’’اتنے شریف باپ کے بیٹے ہوکر بازار میں بنٹے کھیلتے ہو۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘
’’باپ تو اس کا بہت مشہور آدمی ہے۔‘‘
’’او جی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کے اتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔۔۔ لیکن بیٹے کو دیکھیے پتنگ بازی کرتا ہے۔‘‘
’’آوارہ۔۔۔ ضرور باپ کے نام کو چار چاند لگائےگا۔‘‘
بچپن میں جب بھی وہ ایسی باتیں سنتا تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کے باپ کی شہرت ایک ایسی تیز ڈور ہے کہ اس کی ہر پتنگ کو ہوا لگتے، کاٹ کے رکھ دیتی ہے محلے کے لوگ اس کے باپ کی بہت عزت کرتے تھے۔ کیوں کہ ایک تو وہ بہت اچھا ڈاکٹر تھا۔ خدا نے اس کے ہاتھ میں شفا لکھی تھی۔ دوسرے بڑے لوگوں کا معالج ہونے کے باعث وہ اپنے سرکاری مریضوں سے سرکاری کام بھی کرا سکتا تھا اور یہ بھی ان کی نظروں میں ڈاکٹر صاحب کی عظمت تھی کہ اتنا بڑا آدمی بننے کے باوجود انہوں نے اس محلے میں اپنا آبائی مکان نہیں چھوڑا تھا۔ وہ لوگ ڈاکٹر صاحب کی نظروں میں آنے کے لیے وقتاً فوقتاً ان کی حاشیہ برداری کیا کرتے اور اس حاشیہ برداری کا سیاہ حاشیہ رشید ہوتا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس اس کی مختلف شکایتیں، صرف ثابت کرنے کے لیے کرتے کہ وہ ان کے بہت بڑے خیر خواہ ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سارا سارا دن ڈسپنسری میں کام کرتے، دوپہر کو گھنٹہ دو گھنٹے سونے کے بعد پھر مریض دیکھنے لگتے اور رات کو دیر گئے گھر لوٹتے، جب رشید سو رہا ہوتا۔ رشید کی ماں سوتیلی تھی جو کسی مصلحت کے پیش نظر اس کی زیادہ پروا نہیں کرتی تھی۔ مگر وہ روایتی سوتیلی ماں بھی نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب خود تو سارا دن مصروف رہتے تھے، اس کی ماں کو اس سے دلچسپی نہیں تھی، اس لیے اکثر وہ اپنے محلے کے ہم عمر آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومتا رہتا۔ اس کو اپنی سوتیلی ماں سے کوئی شکایت نہیں تھی کیوں کہ وہ اس کی باتوں میں دخل نہیں دیتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب جانتے تھے کہ ان کے بیٹے کا خیال کیوں نہ رکھتی۔ اس لیے وقت ملنے پر وہ بذات خود اسے ڈانٹا کرتے تھے۔
جانے رشید کو اپنے باپ سے ضد کیوں تھی جو کام بھی کرتا باپ کی مرضی کے خلاف کرتا۔ بعض وقت جب اس کی پٹائی ہوتی تو اس کا جی چاہتا کہ کہیں سے تلوار مار کہ ڈور لائے اور اپنے باپ کے بلے چڑھی پتنگ کو ہاتھ سے کاٹ دے۔ اتنے زور سے بنٹے کانشانہ بنائے کہ شہرت کا بنٹا چکنا چور ہو جائے اور یا پھر اتنی زور سے ٹل لگائے کہ اس کی عزت گلی کے مانند سب کی نظروں سے دور جاکر کہیں کھو جائے۔ لیکن اسے تلوار مار کہ ڈور کہیں نہ ملی۔ دوسرا بنٹا زیادہ سخت تھا اور گلی بہت بھاری تھی اور جب وہ بہت زیادہ جھنجھلا جاتا تو سوچتا کہ اس کا باپ اتنا مشہور آدمی کیوں ہے اور سب اس کی اتنی عزت کیوں کرتے ہیں؟
بننے کو تو وہ بھی اپنے باپ کے قدموں پر چل کر بڑا آدمی بن سکتا تھا۔ لیکن اس کی پڑھائی سے دلچسپی نہیں تھی۔ پھر بھی ڈاکٹر نے یونیورسٹی کی نبض پر اس طرح انگلیاں رکھیں کہ وہ پاس ہو ہی گیا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ بھی ڈاکٹر بنے تاکہ ان کی اتنی بڑھی ہوئی پریکٹس ضائع نہ ہو اور ان کا بیٹا اس سے فائدہ اٹھائے۔ لہٰذا میٹرک کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اسے میڈیکل کالج میں سائنس پڑھنے کے لیے کہا تو اس نے حسب عادت انکار کر دیا۔ لیکن جب اسے پتہ چلا کہ میڈیکل گروپ میں لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں تو وہ مان گیا اور ڈاکٹر صاحب نے تصور ہی تصور میں دیکھا کہ رشید ہینڈبیگ لیے وزیر اعظم کی کوٹھی کا دروازہ کھول رہا ہے۔
لیکن رشید نے اپنے لیے وہ تمام دروازے بند کر لیے جو اس کے باپ کی تعبیروں کی طرف کھلتے تھے۔
پروفیسر اس سے کہتے، ’’بھائی۔ کیوں باپ کا روپیہ ضائع کر رہے ہو۔ کچھ پڑھا کرو۔‘‘
’’کیوں اس کی عزت مٹی میں ملا رہے ہو؟‘‘
’’لڑکیوں کے پیچھے پھرنا چھوڑ دو۔‘‘
وہ دل میں کہتا، ’’۔۔۔ میرا باپ کوئی بڑا آدمی نہیں ہے۔۔۔ بڑے لوگوں کی خوشامد ہے تو ہنس دیتے اور رشید کو یوں محسوس ہوتا، گویا یہ ہنسی ان خالی برتنوں کی آواز ہے جو کسی بڑے پتھر سے ٹکرا گئے ہوں اور وہ سوچتا۔۔۔ ’’سالے مجھے سمجھے نہیں۔۔۔ میں بہت بڑا آدمی ہوں۔‘‘
دوسرے ہم جماعت شہزادوں کے ساتھ، پیریڈ چھوڑ کر کافی ہاؤس جانے اور دیگر آوارہ گردیوں کے باعث وہ ایف ایس سی میں کئی بار فیل ہوا۔ جب بھی اس کاباپ اسے ڈانٹتا یا پیار سے سمجھاتا تو وہ دل ہی دل میں مسکراتا۔۔۔
’’کتنا بڑا آدمی میرے سامنے بے بس ہے۔‘‘
پھر ایک ہم جماعت کو تنگ کرنے کے باعث اس کو کالج سے نکال دیا گیا اور جب یہ خبر سارے کالج میں مشہور ہو گئی تو وہ بہت خوش ہوا کہ اس کے باپ کی عزت میتھیلیٹڈ سپرٹ کے مانند اڑ گئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی بیوی نے ڈاکٹر صاحب کو اس کے خلاف بھڑکایا۔ کیوں کہ اب اس کا اپنا بیٹا بھی بچپن سے قدم نکال رہا تھا۔ جب انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے کا رشید سے مقابلہ کیا تو اپنی بیوی کی ہدایات کے مطابق اس نتیجے پر پہنچے کہ آوارگی متعدی بیماری ہے۔ اس لیے اسے علیحدہ کر دینا چاہیے۔ انہوں نے اسے ایک فرم میں نوکری دلا دی اور کہہ دیا کہ وہ اپنا انتظام خود کرے۔
چند دن بعد وہ اپنے کلرک دوستوں نسیم اور جلیل کے پاس اٹھ آیا جو ایک مشترکہ فلیٹ میں رہتے تھے۔
نسیم اور جلیل کو اردو ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ نسیم تو شاعر بھی تھا۔ دفتر کے اوقات کے بعد جب بھی انہیں وقت ملتا، تو دنیا جہاں کے ادیبوں اور شاعروں کے متعلق گفتگو ہوئی اور رشید بحث کرنے کے بعد آخر میں اپنا فیصلہ سناتا۔
’’یہ سب لوگ بکواس ہیں۔۔۔ ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں۔‘‘
اس کے نزدیک دنیا میں آج تک صحیح معنوں میں اچھا ادیب کوئی پیدا نہیں ہوا تھا۔ کھیلوں میں ٹائسن تک باز باؤلر تھا اور ہٹن گھٹیا بیٹس مین۔۔۔ دراصل وہ ہر مشہور آدمی کی شہرت کو لوگوں کی کم عقلی پر محمول کرتا تھا۔ اس کاخیال تھا کہ اگر وہ خود کسی بھی شعبے میں کچھ کرے تو بات بن سکتی ہے۔
ایک رات جب وہ تینوں سونے کے لیے بستروں پر لیٹے تو جانے کس طرح کسی کی شاعری زیربحث آ گئی۔ رشید کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ اس نے کروٹ بدل کر آخری فیصلہ دیا۔۔۔
’’تم لوگ خواہ مخواہ کسی کی تعریف کرنا اپنا فرض سمجھ لیتے ہو۔۔۔ اور مسٹر نسیم تم بھی جو شعر کہتے ہو سراسر بکواس ہوتے ہیں۔۔۔ تمہاری تازہ غزل جو تم نے کل کہی ہے میں نے اس وقت پڑھی تھی جب میں میٹرک میں تھا۔۔۔‘‘
نسیم راکھ ہو گیا اور اس رات نوبت کہاں تک پہنچی کہ اس نے رشید کو گریبان سے پکڑ لیا۔ لیکن جلیل نے دونوں کو چھڑا دیا۔ نسیم بہت دیر تک آسمان پر ٹکٹکی لگائے رشید کے متعلق سوچتارہا۔ پھر اس نے بڑی ہمدردی سے رشید کو بلایا۔ وہ بھی ابھی تک نہیں سویا تھا۔ اس نے کہا، ’’رشید۔۔۔ تم کیوں نہیں کچھ لکھنے کی کوشش کرتے۔ خداکی قسم اتنے ذہین ہو کہ بعض وقت گفتگو میں بھی اونچی بات کہہ جاتے ہو۔۔۔ تم بہت اچھے ادیب بن سکتے ہو۔‘‘
رشید نے روکھے پن سے جواب دیا، ’’میں جانتا ہوں۔‘‘
اس رات جب وہ سویا تو اس کی آنکھوں میں بہت سے کاغذ، قلم اور کتابیں سما گئیں، اس نے دیکھا کہ اس انبار کے نیچے تمام دنیا کے افسانہ نگار، فلسفی اور نقاد دبے ہوئے ہیں۔ لیکن خدا معلوم ان لوگوں میں اس کا باپ بھی کیوں تھا۔
رشید افسانے لکھنے لگا۔
نسیم اور جلیل اس کے افسانے پڑھ کر اس کے سامنے بہت تعریف کرتے تھے۔ پیٹھ پیچھے ہنستے تھے۔ جب رسالے کے مدیروں نے یہ نوٹ لکھ لکھ کر افسانے واپس کرنے شروع کیے کہ افسانہ اچھا نہیں اور لکھئے، تو رشیدکو بہت غصہ آیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ان کے دفتر جلا کر راکھ کر دے۔ ان کے رسالوں کے ڈیکلریشن ضبط کرا دے۔ جب یہ سوچ کر بھی وہ مطمئن نہ ہوا کہ ایڈیٹر لوگ ناسمجھ ہیں تو اس نے نسیم سے ساری بات کہی۔
نسیم نے کہا کہ جب تک وہ کسی سے محبت نہیں کرےگا، اس کی تخلیقات میں وہ چیز مفقود رہےگی جو کہ ہونا چاہیے۔ خلیل نے نسیم کی بائیں آنکھ کے کونے کی حرکت سمجھ کر ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ محبت ضرور کرو۔۔۔ عوام سے۔۔۔ جانوروں سے، یا کسی لڑکی سے۔۔۔ اور رشید نے سوچا عوام سے کس طرح محبت کروں، جن میں ایڈیٹروں کی قوم بھی شامل ہے، جو اس کی تخلیقات کو نہیں سمجھ پاتے۔
جانوروں سے۔۔۔؟ لیکن وہ تو ہوتے ہی جانور ہیں۔
تو پھر کسی لڑکی سے محبت کروں؟ لیکن سنا ہے محبت تو ہو جاتی ہے۔۔۔ دراصل یہ ہونے والی بات بالکل بکواس ہے۔ اگر محبت کروگے تو ہوگی، ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ۔۔۔ کسی چیز کو کچھ نہ کیا جائے اور ہو جائے۔
اس کو فوراً مس ہلری کا خیال آیا۔ جو اس کے دفتر میں منیجر کی ٹائپسٹ تھی۔۔۔ اس کی شربت بنفشہ ایسی براؤن آنکھیں، ہائیڈروجن پر آکسائیڈ زدہ سنہرے بال، گل داؤدی کی پنکھڑیوں ایسے پتلے ہونٹ اور ہلکا گلابی چہرہ اس کی آنکھوں میں گھوم گیا۔ وہ مس ہلری جس کی پنڈلیوں کو نسیم سوڈے کی بند بوتلوں سے تشبیہ دیا کرتا تھا۔۔۔ وہ سردیوں کے سورج کی دھوپ تھی اور گرمیوں کے چاند کی چاندنی جس سے دفتر کے لوگ دور ہی سے لطف اٹھایا کرتے تھے۔
دوسری صبح جب وہ دفتر گیا تو کسی کام کے بہانے منیجر کے کمرے میں آیا اور اس سے گفتگو کرنے کے بعد جب وہ مس ہلری کے قریب سے گزرا تو اس کے ہونٹ ہلے، ’’گڈ مارننگ۔‘‘
گل داؤدی کی پنکھڑیاں مسکرانے لگیں۔
اس تمام دن اس کے رجسٹروں اور فائلوں پر گل داؤدی کی دوپتیاں مسکراہٹ سے لرزتی رہیں، پھر حسین ہلری کا چہرہ ابھرتا رہا۔ اس نے آج تک رقمیں لکھنے میں غلطی نہیں کی تھی لیکن اس دن ہر ہندسہ کئی بار مٹا۔ وہ منیجر کے کمرے میں بہت کم جاتا تھا، کیونکہ اس کا کام ہی ایسا تھا۔ لیکن اس دن وہ کئی بار جلیل کی فائلیں لے کر اس کے پاس گیا اور منیجر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جلیل کی ٹانگ میں درد ہے۔ ہر دفعہ جب بھی اس کے کمرے میں جاتا تو مس ہلری سے کوئی نہ کوئی بات ضرور کرتا۔ کوئی ایسی بات جس کا جواب مس ہلری کو دینا پڑتا۔
جب سے اس نے افسانے لکھنے شروع کیے تھے، اس نے کافی ہاؤس جانا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہاں کے باسی اس کے نزدیک کافی ہاؤس کے بیرے تھے۔ جنہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ علامہ اقبال اور وارث شاہ سے بھی بڑھ کر ایک شخصیت رشید احمد ہے اور جو اسے ایک پیالی کافی یا پلیٹ شامی کباب سے زیادہ کچھ نہ سمجھتے تھے۔ لیکن اس شام جب وہ تینوں مال روڈ کی سیر کر رہے تھے تو وہ ان دونوں کے ساتھ کافی ہاؤس بھی گیا۔ چمچ سے بجتی ہوئی خالی پیالی ایک مرتبہ پھر جلترنگ میں دب کر رہ گئی لیکن اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔ کیوں کہ اسے مس ہلری سے محبت ہو گئی تھی۔
جب وہ کافی ہاؤس سے باہر نکلے تو روشنی میں نہاتی ہوئی سڑک پر منیجر کی کارگزری جو بائیں ہاتھ مڑنے کے بعد کمرشل بلڈنگ میں ایک دوکان کے سامنے جاکر رک گئی۔ منیجر کے ساتھ کار سے کوئی عورت نکلی۔۔۔ وہ عورت نہیں مس ہلری تھی۔ اس کو منیجر کے ساتھ دیکھ کر رشید کی آنکھوں میں خون اتر آیا لیکن نسیم نے اسے تسلی دی کہ۔۔۔ بوڑھا آدمی ہے، کوئی بات نہیں۔۔۔ بیٹی سمجھ کر شاپنگ کے لیے لایا ہے۔
اس رات بے شمار خواب اس کی آنکھوں میں سما گئے۔ لیکن صبح تک صرف ایک خواب اسے یاد رہا کہ سورج نکلا ہوا ہے اور وہ بستر پر لیٹا ہے۔ اس کے اردگرد بےشمار کتابیں بکھری پڑی ہیں جن پر اس کا نام لکھاہے اور مس ہلری چاند کی ایک پہاڑی پر اردو کی ٹائپ مشین لیے ٹائپ کر رہی ہے۔
ایک ہفتے کے بعد رشید نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ مس ہلری اس کے ساتھ سینما جا رہی ہے۔ وہ منیجر کے ساتھ آئندہ کہیں نہیں جائےگی کیونکہ وہ خود اسے شاپنگ کے لیے لے جایا کرےگا۔ مس ہلری کا ٹائم ٹیبل کچھ ایسا تھا کہ اس کا بوس بھی خوش اور رشید بھی، وہ اکثر اسے ریستوران میں لے جاتا جہاں وہ دونوں محبت کی باتیں کرتے۔ زیادہ عرصہ رشید بولتا۔ اس کی باتوں کا لب لباب یہ ہوتا کہ وہ ملک کا سب سے بڑا ادیب ہے اور مس ہلری اس کی آئیڈیل ہے جو اسے انسپریشن دیتی ہے اور مس ہلری کی باتوں کا ماحاصل یہ ہوتا کہ کاش وہ انگریزی میں کہانیاں لکھتا جنہیں پڑھ کر وہ بھی محظوظ ہوتی۔ اگرچہ رشید کے لیے انگریزی میں عشق کرنا بڑی تکلیف دہ بات تھی پھر بھی وہ رٹے ہوئے انگریزی جملوں اور محاوروں کے بل بوتے پر عشق کر رہا تھا۔ یہ بات الگ ہے کہ جب وہ انگریزی میں باتیں کرتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے رانجھا، جیولیٹ کے پاس بیٹھا ریوڑیاں چبا رہا ہے۔
اپنے افسانوں میں جس چیز کو پیدا کرنے کے لیے وہ ہلری پر عاشق ہوا وہ تو نہ پیدا ہوئی۔ البتہ وہ روز بروز مس ہلری کے متعلق سنجیدہ ہوتا گیا۔ ایڈیٹر اب بھی اس کے افسانے ناقابل اشاعت قرار دے کر لوٹا دیتے تھے۔ پھر یہ سوچ کر کہ ان کے دماغ میں سیاہی بھری ہے۔ پھر جلیل کی شہ پر اس نے اپنے افسانوں کا مجموعہ شائع کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے جمع کیے ہوئے کچھ پیسے تو مس ہلری چاٹ گئی تھی، باقی ماندہ کتاب کی اشاعت ہضم کر گئی۔ ایک مہینے کے بعد جب وہ مختلف بک سٹالوں پر کتاب کی حالت پوچھنے گیا، تو سب نے یہی مشورہ دیا کہ کتاب تو بکےگی نہیں بہتر ہے کہ ردی میں بیچ دی جائے۔ وہ اپنے دل میں دنیا جہاں کی مایوسیاں سمیٹے لوٹ رہا تھا کہ راستے میں مس ہلری منیجر کے ساتھ کار میں جاتی ہوئی دکھائی دی۔ اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ کار فراٹے بھرتی ہوئی گزر گئی۔ لیکن وہ کچھ نہ کر سکا۔ اگلے روز مس ہلری سے ملا۔ اس سے پیشتر کہ وہ اس سے شکوہ کرتا، مس ہلری اس پر برس پڑی۔
’’رشید احمد۔۔۔ تم بالکل بکواس کرتے ہو کہ اس ملک کے لوگ تم پر جان دیتے ہی اور تم بہت مشہور آدمی ہو۔۔۔ تمہیں تو کافی ہاؤس کے بیرے تک نہیں جانتے۔ مجھے کل تم سے ضروری کام تھا لیکن تم نہ ملے تو میں کافی ہاؤس گئی تھی۔ میں جانتی ہوں سب ادیب وہاں جاتے ہیں۔۔۔ تم جھوٹے ہو۔۔۔ فراڈہو۔۔۔ میں تم سے محبت نہیں کر سکتی۔ میں دوستووسکی کی اینا بننا چاہتی ہوں۔۔۔‘‘
اس طرح مس ہلری نے رشید سے اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ رشید منیجر کے کمرے کے دروازوں میں لگے پردوں کی آڑ میں چھپا مس ہلری کو دیکھ لیتا۔ جلیل نے اس سے علیحدگی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا، ’’وہ میرے قابل نہیں تھی۔‘‘
’’کوئی اور عشق لڑاؤ۔‘‘
’’عشق بھی کوئی بٹیر ہے کہ لڑادوں۔ اگر ہوتا تو بھی میری توہین تھی۔۔۔ میں رشید احمد ہوں۔‘‘
رشید مس ہلری کی بےوفائی کے باعث اداس رہنے لگا۔ سارا سارا دن اس کے ذہن میں کوئی سوئیاں چبھوتا رہتا۔۔۔ مس ہلری اسے جھوٹا سمجھتی ہے۔۔۔ فراڈ تصور کرتی ہے۔۔۔ لیکن اس کو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔۔۔ وہ گمنام نہیں مرےگا۔۔۔ وہ یقیناً کسی دن بہت مشہور ہو جائےگا۔۔۔ اور پھر مس ہلری اس کے قدموں میں آکر گرےگی اور کہےگی۔۔۔ ’’میرے دوستو وسکی میں تمہاری اینا ہوں‘‘ ۔۔۔ لیکن کب۔۔۔؟ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
ان دنوں اچانک حکومت کو کوئی بین الاقوامی مسئلہ پیش آ گیا۔ ملک کے حاکم کی شخصیت ساری دنیا کی نگاہوں کا مرکز تھی، حاکم کی تو یہی کوشش تھی کہ مسئلہ جلد از جلد حل ہو جائے مگر جانے کیا چیز روڑے اٹکا رہی تھی۔ حالانکہ عوام کی رائے حاکم کی حق میں تھی لیکن خدا معلوم رشید کا دماغ کس چیز سے بنا تھا کہ وہ حاکم کو دنیا کا سب سے بڑا غدار سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک حاکم جو قدم اٹھاتا تھا غلط تھا۔ وہ چیخ چیخ کر کہتا کہ عوام اندھے ہیں۔۔۔ میں جو کہتا ہوں اس پر عمل کرو۔ مسئلہ فوراً طے ہو جائےگا۔ لیکن اس کے دوستوں کا خیال تھا کہ یا تو وہ پاگل ہو گیا ہے یا رائے عامہ کا مخالف ہوکر اہمیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جلیل اسے بہت سمجھاتا۔
’’سالے ایسی باتیں نہ کیا کر، پولیس اندر لے جائےگی۔‘‘
لیکن رشید کے کان بند ہو چکے تھے۔ وہ اکیلے میں اکثر سوچتا۔۔۔ لوگ میری باتوں کو کیوں نہیں سمجھتے۔۔۔ کاش میں بااختیار ہوتا، تو مسئلے کو چٹکیوں میں حل کر دیتا۔
ایک دن نسیم نے تنگ آکر کہا، ’’تو تم کیوں نہیں حکومت سنبھال لیتے۔‘‘
اس نے سوچاکہ نسیم صحیح کہتا ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ حاکم بن جائے اور عوام کو تباہی سے بچائے۔۔۔ وہ ہر وقت حاکم بننے کی ترکیبیں سوچتا رہتا اور جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تو بے بسی سے دیوار میں ٹکریں لگاتا۔ اس کے ذہن میں ہر وقت انتشار رہتا۔ وہ تصور میں دیکھا کہ مس ہلری کے ساتھ وہ اپنے محل کی بالکنی میں کھڑا لوگوں کی تالیاں اور مسکراہٹیں وصول کر رہا ہے۔
پھر ایک روز اخباروں میں خبر چھپی کہ حاکم اس کے شہر میں لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے آ رہا ہے۔ اس نے حاکم کو کیڈی لاک میں بیٹھے دیکھا جو ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کے نعروں کا جواب دیتا ہوا جا رہا تھا۔ رشید کا دل ڈوب گیا۔ اس نے جاتے وقت بڑے غصے میں لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا، ’’بیوقوف۔‘‘
پنڈال میں دو ڈھائی لاکھ کا مجمع تھا۔ حاکم تقریر کرنے کے لیے اٹھا۔ اس نے ابھی دو لفظ ہی کہے تھے کہ رشید نے اٹھ کر چیختے ہوئے کہا، ’’یہ غدار ہے۔۔۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے گولی کی سی تیزی سے اپنی جیب سے جلیل کا پستول نکالا اور۔۔۔ اور لوگوں نے دیکھا کہ ان کا محبوب راہنما دیمک خوردہ ستون کے مانند گر پڑا ہے۔
رشید نے کہا، ’’مجھے حاکم۔۔۔‘‘
پھر اسے پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا۔
جب عجیب و غریب سی روشنی میں اس کی آنکھیں کھلیں تو اس نے دیکھا کہ وہ سفید لٹھے کی چادر میں لپٹا ایک بند کوٹھری میں پڑا ہے۔ ایک شخص میز پر بیٹھا رجسٹر پر کچھ لکھ رہا ہے۔ اتنے میں ایک اور آدمی جو اس کا جڑواں بھائی معلوم ہوتا تھا۔ ہاتھ میں اخباروں کا پلندہ لے آیا۔ پہلے نے دوسرے سے اخبار لے کر دیکھتے ہوئے کہا، ’’اوہ آج کے اخبار تو ہمارے اسی مہمان کی تصویروں سے بھرے پڑے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی رشید نے لپک کر اس سے تمام اخبار چھین لیے اور انہیں سینے کے ساتھ لگاتے ہوئے چیخ کر کہا، ’’میں نے اپنے منزل کو پا لیا ہے۔۔۔ تمام دنیا مجھے جان گئی ہے۔۔۔ ’رشید احمد دی گریٹ مین‘۔۔۔ ابا جان آپ کے بیٹے کا نام دنیا بھر کی تاریخوں میں لکھا جائےگا۔۔۔ مس ہلری۔۔۔ اب تو مجھے چھوڑ کر نہ جاؤگی۔۔۔ تم کہاں ہو ڈارلنگ؟‘‘
ایک بھائی دوسرے سے ہنس کر مخاطب ہوا، ’’کم بخت نہیں جانتا کہ مر چکا ہے۔‘‘
رشید نے فوراً کہا، ’’میں تو اب پیدا ہوا ہوں یارو۔۔۔ میں نے تو اب جنم لیا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے فلک شگاف قہقہہ لگایا، مگر قبر شق نہ ہوئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.