Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جستجو کیا ہے۔۔۔

شہناز پروین

جستجو کیا ہے۔۔۔

شہناز پروین

MORE BYشہناز پروین

    وہ مجھ سے اکثر ایک عجیب سا سوال کر بیٹھتیں۔’’تم دونوں ایک ہی کمرے میں ایک ہی بستر پر سوتے ہو نا؟‘‘ ان کے بار بار کے اس بھونڈے سوال سے میں گھبرا جاتی، مجھے کبھی غصہ اور خوف آتا اور کبھی وسوسہ اور گھبراہٹ، لیکن ان کے لہجے میں اتنی اپنائیت ہوتی کہ شدید غصے کے باوجود میں اس کا اظہار نہیں کر سکتی اور اللہ سے دعائیں مانگتی کہ وہ ہمیں نظر بد سے بچائے۔

    وہ مجھ سے یہ بھی کہتیں کہ ’’عادت ڈال لو الگ کمرے کی ورنہ بعد میں وہ کمرہ تمھارے لیے سوہان روح بن جائے گا۔‘‘ میں ان کی طرف بے بسی سے دیکھتی تو کہتیں،

    ’’جانتی ہو جب سے تمھارے حسن بھائی گئے ہیں ،مجھے اس بستر اور اس کمرے سے کچھ ہوتا ہے، ساری ساری رات جاگتے گزر جاتی ہے، تم تو جانتی ہو مجھے اپنے کمرے کے علاوہ کسی دوسری جگہ نیند بھی نہیں آتی، پہلے ہی کمرہ الگ کر لیتی تو۔۔۔‘‘

    اب میری سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ تازہ تازہ زخم ہے، بھرتے بھرتے بھرےگا، بیچاری یک دم سے تنہا ہو جانے کے بعد شدید تنہائی کا شکار ہو گئی ہیں اور حسن بھائی کی کمی کو پوری طرح محسوس کر رہی ہیں، حالانکہ ان کے دونوں بیٹوں اور بہووں نے ان کا بہت خیال رکھا تھا اور وہ انھیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے تھے، انھوں نے اپنے ابو کی زندگی ہی میں دونوں کے لیے گرین کارڈ بھی حاصل کر لیا تھا اس لیے ساتھ جانے میں کوئی دشواری بھی نہیں تھی مگر وہ بضد تھیں کہ عدت پوری کیے بغیر کہیں نہیں جائیں گی۔ بچے پریشان تھے وہ اپنی ماں کو تنہا چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے، انھیں ڈر تھا کہ وہ بیمار ہوئیں تو انھیں دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا، مجھ سے کہنے لگے۔

    ’’آنٹی آپ سمجھائیں نا انھیں ،خدا نہ کرے دن یا رات کے کسی حصّے میں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا، ویسے بھی یہ دل کی مریضہ ہیں۔۔۔‘‘

    ہم سب سمجھا کر تھک گئے مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہیں، آخر چھوٹے بیٹے نے اپنی بیوی ماریہ کے ٹکٹ کو چہلم تک کے لیے آگے بڑھا دیا اور دس د نوں کے بعد دونوں بھائیوں کو با دل ناخواستہ جانا پڑا۔ اس درمیان بہو نے ان کا مختصر سامان سمیٹنا شروع کر دیا تاکہ عدت کے بعد وہ آئیں تو انھیں خود کسی قسم کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔

    عدت کے بعد بچوں کی ضد سے مجبور ہوکر وہ امریکا چلی تو گئیں مگر اپنا دل اور اپنی روح کراچی میں چھوڑ گئیں۔ ان کا دل کبھی بوہری بازار کی گلیوں میں دھڑکتا تو کبھی کلفٹن کی سیر گاہوں اور شاپنگ مال میں بھٹکتا رہتا، امریکا کے بڑے بڑے شاپنگ مال اور کھانے پینے کی جگہوں سے جب وہ اپنے شہر کراچی یا لاہور میں واقع اپنے میکے کے توسط سے انارکلی اور فوڈ کورٹ کا موازنہ کرتیں تو بچوں کو بہت ہنسی آتی مگر وہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے، انھیں نہ وہاں کے گوشت میں پاکستان کا ذائقہ ملتا نہ پھلوں میں مٹھاس محسوس ہوتی، خیر یہ بات تو سچ تھی کہ وہاں کے پھل بظاہر بہت خوش رنگ اور بڑے بڑے ہوتے تھے مگر ان میں پاکستان کے پھلوں کی سی مٹھاس نہیں ہوتی تھی۔ ہر آنے جانے والے سے اپنے ملک پاکستان کی باتیں اس انداز میں کرتیں کہ بچوں کے گورے دوستوں کو بھی پاکستان سے پیار ہو جاتا، وہ کہتیں۔

    ’’اگلے سال آموں کے موسم میں جب میں پاکستان جاؤں تو تھوڑے دنوں کے لیے تم بھی آکر دیکھنا، کتنا پیارا ہے ہمارا پاکستان۔۔۔‘‘

    ’’گورے نوجوان ہنستے اور کہتے۔ ’’نو، آنٹی وی ڈونٹ وانٹ ٹو ڈائی سو ینگ۔۔۔ وہ ان سے کہتے کہ وہاں تو terrorist رہتے ہیں، آپ بھی نہ جائیں ورنہ وہ آپ کو مار دیں گے۔

    وہ اچھے دنوں کو یاد کرتیں اور ان یادوں سے اپنا دل بہلاتیں، جب وہ پاکستان جانے کی بات کرتیں تو ان کے ملنے جلنے والے کہتے، ’’پاکستان میں اب کون ہے آپ کا، ویسے بھی ان دنوں وہاں حالات اتنے خراب ہیں کہ اچھے بھلے بسے بسائے لوگ مختلف ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں، ماؤں کی سب سے بڑی دولت تو ان کی اولاد ہوتی ہے اورآپ خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے آپ کو اتنی سعادت منداولاد عطا کی ہے، آپ کے بچے تو مثالی ہیں، خصوصاً بہوئیں بھی قابلِ تعریف ہیں، آپ کی ہر چھوٹی بڑی خواہش کا حترام کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کے کمرے کو بھی منی پاکستان بنا دیا ہے انھوں نے، ٹی۔وی۔ پر بھی سارے پاکستانی چینل لگوا دیے ہیں۔۔۔‘‘

    اب وہ سب کو کیا بتاتیں کہ پاکستان میں ان کا بچپن اور جوانی کی خوش گوار یادیں قدم قدم پر بچھی ہیں، راہ چلتے وہ بتاتیں یہ میرا اسکول تھا، یہ میرا کالج تھا، میں اس یونیور سٹی میں پڑھتی تھی، یہ وہ سماعت گاہ تھی جہاں وہ آئے دن جایا کرتی تھیں، یہ وہ درخت ہے جس کے سائے تلے دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں ہوتی تھیں، یہ ریڈیو پاکستان کی وہ عمارت ہے جہاں وہ بزم طلبا میں شریک ہوتی تھیں اور کیسے کیسے لوگ ان کی ذہنی آبیاری کرتے تھے، یہ وہ ٹی وی اسٹیشن ہے جہاں وہ خبریں پڑھا کرتی تھیں لیکن امریکا کے کسی بھی اسٹیٹ سے ان کی کوئی یاد وابستہ نہیں تھی۔

    جب سے وائبر اور واٹس ایپ کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ مجھے کسی بھی وقت کال کر لیتیں، بعض اوقات میں الجھ بھی جاتی، وہ تو وہاں فارغ تھیں مگر مجھے یہاں بہت سے کام ہوتے، وہ فون پر پرانی یادوں کا سلسلہ چھیڑ دیتیں، زبان میں اتنی مٹھاس اور لہجے میں وہ حلاوت اور اپنائیت ہوتی کہ فون بند کرنا مشکل ہو جاتا۔ اس دن جب ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی چلی گئی تو میں نے نمبر دیکھ کر بہت دیر تک تو نہیں اٹھایا کہ وہ جلدی پیچھا نہیں چھوڑتی تھیں، پھر جب اٹھایا تو چاہنے کے باوجود یہ نہ کہہ سکی کہ ابھی میں بہت مصروف ہوں، ایک گھنٹے بعد خود کال کر لوں گی۔ان کا دل بہلانے کی خاطر میں نے ان سے کہا:

    ’’بوہری بازار کا میمن دکان دار آپ کو بہت یاد کر رہا تھا، دونوں بھائی پوچھ رہے تھے آپ کب آئیں گی، وہ کھل اٹھیں۔

    ’’ان دونوں کو میرا بہت سلام کہنا، بڑا بھائی اسکول میں میرا کلاس فیلو تھا، دوسرا بھائی ہم سے چھوٹا تھا، میری ان سے پرانی دوستی ہے۔۔۔‘‘

    ’’جی جانتی ہوں پہلے بھی آپ بتا چکی ہیں اور جب میں آپ کے ساتھ اس دکان پر جاتی تھی تو وہ چائے اور ٹھنڈی مشروبات سے تواضع کرتا اور ہر چیز پر لکھی ہوئی قیمت سے بہت کم پیسے لیتا تھا۔‘‘

    ’’اچھا یہ بتاؤ چوپاٹی چاٹ والا ناصر بھی مجھے پوچھتا ہے؟‘‘ ان کے لہجے میں تازگی سی ہوتی،

    ’’جی ہم اسی کی دکان سے چاٹ کھاتے ہیں، آپ کو بہت پوچھتا ہے اور آپ کے نام پر اس سے بہت سی کھٹی میٹھی چٹنی بھی ڈلوا لیتے ہیں، وہ ہمارے گروپ کا خاص خیال رکھتا ہے۔‘‘ وہ خاموش ہو گئیں، میں سمجھی لائین کٹ گئی ہے مگر چند لمحوں کے بعد ان کی آواز جیسے بہت دور سے آنے لگی، وہ شاید رورہی تھیں، میں نے بھی اس وقت انھیں چھیڑ نا مناسب نہیں سمجھا اور خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔

    اس واقعے کے دو تین ہفتوں تک ان کا فون نہیں آیا میں نے بھی غنیمت جانا کہ کچھ کام کرنے کا موقع مل گیا لیکن یہ پریشانی بھی ہوئی کہ بیمار نہ ہوں، ڈرتے ڈرتے میں نے کال ملائی، فون اُنھوں نے ہی اٹھایا، ’’بڑی عمر ہوگی تمھاری، میں ابھی تم سے باتیں کرنے ہی آئی تھی، چند دنوں سے میری طبیعت بوجھل ہے، مجھے اپنا ملک خصوصاً کراچی شدت سے یاد آ رہا ہے، میں نے بچوں سے کہا ہے میری خواہش پوری کر دیں، مگروہ نہیں مانتے، کہتے ہیں ہم آپ کو خودکشی کرنے نہیں دیں گے، اس وقت نہ ہمیں چھٹی مل سکتی ہے نہ ہماری بیویوں کو، بچوں کے اسکول بھی کھلے ہیں، وہ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں کہ یہاں وہ مجھے آرام پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، پھر کیا تکلیف ہے، مجھے۔ میں تمھیں اسی لیے بار بار کہتی ہوں کہ وہاں تنہا رہنے کی ابھی سے عادت ڈال لو، ایک نہ ایک دن تو تم میں سے ایک کو جانا ہے، اس صورت میں ایک بیچارہ جو اکیلا رہ جاتا ہے اس کی زندگی عذاب بن جاتی ہے، بچے انھیں تنہا نہیں رہنے دیتے۔۔۔‘‘

    وہ ایسی تلخ حقیقت بیان کر رہی تھیں جو سب کو معلوم ہوتی ہے لیکن وقت سے پہلے ایسی فضول سوچوں کو انسان اپنے اوپر طاری کرلے تو لمحۂ موجود بھی بھیانک ہو جاتا ہے، کم از کم میں تو اس بات کی قائل ہوں کہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ ا س لیے میں نے تھوڑی دیر کے لیے فون کا ریسیور کانوں سے ہٹا دیا، گاہے گاہے کانوں سے لگاکر ہنکاری بھر لیتی اور یہ اندازہ بھی لگالیتی کہ وہ کسی اور موضوع پر آئی ہیں یا نہیں، وہ کہہ رہی تھیں:

    ’’میں اپنا یہ راز تمھیں سونپ رہی ہوں اور تم سے بہت ساری باتیں اس لیے کر رہی ہوں کہ تم میرا دکھ سمجھ سکتی ہو، کبھی کبھی میرا بالکل تنہا رہنے کو جی چاہتا ہے، اپنے کراچی والے کمرے میں آنکھیں بند کرکے عمر رفتہ کو آواز دینے کو دل چاہتا ہے، یہاں دامانِ خیال یار چھوٹا جاتا ہے، فون پر ان کی آواز مدھم ہوتی جا رہی تھیں، یہاں بچے اور ان کے دوست بہت پیار کرتے ہیں، احترام بھی کرتے ہیں مگر یہاں میرا اپنا آپ چھن گیاہے مجھ سے، یہاں کوئی مجھے میرے نام سے نہیں جانتا، مختلف رشتوں اور حوالوں سے پہچانی جاتی ہوں، مجھے لگتا ہے میں گم ہو گئی ہوں، اپنا آپ کھو چکی ہوں ،ان کی آواز ڈوبتی جا رہی تھی اور تخیل میں مجھے ان کی روح کی تنہائی اور درد میں ڈوبا ہوا سراپا بےبسی اور بیچارگی کی تصویر بنتا نظر آ رہا تھا، یکایک ان کی آواز ڈوب گئی۔

    میں انھیں آوازیں دیتی رہی، دل چاہا دوبارہ فون ملا لوں مگر مجھے بھی ایک شادی میں جانے کے لیے تیار ہونا تھا، سوچا واپس آکر ان کو دلاسہ دے دوں گی، ان کے یہاں تو اس وقت دن ہی ہوگا اور بچے اور پوتے پوتیاں بھی اپنی اپنی جگہوں سے واپس نہیں آئے ہوں گے مگر واپسی میں بہت دیر ہو گئی اور میں نے ان سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔

    تین دنوں کے بعد ان کے بڑے بیٹے کا فون آیا:

    ’’آنٹی امی فوت ہو گئی ہیں،جب میں واپس آیا تو ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور فون ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے گرا ہوا تھا، میں نے اور شازیہ نے بہت آوازیں دیں، پھر میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کی آنکھوں کو بند کیا، وہ ہمیں چھوڑ کر جا چکی تھیں۔‘‘ قبل اس کے کہ میں کچھ کہتی اس نے پھرکہا،ٖ ’’آخری نمبر جو انھوں نے ڈائل کیا تھا وہ آپ کا تھا، غالباً انھوں نے اس وقت آپ ہی سے باتیں کی تھیں۔ وہ بیمار تو نہیں تھیں نا؟ آپ سے کچھ کہا تھا کیا؟ پتا نہیں کیا ہو گیا تھا انھیں؟ آنٹی وہ ہم سے خوش تھیں نا؟‘‘

    وہ سوال پر سوال کیے جا رہا تھا، میں نے اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو بڑی مشکل سے روکا اور کہا:

    ’’بیٹا موت کا تو وقت مقرر ہوتا ہے، صبر کرو اور دعا کرو۔۔۔‘‘ میں اسے ان کی مجبوری، مہجوری اور گم شدہ وجود کے احساس کی داستان کیا سناتی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے