جلتی بستی
ریل کا سفر قیامت سے کسی طرح کم نہ تھا۔ تمام رات دل دھک دھک کرتا رہا اور کان لوگوں کی آوازوں سے گونجتے رہے۔ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ بلوائی تڑا تڑا گولیاں چلا رہے ہیں، جو گاڑی کا سینہ چیر کر سیدھی میرے کانوں میں لگتی تھیں۔ مجھ میں روح تو نام کو نہ رہی تھی اور مردہ حالت میں بھی مجھ پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی رہی۔
پیپل کھیڑی تک گاڑی صحیح سلامت آئی۔ پھر ایک جنگل میں آکر رک گئی۔ اندھیری رات! میں نے زندگی میں کبھی اتنی ڈراؤنی رات نہیں دیکھی۔ میں بری طرح اپنی جگہ پر دبکا رہا۔ ایسا لگا جیسے سوچ رخصت ہو چکی ہے، آواز چھن گئی ہے اور بدن سن ہو گیا ہے۔ کاٹو تو لہو نہیں۔ اتنے میں میرے ڈبے میں کسی بلوائی نے روشنی پھینکی اور پھر فوراً ہی بندوق چلانی شروع کر دی۔ سب لوگ جھٹ بینچوں کے نیچے دبک گئے اور ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کے سامنے انہوں نے اپنا سامان جما دیا۔ پھر بلوائی لوٹ گئے اور گاڑی چل نکلی۔ ہمارے ڈبے کے دو فوجیوں نے بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ وہ تو موت پر بھی نڈر ہو کر لپک رہے تھے۔
گاڑی چلتی رہی اور اندھیرے میں چاروں طرف سے گولیاں برستی رہیں۔
میری حالت اس ہنگامے کے بعد قدرے سنبھلی۔
میں چپ چاپ پاخانے میں سانس روکے کھڑا تھا۔ اسی میں کچھ سامان، ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک مرد بھی موجود تھے۔ پورا ڈبہ اوپر تلے بھرا تھا۔ ایک طرف جنگ کے زمانے کی لکھی ہوئی یہ ہدایت مٹی مٹی نظر آتی تھی کہ سفر تب کرو جب یہ ناگزیر ہو۔ جنگ کو گزرے پورے دو سال ہو لئے تھے اور آج ہر مسافر سفر کے لئے مجبور تھا۔
گاڑی کوئی باڑہ تھی، جس میں کسی چرواہے نے اوپر تلے بھیڑیں ہی بھیڑیں دھکیل دی ہوں۔ ان کا سانس تک رک گیا ہو، بلبلا رہی تھیں لیکن بے بس ہوں۔
جب گاڑی نئی سرزمین میں داخل ہوئی تو صبح ہو چکی تھی۔ گولیوں کی آوازیں بند ہوئیں۔ میں نے دیکھا تو ایک کمسن بچی ماں کی خون سے لتھڑی ہوئی گود میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو چکی تھی اور اس کی ماں بھی وہیں ڈھیر پڑی تھی۔ میں نے اسے گھور گھور کر دیکھا اور میری پتھریلی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ گرا۔ کوئی نہ جانا کہ وہ عورت کون تھی اور کہاں سے آئی تھی۔ گاڑی بڑے لاشے لائی تھی۔
بڑے اسٹیشن پر گاڑی آکر رکی۔ میں گرمی کے مارے پا خانے کے اندر پگھلا جا رہا تھا، نئے وطن میں آکر میں نے سب سے پہلے گرمی ہی محسوس کی۔ میرا روستہ بالکل بند تھا۔ میں یہی دیکھتا رہا کہ کب لوگ نیچے اتریں اور میری باری آئے۔
لوگ بے تحاشہ نیچے اتر رہے تھے۔ ایک بڈھا تو دھکم پیل میں پائدان سے گرا اور دو تین آدمی اور بھی اس پر گرے۔
راستہ صاف ہوا۔ میں بد بودار فضا سے باہر آیا۔ عورت اور اس کی بچی، خون کا کفن پہنے ریل کے ڈبے میں پڑی رہیں۔ بڈھا گاڑی کے ساکن پہیوں سے الجھا رہا۔ میں ہجوم میں کھو گیا۔
اسٹیشن بھی قید خانہ لگتا تھا، جہاں با مشقت قیدیوں کو بے تحاشہ ٹھونس دیا ہو لیکن اب تو یہ قید خانہ ہی موافق آگیا تھا۔ یہاں جینے کی کچھ نہ کچھ آس تو تھی۔ کچھ لوگ قلیوں پر سامان لدوا لدوا کر باہر نکل گئے۔ انہوں نے قلیوں کو دام بھی دیے اور تانگوں موٹروں میں بھی سوار ہو گئے۔ میں تو باقی مخلوق کے ساتھ ہی رہا۔
پیاس اور بھوک نے ستایا۔ پانی کہیں نظر نہ آیا۔ نل خشک پڑے تھے۔ بڑی مشکل سے ایک سقے سے چار چلو پانی لے کر حلق تر کیا۔ کانٹے ہی تو پڑ گئے تھے۔ اتنے میں دیکھتا ہوں کہ لوگ ایک سمت لپکے لپکے جا رہے ہیں۔ میں سمجھا کہیں بلوائی بھاری تعداد میں آگئے ہیں اور لوگوں نے انہیں دیکھ لیا ہے۔ میں دائیں بائیں دیکھے بغیر سب کے ساتھ بھاگ اٹھا۔ ایک مرتبہ تو ایک ستون سے جا ٹکرایا اور میرا سر پھوٹ گیا۔ جب سڑک تک پہنچا تو وہاں لاریوں اور گاڑیوں میں روٹی کے ڈھیر دیکھے۔ دال سے بھری دیگیں بھی رکھی تھیں۔ لوگ ٹوٹ پڑے۔ کتنے ہی کچلے گئے۔ پھر پولیس آگئی اور اس نے سب کو آرام سے بیٹھا دیا۔ مجھے دو روٹیاں ملیں اور دال بھی۔ پیٹ میں آگ لگ رہی تھی۔ بھوک نے چھالے ڈال دیے تھے۔
اب ہلڑ مچا۔ شہر والوں نے کہا، کیمپ کو چلو، کیمپ، دوسری گاڑی میں بیٹھو! تو بہ تو بہ سفر تو مجھ سے ہونے کا نہیں تھا۔ کئی راتوں سے سونا نصیب نہ ہوا تھا۔ بدن اکڑ کر لکڑی بن گیا تھا۔ دیدے پھٹے پڑتے تھے۔ میں تو کیمپ میں نہیں گیا۔
سڑک سے ذرا دور کنارے پر آم کے پیڑوں کا سایہ تھا۔ میں انہی کی طرف چلا گیا۔ پٹری پر سایہ موجود تھا۔ بڑی جگہ تھی۔ دھوپ سے بچاؤ تھا اور ہوا چل رہی تھی۔ میں نے کھردری زمین کے کنکر بین لئے اور سونے کی جگہ بنائی۔ جوتیوں کو اتار کر جوڑا، ان پر ٹوپی اتار کر رکھی اور سر ٹکا کر سو رہا۔ نیند تو بڑے زناٹے کی آئی لیکن چاروں طرف بلوائیوں کو دوڑتے بھاگتے دیکھتا رہا۔ پھر میرے کانوں میں گولیاں برسنے لگیں۔ وہی پر ہول رات تھی اور گاڑی کی جیل۔ تیس مسافروں کے ڈبے میں کتنے ہی تیس بیٹھے تھے۔ بلوائیوں اور فوجیوں میں دھڑ ا دھڑ گولیاں چلتی رہیں۔ پھر ایک بلوائی نے میری پسلیوں میں بھالا بھونک دیا۔ میں تو مر ہی گیا اور پھر جب آخری چیخ نکلی تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اندھیری رات مجھے گھیرے ہوئے تھی۔ بجلی کے کھمبے مدھم مدھم نظر آ رہے تھے لیکن روشنی بجھی ہوئی تھی۔ آسمان پر ستارے چمک رہے تھے لیکن ان کا اجالا مجھ تک نہ آتا تھا، تا ہم یہ رات ریل کی خونیں رات سے کم ڈراؤنی تھی۔
پٹری پر کتنے ہی اور لوگ آکر سو گئے تھے۔ میں دوبارہ سو گیا۔
کتنے ہی دن پٹری پر کٹ گئے لیکن پھر بارشیں آگئیں۔ بعض لوگوں نے چٹائیاں اور پردے کھینچ کر سر ڈھانپنے کے آسرے بنا لئے لیکن میرے پاس تو کچھ بھی نہ تھا۔ قریب میں ایک جلا ہوا مکان تھا۔ اس کا ذرا سا حصہ سلامت تھا اور باقی زمین پر۔ مجھے وہیں پناہ مل گئی۔
اب شہری یہاں بھی پہنچ گئے اور میرے پاس آگئے۔ ایک نے مجھے ہمدردی کی نظر سے دیکھا۔ باقی تو سخت طبیعت کے تھے۔ وہ میرے قریب ہمدردی جتانے آیا۔
’’تم یہاں مت رہو۔ یہاں تو اچھا خاصا آدمی بھی مر جائے گا۔ روٹی کی بھی دقت ہے۔ آدمی بیمار پڑ جائے تو جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں۔ ناحق جان گنوانا کون سی اچھی بات ہے۔ تم کیمپ میں چلو۔ وہاں تمہیں آرام ملے گا۔‘‘
باقی ساتھیوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور پھر ایک نے تو مجھے جھڑک ہی دیا۔
’’شہر کی زندگی بالکل برباد ہو گئی ہے۔ ان مہاجروں نے اتنا گند ڈالا ہے کہ اب ایک دن شہر میں ہیضہ پھیل جائے گا۔‘‘
میں کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ وہ مجھے خمیدہ سر بھیڑ کی طرح ہانک کر کیمپ میں لے گئے۔
شہر کو مہاجروں سے صاف کیا گیا۔ کیمپ چھوٹا اور آدمی زیادہ ہو گئے۔
میں نے زندگی میں کبھی کیمپ نہ دیکھا تھا۔ نہ مکان تھا اور نہ آسمان والے کی سفید زمین۔ کہیں ٹوٹی پھوٹی کو ٹھریاں ہیں اور کہیں پھٹے پرانے خیمے۔ کچھ لوگوں نے گھنے درختوں کی آڑ میں بسیرے ڈال لئے تھے۔ مجھے ایک کوٹھری میں جگہ مل گئی۔ میں چپ چاپ وہیں رہنے لگ گیا۔ میرے کپڑے پھٹ کرتا ر تار ہو گئے اور کتنے ہی دن تک انہی کو میں بدن پر لئے رہا۔ ان سے سڑ اند آنے لگی تھی۔ نہ صابن تھا اور نہ ا فراط کا پانی، کپڑے دھل بھی نہ سکتے تھے۔ کیمپ ایک قسم کا بد بو گھر بن گیا تھا۔ رات دن ہر وقت لوگ کیمپ کے چاروں طرف غلاظتیں بکھیرتے رہتے اور کیمپ کے اندر بھی غلاظت کی کیا کمی تھی۔ مہتر صفائی کے لئے روز آتے تھے لیکن یہ تھے بھی کتنے؟ لاکھوں کی آبادی میں صرف مٹھی بھر، ان سے کیا بنتا تھا۔ غلاظت بڑھتی ہی جاتی تھی۔
اسی عرصے میں بیماری پھیل گئی۔ میں بھی شکار ہوا اور حالت بہت بری ہو گئی۔ کوٹھری کے ساتھیوں نے میری طرف ذرا بھی توجہ نہ دی اور میں مرتا رہا۔
پانی کی شدت سے قلت تھی اور میرے لئے تو قیامت تھی۔ بیچ صحرا کے پڑا تھا۔ اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ پانی لاتا۔ میرے ساتھی تھوڑا بہت پانی لاتے۔ اس میں سے کبھی چلو بھر مل گیا تو خیر، ورنہ یوں ہی مرا پڑا رہا۔
کوٹھری میں میرے دو ساتھی تھے۔ شہر سے گاڑیاں آتیں۔ دال روٹی لاتیں۔ میرے یہ ساتھی میرے لئے روٹی پہ دال ڈال کر میری پلیٹ کے اوپر رکھ جاتے۔
میری کوٹھری سے ذرا دور ایک ٹھکا نہ تھا۔ یہ انہی نے بنایا تھا۔ کسی لاری کے اوپر موٹا اور مضبوط موم جامہ جانے کہاں سے اٹھا لائے۔ پیپل کے تلے بانس گاڑ کر انہوں نے گھر بنا دیا۔ چاروں طرف ٹاٹ کی دیواریں کھینچ دیں۔ ایک طرف صحن چھوڑ دیا۔ یہ دونوں پانی لے کر وہیں جاتے۔ پھر میں نے انہیں دوا کی شیشیاں اور دودھ لے جاتے بھی دیکھا۔ میرے لئے یہ گھر بالکل پر اسرار تھا۔
ایک روز جب میری حالت خراب ہوئی تو مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔ بدن میں ایسا درد اٹھا کہ اس نے مجھے تڑپا دیا۔ یہ دونوں رات گئے آئے اور بوریے پر بیٹھ گئے۔ ان کے چہرے مطمئن نظر آ رہے تھے اور میں انہیں للچائی نظروں سے دیکھتا رہا۔
ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری اور لب ہلنے لگے۔
’’آج تو وہ پہلے سے اچھی ہے۔‘‘
’’ہاں، اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔‘‘
’’لیکن ابھی بہت کمزور ہے۔‘‘
’’کر لیں گے ٹھیک اسے۔‘‘
’’ہاں ’’
’’کس بلا کی کپکپی چڑھی ہے اسے!‘‘
’’تاپ اس سے بھی ظالم تھا۔‘‘
’’وہ درد سے بھی کراہتی رہی۔‘‘
’’تب میری آنکھ لگ گئی تھی۔‘‘
’’میں اسے دیر تک دباتا رہا۔ وہ یہ کہتی رہی کہ سر پھٹ رہا ہے۔ میں نے خوب سر دبایا۔ آدھی رات گئے جب وہ سوئی تب میں نے بھی آنکھ لگائی۔‘‘
’’اب طبیعت سنبھل گئی ہے۔‘‘
’’دوچار دن میں ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘
لیکن میری طبیعت تو بد سے بد تر ہو رہی تھی۔ میرا بھی درد سے سر پھٹ رہا تھا، پھٹتا ہی رہا۔ میں نہ سمجھ سکا کہ اس گھر میں کون رہتا ہے، جس عورت کا یہ دونوں ذکر کرتے تھے۔ وہ ان کی کیا لگتی تھی۔ مجھے تو اپنی جان کی پڑی تھی، میں ان کے معاملے میں کیوں دخل دیتا۔
میرے سامنے کتنے ہی لوگ بیماری سے کیمپ میں مر گئے۔ نہ انہیں دوا ئیں ملیں اور نہ ان کا علاج ہوا۔ جب دوائیں ملیں اور علاج ہوا تب بھی لوگ مرتے رہے۔
مردوں کو کیمپ کے پاس گڑھے کھود کر ان میں پٹک دیا جاتا۔ اور کیا بھی کیا جاتا۔ لاشیں ٹھکانے لگانے کا یہی سہل طریقہ تھا۔ چاروں طرف سے رونے اور چیخیں مارنے کی آوازیں آتیں۔ میں اپنے ہی درد کو روتا تھا لیکن دنیا کا درد مجھ سے بہت زیادہ تھا۔
پرانے ملک سے نئے ملک میں لوگ موت کے منہ سے نکل کر آئے۔ مجھے تو بلکہ موت نے منہ میں ڈال کر اگل دیا لیکن نئے ملک میں موت کا راج تھا۔ لوگ یہاں جینے کی امید پر آئے تھے لیکن موت نے انہیں یہاں بھی نہ چھوڑا۔ مجھے بھی اپنی طرف موت لپکی نظر آئی۔ بن علاج کے موت یقینی تھی۔
ہفتے کے اندر قبروں کے ڈھیر لگ گئے۔ ایک ایک گڑھے میں دو دو تین آدمی گاڑ دیے گئے۔ ایک جگہ تین آدمی ایک دم مر گئے۔ ایک ہی وقت۔ جانے انہوں نے مل کر زہر کھا لیا تھا اور موت کو سندیسہ بھیجا تھا یا موت ہی ان پر مہر بان ہوئی تھی۔ مجھ پر یہ گتھی نہ سلجھی۔ یہ دو میاں بیوی تھے اور ایک ان کی بچی تھی۔ انہیں ایک ساتھ قبر کی گود میں سلا دیا گیا۔ جانے کیا سوچا لوگوں نے اور جانے مرنے والوں کی یہ آرزو ہو۔
قبروں کے ڈھیر دیکھ کر لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے۔ سرکار نے کچھ سوچا اور شہر کا ملبہ لاریوں میں بھر بھر کر قبروں پر ڈلوا دیا۔ لاریاں میری کوٹھری کے سامنے سے گزر تیں اور بلا کی دھول اڑاتیں۔ انہی نے شہر ڈھو ڈھو کر قبروں پر لا ڈالا۔ پرانی قبروں کے تازہ تازہ نشان مٹ گئے۔
نئی قبریں نمودار ہونے لگیں۔ لوگ تھمتے ہی نہیں تھے۔ مرتے ہی جا رہے تھے۔
میں نے ہمت کر کے کیمپ کے ڈاکٹر کے پاس جانا شروع کیا اور کچھ اچھا ہونے لگا، ورنہ میں تو سمجھا تھا کہ موت مجھ سے بھی کچھ دور نہیں۔ میں بھی مر جاؤں گا اور میری موت تو ایسی ہوگی کہ لاش کو گڑھا بھی نہ ملے گا۔۔۔ اسی کوٹھری میں پڑا پڑا تمام ہو جاؤں گا۔ مجھے ان دو سے تو یہی توقع تھی۔ میرے وہ کسی بھی کام کے نہ تھے۔ دو پتھر کے چلتے پھرتے پتلے تھے۔ انہیں کسی سے مطلق واسطہ نہ تھا، اور تھا تو بس اس گھر والی سے جسے میں پہیلی سمجھتا تھا۔
یہ دونوں دن بھر وہیں رہتے اور کوٹھری میں جب آتے، مجھ سے جھوٹ کر بات نہ کرتے۔ جیسے میں آدمی ہی نہیں تھا اور تھا تو بس مردہ۔ یہ ہر وقت اپنے ہی بکھیڑوں میں لگے رہتے۔ اس عورت کا ذکر تو یہ فرض کے طور پر کرتے۔ کبھی کبھی یہ اتنا دھیرے دھیرے بولتے کہ میں ایک لفظ نہ سمجھ سکتا اور کبھی خاص اونچی آواز سے بولتے۔
یہ دونوں کبھی اکٹھے اور کبھی بدل بدل کر پیپل والے گھر جاتے۔ رات کو تو بہت کم دونوں اکٹھے جاتے۔
پیپل والے گھر میں آسودگی سی آ گئی۔ رات کے وقت وہاں لالٹین بھی جلتی۔ ادھر ان لوگوں نے عورت کی بیماری کا ذکر ترک کر دیا۔ دوا لانی بھی بند کر دی۔ پھر گھر سے قہقہوں کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ عورت ضرور تندرست ہو گی۔
ایک رات جب وہ دونوں پتھریلے پتلے آئے تو نشے میں تھے۔ مجھے ان سے اور پیپل والے گھر سے بے حد نفرت ہو گئی۔ میں بالکل مجبور تھا۔ بیماری نے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ سخت نقاہت ہو گئی تھی۔ اگر کچھ اچھا ہوتا تو ان کی پرچھائیں سے بھی کوسوں دور رہتا۔
اس رات یہ لڑبھی پڑے۔ ایک دوسرے سے شا کی تھی۔ معاملہ پیپل والے گھر کا تھا۔ ایک کو شکایت تھی کہ اس کے ساتھی نے عورت کو بہکایا ہے اور وہ اس سے کھینچنے لگی ہے۔ دوسرا کہتا تھا کہ اس نے عورت کو نہیں بہکایا۔ عورت خود بہک گئی ہے۔
دونوں دیر تک ایک دوسرے کو قائل کرتے رہے لیکن نشے کا بھوت سر پر سوار ہو تو کون قائل ہوتا ہے۔ آخر ایک نے اینٹ پکڑ کر دوسرے کو دے ماری اور دوسرا بھی سر پھڑوا کر باز نہ آیا۔ لپٹ ہی گیا۔ میں نے دخل نہ دیا اور کونے میں پڑا رہا۔ پھر شور مچا اور لوگ بھاگے بھاگے آئے اور دونوں کو نکال کر باہر لے گئے۔ پیپل کے گھر والی لالٹین پکڑے اندر آئی۔ مجھے ایک کونے میں مراد دیکھ کر سمجھی کہ دونوں دیوانوں نے مجھے ہلاک کیا ہے۔
اس نے لالٹین میری طرف بڑھائی اور میری جھپکتی آنکھیں دیکھ کر مطمئن سی ہوئی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔ جوان عورت تھی۔ کیمپ میں رہتی تھی۔ بیماری کاٹ چکی تھی اور پھر بھی خوب بھلی چنگی تھی۔ کیمپ میں تو ایسا تندرست ایک بھی نہ تھا۔ ہاتھوں میں انگوٹھیاں تک پہنے ہوئے تھی۔ گلے میں لاکٹ تھا اور کپڑے اجلے تھے۔ مجھے اس سے بے انتہا نفرت تھی۔ اس نے گھر میں عجیب تماشہ بنا رکھا تھا۔
اس نے لالٹین بالکل نزدیک کر دی۔
’’تمہیں چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘
’’تمہیں اس سے کیا؟‘‘
’’بیمار معلوم ہوتے ہو۔‘‘
’’ ہاں۔‘‘
’’تبھی چڑ چڑا پن ہے۔ خیر! تمہیں کچھ چاہئے؟ پیسے یا کچھ اور چیز؟‘‘
پیسے کا نام مدت کے بعد میرے کانوں نے سنا۔ کیمپ میں پیسہ بہت بڑی نعمت تھا۔ میری جیبیں بے کار ہو کر رہ گئی تھیں۔ انہیں کہاں سے پیسہ جڑتا۔ سنا تھا نئے ملک نے نئے سکے بنوائے ہیں لیکن میں نے ان کی صورت تک نہ دیکھی تھی۔
یہ عورت مجھے پیسے دے رہی تھی۔ ضرورت تو بہت تھی پیسے کی لیکن میں تو اس عورت سے سخت نفرت کرتا تھا۔ مجھے اس کے پیسوں کی ضرورت نہ تھی، خواہ وہ نئے ملک کے نئے سکے ہی ہوتے۔
اس نے مجھے زیادہ ہمدردی کی نظروں سے دیکھا۔
’’تمہیں دام چاہیں تو لے لو، میں دے سکتی ہوں۔‘‘
شاید وہ میرے بارے میں کچھ کچھ جانتی تھی۔
میری رگوں میں آگ بھر گئی۔ بدن لرزنے لگا۔ میں نے اسے کرخت نظروں سے دیکھا اور ہاتھ مار کر لالٹین الگ ہٹا دی۔
’’مجھے بد کار عورت کے دام درکار نہیں۔‘‘
یہ فقرہ سنتے ہی وہ بجلی کی طرح باہر چلی گئی۔
ہنگامہ تمام ہوا اور میرے دونوں ساتھی واپس کوٹھری میں نہیں آئے۔ میں نے ان کی پیال اپنے تلے بچھالی۔
میں رات کو دیر تک جاگتا رہا۔ لوگوں کے رونے کی آوازیں آتی رہیں۔ صبح شام۔ دن رات ہر گھڑی کوئی نہ کوئی مر ہی جاتا۔ کبھی کبھی پیپل والے گھر سے قہقہے کی آوازیں آتیں۔
کیمپ بھر میں لوگ تکلیف کا سامنا کر رہے تھے لیکن یہ پیپل کا گھر تھا کہ یہاں تکلیف کا نشان نظر نہ آیا تھا۔ مجھے یہ گھر بہت برا لگتا تھا۔ اس آوارہ عورت کے یہاں کوئی نہ کوئی بے فکر اجمارہتا۔
وہ عورت بری ضرور تھی لیکن میری مدد کیا چاہتی تھی۔ کچھ بھی ہو، میں اس کی مدد قبول نہیں کر سکتا تھا۔ شاید اسے میرے تیوروں سے پتہ چل گیا ہو کہ اس کے آوارہ پن کی وجہ سے مجھے نفرت ہے اور وہ میری نفرت کا سودا کرنا چاہتی ہو۔ پھر اس کا گھر کیمپ کے آخری سرے پر تھا اور میں ہی غالباً اکیلا آدمی تھا، جو اس کی حرکتیں دیکھ سکتا تھا۔
میں اپنی نفرت کا سودا کرنے کے لئے ہر گز تیار نہ تھا۔ بھلا میں ایسی عورت کو اچھا سمجھ سکتا تھا جو لوگوں سے دام لیتی اور اپنی آبرو بیچتی۔
ہنگامے کی رات کے بعد اگلی صبح پیپل کے گھر سے میری کوٹھری میں ایک آدمی آیا۔ صورت شکل سے مہاجر تو نہیں لگتا تھا، البتہ کوئی شہری ضرور تھا۔ وہ آکر میرے پاس بیٹھ گیا، ’’تم کب سے بیمار ہو؟‘‘
’’میں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جب سے کیمپ میں آیا ہوں۔ لیکن ابھی کچھ اچھا ہوں۔‘‘
’’معلوم ہوتا ہے کسی نے خبر گیری نہیں کی۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تمہاری بیوی نہیں؟‘‘
’’ بیوی؟ بیوی تو تھی۔ بہت اچھی تھی۔ اس پیپل والی سے بالکل مختلف تھی۔ جوان تھی، خدمت گزار اور نیک شعار تھی۔ وہ تو بہت ہی اچھی تھی۔ وہ آج ہوتی تو میری تیمار داری کرتی اور میں یونہی یہاں پڑا سڑتا نہ رہتا۔‘‘
’’کہاں گئی وہ؟‘‘
’’مجھے کچھ پتہ نہیں۔ جس روز بلوہ ہوا، میں ایک پڑوسی کے گھر کیا گیا کہ وہیں گھر گیا۔ بلوائی آگئے اور انہوں نے گولیاں اور بم پھینکنے شروع کر دیے۔ میرا گھر اکیلا تھا۔ میری بیوی وہاں تھی۔ ماں تھی۔ باپ تھا۔ یہ بڈھے تھے۔ بیوی جوان تھی۔ میں جان پر کھیل کر گولیوں کی باڑ میں سے ہوتا ہوا ایک دوسرے پڑوسی کے گھر پہنچا اور پھر چھتیں پھاندتا پھاندتا اپنے گھر پہنچا۔ مکان سے کچھ کچھ دھواں اٹھ رہا تھا۔ میں مالک خیر ہو کہتا کہتا سیڑھیوں سے بجلی کی طرح نیچے اتر ا۔ آہ!‘‘
’’معلوم ہوتا ہے بڑے صدمے کی بات ہوئی۔‘‘
’’بڈھا اور بڈھی خون میں لتھڑے پڑے تھے۔ بیوی غائب تھی۔‘‘
’’کسی نے اتا پتا نہ بتایا؟‘‘
’’نہیں، نہ جانے وہ کہاں گئی اور بیوی تو یوں بھی کمزور ہو رہی تھی۔ اس کے پیٹ میں بچا تھا۔ وہ چلی گئی اور اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔‘‘
’’واقعی تم اکیلے ہو، بیوی کا ساتھ راحت کی بجائے تکلیف میں زیادہ ضروری ہوتا ہے۔‘‘
’’وہ اگر یہاں ہوتی تو میں بیمار نہ پڑتا۔‘‘
’’شاید۔‘‘
چند بڑے بڑے آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے۔ مجھے رہ رہ کر اپنی بیوی یاد آئی۔
پھر وہ آدمی مجھے سہارا دے کر ڈاکٹر تک لے گیا۔ ڈاکٹر نے ٹیکہ لگایا اور پینے کی دوا دی۔
وہ آدمی کبھی کبھی میرے پاس آتا اور مزاج پرسی کرتا۔ اس نے عورت کو میرا کچا چٹھا سنا دیا تھا اور وہ کہتا تھا کہ میری بیوی کے کھوئے جانے کا اس عورت کو بڑا قلق ہے۔ بیوی کے نہ ہونے سے تو میں اکیلا رہ گیا تھا اور اسی لئے مجھے اتنی تکلیف اٹھانی پڑی۔
مجھے بیوی کی یاد ستاتی ہی رہتی۔ کتنی اچھی تھی وہ! مجھے ذرا تکلیف ہوتی تو اس کا دل درد سے تڑپ اٹھتا۔ دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر لیتی۔ اب یہاں ہوتی تو وہ پل بھر کے لئے میرے پاس سے نہ ہلتی۔ اس نے رات رات بھر میرا بدن دبایا ہے۔
چاندنی راتیں آگئیں اور میں گھور گھور کر چاند کو ہی دیکھتا رہا۔ ایسا لگتا کہ میری بیوی وہیں کہیں چھپی ہے۔ میں کیمپ میں مارا مارا پھرتا۔ شاید میری بیوی آگئی ہو۔
کتنے ہی دن مایوسی میں گزر گئے۔ ایک رات میں بڑا اداس ہو گیا۔ چاندنی نکھر ی ہوئی تھی لیکن مجھے تو اندھیرا ہی لگتا تھا۔ اکیلے میں جی گھبرا اٹھا۔ بیوی کو میں کہاں تلاش کرتا۔ راستہ جانے بغیر منزل تک کیسے پہنچتا؟
پیپل کے گھر سے گانے کی آواز آئی۔ رات کے وقت صاف سنائی دی۔ بڑا عمدہ گیت تھا۔
میرے دل پر کٹار ہی چل گئی۔ کسی نے روح کھینچ لی۔ یہ عورت گائے جا رہی تھی بڑے درد ناک گیت۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں اٹھ بیٹھا تا کہ اس کا منہ بند کروں۔ وہ آگ کی بستی میں بنسری بجا رہی تھی۔
جو نہی میں اس کے گھر میں داخل ہوا، چپ ہو گئی۔ میں اسے اور اس کا گھر دیکھ کر حیران ہوا۔ پانی کا گھڑا، چولہا ہانڈی اور بستر تک موجود تھا۔ ایک ٹرنک بھی رکھا تھا۔ میری کوٹھری کے مقابلے میں یہ بڑی آرام دہ جگہ تھی۔ ٹرنک کے اوپر تیل کنگھی پوڈر آئینہ پڑا تھا۔
عورت اجلے کپڑے پہنے بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھ کر کھڑی ہو گئی۔ ہاتھوں میں انگوٹھیاں، گلے میں لاکٹ، لبوں پہ سرخی اور ناخنوں پر لال پالش۔ میں نے اسے زیادہ قریب سے دیکھا۔ وہ مسکرا نے لگی۔
’’تم کوئی بھی ہو لیکن تم بہت برا کرتی ہو۔‘‘
وہ نہ بولی بلکہ چپ چاپ مسکراتی رہی۔
’’میں نے سنا ہے لوگ تمہیں دام دیتے ہیں اور تم ان کے ہاتھوں آبرو بیچتی ہو۔‘‘
وہ پھر بھی نہ بولی اور مسکراتی رہی۔
’’آبرو کی قیمت لعل سے بھی زیادہ ہے۔ تم اسے دو کوڑی کے برابر جانتی ہو۔‘‘
میں کڑوی کڑوی باتیں سناتا رہا اور وہ چپ رہی۔ اسے اپنی صفائی میں کچھ تو کہنا چاہئے تھا۔ وہ مسکراتی رہی اور ایسا لگا کہ چپ چاپ کھڑی وہ مجھے طمانچے مار رہی ہے۔
میں چپ ہو گیا۔ وہ مسکراتی رہی۔
’’سنا ہے تمہاری بیوی ہے۔‘‘
’’ ہاں، ظالم اسے چھین کر لے گئے۔‘‘
’’اب تم اکیلے ہو؟‘‘
’’ ہاں۔‘‘
’’جانے کس حال میں ہے تمہاری بیوی؟‘‘
’’جانے کس حال میں ہے۔‘‘
میری آنکھوں سے پھر آنسو ٹپک پڑے۔ میری بیوی کہاں تھی؟ شاید زندہ ہو، شاید مر گئی ہو۔ میں آنسو ٹپکاتا رہا۔
اس نے مجھے ہمدردی کی نظر سے دیکھا۔ پھر پیار سے بولی، ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘
میں چپ چاپ بیٹھ گیا۔
’’بٹوارہ ہو گیا۔ ملک بن گیا۔ تم اس قید سے اپنے آپ کو رہا کرو۔ تم نے بیوی کھو دی۔ سب نے کچھ نہ کچھ کھویا۔ جو کھو گیا، سو کھو گیا، کیا پایا، اسے جانو۔ یہ کوٹھری جس میں تم رہتے ہو تمہیں کھا جائے گی۔‘‘
اس کی باتیں مجھے اچھی لگیں۔ میں اٹھا اور کیمپ کا حصار توڑ کر باہر چلا آیا، جہاں زندگی رواں دواں تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.