جلن
جلتی آنکھوں، تپتے دماغ، سلگتے سینے اور نفرت انگیز دل سے اس نے جو کچھ کیا ،اس پر وہ مطمئن تھا۔ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ وہ درمیانی تعلیم اور کمتر ذہانت والاشخص تھا۔ اس کا دل اور دماغ جوفیصلہ کرسکتے تھے، اس نے وہی کیا۔
زندگی کے اسٹیج پر ایک ساتھ چلتے ہوئے ایک دن اسے لگا کہ وہ اس سے بہت تیز چل رہا ہے، بلکہ دوڑ رہا ہے۔ جبکہ بچپن میں وہ ہر لحاظ سے پیچھے تھا۔ یہ صحت مند، وہ کمزور۔ یہ لمبا ، و ہ پستہ قد۔ یہ ایک کلاس آگے وہ پیچھے۔ اس کا گھر اس کے گھر سے ایک منزل اونچا حتیٰ کہ گھر کے باہر کا چبوترہ بھی۔ برسات کا پانی اِس کے گھر کے آگے سے بہتا ہوا اس کے گھر کے آگے ٹھہر جاتا اور دہلیز سے گزر کر صحن میں ڈیرہ ڈال دیتا۔ یوں تو روشن اس کا بہت اچھا دوست تھا لیکن یہ سب باتیں بلّے کے سینے کو ہوا بھر اوپر کردیتیں اور اس کے کندھے کچھ اور چوڑے ہوجاتے۔
ایک دن تپتی دوپہر نے غرور سے بھرے سینے کو سوکھی لکڑی کی طرح جلا کر رکھ دیا۔ کالج کی ڈرامیٹک سوسائٹی کے کرتا دھرتا موٹے فریم کی عینک والے پروفیسر نے روشن کو ڈرامے کے مرکزی کردار کے لیے چن لیا۔ تب بلّے کے پھولے سینے کے چھپے ہوئے دل میں جلن سلگتی سلاخ کی طرح پیوست ہوگئی۔ عرصے تک رکھی ہوئی چیز میں رفتہ رفتہ پڑ جانے والی سڑاند کی طرح بلّے کے اندر جلن پرورش پا گئی اور اب سڑنے لگی تھی۔ اسی لیے اس نے جو کچھ کیا اس پر وہ مطمئن تھا۔
جست کی سرمئی چادروں سے بنی ہوئی بڑی بڑی ٹرالیوں کے اندر لگی چینل کے درمیان میں ایک رکاوٹی پٹی کے اسکرو کھول دیئے گئے۔ ایک مخصوص حد تک جا کر بیرنگوں کو روک دینے والی پٹی ہٹادی گئی۔۔۔ بلّا مطمئن۔۔۔ اب روشن کو کون بچاسکتا ہے۔۔۔ ولن کا ظالمانہ حکم رسیوں سے جکڑا ہوا روشن۔۔۔ سوئچ آن۔۔۔ تب کسی کے وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ نوکیلی سلاخیں جسم کے پار ہوجائیں گی۔
دسمبر کی خنک ہوائیں ہال کی اونچی اونچی دیواروں کے اوپر بنے روشن دانوں میں سے چھن چھن کر اند رآرہی تھیں اور اندر کے ماحول کو بھی سرد کررہی تھیں۔
اس نے پچھلے سین کی کنٹی نیوشن والی سرخ ہائی نیک کے کالر کو مزید اونچا کیا۔ ہاتھوں کو جھاڑا اور پھر پتلون کی جیبوں میں اڑس لیے۔
’’حرامزادہ مجھ سے آگے جارہا ہے‘‘۔
اس نے نفرت اور اطمینان سے اپنے کندھوں کو حرکت دی۔ نفرت اسے روشن سے تھی اور اطمینان اسے اپنی کارروائی سے تھا۔ یکایک اس کا چہرہ نرم پڑتا چلا گیا، نفرت جو لمحہ بھر پہلے اس کی آنکھوں اور ہونٹوں کے کناروں سے عیاں تھی، یکسر غائب ہوگئی، آخر وہ اداکار تھا۔ اسٹیج پر برسوں سے ہزاروں لوگوں کے سامنے وہ طرح طرح کے سوانگ بھرتا چلا آیا تھا اور اب چار برسوں سے کیمرے کے سامنے ہر لحظہ بدلتے چہرے کے تاثرات کے ساتھ اداکاری کررہا تھا۔ مگر کیا کرے کہ اتنی محنت اور ریاضت کے بعد بھی اسے فلموں میں صرف درمیانے درجے کے کردار ہی ملے۔ کوئی بڑا کردار نہیں مل رہا تھا۔
’’اب مل جائے گا۔ مردے کسی کی ترقی کا راستہ نہیں روک سکتے‘‘۔
اس نے سوچا اور ایک بناوٹی طمانیت چہرے پر سجائے فلم کے سیٹ پر چلا آیا۔
گزشتہ پندرہ برسوں میں وہ نہ جانے کتنے کردار ادا کرچکا تھا۔ اسٹیج کے ہر بڑے ڈرامے میں وہ اور روشن ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے۔ اس بات سے ہر ڈرامہ پروڈیوسر واقف تھا کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں تو خوب جم کراداکاری کرتے ہیں۔ آغا حشر کے رستم و سہراب میں وہ رستم تھا اور روشن سہراب، امتیاز علی تاج کے انارکلی میں وہ شہنشاہ اکبر اور روشن شہزادہ سلیم تھا۔
لوگوں نے دیکھا تھا کہ رستم و سہراب میں سپاہیانہ لباس پہنے وہ ایک دوسرے کے مقابل تھے اور خوب تھے۔
’’تو میرا نام جاننا چاہتا ہے تو سن میرا نام۔۔۔‘‘
رستم؟
نہیں سہراب کی موت۔
افسوس تو نے میرے رحم کی قدر نہ کی۔ اچھا تو دیکھ اس بوڑھے ہاتھ کی طاقت۔
آہ! اے آنکھ تمہارے نصیب میں باپ کا دیدار نہ تھا۔ کہاں ہو، پیارے باپ کہاں ہو، آؤ آؤ کہ مرنے سے پہلے تمہارا سہراب تمہیں ایک بار دیکھ لے۔
کیا اپنی جوانی کی موت پر ماتم کرنے کے لیے اپنے باپ کو یاد کررہا ہے۔ اب تیرے باپ کی محبت اس کی دعا، اس کے آنسو، اس کی فریاد کوئی تجھے دنیا میں زندہ نہیں رکھ سکتی۔
روشن اور بلّا بھرپور جذباتی اورڈرامائی انداز میں ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ حاضرین دونوں کی باکمال اداکاری پر محوِ حیرت تھے۔
بھاگ جا، بھاگ جا۔۔۔ اس دنیا سے کسی دوسری دنیا میں بھاگ جا۔ تو نے سام و فریمان کے خاندان کا چراغ بجھادیا ہے۔ تاریک جنگلوں میں، پہاڑوں کے غار میں، سمندر کی تہہ میں تو کہیں بھی جا کر چھپے لیکن میرے باپ رستم کے انتقام سے نہ بچ سکے گا۔
کیا!! تو رستم کا بیٹا ہے؟
ہاں!
تیری ماں کا نام؟
تہمینہ۔۔۔
تیرے اس دعوے کا ثبوت؟
اس بازو پر بندھی ہوئی میرے باپ رستم کی نشانی۔
جھوٹ ہے جھوٹ ہے، تو دھوکہ دے رہا ہے، مجھے پاگل بنا کر اپنے قتل کا انتقام لینا چاہتا ہے۔۔۔ یہ کیا۔۔۔ وہی چہرہ، وہی نشانی۔۔۔ کیا کیا۔۔۔ شیر جیسا خونخوار ۔۔۔ بھیڑیے جیسا ظالم۔۔۔ ریچھ جیسا موذی حیوان بھی اپنی اولاد کی جان نہیں لیتا لیکن تو انسان ہو کر حیوان سے زیادہ خونی اور بہائم سے بھی زیادہ بے رحم بن گیا۔
فتح مند بوڑھے ۔۔۔ تو رستم نہیں ہے۔۔۔ پھر میری موت پر خوش ہونے کے بدلے اس طرح کیوں رنج کررہا ہے۔
اس دنیا میں رنج اورآنسو، رونے اور چھاتی پیٹنے کے سوا اب اور کیا باقی رہ گیا۔ میں نے تیری زندگی تباہ کرکے اپنی زندگی کا ہر عیش اور اپنی دنیا کی ہر ایک خوشی تباہ کردی۔ مجھ سے نفرت کر، میرے منہ پر تھوک، مجھ پر ہزاروں زبانوں سے لعنت بھیج! میں فغاں ہوں، حسرت و ماتم ہوں، سر سے پاؤں تک غم ہوں، میں ہی بیٹے کا قاتل ہوں، میں ہی بدبخت رستم ہوں۔۔۔
سنجیدہ حلقوں میں ابھی ڈرامے کی بازگشت ختم نہ ہوئی تھی کہ ایک بار پھر اسٹیج پر امتیاز علی تاج کے انارکلی میں وہ شہنشاہ اکبر اور روشن شہزادہ سلیم کے روپ میں آمنے سامنے تھے۔ جب ڈرامے کے کلائمکس میں دونوں زرق برق لباس پہنے باوقار انداز میں ایک دوسرے کے مقابل آئے تو کردار جاگ اٹھے ۔
’’شیخو یہ کیا ہے ۔تمہیں کیا ہوگیا ہے‘‘۔
تم کون ہو؟
اپنے باپ کو پہچانو۔
شیخو کا کوئی باپ نہیں۔ وہ مرچکا ہے تم ہندوستان کے شہنشاہ ہو۔ جہاں بانی کے باپ، دولت کے باپ، تم قاتل ہو، انارکلی کے قاتل، سلیم کے قاتل، تمہاری پیشانی پر خون کی مہریں ہیں، تمہاری آنکھوں میں جہنم کے شعلے، تمہاری سانس میں نعش کی بو ہے۔
شیخو میرے بچے ہوش میں آؤ۔
شیخو تمہارا بچہ نہیں دیکھو تمہاری بیٹی وہ پڑی ہے۔ جاؤ اس سے لپٹو اور اس پر آنسو بہاؤ؟
دلارام؟
ہاں تمہارے قید خانے کی کلید، تمہارا خون کا فرمان، تمہارا کچل ڈالنے والا پتھر،
خداوندا! یہ دن بھی دیکھنا تھا۔
اس کی سرد نعش میں روح یہ کہنے کو رکی ہوئی ہے کہ میں نے سلیم کو چاہا اور اس نے انارکلی کو چاہا اور میں نے انتقام لینے کے لیے انارکلی کو برباد کیا۔۔۔ جاؤ۔۔۔ اس سے یہ سنو اور کلیجہ ٹھنڈا کرو۔ اور پھر اپنے فرزند داروغۂ زنداں کو بلاؤ، اس پیسے کے کمینے غلام کو، جس نے دولت پر انارکلی کو بیچنا چاہا۔ اور تمہارے ہاتھ اس لیے بیچ ڈالا کہ تم زیادہ امیر تھے‘‘۔
روشن کے چہرے پر پھیلی ہوئی نفرت اور قدموں سے لپٹا ہوا وقار شہزادہ سلیم کے کردار میں جان ڈال دینے کے لیے کافی تھا۔ دوسری طرف اپنے کندھوں پر شاہی جاہ و جلال اٹھائے چہرہ پر پدرانہ شفقت میں لاچارگی سمیٹے بلّا بھی اپنے کردار کے ساتھ بھرپور انصاف کررہا تھا۔ بلّا کہیں گم ہوچکا تھا۔ گھٹنوں کے بل جھکے روشن یا شہزادہ سلیم سے ایک شہنشاہ مخاطب تھا، جو اس کا باپ بھی تھا۔
’’میرے بچے اس وقت میرے سینے سے چمٹ جا اور تو بھی آنسو بہا اور میں بھی آنسو بہاؤں گا۔ مان جاؤ شیخو۔۔۔ مان جاؤ۔ ایک دفعہ باپ کہہ دے، صرف ابا کہہ کر پکارلے۔ میں تمہیں خنجر لادوں گا۔ ہاں خنجر تک لادوں گا۔ مگر بیٹا یہ بدنصیب باپ جسے سب شہنشاہ کہتے ہیں اپنا سینہ ننگا کردے گا۔ خنجر اس کے سینے میں بھونک دینا۔ پھر تو دیکھے گا اور دنیا بھی دیکھے گی کہ اکبر باہر سے کیا ہے اور اندر سے کیا ہے۔ اکبر کا قہر، اکبر کا ستم، اور اکبر کا ظلم کیوں ہے۔ اس کے خون میں بادشاہ کا ایک قطرہ نہیں ، ایک بوند نہیں، وہ سب کا سب شیخو کا باپ ہے۔۔۔ صر ف باپ۔۔۔ وہ بادشاہ ہے تو تیرے لیے۔ وہ مزدور ہے توتیرے لیے، وہ قاہر ہے اور جابر ہے تو تیرے لیے ، وہ تیرا غلام ہے اور میرے جگر گوشے غلاموں سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔۔۔‘‘۔
ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ سب نے کہا : بلّا بڑا اداکار ہے۔ مگر بلّا بڑا اداکار کہاں تھا۔ فلمی دنیا نے تو اسے درمیانے درجے کا اداکار بنادیا تھا، اور روشن۔۔۔
’’کمینہ۔۔۔ حرامزادہ۔۔۔ کاش! رستم و سہراب کے آخری منظر میں میرے ہاتھ میں اصلی خنجر ہوتا تو وہیں روشن کے سینے میں بھونک دیتا۔ چلو اب سہی ،اپنے ہاتھ چلائے بغیر کام ہوجائے تو زیادہ اچھا ہے‘‘۔
مارشل لاء کے دنوں میں جب ملکی فضا یکسر تبدیل ہوگئی۔ شخصی آزادی چھن گئی تو اس نے اور روشن نے مل کر ایک ڈرامہ ’’روشنی‘‘ لکھا تھا۔جس میں اس نے ایک ایسے خاموش مبصّر کا کردار ادا کیا تھا جس کی زبان کاٹ دی گئی تھی۔ روشن اس ڈرامے میں ظالم بادشاہ کے پالتو خون پینے والے بھیڑیے نما انسان کے روپ میں سامنے آیا تھا۔ جسے ہر شام ایک انسان کا خون چاہیے۔ جب شہر کا ہر نوجوان خون آشام بھیڑیے کے بھینٹ چڑھنے لگتا ہے تب بوڑھی اور نخیف آوازوں کے مسلسل احتجاج کے بعد بادشاہ اس شرط پر جانور کو مارنے پر تیار ہوجاتا ہے کہ آج کی شام آخری بار شہر کے سب سے معزز اور سب سے زیادہ احتجاج کرنے والے بوڑھے کا خون پلایا جائے۔ بوڑھا شخص اپنی آخری قربانی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ تب عین موقع پر خاموش مبصر شہر کے اس معزز شخص کو دھکا دے کر اپنی گردن پالتو وحشی کے سپرد کردیتا ہے۔
دوسرے دن انتظامیہ نے یہ ڈرامہ اسٹیج کرنے پرپابندی لگادی تھی مگر ایک عرصے تک شہر میں اس ڈرامے کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ دو دوستوں کی اس مشترکہ تخلیق کا ذکر کئی روز تک اخبارات میں بھی ہوتا رہا اور پھر بلاوے پر وہ دونوں اپنے شہر کا اسٹیج چھوڑ کر لاہور چلے آئے۔ یہاں آتے ہی ایک فلم میں دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل بڑے کرداروں میں لے لیا گیا۔ لیکن بلّا کا بڑا کردار سنیما کے پردے پر پہنچتے پہنچتے ایک مختصر کردار بن گیا۔ یوں اپنے شہر میں پیچھے چھوڑ کر آنے والا یکساں معیار یکسر تبدیل ہو کر رہ گیا۔
جلتی آنکھوں، تپتے دماغ، سلگتے سینے اور نفرت انگیز دل کی شدت میں ہر دن اضافہ ہورہا تھا۔ یہی شدت اسے سیٹ کے پیچھے رکھی جست کی سرمئی ٹرالیوں کے قریب لے آئی ۔ اسے پتا تھا کہ بیرنگوں کو ایک مخصوص حد پر روک دینے والی پٹی کو ہٹادینے کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔
اپنی دانست میں اس نے سارا کام بہت احتیاط سے کیا تھا، لیکن وہ بے خبر تھا کہ اچھے بھائی نے اسے ایسا کرتے دیکھ لیا ہے۔
اچھے بھائی۔۔۔ چھلاوہ کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ ہر کام کا ذاتی نگرانی میں جائزہ لینا۔ ابھی لائٹ مین کو دیکھ رہے ہیں تو ذرا دیر بعد وہ سیٹ ڈیزائنر سے چھوٹی چھوٹی جزئیات پر ڈسکس کرتے نظر آئیں گے اور پھر کیمرہ کی آنکھ سے دیکھیں گے کہ منظر کو کیسے شوٹ کریں۔ کہاں زوم کریں اور کہاں لانگ شاٹ سے کام چلائیں۔ مطمئن ہوگئے تو کیمرہ مین کو سمجھا کر اوکے کردیں گے، ورنہ منظر پر بحث کرتے دکھائی دیں گے۔ سیٹ کی جزئیات پر تو وہ کمال کی نگاہ رکھتے ہیں۔ غریب کا گھر دکھانے کے لیے وہ چند ٹوٹے برتن، جھنگولہ چارپائی اور دیوار پر اکھڑے ہوئے پلاستر سے جھانکتی ہوئی اینٹیں دکھا کر کام نہیں چلاتے اور نہ ہی کسی دولت مند کے گھر کے منظر میں سنہری ٹیلی فون، گول زینہ اور ریشمی گون سے امارت کا اظہار کرتے ہیں، بلکہ وہ انسانی روّیوں اور چھوٹے چھوٹے مختلف زاویوں سے چلتے پھرتے اور باقاعدہ زندگی کے امور انجام دیتے ہوئے منظر فلماتے۔ یہی وجہ تھی کہ حقیقت سے قریب کباڑ خانے کے اونچے نیچے دالانوں کو پھلانگتے اور چیزوں کو کیمرے کے حوالے سے بہترین زاویے پر رکھواتے ہوئے انہوں نے بلّے کو دیکھ لیا۔
ذہین فلم ڈائریکٹر اچھے بھائی کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ روشن کو جان سے مارنے کا منصوبہ ہے، جس کا خالق بلّا ہے ،جو کہ اس کا دوست بھی ہے۔
اچھے بھائی نے حقارت سے بلّے کو دیکھا۔ روشن سیٹ پر نہیں پہنچا تھا۔ فلم کا ہیرو ذرا دیر سے ہی آتا ہے ۔
’’تو کیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسا ہوجانے دوں گا۔۔۔ نہیں۔۔۔ ناممکن ہے۔۔۔ اور یوں بھی ایسا خطرناک واقعہ میری ساکھ کو مٹی میں ملا کر رکھ دے گا۔ کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔ کچھ ایسا کہ اس گدھے کو نصیحت حاصل ہو‘‘۔
انہوں نے اگلے سین کی ریہرسل کروارہے اپنے اسسٹنٹ کو آواز دی اور رازداری سے اسے کچھ ہدایات دیں۔ اسسٹنٹ سر ہلاتا ہوا مصنوعی دیواروں کے پیچھے رکھی ٹرالیوں کی طرف چلا گیا۔ اسی اثناء میں اچھے بھائی نے باآواز بلند اعلان کیا کہ انہوں نے فلم کی کہانی میں ایک اہم تبدیلی کی ہے۔ کسی کے کردار کو کم کیے بغیر ایک نئے کردار کو انڈکٹ کیا ہے۔ بلّے کا کردار تبدیل کردیا ہے۔ بلّا یہ نیا کردار ادا کرے گا۔ یوں بھی عرصے سے وہ ایک اچھے رول کا مطالبہ کررہا ہے۔ میں نے سوچا اسے اسی فلم میں سائیڈ ہیرو کا کردار دے دوں۔ اب نئی ترمیم کے مطابق ولن کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا منظر روشن پر نہیں بلّے پر فلمایا جائے گا۔
سیٹ پر موجود تمام لوگوں نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اچھے بھائی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہوا یوں کہ ان کی پچھلی سپرہٹ فلم کی شوٹنگ کے دوران کراچی میں ایک واقعہ رونما ہوگیا۔ ایک نوجوان لڑکی نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے والدین اور بھائی کو ذبح کر ڈالا۔ اس واقعہ کی شدت اور کراہیت سے ہر شخص متاثر ہوا۔ رشتوں پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ ایک طرف نوجوان لڑکیاں بلا سبب اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے سامنے جاتے ہوئے احساس شرمندگی سے سرجھکالیتیں، جیسے وہ اس جرم میں شریک رہی ہوں، تو دوسری جانب بہت سے والدین نے اپنی بیٹیوں کے دوستوں اورسہیلیوں کا جائزہ لیا کہ کہیں ان کے دوستوں میں ایسے ہی گھٹیا لوگ تو شامل نہیں۔ اچھے بھائی بھی اس واقعہ سے اتنا ہی متاثر ہوئے تھے۔
ایک دن فلم بندی کے دوران اچانک وہ اٹھے اور چند کاغذوں پر جلدی جلدی اسکرپٹ لکھنا شروع کردیا۔ پوچھنے پر بولے۔
’’فلم کی کہانی تبدیل کررہا ہوں‘‘۔
انہوں نے نہایت خوبصورتی سے اس واقعہ کو بعض تبدیلیوں کے ساتھ کچھ اس طرح فلم میں شامل کیا کہ وہ سب حیران رہ گئے۔ اندوہناک واقعہ کی بازگشت ابھی فضاؤں میں باقی تھی کہ فلم ریلیز ہو گئی۔ فلمی دنیا کا ہر شخص اچھے بھائی کی مہارت کی داد دے رہا تھا۔یہی وجہ تھی کہ آج جب انہوں نے فلم کی کہانی میں تبدیلی کا عندیہ دیا تو سیٹ پر موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا:
’’لو بھئی ایک اور سپرہٹ فلم‘‘۔
اچھے بھائی نے یہ کہہ کر فوراً ہدایات دینا شروع کردیں۔ لیکن بلّا تو یہ سن کر بھونچکاسا رہ گیا تھا۔
’’اچھے بھائی نے ایک عرصے سے میری بات نہیں مانی۔ آج کیا بات ہوئی کہ اچانک وہ مجھے بڑا کردار دینے کے لیے تیار ہوگئے اور پھر وہ سلاخیں جو ابھی کچھ دیر بعد روشن کے جسم میں پیوست ہونے والی ہیں۔ کیا وہ میرے جسم میں اتریں گی۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘
وہ یہ سوچ کر تھرّا گیا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے منع کرے۔ آخر وہ ایک اچھے اور بڑے کردار کی درخواست کئی فلم سازوں اور ڈائریکٹروں سے کرتا چلا آرہا تھا۔
کوئی ایسا کردار جسے کرنے کے بعد وہ یہ ثابت کرسکے کہ وہ روشن سے بڑا اداکار ہے۔ جو اداکاری کے فن سے زیادہ آشنا ہے۔ جو کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اداکاری کرتا ہے۔ کردار کی ضرورت کے مطابق جو اپنی آنکھوں میں چمک، دھند، شوخی، اداسی، سحر یعنی ہر کیفیت ابھار لاتا ہے۔ جو کہ ہونٹوں کے کناروں پر خوشی اور درمیان میں غصہ لمحوں میں سجالیتا ہے۔ جس کے ہاتھ مکالموں کے عین مطابق حرکت کرتے ہیں اور جو کہ مکالموں کی ادائیگی اور کردار کی نشست و برخاست میں لاجواب ہے۔ پھر بھی بڑا اداکار کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس کی نگاہوں میں ہمیشہ روشن کا چہرہ ابھر آتا۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دو مسٹنڈے رسیاں لے کر آگئے اور آئیے بلّا صاحب کہتے ہوئے اسے کردار کی ڈیمانڈ کے مطابق رسیوں سے جکڑنے لگے۔ اس نے محسوس کیا کہ جیسے رسیاں کچھ زیادہ ہی سخت باندھ دی گئیں ہیں۔ اس نے قریب ہی کھڑے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو دیکھا جو خاموشی سے اسٹیج کے پیچھے کھڑی ہوئی سرمئی ٹرالیوں کے تمام نٹ بولڈ اور چینل درست کرنے کے بعدواپس آگیا تھا۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بلّے کے چہرے پر پھیلی ہوئی گھبراہٹ دیکھ کر کہا:
’’بلا صاحب! آپ بے فکر رہیں۔ ٹرالی کی سلاخیں آپ سے دو فٹ کے فاصلے پر خود بخود رک جائیں گی‘‘۔
لیکن بلّے کو اس بات پر بھروسہ کب تھا۔ وہ تو یہ جانتا تھا کہ نٹ بولٹ اس نے خود ڈھیلے کیے ہیں، اور اب ٹرالی کے دو فٹ کے فاصلے پر رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ یقیناًجسم کے پار اتر کر اسے ہلاک کردیں گی۔ اس خیال سے ہی وہ کانپ گیا۔ اس نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ یہ کردار ادا نہیں کرے گا۔ ا س نے چیخ کر کہا:
’’دادا! مجھے یہ کردار نہیں چاہیے، آپ کسی اور سے کروالیں‘‘۔
اچھے بھائی قریب آئے اور بولے۔
’’یہ جو اس وقت تمہارے چہرے پر ایکسپریشن ہیں۔ مجھے یہی چاہئیں۔ تمہارے یہ تاثرات فلم میں جان ڈال دیں گے۔ تم کو اندازہ نہیں ہے کہ تم ایک ہٹ کردار ادا کرنے جارہے ہو۔ یاد رکھو آج جو تمہیں بریک ملنے والا ہے۔ ایسا کسی اداکار کو نہیں ملا ہوگا۔ میں نے صرف تمہاری خاطر پوری کہانی کو تبدیل کررکے رکھ دیا ہے اور یوں بھی پچھلی فلم کے رزلٹ کے بعد میرا خیال ہے تم مجھ پر بھروسہ کرسکتے ہو‘‘۔
اچھے بھائی یہ کہہ کر مسٹنڈوں کی طرف مڑے اور بولے:
’’انہیں اس ستون سے باندھ دو۔۔۔ ہری اپ۔۔۔ آج میں چاہتا ہوں کہ بلّا صاحب کا کام ختم کردوں۔ میرا مطلب ہے کہ ان کی شوٹنگ مکمل کرلوں‘‘۔
مسٹنڈوں نے سیٹ کے درمیان میں گڑے ہوئے ستون سے بلّے کو باندھ دیا۔ آج کی شوٹنگ کے لیے خاص طور سے بنائی گئی سرمئی ٹرالیوں کو لا کر ستون کے دائیں بائیں چھ فٹ کے فاصلے پر کچھ اس طرح سے رکھ دیا گیا کہ اب وہ زمین کا حصہ معلوم ہورہی تھیں، اور جس میں سے لمبی لمبی نوک دار سلاخیں دو مخالف سمتوں سے آہستہ آہستہ نکلتے ہوئے جسم کی طرف بڑھنا تھیں۔ میکنیزم میں خرابی کی صورت میں یہی سلاخیں کئی فٹ اور آگے تک جاسکتی تھیں اور بلّے کو پورا یقین تھا کہ وہ سلاخیں کئی فٹ آگے تک جائیں گی۔
اچھے بھائی نے سوچنے کی مہلت دیئے بغیر بلّے کو سبق سکھانے کی غرض سے نقلی شوٹنگ کا آغاز کردیا۔ سیٹ روشن کردیا گیا۔ کیمرہ حرکت میں آگیا۔ نہ کہانی تبدیل ہوئی تھی نہ کردار۔ بس ایک فرضی ڈرامہ تھا جس کے بارے میں صرف ڈائریکٹر اچھے بھائی اور ان کا اسسٹنٹ واقف تھے۔ اور جس کا مقصد بلّے کو سمجھانا تھا کہ دوسرے کی موت کی خواہش کرنے والے کو خود مرنے کے خوف سے آگاہ ہونا چاہیے۔
دور کھڑے ہوئے ولن نے اپنے حواریوں کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے چند مکالمے ادا کیے اور پھر دیوار پر لگے سوئچ آن کردیئے۔ ٹرالی میں بنے سوراخوں سے نوکیلی سلاخیں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگیں۔ بلّے کو لگا کہ دونوں سمتوں سے وہ سلاخیں چند ساعتوں بعد اس کے جسم کو چھید کر رکھ دیں گی اور جن کے دو فٹ کے فاصلے پر رکنے کا اب کوئی امکان بھی نہیں ہے، کیونکہ ٹرالی میں لگے ہوئے بیرنگوں کو کنٹرول کرنے والی مضبوط راڈ کے آگے لگی رکاوٹ کے بولڈ ڈھیلے کیے جاچکے تھے ۔اب بیرنگ اپنی دو فٹ والی حد کو پھلانگنے والے تھے۔ صرف چند لمحوں بعد روشن کی موت کی خواہش میں اپنے ہاتھوں سہلائی ہوئی نوکیلی سلاخیں گوشت پھاڑ کر ہڈیاں توڑتی ہوئی خود اس کی روح میں اترنے والی تھیں۔
لمحہ بہ لمحہ بڑھتی سلاخوں کی نوکیں وہ اپنے جسم میں محسوس کررہا تھا۔ ذرا دیر پہلے وہ اس تصور سے خوش تھا کہ یہاں روشن بندھا ہوگا۔ روشن کا خیال آتے ہی برسوں پر محیط منظر سیکنڈوں میں اس کے تصورمیں یوں گزرنے لگا جیسے ٹی وی اسکرین پر فارورڈ کا بٹن دبانے کے بعد منظر تیزی سے گزرتے ہیں۔
کبھی گلی میں، بھی بڑے میدان میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے ہوئے، دوستوں کی شادیوں میں رات رات بھر ہنگامہ کرتے ہوئے، اسکول اور پھر کالج کے مقابلوں میں ، پڑھائی میں، سی این سی کی ٹریننگ میں اور پھر گھر والوں کی مخالفت کے باوجود اسٹیج کے ڈراموں میں ایک ساتھ ایک دوسرے کے مقابل کردار ادا کرتے ہوئے۔ ہر منظر میں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی سلاخوں کی نوکیں وہ اپنے جسم میں اترتی محسوس کررہا تھا کہ اچانک اس نے دہشت سے آنکھیں بند کرلیں۔
میکنزم کنٹرول کے تحت سلاخیں بلّے سے دو فٹ کے فاصلے پر خود بخود رک گئیں۔ اچھے بھائی نے کٹ کہا۔
مسٹنڈوں نے آکر بلّے کی رسیاں کھول دیں۔ لیکن رسیاں ڈھیلی ہوتے ہی بلا دونوں مسٹنڈوں کے ہاتھوں میں جھول گیا۔
نہ جانے کس لمحے جلتی آنکھیں بے نور، تپتا دماغ مردہ اور سلگتے سینے کے اندر نفرت انگیز دل نے دھڑکنا بند کردیا تھا۔
(۱۹۹۹ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.