جیسی کرنی ویسی بھرنی
بہو نے اپنے آ ٹھ سالا منے کو آواز دی، منا دادی ماں کو ناشتہ دے آؤ۔ منا نا شتہ لے کر دادی ماں کے کمرے میں چلا آیا اور دادی ماں کی طرف پلیٹ بڑھا دی۔ جس میں معمول کے مطابق رات کا بچا ہوا کھانا اور اس پر ڈالا ہوا کچھ سالن تھا۔ دادی نے منے کے ہاتھوں سے پلیٹ لیتے ہو ئے پوچھا۔ منا بیٹے تم نے ناشتہ کر لیا۔۔۔؟ منا جواب میں سر ہلاتے ہو ئے کہنے لگا۔ ہاں دادی ماں میں تو کب کا کھا چکا۔ میں نے پراٹھے اور ساتھ میں میٹھا بھی کھایا۔۔۔ دادی کے چہرے پر ایک دم سے اداسی چھا گئی ان کی آنکھوں کے آگے پینتیس سال پرانا وہ منظر گھومنے لگا، جس دن سے وہ اپنے سسرال میں بیاہ کر آئی تھیں۔ رانی بن کر راج کرتی رہیں، ساس سسر بہت ہی نیک تھے۔ نہ ہی کوئی روک ٹو ک نہ بہو پر کسی بات کی پابندی اور نہ ہی کسی بھی چیز کی کمی تھی۔ سارے گھر میں انہیں کا راج تھا۔۔۔ ڈھلتے وقت کے ساتھ جب ساس سسر کی عمر ڈھلنے لگی تو صحت بھی ساتھ چھوڑ نے لگی۔ پھر پیاری سی بہو کا سلوک بھی ان کے لیے بدل سا گیا۔۔۔ ان کی دیکھ بھال میں کوتاہی ہونے لگی۔ نہ ہی انہیں وقت پر اچھا کھانا دیا جاتا اور نہ ہی ان کی خیریت ہی دریافت کی جاتی جبکہ ایک ہی گھر میں ہو تے ہو ئے بھی۔ اچھے اچھے لوازمات تیار ہو تے مگر ان بیچاروں کو ہمیشہ ہی بچا بچا کچا باسی کھانا ہی دیا جاتا۔۔۔ بچے جب اپنے دادا دادی کے تئیں یہ نا انصافی دیکھتے تو اپنی ماں سے پو چھتے کہ ماں ہم سب لذیز اور تازہ پکوان کھاتے ہیں مگر دادا دادی کو ہمیشہ بچا کچا کھاناہی کیوں دیا جاتا ہے تو انہیں ڈانٹ کر چپ کر ا دیا جاتا کہ بڑے آ ئے دادا دادی کی طرف داری کرنے والے۔ اگر انہیں بھی تازہ تازہ دے دوں تو یہ بچا ہوا کون کھائےگا۔ پھر یہ بیکار نہیں ہو جائےگا۔۔۔
منا کہاں ہو تم، اسکول کے لیے دیر ہو رہی ہے، بہو کی آواز پر وہ اپنے دور ِ ماضی سے حال میں لوٹ آ ئیں جو ایک تلخ ترین حقیقت تھی۔ آج وہ کتنی بےبس اور تنہا تھیں وہ شکوہ اور گلا کرے بھی تو کس سے اور کس منہ سے کرتیں۔ کچھ عر صہ پہلے ان کے شوہر بھی ان کا سا تھ چھوڑ کر اس دنیا کو خیرباد کہہ چلے تھے۔ انہوں نے دیکھا ابھی بھی ان کا معصوم پوتا انہیں کے پا س ٹہرا سوالیہ نگاہوں سے کبھی ان کو تو کبھی ان کے ہاتھ میں رتھمی کھانے کی پلیٹ کو تکے جا رہا تھا۔۔۔ انہیں منا کی ان معصوم نگاہوں میں ایک ہی سوال تیرتا ہوا نظر آ رہا تھا کہ دادی ماں ممی آ پ کو روز روز رات کا بچا ہوا کھانا کیوں دیتی ہیں جبکہ ہمیں گرم گرم پراٹھے وغیرہ بناکر کھلاتی ہیں۔۔۔
اس معصوم کے سوالیہ نگاہوں کی وہ تاب نہ لا سکیں ان کی ندامت سے بھری نمناک پلکیں خود بخود اپنی پلیٹ پر جھک گئیں۔۔۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.