جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے
حضور!
مجھے اس فضول و بے معنی سلسلے میں واقعی کچھ کہنا ہے۔
میں نے سوچا تھا کہ مرجاؤں گا اور یوں دنیا سے رشتہ ٹوٹ جائےگا۔۔۔ مگر ایسا نہ ہوا اور اتفاقاً مجھے اپنی بات کہنے کا موقع مل گیا۔
جی ہاں، میں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں اس الزام کو بخوشی قبول کرتا ہوں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں، میری ’ہاں’ الزام کو ہر لحاظ سے جرم ثابت کرتی ہے اور مجھے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔
آپ میری صورت پر نہ جائیں۔۔۔ میں ستم زدہ نہیں ہوں۔۔۔ میں نے تو ستم ڈھائے ہیں۔ ان گنت ستم جو بھیانک ہیں اور یہ آخری ستم، یہ خودکشی کی کوشش تو ایسا ستم ہے جو سماج کی اجلی نظروں میں مکروہ ہے۔ میں ایک سانس میں بہت کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے اپنی سست رفتاری پر معافی چاہوں گا۔۔۔ ہو سکتا ہے، آپ آج میرا بیان ہی سن سکیں اور چالیں پچاس مقدمے نہ بھگتا سکیں۔
مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ خودکشی بزدلوں کا کام ہے۔۔۔ میں بھی کتنا بڑا بزدل ہوں کہ خودکشی کا یسا ڈھنگ اپنایا جو ناپختہ تھا اور پکڑا گیا۔ اگر کسی ادیوگ پتی یا سیاست داں کی طرح منصوبہ بندی کرتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔۔۔ ہاں میں بزدل ہوں اور مجھے اپنی بزدلی کا احساس پہلی بار ہوا ہے۔
اگر کسی نے کافی ہاؤس میں مجھے بزدل کہا ہوتا تو کافی کی پیالی اس کے سر پر ہوتی۔۔۔ مگر اس عدالت میں میں خاموش رہا۔ یہاں میرے ہاتھ میں کافی کی پیالی تو نہیں تھی، مگر میرے منہ میں زبان تو تھی اور ہے۔ میں کم از کم چلا ضرور سکتا تھا۔۔۔ اب بھی چلا سکتا ہوں۔۔۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میں بالکل خاموش رہا۔ خاموش رہا، چلایا نہیں۔۔۔ چلاتا تو توہین عدالت کا مقدمہ بھی بن جاتا اور مجھ پر بزدلی کے الزام کے ساتھ ساتھ بدتمیزی کا الزام بھی عائد ہو جاتا۔۔۔ ویسے آپ چاہیں تو مجھے آپ بیک وقت بزدلی اور بد تمیزی، دونوں جرموں کی سزا دے سکتے ہیں۔
اس وقت مجھے صرف ایک بات کا احساس ہے۔۔۔ کہیں میرا بیان آپ حضرات کو بور نہ کر دے۔ بوریت کا احساس، نامردی کے احساس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔۔۔ کوئی بھی ماہر نفسیات میری بات کی تصدیق کر سکتا ہے۔
جی ہاں، میری یہی کوشش ہوگی کہ میرا بیان آپ حضرات کو بور نہ کرے۔۔۔ میرے دوست وہ جو کونے کے بینچ پر اداس بیٹھے ہوئے ہیں، میری بات سے متفق نہیں ہوں گے۔ ان سب نے اپنی زندگی کی ان گنت شامیں میرے ساتھ گزاری ہیں۔ زندگی کے اداس ترین لمحات میں انہیں میرے قرب اور میری باتوں سے راحت ملی ہے۔ یہ سب غمگین چہرے لیے میرے پاس آئے ہیں اور بشاش چہرے لیے واپس گئے ہیں۔۔۔ لیکن اب مجھے اپنے آپ پر بھروسہ نہیں ہے۔ خودکشی کی ناکام کوشش نے مجھے متزلزل کر دیا ہے۔۔۔ پھر بھی میری یہی کوشش ہوگی کہ میری زندگی کی داستان، جس کا نقطۂ عروج خودکشی کی ناکام کوشش ہے، پوری افسانوی تفصیل کے ساتھ آپ تک پہنچے اور آپ پل بھر کے لیے بھی بور نہ ہوں۔
جب میں نے ہوش سنبھالا، میں نے دیکھا کہ میری مختصر سی دنیا میری اور میرے والد کی ذات پر مشتمل ہے۔۔۔ میں ابھی اپنی دنیا کو اچھی طرح پہچان بھی نہ پایا تھا کہ میرے والد دوسری بڑی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیے گئے اور میرے ذہن میں ان کی فوجی شخصیت کے دھندلے سے نقوش ہی باقی رہ گئے۔
جنگ کی بھٹی میں جھلس کر مرنے سے پہلے وہ مجھے اپنے دوست ڈاکٹر کھرے کے پاس چھوڑ گئے۔۔۔ میری عمر دس کے لگ بھگ تھی۔ میں اپنی کچی سمجھ کے ساتھ، ڈاکٹر کھرے کے سائیں سائیں کرتے بنگلے میں، اپنے والد کی غیر موجودگی شدت سے محسوس کرتا۔
ایک کمی، ایک اکیلاپن، ایک شدید احساس۔۔میں اپنے ہم عمر جماعتوں میں گھل مل نہ سکا۔
میری ذہنی تشکیل میں میری تنہائی کا بڑا ہاتھ ہے۔
اونچے درختوں اور گھنی باڑ سے گھرے ڈاکٹر کھرے کے وسیع و عریض اور تقریباً ویران بنگلے میں ایک تو وہ خود رہتے تھے، ہر دم سٹیتھو سکوپ گلے میں لٹکائے جو سوتے وقت بھی ان کے گلے میں پھنسا رہتا اور ایک ان کی بیٹی مایا رہتی تھی، انھی کی طرح خاموش اور اکیلی۔
وہ جب کبھی، ناشتے کے وقت یا کھانے کے وقت، اکھٹے ہوتے، اکیلے نظر آتے۔ایک دوسرے سے الگ، ایک دوسرے سے کوسوں دور۔
اس اداس بنگلے میں تیسرا جیو تھا ایک بچہ۔۔۔ میں، ان دنوں کا راجو، ایک اکیلا۔
ہاں، وہ ایک سہمے ہوئے نوکر بھی تھے جو بنگلے کے پچھواڑے گیراج نما کوارٹروں میں اپنے دن رات گزارتے۔ کام کاج کے سلسلے میں وہ بنگلے میں موجود ہوتے تو بچتے اور کتراتے ہوئے نظر آتے۔
آپ خود شناخت کر سکتے ہیں کہ اس رنگ کے پس منظر میں کون سی شے دس برس کے ایک اکیلے بچے کی نگاہ کا مرکز بن سکتی ہے۔ مایا۔ ہاں مایا، ڈاکٹر کھرے کی بیٹی۔میں آج بھی مایا کو دیکھ سکتا ہوں، محسوس کرسکتا ہوں۔ میانے قد کی گوری چٹی جوانی جس کے بدن میں زردیاں گھلی ہوئی تھیں۔ اس کی پیلی پیلی سی رنگت بڑی بھلی لگتی۔ باریک بھووں کے تلے اس کی بڑی بڑی بے چین آنکھیں ہر وقت کسی انجان دھیان میں کھوئی رہتیں۔ اس کے گہرے گلابی ہونٹ مجھے ایک کھلے گھاؤ کا احساس دلاتے۔اس کے چہرے، بازوؤں اور پنڈلیوں کے دھڑکتے ماس میں نیلی رگیں صاف نظر آتیں۔جب کبھی اس کا آنچل ڈھلک جاتا تو اس کے کھلے گلے کے چست اور تنگ بلاؤز میں اس کی تندرست اور جوان چھاتیاں ایک بےقرار معجزہ لگتیں۔
جب کبھی بن پڑتا، میں مایا کو بس دیکھتا رہتا۔ اس کے پاس جانا چاہتا، اس سے باتیں کرنا چاہتا، اسے چھونا چاہتا۔
سچ کہتا ہوں، میں نہیں جانتا کہ لڑکپن کا موہ اس کے سوا اور کیا ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مایا کے بدن کولفظوں میں تو میں نے آج باندھا ہے، پر کل کا سچ بھی یہی کچھ ہے۔ممکن ہے، تب میرے الفاظ کچھ اور ہوتے، پر جذبے کی صداقت یہی ہوتی۔
میں نے اسے چھونا چاہا، لیکن وہ مجھ سے دور دور رہی۔
آج وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دوریوں کی یہ زنجیر توڑ ڈالنے میں اس کی دردمندی نے خوبصورت بھومیکا نبھائی۔
وہ زمانہ، جو اس بنگلے میں میری تنہائی کا زمانہ تھا، اسی زمانے میں میرے مستقبل میں نئی تنہائیوں کے امکان پیدا ہو گئے۔ میرے والد جنگ میں ہلاک ہو گئے۔
دس برس کے بچے کا باپ زندہ تھا اور بچہ اکیلا تھا۔ اب دس برس کے بچے کا باپ مر چکا تھا اور بچہ اکیلا تھا۔۔۔ اپنے آپ میں سمٹی، اپنے آپ میں گم مایا جیسے یکایک چونک اٹھی، جاگ پڑی، چھلک گئی۔ اس دکھ بھری گھڑی میں، درد مندی کے ناطے، وہ میرے قریب آگئی، بہت قریب۔قریب آتی چلی گئی، مجھے پرچانے، سنبھالنے، بچانے، جانے کس کس خیال کے تحت۔
ظاہر ہے،مایا مجھ سے عمر میں بڑی تھی، بہت بڑی۔ ان معنوں میں کہ میں ابھی ایک بچہ تھا اور وہ تھی ایک مکمل جوان عورت۔ میں نے اسے کبھی ہنستے کھیلتے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی مجھے اس کے ساتھ کبھی کوئی مرد نظر آیا تھا۔۔۔ بہت بعد کی بات ہے، جب میں نے ایف۔ اے۔ کا امتحان پاس کیا تھا اور وہ بی ایس سی کے بعد ایم بی بی ایس کے جھمیلے سے فارغ ہو چکی تھی، تب بھی وہ مجھے الگ اور اکیلی نظر آئی۔ میری موجودگی اور میرا ساتھ دوسری بات ہے۔ لیکن بات ان دنوں کی ہے جب وہ میڈیکل کالج میں تھی اور میں کین ٹونمنٹ (Cantonment) کے ایک اسکول میں۔
میں نے مایا کو ہمیشہ کتابوں میں گم دیکھا تھا۔۔۔ میں خود بھی کتابوں کا مارا ہوا تھا۔ تنہائی اور خاموشی کے ان دنوں میں آپ سے آپ کتابیں میری دوست بن گئی تھیں۔ جہاں تہاں، جیسے تیسے جو کتاب بھی ہاتھ لگتی، چاٹ جاتا۔ کچھ پلے پڑتا، کچھ سرپر سے گزرجاتا۔ کچھ کتابیں بدن میں سرسراہٹ بن کر رینگنے لگتیں اور میں مایا کے وجو د میں نہ جانے کیا کھوج پانے کا جتن کرتا۔
آج اس مفلس بیان میں کہے بنا رہا نہیں جاتا کہ ہائے، کتابوں کو دوست بنانے والوں کی زندگی فقط ایک خرابی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ اچھے ہیں وہ لوگ جنہیں کتابوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
میں اسکول سے کوئی دو بجے لوٹتا اور مایا شام پانچ کے قریب۔ڈاکٹر کھرے کا پتہ ٹھکانا نہ مجھے معلوم ہوتا، نہ اسے۔۔۔دھواں دھواں شام، سائیں سائیں کرتا بنگلہ، کوئی ویرانی سی ویرانی اور ہم دونوں۔
ہم چائے پینے لگتے تو نوکر دبے پاؤں کھسک جاتے۔رات کا کھانا کھانے بیٹھتے تو نوکر اندھیرے میں غائب ہو جاتے۔ ڈاکٹر کھرے کا ساتھ، ہونے نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ تھے اور ان کے غیرموجود مریض۔
ڈاکٹر کھرے کی دنیا میں، ان کے اندر باہر کی دنیا میں ہر شے یا تو کوئی مرض تھی یا پھر کوئی مریض۔۔۔ان کی نظروں میں ہم دونوں، میں اور مایا، ایک بچہ اور ایک جوان عورت، کوئی مرض تھے یا مریض، کون جانے۔
میں جانتا تھا کہ مایا کو آگے چل کر ڈاکٹر بننا ہے۔ وہ ڈاکٹر تو بنتی ہی مگر اس کا تشخص ڈاکٹر کھرے جیسا ہرگز نہ ہوتا۔
ایک شام، میرے والد کے ہلاک ہونے کے کچھ دن بعد، میرے قریب آجانے کے کچھ دن بعد، وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کمرے میں لے گئی۔ایسا پہلی بار ہوا تھا۔
میں اس کے کمرے کو آنکھوں میں بھر رہا تھا کہ اس کی آواز مجھے اس کے قریب لے آئی۔ ’میں یہاں پلنگ پر ذرا پاؤں پسار کربیٹھوں گی، تم کرسی کھینچ کر پاس آ جاؤ۔ آج ہم چائے یہیں پئیں گے۔‘
وہ پلنگ کی پشت کا سہارا لے کر اور ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئی۔
میں چپ چاپ کرسی پر بیٹھا رہا۔
نوکر چائے رکھ کر دبے پاؤں کھسک گیا۔
اس نے چائے بنائی اور ایک پیالی میری طرف بڑھا دی۔ ہم چائے پینے لگے۔
ان دنوں میں نے کہیں کچھ پڑھا تھا اور سمجھ نہ پایا تھا۔وہ بات کچھ اوٹ پٹانگ طور سے میرے ذہن میں تھی۔ نہ جانے کیا ہوا، میں کہہ بیٹھا۔ ’مایا دیدی، آپ بہت زرد دکھائی دیتی ہیں۔‘
اس نے میری طرف بڑے دھیان سے دیکھا، جیسے اس نے میری بات بڑے دھیان سے سنی ہو: ’کیا مطلب؟‘ پھر کچھ رک کر اس نے کہا۔ ’ذرا پھر کہو اپنی بات۔‘
میں نے دھیمی آواز میں کہا۔ ’آ پ کچھ پیلی پیلی ہیں۔‘
اس نے پھر مجھے غور سے دیکھا۔ ’اچھا۔۔۔ مگر تمہاری دیدی تمہیں لگتی کیسی ہے؟‘ اس نے خود کو اپنے روپ سے الگ کر لیا۔
میں چپ رہا۔
اس نے کہا ’بولو نا۔‘
میں بول اٹھا۔ ’بہت اچھی۔۔۔ بڑی پیاری‘
اس نے چائے کی ٹرے تپائی پر رکھتے ہوئے کہا۔’تمہاری بات تمہاری عمر سے بڑی ہے۔مجھے ڈر لگتا ہے، کہیں تم وقت سے پہلے جوان نہ ہو جاؤ۔‘
میں کچھ سمجھ نہ پایا۔کبھی کبھی کتابوں میں لکھی ہوئی کچھ باتیں بھی میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ مجھے چپ دیکھ کر اس نے کہا۔ ’ابھی ابھی تم نے یہی کہا تھا نا کہ میں کچھ پیلی پیلی سی ہوں، پر تمہیں اچھی لگتی ہوں۔ میرے چھوٹے سے بڑے بچے، لڑکیوں کو ہمیشہ تھوڑا سا anaemic رہنا چاہیے۔‘ اس کی آواز میں مجھے ایک حدت سی محسوس ہوئی۔
میں پھر خاموش رہا۔ میں کچھ سمجھ ہی نہ سکا تھا، بس میں نے سوچ لیا کہ اپنے کمرے میں جاتے ہی ڈکشنری میں anaemic کے معنی ضرور تلاش کروں گا۔
وہ جو کہتے ہیں نا۔ ’یہ شام ابھی کہاں ہوئی‘۔ ہائے وہ شام۔ چھوٹی عمر میں پہلی قید۔
چھوٹی عمر میں احساس کی یہ نوعیت۔ جانے دنیا والے کیا کہیں گے۔
وہ شام اسیری تھی یا رہائی، بس یوں جانیے، اس شام کے ساتھ شاموں کے ایک حسین سلسلے کا آغاز ہوا۔
انتطار کی کربناک لذت اور ملن کی اطمینان بخش آسودگی۔
تنہائی کے لمحے، جدائی کے لمحے۔ ہر شے سرد اور پرائی۔
ملن کی گھڑیاں، زندگی کا مقصد۔ہر شے زندہ اور اپنی۔
ایک ویران بنگلے میں، ایک چھت کے نیچے بھید بھرے ماحول کی پکڑ اتنی مضبوط تھی کہ نہ میرا دم نکلتا تھا نہ مجھے چین ملتا تھا۔
آج سوچتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں۔ کیسا شدید تھا میرا لڑکپن۔
ان دنوں جی چاہتا تھا کہ کمروں کی دیواریں ڈھا دوں۔۔۔ بس ایک بڑی سی چھت کے نیچے ایک بڑا سا کمرہ ہو۔۔۔ دیواریں بھی تو جدائی اور فاصلے ہوتی ہیں!
ہر شام، رات کا گہرا رنگ پکڑتے ہی تمام ہو جاتی۔۔۔ میں بوجھل قدم اٹھاتا مایا کے کمرے سے لوٹ آتا، یا وہ پرسکون انداز میں میرے کمرے سے لوٹ جاتی۔
کبھی کبھی ہم ایک ساتھ اٹھتے، ڈرائنگ روم میں ایک ساتھ کھانا کھاتے اور پھر اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے۔ کئی برس بیت گئے۔اب بہت کچھ میں سمجھنے لگا تھا اور بہت کچھ میری سمجھ میں آجاتا تھا۔
ایک دن کا ذکر ہے۔
میری طبیعت قدرے ناساز تھی اور خدا جانے کس نوکر نے کب ڈاکٹر کھرے کو خبر دی تھی۔ ڈاکٹر کھرے گاؤن پہنے، گلے میں سٹیتھو سکوپ لٹکائے اور ہاتھوں میں چرمی تھیلا پکڑے ہوئے آئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا، میرا ماتھا چوما اور بولے: ’بس اتنی سی بات۔۔۔ کچھ نہیں ہے۔ آج آرام کرو۔ اسکول مت جانا۔یہ تین گولیاں چار چار گھنٹوں کے وقفے سے کھا لینا اور چھٹی۔۔۔مایا تو اس وقت کالج میں ہوگی۔مائی پوئر بےبی!‘
میں نے ڈاکٹر کھرے کو بہت دنوں کے بعد دیکھا تھا۔۔۔ وہ مجھے حیرانی میں چھوڑ کر چلے گئے۔ میں تمام دن بستر میں دبکا پڑا رہا۔ جی چاہتا تھا کہ روؤں اور جی بھر کے روؤں لیکن نہ رو سکا، نہ پڑھ سکا، نہ سو سکا۔ نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور جب کھلی تو شام ڈھل چکی تھی۔شب خوابی کے اسی لباس میں، جو میں نے پچھلی رات ہی سے پہنا ہوا تھا، میں بستر سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکلا۔مایا کے کمرے کی بتی جل رہی تھی۔
میں نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، ذرا سنبھلا اور بنا آواز کیے ، ہولے سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو گیا۔ اب تک کا معمول یہ تھا کہ مایا پانچ بجے کے قریب کالج سے واپس گھر آتی تھی۔تب تک میں بن سنور کر تیار ہو چکا ہوتا، جیسے ہمیں کہیں باہر جانا ہو۔کبھی وہ میرا ماتھا چوم کر، کبھی میرے گال پر ہلکا سا چانٹا مار کر اور کبھی مجھے بازوؤں میں سمیٹ کر کہتی: ’کیا ہمیں کہیں جانا ہے۔ لوزرلین میں یا سکینڈل پوائنٹ پر؟‘
میں تیز آواز میں صرف اتنا کہہ پاتا: ’دیدی، یہ بھی کوئی بات ہے بھلا۔‘
جب میں مایا کے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا، وہ دیوار کی جانب رخ کیے پلنگ پر دراز ہے۔اس نے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے۔میں کرسی پر چپ چاپ بیٹھ گیا اور اسے اسی حالت میں دیکھتا رہا۔ اس کی وہ حالت، اس کی بےخبری کا وہ عالم۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دھیرے سے کرسی کھسکاتے ہوئے ہلکی سی آواز پیدا کی۔اس نے کروٹ بدلی اور مجھے دیکھا۔اس کے ہونٹوں پر بڑی کمزور سی مسکان تھی۔ اپنا نیچے اوپر کھسکا سرکا لباس درست کرتے ہوئے اس نے کہا۔ ’کب سے بیٹھے ہو؟’
کچھ سوچ کر میں نے جواب دیا: ’دیدی، آ پ نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کیوں بیٹھے ہو؟‘
اس نے میرے چہرے پر نگاہیں جما کر کہا: ’ادھر آؤ۔میرے پاس بیٹھو!‘
میں اٹھا اور اس کے پاس جا بیٹھا۔
میرا ہاتھ تھام کر وہ بولی۔’تم تو بالکل پاگل ہو۔‘
میں نے کہا:’ اور وہ جو کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتا ہے، وہ کیا ہے؟‘
اس نے میرا گال تھپتھپایا: ’اسے پاگل کون کہتا ہے۔ ‘پھر میرے نائٹ سوٹ کا کالر کھینچتے ہوئے، میرا چہرہ اپنے چہرے کے قریب لاتے ہوئے اس نے کہا: ’بتاؤ تو بھلا آج ہمیں کہاں جانا ہے!‘
میں بےاختیار اس سے لپٹ گیا: ’دیدی۔۔۔۔‘ میرے ہونٹ اس کا کندھا چھو رہے تھے۔ اس کے بازوؤں کا حلقہ تنگ اور سخت ہو چلا تھا۔ میری کمزور چھاتی میں اس کے تندرست اور جوان پستان کھبنے لگے تھے۔ میں نے بمشکل تمام گردن اٹھائی اور بھنچی بھنچی آواز میں صرف اس قدر کہہ سکا۔ ’دیدی۔۔‘ مجھے خود اپنی آواز اجنبی لگی۔
اس نے گرفت ڈھیلی کی، میرے گالوں کو سہلایا اور پھر میرے ہونٹوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا: ’میرا سمجھ دار نادان بچہ‘
مایا تب تک مجھے ’میرا چھوٹا سا بڑا بچہ‘ کہتی آئی تھی۔ اب پہلی بار اس نے مجھے ’میرا سمجھ دار نادان بچہ‘ کہا تھا۔میں نے آنکھیں پھیرکر، دیوار پر نظریں جما کر اس سے پوچھا۔ ’آپ میرے کمرے میں کیوں نہیں آئیں؟‘ وہ میرے دائیں ہاتھ کی انگلیاں چٹخاتے ہوئے بولی۔ ’تم نے آج مجھے پیلی پیلی سی دیدی کیوں نہیں کہا؟‘ میں کیا کہتا۔۔۔میں نے کہا: ’دیدی، آپ سچ مچ پیلی ہیں۔‘
’اور؟‘
’بڑی اچھی، بڑی پیاری۔‘
اس نے پچکارنے کے انداز میں کہا۔ ’راجو، بتاؤ تو بھلا anaemic کے معنی کیا ہیں؟‘
میں نے بڑے غور سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان تھی۔
میں نے کہا۔ ’آپ تو ہر بات یادرکھتی ہیں!‘
’تم کیا ہر بات بھول جاتے ہو؟‘وہ فوراً بول اٹھی۔
’او دیدی، آپ مجھے مارتی کیوں نہیں، پیٹتی کیوں نہیں!‘ میں بھرائی ہوئی آواز میں یک لخت کراہ اٹھا۔
اس نے میرا جھکا ہوا سر اٹھایا اور میری آنکھوں کو پڑھتے ہوئے کہا۔ ’راجو، میں گئی تھی تمہارے کمرے میں۔۔۔ تم سورہے تھے۔۔۔ آج میرا اپنا جی اچھا نہیں، اس لیے رک نہ سکی۔‘
میں تقریباً رو پڑا۔ ’آپ بیمار ہیں کیا؟‘
اس نے میری ہتھیلی چومتے ہوئے کہا۔ ’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ بس ذرا جی اچھا نہیں۔‘
اب جو میں نے اسے بہت غور سے دیکھا تو وہ مجھے بہت زرد دکھائی دی۔۔۔ میں نے پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا۔ ’تم نہیں سمجھو گے۔‘
میں قدرے تیز آواز میں بول اٹھا۔ ’پر کیوں نہیں دیدی؟‘
وہ دھیمی آواز میں بولی: ’اس لیے کہ یہ تمہارے سمجھنے کی بات نہیں۔‘ وہی ہلکی سی مسکان اس کے لبوں پر تھی۔
میں نے کہا۔ ’ہاں میں نادان بچہ ہی تو ہوں؟‘
اس نے میرے سر پر بڑی محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’تو تو پگلا ہے۔ راجو، میں پیریڈ سے ہوں۔ اس سے پہلے کبھی اتنا خون ضائع نہیں ہوا۔ اسی لیے تو جی اچھا نہیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب جلدی آ گئے تو انہیں کہنا پڑےگا۔‘
میں خاموش ہو گیا۔۔۔ اداس ہو گیا۔ میں نے کہا۔ ’پر دیدی، آپ تو خود ڈاکٹر ہیں۔‘
اس نے کہا۔ ’ابھی کہاں راجو، ابھی کہاں۔۔۔ پھر راجو تن بدن کے بھید تو کھلتے کھلتے ہی کھلتے ہیں۔‘
میں کچھ نہ کہہ سکا۔بہت دیر تک چپ رہا۔
اس نے پھر بات شروع کی۔ ’اب بتاؤ، میراجی کیوں اچھا نہیں؟‘
میں جھینپ سا گیا۔ اس نے میری بھووں کو اپنی انگلیوں سے چٹکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ’کون کہتا ہے، تم نادان ہو۔۔۔ نادان تو میں ہوں۔‘ اس نے مجھے کندھوں سے پکڑکر جھکایا اور لپٹا لیا۔پھر بازو میرے گرد باندھ لیے۔ اس کا آنچل اس کے کولہوں کے نیچے دبا پڑا تھا۔ ننگے ملائم پیٹ اور پتلی کمر سے ذرا اوپر تنگ بلاؤز میں جکڑے پڑے اس کے گول اور سخت ابھار مجھے پھونک رہے تھے۔ میرے مشتعل اعضا مجھ سے پوچھے بنا ایک انجانی کہانی کہہ رہے تھے اور وہ گرم گرم سانس چھوڑتی سب کچھ سن رہی تھی۔ میری آنکھوں سے گرم گرم آنسو ٹپکنے لگے۔ میں نے اس کی کانپتی ہوئی گرفت میں کسمساتے ہوئے اپنے جلتے ہوئے ہونٹ اس کی پھڑکتی ہوئی رگوں والی گردن پر رکھ دیے۔۔۔ میرے آنسوؤں اور میرے ہونٹوں سے اس کی گردن بھیگ گئی۔
میں بڑی مشکل میں تھا۔ میرے ہاتھوں نے بڑی سختی سے اس کا چہرہ تھام رکھا تھا۔۔۔ میرے منہ سے نکل گیا۔ ’میں کیا کروں، میں بڑی مشکل میں ہوں۔‘
اس نے بھنچی بھنچی آواز میں بہت دھیمے سے کہا: ’میرا جوان بچہ۔۔۔ اچھا مجھے سانس تو لینے دو۔‘
میں بمشکل اس کے تن سے الگ ہوسکا۔اس نے پھر کہا۔ ’بہت مشکل میں ہونا! میں ہوں نا تمہاری مشکل!‘
میں نے اس کے ابھاروں پر سر رکھ دیا۔اس نے میرا چہرہ ہاتھوں میں تھامتے ہوئے مجھے اٹھایا۔ وہ تکیے پر سر دھرے پلنگ پر دراز تھی۔۔۔ میں اس کے بالکل پاس ٹانگیں نیچے لٹکائے بیٹھا تھا۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری گود میں رکھا اور جیسے بڑے پیار سے، بڑی شفقت سے میری مشکل جان لی۔ ’میں خود مشکل میں ہوں۔ ہم آج اپنی مشکل حل نہیں کر سکتے۔۔۔ ہاں، میں تمہاری مشکل ضرور آسان کر سکتی ہوں۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ، تم نے اب تک مجھے چوما کیوں نہیں، کیا تم مجھ سے پیار نہیں کرتے؟‘
میں نے اسے کندھوں سے تھام کر اپنی طرف کھینچا اور اس کے کھلے ہوئے ہونٹوں کے گھاؤ پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ میری گود میں پڑے اس کے متحرک ہاتھ میری مشکل آسان کرنے لگے۔جانے کب، یگ بیتے یا پل، میں بڑے زور سے کانپا۔میری فولادی مشکل جیسے ابل پڑی، گرم چشمے کی مانند پھوٹ بہی۔پھر میں بمشکل منزل تک پہنچنے کی تھکن میں اس پیلی پیلی سی رنگت والے بدن سے لپٹ کر سو گیا۔ صبح سویرے میری آنکھ کھلی۔۔۔ میں نے خود کو اسی کمرے میں، اسی پلنگ پر پایا۔ اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔میرا ہاتھ چومتے ہوئے اس نے کہا۔ ’تم میرے مرد بچے ہو۔‘
اس کی بڑی بڑی آنکھیں سرخ تھیں۔ میں بنا کچھ کہے چلا آیا۔ وہ دن یا اگلا دن، یا اس سے اگلا دن۔۔کتنے زمانے، کتنے جیون۔۔
میں اسکول سے واپس آنے کے بعد، کبھی بن سنورکر اور کبھی نائٹ سوٹ پہنے مایا کا انتظار کرتا۔۔۔ ہفتوں ہم نے ڈرائنگ روم میں چائے پی۔ کبھی کبھی وہ صاف لفظوں میں کہتی۔ ’پڑھائی میں دھیان نہ دو گے تو مجھے کھو دو گے۔‘ میں چپ رہتا۔بس اسے چاہت بھری نظروں سے دیکھتا رہتا۔۔۔ بھلا میں اسے کیسے کھو سکتا تھا۔۔۔ کھو دیتا تو مر نہ جاتا۔ وہ ایم۔ بی۔بی۔ ایس۔ کے جھمیلے سے فارغ ہو چکی تھی اور مجھے ابھی ایف۔اے کا امتحان پاس کرنا تھا۔۔۔ میں نے دن رات ایک کر دیے۔ نظروں کی زد میں یا نظروں سے پرے۔ موجود یا غائب۔۔۔مضبوط دیواروں کی روک یا ہاتھ بھر کا فاصلہ۔۔۔ سب کچھ منظور تھا لیکن اسے کھودینا منظور نہ تھا۔ رتجگے اور تھکن۔۔۔ آنکھوں کی جلن اور نیند کا نشہ۔۔۔کتابیں، قلم، کاغذ اور پیلی پیلی دیدی کا مرد بچہ۔ مہینوں بعد ایف۔ اے۔ کا نتیجہ نکلا تو مجھ سے پہلے مایا ہی کو خبر ملی اور اسی نے مجھے بتایا کہ میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہوں۔ ڈاکٹر کھرے نے بھی ایک دن کہا۔ ’میں جانتا تھا، یہی ہوگا!‘ یہی ایک بات بیتے برسوں میں انہوں نے ہر چھوٹے بڑے امتحان کا نتیجہ نکلنے پر مجھ سے اور مایا سے کہی تھی۔ اب وقتی طور پر میں فارغ تھا۔۔۔ مایا اسپتال چلی جاتی اور میں بنگلے کی دیواروں سے سر پھوڑتا، بنا سر ٹکرائے۔
ایک دن کھانا کھاتے وقت مایا نے پوچھا: ’تمہارے کالج میں لڑکیاں بھی تو ہیں نا؟‘
میں چونکا۔۔۔ لیکن چپ رہا
’بولو نا۔۔۔ کچھ تو بولو۔‘اس نے پھر کہا۔
میں نے بڑے ضبط کے ساتھ جواب دیا۔ ’آپ کے کالج میں بھی تو۔۔۔آپ کے اسپتال میں بھی تو۔۔۔’ میں جواب مکمل نہ کر سکا۔
’تم بڑے دکھی ہو نا۔۔۔ تم نے میرا دکھ کبھی جانا ہے؟‘ اس کی آواز میں بڑا درد تھا۔
مجھے ایسا لگا، جیسے میری دھڑکنیں رک گئی ہیں۔
وہ مجھے ہمیشہ پڑھ لیتی تھی۔۔۔ اس نے مجھے فوراً پڑھ لیا
وہ اٹھی، میرے پاس رکی، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کمرے میں لے گئی۔میں کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ پلنگ پر ۔۔میری دھڑکنیں جو چند لمحے پہلے رک سی گئی تھیں، بڑے زوروں سے پھڑ ک رہی تھیں۔ اس نے مجھے شرارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’کوئی مشکل تمہیں پریشان تو نہیں کرتی؟‘
میری نظریں جھک گئیں۔ ’او دیدی۔۔۔پلیز‘
’دیدی؟‘
میری نظریں جھکی رہیں۔ ’آپ مجھ سے بڑی بھی تو ہیں۔ میں آپ کو دیدی، مایا دیدی نہ کہوں تو کیا کہوں۔۔۔ اور کچھ میرے دھیان میں آیا ہی نہیں۔ پھر دیدی کہنا مجھے اچھا بھی تو لگتا ہے!‘
وہ چپ رہی، ہم بہت دیر تک چپ رہے۔ میری نظریں جھکی رہیں۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میری طرف دیکھ رہی ہے۔
’میری طرف دیکھو۔‘ اس کی آواز لپکی۔
میں نے گردن اٹھائی۔ اس کی طرف دیکھا۔
اس نے کہا۔ ’یہاں، میرے پاس آکر بیٹھو۔‘
میں بس کھینچتا چلا گیا۔۔۔ اس کے پاس بیٹھ گیا۔
اس نے اپنی نشست کا زاویہ بدلتے ہوئے، ذرا مڑتے ہوئے میرے کندھوں پر اپنے مہربان ہاتھ رکھے اور میری پیشانی کو چومنے کے بعد کہا۔ ’سچ مچ تم میرے مرد بچے ہو۔۔۔ راجو، جب تم بڑے ہو جاؤگے، ایک ایک بات کی باریکی سمجھنے لگوگے۔ جب کبھی تمہارے دھیان میں تمہاری دیدی آئےگی، جب تمہیں ان دنوں کی یاد آئےگی۔ مجھے بتاؤ ذرا جو تم اپنی دیدی کو بری عورت تو نہ سمجھو گے!‘
اس کی آواز میں اتنا درد تھا، اتنی گہرائی تھی کہ میں تو بس ڈوب گیا۔ جانے میں نے کیا کہنا چاہا اور جانے کیا کہہ بیٹھا۔۔۔ اب دھیان میں آتا ہے کہ آنسوؤں کی چلمن سے اسے دیکھتے ہوئے میں نے کہا تھا۔ ’دیدی میری اچھی دیدی، مجھے بتائیے، پیار کیا برے لوگ کرتے ہیں؟‘
مجھے یاد ہے، میری گردن جھک گئی تھی اور میرے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں پھیل گئی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے پیار کا سمبندھ برے لوگوں کے ساتھ جوڑ کر اس سے سوال نہیں پوچھا تھا۔ عورت اور پھر بری عورت تو دور دور تک میرے ذہن میں نہیں تھی۔ اور دیدی تو میری اپنی چاہت کا روپ تھی۔۔۔ میں نے دو چار لفظوں میں بس اتنا کہا تھا۔ ’دیدی، تم کتنی اچھی ہو۔۔۔ برے لوگوں سے تمہارا کیا واسطہ!‘
میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اس نے کہا۔ ’آج میں ہوں اور تم مجھے پیار کرتے ہو۔جب میں نہ رہی، تب تم کس سے پیار کروگے؟‘ اس نے ایک سرد آہ بھری اور میرے بالوں میں اپنی انگلیاں الجھاتے ہوئے کہا: ’جب کوئی ہوتا ہے تو ایک بات ہوتی ہے۔جب کوئی نہیں ہوتا، تب وہ بات رہتی ہے کیا؟‘
میں چپ چاپ، اداس اور غمگین، بجھا بجھا سا بیٹھا رہا۔۔۔ پتا نہیں، وہ مجھ سے کیا کچھ کہہ رہی تھی یا خود اپنے آپ سے۔
’میں ایک ڈاکٹر کی بیٹی، خود ایک ڈاکٹر، اتنی پڑھی لکھی۔۔۔ پھر یہ سب کیا ہے، کیوں میری جان پر بنی ہے!‘ اس نے کہا تو خود اپنے آپ سے، لیکن میں نے سنا، صاف طور پر سنا۔
’دیدی، آج آپ کو کیا ہو گیا ہے؟‘ میں نے خود کو مایوس آواز میں کہتے سنا۔
وہ کانپی، سنبھلی، اپنے آپ میں آئی۔۔۔ اس نے باری باری میری ہتھیلیاں چومنا شروع کر دیں۔ ’آج میں ہوں اور تم مجھے پیار کرتے ہو۔ یہی کافی ہے۔‘
آج حیران ہوتا ہوں، میں نے کیسے کہا۔’ مایا دیدی۔ جب آپ سپتال میں ہوتی ہیں، جب آپ اپنے کمرے میں ہوتی ہیں، جب آپ سوجاتی ہیں۔ جب آپ مجھ سے دور ہوتی ہیں، جب آپ میری نظروں کے سامنے نہیں ہوتیں۔۔۔ جب آپ مجھ سے پڑھنے کو کہتی ہیں اور جب میں آپ سے دور رہ کر، رات رات بھر پڑھتا ہوں۔۔۔ جب آپ میرے قریب ہوتی ہیں، میرے ساتھ ہوتی ہیں۔۔۔ دیدی، میرے لیے آپ ہر وقت ہوتی ہیں اور میں ہر وقت آپ سے پیار کرتا ہوں۔۔۔’
میری ہتھیلیوں کو چومتے ہوئے اس کے گیلے ہونٹ بے حرکت ہو گئے۔۔۔ اس نے میری طرف دیکھا، پھر میرے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا۔ ’اور جب میں نہ رہی، تب؟‘
میں نے سنجیدگی سے کہا۔ ’ہو سکتا ہے تب میں بھی نہ رہوں۔ ہو سکتا ہے، میں رہوں۔۔۔ لیکن دیدی، آج یہ پیار، یہ چاہت اور کل وہ دھیان، وہ تڑپ۔۔۔ میرے دھیان میں تو آپ پل پل کی تڑپ بن جائیں گی۔۔۔ ایک وقت آئےگا، نہ میں رہوں گا، نہ وہ تڑپ۔ تب کہیں ہوگا پیار کا انت۔۔۔ کیوں دیدی، کتنے یگ ہیں، ہماری مٹھی میں!‘
میرے رخسار چومتے ہوئے اس نے جیسے خودکلامی کی۔ ’مایا، دیکھو اپنا کرشمہ۔۔۔ تمہارا راجو وقت سے پہلے جوان ہو گیا۔۔۔ عمر سے پہلے سمجھ دار بن گیا!‘ مجھے جھینپ نے آن پکڑا۔ میں نے گردن جھکا لی۔
میں شانت تھا۔۔۔ وہ مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے کہا۔ ’شرماتے کیوں ہو اور تھکے تھکے سے کیوں لگتے ہو؟‘
میں بول اٹھا، ’نہیں تو۔۔۔ تھکن کیسی دیدی؟‘
’تو پھر تم میری طرف دیکھتے کیوں نہیں؟‘
میں نے اس کی طرف آنکھ بھر کر دیکھا۔۔۔ وہی میری پیلی پیلی سی خوبصورت اور جوان دیدی۔ وہی اس کے بدن کی رعنائیاں، وہی جادو، وہی بےقراری۔ میں اس کے پاس بیٹھا تھا، وہ میرے قریب بیٹھی تھی۔۔۔کون کس سے جڑا بیٹھا تھا۔ ’آج مجھے توڑ دو راجو۔۔۔ آج خود ٹوٹ جاؤ راجو!‘
میرا ماتھا تپنے لگا، کانوں کی لویں دہکنہ لگیں، آنکھیں جلنے لگیں۔’جسم کی بھول بھلیوں میں ہر راستہ ہم ایک ساتھ طے کریں گے۔ میں تم پر ہر بھید کھول دوں گی۔۔۔ میں تم سے بڑی ہوں نا۔۔۔ تمہاری دیدی ہوں نا!‘
اس نے میرے چہرے کو اپنے نازک ہاتھوں میں بھرتے ہوئے میرے پیاسے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور پھر دھیرے دھیرے چومنے لگی۔۔۔ چومتی رہی۔ میری مٹھیاں بھنچ گئیں۔ میرے ہاتھوں میں سختی آ گئی۔ میرے بازو اکڑ گئے۔ اس نے میرے ہاتھ سہلائے اور ہولے ہولے دو جلتے بدنوں کے بیچ اپنے پستانوں پر رکھ دیے۔’اپنی ہتھیلیوں سے میری چھاتیاں مسلو، اپنی مٹھیوں میں قید کر لو۔‘
جانے کب اس نے کہا۔۔۔ جانے کب میں نے سنا۔۔۔ ’پیار کرنے والوں کے بیچ دیواریں کیوں۔۔۔کپڑوں کی دیواریں کیوں؟‘
میں نے ڈری ہوئی آواز میں کہا۔ ’دیدی، دروازہ کھلا ہے!‘
اس نے میرے تمتماتے گال پر ہلکا سا پیار بھرا چانٹا مارا: ’پاگل ہے میرا مرد!‘
اس نے پہلی بار مجھے ’مرد‘ کہا تھا۔۔۔ مگر پھر بھی دروازہ تو بند ہونا ہی چاہیے تھا نا! مجھے اٹھاتے ہوئے اس نے کہا: ’چاہو تو دروازہ بند کر دو۔۔راجو، کوئی آیا ہے کبھی یہاں۔ نوکر تو جرات کر نہیں سکتے۔ ڈاکٹر صاحب آ گئے اور انہوں نے کچھ دیکھ بھی لیا تو فوراً چپ چاپ چلے جائیں گے۔ وہ ایک ڈاکر ہیں۔ وہ جان جائیں گے ہم پیار کے ماروں کو۔۔۔ یوں بھی ہمارا پیار کسی دوسرے کی الجھن کیوں؟ اور کسی دوسرے کی الجھن، ہماری الجھن کیسے؟‘
میں ایک قدم تک نہ اٹھا سکا۔۔۔ حیرت کے مارے وہیں اس کے پاس کھڑا رہا۔ اس نے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو میں نے اس کے گورے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
’دیدی، پیار کرنے والوں کے بیچ کپڑوں کی دیواریں کیوں؟‘
اس کی بڑی میٹھی آواز مجھے سنائی دی۔ ’دروازہ بند کردوں؟‘
میں وہیں اس کی گود میں گرپڑا۔ ’آپ مجھے سزا کیوں نہیں دیتیں؟‘
اس نے مجھے اٹھایا، پلنگ پر بٹھایا اور خود کھڑی ہو گئی۔۔۔ اس کا آنچل فرش پر گرا پڑا تھا۔ اس نے اپنے گرے ہوئے آنچل کی طرف دیکھا اور میں نے جھک کر آنچل ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔وہ بنا کچھ کہے دھیرے دھیرے گھومنے لگی اور ساڑی میرے متحرک ہاتھوں میں آتی چلی گئی۔ ساڑی میرے ہاتھوں میں تھی اور وہ ہاتھ بھر کی دوری پر میرے پاس کھڑی تھی۔ اس نے قدم بڑھا کر میرے بالوں میں انگلیاں کھبوتے ہوئے کہا۔ ’پریمیکا کے بدن سے اترا ہوا ہر کپڑا پریمی سے محبت مانگتا ہے۔ میری ساڑی بڑے پیار سے تہہ کرو اور کرسی پر رکھ دو۔‘ کتنی پریشانیاں تھیں اس کام میں۔میرے ہاتھ جیسے میر ے بس میں نہ تھے۔ پوری توجہ کے باوجود جانے کتنا وقت لگ گیا۔ ساڑی کرسی پر رکھنے کے بعد دھک دھک کرتے دل سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ بلاؤز اس کی باہوں میں پھنسا پڑا تھا، ہک الگ ہوچکے تھے۔ اس نے میری طرف دیکھا، پھر گردن جھکا کر اپنے ابھاروں کو دیکھنے لگی۔۔۔ میں نے بڑی مشکل سے بازو پھیلائے اور کانپتے ہاتھوں سے اس کے پستانوں پر جھولتا بلاؤز دھیرے سے الگ کر ڈالا۔ جانے مجھے کیا ہوا، میں نے آن کی آن میں معطر بلاؤز میں اپنا منہ چھپا لیا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ بڑی دیر تک بلاؤز میں منہ چھپائے روتا رہا۔
’میری طرف دیکھو۔‘ اس کی آواز سنائی دی۔
بڑے ضبط کے ساتھمیں نے بلاؤز ساڑی کے اوپر رکھ دیا اور اس کی طرف دیکھا۔ وہ تکیے پر سر رکھے دراز تھی۔اس کی جوان مغرور اٹھانیں انگیا میں بندھی پڑی تھیں اور ریشمی پیٹی کوٹ نے اسے کمر سے گھٹنوں تک ڈھانپ رکھا تھا۔ میں بے چارگی سے جیسے اس کے خاموش حکم کا منتظر تھا۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور میں اسے۔آج، اتنے برسوں کے بعد، میں کہہ سکتا ہوں، اس رات کی دھڑکتی تنہائی میں، روشن کمرے کی ہر شے ہماری نظروں کے تصادم سے سلگ اٹھی تھی۔ اس نے۔۔۔ وہ پلنگ تھا یا بستر یا اوڑھنا بچھونا جسم و جاں کا، جسم وجاں کے لیے۔۔۔ اپنی بانہیں اٹھائیں، میری جانب پھیلائیں، ہاتھ کھلے،انگلیاں متلاشی، بانہیں گول اور چپٹی یا متوازی، ٹھیک نشانے پر مرکوز۔لپکتی بانہوں کی درمیانی محفوظ وسعت، یا کہوں اسے مجھ پناہ گیر کا دشت امکاں۔وہ منظر جو زندگی بھر کا روگ بن جائے، ایسا منظر جس کا بھید کتابوں کی سرد گرم رفاقت بھی نہیں کھول پاتی۔ ان بانہوں کا سونا پن تو ایک جادوئی بلاوا تھا اور پھر میں ان بانہوں میں تھا، ان کی کسی ہوئی گرفت میں نرم نرم تپش کا خاص مہمان۔
گرم گرم سانسوں کے درمیان اس کی مدھر آواز ہولے سے ابھری۔ ’جب بدن ایک دوسرے سے لپٹ جائیں تو ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے۔ ایک دوسرے کو جی بھر کر دیکھ لیں، ایک دوسرے کو جی بھر کر چوم لیں تو لپٹ جانے کا سرور کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ ‘اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ اس نے مجھے کندھوں سے تھام کر ہولے سے اٹھایا اور خود بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر دائیں ہاتھ سے میری ٹھوڑی اٹھا کر اس نے میری آنکھیں چوم لیں۔ ’بولو، یہ انگیا ہے یا کوئی ڈربہ۔ اتنی دیر تو کوئی کبوتروں کو بھی قید نہیں رکھتا۔ کھول دو یہ ڈربہ اور رہا کردو اس حسین اور بےقرار جوڑے کو۔۔۔‘
میری آنکھیں بند تھیں۔ وہ میری گری ہوئی پلکوں پر باری باری اپنے ہونٹوں کے پھاہے رکھ رہی تھی۔۔۔ میرے ہاتھں نے اس کی ننگی پیٹھ سہلاتے سہلاتے اس کی انگیا کے بند کھول دیے، پتلی سی طنابیں اس کی بانہوں سے الگ کردیں۔میری گری ہوئی پلکیں، اس کے ہونٹوں کے پھاہے۔۔۔ میں نے سنا۔ ’یہ جو اک ریشمی شامیانہ سا بندھا ہے میری کمر کے گرد، اب تم بتاؤ، اور کون ہے جو ہٹائےگا اسے۔۔۔‘
میرے ہاتھوں نے اس کا حکم مانا۔۔۔ اک ڈوری اور اک گانٹھ۔ گانٹھ جو کھلی، ڈوری جو ہوئی ڈھیلی، میں نے جو اٹھائیں پلکیں، اس نے جو پساریں ٹانگیں، شامیانہ ہوا بدن سے الگ۔
’ تن بدن کی یہ آزادی اور تم اس سے محروم۔۔۔ ان ہاتھوں کی برکت، تم ہوگے آزاد!‘
سچ مچ ان ہاتھوں میں بڑی برکت تھی۔۔۔ کپڑوں کی دیواریں ان ہاتھوں نے ڈھادیں، بڑے پیار سے اور بن آواز۔ آواز تو بس میں نے اس کی سنی۔’نہ کوئی الجھن، نہ کوئی پردہ۔۔۔ تم مجھے آنکھوں میں بھر لو اور میں تمہیں۔۔۔ اتار لیں یہ بدن آنکھوں میں سدا کے لیے۔۔۔‘
وہ پلنگ کی پشت کا سہارا لے کر، سر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر اور ٹانگیں پسار کر بیٹھ گئی۔۔۔ میں لرزتی ٹانگیں لٹکائے اس کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کی پنڈلیاں میرے کولھوں کو چھو رہی تھی۔۔۔ میری گود میں اک اور وجود کی توانائی گرمئ حیات بن چکی تھی۔ میں اسے آنکھوں میں اتار رہا تھا۔۔۔ کھلے بال، دمکتی پیشانی، گہری آنکھیں، تمتماتے رخسار اور مسکراتے ہونٹ۔ وہ گردن، وہ کندھے، وہ بانہیں، وہ بالوں بھری گیلی بغلیں۔ بدن کے تناسب سے کچھ بڑے پستان، بھرے بھرے اور گول، پیلے پیلے سے گورے ابھاروں کی اٹھانوں پر کرشمے کی صورت پھیلے ہوئے کتھئی رنگت کے دائروں میں زندہ، ٹھوس اور سربلند سر پستاں۔میری نظریں تو بس وہیں رک گئیں، وہیں ٹھہر گئیں، وہیں کی ہو رہیں۔
میں یہ دیکھ نہ پایا کہ اس کی نظریں میرا کیا کچھ سمیٹ رہی ہیں۔تب میرے منتظر کانوں نے اس کی آواز سنی۔’بھر لو میرے پستانوں کو اپنی مٹھیوں میں، چومتے رہو، میرے ابھاروں کو، چوس لو رس ان اٹھانوں کا۔۔۔ پگھلا دو، بہادو ان میں چھپا برسوں پرانا درد۔۔۔‘
اس کی آواز، اس کے لفظ، اس کا حکم۔۔یوں جانو، ایک کتھا کہانی۔۔
وہ خاموش سیاہ سلگتی رات۔۔۔
وہ دو جلتے بدن، پیار کی ایک عجب دھن میں مگن۔۔۔
وہ ایک انمول لمس، نعمت ہے، جس کا نام۔۔۔
ایک ایک مسام کی بیداری، ایک ایک رگ کی تڑپ۔۔۔
ایک ایک فتنے کی سخت جانی، لبوں کی آنچ تلے تپتی ہوئی۔۔۔
جب میرے اس ناقابل بیان وجود کی ناقابل برداشت توانائی اس کے بھیگے ہاتھوں کی رہنمائی میں، اس کی بھیدوں بھری گود کی گہرائی میں، اس کی مدد اور تعاون کے ساتھ ایک جدو جہد میں ڈھل گئی، تب وہ، وہ نہ رہی اور میں، میں نہ رہا۔۔۔ بس جسم و جاں ایک لاوے کی صورت پھوٹ بہے اور ہمیں بہالے گئے۔
صبح منہ اندھیرے جب میری آنکھ کھلی، میں نے اپنا چہرہ اس کے پستانوں میں گم پایا۔۔۔ وہ میرے بالوں میں اپنی انگلیاں الجھائے، میری نیند ٹوٹنے کا انتظار کر رہی تھی۔ میرا بدن ساکت تھا۔ ایک میرا دل دھڑک رہا تھا اور ایک میری پلکوں میں حرکت ہوئی تھی۔ پھر بھی وہ جان گئی کہ میری نیند ٹوٹ چکی ہے۔۔۔ نیند ٹوٹنے کی آواز نے سن لی تھی، جیسے اس کے باخبر پستان سوتی اور جاگتی آنکھوں کے فرق کو خوب پہچانتے ہوں۔ اس نے بڑے پیار سے کہا۔ ’اب تم مرد سے ایک پیارے سے بڑے بچے بن جاؤ۔ اپنے کمرے میں جاؤ۔ نہاؤ، پھر بھرپور ناشتہ کرو۔۔۔ کالج بھی تو جانا ہے تمہیں!’
میں نے اس کے پستانوں کو مٹھیوں میں بھر لیا تھا اور پستانوں کے سخت جان سروں کو باری باری چوم رہا تھا۔
اس نے پھر بڑے پیار سے کہا۔ ’اپنی دیدی کا کہا نہیں مانو گے!‘
میں فوراً اٹھ بیٹھا۔۔۔ میں نے بےاختیاری میں اس کے ہاتھ تھامے اور چوم لیے۔ اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ پھر اس کے ہاتھ میری گود میں تھے اور وہ فتنہ جو سر اٹھا چکا تھا، اس کے ہاتھوں کی پیار بھری نرمی اور آنچ محسوس کر رہا تھا۔ وہ خود تپنے لگا تھا۔اس نے بانہیں کھولیں، مجھے ان میں بھرا اور پھر جیسے مجھے اوڑھ لیا۔ اس نے خود مشتعل فتنے کو جائے پناہ بخشی جو ایک زلزلے کی زد میں تھی۔ جب زلزلہ تھم گیا تو اس نے شفقت سے میرا ماتھا چوما: ’اب تو اپنی دیدی کا کہنا مانوگے!‘
میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے کہا: ’تم سے اٹھا نہ جائے، چلا نہ جائے پھر بھی تم کالج جاؤگے۔ پورے دھیان سے ہر لکچر سننا۔ گھر آنے کے بعد اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سو جانا۔سوتے رہنا۔ میں خود تمہیں جگاؤں گی۔‘ دن بھر میں نیند سے لڑتا رہا، تھکن سے لڑتا رہا۔ کالج میں کانوں سے جو کچھ سنا، دھیان میں رکھنے کا جتن کرتا رہا۔ گھر لوٹا، کھانے سے فارغ ہوا، کپڑے بدلے، پلنگ پر لیٹا اور سو گیا۔ رات کے دس بجے ہونگے، جب میری آنکھیں کھلیں۔ وہ پاس بیٹھی مجھے دیکھ رہی تھی۔اس کی انگلیاں ہولے ہولے میری چھاتی میں ہلکی سی گدگدی پیدا کر رہی تھیں۔ میں مسکرا دیا۔ میں نے دیکھا، تپائی پر دودھ بھرا گلاس رکھا ہے اور ایک طشتری میں ناشپاتی اور سیب کے قتلے پڑے ہیں۔ اس نے کہا۔ ’اٹھو، منہ پر چھینٹے مارو اور کچھ کھاپی لو۔پھر سو جانا۔‘
میں نے کہا۔ ’نہیں دیدی!‘
’اچھا پہلے اٹھ تو پڑو، باقی باتیں بعد میں۔‘
غسل خانے سے آنے کے بعد میں نے پھل کھائے، دودھ پیا۔
اس نے کہا۔ ’راجو، مجھے کچھ سڈنی کارلٹن کے بارے میں بتاؤ۔‘
میرے منہ سے نکل گیا۔ ’دیدی یہ بھی کوئی بات ہوئی!‘
اس نے نرمی سے کہا۔ ’نہیں راجو۔۔۔ کیا تم چاہوگے کہ تم بیمار پڑ جاؤ اور تمہاری دیدی کو دکھ ہو؟‘
میں چپ رہا۔ اس نے کہا۔ ’لیٹ جاؤ راجو۔ میں تمہارے پاس بیٹھی ہوں۔۔۔ کچھ بات کرو۔ جب تمہیں نیند آنے لگے تو سو جانا۔ جب تم سو جاؤگے، میں بھی تمہیں دیکھتے دیکھتے یہیں تمہارے ساتھ سو جاؤں گی۔۔۔ کیوں ٹھیک ہے نا۔۔۔ تم یہی تو چاہتے ہو کہ تمہاری دیدی تمہارے پاس رہے۔ دیکھو میں تمہارے پاس ہوں اور صبح جب تمہاری آنکھ کھلےگی، تم مجھے اپنے پاس پاؤگے۔۔۔ اب مجھے بتاؤ، وہ ایک پل، دھڑ سے گردن الگ ہونے سے پہلے کا وہ پل، اس پل سڈنی کارلٹن کے ذہن میں کیا تھا؟ اس پل کیا اس کی پریمیکا اس کے دھیان میں تھی؟اس پل کیا موت کے تماشائیوں کے قہقہے اور آوازے اس کا وقت برباد کر رہے تھے؟ اس پل کی حقیقت کیا تھی؟ اس پل کا سچ کیا تھا؟ مجھے یاد ہے، میں کچھ بھی نہ کہہ پایا تھا۔۔۔ مجھے یاد ہے، اس کی چھلکتی آواز کے طلسم میں میں نے اس ایک پل کو گزرتے دیکھا اور پھر ادھر سڈنی کارلٹن کی گردن دھڑ سے الگ ہو کر گری، ادھر میرا سر نیند کی آغوش میں لڑھک گیا۔
صبح سویرے جب مجھے ہوش آیا، میں نے اسے اپنے بستر ہی پر دیکھا۔
وہ رات بھر میرے پاس رہی تھی۔ میرے نزدیک اور مجھ سے دور۔۔۔ وہ تر و تازہ نظر آرہی تھی اور میں خود کو تازہ دم محسوس کررہا تھا۔میں کہنیوں کے بل ذرا سا اٹھا اور اس کی مسکراتی آنکھیں دیکھ کر میں نے کہا۔ ’دیدی، آپ کتنی اچھی ہیں۔۔۔ ٹالنے کا سلیقہ تو کوئی آپ سے سیکھے!‘
اس نے میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرلینے کے بعد کہا: ‘سڈنی کارلٹن کے پاس تو بس پل بھر کی مہلت تھی۔ ہماری مٹھی میں تو پوری زندگی ہے۔۔۔ میں ضبط کر سکتی ہوں، خود کو مار سکتی ہوں لیکن تمہیں نڈھال اور بجھا بجھا سا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ دیکھو نا تم کتنے جاندار لگ رہے ہو!‘
میں اس سے لپٹ گیا۔ تب میں نے جانا کہ رات میرے سونے کے بعد اس نے اپنا لباس بدلا تھا۔ ایک نائٹی اس کے بدن پر تھی۔ میں نے لیٹے لیے، اسے کچھ اٹھاکر، نائٹی اس کے بدن سے الگ کرنا چاہی تو اس نے کہا۔’نہیں راجو نہیں، تمہیں کالج جانا ہے۔۔۔ میں نہیں چاہتی، میرا جوان بچہ اجڑا اجڑا سا نظر آئے۔‘
اس نے اک صبر کے ساتھ مجھے اپنے بدن سے جدا کیا اور کھڑ ی ہو گئی۔ دروازے کے پاس پہنچتے ہی وہ رکی: ’تمہیں یاد ہے نا، کل سویرے میں نے تم سے کیا کہا تھا!‘ پھر وہ میرے کمرے سے چلی گئی۔۔۔ وہ کتنی دور تھی، وہ کتنی پاس تھی۔۔مجھے اٹھنا تھا، تیار ہونا تھا اور کالج جانا تھا۔ تین بجے کے قریب گھر واپس پہنچا تو کمرے میں پلنگ پر، تکیے کے عین اوپر، دھاریوں والے پیپر ویٹ کے نیچے ایک رقعہ پڑا ہوا دیکھا۔ لکھا تھا:
راجو۔
آج شام اسپتال میں کچھ دیر ہو جائےگی۔۔۔ انتظار مت کرنا۔۔۔ پڑھنے میں من لگانا۔۔۔ نیند آئے تو سو جانا۔۔۔ سنو۔ کیتھرین دی گریٹ ایک خط میں والٹیئر کو کیا لکھتی ہے:
Men make love more intensely at twenty, but make love better, however, at thirty.
تم تو ابھی بیس کے بھی نہیں ہوئے۔
دیدی
بہت دیر تک میں سوچتا رہا کہ اس نے ’مایا‘ کیوں نہ لکھا، ’دیدی‘ کیوں لکھا؟
’مایا‘ بڑا خوبصورت نام ہے۔’دیدی‘ بھی کم خوبصورت نام نہیں۔۔۔ ہو سکتا ہے، کوئی بے معنی الجھن مٹا ڈالنے کی غرض سے آپ نے ’دیدی‘ لکھا ہو۔۔دیدی، آپ سچ مچ گریٹ ہیں۔ میں نے کاغذ کے اس پرزے پر اپنے ہاتھ سے لکھا۔ ’دیدی، آپ سچ مچ گریٹ ہیں۔‘
اپنے دستخط کیے، تاریخ ڈالی، وقت درج کیا۔۔پھر میں نے بیش قیمت کاغذ کا وہ پرزہ اس فائل میں رکھ دیا جو مجھے بہت عزیز تھی اور جس میں میری ذات سے متعلق ہر دستاویز محفوظ پڑی تھی۔ فائل کو اسٹیل کی الماری میں رکھنے کے بعد میں نے کپڑے بدلے، ہاتھ منہ دھویا اور پلنگ پر گر سا پڑا۔ ذرا سی بھوک لگی تھی، لیکن جی نہ چاہا کہ کسی سے کچھ کہوں، کھانے کو کچھ مانگوں۔ کتاب کھولی، پر نظریں ٹک نہ سکیں۔ روشندان کے میلے شیشے کے اس طرف منڈیر پر بیٹھی چڑیا کو دیکھتا رہا۔ چڑیا اڑ گئی تو پھر کتاب کھول کر بیٹھ گیا۔ ابھی کچھ پنے ہی پڑھ پایا تھا کہ نیند کا جھونکا آ گیا۔ کتاب بند کی اور سو گیا۔ نیند کھلی تو شام ہو چکی تھی۔۔۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے پی اور پنیر کے دو چار پکوڑ ے کھائے۔ پھر دوچار میگزین سرسری طور پر دیکھے۔
اپنے کمرے میں واپس آنے کے بعد دیر تک ریڈیو سنتا رہا۔ جی بھر گیا تو ریڈیو بند کرنے کے بعد کمرے میں ٹہلتا رہا۔ دھیرے دھیرے اٹھتے قدم گننا شروع کیے تو قدم ہی گنتا رہا۔ قدم گنتے گنتے دیدی کے کمرے تک جا پہنچا۔ پل بھر کو رکا اور لوٹ آیا۔ تکیے کے عین اوپر دھاریوں والا پیپر ویٹ جوں کا توں رکھا تھا۔ انگلیوں میں تھام کر، ہاتھ گھما گھما کر پیپر ویٹ کی گہری نیلی دھاریاں دیکھتا رہا۔ تھک گیا تو پیپر ویٹ وہیں کہیں رکھ دیا اور ڈائننگ روم میں چلا گیا۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا تو بنا سوچے سمجھے دھیرے دھیرے جانے کیا کیا کھاتا رہا۔پیٹ ٹھسا ٹھس بھر گیا تو تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرے میں لوٹ آیا اور بستر پر گرتے ہی سو گیا۔
آنکھیں ملتے ہوئے اٹھا تو اچھی خاصی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔
کافی دیر تک باتھ روم میں آئینے کے سامنے کھڑا رہا اور اپنا چہرہ دیکھتا رہا۔ پچھلی شام اور رات کا کوئی نقش چہرے پر نظر نہ آیا۔۔۔ منہ ہاتھ دھوئے، دانت صاف کیے۔۔۔ صبح کے بندھے بندھائے عمل سے فارغ ہونے کے بعد چائے منگوائی۔ پانی کے دو بڑے گھونٹ پیے جو ہمیشہ کی طرح اچھے لگے۔ چائے پی تو جی خوش ہو گیا۔ کمرے سے باہر نکلا تو آپ سے آپ پتا چل گیا کہ سب لوگ گھر پر ہیں۔۔۔ سب لوگ، یعنی مایا اور ڈاکٹر کھرے۔سب لوگ، یعنی ہم تین جنے۔
مایا کے کمرے میں پہنچا۔۔۔ وہ سو رہی تھی۔
چپ چاپ کرسی پر بیٹھ اسے سوتا دیکھتا رہا۔ وہ سورہی تھی، میں اسے دیکھ رہا تھا، کتنا اچھا لگ رہا تھا، چھٹی کا وہ دن کتنا اچھا تھا۔بہت دیر کے بعد وہ جاگی۔ کروٹ بدل کے اس نے مجھے دیکھا۔ پھر جیسے کچھ یاد کرتے ہوئے وہ مسکرائی اور اس نے کہا: ’آج میں تم سے یہ پوچھوں گی کہ کیوں بیٹھے ہو؟‘
میں نے بھی کچھ یاد کیا اور سوچ کر جواب دیا۔ ’دیدی، آپ نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کب سے بیٹھے ہو؟‘
اس نے میرے چہرے پر نگاہیں جما کر کہا۔ ’ادھر آؤ، میرے پاس بیٹھو۔‘
میں اٹھا اور اس کے پاس جا بیٹھا۔ میرا ہاتھ تھام کر وہ بولی۔’تم اب بھی بالکل وہی پرانے پاگل ہو!‘
میں بے اختیار اس سے لپٹ گیا۔ ’دیدی۔۔۔‘
اس نے اپنے بازوؤں کے حلقے میں مجھے سمیٹ لیا۔ جب اس کی گرفت سخت ہونے لگی تو میں نے کہا۔ ’دیدی، ڈاکٹر صاحب گھر پر ہیں۔‘
اس نے بڑی سختی کے ساتھ مجھے بھینچ لیا۔ میرے ہونٹ چومنے کے بعد اس نے کہا۔ ’آج کے بعد تم اپنی دیدی کو ناراض نہیں کروگے۔۔۔ اگر ڈاکٹر صاحب گھر پر ہیں تو تم کرسی ہی پر کیوں نہ بیٹھے رہے؟ یہاں پلنگ پر کیوں آئے، مجھ سے لپٹ کیوں گئے؟‘
میں چپ رہا۔
اس نے پھر کہا۔ ’راجو میرے بچے، تم اتنے سمجھ دار ہو، پھر ایسا برا خیال کیوں؟‘
میں بول اٹھا۔ ’مجھے کیا ہو جاتا ہے دیدی؟‘
اس نے میرے گال سہلاتے ہوئے کہا۔ ’راجو، تم بالکل ٹھیک ہو۔ تمہیں کچھ بھی نہیں ہوا۔‘ میں نے اس کے پستانوں کو مٹھیوں میں بھرا تو اس نے کہا۔ ’نہیں راجو، ڈاکٹر صاحب گھر پرہیں۔‘ میں ایک جھٹکے سے الگ ہو گیا۔ وہ ہنس پڑی۔ ’ڈاکٹر صاحب گھر پر ہیں تو ہم ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔ ناشتے کا وقت تو نکل چکا ہے۔ ابھی مجھے باتھ روم میں جانا ہے، دانت صاف کرنے ہیں، نہانا ہے۔۔۔ ارے ، تم بھی تو ابھی تک نہائے نہیں۔ جاؤ اور اپنا تولیہ لے آؤ۔ آج میں تمہیں نہلاؤں گی!‘ میں جھینپ گیا۔ ’یہ تم جھینپ کیوں جاتے ہو!‘ اس کی کھنکتی ہوئی آواز مجھے سنائی دی۔ ’اچھا جاؤ نہاؤ اور بن سنور کر آؤ۔ پھر ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔‘
نہانے کے بعد، بال بنانے کے بعد، اچھے کپڑے پہنے جب میں ڈائننگ روم میں پہنچا تو مایا وہاں نہیں تھی۔۔۔ مجھے فوراً پتا چل گیا کہ ڈاکٹر کھرے بنا کھانا کھائے جا چکے ہیں۔ مایا نے جب ڈائننگ روم میں قدم رکھے تو پورا کمرہ دودھیا روشنی سے دھل گیا۔ لگ رہا تھا کہ اس نے نہانے کے بعد بھیگے بدن ہی کپڑے پہن لیے تھے۔۔۔ سفید، بےداغ اور مہین کپڑے کا ڈھیلا ڈھالا بلاؤز اس کے کندھوں، ابھاروں اور پیٹ کے اوپری حصے کو کچھ یوں ڈھانپے ہوئے تھا جیسے ڈھانپنے کا عمل کپڑوں سے بے نیازی کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ اسی کپڑے کی اوڑھنی اس نے اوڑھ رکھی تھی۔ اوڑھ کیا رکھی تھی، یوں جانیے کہ وہ تو اڑتے اڑتے کسی کشش کے تحت ان گورے کندھوں پر آن پڑی تھی۔ ننگی اور کومل بانہوں کا حسن اس حسین بدن سے ذرا بھر جدا نہ تھا۔ پیٹی کوٹ کی رنگت اور بھومیکا، بلاؤز اور اوڑھنی سے میل کھارہی تھی۔۔۔ بھیگے بدن کا وہ ڈھیلا لباس یہاں وہاں بدن کے ساتھ چپک گیا تھا اور یہاں وہاں لباس پر بدن کا رنگ چڑھ گیا تھا۔ اف رانوں کی وہ گولائیاں، پنڈلیوں کی گول سختیاں، بھرے بھرے کولہوں کا گداز، پتلی کمر کا لوث، جو بنوں کا ابھار، کندھے اور گردن، ہونٹ اور ناک، آنکھیں اور بھویں، ماتھا اور کان، کھلے گیلے بال۔۔۔ پھر بدن سے نکلتی ایک آنچ، ایک مہک۔
مجھے اچھا بھلا کھانا بالکل اچھا نہ لگ رہا تھا۔ میں بڑی مشکل سے نوالے حلق سے نیچے اتار رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ بڑے سلیقے سے، دھیرے دھیرے، پوری لذت کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی جیسے دنیا بھر کے تمام ذائقے اس تھالی میں، ان کٹوریوں میں سمٹ آئے ہوں اور وہ انہیں اپنے وجود میں سمو رہی ہو۔ اس نے نیچی نظروں کے ساتھ پچکارتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’راجو، پورے دھیان سے اور پیٹ بھر کر کھانا کھاؤ۔‘ جب ہم ہاتھ منہ صاف کرچکے تو اس نے کہا۔ ’کافی ہم کمرے میں پئیں گے۔آؤ!‘
میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ کمرے میں پہنچ کر وہ پلنگ کی پشت کا سہارا لے کر نیم دراز صورت میں بیٹھ گئی۔میں ذرا فاصلے پر کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ خاموش تھی، میں خاموش تھا۔۔۔ کافی بھی ہم نے خاموشی ہی کے عالم میں پی۔
’اچھا راجو۔‘ اس نے کہا۔ ’ڈاکٹر صاحب تو گھر پرن ہیں ہیں، اب؟‘
میں نے بےچارگی سے اس کی طرف دیکھا۔
’چلو یہ بتاؤ، کل شام تم کیا کرتے رہے؟‘
میں چپ رہا۔
’اچھا مجھ سے پوچھو، کل شام میں کیا کرتی رہی؟‘
میں چپ چاپ بہت دیر تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔
وہ بولی: ’کل دن بھر میرا ایک مریض زندگی اور موت کے درمیان تڑپتا رہا۔ مجھ سے جوبن پڑا۔ میں نے کیا۔ تھک گئی، ٹوٹ ٹوٹ گئی، پر لگی رہی، جتی رہی، موت کو تو نہ ٹال سکی، لیکن کوشش میں نے پوری کی۔۔ اور تم ہو کہ تم نے زندگی کی ایک شام ضائع کر دی، ایک بےمعنی انتظار میں۔ تم جانتے تھے کہ میں اسپتال میں ہوں۔ پھر انتظار کا ہے کا۔تم نے میرا رقعہ پڑھا تھا نا۔ جانتے ہو، وہ میں نے اسپتال سے ایک آیا کے ہاتھ بھیجا تھا۔۔۔ اگر اسی طرح پڑھنے لکھنے میں تمہارا من نہ لگا تو پھر تمہاری دیدی اور ایک بری عورت میں کیا فرق رہا۔‘
میں تو بس ٹوٹ گیا۔۔۔ آپ سے آپ اٹھا اور بےاختیار ہوکر اس کے پیروں میں سر رکھ کر رونے لگا، روتا رہا۔۔۔ اس کے پیروں کو چومتا رہا، نہ جانے کب تک۔
اسی عالم میں مجھے اس کی جادوئی آواز سنائی دی۔’بس بس۔۔۔تم نے تو میرے پیر آنسوؤں سے دھو ڈالے ہیں۔ کل کی موت تو گئی کل کے ساتھ، میری زندگی تو میرے آج کے ہاتھ میں ہے۔۔۔راجو، تم میرا آج ہو۔ راجو، مجھے اپنی بانہوں میں بھر لو، میرے گلے لگ جاؤ۔‘
میں نے سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا۔۔۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ میں نے بڑھ کر اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور اس کی آنکھیں چوم لیں۔ اس کے ہاتھ میری پیٹھ سہلانے لگے۔۔۔ میں نے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ میرے ہاتھ اس کے پستانوں کو مسلنے لگے تو اس نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔’نہیں راجو، اس وقت کوئی شرارت نہیں، بس سو جاؤ۔ کھانے کے بعد تھوڑا سا سونا چاہیے نا!‘
میں سو گیا۔۔۔ مجھے پتا نہیں کہ وہ سوئی تھی یا نہیں۔۔۔ جب میری آنکھ کھلی، وہ باتھ روم میں تھی اور شام گہری ہوچکی تھی۔ میں پلنگ پر پڑا رہا۔ باتھ روم سے کمرے میں آتے ہی اس نے کہا۔ ’تم سورہے تھے، چائے میں نے اکیلے ہی پی لی۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ رات کو ہم بہت ہلکا کھانا کھائیں گے۔ اب تم اٹھو، آنکھوں پرچھینٹے مارو، آدمی بنو۔‘
میں چپ چاپ اٹھا اور باتھ روم میں چلا گیا۔۔۔ آنکھوں پر چھینٹے مارے، اس کے تولیے سے منہ پونچھا، آئینے میں چہرہ دیکھا اور کمرے میں لوٹ آیا۔ وہ کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ میں پلنگ پر بیٹھ گیا۔
’راجو، آج کا دن تو بیت گیا۔ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی جانتی ہوں، ہم نے یہ دن کیسے گزارا۔۔۔ ہماری زندگی میں آج کا دن کوئی کارنامہ نہیں کہ ہم اسے انگلیوں میں تھام سکیں، آنکھوں کے سامنے گھما پھرا سکیں، پرکھ سکیں، لیکن جب کبھی تم آج کے دن کو دھیان میں لاؤ گے، تمہیں یہی محسوس ہوگا کہ تم نے آج کا دن گنوایا نہیں تھا۔۔۔‘
میں نے بڑی دھیمی آواز میں کہا۔ ’دیدی، دن تو کیا، مجھے آج کا ایک ایک پل یاد رہےگا۔‘
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ ’لیکن راوجو، ابھی پورا دن کہاں گزرا ہے، ارات تو ابھی باقی ہے۔‘
میں جھینپ گیا۔۔۔ وہ ہنس پڑی۔
’راجو، میں اسی طرح جھینپ جاتی تھی اور وہ اسی طرح ہنس پڑتے تھے۔۔۔‘
’کون دیدی کون؟’ میں یکایک بےچین ہو اٹھا۔
وہ آہستہ آہستہ کمرے میں ٹہلنے لگی۔۔۔ میں دم سادھے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ ٹہلتے ٹہلتے ، کچھ سوچتے سوچتے وہ میرے پاس آکر رک گئی۔ اس نے میرا سر، میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر لیا۔ پھر میرا چہرہ اپنے ابھاروں میں دباتے ہوئے بڑی شفقت سے بولی۔’بتاؤ مجھے، میں نے کیا کہا ہے؟‘
میں چپ رہا۔۔۔ میں کہ اس کے ابھاروں کی نرم آنچ میں گم تھا، کیا کہتا۔
اس نے میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرے بھرے ذرا اوپر کی طرف اٹھایا، قدرے جھکی اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی۔ ’بولو، میں نے کیا کہا تھا۔۔۔ میں تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں۔‘
میں بڑی مشکل سے کہہ سکا۔ ’آپ نے کہا تھا، آپ اسی طرح جھینپ جاتی تھیں اور وہ اسی طرح ہنس پڑتے تھے۔‘
اس نے فوراً پوچھا ’پھر تم بےچین کیوں ہو اٹھے؟‘
ایک پل میں ساری بات میری سمجھ میں آ گئی۔ میرا جی چاہا کہ اپنا سر پھوڑ لوں۔۔۔ میری بےچینی میں حسد اور جلن کا جذبہ کیوں اور کیسے شامل ہو گیا تھا۔
میں نے نظریں جھکا لیں۔
میرا ماتھا چومنے کے بعد وہ پھر ٹہلنے لگی۔ میں نے سنبھل کر بڑے ضبط کے ساتھ پوچھا۔ ’دیدی، کون تھے وہ؟’
ٰ
وہ رک گئی۔ میں نے دیکھا، اس کے ہونٹ پل بھر کو کانپے، اس کے بدن میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی، پھر وہ سنبھل گئی۔ میرے پاس پلنگ پر بیٹھتے ہوئے اور میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اس نے کہا۔ ’راجو، ان کا نام تھا گوتم۔۔۔‘ بہت دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا ۔‘زمانے گزر چکے ہیں، پر جیسے کل کی بات ہو۔ وہ مجھ سے ملنے اسی بنگلے کی طرف آ رہے تھے۔ راستے ہی میں ان کی موٹر سائیکل ایک اسٹیشن ویگن کے ساتھ ٹکرا گئی۔۔۔ وہ نہ رہے راجو، نہ رہے۔‘
میں نے محسوس کیا، میرے ہاتھوں پر اس کے ہاتھوں کی گرفت سخت ہو گئی ہے۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ یکایک بجھ سی گئی ہے۔ میں اسے اداس پاکر خود اداس ہو گیا۔مجھے اداس دیکھ کر جیسے اس نے اپنی اداسی جھٹک دی، جھاڑ دی۔ ’نہیں راجو، میں تمہیں کبھی اداس دیکھنا نہیں چاہتی اور یری زندگی میں، وعدہ کرو تم کبھی اداس نہ ہوگے۔۔۔میں نے گوتم سے پیار کیا۔۔۔ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔۔۔ گوتم نہیں رہے اور تم ہو۔۔۔ ایک کے نہ ہونے اور دوسرے کے ہونے کے بیچ تمہاری دیدی کھڑی ہے۔۔۔ سب دکھ اور ساری اداسیاں تمہاری دیدی جھیل چکی ہے، جھیل سکتی ہے۔۔۔گوتم نے مجھ سے پیار کیا، بھرپور، اٹوٹ۔ نہ وہ کبھی اداس ہوئے، نہ مجھے کبھی اداس ہونے دیا۔۔۔ میں جانتی ہوں، تم مجھ سے پیار کرتے ہو، بھرپور، اٹوٹ۔ تم کبھی نہ چاہوگے کہ میں اداس ہو جاؤں، لیکن راجو، جب تم میری زندگی میں آئے یا جب میں نے جانا کہ میں تمہیں اپنی زندگی میں لے آئی ہوں، اس سے ایک زمانہ پہلے میں اداسی کے ساگر میں ڈوب چکی تھی۔‘
اس کی آوازمیں وہ سنجیدگی اور گہرائی تھی جو سچ کا روپ اور روشنی ہوتی ہے۔
’گوتم کہا کرتے تھے کہ پیار، تعلیم اور تربیت بھی تو ہے۔۔راجو، اسی ناتے میں تمہیں اپنے بیتے دنوں کے بارے میں بتارہی ہوں۔۔جب تم میری زندگی میں آئے، تم چھوٹے سے بچے تھے اور میں تھی ایک جوان عورت۔۔۔ گوتم جب میری زندگی میں آئے، وہ ایک منجھے ہوئے آدمی تھے اور میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا۔ان دنوں میں چڑیا کی طرح اڑا کرتی تھی اور گلہری کی طرح پھدکا کرتی تھی۔ گوتم نے مجھے اتنا پیار کیا، خود میرے اندر چھپی ہوئی چاہتوں کے اتنے بھید کھولے کہ میں اڑنا بھول گئی۔پھدکنا مجھے یاد نہ رہا۔بس آنند کی انجانی سیمائیں تھیں اور گہری سوچ۔۔۔ راجو، آج میں جو کچھ بھی ہوں، سب گوتم کی گہری سوچ کا نتیجہ ہے۔۔۔ زندگی ایک پیار بھی اور ایک مقصد بھی۔۔اب یہی دیکھو، ڈاکٹر صاحب سب کچھ جانتے تھے اور خوش تھے، اس لیے کہ ہم نے نہ کبھی کچھ چھپانے کی کوشش کی اور نہ کبھی جھوٹ بولا۔۔‘ سچ کہتا ہوں، اس کا ایک ایک لفظ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
’ہم شادی کرسکتے تھے لیکن نہ کبھی ہم نے سوچا، نہ کبھی دھیان ہی آیا۔ پھر زندگی بھی تو ابھی پوری باقی تھی۔۔۔ کیوں راجو، زندگی ابھی پوری باقی ہے نا!‘
میں نے دھیرے سے کہا۔ ’دیدی، زندگی کتنی باقی ہے، یہ تو میں نہیں جانتا، ہاں یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ آپ کے بنا میری زندگی کا کچھ مطلب نہیں۔‘
اس نے کہا۔ ’یہ تو ہوا پیار، پر زندگی مقصد بھی تو ہے!‘
میں نے جواب دیا۔ ’دیدی، میں جی جان سے کوشش کروں گا کہ آپ مجھ سے کبھی مایوس نہ ہوں۔‘
اس نے پوچھا۔ ’اور اگر میں نہ رہی تو؟‘
میں تقریباً چلا اٹھا۔ ’دیدی۔۔۔’
ٰ
وہ بےرحمی سے بولی۔ ’تمہیں جواب دینا پڑےگا۔‘
میں نے بڑے ضبط کے ساتھ کہا۔ ’آپ ہر پل میری یادوں میں رہیں گی اور میں اپنا وعدہ کبھی نہ بھولوں گا۔‘
اس نے ایک دم مجھے اپنے بازوؤں میں بھر لیا اور بےتحاشہ میرا ماتھا چومنے لگی۔
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’دیدی، وہ حادثہ کب ہوا تھا؟‘
اس نے ایک نظر مجھے دیکھا او رکہا۔ ’ابھی انکل جنگ پر نہیں گئے تھے اور تم ہمارے یہاں نہیں آئے تھے۔ راجو، انکل کو گوتم کی موت سے بہت صدمہ پہنچا تھا۔ وہ ہر شام یہاں آتے، گھنٹوں میرے پاس بیٹھتے، میرا غم بانٹتے۔۔۔ پھر انہیں جنگ پر جانا پڑا اور۔۔۔‘ اس نے میری طرف دیکھا۔ اس نے پہلی بار میرے والد کا ذکر کیا تھا۔ ’کبھی کبھی میرے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ مرتے وقت انکل کیا سوچ رہے تھے؟‘
میں نے کہا۔ ’وہ یکدم ہلاک ہوگئے تھے۔ انہیں کچھ سوچنے کا موقع کہاں ملا تھا؟‘
اس نے کہا۔ ’گوتم کو بھی سوچنے کا کوئی موقعہ نہ مل سکا!‘
میں چپ رہا۔
یکایک اس نے کہا۔ ’راجو تم نے یہ کویں نہیں پوچھا کہ میں نے تم سے ہی کیوں پیار کیا؟‘
میں کیا پوچھتا۔یہ کیا کم تھا کہ وہ مجھ سے پیار کرتی ہے۔۔۔ میں چپ رہا۔اس نے کہا۔ ’جب انکل ہلاک ہو گئے تو میں نے جانا کہ ہمارا دکھ سانجھا ہے۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ تمہارے اندر ایک گوتم چھپا ہے۔ بس مجھے تم سے پیار ہوگیا۔۔۔تم میرے گوتم ہو۔۔میں نے خود سے کہا تھا:’اس گوتم نے تمہیں سنوارا تھا، اس گوتم کو تم سنوارو!‘ اس کی آواز میں درد بھی تھا، سکون بھی تھا۔’راجو ،پیار میں کچھ چھپاتے نہیں اور میں کچھ چھپاؤں گی بھی نہیں۔۔۔ گوتم کے بعد تم ہو، جس نے میرے بدن کو چھوا ہے، چوما ہے، پیار کیا ہے۔۔۔ یہ میں ہی تھی جس نے تمہیں اپنے بدن کی راہ دکھائی۔۔۔ راجو تم مجھے بری عورت تو نہیں سمجھتے!
مجھ سے رہا نہ گیا۔۔۔ میں ذرا اونچی آواز میں کہہ بیٹھا۔ ’اگر آپ نے ایسی بات کہی تو میں جان دے دوں گا۔‘
اس ایک پل میں جانے کیا ہوا کہ اس کا ہاتھ اٹھا اور ایک ایسا بھرپور طمانچہ میرے منہ پر آن پڑا کہ میرے کان بجنے لگے۔ درد اور حیرت کے ملے جلے احساس کے ساتھ میں سنبھلا اور میں نے اس کی طرف دیکھا۔ ہماری نظریں ملیں تو اس نے آگے بڑھ کر میرا تمتمایا ہوا، چہرہ اپنے ہاتھوں کے کنول میں سمیٹ لیا۔
’کیسے نکلی یہ غلیظ بات تمہارے منہ سے؟ کیسے کہی یہ گھناؤنی بات تم نے؟‘ اس کی آواز ایک کمزور اور زخمی چیخ تھی۔
’مجھے معاف کر دو دیدی۔‘ میں اور کچھ نہ کہہ سکا۔
اپنے گرم ہونٹوں سے میرے گال چومنے کے بعد اس نے کہا۔’تم سچ مچ مجھے پیار کرتے ہو!‘ میں نے کہا۔’دیدی، جب آپ خود کو عورت کہتی ہیں، مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا، میں جانتا ہوں، آپ ایک عورت ہیں، میں یہ بھی جانتا ہوں، عورت کیا ہوتی ہے۔لیکن یہ لفظ ’عورت‘ آپ ر جچتا نہیں، سجتا نہیں۔یہ لفظ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ آپ اس لفظ سے بہت بڑی ہیں اور جب آپ خود کو بری عورت کہتی ہیں تو میرا سر گھوم جاتا ہے، مجھے کچھ ہو جاتا ہے۔۔۔ اس گھر میں کوئی عورت یا بری عورت نہیں رہتی۔ اس گھر میں میری دیدی رہتی ہے اور میں اپنی دیدی کے ساتھ رہتا ہوں۔یہی میرا گھر ہے، یہی میری زندگی ہے۔۔۔’ میری آنکھیں بھر آئیں۔
میرا چہرہ اس کے ہاتھوں کے کنول میں کانپ رہا تھا۔ آنکھوں کی روشنی آنسوؤں نے دھندلا دی تھی۔ میں اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگا۔ اس نے میرے بالوں کو اپنی انگلیوں میں الجھاتے ہوئے میرا چہرہ اپنے ابھاروں میں چھپا لیا۔ میں نے روتے روے کہا۔ ’دیدی مجھ سے کبھی الگ نہ ہونا، مجھے کبھی الگ نہ کرنا۔‘
اس نے اپنی بانہیں میرے گرد باندھتے ہوئے کہا۔: ’اس بندھن کو صرف ایک چیز توڑ سکتی ہے اور وہ ہے موت۔۔۔ موت سے لڑا جا سکتا ہے، پر اس پر ہمارا اختیار نہیں۔ہاں، ہمارا وقت ہمارے اختیار میں ہے۔۔۔ اٹھو، صبح سے ان کپڑوں میں یوں بیٹھے ہو جیسے ہمیں کہیں باہر جانا ہے۔۔۔ جاؤ اور کپڑے بدل کر آ جاؤ۔ انہیں کہتے ہوئے جانا کہ کھانا ہم اسی کمرے میں کھائیں گے۔‘
میں اٹھا، کچن میں جاکر کھانے کے بارے میں کہا، پھر اپنے کمرے میں پہنچ کر ملحقہ باتھ روم میں صابن مل مل کر اچھی طرح ہاتھ منہ دھویا۔ڈھیلا ڈھالا نائٹ سوٹ پہنا اور اس کے کمرے میں لوٹ آیا۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ منہ ہاتھ دھو چکی ہے۔ پانی کی بوندوں سے اس کی اوڑھنی اور بلاؤز کچھ کچھ بھیگے ہوئے تھے۔ وہ پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے سامنے چھوٹی سی میز پر کھانا چنا رکھا تھا۔ میں کرسی پر بیٹھنے کے بجائے اس کے ساتھ، اس سے جڑ کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔اس کی ہدایت کے مطابق بہت ہلکا سا کھانا تیار کیا گیا تھا۔ ٹماٹر کا سوپ، ٹوسٹ اور مکھن اور اوول ٹین۔
سنکے ہوئے ٹوسٹ پر مکھن لگاتے ہوئے اس نے کہا۔ ’صبح کھانا بہت لذیذ تھا۔۔۔ تمہیں اچھا کیوں نہ لگا؟‘
پہلے تو میں ذرا جھینپا، پھر میں نے کہہ دیا: ’بھیگے بدن اس لباس میں آپ اتنی اچھی لگ رہی تھیں کہ مجھے اور کچھ بھی اچھا نہ لگا۔‘
اس نے کہا۔ ’اور اب؟ لباس تو اب بھی وہی ہے۔ ہاں، میرا بدن بھیگا ہوا نہیں ہے۔‘
میں کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر، میں نے کہا۔ ’اچھی تو آپ اس وقت وقت بھی لگ رہی ہیں۔۔صبح اور اب رات میں فرق صرف اتنا ہے کہ میں دن بھر آپ کو اس لباس میں دیکھتا رہا ہوں۔‘
وہ مسکرانے لگی۔ ’تو تم باتیں بنانا سیکھ گئے ہو۔۔لیکن راجو، ابھی تو تم بیس برس کے بھی نہیں ہو!‘
میرے منہ سے نکلگیا۔ ’دیدی، آٖ مجھے تنگ کیوں کرتی ہیں؟‘
وہ ہنس پڑی۔
سچ کہتا ہوں، میں نے بڑی ہمت سے کہا۔ ’دیدی، آج رات چاہے سڈنی کارلٹن کی منڈی دھڑ سے الگ ہو جائے، پر میں سونے والا نہیں۔۔۔’
اس نے سوپ کی خالی پلیٹ ایک طرف کھسکاتے ہوئے کہا۔ ’یہ رتجگے کا ارادہ کس لیے؟‘
میں سچ مچ جھینپ گیا۔ اس نے جیسے پچکارا۔ ’جھینپتے کیوں ہو، صاف صاف کہو۔‘
میں چپ رہا۔
وہ بولی، سڈنی کارلٹن کی منڈی دھڑ سے الگ ہو جائے یا دھڑ پر تنی رہے، نیند تو آہی جائےگی۔‘
میں تیزی سے بول اٹھا۔ ’جب آئےگی، تب کی تب دیکھیں گے۔‘
ہم کھانے سے فارغ ہوچکے تھے۔ وہ اٹھی، اس نے میز اٹھا کر دیوار کے ساتھ رکھی اور پھر کرسی پر بیٹھ گئی۔۔میں پلنگ پر بیٹھا رہا اور اسے تکتا رہا۔
اس نے کہا۔ ’چلو مان لیا کہ تمہاری آنکھوں میں نیند نہیں ہے۔۔۔ اگر میں کہوں کہ مجھے نیند آ رہی ہے تو؟‘
میں جھٹ سے بولا۔ ’ایک تو آٖپ نے’ اگر ‘کہا ہے، دوسرے آپ کرسی پر نہ بیٹھتیں بلکہ پلنگ پر لیٹ جاتیں۔‘
اس نے کہا۔ ’یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا۔‘
میں نے سنجیدگی سے کہا۔ ’اگر آپ سونا چاہتی ہیں تو سوجائیں۔ میں آپ کو دیکھتا رہوں گا۔‘
’راجو، یہ بھی ہے چاہت کا ایک روپ۔‘ اس کی آواز بڑی گہری تھی۔میرے پاس بیٹھتے ہوئے اس نے کہا۔ ’راجو، چاہت کا یہ روپ برسوں میری زندگی کا انتظار بنا رہا۔ تم نیند میں گم ہوتے تھے اور میں چپ چاپ بیٹھی تمہیں دیکھتی رہتی تھی۔‘
وہ چپ چاپ میرے پاس بیٹھی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بیتے برس نمی صورت ابھر آئے تھے۔ میں جذبات بھری مدھم آواز میں بولا: آپ نے کہا تھا، ’تم جب کبھی آج کے دن کو دھیان میں لاؤ گے، تمہیں یہی محسوس ہوگا کہ تم نے آج کا دن گنوایا نہیں۔۔۔‘ دیدی ، میں سچ کہتا ہوں، آج کا دن میری زندگی کا یادگار دن ہے۔‘
اس کے ہونٹوں پر اور آنکھوں میں ایک مقناطیسی کشش تھی، جیسے آپ سے آپ کچھ ہوگیا ہو۔۔۔ میرے گال تھپتھپاتے ہوئے وہ بولی۔’میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ابھی پورا دن کہاں گزرا ہے‘ رات تو ابھی باقی ہے۔ ‘اس کی آواز مںے اک لپک تھی۔ ایک حسن بے پناہ، ایک بھرپور محبت، ایک یادگار دن کی امیدوں بھری رات۔کون جانے اور کسے خبر کہ میں اس کی بانہوں میں تھا یا وہ میری بانہوں میں تھی۔اس نے میرا ماتھا چوما، آنکھیں چومیں، کانوں کی لویں چومیں اور پھر ہونٹ چومے۔اس کے سلگتے ہونٹوں کا لمس جیسے پل پل رات کی گہرائی میں ڈوب جانے کا عمل ہو۔
میں نے اس کی اوڑھنی الگ کی۔
وہ ٹانگیں پھیلا کر، سر کے نیچے تکیا جما کر چت ہو گئی۔ پھر اس نے بانہیں اٹھائیں، ہاتھ باندھے سر کے نیچے دبالیے۔ ننگی اور گوری بانہوں کا وہ انداز، کہنیوں کے وہ موڑ، بغلوں کے وہ بھورے باغیچے، کھلے اور ڈھیلے بلاؤز میں آزاد پستان اور ان کی مغرور اٹھانیں۔۔۔ اس نے آنکھیں میچ لیں۔میں اپنے بدن میں دوڑتی سرسراہٹوں کے ساتھ اسے دیکھتا رہا۔
اس کے ہونٹوں میں ایک ہلکی سی جنبش پیدا ہوئی۔ ’مجھے چومو۔۔۔میرے ہونٹ۔‘
میں نے اپنے ہاتھوں میں اس کا چہرہ بھرا، جھکا اور اس کے کانپتے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔میں ان ہونٹوں کو چوم رہا تھا اور محسوس یہ ہو رہا تھا کہ وہ ہونٹ مجھے چوم رہے ہیں۔ میرے ہاتھ مجھ سے پوچھے بنا اس کے ابھاروں تک جاپہنچے تھے اور لگ یہ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سر کا بوجھ تکیے پر ڈال کر میرے ہاتھوں کو ان اٹھانوں تک لے گئے ہیں۔۔۔ میں بے تحاشہ اس کے ہونٹ کاٹنے لگا، اس کے پستان نوچنے لگا۔
’نہیں راجو، جلدی کا ہے کی، تیزی کیسی، وحشت اچھی نہیں۔۔میری چھاتیاں مت نوچو۔۔۔ دکھنے لگی ہیں۔۔۔ انہیں پیار سے چومو۔۔۔ یہ تم کب تک بیٹھے رہو گے۔۔۔ لیٹ جاؤ، پھیل جاؤ کہ تمہیں اوڑھ سکوں۔‘
اس سے پہلے کہ میں پھیل جاتا، اس سے پہلے کہ وہ مجھے اوڑھ لیتی، اس نے آنکھیں کھول دیں اور اٹھ بیٹھی۔’چاہت کی سیماؤں کا کوئی انت نہیں۔جب آنکھیں سننے لگیں، جب کان سونگھنے لگیں، جب ناک دیکھنے لگے، جب انگلیوں کے لمس اور زبان کے ذائقے میں کوئی فرق نہ رہے۔’ وہ بول تھے، لذتوں کے نشان تھے یا بارش کی نرم بوندیں جو وجود میں چھپی بےقراری کو جگاتی ہیں، تیز کردیتی ہیں۔ مجھے پتا بھی نہ چلا کہ میرے بدن پر کپڑوں لتوں جیسی چیزیں نام تک کو نہ رہی تھیں۔ ان ہاتھوں کا کرشمہ کس نے دیکھا، کس نے جانا۔یہ بھی ان ہاتھوں ہی کا کرشمہ تھا کہ اس کا اپنا بدن بھی کپڑوں کے برائے نام اور بےمعنی بندھن سے مکت ہو چکا تھا۔
اس نے مجھے اوڑھ لیا، میں نے اسے اوڑھ لیا۔
ہم، ہم نہ رہے۔
کون سا ہاتھ کس کا تھا: اس ہاتھ کی پہنچ کہاں تک تھی۔۔۔
کون سے ہونٹ کس کے تھے، ان ہونٹوں نے کہاں کہاں پڑاؤ ڈالا۔
کون سا انگ کب کھلا۔
کون سا رنگ کب بکھرا۔۔۔
ہڈیاں کب چیخیں، خون کب ابلا۔۔
’میں بہہ چکی ہوں، راجو، بہہ رہی ہوں۔۔۔پھوٹ پڑو راجو، پھوٹ بہو۔۔۔‘
سخت جامد وقت کے سیال اور شید بہاؤ میں ایسا اذیت ناک سکون تھا جو زندگی بھر ایک طلب بنا رہتا ہے اور جو مجھ غریب کے الفاظ کی پکڑ سے باہر ہے۔
اگر میں یہ کہوں کہ جب میری نیند کھلی، صبح ہو چکی تھی، تو غلط ہوگا۔ پھر غلط بیانی کا کوئی سبب بھی تو نہیں ہے۔سبب اگر ہو بھی، تب بھی غلط بیانی کبھی میری زندگی کا حصہ نہیں بن سکتی۔۔۔ دیدی سے میں نے کیا کچھ نہ سیکھا تھا۔
اس یادگار دن کی امیدوں بھری اس رات کو ابھی سکون اور آسودگی کے کتنے لمحے گزرے تھے، مجھے خبر نہیں۔رات کا کون سا پہر تھا، یہ بھی خبر نہیں۔کچھ خبر تھی تو بس اتنی کہ نرم و نازک ہونٹوں کا اک لمس، آنچ لیے اک بھیگی بھیگی سی تڑپ بن کر، پیشانی سے شروع ہوتا اور قیامتیں ڈھاتا ہوا جاگتے تکونے جنگل میں گوشت پوست کے خبردار باسیوں کو اپنا لیتا اور وہیں کا ہو جاتا۔ اس اپنائیت کو کیا کہوں۔ وہی تو تھی جس نے بہتی آگ کو بوند بوند سمیٹا۔ اشتعال اور سکون، سکون اور اشتعال کے ان لمحوں میں ایک اپنائیت اس کی تھی، میرے لیے اور ایک اپنا پن میرا تھا، اس کے لیے۔وہ تھی، میں تھا اور رات تھی اور ہم تینوں کی بیداری۔
رات کی رخصتی کے وقت میں اس کے ابھاروں کے بیچ چہرہ چھپائے گم تھا اور وہ میرے سر کو اپنے ہاتھوں میں باندھے چپ تھی۔۔۔ میری گمشدگی اور اس کی چپ، محبت اور چاہت، سکھ اور چین کی گواہ تھی۔
’اٹھو راجو، کپڑے پہن لو۔اپنے کمرے میں جا کر تھوڑا سا آرام کر لو۔۔۔ کالج بھی تو جانا ہے۔‘ اس کی آواز میں پیار اور ٹھہراؤ کی کیفیت تھی۔چھٹی کا وہ ایک دن، اس دن کا تفصیل سے ذکر۔۔۔ آپ پوچھ سکتے ہیں، اس کا مطلب کیا ہے؟ مطلب صرف اتنا ہے کہ اس ایک دن کی دلنشیں طوالت اگلے دس برسوں کی حسین ترین پہچان ہے۔
ذہانت، رہنمائی اور بلا کی سپردگی۔۔۔ یہ تو تھی دیدی۔
جستجو، آرزو اور شدید طلب۔۔۔ اور یہ تھا میں۔
دیدی کا کہنا تھا کہ بیس کی عمر سے پہلے ہی میں پریم لیلا کا شدید اداکار بن گیا تھا اور پچیس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تو میں نے خود کو کہیں بہتر اداکار ثابت کر ڈالا تھا۔
وہ ہنس کر کہتی۔ ’کیتھرین غلط ثابت ہوئی!‘
میں جھینپ جاتا۔ ’جیت تو آپ کی ہوئی ہے!‘
دیدی دن بدن نکھرتی گئی۔۔۔اسے کتنی محنت کرنی پڑتی تھی، خود کو بنائے رکھنے میں عمر کے فاصلے کو کم کرنے میں۔پھر اسپتال کی ذمہ داریاں اور اس کی لگن، بس حیرت ہوتی ہے۔
میں بھی دھیرے دھیرے، قدم قدم بڑھتا چلا گیا۔۔۔ کالج اور یونیورسٹی سے، امتحان در امتحان، ایک بڑی فرم کی ایک اہم کرسی تک۔
دیدی کہتی: ’تم نے آج میری لاج رکھ لی۔‘
میں کہتا۔ ’آپ تو میری زندگی ہیں۔‘
ڈاکٹر کھرے، جو تھے، وہی رہے۔ ہاں، ان کے چہرے پر جو ایک بےرخی، ایک تناؤ رہتا تھا، وہ نہ رہا تھا۔ ان کے چہرے پر ایک اطمینان اور ایک نرمی نظر آنے لگی۔وہ سکھی تھے۔ بس اتنا کہنا کافی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا، دیدی نے کہا تھا کہ ہماری مٹھی میں تو پوری زندگی ہے۔جی ہاں ’پوری زندگی‘ میں دیدی نے جو کچھ بھی مجھ سے کہا، میرے دھیان میں ہے۔ اگر لکھنے بیٹھ جاؤں تو سینکڑوں پنے لکھ ڈالوں۔ اگر انہیں کتابی شکل دے دوں تو بڑے بڑے انعام یافتہ لیکھک شرم کے مارے زمین میں دھنس جائیں۔
دیدی کو پتا نہیں تھا کہ ’پوری زندگی‘ کی عمر کتنی ہے لیکن اس نے کئی بار الگ الگ لفظوں میں، الگ الگ حوالوں سے کہا تھا۔ ’راجو میرے بچے، لوگ جنم جنم کے ساتھ کی بات کرتے ہیں۔ پچھلا جنم، یہ جنم، اگلا جنم۔ یاد ریکھنا، بھولنا مت کہ پچھلے جنم میں تم میرے ساتھ نہیں تھے اور اگلے جنم میں تم میرے ساتھ نہیں ہوگے، اس لیے کہ نہ کوئی پچھلا جنم تھا اور نہ کوئی اگلا جنم ہوگا۔ صدیوں پرانے اس آڈمبر میں یہ جو آج ہے، یہ زندگی جو ہم جی رہے ہیں، بس یہی سچ ہے اور یہی حقیقت ہے۔‘ ہم نے واہموں سے الگ ہٹ کر، حقیقت کے حسن میں ڈوب کر زندگی گزار دی۔ آج دیدی نہیں ہے اور میں ہوں۔ میں ہوں اور میری یادیں ہیں۔ دیدی میری یادوں میں زندہ ہے۔ آنے والا کوئی کل مجھے نہ دیکھےگا۔ تب نہ میں رہوں گا، نہ میری یادیں رہیں گی، نہ دیدی رہےگی۔ حقیقت، سچ اور حسن کی زندگی بس اتنی ہے۔ دیدی ابھی چالیس کی بھی نہیں تھی، میں ابھی تیس کا بھی نہیں تھا۔۔۔ وہ بلا کی حسین اور جوان تھی اور میری چاہتیں کہیں زیادہ گہری ہو چکی تھیں۔۔۔ ایک صبح، رات بھر دو جسموں کے ایک بنے رہنے کے بعد، میں نے جھینپتے ہوئے کہا۔’ دیدی، کچھ تو زندگی کا کام کاج اور کچھ یہ وقتی تھکن مجھے آپ سے الگ کر دیتی ہے ورنہ۔۔۔ سچ کہتا ہوں، آپ بہت خوبصورت ہیں اور میں پل بھر کے لیے بھی آپ سے الگ نہیں ہونا چاہتا، لیکن۔۔۔ لیکن دیدی، آج آپ کچھ زیادہ ہی پیلی نظر آ رہی ہیں۔‘
اس نے میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرتے ہوئے مجھے محبت بھری نظروں کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔ ’میرے ڈاکٹر، آج کیا آفس نہیں جاؤگے؟‘
میں نے کہا۔ ’آپ ہی بتائیے، میں نے کبھی کوئی چھٹی لی ہے۔؟‘
وہ بولی۔’نہیں چھٹی تو کبھی نہیں لی لیکن۔۔۔راجو، آج میرا ڈے آف ہے۔‘
میں فوراً بول اٹھا۔ ’تو آج میں آفس نہیں جاؤں گا۔۔۔ اور آپ مجھے روکیں گی نہیں۔‘
وہ ہنس پڑی۔ ’پر تم تھکے ہوئے ہو!‘
میرا چہرہ اس کے ہاتھوں کی گرفت میں تھا اور وہ مجھے محبت بھری نظروں کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ میں نے یک لخت، قدرے تیزی اور سختی سے، اس کی گرفت توڑ ڈالی۔ پھر میں بڑی شدت سے اس کے ہونٹ چومنے لگا، کاٹنے لگا۔ میرے ہاتھ اس کے پستان نوچنے لگے۔وہ ’راجو راجو‘ پکارتی رہی، پر میرے ہاتھوں نے سننے سے انکار کردیا۔میرے انہی بہرے ہاتھوں نے، اک جنون کے عالم میں اس کی ٹانگیں جیسے پھاڑ ڈالیں اور میں اس کے بدن میں پوری طاقت سے بغیر اجازت داخل ہو گیا۔ ایک میں تھا، ایک وحشت تھی اور ایک تھا فتور۔ جب میرے ہوش و حواس درست ہوئے، میں نے دیکھا، بےچارگی کی اک عریاں اور پیلی پیلی مورت میرے بوجھ تلے دبی پڑی ہے اور رو رہی ہے۔ وہ رو رہی تھی اور اس کے ہاتھ میرا چہرہ سہلا رہے تھے۔ میں رونے لگا، سچ مچ رونے لگا۔ اس قدر رویا کہ اس کے آنسو تھم گئے، راجو، میرے بچے، چپ ہوجاؤ۔۔مجھے معاف کر دو، معاف کر دو۔‘
میں بمشکل کہہ سکا۔ ’دیدی، کیوں میرا جرم اپنے سر لیتی ہیں آپ!‘
’نہیں راجو نہیں۔۔۔ تم نے کوئی جرم نہیں کیا۔۔۔ مجھے معاف کر دو، میں تمہارا ساتھ نہ دے سکی۔‘
میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔۔۔ میں کانپنے لگا۔
وہ مجھے پڑھ لیتی تھی، اس نے مجھے پڑھ لیا۔ ’کچھ نہیں راجو، بس ذرا سی deficiency of iron۔۔۔‘
’دیدی۔۔۔‘ میں نے کبھی اپنی آواز میں اتنا درد محسوس نہیں کیا تھا۔۔۔ میں نے خود سے خاموش آواز میں پوچھا۔ ’کیا مہذب سماج میں تم سا وحشی کبھی ہوا ہے؟’
اس نے پھر مجھے پڑھ لیا۔’نہیں راجو نہیں۔۔۔‘ وہ بڑے زوروں سے رونے لگی۔
رونے کی آواز کے دوران اک ذرا سا کھٹکا ہوا۔۔۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا، پردہ اٹھائے ڈاکٹر کھرے دروازے میں کھڑے ہیں۔۔۔ سٹیتھو سکوپ ان کے بدن سے چپکا ہوا تھا۔
میں نے دیدی کے ننگے بدن پر چادر ڈال دی اور منہ موڑ کر جلدی سے نائٹ سوٹ پہن لیا۔ڈاکٹر کھرے پلنگ کے قریب آئے۔کچھ دیر وہ دیدی کو گھورا کیے۔ پھر انہوں نے جھک کر دیدی کی آنکھیں دیکھیں دیکھیں، انگلیاں اور ناخن دیکھے۔ انہوں نے دیدی کا ماتھا چومنے کے بعد میرا ماتھا چوما، پھر میرا ماتھا چوما، پھر دیدی سے قدرے اونچی آواز میں صرف اتنا کہا۔ ’کیوں بیمار ہو تم؟‘ اس گھر میں کوئی بیمار کیوں؟ وہ کمرے میں نہ رکے، بس چلے گئے۔
’اس گھر میں کوئی بیمار کیوں؟‘
میری آنکھیں بھر آئیں۔ دیدی رو رہی تھی۔ کون جانے، کسی اور کمرے میں ڈاکٹر کھرے کی آنکھیں نم تھیں یا نہیں۔ ہاں، ان لفظوں کی سسکیاں دیدی کے کمرے میں دھڑک رہی تھیں۔میں دیدی کے ساتھ لپٹ گیا۔۔۔ جانے کب تک لپٹا رہا۔
اس دن میں نے پہلی چھٹی لی۔۔۔ پھر تو چھٹیوں کا ایسا جان لیوا سلسلہ شروع ہوا کہ دن دن نہ رہے اور راتیں، راتیں نہ رہیں۔وقت ایک عذاب بن گیا۔ دیدی ایک ڈاکٹر تھی۔ وہ کہا کرتی تھی موت سے لڑا تو جاسکتا ہے، پر اس پر ہمارا اختیار نہیں۔ جب دیدی دوسرے مریضوں کی موت سے لڑتے لڑتے خود مریض بن گئی تو اس کی اپنی موت سے لڑنا ڈاکٹر کھرے کی ذمہ داری بن گیا۔۔۔ ایک ہوشمند ڈاکٹر کی ذمے داری جو باپ کی ذمے داری سے بڑی تھی۔
deficiency of ironتھی یا severe anaemiaیا کچھ اور مصیبت، دیدی بستر ہی کی ہو کر رہ گئی۔۔۔اسپتال کا ایک کمرہ، دیدی کا کمرہ بن گیا۔وہ کمرہ، اس کمرے کی ایک کرسی، اس کمرے کے باہر طویل خاموش برآمدہ اور برآمدے میں پڑے بے جان بینچ میری زندگی بن گئے۔میں دیدی کی دائیں جانب کرسی پر بیٹھا رہتا اور اسے تکے جاتا۔نرم بستر پر سفید بےداغ چادر اس کا تھکا تھکا سا گورا زرد بدن اور بجھی بجھی سی آنکھیں۔ تھکی تھکی سی سانسیں اور اداس بانہیں، نازک ہونٹ کہ بے چارگی سے کانپتے ہوئے بھورکے دیے۔ پستان کہ حسرتوں کے پرندے۔۔۔ مجھے ایسا لگنے لگا کہ میری آنکھیں زرد ہو گئی ہیں۔جدھر دیکھتا، ہر شے زرد دکھائی دیتی۔ یہ میرے تب کے محسوسات ہیں۔ ان دنوں مجھے ان کے معنی بوجھل دھند میں لپٹے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔۔۔ آج بھی صورت کم و بیش وہی ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ کی نیلی رگ میں سوئی پیوست رہتی۔ کبھی نمکین پانی، کبھی گلوکوز اور کبھی خون، بوند بوند، اس کے جسم میں اترتا رہتا۔۔۔ جب اس کے جسم میں کافی مقدار میں خون اتر جاتا تو اس کے چہرے پر ہلکی سی سرخی پھیل جاتی۔ تب اس کی رگ میں سے سوئی نکال لی جاتی۔ مگر تیسرے چوتھے روز وہی عمل پھر شروع ہو جاتا۔ ایک گہری رات کی خاموشی میں اس نے کہا۔ ’کبھی کبھی وقت کا نام بدل جاتا ہے۔ گولیاں، کیپسول، انجکشن اور نہ جانے کیا کیا وقت کی پہچان بن جاتے ہیں۔۔۔ میرے اچھے راجو، آج میرے بدن میں سرخی کی ہلکی سی حرارت برقرار ہے۔۔۔ مجھے چوم لو، آج مجھے چوم لو۔۔۔‘
صبح ہونے سے پہلے، پرندوں کے جاگنے سے پہلے، دیدی مر گئی۔
مجھے ٹھیک سے پتا نہیں کہ ڈاکٹر کھرے کے نزدیک دیدی کی موت ایک مریض کی موت تھی یا بیٹی کی موت۔۔انہوں نے لاش کا ماتھا چومنے کے بعد، لاش کا منہ چادر سے ڈھک دیا۔میرے قریب آکر انہوں نے میرا ماتھا قدرے زور سے دبایا اور بنا کچھ کہے دوسرے مریضوں کو دیکھنے چلے گئے۔ شام ہونے سے پہلے پہلے ہم نے اس خوبصورت جسم کو، جسے پچھلی ہی رات میں نے چوما تھا، پھونک ڈالا۔۔ آسمان کی جانب لپکتی وہ سنہری لپٹیں سدا کے لیے میری آنکھوں میں بس گئیں۔
دیدی کو رخصت ہوئے کئی برس ہوچکے ہیں اور میں کئی برسوں سے دیدی کے کمرے میں رہتا ہوں۔۔۔ دن بھر کام کاج کرتا ہوں۔ نہ کبھی تھکتا ہوں، نہ کبھی بیمار ہوتا ہوں۔ فرصت کے کربناک لمحوں میں دوستوں کے ساتھ بےمقصد گفتگو کرتا ہوں۔۔۔ شب و روز کا یہ اکتا دینے والا سلسلہ اک جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس روز ایک جانی پہچانی صورت نے، جسے سب لوگ سیما کے نام سے پکارتے ہیں اور جسے میں نے کبھی دوست بھی نہیں کہا، محبت کا اظہار کیا تو میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔ وہ پھٹ پڑی۔ ’تم ایک بیمار آدمی ہو۔۔۔ ایک مریض۔۔۔ ایک لاعلاج مرض کے مارے ہوئے۔۔۔‘
میں چپ رہا۔
وہ قدم پٹختی ہوئی چلی تو مجھے محسوس ہوا، میں نے انجانے میں اسے بہت دکھ دیا ہے۔میں نے سوچا، چند ننگے بچے جملے لکھ کر ایک صحت مند لڑکی کو سمجھا دوں کہ مجھ سا بیمار شخص اسے کبھی کوئی سکھ نہیں دے سکتا۔ بس چند جملوں پر مشتمل چھوٹا سا خط پوسٹ کرنے کے ارادے سے بے دھیانی میں سڑک کراس کر رہا تھا کہ دائیں جانب سے بس آن دھمکی۔ اس ایک پل میں میرے دھیان میں بس اتنی سی بات آئی، قصہ تمام سمجھو، قصہ ختم کر دو۔ جب مجھے ہوش آیا، میں نے دیکھا، میں اسپتال میں پڑا ہوں اور ڈاکٹر کھرے مجھ پر جھکے ہوئے ہیں۔۔۔ آپ مجھ پر خودکشی کی ناکام کوشش، عدالت کی توہین اور فحاشی کے الزام مںے مقدمہ چلا سکتے ہیں۔
بیان کہیے، کہانی کہیے یا واردات، اسے میرے دوست راج نے لکھا تھا۔
کوئی آٹھ مہینے پہلے ایک رات دس بجے کے قریب مجھے اطلاع ملی کہ راج ایک حادثے میں بری طرح زخمی ہو گیا ہے اور نازک حالت میں اسپتال میں پڑا ہے۔ میں فوراً اسپتال پہنچا۔۔اسے اس بری حالت میں دیکھ کر اک چوٹ تو دل پر لگی ہی، یہ جان کر حیرت بھی ہوئی کہ وہ حادثہ ایک اتفاق نہیں، خودکشی کی کوشش تھی اور تعزیرات ہند کے مطابق یہ ایک جرم ہے۔۔۔ راج حراست میں زیر علاج تھا۔ میں نے پولیس کی فائل میں راج کا ایک خط پڑھا جو سیما کے نام تھا۔
سیما، جب دو جنے دل و جان سے ایک دوسرے میں ڈوب جاتے ہیں تو ایک تعلق جنم لیتا ہے جسے دل والے ’زندگی‘ کہتے ہیں۔۔۔ اب ’زندگی‘ میرے بس میں نہیں۔ نادان لڑکی۔۔۔ میرے ساتھ عمر بتانے کا ’مطلب ہے، تنہائی میں پل پل مرنا۔۔۔ تمہارا دم گھٹ جائےگا۔ موج سراب کو موج نہیں کہتے۔ پھر میرا کیا ہے، کیا خبر۔۔۔ لاعلاج مرض کا مارا جانے کب خودکشی کر لے۔کل، آج، ابھی!‘
جب بہت دن کے بعد وہ اس قابل ہوا اور اسے اجازت ملی کہ وہ تھوڑی بہت گفتگو کر سکتا ہے تو میں نے بڑی وحشیانہ صاف گوئی کے ساتھ اس سے پوچھا۔ ’یہ تمہیں خودکشی کرنے کی کیا سوجھی؟‘
اس نے تیکھے لہجے اور قدرے اوچی آواز میں کہا۔ ’کیا بکتے ہو؟‘
میں چونکا، سنبھلا اور میں نے کہا۔ ’راج، اتنی تیزی، اچھی نہیں۔ تمہاری جان ابھی خطروں میں بری طرح پھنسی پڑی ہے۔۔۔ کیا تمہیں ڈاکٹر کھرے نے کچھ نہیں بتایا،‘
وہ بہت دیر تک چپ رہا۔میں اسے دیکھتا رہا۔۔۔ پھر اس نے بڑے اطمینان سے بڑی نحیف آواز میں اپنی بات کہی۔ ’تعجب ہے، تم ڈاکٹر کھرے کو اب تک سمجھ نہیں پائے۔۔۔ ان کا بنیادی سروکار، موت اور موت سے جنگ لڑنا ہے۔۔۔ میں ان کا راجو نہیں، ان کا مریض ہوں، وہ یقیناً میری جان بچانے میں مصروف ہوں گے۔۔۔ انہیں زندگی کے دیگر مسائل کا اتا پتا تو ہے، پر ان کی دلچسپی واجبی سی ہے۔۔۔ تم بتاؤ، چکر کیا ہے؟‘
اب میں اسے کیا بتاتا کہ چکر کیا ہے، بڑی مشکل سے اپنی الجھن دور کر سکا۔۔۔ میں نے دھیمی آواز میں، کم سے کم الفاظ استعمال کرتے ہوئے، حادثے اور خط کا ذکر کیا۔۔۔ یہاں میں یہ کہنا ضرور چاہوں گا کہ اس کا خط، اسے ایمبولینس میں ڈالنے کے بعد، پولیس کو جہازی بس کے پچھلے پہیوں کے نیچے دبا پڑا نظر آیا تھا۔ میری بات سن کر جیسے وہ زمانوں تک چپ رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’کبھی کبھی اتفاق انسانی شعور کا کرشمہ بن جاتا ہے، مگر عام طور پر اتفاق انسانی تجربے میں عذاب کے علاوہ اور کچھ بن نہیں پاتا۔۔۔ یہ سچ ہے کہ میں نے ایک قیمتی جان کو مار ڈالنا چاہا۔۔۔ ناکام کوشش کے عذاب کے ساتھ ساتھ میں وہ سزا بھی بھگتوں گا جو قانونی طور پر میرے پلے باندھی جائےگی۔‘
میں آس پاس بھول گیا، در و دیوار بھول گیا۔ یہ بھول گیا کہ کہاں بیٹھا ہوں اور کیوں بیٹھا ہوں۔۔میں نے بڑی غصیلی آواز میں کہا۔ ’یہ کیا بےہودگی ہے؟‘
اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ’بےہودگی صرف اتنی ہے کہ میں نے خودکشی کی کوشش کی۔۔۔ میں عدالت میں ایک بیان دینا چاہوں گا کہ عدالت ایک فرد کو مجرم ٹھہرانے سے پہلے اچھی طرح جان تو لے!‘
اس کی ذہنی اور جسمانی حالت نازک تھی، پھر بھی وہ کئی دنوں تک دھیرے دھیرے بیان لکھنے کے جان لیوا عمل میں مصروف رہا۔ابھی اس کا بیان مکمل نہیں ہوا تھا جب میں اسے شام کو نسبتاً بہتر حالت میں چھوڑ کر گیا۔
آدھی رات کے وقت مجھے اطلاع ملی کہ اس کی موت ہو گئی ہے۔
وہ مرنے سے پہلے اپنا بیان مکمل کر چکا تھا۔
راج کی زندگی کے واقعات کو ’انسانی تماشا‘ کہا جاسکتا ہے۔
کوئی نہیں یہ جانتا کہ اس کا بیان پولیس کی فائل سے کیسے باہر نکلا، کس نے اس بیان کی نقلیں تیار کیں، کیوں کرو، نقلیں ہمارے شہر کے پڑھے لکھے لوگوں تک پہنچیں!
آج حالت یہ ہے کہ لڑکیاں اس بیان کو سہیلیوں میں بانٹتی ہیں، نوجوان اسے بار بار پڑھتے ہیں اور شہر کے معزز لوگ اس کا ذکر سنتے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.