان کی کمزوری ظاہر ہوتی تھی۔ پرندے والےہاتھ کومیں سیدھا آگے پھیلائے ہوئے تھا اور اس میں رہ رہ کر کھجلی سی دوڑتی محسوس ہو رہی تھی۔ صرف ایک ہاتھ کی مدد سے کسی طرح تنے پر پھیلتا ہوا میں نیچے آیا اور زمین پر پہنچ کر مشکل سے اپنا توازن قائم رکھ سکا۔ میرا ساتھی کنویں کا چکر کاٹ کر میری طرف آ رہا تھا کہ بڑی شاخ تیز چرچراہٹ کے ساتھ کنویں کے دہانے سے مل گئی، اور میرا ساتھی اس کی زد میں آگیا۔ میں نےاسے پکڑ کر ایک طر ف کھینچا اورہم کنویں سے دور ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔

    ’’مل گئی؟‘‘ میرے ساتھی نے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے پوچھا۔ میں نے اپنی مٹھی کی طرف دیکھا۔ میرے ہاتھ پر چھوٹی چھوٹی لال چیونٹیاں دوڑرہی تھیں اورپرندہ کئی دن کا مرا ہوا اور اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس کے نوکیلے پنجوں میں پتوں کے کھلے ہوئے جال کا کچھ حصہ الجھا ہوا تھا۔ گردن سینے پرجھکی ہوئی اور آنکھیں بہہ چکی تھیں۔ مجھے اپنی محنت کے رائیگا ں جانےکا افسوس ہوا۔ پرندے کومیں نے اپنے ساتھی کی طرف اچھال دیا اور اپنے ہاتھ پر رینگتی ہوئی چیونٹیوں کوپھونکیں مار مار کر اڑانے لگا۔ اس وقت مجھے اپنے ساتھی کی گھٹی ہوئی چیخ سنائی دی۔ پرندہ زمین پر پڑا ہوا تھا اور میرے ساتھی کا ایک پیر اس کے اوپر جم کر رہ گیا تھا۔ تب مجھے یاد آیا کہ وہ مردہ چیزوں سے ڈرتا ہے اور جب اسے ڈرلگتا ہے تو اس کا بدن شل ہو جاتا ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کو آہستہ سے اپنی طرف کھینچا۔ کچھ دیرگم صم رہنے کے بعد وہ چونکا اور مجھےحیرت سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا اور کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میں اس کی طرف بڑھا لیکن وہ اچانک مڑا اور بھاگتا ہوا عقبی دروازے سے باہر نکل گیا۔

    میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا، لیکن دروازے تک پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ میں نے پرندے کو ٹھیک سے نہیں دیکھا، اس لئے میں واپس ہوا۔ پرندے کے قریب پہنچ کر میں اس پر جھکا۔ میرے ساتھی کے پیر کی داب سے وہ چپٹا ہوگیا تھا اور اگر اس کے نیچے نرم مٹی کی جگہ لکڑی کا تختہ ہوتا تو میں یہی سمجھتا کہ میں نے بڑے کمرے والی کافوری چڑیا کی غلط سلط نقل تیار کرلی ہے۔

    (۳)

    اس کے بعد سے کافوری چڑیا میں میری دلچسپی ختم ہوگئی اور میں پھر سے دوسری چیزیں بنانےمیں لگ گیا۔ جب میں بہت چھوٹا تھا اس وقت بھی میری عادت تھی کہ ادھر ادھر کی بے جوڑ چیزوں کو کسی طرح آپس میں جوڑکر سب سے پوچھا کرتا تھا کہ میں نے کیا چیز بنائی ہے۔ گھر والے کسی چیزکا نام لے دیتے اور مجھ کو یقین آجاتا کہ میں نے واقعی وہی چیزبنالی ہے بلکہ میں یہ بھی یقین کر لیتا کہ مجھے پہلے ہی سے اس چیز کے بنانے کا خیال تھا، اور میں اپنی کاریگری کے نمونے کو نمائش کےلئے بڑے کمرے میں آتش دان پر سجا دیتا اور اسے کافوری چڑیا سے کم نہ سمجھتا تھا۔

    میں اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو کھلونا ماننے پر تیار نہ ہوتا بلکہ ایک بارجب میں نے لکڑی کے دوتین ٹکڑوں کوآپس میں باندھا اور مجھے بتایا گیا کہ میں نے بہت عمدہ گاڑی بنائی ہے تو میں کئی دن تک ضد کرتا رہا کہ میرے گھر والے اسی گاڑی پر سوار ہوکر باہرجایا کریں، لیکن اپنی بنائی ہوئی ہر چیز کو میں کچھ دن بعد بھول جاتا اور آخر اسے آتش دان پرسے ہٹا دیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ میرے پاس ٹوٹے پھوٹے پرانے اوزاروں کا ذخیرہ اور ایسا سامان اکٹھا ہوگیا تھا جس سے میں مختلف چیزیں بنا لیتا تھا۔ اصل سے ان چیزوں کی مشابہت برائے نام ہوتی تھی، پھر بھی ان کو پہچانا جا سکتا تھا۔ چھوٹے کمرے میں میرے پلنگ کے نیچے طرح طرح کے اوزار، لکڑی کے ٹکڑے، خوش رنگ کپڑوں کی کترنیں، ٹین کی پتیاں، لوہے کے تار وغیرہ اور بعض پھلوں کی گٹھلیاں تک جمع رہتی تھیں اورمیں اندھیرے میں بھی پلنگ کے نیچے ہاتھ ڈال کر اس انبار میں سے جو چیز چاہتا نکال سکتا تھا۔

    کافوری چڑیا بنانے کے جوش نے مجھے اس سامان سے غافل کردیا تھا مگر اب میں پہلے سے زیادہ شوق کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وقت بے وقت میرے کمرے سے ٹھونکنے پیٹنے کی آوازیں اٹھ کر دوسروں کے آرام میں خلل ڈالتی تھیں لیکن مجھ پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوئی اس لئے کہ میں اس گھر کا لاڈلا بیٹا تھا، البتہ اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے جب میں ہی اپنے ہاتھ زخمی کرلیتا تو میرا کام دو ایک روز کے لئے خود بخود رک جاتا تھا۔ جب میں بار بار زخم کھانے لگا تو میرے کمرے میں مستقل طور پر کافور کے مرہم کی ایک بڑی شیشی رکھ دی گئی، حالاں کہ یہ مرہم صرف سنگین چوٹوں اور پرانے زخموں کے لئے تھا۔ میرے زخم معمولی اور وقتی ہوتے تھے اور کوئی بھی بازاری مرہم انہیں ٹھیک کر سکتا تھا لیکن میں، جیسا کہ میں نے کہا، اس گھر کا لاڈلا بیٹا تھا۔ میری بنائی ہوئی چیزیں میرے کہے بغیر آتش دان پر سجادی جاتیں اور مہمانوں کوخاص طور پر دکھائی جاتیں۔

    کبھی کبھی جب میری سمجھ میں نہ آتا کہ اب کیا چیزیں بناؤں تو میں اپنے مکان کی چھت پرچلاجاتا جہاں سے احاطے کے دوسرے مکان کی چھت اور عقبی صحن کی دیوار صاف نظر آتی تھی۔ ہوا کے نرم جھونکوں کے ساتھ مجھے کبھی کبھی کسی مانوس یا نامانوس خوشبو کی لپٹ سی محسوس ہوتی اور اسی کے ساتھ میرے ذہن میں کوئی نہ کوئی تصویر سی بن کر لمحہ بھر میں غائب ہوجاتی تھی۔ ان بنتی بگڑتی تصویروں کو دیکھتے دیکھتے اچانک میں کوئی چیز بنانے کا فیصلہ کر لیتا تھا اورتیزی سے نیچے اتر کر اپنے کمرے میں بند ہو جاتا۔

    ایک دن میں مکان کی چھت پرکھڑا ان بادلوں کو دیکھ رہا تھا جو تیز دھوپ اور گرم ہواؤں کے طویل موسم کے بعد صبح سے آسمان پر جمع ہورہے تھے۔ اس وقت بھی میرا وہی ساتھی جو مردہ پرندے سے ڈر گیا تھا، میرے پاس کھڑا تھا۔ ہم دونوں کو موسم کی پہلی بارش میں بھیگنے کا شوق تھا اور پانی برسنے کے آثار دیکھ کر وہ مجھے تلاش کرتا ہوا چھت پرآگیاتھا۔ ہم بادلوں کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں سے بننے والی شکلوں کو پہچان رہےتھے۔ ان ٹکڑوں کے پیچھے کہیں کہیں آسمان کی نیلاہٹ جھلک رہی تھی لیکن دیکھتے دیکھتے ان سب ٹکڑوں نے مل کر گہرے سرمئی رنگ کی ہموار تنی ہوئی چادر کی شکل اختیار کرلی۔ میں ہوا چلنے اور پانی برسنے کا انتظار کر رہا تھا اور اس انتظار میں اپنے ساتھی کو فراموش کرچکاتھا۔ کچھ دیر بعدہوا کے چھوٹے چھوٹے جھونکے ادھر سے ادھر ہونا شروع ہوئے۔ انہیں جھونکوں میں سے کسی کے ساتھ مجھے ایک برف کی سی ٹھنڈی خوشبو کا احساس ہوا، لیکن یہ خوشبو نتھنوں بجائے میری آنکھوں سے ٹکرائی اورایک سفید ڈورے کے سرے کی طرح میرے سامنے سے اوپر کھنچ کر غائب ہوگئی۔ اسی وقت مجھے اپنے ساتھی کی آواز سنائی دی، ’’ویسی ہی معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    وہ اوپر دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی اوپر دیکھا۔ ہمارے سروں کے اوپر ایک پرندہ منڈلا رہا تھا اور سفید ڈورا اس کے ساتھ ساتھ گردش کررہا تھا۔

    ’’یہ ڈورا کیسا ہے؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔

    ’’کہیں سے لائی ہوگی۔‘‘ میرا ساتھی بولا، ’’ گھونسلہ بنانے کے لئے۔‘‘

    پرندہ کچھ نیچے ہوکر پھر چکر کھاتا ہوا اوپر اٹھا۔

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’ڈورا اس کے پنجے میں بندھا ہواہے۔‘‘

    ’’تو کہیں سے چھوٹ کے آئی ہوگی۔‘‘ میرا ساتھی بولا۔‘‘ معلوم نہیں کس کی ہے۔‘‘

    اس کے بعد ہم دونوں اسے خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہے۔ اس کی اڑان سے تھکن ظاہر تھی۔ آہستہ آہستہ پرمارتا ہوا وہ چھت کے آس پاس منڈلا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بیٹھنے کے لئے جگہ تلاش کررہا ہے۔ آخر وہ ہمارے بائیں ہاتھ کی برجی پر اترا۔ وہ اپنےسامنے دور کی کسی چیز کو دیکھتا معلوم ہورہا تھا اور بظاہر ہماری موجودگی سے بے خبرتھا۔ میں نے اپنے ساتھی کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور بہت دھیرے دھیرے برجی کی طرف بڑھنے لگا۔ برجی کے قریب پہنچ کر میں رکا۔ پرندہ اب نظر نہیں آرہا تھا لیکن ڈورا میرے سامنے لٹک رہا تھا اور میرا ہاتھ اس تک پہنچ سکتا تھا۔ میں نے مڑکر اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور ایک بارپھر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا لیکن اسی وقت مجھے پروں کی آواز سنائی دی اورجب میں برجی کی طرف مڑا تو ڈورے کا سرااوپر اٹھ کر میری پہنچ سے باہر ہو چکا تھا۔ میں اپنے ساتھی کے پاس واپس آگیا۔ پرندہ اب تیز رفتار سے دوسرے مکان کی طرف جا رہا تھا، لیکن ایک سیدھ میں اڑنے کے بجائے وہ کبھی داہنی طرف مڑ جاتا، کبھی بائیں طرف، جیسے کوئی زمین پر لڑکھڑاتا ہوا دوڑ رہا ہو، اور سفید ڈورا اس کے پیچھے سانپ کی طرح لہریں لے رہا تھا۔

    ’’ویسی ہی ہے نا؟‘‘ میرے ساتھی نے پوچھا۔

    میں کوئی جواب دیے بغیر پرندے پر نظریں جمائے رہا۔ اب وہ اس مکان کے صحن کی دیوار پار کر کے ایک جگہ پر چکر کھا رہا تھا اور ہرچکر کے ساتھ کچھ نیچا ہو جاتا تھا۔ آخر وہ دیوار کے پیچھے ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ کچھ دیر بعد وہ اسی جگہ پر ابھرا۔ اس نے تیزی سے پر پھڑپھڑائے اورپھر نیچے بیٹھ گیا۔ پھر وہیں پرابھرا۔ دیر تک ہوا میں ایک ہی جگہ پرٹکا ہوا پر پھڑپھڑاتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ نیچے جھکتا ہوا غائب ہوگیا۔ ہم اس کے ابھرنے کا انتظار کرتے رہے، لیکن وہ پھر نہیں ابھرا۔

    ’’یہ وہاں کیا کر رہی ہے؟‘‘ میرا ساتھی دیوار کے پار نظریں جمائے جمائے بولا۔ مجھے بادلوں کی ہلکی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور گہرے سرمئی آسمان پر کئی جگہ بجلی کے لہریے بن کر غائب ہوگئے۔ اسی وقت مجھے خیال آیا اور اسی وقت میرے ساتھی نے کہا، ’’وہاں پر کنویں والا پیڑ ہے۔‘‘

    ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور چپ ہور ہے۔ اوپر گڑگراہٹ کی آواز نےپہلو سے بدلے، پھر نیچے جھکی اور زمین کو چھو کر آہستہ آہستہ اٹھتی ہوئی آسمان میں گم ہوگئی۔ میں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’چلو۔‘‘ میں نے کہا، ’’اسے چھڑا دیں۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ وہ بولا اور اپنا ہاتھ چھڑانے لگا۔

    ’’چلو۔‘‘ میں نے پھر کہا۔

    ’’نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’ہم وہاں نہیں جائیں گے۔‘‘

    ’’وہ مردہ تھوڑی ہے، ’’ میں نے کہا، ’’ لیکن اگرپانی برس گیا۔۔۔‘‘

    لیکن اتنی ہی دیر میں اس کا ہاتھ ٹھنڈا ہونے لگا تھا اور وہ گم صم ہوکر میری طرف دیکھ رہا تھا۔

    ’’اچھا رہنے دو۔‘‘ میں نے کہا اور اسے وہیں چھوڑ کر نیچے اتر آیا۔

    فضا میں ابھی گرمی تھی اوردرخت کے بڑے پتے لٹکے لٹکے سے نظر آرہے تھے لیکن ان کی روئیں دار سطح پرجمی ہوئی گرد کے نیچے سبزی جھلکنےلگی تھی۔ میں کنویں کا آدھا چکر کاٹتا ہوا درخت کے نیچے آگیا۔ اس کے پتوں میں کوئی جنبش یا آواز نہیں تھی، لیکن مجھے یقین تھاکہ پرندہ انہیں پتوں میں بلندی پر کہیں چھپا ہوا ہے، اس لئے میں دیر تک اسے تلاش کرتا رہا۔ آخر مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی اڑگیا ہوگا، مگرجب میں درخت کے نیچے سے ہٹ رہا تھا تو اس کے پتوں میں ہلکی سی آوازپیدا ہوئی جومیری پہچانی ہوئی نہیں تھی، پھر بھی میں نے فوراً فیصلہ کرلیا کہ یہ پتوں سے پروں کے رگڑ کھانے کی آواز ہے۔ میں رک کر اوپر دیکھنے لگا۔ آواز پورے درخت سے آتی معلوم ہورہی تھی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ بارش خاموشی کے ساتھ شروع ہو چکی ہے۔ کچھ دیر اور ٹھہر کر میں کھلے میں آگیا۔ ایک فاصلے پر پہنچنے کے بعد میں نے گھوم کر درخت کو دیکھا۔

    وہ بدل رہا تھا۔ اس کے روئیں دار پتوں پرسبزلکیریں ڈالتی ہوئی بوندیں گدلی ہوہوکر نیچے گررہی تھیں اورلٹکے ہوئے پتے آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہےتھے۔ اچانک بارش تیز ہوگئی اور میں عقبی دروازے کی طرف مڑا۔ مٹی کی ہلکی خوشبو میرے نتھنوں سے اور اسی کے ساتھ پھڑپھڑاہٹ کی تیز آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ میں نے پھر گھوم کر درخت کی طرف دیکھا۔ پرندہ اس سے ذرا اوپر ہوا میں ایک ہی جگہ پر ٹھہرا ہوا پر پھڑپھڑا رہا تھا۔ پانی کی موٹی بوندیں تیزچلتے ہوئے پروں سے ٹکراکر اس طرح بکھرتی تھیں کہ پورا پرندہ ایک سفید سی دھند میں لپٹا ہوا معلوم ہوتاتھا۔ ان تھرتھراتی ہوئی دھندکےہر طرف لگاتار گرتی ہوئی بوندوں نے آسمان سے زمین تک سفید ڈورے سے تان دیے تھے۔

    پورا صحن گیلا ہوگیا تھا۔ سوکھی مٹی پربارش کے پہلے چھینٹے کے ساتھ اٹھنے والی مانوس خوشبو ختم ہوچکی تھی اور اب زمین کی پرتوں میں دفن خوشبوئیں ابھررہی تھیں۔ میرے پیروں کے پاس خوشبوئیں زمین سے اٹھتیں، کچھ دیر ایک جگہ پر منڈلاتیں، پھر بارش کے تھپیڑے کھاکر بیٹھ جاتیں، لیکن میں نے ان پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ میں درخت کودیکھ رہا تھا جس کے اوپر تھرتھراتی ہوئی دھند اور دھند میں سے آتی ہوئی پروں کی آوازاب غائب تھی۔ درخت کے پتے دھل کر گہرے سبز اور تنا سیاہ ہوگیا تھا۔ بارش اور تیزہوئی تو پورا درخت دھندلاگیا۔ اور مجھے احسا س ہوا کہ میں کپڑوں سمیت بھیگ رہا ہوں۔ میں عقبی دروازے کی طرف لپکا ہی تھا کہ ہوا بھی تیزہوگئی۔ سردی سے میرا پورا بدن تھرتھرایا اور دروازہ مجھے بہت دور معلوم ہونے لگا۔ میں پلٹ کر اس کے مخالف سمت دوڑتا ہوا ٹین کے اس پتلے لمبے سائبان کے نیچے آگیا جو مکان کے اندرونی درجوں سے متصل تھا۔ سائبان سے گرتی ہوئی دھاروں نے میرے سامنے ایک پردہ لٹکا دیا تھا جس کے اس پار صحن میں بارش کی پھواریں سفیددھویں کی بڑی چادروں کی طرح ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پھیلتی سمٹتی اور الٹ پلٹ ہوتی ہوئی ادھر ادھر اڑتی پھر رہی تھیں۔

    ہوا سائبان کے نیچے بھی تھی اور اس کاٹین لرز رہا تھا۔ سردی مجھے اپنی ہڈیوں میں اترتی محسوس ہوئی اور میں نے بوچھار سے بچنے کے لیے ادھر ادھر دیکھا۔ میری پشت پر تین دروازے تھے جن کے پٹ اوپر سے گول تھے اور ان میں نیلے شیشے لگے ہوئے تھے۔ مکان میرا کئی مرتبہ کادیکھا ہوا تھا اورمجھے معلوم تھا کہ ان دروازوں کے پیچھے تین آتش دانوں والا بڑا کمرہ ہے۔ مجھے یاد آیا کہ بہت بچپن میں جب کبھی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اس کمرے میں آتا تھا تومیری ضد پر کوئی نہ کوئی مجھے گود میں اٹھاکر میرا چہرہ بیچ والے دروازے کے شیشے سے لگا دیتا اور میں صحن میں پھیلی ہوئی نیلاہٹ کودیکھ کر خوش ہوتا تھا۔

    پھر مجھے اس مکان میں آکر رہنے والا آخری خاندان یادآیا۔ وہ چھ سات لوگ تھے جو زیادہ تر الگ الگ گردن جھکائے چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے۔ عورتیں گھر کا کوئی کام کرنےاٹھتیں، واپس اپنی جگہ پر آتیں اور گردن جھکا کر بیٹھ جاتیں، مرد کام پر سے واپس آتے، خاموشی کے ساتھ کسی کمرے میں چلے جاتے، لباس بدل کر نکلتے اور گردن جھکاکر بیٹھ جاتے، ایک لڑکی دوسری لڑکی سے کچھ پوچھتی، دوسری جواب دیتی، پھر دونوں چپ ہوکر گردن جھکا لیتیں۔ وہ سب لوگ مجھے کسی دھندمیں لپٹے معلوم ہوتے تھے۔

    اس زمانے میں کئی بار مجھے اس مکان میں آناپڑا تھا۔ ہربار میں غصے اور کوفت میں بھرا ہوا واپس جاتا، اپنے یہاں پہنچ کر ان لوگوں کے بیٹھنے کی نقل اتارتا اور کہتا کہ اب سے مجھے اس مکان میں نہ بھیجا جائے۔ اس پرمیرے گھر والے ہنستے اور دوہی تین دن بعد کوئی نہ کوئی کام نکال کر مجھے پھر ان لوگوں کے یہاں بھیج دیتے تھے۔ ایک دن وہ لوگ بلااطلاع مکان خالی کرکے چلے گئے۔ اس کے بعد سے یہ مکان اسی طرح خالی پڑا تھا۔ اس کا آتش دان والا کمرہ بھی شاید اسی وقت سے کھولا نہیں گیا تھا اور اس وقت میں اس کے باہر کھڑا بوچھار میں بھیگ رہا تھا۔

    سردی میری برداشت سے باہر ہونے لگی تو میں نے اس کے تینوں دروازوں کوباری باری پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر دروازے اندرسے بند نہ ہوتے تو زور پکڑتی ہوئی ہو اسے کب کے کھل چکے ہوتے۔ ہوا نے اور زور پکڑا اور سائبان سے گرتا ہوا پانی اندر کی طرف مڑگیا۔ اس پانی کے ساتھ ٹین پر مدتوں سے جمع ہوتا ہوا کوڑا بھی آرہا تھا۔ مجھے اپنے کپڑوں پر کئی جگہ سیاہی مائل دھبے نظر آئے۔ میں سائبان کے نیچے سے نکلا اور دوڑتا ہوا درخت کے نیچے آگیا۔ اس وقت مجھ کو پھر اس پرندے کا خیال آیا اور بے سود سمجھتے ہوئے بھی میں نے اوپر شاخوں میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن میری آنکھوں میں پانی بھرگیا۔ اسی وقت درخت آہستہ سے چرچرایا اور میں محض اندازے سے سائبان کی طرف بھاگا۔

    وہ دن مجھے یہاں تک یادہے۔

    (۴)

    اس سال پانی بہت برسا، اتنا کہ پورا احاطہ دلدل بن گیا۔ بہت دن تک اس کی زمین خشک نہیں ہوئی اور خود روپودوں اورگھاس نے اسے ڈھک لیا۔ میرے مکان کا صدر دروازہ بند کر دیا گیا اور آنے جانے کےلئے وہ عقبی دروازہ استعمال ہونے لگا جو سڑک کی طرف کھلتا تھا۔ اس تمام مدت میں اپنا خالی وقت میں نے زیادہ تر اپنے کمرے میں گزارا۔ میرا شوق دیکھ کر مجھے عمدہ قسم کے نیے اوزار منگوا دیےگئے تھے جن کی مدد سے لکڑی کو تراشنا، سخت ٹین سے لے کر دبیز شیشے تک کوکاٹنا، لوہے کے موٹے تاروں کو موڑنا اور توڑنا اور چیزوں کوآپس میں جوڑنا میرے لئے بہت آسان ہوگیا تھا۔ میں نے چھوٹے چھوٹے مکان اور طرح طرح کی گاڑیاں بنائیں۔ پہلے اپنی بنائی ہوئی چیزیں کچھ دن بعد مجھے معمولی اور بھدی معلوم ہوتیں اورمیں انہیں ادھرادھر پھینک دیا کرتا تھا لیکن ان بارشوں کے دوران میں نے جو چیزیں بنائیں ان میں کئی ایسی تھیں جو بعد میں دیکھنے پر مجھے پہلے سے بھی زیادہ اچھی معلوم ہوئیں اور جب انہیں آتش دان پر سجایا گیا تو مجھ کو حیرت ہوئی کہ میں نے انہیں کب اور کس طرح بنایا تھا۔

    اسی زمانے میں ایک دن احاطے سے برساتی پودوں کو اکھاڑنے کےلئے مکان کا صدر دروازہ کھولا گیا تو میں نے دیکھا کہ احاطے کے بائیں طرف مٹی کا جو تودہ تھا اس کو پانی نے ایک چوتھائی سے زیادہ کاٹ دیا ہے اور اس کے اندر سے سفیدی مائل چکنی مٹی پانی کے ساتھ بہہ کرزمین پر کچھ دور تک پھیل گئی ہے۔ میں تود ے کے کٹے ہوئے حصے کو قریب سے دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو میرے پیراس مٹی میں چپکنے لگے اور جب میں نے ہلکے قدموں سے اس پرچلنا چاہا تو میرا پاؤں اس طرح پھسلا کہ اگرمٹی میرے دوسرے پیر کو پکڑ نہ لیتی تو میں بری طرح گرتا۔ احاطے کی صفائی کرنے والا بوڑھا مزدور اس وقت میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھے سنبھل کر چلنے کی تاکید کی اور بتایا کہ یہ نایاب قسم کی مٹی ہے اور اس سے بہت نازک چیزیں بنائی جا سکتی ہیں۔ اس نےیہ بھی بتایا کہ یہ مٹی کہیں باہر سے لائی گئی ہے اور یہ بھی کہ بہت پہلے اسی احاطے میں ایک شخص رہتا تھا جو اس مٹی کے چھوٹے چھوٹے پرندے بناتا تھا۔ بوڑھے مزدور نے اس شخص کا ذکر کرتے ہوئے دوسرے مکان کے عقبی دروازے کی طرف اشارہ کیا جس کے پہلو میں ایک ٹوٹی پھوٹی دیوار کے آثار اب بھی باقی تھے۔

    اسی وقت مجھے مٹی کے کام کا شوق پیدا ہوگیا اور میرے کہنے پرمزدور نے تودے کے اندر کی قدرے خشک مٹی کھود کھود کر مکان کی ڈیوڑھی میں اس کاچھوٹا سا ڈھیر لگا دیا۔ اس نے مجھے مٹی کے بھگونے اور تیار کرنے کا طریقہ بھی بتایا اور واپس جاکر اپنے کام میں لگ گیا۔ میں نے تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور اس کودونوں ہتھیلیوں کے بیچ میں دباکر دیکھا۔ اس میں ریت یا کنکر کی ذرا بھی آمیزش نہیں تھی اور اس پر میری ہتھیلی کی باریک سے باریک لکیر بھی صاف ابھر آئی تھی۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ مٹی میں سے کافور کی ہلکی سی لپٹ شعلے کی طرح اوپر لپکی اور غائب ہوگئی۔ میں نے ہتھیلی کو اپنے نتھنوں کے قریب کر کے ایک سانس لی، لیکن مجھے کوری مٹی کی ٹھنڈی خوشبو کے سواکچھ محسوس نہ ہوا۔ میں نے ایک اور گہری سانس کھینچی تو مجھے ہر طرف پھیلی ہوئی خاموشی کا احساس ہوا جسے مکان کے اندر پتھر کی سل پیسے جانے کی آواز کم کرنے کے بجائے بڑھا رہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں میں تھوڑی مٹی سمیٹی اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔

    اب میں مٹی کی بھی چیزیں بنانے لگا جس کے لئے کسی اوزار کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اچھی طرح گندھی ہوئی چکنی مٹی میرے کمرے کے ایک کونے میں ہمیشہ موجود رہتی۔ جانور اورپرندے مجھ سے نہیں بن سکے لیکن چھوٹے چھوٹے زیور اورعجیب عجیب وضعوں کے برتن وغیرہ میں آسانی سے بنا لیتا تھا۔ خشک موسم آتے آتے میں مٹی کی بہت سی چیزیں بنا چکا تھا، اورجب دھوپ نکلنےلگی تو میں نے ان چیزوں کو سکھانا، آگ میں پکانا اور رنگنا شروع کیا۔ اس میں کئی بار میں نے اپنے ہاتھ بھی جلا لئے۔ لیکن اس سے میرا کام نہیں رکا، اس لئے کہ جلنے کی تکلیف کا فور کا مرہم لگاتے ہی غائب ہو جاتی تھی، البتہ میری جلائی ہوئی آگ سے کبھی کبھی گھرکی دوسری چیزوں کو نقصان پہنچ جاتا، اس لئے مجھ کو گھر کے اندر آگ کا کھیل کرنے سے روک دیا گیا اور میں نے احاطے کے ایک کنارے پر اپنی چیزیں پکانے کا انتظام کر لیا۔

    میری خاطر مکان کا صدر دروازہ، جواب مستقل بند رہنے لگا تھا، کھول دیا جاتا تھا۔ تیزبارش نے احاطے کی کچی زمین کوجگہ جگہ سے کاٹ کراس میں گہری گہری نالیاں سی بنادی تھیں جنہوں نے صدر دروازے تک سواریوں کا بلکہ کم روشنی میں آدمیوں کا بھی پہنچنا دشوار کر دیا تھا، کچھ اس وجہ سے اور کچھ سڑک کے رخ کھلنے کی وجہ سے مکان کا عقبی دروازہ ہی اب صدردروازے کے طور پر استعمال ہونے لگا تھا اور احاطے میں زیادہ تر سناٹا رہتا تھا جس کی وجہ سے میں اطمینان کے ساتھ اپنا کام کر سکتا تھا۔

    ایک دن میں اپنے پکائے ہوئے برتنوں پرسے راکھ صاف کررہا تھا کہ مجھے کچھ سنائی دیا اورمیں نے گھوم کر دیکھا۔ دوآدمی احاطے میں داخل ہوئے تھے اور نالیوں سے کتراتے ہوئے صدر دروازے کی طرف جارہے تھے۔ میں نے انہیں اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ صدردروازے پر پہنچ کر وہ رکے۔ انہوں نے دستک نہیں دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مکان کے اندرداخل ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ کچھ دیر تک انہیں دیکھتے رہنے کے بعد میں نے اپنے سامنے رکھے ہوئے برتنوں کو آہستہ سے کھڑکھڑایا۔ اس طرح مجھے اندازہ ہو جاتا تھا کہ برتن پوری طرح پک گئے ہیں یا نہیں۔ آوازسن کر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے قریب آگئے۔ کچھ دیر تک وہ میرے بنائے ہوئے برتنوں کی طرف اورمیں ان کی طرف دیکھتا رہا۔ ان کے قد، چہروں کے رنگ اور ناک نقشے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے، لیکن ان میں کچھ ایسی مشابہت بھی تھی جس کی وجہ سے مجھے یقین ہوگیا کہ وہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ ان میں سے ایک نے صدر دروازے کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے پوچھا: ’’خالی مکان یہی ہے؟‘‘

    ’’جی نہیں، وہ ہے۔‘‘ میں نے کہا اور دوسرے مکان کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ اس کا دروازہ سڑک کی طرف ہے۔ یہ پچھلے صحن کا دروازہ ہے۔‘‘

    اس وقت میں نے دیکھا کہ دروازے کے پرانے ڈھیلے پٹوں کی جگہ نئی لکڑی کے پٹ لگادیے گئے ہیں اور دروازہ مضبوطی کے ساتھ اندر سے بند ہے۔

    ’’یہ مکان۔۔۔‘‘ اس نے پھر صدر دروازے کی طرف اشارہ کیا، ’’آپ یہیں رہتے ہیں؟‘‘

    میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    ’’یہ آپ ہی نے بنائے ہیں؟‘‘ اس نے برتنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

    میں نے پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔

    ’’بڑے خوبصورت کھلونے ہیں۔‘‘

    ’’یہ کھلونے نہیں ہیں۔‘‘

    ’’نہیں؟‘‘ وہ مسکرایا۔ ‘‘پھر؟‘‘

    ’’برتن ہیں۔‘‘

    ’’بہت خوبصورت برتن ہیں۔ اور کیا کیا بناتے ہیں آپ؟‘‘

    میں نے کئی چیزوں کے نام لئے۔

    ’’مگرکھلونے نہیں بناتے؟‘‘

    ’’آپ تو بڑے کاریگر معلوم ہوتے ہیں۔ ان سب چیزوں کا کیا کرتے ہیں؟‘‘

    ’’انہیں سجا دیا جاتا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’بانٹا بھی جاتا ہے۔‘‘

    ’’کچھ ہمیں بھی ملے گا؟‘‘

    ’’ان میں سے جواچھے معلوم ہوں لے لیجئے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ لیکن ابھی انہیں رنگنا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر بعد میں۔ ’’اس نے کہا اور پورے احاطے پر نظر دوڑائی۔

    ’’آپ لوگ اس مکان میں آرہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ہم دونوں تو گھومتے رہتے ہیں۔‘‘ وہ بولا۔‘‘ ہمارے گھر والے آرہے ہیں۔‘‘

    ’’ان میں کوئی میرے اتنا لڑکا ہے؟‘‘

    وہ ہنسا: ’’جی نہیں۔ بس دوتین عورتیں، باقی لڑکیاں ہی لڑکیاں۔‘‘ وہ پھر ہنسا، ’’اورسب آپ سے بڑی۔ لیکن۔۔۔‘‘ اس نے رک کر برتنوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ماہ رخ سلطان کوبھی اس طرح کی چیزوں کابہت شوق ہے۔‘‘

    اس نے ایک باراور پورے احاطے پر نظر دوڑائی، پھر بولا: ’’اچھا ہم ذرا مکان دیکھ لیں۔‘‘

    وہ دونوں مڑنے لگے تومیں نے سلام کے لئے ہاتھ اٹھایا اور یہ سوچ کر شرمندہ ہوا کہ پہلے میں نے انہیں سلام نہیں کیاتھا۔ جب وہ احاطے سے نکل گئے اور میں اپنے کام میں لگ گیاتو مجھے خیال آیا کہ ساری گفتگو ان میں سے ایک ہی نے کی تھی۔ اسی وقت مجھے پھر کچھ سنائی دیا اور میں نے پھر گھوم کر دیکھا۔ دوسرا آدمی جوابھی تک نہیں بولا تھا، میرے قریب کھڑا ہوا تھا۔ میری طرف دیکھے بغیر اس نے پوچھا: ’’آپ لوگ علاج کس سے کراتے ہیں؟‘‘

    میں نے اپنے یہاں کے معالج کا نام بتا دیا۔

    ’’وہ کہیں دور رہتے ہیں؟‘‘

    ’’قریب ہی میں۔‘‘ میں نے بتایا او ر پوچھا، ’’ کیا آپ کے یہاں کوئی بیمار ہے؟‘‘

    ’’نہیں’’ اس نے کہا، پھردھیرے سے کچھ اور بھی کہا جومیری سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کےبعدوہ خاموشی سے واپس چلا گیا۔

    جب میں نے اپنے گھروالوں کوخبردی کہ اس مکان میں نئے رہنے والے آرہے ہیں تو مجھے پتہ چلا کہ یہ خبرسب کوپہلے ہی سے معلوم ہے اوریہ بھی کہ اس مکان کی مرمت اور درستی کاکام بہت دن سے جاری ہےاوراب ختم ہونے کے قریب ہے۔ البتہ مجھ سے ان دونوں آدمیوں کے بارے میں کئی سوال کئے گئے جن میں سے میں نے احاطے میں گفتگو کی تھی۔ ظاہر ہے میں وہ گفتگو دہرانے کے سوا ان کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکا۔ میرے گھر والوں کوبھی صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سگے بھائی تھے اور کسی اورملک کے رہنے والے تھے جنہوں نے بچپن ہی میں اپناوطن چھوڑ دیا تھا۔ میں نے بتایاکہ وہ دیکھنے میں غیرملکی نہیں معلوم ہوتے تھے اور بڑے کمرے میں چلا آیا۔

    آتش دان پر رکھی ہوئی اپنی چیزوں کومیں نے قرینے سے سجایا۔ مجھے بار بار ان چیزوں کی ترتیب بدلناپڑی۔ آخر اطمینان ہوجانے کے بعد میں کئی قدم پیچھے ہٹا۔ اب وہاں پر سب سے نمایاں چیز کافوری چڑیاہی تھی۔ بہت دن بعدمیں نے پھر اسے غور سے اوردیر تک دیکھا۔ وہ زندہ معلوم ہورہی تھی۔ کئی باروہ مجھے شاخ سے اوپر اٹھتی اورنیچے آتی محسوس ہوئی۔ مجھے پھراحساس ہواکہ وہ بہت آسانی سے بنالی گئی ہوگی، اور پھر تعجب ہوا کہ میں اسے کیوں نہیں بنا پایا۔ مجھے اس پر بھی تعجب ہوا کہ میں نے اس کا کوئی اچھا سا انسانی نام کیوں نہیں سوچا۔ پھر میرا تعجب ہلکے سے پچھتاوے میں بدل گیا۔ اگرسب اسے کافوری چڑیا نہ کہنے لگے ہوتے، میں نے افسردگی کے ساتھ سوچا، تو میں اس کا نام ماہ رخ سلطان رکھتا۔

    (۵)

    ماہ رخ سلطان کومیں نے اسی ہفتے دیکھا۔ اس دن صبح سے میں اپنے کمرے میں پھیلے ہوئے سامان کی ترتیب درست کررہاتھا۔ میرے پلنگ اوراس کے مقابل کی دیوار سے لگی ہوئی میز پر میری بنائی ہوئی چیزیں ڈھیر تھیں۔ زمین پر اوزار پھیلے ہوئے تھے اور میں پلنگ کے نیچے ہاتھ ڈال ڈال کر دوسرا سامان باہر نکال رہا تھا۔ اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ بڑے کمرے میں ایک ساتھ بہت سے مہمان آگئے ہیں۔ میں نے ذرا پیچھے ہٹ کر ادھ کھلے دروازے پر لٹکتے ہوئے باریک پردے کے دوسری طرف دیکھا۔ بڑے کمرے میں مجھ کو لڑکیاں ہی لڑکیاں نظر آئیں جو سب عمر میں مجھ سے بڑی تھیں۔ میں نے ان کے رنگ برنگے لباسوں کا قدرے دلچسپی سے جائزہ لیا، پھراپنے کام میں لگ گیا لیکن بڑے کمرے سے آتی ہوئی آوازیں مجھ تک پہنچ رہی تھیں۔ کرخت آواز والی کوئی بڑی بی اتنی تیز رفتاری سے بول رہی تھیں، جیسے انہیں اپنا ہر اگلا جملہ بھول جانے کا اندیشہ ہو۔ کبھی وہ سامان کی زیادتی کی وجہ سے کسی سفر میں ہونے والی پریشانیوں کی تفصیل بتاتیں، کبھی کسی مکان کا نقشہ کھینچتیں جیسے چھوڑ کر آرہی تھیں، کبھی اپنے موجودہ مکان کی اچھائیوں اوربرائیوں کا تذکرہ کرتیں۔

    میرے گھر کی عورتیں زیادہ تر ان کی تائید کر رہی تھیں، البتہ خود ان کے ساتھ کی لڑکیوں میں سے کوئی ان کی کسی بات میں مبالغہ بتا کرہنسنے لگتی تھی۔ پھر مجھے نام سنائی دینا شروع ہوئے۔ بڑی بی غالباً لڑکیوں کا تعارف کرا رہی تھیں، ماہ رخ سلطان، سیم تن سلطان، دل افزاسلطان، زرتاج سلطان، پری پیکر سلطان وغیرہ۔ میرے یہاں کی عورتیں ان ناموں کی تعریفیں کررہی تھیں اور لڑکیاں بار بار ہنس رہی تھیں، پھر ان کی ہنسی حیرت اور خوشی کی چیخوں میں بدل گئی۔ آوازوں سے مجھے اندازہ ہواکہ وہ کافوری چڑیا کے سامنے کھڑی ہیں۔ پھر اسے بنانے والی کاذکر آیا اور آوازیں کچھ دھیمی ہوئیں۔ تھوڑی دیر بعد پھرحیرت اور خوشی کی چیخیں بلند ہوئیں۔ اب آتش دان پرسجی ہوئی ان چیزوں کے نام لئے جارہے تھے جو میں بنائی تھیں۔

    یہ شروع میں مجھ کو اچھا معلوم ہوا، پھر یہ سوچ کر گھبراہٹ ہونے لگی کہ مجھے اس مجمع کے سامنے پیش ہونے کے لئے بلانہ لیاجائے۔ میں بڑے کمرے کی طرف والا ادھ کھلا دروازہ بند کرنے کے لئے آہستہ سے اٹھا لیکن اس کوشش میں باریک پردے کے پیچھے میرا دیکھ لیا جانا یقینی تھا۔ میں تذبذب میں گرفتار تھاکہ مجھے اپنے سامنے لوہے کے موٹے تار کاایک خم کھایا ہوا ٹکڑا نظر آیا اور میں نے بڑھ کر اسے اٹھا لیا۔ اسی وقت آتش دان کے قریب سے آواز آئی: ’’ماہ رخ سلطان! تم نے اسے نہیں دیکھا؟ بالکل زندہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    میں نے تار کے ٹکڑے کو اپنے گھٹنوں پردباکر اس کا خم دور کیا اوراس کی مدد سے دروازہ بند کرنے کے لئے آگے بڑھنا شروع کیا تھاکہ مجھے بڑے کمرے میں اچانک پھیل جانے والی خاموشی کا احسا س ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب وہاں کوئی نہیں ہے۔ کچھ غور کرنے پرمجھے لباسوں کی سرسراہٹ اور سرگوشیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہاں کیا باتیں ہورہی ہیں۔ میں نے تار کا ٹکڑا دروازے کی طرف بڑھایا تھا کہ اس کے دونوں پٹ پورے کھل گئے اور میری ایک عزیزہ پردہ ہٹا کر میرے کمرے میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے ہرطرف بکھرے ہوئے سامان کو ایک نظر دیکھا۔ پھر میرے پلنگ کے قریب گئیں اور اس پرپڑی ہوئی چیزوں کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے بولیں: ’’یہ سب ہٹاؤ، اور تم باہر جاؤ، جلدی۔‘‘

    میں نے احتجاج کرنا شروع ہی کیا تھا کہ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر مجھ کو خاموش کردیا۔

    ’’ماہ رخ سلطان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’وہ یہاں آرام کریں گی۔‘‘

    اور انہوں نے خودہی پلنگ پرکی چیزیں اٹھا اٹھا کر میز پر ڈھیر کرنا شروع کردیں۔ میں ان کا ہاتھ بٹانے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔ وہ مجھے اپنا سامان قرینے سے رکھنے کے فائدے بتاتی اور پلنگ کا سامان ہٹاتی جاتی تھیں۔ پلنگ کا ایک پایہ زمین سے تھوڑا اٹھا ہوا تھا اور فرش سے بار بار اس کے ٹکرانے کی آواز آ رہی تھی۔ میں اس کے نیچے رکھنے کے لئے میز پر لکڑی کا کوئی ٹکڑا تلاش کر رہا تھا کہ دروازے کے پاس ایک اور عزیزہ کی آواز سنائی دی: ’’آئیے۔ ’’ وہ پردہ اٹھائے ہوئے کہہ رہی تھیں۔‘‘ یہاں لے آئیے۔‘‘

    مجھے دروازے پرعورتوں اور نوجوان لڑکیو ں کا جھرمٹ نظر آیا لیکن میرے کمرے میں صرف ایک لڑکی اورایک بڑی بی داخل ہوئیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیاکہ ان میں کون کس کو سہارا دے کر لا رہا ہے۔ البتہ لڑکی کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور بڑی بی گردن پھرپھرا کر کمرے کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے لڑکی کوپلنگ پر بٹھایا اور پلنگ کا اٹھا ہوا پایہ فرش سے ٹکرایا۔ لڑکی کا سر تھوڑا پیچھے کوڈھلکا ہوا لیکن نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں۔ بڑی بی نے ایک بارپھر پورے کمرے کاجائزہ لیا اور ان کی نگاہیں مجھ پرذرا اوپر کو رکیں۔ میں میز پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ میری عزیزہ نے میرے شانے کوآہستہ سے چھوکرمجھے باہر جانے کا اشارہ کیااورمیں کمرے کے دوسرے دروازے سے جو احاطے سے متصل نیچی دیواروں والےایک چھوٹے صحن میں کھلتا تھا، باہر نکل آیا۔ صحن سے احاطے میں پہنچنا مشکل نہیں تھا۔ میں دیر تک احاطے میں گھومتا رہا۔

    ماہ رخ سلطان کومیں غورسے نہیں دیکھ سکا تھا۔ مجھے صرف اتنا یاد آیاکہ ان کے سفید دوپٹے کا ایک پلو سر پرتھا، دوسرا ان کے پیروں تک پہنچ رہاتھا اور اس کا ایک کونا ان کے ایک ہاتھ کی مٹھی میں لپٹا ہوا تھا۔ میں کچھ بھول بھی رہا تھا، لیکن چکنی مٹی کے کٹے ہوئے تودے کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ جب وہ میرے برابر سے گزر رہی تھیں تومجھے کافور کی بہت ہلکی سی لپٹ محسوس ہوئی تھی۔

    احاطے میں گھومنے سے میرا جی بھر گیا تو میں پھر چھوٹے صحن میں داخل ہوا، اپنے کمرے کے دروازے کے پاس پہنچ کر میں نے کانوں پر زور دیا۔ اندر خاموشی تھی۔ دروازہ پورابند نہیں تھا، میں نے اسے تھوڑا اور کھولا۔ سامنے ہی مجھے اپنا خالی پلنگ نظر آیا، پھر بڑے کمرے سے آتی ہوئی باتوں کی آوازیں سنائی دیں اور میں دروازہ پورا کھول کراپنے کمرے میں آگیا۔

    ماہ رخ سلطان میزپرایک ہاتھ رکھے سیدھی کھڑی ہوئی تھیں۔ دوپٹے کا کونا اب بھی اس ہاتھ کی مٹی میں لپٹا ہواتھا۔ ان کے دوسرے ہاتھ میں مٹی کاایک ہار، جسے میں نے ابھی رنگا نہیں تھا، دھیرے دھیرے لرزرہا تھا۔ آہٹ سن کرانہوں نے میری طرف دیکھا اورگردن کے اشارے سے مجھے اپنے قریب بلالیا۔

    ’’یہ آپ ہی نے بنایا ہے؟‘‘ انہوں نے ہار کواپنے چہرے تک اٹھاکر پوچھا۔ ’’ بہت خوبصورت ہے۔‘‘

    میں جھینپا ہوا چپ کھڑا رہا۔

    ’’بہت خوبصورت ہے۔‘‘ انہوں نے پھر کہا، اور پوچھا۔ ’’یہاں یہ مٹی مل جاتی ہے؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’کسی نے باہر سے لاکر احاطے میں جمع کی تھی۔‘‘

    ’’کس نے؟ ’’

    ’’معلوم نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’وہ بہت پہلے تھا۔‘‘

    ’’اب نہیں ہے؟‘‘

    ’’شاید نہیں۔‘‘ میں نے کہا اور پھر کہا۔ ‘‘وہ بہت پہلے تھا۔‘‘

    اس کے بعد وہ دیر تک چپ چاپ ہار کو دیکھتی رہیں۔ اس کے بڑے بڑے گول دانے اور پھول مجھے اچانک بہت بدرنگ معلوم ہونے لگے اورمیں نے کہا: ’’اسے رنگنا باقی ہے۔‘‘

    ’’یوں ہی زیادہ اچھا معلوم ہو رہا ہے۔‘‘ ماہ رخ سلطان نے کہا۔

    پھرانہوں نے میزپررکھی ہوئی دوسری چیزوں، برتنوں، گاڑیوں اور مکانوں کو اٹھا اٹھاکر دیکھنا شروع کیا، مجھے اپنی ان عزیزہ پرکچھ کچھ غصہ آرہا تھا جنہوں نے مجھے سامان ترتیب سے رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے یہ سب چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ میزپر ڈھیر کردی تھیں۔ مجھے اس کا خیال نہیں آیاکہ یہ بے ترتیبی ماہ رخ سلطان ہی کی وجہ سے ہوئی تھی، مگرمیں نے دیکھا کہ ماہ رخ سلطان ایک ایک چیز کو اٹھا کر اس طرح واپس رکھتی ہیں کہ میز پر چیزوں کی ایک ترتیب بنتی جارہی ہے جو ان چیزوں کی ترتیب سے بہتر ہے جنہیں میں نے بڑے کمرے کے آتش دان پر سجایا تھا۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی گاڑی اٹھائی، کچھ دیر تک اس کے پہیوں کو دیکھتی رہیں پھر اسے میز پر رکھ کر تھوڑا سا چلایا اوربولیں: ’’آپ کوشش کریں تو کھلونے بھی بہت اچھے بنا سکتے ہیں۔‘‘

    میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی، پھر چپ رہا، پھرکوشش کی، پھر رک گیا، پھر آہستہ سے بولا: ’’یہ کھلونے ہی تو ہیں۔‘‘

    اب ماہ رخ سلطان پہلی بار مسکرائیں اور بالکل تندرست معلوم ہونے لگیں۔ لیکن کچھ کہنے کے بجائے وہ خاموشی کے ساتھ میز پر سے چیزیں اٹھا اٹھا کر واپس رکھتی رہیں۔ انہوں نے لکڑی کا ایک پرانی وضع کا مکان اٹھایا، دیر تک اس کی محراب کے کٹاؤ کو دیکھتی رہیں، پھر بولیں: ’’یہ سب بنانے میں آپ کے ہاتھ نہیں کٹتے؟‘‘

    ’’کبھی کبھی۔‘‘ میں نے کہا اور اپنے ہاتھوں پر پڑے ہوئے نشانوں کودیکھا۔ ماہ رخ سلطان بھی اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھیں لیکن اس پر مجھے کوئی نشان نظر نہیں آیا۔

    بڑے کمرے میں باتوں کی آوازیں کچھ بلند ہوگئی تھیں۔ مجھے خیال آیا کہ ماہ رخ سلطان دیر سے کھڑی ہوئی ہیں۔ اسی وقت انہوں نے میز پرسے ایک چوکور گھڑی اٹھائی اور بولیں: ’’یہ تو اصلی ہے۔‘‘

    ’’نہیں، یہ بھی۔۔۔‘‘

    ’’دیر ہوگئی۔‘‘ انہوں نے گھڑی کی سوئیوں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا، پھر بڑے کمرے والے دروازے کو دیکھا اور بولیں، ’’سب پریشان ہونے لگیں گے۔‘‘

    ’’آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا اور سوچا کہ یہ مجھے پہلے ہی پوچھنا چاہئے تھا۔

    ’’ہماری وجہ سے آپ کوبھی پریشانی ہوئی۔‘‘ انہوں نے اس طرح کہا جیسے مجھے کوئی اطلاع دے رہی ہوں۔ میں نے پھر پوچھا: ’’آپ کی طبیعت اب ٹھیک ہے؟‘‘

    ماہ رخ سلطان نے گھڑی کی سوئیوں پر سے نظر ہٹاکر پھر دروازے کی طرف دیکھا۔ میں نے بھی دروازے کی طرف دیکھا اور ایک بارپھر مجھے کافور کی ہلکی سی لپٹ محسوس ہوئی۔ ماہ رخ سلطان کہہ رہی تھیں: ’’کبھی ہمارے یہاں آئیے۔‘‘

    اورمیں نے دیکھاکہ وہ اپنی مٹھی میں لپٹے ہوئے دوپٹے کے بل کھول رہی ہیں۔ سارے بل کھلنے سے پہلے ہی مجھے ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹے برتن کی جھلک نظر آنے لگی۔ میں نے کوشش کرکے نظریں دوسری طرف کرلیں۔ چندلمحوں بعد انہوں نے کہا: ’’یہ ہم آپ کے واسطے لائے تھے۔‘‘

    میں نے دیکھا۔ وہ سفید چینی کا نیچا سا چوکور مرتبان تھا۔ ماہ رخ سلطان نے اسے میری طرف بڑھایاتو مجھے ان کے ہاتھ پربہت ہلکے نشان نظرآئے۔ میں نے مرتبان ان سے لے کراسے غور سے دیکھا۔ وہ اتنا چھوٹا نہیں تھا جتنا میں سمجھ رہا تھا۔ مجھ کوتعجب بھی ہوا کہ وہ ابھی تک ان کے ہاتھ میں کس طرح چھپا ہوا تھا۔

    ’’یہ شاید کسی شیشی کا ڈھکنا ہے۔‘‘

    میں نے ڈھکنے کو دیکھا، پھر میز، پھرنیچے زمین کو۔ کافور کے مرہم کی کھلی ہوئی شیشی میز کے ایک پائے کے پاس اوندھی پڑی ہوئی تھی۔ تھوڑا مرہم اس میں سے نکل کر زمین پر آگیا تھا۔ میں نے شیشی اٹھائی اور بے سوچے سمجھے ماہ رخ سلطان کی طرف بڑھادی، لیکن ماہ رخ سلطان اس کا ڈھکنا میری طرف بڑھا رہی تھیں۔ میں نے ڈھکنا لے کر شیشی پرکس دیا۔

    ’’ٹھنڈا مرہم۔’’ میں نے انہیں بتایا۔

    وہ پھر مسکرائیں اور بولیں: ’’تو آپ کے ہاتھ زیادہ کٹتے ہیں۔‘‘

    پھر انہو ں نے سنجیدگی سے کہا: ’’ہمارے یہاں آئیے گا۔ اچھا؟‘‘

    بے آواز قدموں سے دروازے کی طرف بڑھ کر انہوں نے اس کاایک پٹ دھیرے دھیرے کھولا اور میرے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ بڑے کمرے میں باتوں کی آوازیں دم بھر کو رکیں، پھر مجھے خوشی کی چیخیں، زور زور سے پیار کرنے کی آوازیں اور ماہ رخ سلطان نام کی پکار سنائی دی۔

    (۶)

    اس مکان میں وہ بہت بہت دن نہیں رہے اورمیں ان لوگوں میں ماہ رخ سلطان کے سوااور کسی سے مانوس نہ ہوسکا اگرچہ میرا زیادہ سابقہ ان کی بہنوں سے رہا۔ مجھے ان کی بہنوں کی تعداد اور ان کی چھوٹائی بڑائی کا بھی صحیح علم نہ ہوسکا۔ وہ سب بہت رنگین کپڑے پہنتی تھیں، زور زور سے بولتی اور زور زور سے ہنستی تھیں اورذرا سی ہنسی میں ان کے چہرے سرخ ہو جاتے تھے۔ حیرت کے اظہار میں چیخ پڑتیں اور بہت خوش ہوتیں تو رونے لگتی تھیں۔ اس طرح کی ایک دو عورتیں خود میرے خاندان میں بھی تھیں اور جب کبھی ان میں سے کوئی ہمارے یہاں مہمان ہوتی توگھر کی رونق بڑھ جاتی تھی۔ لیکن ماہ رخ سلطان کی بہنوں کو دیکھ کر مجھے وحشت ہونے لگتی تھی اورمیں ان سے کترانا چاہتا تھا۔ خود ماہ رخ سلطان ان میں کھوسی جاتی تھیں اورکبھی کبھی جب وہ ان کے جھرمٹ سے نکل کر مجھ سے بات کرتیں تو کچھ دیر تک ان کی آواز مجھے صاف سنائی نہیں دیتی تھی۔

    ہمارے یہاں ان لوگوں کے آنے کے پانچویں چھٹے دن سے میرا اس گھر میں آنا جانا شروع ہوا۔ پہلی بار میں اپنے یہاں کی کسی مذہبی تقریب کا بلاوا لے کر وہاں گیا تھا۔ ادھیڑ عمر کی ایک عورت نے جس کے بارے میں اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ ملازمہ ہے یا اسی خاندان کی کوئی فرد، مجھے تین آتش دانوں والے کمرے میں پہنچادیا جہاں کرخت آواز والی بڑی بی بیٹھی ایک کالے ڈبے میں چھوٹی چھوٹی شیشیاں رکھ رہی تھیں۔ تقریب میں آنے کا وعدہ کرنے کے بعد کچھ دیر تک وہ مجھ سے میرے گھر والوں اور دور اورقریب کے رشتہ داروں کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہیں، پھر انہوں نے مجھے اپنے بارے میں معلومات فراہم کرنا شروع کیں اوران کے بولنے کی رفتار تیز ہوگئی۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ اپنے آپ سے باتیں کررہی ہیں اور میری موجودگی کوفراموش کرچکی ہیں، اس لئے میں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔

    نیلے شیشوں والے تینوں دروازے کھلےہوئے تھے اور مکان کا عقبی صحن قریب قریب پورا نظر آرہا تھا لیکن اس کا وہ حصہ جہاں پرکنواں اور درخت تھا میری نگاہ سے اوجھل تھا۔ صحن کی زمین ہموار اور جھاڑجھنکار وغیرہ سے صاف کردی گئی تھی۔ سائبان کے مقابل دور پر وہ دیوار نظر آرہی تھی جس کا دروازہ احاطے میں کھلتاتھا۔ اس وقت دروازے کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے اور احاطے کے دوسرے سرے پر میرے مکان کا صدر دروازہ، جو اندر سے بند تھا، دکھائی دے رہا تھا۔ احاطے میں تیز دھوپ پھیل گئی تھی۔ دوتین دن پہلے میں نے مٹی کے کئی زیور بنائے تھے اورآج انہیں دھوپ میں رکھنے جا رہا تھا کہ مجھے بڑی بی کے پاس بھیج دیا گیا۔

    میں اپنےمکان کے عقبی دروازے سے نکل کر سڑک کا طویل راستہ طے کرتا ہوا اس مکان میں آیاتھا اور اسی راستے سے مجھے واپس جانا تھا۔ اس راستے کا خیال کر کے اور سامنے بندصدردروازے کو دیکھ کر مجھے اپنا گھر ایک ہی وقت میں بہت قریب اور بہت دورمعلوم ہونے لگا۔ بڑی بی کی آواز جو مجھ کوپہلے دن بھی اچھی نہیں لگی تھی، اب اور بری معلوم ہو رہی تھی۔ اس وقت وہ اپنی لڑکیوں کی پیدائش، پرورش اورتربیت میں پیش آنے والی دشواریوں کا تذکرہ کر رہی تھیں اور اس میں انہوں نے کئی ایسے مسئلوں کا بھی بیان کردیا جن پرہمارے کنبے میں میری عمر کے لڑکوں کے سامنے گفتگو نہیں کی جاتی تھی۔ بیچ بیچ میں وہ دوسری باتیں بھی چھیڑ دیتی تھیں، انہیں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ مکان لینے والے دونوں بھائیوں میں سے ایک عطرکا کاروبار اوردوسرے فانوسوں کی تجارت کرتے ہیں۔

    یہ بتاتے وقت انہوں نے چھت کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا اورمیں نے دیکھا کہ چھت کے کڑوں میں تین بڑے فانوس لٹک رہے ہیں۔ ان کی تکونی بلوری قلمیں کسی کسی رخ سے چمک رہی تھیں۔ بیچ والے فانوس میں کٹاؤدار سفید شیشے کے گولے زنجیروں سے لٹکے ہوئے تھے۔ زنجیروں کی کڑیاں بھی شیشے کی تھیں۔ گولے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے اوران پرپڑنے والی روشنی کئی رنگوں میں بٹ گئی تھی۔ اسی وقت مجھے زینے سے اترتے ہوئے بہت سے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ زور زور سے بولتی اور ہنستی ہوئی لڑکیوں کا ہجوم اندر آیا اور کمرے میں کئی رنگ کا اندھیرا سا پھیل گیا۔ وہ سب بیچ والے آتش دان کے پاس جمع ہوکر کسی بات پربحث کرنے لگیں اور میں بڑی بی سے اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوا، لیکن اچانک لڑکیوں کاہجوم میری طرف بڑھا اور میں نے خود کوان کے نرغے میں پایا۔

    وہ سب میری بنائی ہوئی چیزوں کے نام لے لے کر تعریفیں کررہی تھیں۔ بیچ بیچ میں سوالوں کی بوچھار بھی ہوتی تھی لیکن مجھے جواب دینے کا موقع کم مل رہا تھا اور اسے میں نے غنیمت جانا۔ پھر بھی جودوتین جواب مجھے دیناپڑے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ میں اپنی بنائی ہوئی زیادہ ترچیزیں دوسروں کوبانٹ دیتاہوں۔ میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی سب نے اپنی اپنی پسند کی چیزوں کی فرمائش شروع کردیں، کسی کسی چیز کی فرمائش دوتین بہنیں ایک ساتھ کردیتیں، پھرچیخ مار کر ایک دوسرے کو نوچنے اور زور زور سے ہنسنے لگتیں۔ مجھے ان کی آوازوں سے کمرے کے فانوس جھنجھناتے معلوم ہوئے۔ میرا سر دوتین بار آہستہ سے چکرایا اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں سریلی آوازوں سے بھرے ہوئے اس کمرے کو خواب میں دیکھ رہا ہوں۔

    مجھے ان لوگوں کا خیال آنے لگا جو اس خاندان سے پہلے اس مکان میں آکر رہے تھے۔ ان کے جانے کے بعد سے آج پہلی بار اس بڑے کمرے میں آیا تھا۔ مجھے چندلمحوں کے لئے وہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر گردن جھکائے بیٹھے نظر آئے۔ میرا سرپھر آہستہ سے چکرایا، آنکھوں کے آگے کئی رنگ ابھرے اورلڑکیوں کا جھرمٹ مجھے صاف نظر آنے لگا۔ وہ اب بھی فرمائشیں کر رہی تھیں۔ آخر بڑی بی نے انہیں ڈانٹا کہ مجھے خواہ مخواہ پریشان نہ کریں اوروہ سب ہنستی ہوئی تتربتر ہوگئیں۔ بڑی بی نے مجھ سے کہاکہ لڑکیوں کی فرمائشوں پر دھیان نہ دوں، پھر بھی میں نے دوسرے دن سب چیزی لادینے کا وعدہ کرلیا۔

    میں ابھی تک خود کو خواب کی سی حالت میں تصور کر رہا تھا، شاید اسی لئے مجھ کوماہ رخ سلطان کا اپنی بہنوں کے جھرمٹ میں ہونا یا نہ ہونا محسوس نہیں ہوا اور شاید اسی لئے اس وقت یہ بات بھی میرے ذہن میں نہیں آئی کہ ماہ رخ سلطان کی بہنوں نے میری بنائی ہوئی کئی ایسی چیزوں کی بھی فرمائش کی تھی جو میرے کمرے کی میز پر رکھی ہوئی تھیں اور ابھی تک بڑے کمرے کے آتش دان پرسجائی نہیں گئی تھیں۔ ان میں مٹی کا وہ ہار بھی تھا جسے رنگنا باقی تھا۔

    گھر پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ بڑی بی نے جوکچھ مجھ کو بتایا تھا وہ سب بلکہ اس سے بہت زیادہ اورایک بارنہیں کئی بار، وہ میرے گھروالوں کو پہلےہی دن بتاچکی تھیں، اس لئے بجائے اس کے کہ میں ان لوگوں کے متعلق اپنے گھر والوں کی معلومات میں اضافہ کرتا، خود میری معلومات میں یہ اضافہ ہواکہ اس گھر کی سب لڑکیاں ایک ہی بھائی کی اولاد تھیں، البتہ ماہ رخ سلطان کو دوسرے بھائی نے بیٹی بنالیا تھا۔ اس وقت مجھے خیال آیاکہ ماہ رخ سلطان نے مجھے اپنے یہاں بلایا تھا اور میں انہیں سے ملے بغیر چلا آیا۔ اور اسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا کہ ان کواپنی بنائی ہوئی سب سے اچھی چیز دوں گا۔ میں نے آتش دان پر سجی ہوئی اور اپنے کمرےکی میز پر رکھی ہوئی سب چیزوں کا جائزہ لیا، جن چیزوں کی مجھ سے فرمائشیں کی گئی تھیں، انہیں میں نے ایک ٹوکری میں رکھ لیا اور باقی چیزوں کا ایک بار پھر غور سے جائزہ لیا۔ ہر چیز میں مجھے کوئی نہ کوئی خامی نظر آئی۔ یہاں تک کہ میرا دماغ الجھ گیا اور میں آتش دان کے سامنے دیر تک بے حس و حرکت کھڑا رہا۔

    کافوری چڑیا پر نظر جمائے جمائے مجھے پھر پچھتاوا ساہونے لگا کہ میں نے اس کا کوئی اچھا سا نام کیوں نہیں رکھا۔ پھر مجھے اپنے کمرے میں میزکے پاس کھڑی ہوئی ماہ رخ سلطان کا خیال آیا اور اچانک مجھ کو وہ چوکور گھڑی یاد آگئی جسے انہوں نے اصلی سمجھا تھا۔ میں اپنے کمرے کی طرف بڑھا لیکن بیچ راستے میں ہی مجھے یاد آگیا کہ وہ گھڑی میں نے دو دن پہلے اپنے ایک دور کے عزیز کودے دی تھی۔ وہ مجھ کوبہت چاہتے تھے اور جب بھی ہمارے یہاں آتے میرے لئے کوئی نہ کوئی نئی قسم کا اوزار ضرور لاتے تھے۔ گھڑی میں نے ان کے مانگے بغیر، بلکہ ان کے انکار پر اصرار کرکے انہیں دی تھی، لیکن اس وقت مجھ کو ان پر ایسا غصہ آرہاتھا جیسے وہ اسے مجھ سے چھین کر لے گئے ہوں۔ میں نے یہ بھی یقین کرلیا کہ وہ گھڑی میری کاریگری کا بہترین نمونہ تھی، حالاں کہ اس کا بنانا مشکل نہ تھا، اگرچہ اس میں دیر لگتی تھی۔ میں نے اسے پھر سے بنانے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔

    اس دن آدھی رات تک اور دوسرے دن دوپہر تک میں اسے بناتارہا۔ میرے ہاتھ کئی جگہ سے کٹے اورکافور کے مرہم کی شیشی قریب قریب خالی ہوگئی۔ لیکن میں نے اپنا کام نہیں روکا۔ جب وہ تیار ہوگئی تو میں نے اسے میز پر رکھ کر دیکھا، پھر بڑے کمرے کے آتش دان پر سجا کر دیکھا۔ ہاتھوں کی تکلیف کی وجہ سے میں اس میں پہلے کی سی صفائی نہیں لاسکا تھا، پھربھی وہ میری بنائی ہوئی باقی چیزوں میں سب سے اچھی تھی۔ میں نے اسے ایک صاف کاغذ میں لپیٹ کر ٹوکری میں سب سے نیچے رکھ دیا۔

    سہ پہر کو میں وہاں پہنچا۔ بڑی بی گھر پر نہیں تھیں۔ ادھیڑعمر عورت مجھے آتش دانوں والے کمرے میں لائی اورمیں نے جاتے ہی ٹوکری میں سے چیزیں نکال نکال کر کسی ترتیب کے بغیر آتش دان پر رکھنا شروع کیں۔ عورت ان چیزوں کو دیکھنے کے لئے آتش دان کے قریب آئی تو میں نے اسے بتایا: ’’یہ انہوں نے منگوائی تھیں۔‘‘

    ’’کس نے؟ ’’

    مجھے نام گنانے کے خیال سے الجھن ہوئی اس لئے میں نے کہا: ’’سب نے۔‘‘

    ’’اچھا! ابھی بلاتے ہیں۔‘‘ عورت نے کہا اورکمرے سے باہر نکل گئی۔

    میں آتش دان پر سب چیزیں رکھنے کے بعد اپنے ذہن میں ان کی ترتیب بنارہا تھا کہ ماہ رخ سلطان کی بہنیں ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں اور سیدھی آتش دان کی طرف لپکیں، کچھ دیر تک کل کی طرح شور اور ہنگامہ رہا اور میں کاغذ میں لپٹی ہوئی گھڑی ہاتھ میں لئے چپ چاپ کھڑا ان سب کوننھی بچیوں کی طرح خوش ہوتے اور آپس میں جھگڑتے دیکھتا رہا۔ آخر وہ کچھ خاموش ہوکر میری طرف متوجہ ہوئیں اور ا ب انہوں نے قدرے سنجیدگی کے ساتھ مجھ سے باتیں کیں، اورمجھے احساس ہونے لگاکہ وہ سب واقعی مجھ سے بڑی ہیں۔ اب میں اس پریشانی میں گرفتار تھا کہ ماہ رخ سلطان سے کس طرح ملا جائے۔ آخر میں مشکل اس طرح حل ہوئی کہ اچانک ان کی ایک بہن نے مجھ سے پوچھ لیا: ’’اور ماہ رخ سلطان کے لئے کچھ نہیں؟‘‘

    ’’وہ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ایک اور بہن نے نیلے شیشوں والا بیچ کا دروازہ تھوڑا کھول کرباہر جھانکا اور کہا: ’’یہاں ہیں، آجائیے۔‘‘

    اس طرح بہت دنوں کے بعدمیں ایک بارپھر اس ٹین کے سائبان کے نیچے آیا۔ ماہ رخ سلطان دیوار سے ملے ہوئے ایک تخت پربیٹھی تھیں۔ ان کے سامنے ویسا ہی سیاہ ڈبا رکھا ہوا تھا جیسا میں نے ایک دن پہلے بڑی بی کے پاس دیکھا تھا۔ ماہ رخ سلطان ڈبے سے شیشیاں نکال نکال کر تخت پر سجا رہی تھیں۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے مجھے تخت پربیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں نے بیٹھتے ہی کسی تمہید کے بغیر کاغذ میں لپٹی ہوئی گھڑی ان کی طرف بڑھادی۔ انہوں نے ایک نظر مجھے دیکھا، پھر دونوں ہاتھوں میں گھڑی لے کر اس کا کاغذ کھولا، کچھ دیر تک گھڑی کی سوئیوں پر نظریں جمائے رہیں، پھر بولیں: ’’کتنی اچھی بنی ہے۔‘‘

    میرا خیال تھاکہ وہ اسے وہی گھڑی سمجھ رہی ہیں جواس دن میری میز پر رکھی ہوئی تھی، لیکن انہوں نے پوچھا: ’’یہ آپ نے آج ہی بنائی ہے؟‘‘

    ’’کل اور آج۔‘‘ میں نے ذرا بجھ کرکہا۔ ’’جلدی میں بنائی ہے، اتنی صاف نہیں بن پائی۔‘‘

    ’’نہیں۔’’ ماہ رخ سلطان نے کہا اور گھڑی کو مختلف رخوں سے دیکھا، پھر بولیں۔ ’’یہ زیادہ اچھی ہے، وہ تو اصلی معلوم ہوتی تھی۔‘‘

    انہوں نے ڈبے کے سامنے سے کچھ شیشیاں ہٹائیں اور ان کی جگہ پر گھڑی کو رکھ دیا۔ پیچھے رکھے ہوئے ڈبے کی سیاہی کے آگےگھڑی کے سارے رنگوں کی مدھم چمک تیز ہو گئی اور مجھے بھی وہ پہلے والی گھڑی سے زیادہ اچھی معلوم ہونے لگی۔ ماہ رخ سلطان نے اسے پھر اٹھایا، کئی بار اپنے چہرے سے دور اور قریب کرکے دیکھا، واپس رکھا، پھر اچانک بولیں:

    ’’آپ کو کافور بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘

    میری سمجھ میں فوراً کچھ نہیں آیا۔

    ’’کافور؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’آپ نے اس کا نام بھی کا فوری چڑیا رکھا ہے۔‘‘

    ’’وہ۔۔۔ وہ توسفید رنگ کی وجہ سے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’لیکن اس کا نام مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘

    ’’بہت لوگوں کو اس سے ڈر لگتا ہے۔‘‘

    ’’کافوری چڑیا سے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’کافور سے۔‘‘ ماہ رخ سلطان بولیں۔ ’’اس سے بہت لوگوں کومرنے کا خیال آتا ہے۔‘‘

    ’’کافور سے؟‘‘ مجھے پھرحیرت ہوئی۔ ’’کافور توبہت سی تکلیفوں کا علا ج ہے۔‘‘

    ’’مرنا بھی تو بہت سی تکلیفوں کا علاج ہے۔‘‘

    ان کے لہجے میں ہلکی سی شوخی تھی، اس لئے میں نے ہنس کر ان کی طرف دیکھا، لیکن وہ مسکرا بھی نہیں رہی تھیں۔ مجھے وہ صرف کچھ سوچتی نظر آئیں۔ گھڑی کے پیچھے رکھے ہوئے سیاہ ڈبے پروہ اپنی بیچ کی انگلی کا ناخن آہستہ آہستہ مار رہی تھیں جس کی ہلکی اوریکساں آوازکی وجہ سے گھڑی چلتی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔ اس آواز کے ساتھ ساتھ مکان کے دوسرے حصوں سے ماہ رخ سلطان کی بہنوں کے ہنسنے بولنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ ان میں سے ایک آواز دروازے کے پاس آکر رکی۔ ایک بہن سائبان کے نیچے آئی، ماہ رخ سلطان کے قریب جاکر جھکی اوران کی پیشانی پر پیار کرکے واپس چلی گئی۔ ماہ رخ سلطان نے اسے جاتے دیکھا پھر شیشوں کوایک قطار میں رکھنے لگیں۔ انہوں نےگھڑی کو اٹھا کر سیاہ ڈبے کے پہلومیں رکھ دیا اور مجھ سے پوچھا: ’’آپ کو یہ سب بنانا کس نے سکھایا؟‘‘

    ’’کسی نے نہیں۔‘‘

    ’’کسی نے نہیں؟‘‘

    میں نے انہیں بتایاکہ کسی طر ح بالکل بچپن سے مجھ کو چیزیں بنانے کا شوق تھا اور کس طرح میرے پاس رفتہ رفتہ اوزارجمع ہوتے گئے اورمیں نے ابتدا میں کیا کیا بنایا اور بعدمیں کیا کیا۔ اس بیچ میں ماہ رخ سلطان کی کئی بہنیں باری باری آئیں اور انہیں پیار کرکے چلی گئیں اورجب ان میں سے ایک نے جانے سے پہلے جھک کران کے کان میں کچھ کہا تومجھے احساس ہواکہ میں دیر سے بیٹھا بول رہا ہوں، لیکن جب میں جانے کے لئے اٹھنے لگا تو ماہ رخ سلطان نے مجھے روک لیا: ’’کچھ دیربیٹھے۔‘‘ انہوں نے سیاہ ڈبے میں شیشیاں واپس رکھتے ہوئے کہا، ’’آپ سے باتیں کرکے ہمیں اپنے بچپن کاخیال آجاتا ہے۔‘‘

    ان کا یہ کہنا مجھے اچھا معلوم ہوا لیکن اب میری سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان سے کیا باتیں کروں، اس لئے میں نے پوچھا: ’’ان شیشوں میں کیا ہے؟‘‘

    ’’عطر۔‘‘ ماہ رخ سلطان نے کہا اور ڈبا میرے قریب رکھ دیا۔

    اس وقت مجھے سائبان کے نیچے رہ رہ کر ابھرتی اوردبتی ہوئی خوشبوؤں کا احساس ہوا۔ کبھی ایک خوشبو ابھرتی اور دوسری خوشبو اٹھ کر اسے دبا لیتی، کبھی کئی خوشبوئیں مل کر ایک ہوجاتیں، پھر منتشر ہوتیں، پھر ایک ہوجاتیں، ان خوشبوؤں سے طرح طرح کے رنگوں اور آوازوں کا خیال آتا تھا اور ان رنگوں اور آوازوں سے ماہ رخ سلطان کی بہنوں کا خیال آتا تھا جو اب شاید پھر آتش دانوں والے کمرے میں جمع ہوگئی تھیں۔ میں نے ڈبے کوہاتھ میں اٹھا لیا اور وہ مجھے خوشبوؤں سے جھنجھناتا ہوا محسوس ہوا۔ میں نے پوچھا: ’’یہ کن چیزوں کے عطر ہیں؟‘‘

    ماہ رخ سلطان نے مختلف پھولوں کے نام لینا شروع کئے تھے کہ مجھے محسوس ہوا ایک پھیکی ٹھنڈی اور خاموش سفید خوشبوان تمام خوشبوؤں کو چھوتی ہوئی نکل گئی، پھر پلٹی اور پھر سب کوچھوتی ہوئی نکل گئی، اورمیں نے پوچھا: ’’ان میں کافور کا عطر بھی ہے؟‘‘

    ماہ رخ سلطان نے کر مجھے غور سے دیکھا اور کچھ کوشش کرکے مسکرائیں۔

    ’’کافور کا عطر نہیں بنتا۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ڈبا میرے ہاتھ سے لیا اور اس میں کی ایک ایک شیشی کو چھوکر مجھے بتایا کہ اس میں کس چیز کا عطر ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ڈبے کا ڈھکنا بندکردیا۔

    ’’ان میں کافور کا عطر نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے اب میرے سوال کا جواب دیا، ایک بار پھر کوشش کرکے مسکرائیں اور میری دی ہوئی گھڑی پر ہاتھ رکھ کربولیں: ’’کافور کی خوشبو اس میں ہے۔‘‘

    ’’گھڑی میں؟‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا اورگھڑی اٹھالی۔

    ’’اس دن آپ کے کمرے میں بھی ایسی ہی خوشبو تھی۔‘‘

    ’’وہ کافور کا مرہم تھا۔‘‘ میں نے انہیں بتایا اور اب مجھے یاد آیا کہ ماہ رخ سلطان کے لئے گھڑی بناتے ہوئے کئی بار میرے ہاتھ کٹے تھے اور ہر بارمیں نے کافور کے مرہم سے زخم کو چھپا لیا تھا اور اپنا کام روکا نہیں تھا۔ مجھے اپنے ہاتھوں میں ہلکی سی چرچراہٹ محسوس ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ ماہ رخ سلطان کو یہ سب بتاؤں یا نہ بتاؤں، لیکن اسی وقت انہوں نے کہا: ’’آپ کے ہاتھ واقعی زیادہ کٹے ہیں۔‘‘

    اوراسی وقت ان کی ایک اوربہن ان کے قریب آکر جھکی۔ ماہ رخ سلطان اٹھ کرکھڑی ہوگئیں۔

    ’’آئیے۔‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا اور نیلے شیشوں والے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔

    میں ان کے ساتھ آتش دانوں والے کمرے میں واپس آیا، جہاں بڑے اہتمام کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں سجائی گئی تھیں اوران کی خوشبوؤں سے کمرا بھراہوا تھا۔ ماہ رخ سلطان کی ہربہن مجھے ہرچیز کھلانے پرتلی ہوئی تھی۔ ان سب کے اصرارسے مجھے گھبراہٹ ہونے لگی جس کوکچھ اس خیال نے بڑھایا کہ یہ سارا اہتمام خاص میرے لئے ہے، اور کچھ اس بات نے کہ ماہ رخ سلطان بھی میرے ساتھ بیٹھی تھیں مگر کچھ کھا نہیں رہی تھیں۔

    (۷)

    ماہ رخ سلطان کی بیماری کا حال مجھے صرف اتنا معلوم ہواتھا کہ کسی کسی دن ان کا دل آپ ہی آپ گھبرانے لگتا ہے اور اس وقت وہ چاہتی ہیں کہ ان کے پاس کوئی موجود نہ رہے اورکچھ دیر تک سب سے الگ تھلک رہنے کے بعدخود ہی ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ کبھی کبھی میں اپنی کاریگری کا کوئی نمونہ لے کر وہاں پہنچتا تومعلوم ہوتا کہ ماہ رخ سلطان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے اور وہ اپنے کمرے میں آرام کررہی ہیں۔ میں اپنی بنائی ہوئی چیز بڑے کمرے کے کسی آتش دان پر ٹکا دیتا اور کچھ ویران کی بہنوں کےپاس بیٹھ کر چلا آتا۔ دوسرے یاتیسرے دن میں پھر وہاں جاتا۔ ماہ رخ سلطان کبھی مجھے اپنی بہنوں میں گھری ہوئی اور کبھی سائبان کے نیچے تخت پربیٹھی ہوئی ملتی تھیں۔ وہ گفتگو کی شروعات ہمیشہ ایک ہی سوال سے کرتی تھیں: ’’اب آٖ پ کیا بنارہے ہیں؟‘‘

    میں جواب میں بولنا شروع کرتا تو ان کوبولنے کا موقع نہیں دیتاتھا، البتہ وہ بیچ بیچ میں کوئی مختصر ساسوال کرلیتیں جس سے صرف یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ میری بات سن رہی ہیں۔

    ایک دن میں نے دواتنے چھوٹے چھوٹے مکان بنائے کہ دونوں ایک ساتھ میری مٹھی میں آسکتے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ ماہ رخ سلطان ان کی بہت تعریف کریں گی۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ ان سے ملاقات ہوجائے گی اس لئے کہ ایک ہی دن پہلے ان کی طبیعت خراب ہو چکی تھی لیکن جب میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت خراب ہے اور وہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہیں۔ میں مکانوں کومٹھی میں دبائے بڑے کمرے میں ان کی بہنوں سے باتیں کرتا رہا۔ آخر اٹھ کر واپس آنے لگا۔ اسی وقت ماہ رخ سلطان کے کمرے کا دروازہ دھیرے دھیرے کھلااور وہ اس کی دہلیز پر خاموش کھڑی نظر آئیں۔ ان کی بہنیں خوشی سے چیختی ہوئی ان کی طرف لپکیں اور باری باری ان کا نام لے کے کر انہیں چمٹانے اورپیار کرنے لگیں۔ ساتھ ساتھ وہ سب روتی بھی جاتی تھیں۔ ماہ رخ سلطان دونوں ہاتھوں سے ہربہن کے گال تھپتھپاتیں، پھر اسے آہستہ آہستہ ایک طرف ہٹا دیتیں۔ اسی میں ان کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ بڑھ کرمیرے قریب آگئیں۔

    ’’آپ ابھی آئے ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    میں خاموش کھڑا رہا۔

    ’’واپس جارہےتھے؟‘‘ کچھ دیر بعد انہوں نے پھر پوچھا۔ میں پھر بھی خاموش کھڑا رہا۔ اتنی ہی دیر میں ان کی ساری بہنیں کہیں غائب ہوگئی تھیں اوران کے بولنے کی آوازیں بھی نہیں آرہی تھیں۔ مجھے کچھ دیر پہلے کا شور یاد آیا اور میں نے پوچھا: ’’آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟‘‘

    لیکن میری بات کا جواب دینے کے بجائے ماہ رخ سلطان نے میری مٹھی کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’آپ نے کیا بنایاہے؟‘‘ اورمجھے اپنے بنائے ہوئے مکان یاد آگئے۔ میں نے مٹھی کھول کرہتھیلی ان کی طرف پھیلادی اور انہوں نے کہا: ’’کتنے اچھے ہیں!’’

    ’’آپ ہی کے لئے بنائے ہیں۔‘‘ میں نےکہا۔

    ماہ رخ سلطان دیرتک میری ہتھیلی پر رکھے ہوئے مکانوں کو خاموشی سے دیکھتی رہیں، پھربولیں: ’’ایک چیز ہم نے بھی آپ کے لئے تیار کرلی ہے۔‘‘ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف واپس ہوئیں۔ دروازے پر پہنچ کروہ میری طرف مڑیں اور بولیں: ’’آئیے۔‘‘

    جب میں اس کمرے میں داخل ہوا تو ماہ رخ سلطان اس کے بیچ میں بچھی ہوئی مسہری پربیٹھ چکی تھیں۔ مسہری کے قریب ایک گدے دار کرسی پرانہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کمرے میں مجھے کوئی خاص سامان یا سجاوٹ نظر نہیں آئی، البتہ دیواروں میں بنی ہوئی الماریوں پرپڑے ہوئے دبیز پردے بہت خوبصورت تھے اور ایک نظرمیں ان پرسفید قالینوں کا دھوکا ہوا تھا۔ کمرے کا ایک دروازہ آتش دانوں والے کمرے میں اوردوسرا سائبان کی طرف کھلتا تھا۔ اس دوسرے دروازے سے عقبی صحن کا ایک قطعہ نظر آرہا تھا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آیاکہ یہ صحن کا کون سا حصہ ہے۔ میں نے اس کو پہچاننے کے لئے ذہن پر زور دیا تومجھے کچھ الجھن سی محسوس ہوئی اورمیں نے ادھر سے توجہ ہٹاکر ماہ رخ سلطان کی طرف دیکھا۔

    وہ سرجھکائے کسی خیال میں کھوئی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ کچھ دیربعد انہوں نے سر اٹھایا لیکن ان کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں۔ مجھے شبہ ہوا کہ وہ بیٹھے بیٹھے سوگئی ہیں، لیکن اسی حالت میں وہ مسہری سے اترکر ایک دیواری الماری تک گئیں اور دونوں ہاتھوں میں کچھ سنبھالے ہوئے واپس آئیں۔ پہلی نظر میں وہ مجھے شفاف سفیدشیشے کے بے ترتیب ٹکڑے معلوم ہوئے۔ مسہری پر بیٹھ کر انہوں نے ان ٹکڑوں کواپنے سامنے رکھا، کچھ دیرتک انہیں اس طرح دیکھتی رہیں۔ جیسے ان میں کوئی چیزتلاش کررہی ہوں، پھر انہوں نے ایک گول ٹکڑے کو چٹکی میں پکڑ کر اچانک اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا۔ مجھے شیشوں کی ہلکی سی کھنک سنائی دی اور میں نے دیکھا کہ ماہ رخ سلطان کی انگلیوں سے ایک چھوٹا سا بلوری فانوس لٹک رہا ہے اوراس کی بہت ہلکی پرچھائیں ان کے چہرے پر ہل رہی ہے۔ اب وہ میری طرف متوجہ ہوئیں۔

    ’’آپ کو شیشے کی چیزیں پسند ہیں؟‘‘

    ’’بہت خوبصورت ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہ آپ ہی نے بنایا ہے؟‘‘

    ’’بنایاتومعلوم نہیں کس نے ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہم نے اسے صرف بدل دیاہے۔‘‘

    انہوں نے فانوس کو میری طرف بڑھاکر آہستہ سے گھمایا تو میں نے دیکھاکہ اس کی ہرلڑی کے آخر میں ایک نازک سی شیشی لٹکی ہوئی ہے۔ گھومتے ہوئے فانوس کے ساتھ سب شیشیاں ایک دائرے میں چکر کھا رہی تھیں اس لئے ان کا صحیح صحیح شمار ممکن نہ تھا۔ پھر بھی میرا خیال ہے وہ دس سے کم نہیں تھیں۔ وہ سب شفاف سفید شیشے کی تھیں لیکن ان میں مختلف رنگوں کے محلول بھرے ہوئے تھے۔

    ’’ان شیشوں میں عطر ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ایک خالی ہے۔‘‘ ماہ رخ سلطان نے جواب دیا، پھر وہ کوشش کرکے مسکرائیں اور بولیں۔ ’’اس میں آپ اپنی پسند کا عطر بھر لیجئے گا۔‘‘

    انہوں نے فانوس میرے ہاتھ میں دے دیا اور میں نے اسے کھلے ہوئے دروازے کے رخ کرکے دیکھا۔ لمبائی میں وہ ایک بالشت سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کی شفاف لڑیوں کے پیچھے صحن کا قطعہ نظر آرہا تھا۔ میری نظر اس کی ڈھیلی اینٹوں والی دیوار پرپڑی اور اچانک میں نے پہچان لیاکہ یہ صحن کاوہ حصہ ہے جہاں کنواں اوردرخت تھا۔ کنویں کی جگہ اب بالکل ہموار زمین تھی لیکن جہاں پر درخت تھا وہاں مٹی میں ہلکا سا ابھار نظر آرہا تھا۔ میں فانوس کوہاتھ میں لئے لئے دروازے سے نکل کر سائبان کے نیچے، پھرباہر صحن میں آگیا۔ مجھے پورا صحن بدلا ہوا محسوس ہوا اور میں ماہ رخ سلطان کے کمرے میں واپس آگیا۔ اتنی دیر میں وہ شاید ایک بار پھر مسہری پر سے اٹھی تھیں اس لئے کہ اب کرسی کے گدے پرموٹی دفتی کا ایک رنگین ڈبا رکھا ہوا تھا۔

    ’’اسی میں رکھ لیجئے۔‘‘ انہوں نے ڈبے کی طرف اشارہ کرکے کہا اور خاموش ہوگئیں۔ ایک بارپھر مجھے شبہ ہوا کہ وہ بیٹھے بیٹھے سوگئی ہیں۔ فانوس کو ڈبے میں رکھ کر میں دیر تک کرسی کے پاس خاموش کھڑا رہا لیکن انہوں نے مجھ سے بیٹھنے کونہیں کہا۔ آخر میں نے پوچھا: ’’آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘

    ’’ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے آہستہ سے کہا۔

    ’’کسی کو بلا لیجئے۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ انہوں نے اوربھی آہستہ سے کہا۔ ان کا سر تھوڑا سا پیچھے کوڈھلکا ہوا اور آنکھیں قریب قریب بند تھیں۔ کچھ تذبذب کے بعدمیں آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان کے کمرے سے نکل کر آتش دانوں والے کمرے میں آگیا۔ بڑی بی مجھے ایک آتش دان کی طرف منہ کئے کھڑی نظر آئیں۔ آہٹ سن کر وہ مڑیں اورقریب آکر میرے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے لگیں، لیکن ان کی نگاہیں میرے ہاتھ پرجمی ہوئی تھیں۔ آخر انہوں نے ڈبے کی طرف اشارہ کرکے پوچھ لیا: ’’اس میں کیاہے؟‘‘

    میں نے ڈبا ان کےہاتھ میں دے دیا۔ انہوں نے اس کا ڈھکنا کھول کر فانوس کو تھوڑا سا باہر نکالا، کچھ دیر اسے دیکھتی رہیں، پھربولیں: ’’ماہ رخ سلطان نے دیاہے؟‘‘

    میں کچھ نہیں بولا۔ انہوں نے فانوس کو تھوڑا اور باہر نکال کر غور سے دیکھا۔ پھر واپس رکھ کر ڈبے کا ڈھکنا بند کردیا۔

    ’’یہ ان کے پاس بچپن سے تھا۔‘‘ انہوں نے ڈبا مجھے واپس دیتے ہوئے کچھ افسردگی اور کچھ شکایت کے لہجے میں کہا۔ ‘‘کوئی اسے چھونہیں سکتا تھا۔‘‘

    اس کے بعد وہ آتش دان کی طرف مڑ کر اس کی صفائی میں اس طرح لگ گئیں جیسے کمرے میں ان کے سوا کوئی موجود نہ ہو۔ مجھے ان کالہجہ اپنے کانوں سے بار بار ٹکراتا محسوس ہوا۔ دفتی کا رنگین ڈبہ میرے ہاتھ میں اچانک بوجھل ہوگیا اورکچھ دیر تک میری سمجھ میں نہ آیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ آخر میں نے خاموشی کے ساتھ اس ڈبے کو بڑی بی کی پشت کی طرف والے آتش دان پر لٹکا دیا اور باہر نکل آیا۔

    کئی دن تک میں ادھرادھر اپنے دوسرے رشتہ داروں کے یہاں وقت گزارتا رہا۔ صرف رات کو کسی وقت گھرمیں آکر سوجاتا اورصبح اٹھنے کے تھوڑی ہی دیر بعد پھر نکل جاتا۔ وہ چھوٹا سا فانوس میری نگاہوں کے سامنے گردش کرتا رہتا اور ہر چیز میں مجھے اس کے کسی نہ کسی حصے کی شباہت نظر آتی، یہاں تک کہ میں نے خود ویسا ہی فانوس بنانے کا فیصلہ کرلیا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیشے کو مختلف شکلوں میں ڈھالنا اور موڑنا میرے امکان میں نہیں، میں نے بازار سے معمولی عطروں کی کئی شیشیاں بھی خریدلیں۔

    تیسرے یا چوتھے دن گھر سے نکلتے نکلتے اچانک مجھے خیال آیا کہ اگرمیں کوشش کروں تومٹی کا ویسا ہی فانوس بنا سکتا ہوں، پھرمجھے اس کا بنانا بالکل آسان نظر آنے لگا اور میں اپنے کمرے میں واپس آگیا۔ اسی وقت میں نے کاغذ پر اپنی یادداشت سے اس فانوس کا نقشہ بنانے کی کوشش شروع کردی، لیکن میں اسے زیادہ غور سے نہیں دیکھ سکا تھا۔ میں بار بار اپنے ذہن میں اس کا نقشہ بناتا لیکن ہر بار وہ مجھے ماہ رخ سلطان کے اٹھے ہوئے ہاتھ میں لٹکا ہوا اوردھیرے دھیرے گھومتا نظرآیا اور اس کی کوئی چیزبھی میرے ذہن میں پوری واضح نہ ہو سکی۔ دیر تک کاغذ پر کاغذ خراب کرتے رہنے کے بعدمیرا دماغ الجھنے لگا اور میں اٹھ کر بڑے کمرے میں آگیا۔ وہاں میرے گھر کے قریب قریب سب لوگ جمع تھے۔ دو تین بزرگ عورتوں نے مجھے دن دن بھر باہر رہنے پر ہلکی سی تنبیہ کی۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ’’اچھا جاؤ، ذرا ماہ رخ سلطان کی خیریت پوچھ کے آؤ۔‘‘

    ’’انہیں کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ا س کی حالت بگڑگئی ہے۔‘‘

    اس کے بعد سب نے ماہ رخ سلطان کی بیماری پربحث شروع کر دی اور اسی میں میرے گھر کی سب سے معمر خاتون بولیں: ’’وہ تو جب یہاں آئی تھی اسی دن میں نے کہہ دیا تھا کہ اس کے اندر کچھ رہ نہیں گیا ہے۔‘‘

    پھرانہوں نے دوسروں سے اپنے قول کی تصدیق کرائی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ لوگ کس زمانے کی بات کررہے ہیں اورمیں ان سب سے بحث کرنے پر تیار تھا لیکن مجھے پھرگھر سے باہر رہنے پر تنبیہ کی گئی اور میں گھر سے باہر آگیا۔

    ادھیڑ عمر عورت نے مجھے آتش دانوں والے کمرے میں پہنچادیا۔ سب سے پہلے میری نظر ان دونوں آدمیوں پر پڑی جنہوں نے احاطے میں مجھ سے بات کی تھی، لیکن اس وقت وہ میری طرف متوجہ نہیں ہوئے اور اپنی اپنی جگہ گردن جھکائے بیٹھے رہے۔ بڑی بی ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھی تھیں۔ میں ان کے قریب جاکرکھڑا ہوگیا، انہوں نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی بولیں:

    ’’حالت اچھی نہیں ہے۔‘‘

    پھرانہوں نے بھی گردن جھکالی۔ میں وہیں پر کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے پھر سر اٹھایا، مجھے دیکھا اور ماہ رخ سلطان کے کمرے کی طرف اشارہ کرکے بولیں:

    ’’جائیے، دیکھ لیجئے۔‘‘

    میں جھجکتا ہوا اس کمرے میں داخل ہوا۔ ماہ رخ سلطان آنکھیں بند کئے مسہری پرلیٹی ہوئی تھیں اور ان کی دوبہنیں ان پرجھکی ہوئی تھیں۔ میں بھی جھک کر انہیں دیکھنے لگا۔ ان کا ایک ہاتھ کچھ کچھ دیر بعدتھوڑا اوپر اٹھتا اور پھر مسہری سے لگ جاتا تھا۔ اس پر پڑے ہوئے ہلکے ہلکے نشان کمرے کی کم روشنی میں بھی نظر آرہے تھے۔ ہاتھ پھر کچھ اوپر اٹھا اور پھر مسہری سے لگ گیا۔ میں نے پوچھا: ’’ہاتھ میں کچھ تکلیف ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ ایک بہن نے جواب دیا۔ ’’بے ہوش ہیں۔‘‘

    اسی وقت ماہ رخ سلطان کاہاتھ کچھ زیادہ اٹھا اورمیرے نتھنوں کے قریب آکر وہیں ٹھہر گیا۔ میں نے سانس روک لی، لیکن ذرا ہی دیر میں میرا دم گھٹنے لگا تو میں نے پوری سانس کھینچی اور ایسا معلوم ہواکہ ماہ رخ سلطان کی ہتھیلی میری سانس کے ساتھ گھوم کراورکھنچ کرمیرے نتھنوں سے آلگی۔ میری آنکھیں قریب قریب بند ہو گئیں اور مجھے مسہری پرایک اجاڑسی خوشبو اترتی محسوس ہوئی۔ میں نے پھر سانس روک لی، پھر میرا دم گھٹا، پھر میں نے پوری سانس کھینچی۔ مجھے ویرانی کا احساس ہوا۔ میں نے ایک اور سانس کھینچی اور مجھے اس ویرانی میں کچھ دکھائی دیا۔ سب سے پہلے کافوری چڑیا، پھر کو کھلا پرندہ اورمیرے ہاتھ پررینگتی ہوئی چیونٹیاں، پھر سفید ڈورے والا پرندہ اور صحن میں سفید دھوئیں کی چادروں کی طرح اڑتی ہوئی بارش کی پھواریں، پھر میرے کمرے میں میزکےپاس کھڑی ہوئی ماہ رخ سلطان، پھر سائبان کے نیچے بیٹھی ہوئی ماہ رخ سلطان، پھر ماہ رخ سلطان کے اٹھے ہوئے ہاتھ کے نیچے گھومتا ہوا فانوس اوراس میں لٹکتی ہوئی شیشیاں، جن میں سے ایک خالی تھی۔ میری آنکھیں پوری کھل گئیں۔ ماہ رخ سلطان کے چہرے پرفانوس کی پرچھائیں سی گھومتی معلوم ہورہی تھیں اوران کا ہاتھ مسہری سے لگا ہوا تھا۔

    میں آتش دانوں والےکمرے میں آگیا اور کسی سے بات کئے بغیر گردن جھکائے ہوئے اس مکان سے باہر نکل آیا۔ سہ پہر کومجھے یہ اطلاع دینے کے لئے پھر وہاں بھیجا گیا کہ میرے گھر کی سب عورتیں تھوڑی دیر میں آرہی ہیں، لیکن ابھی میں اس مکان کے دروازے تک پہنچا تھا کہ مجھے اندرماہ رخ سلطان کے نام کی پکار سنائی دی اور میں باہر ہی سے لوٹ آیا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے