Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اِذنِ سفر

MORE BYعرفانہ تزئین شبنم

    وہ قدآدم دریچے کے یخ بستہ شیشہ سے چہرہ ٹکائے کھڑی تھی۔ آنکھوں اور لان کے مابین شیشے جیسے غیر مرئی لگ رہے تھے۔ موسمی پھولوں سے لدی پھندی شاخیں کسی البیلی الھڑ دوشیزہ کی طرح سبک خرام ہواؤں کی چھیڑ خانی سے جھکی جاتی تھیں۔ چاند کی ٹھنڈی کرنیں پورے لان میں پھیلی ہوئی تھیں اور جا بجا مختلف جھاڑیوں سے لپٹے برقی قمقمے شب کی تاریکی کو مات دینے پر تلے ہوئے تھے۔ لان سے پرے بیرونی آہنی بارجے کے دونوں طرف آبنوسی رنگ کے محرابوں میں تیز روشنی والے بلب روشن تھے۔ جن کے آگے دور تک ہلکا غبار ساتھا۔ ویسا ہی غبار جیسے اس کے کچے آنگن میں لگے واحد بلب کے آگے ملگجے اندھیرے میں نظر آتا تھا۔ وہ چاند کی کرنوں کے ساتھ خراماں خراماں سفر کرنے لگی۔

    ”بابا کیا ہرپری کے پاس جادوئی چھڑی ہوتی ہے ……؟“

    اس نے بار ہا پوچھا ہوا سوال دہرایا۔ جواب میں وہیل چیر پر بیٹھے ہوئے بابا بھی ہمیشہ کی طرح مسکرا کر رہ گئے۔اماں بھاپ اڑاتی چائے لے کر بابا کے کمرے کی طرف آرہی تھیں۔ اماں کو بس ایک ہی ملال تھا کہ اللہ میاں جی نے پری کے بعد فرشتہ کیوں نہ بھیجا جو زندگی کے اگلے وقتوں میں ان کا سہارا بنتا۔

    ”پری جو ہے ہمارے اگلے وقتوں کی ڈھال، دیکھ لینا ہم پر کوئی آنچ نہ آنے دے گی“ بابا بڑے رسان سے کہتے تو اماں جز بز ہوجاتیں۔ ”بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی پرائی چیز کا بھروسہ ہی کیا……؟“

    ”تم نہیں سمجھوگی“ بابا دھیرے سے سر ہلاتے۔

    واقعی اماں نے تو کبھی سمجھا ہی نہیں، یہ مائیں اتنی بھولی کیوں ہوتی ہیں؟ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی اتر آئی۔

    اس کی تو دیرینہ خواہش تھی وکیل بننے کی۔ اور یہ خواہش ایسے ہی تو جوان نہ ہوئی تھی۔غریبوں اورمظلوموں کا دکھ جوں جوں اس پر آشکارا ہوتا گیا اس پر وکیل بننے کا جنون بڑھتا چلاگیا۔

    جب امیر زادہ بابر کا رشتہ آیا تو اماں کو لگا جیسے ان کی ساری دعائیں قبول ہوگئیں وہ خواب کی کیفیت میں تھیں۔

    دعائیں یوں رنگ لاتی ہیں۔

    ”پر اماں مجھے تعلیم کا یہ سفر بہت آگے تک طئے کرنا ہے“ بابا کے پیر حادثے میں کٹ جانے کے بعد سگھڑ سی اماں جہاں سلائی کڑھائی کرکے گر ہستی کو احسن طریقے سے چلا رہی تھیں وہیں پری نے بھی تعلیم کے دوران ٹیوشنز شروع کر رکھے تھے۔ سفید پوشی کا بھرم قائم تھا۔

    ”سفر سے کس کو مفر ہے۔ پر جس سفر سے اگلی منزلوں پر جنت ارضی کا یقین ہوتو اس کو ہر چیز پر فوقیت دینی ہے نا بیٹا ……!“ اماں چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے سلائی مشین پر بیٹھنے لگیں ”پھر تم بعد میں بھی پڑھائی مکمل کرسکتی ہو یہ کوئی مسئلہ تو نہیں“

    اماں اس اعلیٰ ترین رشتے کو کسی بھی قیمت پر کھونانہیں چاہتی تھیں وہ جانتی تھیں کہ پری کے حسن و جمال اور ذہانت کے باعث یہ رشتہ خدا کی طرف سے عطیہ ہے۔

    یوں جنت ارضی کی حوربنا کر اس کو بابر کا ہمر کاب بنادیاگیا۔ جب کوئی چیز ترجیحات میں شامل ہوجاتی ہے تو رکاوٹیں در بنکر واہوتی جاتی ہیں۔ شادی سے پہلے اس نے بابر سے ملنے کوشش بھی کی تاکہ یہ جان سکے کہ اس مخصوص مراعات کے پیچھے کون سی چیز کار فرما ہے لیکن اس کی کوشش بار آور نہ ہوسکی۔ شادی کے ہنگامے شروع ہوچکے تھے۔ اماں نے اپنی استطاعت کے مطابق تیاریاں کررکھی تھیں۔ رخصتی کے وقت بابا کے سینے سے لگتے ہی اندر کا سارا غبار آنکھوں کے ذریعہ بہہ نکلا۔

    ”بابا ……! کیا ہر پری کے پاس جادوئی چھڑی ہوتی ہے ……؟“ سسکتے ہوئے اس نے وہی سوال دہرایا۔

    ”نہیں بیٹا ……! پر میری پری کے پاس جادوئی سوچ کے نئے زاویے ہیں۔ جن سے وہ ہر طرح کے حالات کو اپنے طور پر بدل سکتی ہے“ بابا نے پہلی بار جواب دیا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود سے الگ کیا۔ وہ رخصت ہوکر بابر کی پھولوں سے سجی قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر اس کی کوٹھی میں آگئی۔ عالیشان کوٹھی دلہن کی طرح سجی تھی امیر و کبیر لوگ بیش قیمت بھاری بھرکم پوشاک دونوں ہاتھوں سے سنبھالتے نزاکت کے ساتھ چہل قدمی کررہے تھے۔ اسے کمرے میں پہونچا دیا گیا۔ اندر قدم رکھتے ہی مسحور کن خوشبو اندر تک اتر گئی۔ دبیز غالیچے میں پیر اندر کو دھنستے تھے۔ بڑے سے پلنگ پر سرخ مخملیں چادر بچھی تھی جس پر موتیا و گلاب کی پنکھڑیوں کو پھیلا کر اس کا اور بابر کا نام لکھا گیا تھا۔ دروازے اور کھڑکیوں پر بھی سرخ رنگ کے ریشمی پردے پڑے تھے۔ قیمتی جھاڑ و فانوس جس سے روشنیاں پھوٹی پڑرہی تھیں۔ وہ سحر زدہ سی تھی۔ اسے لگ رہا تھا، جیسے آج وہ سچ مچ کی پری ہے؟ آہٹ پر اس نے دیکھا بابر اندر داخل ہورہا تھا۔ وہ سمٹ کر بیٹھ گئی،پورا جسم جیسے سماعت بن گیا۔

    ”میں جانتا ہوں آج کی رات تمہارے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے لیکن ……“

    پیشانی کو انگلی سے مسلتے ہوئے اس کے قریب آتے ہوئے وہ دفعتاً رک گیا۔ چہرے پر بے نا م سی الجھن تھی۔

    ”میں ہمیشہ سیدھے لفظوں میں بات کرنے کا عادی ہوں، مما میری زندگی ہیں، آپ ان کی پسند ہیں اور میری پسند……“ اس نے بات پھر سے ادھوری چھوڑدی۔ پری کی جھکی ہوئی نگاہیں بے ساختہ اُٹھ گئیں، جن میں حیرت تھی۔

    ”ربائشہ میری زندگی ہے اس کے بغیر میں ادھوراہوں“ بغیر کسی جھجک کے اعتراف کرتا اس کا لہجہ ٹھنڈا ٹھار تھا۔ اتنا یخ کہ پری کا پورا وجود منجمد ہوگیا۔ ”پتہ نہیں مما کو تم میں ایسے کونسے سرخاب کے پر نظر آگئے جو انہوں نے میر ی تمام دلیلوں پر تمہیں ترجیح دی۔ ”تمسخر سے کہتا وہ ایک ساعت کے لئے رک کر پھر سے گویا ہوا ”ٹھیک ہے روبا تھوڑی ماڈرن ہے پر ایڈجسٹ کرلیتی خود کو لیکن …… پتہ نہیں مما کیوں سمجھ ہی نہیں پائیں۔ جائیداد سے بے دخل کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ دھمکی کیا وہ توکر گزر تیں“ اس کے لہجہ میں جھلّاہٹ تھی۔ پری نے حیران اور دکھی نظروں سے اس شخص کو دیکھا جس کے ساتھ زبردستی اسے باندھ دیا گیا تھا وہ اس کے لئے کسی ناکارہ بوجھ سے بڑھ کر کچھ نہ تھی۔

    ”خیر …… زندگی بہت مواقع دیتی ہے۔ روبا کے ساتھ میرا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ کبھی بھی نہیں“ وہ حتمی انداز میں بولا ……

    ”اور پھر مجھے حق بھی تو حاصل ہے“ ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے وہ سجے سجائے پلنگ کے قریب آیا اور ہاتھ میں پکڑا ڈبہ پھینکنے کے انداز میں رکھتے ہوئے بولا،

    ”جہاں سے تم آئی ہو وہاں تم نے زندگی کو رینگتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ یہاں زندگی کو کہکشاں کے روپ میں دیکھو گی۔ یہاں تمہیں دنیا کی ساری آسائش، سب کچھ میّسر ہوگا سوائے میرے…… اور یہ تمہارے لئے رونمائی کا تحفہ، شاید پہلی بار تمہاری دسترس میں آیا ہوگا۔ اس سب کے بعد یہ سودا تمہارے لئے برا نہیں ہوگا کہ ہمارے بیچ کی یہ باتیں اس کمرے تک ہی رہیں گی۔ ویسے اس موبائیل میں میں نے قریبی رشتہ داروں کے نمبر محفوظ کردئیے ہیں“

    وہ رعونت سے کہتا کمرے کے ایک طرف پڑے دیوان کی طرف چلاگیا ماؤف دماغ لئے وہ کتنی ہی دیر یونہی بیٹھی خلاء میں گھورتی رہی۔ پھر آہستہ روی سے چلتی قد آدم کھڑکی کے پاس چلی آئی۔ رات چپ چاپ سرکتی جارہی تھی۔ چاند کی کرنوں کے ساتھ سفر کرتے کرتے وہ کالے بادلوں میں محصور ہونے لگی تو چپکے سے ملحقہ غسل خانے کی طرف چلی آئی۔ ٹھنڈے پانی کے چھپا کے منہ پر مارے، زیورات اور بھاری بھرکم لباس اتار کر کاٹن کا نرم جوڑا پہنا جو اماں نے بڑے چاؤ سے اس کے لئے سیا تھا اور بیڈ پر آگئی۔

    اس نے کسمسا کر اٹھتے ہوئے خمار آلود آنکھیں کھولیں نئے نمبر سے پیغام آرہا تھا۔

    ”کاش میں بھی تین مرتبہ خلع کہہ کر فی الفور آپ کو اپنی زندگی سے دفع کرپاتی ……“ بابر کی ساری نیند یکلخت اڑن چھوگئی۔

    ”مانا کہ میں حساس ہوں جذباتی بھی ہوں لیکن بے وقوف نہیں کہ آپ کا گھر، آپ کے رشتے سنبھالوں۔ آپ کو وارث دوں اور اس سب کے باوجود آپ کی بے اعتنائی کا زخم ماتھے پر سجائے دکھ سہتے سہتے ایک دن یونہی بے نام و نشان کھوجاؤں ……؟؟ تو یہ آپ کی بھول ہے مسٹر بابر“ وہ عجلت میں کھڑا ہوگیا کمرہ خالی تھا اس نے نئے موبائل نمبرپر کال ملائی جسے رات اس نے پری کو بطور تحفۂ رونمائی دیا تھا۔ موبائل بیڈ پر رکھے تکیہ کے پاس ہی بج رہا تھا۔ اس نے لپک کر موبائل اٹھا لیا۔ تمام نمبرز پر ایک ہی مسیج فاروڈ کیا گیا تھا۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے لپک کر دروازہ کھولا، ایک ہاتھ میں موبائل پکڑے مما وحشت ناک چہرہ لئے کھڑی تھیں۔ہمیشہ عورت پر ہی بانجھ پن کا الزام نہیں آ سکتا کبھی کبھی مرد پر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے