جنم جہنم-۱
’’یہ جو نظر ہے نا! منظر چاہتی ہے۔
اور یہ جو منظر ہے نا! اَپنے وجود کے اِعتبار کے لیے ناظر چاہتا ہے۔
دِیکھنے اور دِیکھے جانے کی یہ جو اشتہا ہے نا! یہ فاصلوں کو پاٹتی ہے۔
اور فاصلوں کا وجود جب معدوم ہو جاتا ہے نا! تو جہنم وجود میں آتا ہے۔
اور اس جہنم میں ایذا کوئی اور نہیں دیتا، دیکھنے اور دیکھے جانے کی اشتہارکھنے والے ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔‘‘
مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ اُسے نہیں دِیکھ پا رہا تھا، جو سراسر منظر بنی سامنے تھی۔
اسے حیرت ہو رہی تھی۔
’’یہ جو حیرت ہوتی ہے نا! یہ ہماری زِیست کی محافظ ہوتی ہے۔ اسے نکھارتی ہے، سنوارتی ہے۔ یہ نہ ہو اور بندہ سیدھے سبھاؤ حقیقتوں کا سامنا کر لے، تو حو اس کھو بیٹھے۔ گویا حیرت بصارت اور بصیرت کے بیچ وہ خلا ہے، جہاں حقیقت کی تیز رفتاری اَپنی سرعت رہن رکھتی ہے اور چپکے سے شعور کی آغوش میں جا گرتی ہے۔ اور بندے کو یوں لگتا ہے‘ یہ تو وہی حقیقت ہے جس کا اسے پہلے سے ادراک تھا۔‘‘
اور اسے یوں لگتا تھا‘ منظر بن جانے والی عین مین وہی تھی جسے وہ نہ صرف جانتا تھا بل کہ پہلے سے اس کا عادی بھی تھا۔
’’یہ جو کسی کا عادی ہو جانا ہوتا ہے نا! یہ خود بخود دوسروں کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ جہاں کئی دوسرے ناکارہ ہو جاتے ہیں، بہت سے اَفادی بھی ہو جاتے ہیں۔ اور وہ جو عادی ہو جاتا ہے نا! وہ عین اسی ایک لمحے میں معذور بھی ہوتا ہے اور قادر بھی۔
قادر ان معنوں میں‘ کہ صرف ایک کے لیے دوسروں سے دست بردار ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور معذوریوں کہ جس کا وہ عادی ہو جائے وہ نہ رہے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا‘‘
اور جس کا وہ عادی تھا وہ وہاں نہیں تھی مگر اسے لگ رہا تھا وہ وہیں تھی اس کے بدن کے ارد گرد یا باطن میں یا اس اور یا۔۔۔
مگر منظر بن جانے والی جس کی کبھی عادی ہو گئی تھی وہ اَب نہیں تھا
اور جو سامنے تھا وہ زِندگی کی لذت سے لبالب بھرا ہوا تھا۔
اس نے اسے دیکھا تھا اور اَپنی نارسائیوں کی بابت سوچا تھا تو اس کے اندر یہ خواہش ٹھاٹھیں مارنے لگی تھی کہ کاش لذت سے بھرا ہوا یہ پیالہ غٹاغٹ پی لے۔
اور وہ جواب اس کے اور دِیکھ رہا تھا، اس نے اس کے پیاسے ہونٹوں کی تحریر کو پڑھ لیا تھا۔
’’یہ جو ہونٹ ہوتے ہیں نا! یہ آنکھیں اور یہ چہرہ بھی۔
یہ اکھروں کی بنا ہی اپنا مدعا کہ دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔‘‘
اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا، مگر وہ جو دِیکھ رہا تھا، سب کچھ سمجھ گیا تھا۔
’’ویسے بھی یہ جو زیست ہوتی ہے نا! قدم قدم پر ہدایات مانگتی ہے، مشورے طلب کرتی ہے۔ اور انہی مشوروں اور ہدایات کے گارِے پانی سے شعور کی عمارت وجود پاتی ہے ؛جس میں روزن ہوتے ہیں، کھڑکیاں اور دروازے ہوتے ہیں، جہاں سے ہوائیں گزرتی ہیں۔ نئے سورج کی روشتی اندر آتی ہے۔‘‘
اور وہ جو مادر زاد تھی، الف بالکل الف۔انہی روزنوں، کھڑکیوں اور دروازوں کو چوپٹ کیے بیٹھی تھی۔
بس یوں سمجھو کہ وہ اس ننھی بچی کی طرح تھی جس کا باپ تو بچی کو بڑوں کا ادب سکھاتا ہے اور بڑوں کی بات مان لینے کی تعلیم دیتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس پر خوفناک اِختیار حاصل کر لیتا ہے یوں کہ کوئی زور، زبردستی اور تشدّد سے بھی اِس قدر اختیار حاصل نہ کر پائے۔
اگر وہ بچی کی طرح تھی جو اختیار دے چکی تھی تو دوسرا وہ تھا جو خوفناک اختیار حاصل کر چکا تھا۔
اور جسے خوفناک اِختیار حاصل تھا وہ دِیکھ رہا تھا۔
مگر جو منظر اس کے سامنے تھا وہ نظر میں نہیں سما رہا تھا۔
اس کے سامنے کیا تھا!
ایک وجود۔
جیتا جاگتا۔
سانسوں کی گرمی سے بھرا ہوا۔
چکنا‘ چمکتا‘ رنگ برساتا، خوشبو بکھیرتا۔
ایسا کہ اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
تصور بھی نہیں کیا تھا۔
مگر اب جو وہ دیکھ رہا تھا تو حواس گم ہو رہے تھے، طلب بے لگام ہو رہی تھی اور ہاتھ بےقابو ہوا چاہتے تھے۔
یہ کیسا اختیار تھا جو اسے بےاختیار کر رہا تھا۔
’’اختیار اور بے اِختیاری کے بیچ کتنا فاصلہ ہو تا ہے۔ ہے نا!‘‘
اس کے ہاتھ اٹھے، بے صبری سے، مگر وہ رکا خودبہ خود نہیں، اس نے جبر کیا اور خود کو روکا، خیال کی روکو تھوڑا سا بہکایا کہ اندر کا ندیدہ پن وہ نہ دِیکھ لے، جسے وہ دِیکھ رہا تھا۔
بس اسی ایک ذرا سے جبر سے سارا پانسہ پلٹ گیا۔
اَب ناظر تھا مگر منظر بن جانے والی نہ تھی۔
جو نظر میں تھی۔
اس میں تُندی نہ تھی، ٹھہراؤ تھا ۔ جھپاکے نہ تھے، دِھیما پن تھا۔ شیرہ ہی شیرہ نہ تھا، قطرہ قطرہ ٹپکتا رَس تھا۔
اس نے نظر بھر کر منظر دِیکھا تھا اور نظر میں وہ بھر گئی جو دیکھنے اور دیکھے جانے کے قضیے میں ہی نہ پڑتی تھی۔
اور جب وہ نظر میں بھر گئی، جو وہاں تھی ہی نہیں، تو اس نے دونوں بدنوں کے بیچ کئی سو پھیرے لگائے۔
اور جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا اور اَپنی ہی خواہش کے قدموں پر گر پڑا اور تیزی چلتی سانسوں کے بیچ خود کو مصلوب پایا تو اپنے آپ سے مکالمہ کیا۔
یہ پوست کیا ہوتا ہے۔
’’بدن کا جغرافیہ۔‘‘
اور یہ بدن کیا ہوتا ہے؟
’’روح کا لبادہ۔‘‘
اور یہ روح کیا ہوتی ہے؟
’’خدا‘‘
اور یہ خدا کون ہے؟
’’وہ جو بااختیار ہے۔‘‘
اور جو بااختیار نہیں ہے وہ کیا ہے؟
’’وہ مخلوق ہے۔‘‘
اور مخلوق کیا ہے؟
’’نارسائی۔‘‘
اس نے اَپنی مٹھیاں کھول کر دیکھیں ‘خالی تھیں اور آنکھوں کے بیچ یہاں وہاں کچھ بھی نہ تھا بس نارسائی کی دھول اڑتی تھی۔
اور وہ جو سامنے بیٹھی تھی۔
ایسے کہ جیسے وہ تھی۔
اب وہ حیران ہو رہی تھی۔
ابھی لمحہ بھی پہلے اس نے اسے دیکھا تھا، جس کے لیے وہ منظر بنی بیٹھی تھی تو اسے طلب کا سیلاب امنڈتا نظر آیا تھا‘ اِس قدر کہ اس نے اپنے قدموں کو دھرتی سے جدا ہوتے محسوس کیا تھا اور اس سیلاب میں خود کو بہہ جانے پر مجبور پا یا تھا۔
بس پلک جھپکنے کی دیر ہوئی اور سارا نظارہ بدل گیا۔
وہ، جو ناظر تھا، خود بھی بے بس تھا کہ وہ اسے نظر نہ آ رہی تھی جو منظر بنی ہوئی تھی۔
ایسا اس کے ساتھ پہلے نہ ہوا تھا۔
اگر ہوا تھا بھی تو وہ اِس شدت سے نہ جان پایا تھا۔
’’یہ جو جان لینا ہوتا ہے نا!ِ اس جان لینے سے نہ جان پانے کی اذیت قابلِ برداشت ہوتی ہے۔‘‘
مگر واقعہ یہ ہے کہ اس کے مقابل ایک وجود تھا۔
سانس لیتا۔
شعلے برساتا۔
رنگ بکھیرتا۔
خوشبو میں لپٹا۔
بغیر کسی لبادے کے۔
بغیر کسی آڑ کے۔
بغیر کسی فاصلے کے۔
وہ اسے دیکھ سکتا تھا۔ موبہ مو۔
وہ اسے چھو سکتا تھا۔ خلیہ بہ خلیہ۔
چاہتا تو مسلتا۔ روندتا۔ تھپتھپاتا۔
پہلے پہل ہیجان کی منزل آئی تھی۔ مگر ایک لمحے کے ضبط نے عجب مخمصے میں ڈال دیا
اور بالآخر پانسہ پلٹ گیا۔
شعور پر خفتگی کا مہین پردہ پڑا۔
معروض معدوم ہوا۔
معدوم ادراک پر غالب ٹھہرا۔
اور جب ایسا ہو گیا تو۔
وہ حیرت کی تصویر بن گئی
حیرت کی تصویر بن جانے والی کو پہلے پہل جھجک ہوتی تھی، بعد میں اس نے اَپنی تمام ناآسودگیوں کو یاد کیا تھا۔
وہ نا آسودگیاں کہ جن کی چکی میں اُس کی زِیست کا دانہ دانہ پستا تھا۔
جب وہ اَپنی نا آسودگی کو یاد کر کے خوب رو چکی تھی تو اس نے ایک وجود دیکھا تھا۔
وہ جو زِندگی سے کناروں تک بھرا ہوا تھا۔
جذبوں سے لبا لب تھا۔
جس کے لمس میں گرماہٹ تھی۔
جس کی آنکھوں سے نکلتے شعلے اس کے وجود میں اترتے چلے جاتے تھے۔
اور جو آخرکار اس پر مکمل اِختیار پا چکا تھا۔
اِتنا اِختیار کہ وہ اسے اِس حالت میں لے آیا جس حالت میں کبھی اس شخص کے سامنے جانے پر مجبور تھی جو اس کی زِندگی کا مالک بنا دیا گیا تھا۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس شخص کو اس پر اختیار ہو۔ مگر اسے تھا۔
پہلے پہل وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی ‘وہ شخص اسے چھوئے کہ جسے بااختیار بنا دیا گیا تھا مگر رفتہ رفتہ اس کے اعصاب تننے لگتے‘ بدن تڑخنے لگتا۔ اور وہ باؤلی ہو جاتی۔ چیختی، چلاتی، تن کے کپڑے پھاڑ ڈالتی اور چاہتی کہ وہ اُسے مسلے، کچلے، روند ڈالے۔۔
مگر وہ پرے بیٹھا اسے تکتا رہتا اور اَپنے ہی ہاتھ مسلتا رہتا تھا۔
اور ایک روز یوں ہوا کہ جب وہ اَپنے ہاتھ مسل رہا تھا اور ایک ٹک اسے دِیکھ رہا تھا۔ مر گیا۔
جب وہ مر گیا۔ تو وہ اس کے سامنے اس لباس میں تھی، جس میں وہ تخلیق کی گئی تھی۔
اس کے مرنے سے کچھ دیر پہلے تک وہ بری طرح چیخ رہی تھی، برس رہی تھی، رو رہی تھی اور باؤلی ہو رہی تھی۔ مگر وہ پلک جھپکے بغیر اسے دیکھتا رہا اور اپنے ہی ہاتھوں کو مسلتا رہا اور۔
اور جب وہ کہ جو چیخ رہی تھی، اس نے دیکھا کہ دیکھنے والے کی پتیاں ٹھہر گئی تھیں اور ایک دوسرے کو مسلنے والے ہاتھ رک گئے تھے تو لفظ اس کے ہونٹوں میں ٹھہر گئے اور سارا شور شرابہ بدن میں ٹھٹھک گیا تھا۔
وہ آگے بڑھی اور اسے چھوا۔
یہ وہ پہلی بار تھی کہ اَپنی خواہش اور اختیار پر اس نے اسے چھوا تھا۔
یخ بستگی اس کے اَندر اتر گئی۔
اسے یقین نہیں آ رہا تھا، لہذا تسلی کرنے کے لیے آخری بار چھوا۔
اس بار ٹھنڈا وجود اس کی روح میں اتر گیا
اور جب اس کی تسلی ہو گئی تو اُس کے اندر سے ایک طوفان اٹھا اور امنڈ کر آنکھوں میں برسا۔
اور اس نے ’’نہیں نہیں‘‘ کے لفظ چیخ چیخ کر اَدا کیے۔
’’نہیں نہیں‘‘ کی صوت دیواروں سے ٹکراتی ہوئی جب اس کے وجود سے ٹکرائی تو اُسے یوں لگا جیسے اس کا اپنا وجود معدوم ہو گیا تھا۔
پہلے کوئی تھا۔۔۔ جو اس کا نظارہ کرتا تھا
کھرا، سچا۔
اس کی آنکھوں میں دوغلاپن نہ تھا۔ فریب نہ تھا۔ مکر نہ تھا۔ دھوکا نہ تھا۔
وہ دیکھتا تھا اور اسے ہی دیکھتا تھا۔
اس کی آنکھیں اس کے وجود سے بھر جاتی تھی اور کنارے چھلکنے لگتے تھے۔
اور جب کنارے چھلکنے لگتے تھے۔۔۔ اور۔۔۔ اس کا وجود مزید شرڑ شرڑ اس کی آنکھوں کے راستے اس کے بدن میں اترنا چاہتا تھا مگر اس کے وجود کی اتھلی سطح تانبے کی طرح بج اٹھتی تھی تو وہ اپنے ہی ہاتھوں کو مسلنے لگتا تھا۔
ایسے میں وہ اَپنی آنکھیں کھلی رکھتا تھا۔
ان کھلی آنکھوں کے بیچ جو عذاب تھے وہ انہیں جانتی تھی مگر اہمیت نہ دیتی تھی کہ اسے وہ اَپنی نارسائی کے عذاب سے کم تر درجے کے عذاب لگتے تھے۔
ہاں مگر ایک بات بہت اَہم تھی کہ وہ ہاتھ مسلتا تو اسے اَپنی ہستی کا یقین ہو جاتا تھا۔
اور جسے اَپنی ہستی کا یقین ہو جایا کرتا تھا وہ ایک ہاتھ مسلتے وجود کے معدوم ہونے سے ہی متزلزل ہو گئی۔
پھر جب ہر طرف سے اس کے تکفیر ہونے لگی۔ تو اس نے، کہ جو اتنی صلاحیت رکھتا تھا کہ وہ بغیر کسی جبر کے اس پر اِختیار حاصل کرلے‘ اسے ایک عجب مخمصے میں ڈال دیا۔
وہ یوں تھی۔۔۔ جیسے کہ وہ تخلیق ہوئی تھی۔
اور وہ سامنے تھا بالکل یوں کہ وہ اسے براہ راست دیکھ سکتا تھا۔ چاہتا تو چھو لیتا، اور۔
منظر بن جانے والی کو نہ جانے کیوں یقین تھا کہ ساری نا رسائیاں، نا آسودگیاں اور تلخیاں جو اس کے وجود سے آکاس بیل کی طرح لپٹی ہوئی تھی، اس کے دَم سے جھڑ جائیں گی۔
اس نے یقین کی نظر سے اسے دِیکھا۔
امید کے پانیوں پر قدم رکھا۔
اور مخمصے میں جا گری۔
وہ مخمصے میں یوں گری کہ اس نے عین اس وقت اس کی آنکھوں میں دِیکھ لیا تھا جب وہ وہاں نہ تھی
حالاں کہ وہ اس کے سامنے تھی۔ اور اس طرح تھی، جیسے کہ وہ چاہتا تھا۔
اس نے خود کو جھنجھوڑا اور آخری بار ناظر کی آنکھوں میں جھانکا۔
اسے اَپنی ہستی کا یقین چاہیے تھا، مگر۔
’’یہ جو ہستی اور نیستی ہوتی ہے نا!بس اِن کے بیچ بال برابر فاصلہ ہوتا ہے۔
یہ جو نظارہ کرنا ہوتا ہے نا! یہ محض دِیکھنا نہیں ہوتا، نظر کے گارے سے دیکھے جانے والے وجود کی عمارت اینٹ اینٹ تعمیر کرنا ہوتی ہے۔ مگر جب ناظر معروض کی بہ جائے معدوم کا اثبات کرنے لگے تو معروض کی ہستی نیستی میں بدل جاتی ہے اور معدوم کی نیستی ہستی میں۔‘‘
اور منظر نے خود کو ناظر کی نظر میں معدوم ہوتے دیکھ لیا تھا۔
گویا اب وہاں اس کی ہستی نیستی کے مترادف تھی۔
اور وہ کہ جس نے اس کی ہستی کو نیستی میں بدل دیا تھا، اس کی متخیلہ کو پر لگ گئے تھے۔
جس نے اڑان بھری۔ یہاں وہاں۔
اس نے اِس ساری پرواز کو نظر بھر کر دِیکھا تو اسے خبر ہوئی، یہ پرواز باہر نہ تھی، بھیتر میں تھی۔
اس نے وہاں جھانکا، ادھر ادھریادوں کے جالے تھے، رِشتوں کا کاٹھ کباڑ تھا، ناآسودگیوں کی گرد تھی، آنسو تھے اور آہیں تھیں۔
اس نے آنسوؤں کو بہہ جانے دیا، آہوں کو سسکیوں کو چولا پہنایا، پلکوں سے یادوں کی گرد صاف کی، محبت سے رشتوں کا کاٹھ کباڑ درست کیا۔سلیقے سے رکھا۔ مو در مو، خلیہ در خلیہ۔
جس کے وجود نے تخلیق کا کرب سہا تھا اور اس کے آنگن کو چہکار سے بھر دیا تھا۔
اور وہ مدت مدِید سے منظر بننے کے آزار سے پاک تھی۔
ادھر سامنے وہ تھی، جو منظر بنی بیٹھی تھی اور نظر کی طلب میں مری جاتی تھی، مگر جسے ناظر نے دیکھا وہ، وہ تھی جو دیکھے جانے کی طلب سے غنی تھی۔
عین اسی لمحے منظر بنی بیٹھی مخمصے میں پڑ گئی تھی۔ مخمصے سے نیستی میں جا گری اور پھر کراہ کر اپنے وجود پر نفرت بھیجی، اس شخص کو یاد کیا کہ جس کی آنکھیں اس کے وجود سے بھر جاتی تھیں تو جسم تانبے کی طرح بجنے لگتا تھا۔ اور پھر وہ اپنے ہاتھ مسلتا تھا۔
اور جب وہ اپنے ہاتھ مسلتا تھا تو اَپنی ہستی کا یقین ہونے لگتا تھا۔
شکستہ تخیل کی اس پرواز نے اس کے وجود میں تھوڑی سی ہستی ایک مرتبہ پھر بھر دی۔
اس نے اٹھ کر خود کو سمیٹا، لپیٹا اور نفرت سے اسے دِیکھا جو ناظر تو اس کا تھا مگر اس کی آنکھ کوئی اور نظارہ سمیٹے ہوے تھی۔ پھر آگے بڑھی منھ میں جمع ہونے والا سارا لعاب اس کے منھ پر تھوک دیا اور کہا۔
’’جہنم اگر کوئی ہے تو وہ محض کسی کی نظر میں سما جانے کی خواہش ہے۔
میں نے تو نا حق اس جہنم کو اپنا مقدّر بنائے رکھا۔‘‘
اس نے قہر بھری ایک اور نظر حیرت دَر حیرت کے تلے سسکتے وجود پر ڈالی، بڑبڑائی۔
’’عذاب کسی بھی دوسرے وجود کا نام ہے۔
یہ عذاب میرے لیے پہلے وہ تھا اور کچھ لمحے پہلے تک تم تھے۔‘‘
بچا کھچا لعاب ایک مرتبہ پھر اُس نے اَپنے منھ میں جمع کیا اور اس کے چہرے پر ایک اور تہہ چڑھا دی
’’میں اِس جہنم پر لعنت بھیجتی ہوں۔‘‘
پھر اس نے زِندگی سے بھرپور قہقہہ لگایا اور زیست کی نئی شاہ راہ پر نکل کھڑی ہوئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.