Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کاغذی پیراہن

شموئل احمد

کاغذی پیراہن

شموئل احمد

MORE BYشموئل احمد

    آمنہ جھنجھلا گئی۔

    بی بی جی نے پھر بہانہ بنایا تھا۔ اس بار ان کی چابی گم ہوگئی تھی اور آمنہ سے بن نہیں پڑا کہ پیسے کا تقاضا کرتی۔ وہ نامراد لوٹ گئی۔

    آمنہ کو یقین ہونے لگا کہ بی بی جی اس کے پیسے دینا نہیں چاہتیں۔ اس کو غصہ آ گیا۔. وہ کوئی بھیک تو نہیں مانگ رہی تھی۔۔۔؟اس کے اپنے پیسے تھے جوجوڑ جوڑ کر جمع کیے تھے۔۔۔ آخر کہاں رکھتی۔۔۔؟ ایک شبراتی تھا جو گھر کا کونا کھدرا سونگھتا پھرتا تھا۔ بی بی جی ہی تھیں جن پر بھروسا تھا۔ مہینے میں جو پگار ملتی ان کے ہاتھوں میں دے دیا کرتی۔اس کو ایک ہی بات کی دھن تھی۔ کسی طرح ببلو کو پڑھا سکتی۔ اس کی پڑھائی کے لیے ہی وہ اتنے پاپڑ بیل رہی تھی۔ اس کو دو چار گھروں میں کام کرنا پڑتا تھا۔۔۔ کہیں پونچھا لگاتی، کہیں جھاڑو برتن کرتی، کہیں کپڑے دھوتی، کہیں کھانا بناتی۔ اس کا وقت گھر گھر میں بٹا ہوا تھا۔ بی بی جی کے گھر کا کام بھی اس کو سنبھالنا پڑتا تھا لیکن وہاں سے پگار نہیں ملتی تھی۔ بدلے میں انہوں نے رہنے کے لیے گیرج دے دیا تھا جو اس کے لیے کسی فلیٹ سے کم نہیں تھا۔ گیرج کے عقب میں ایک غسل خانہ اور ایک چھوٹا سا احاطہ بھی تھا جو اس کے قبضے میں تھا۔

    آمنہ کے لٹخے زیادہ نہیں تھے۔ ایک پانچ سال کا ننھا ببلو تھا جس کو پڑھانے کے خواب وہ رات دن دیکھا کرتی تھی اور ایک نکھٹّو شوہر شبراتی جو محنت سے جی چراتا تھا۔ وہ بس بابو لوگوں کی جی حضوری میں رہتا۔ کبھی کبھی پرب تہوار میں چھوٹے موٹے دھندے کرلیتا جس سے اس کو دوچار پیسے مل جاتے۔ گھر کا خرچ تو آمنہ ہی چلاتی تھی۔

    شبراتی نکھٹّو تھا لیکن آمنہ کو دل و جان سے چاہتا تھا۔ اس کے پاس پیسے ہوتے تو آمنہ کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لاتا۔ کبھی پاؤڈر، کبھی چوڑی، کبھی بندی،کبھی گرم سموسے۔۔۔ اور آمنہ مسکراتی اور نخرے دکھاتی۔

    ’’کہاں سے لائے پیسے؟‘‘

    ’’کہیں چوری تو نہیں کی؟‘‘

    ’’میرے ہی پیسے تو نہیں اڑا لیے؟‘‘

    اور یہ لچھّن شبراتی میں تھے۔۔۔ آمنہ راشن کے ڈبوں میں کبھی کبھی پیسے رکھ دیتی۔ شبراتی کو بھنک ملتی تو اڑا لیتا۔

    شبراتی کو پینے کی تھوڑی بہت لت تھی۔ اس کی جیب خالی رہتی توآمنہ کی چاپلوسی پر اتر آتا۔

    ’’تو کتنا کام کرتی ہے۔۔۔؟میں تو ایک نکمّا ہوں۔‘‘

    ’’کیا بات ہے؟ بڑا مسکہ لگا رہا ہے؟‘‘ آمنہ مسکراتی۔

    ’’سچ مچ تو بہت اچھی ہے۔‘‘

    ’’کیا چاہیے؟‘‘ آمنہ کو ہنسی آ جاتی۔

    ’’ایک ضروری کام آ گیا ہے۔‘‘

    آمنہ خوب سمجھتی تھی کہ یہ ’’ضروری کام‘‘ کیا ہے؟وہ ہاتھ پھیلاتا اور آمنہ بہانے بناتی لیکن وہ اس طرح گھگھیانے لگتا کہ عاجز آکر کچھ نہ کچھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیتی۔

    شبراتی پی کر بہکتا نہیں تھا۔ وہ چپ ہو جاتا۔ ایک دم گم صم۔ ایسے میں وہ آمنہ کو بہت معصوم نظر آتا۔ ایک کونے میں بیٹھ کر آمنہ کو دیکھ دیکھ کر مسکراتا۔ وہ اس کی نگاہوں سے بچنے کی کوشش کرتی اور شبراتی کو جھڑکتی۔

    ’’تیرے منہہ سے باس آتی ہے۔‘‘

    ’’باس۔؟‘‘ کہاں۔؟ دیکھ منہہ میں الائچی ہے۔ وہ جیب سے الائچی نکال کر آمنہ کی ہتھیلی پر رکھ دیتا۔ آمنہ کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل جاتی۔ تب وہ سرگوشیاں سی کرتا۔

    ’’تو جان مارو لگ رہی ہے۔‘‘

    ’’چل ہٹ! آمنہ اس کو دور بٹھاتی۔

    اور وہ اس کی پشت پر آہستہ سے ہاتھ رکھ دیتا ۔’’تیرا بدن دبادوں۔؟‘‘

    آمنہ سہرن سی محسوس کرتی۔ شبراتی کے یہ چونچلے اس کو اچھے لگتے ۔ اس کو محسوس ہوتا جیسے وہ واقعی بہت تھکی ہوئی ہے۔ وہ ایک بہانے سے اپنے پاؤں پھیلاتی۔ شبراتی اس کی پنڈلیاں دباتا۔ پھر ہاتھ آگے بڑھنے لگتے۔۔۔

    اور آمنہ کی سانسیں غیر ہموار ہو جاتیں۔

    لیکن شبراتی ببلو کو پڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے کالونی میں دیکھا تھا افسروں کے لڑکے پڑھ لکھ کر نکمّے ہو گئے تھے۔ اس کو ڈر تھا کہ ببلو نے اگر پڑھ لیا تو گھر کا رہےگا نہ گھاٹ کا۔وہ اس کو مستری کے ساتھ لگانا چاہتا تھا۔ ہنر سیکھ لےگا تو بھوکوں نہیں مرےگا۔ لیکن آمنہ بہ ضد تھی کہ اس کو پڑھائے گی۔ وہ بھی ڈان باسکو اکاڈمی میں۔ وہ کالونی کے بچوں کی طرح ببلو کو بھی اسکول یونیفارم میں دیکھنا چاہتی تھی ۔ڈان باسکو، اس کے گیرج سے زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ ایک ٹیچر کے یہاں کام کرتی تھی۔ ٹیچر نے یقین دلایا تھا کہ داخلہ ہو جائےگا۔ آمنہ کو یہ بات پتا تھی کہ اسکول میں غریب بچوں کی فیس معاف ہو جاتی ہے۔ صرف داخلے میں دو ہزار کا خرچ تھا۔ آمنہ کے لیے یہ رقم اگرچہ بڑی تھی پھر بھی وہ ہر ماہ تھوڑا تھوڑا پیسا بی بی جی کے پاس جمع کر رہی تھی۔ اب جب کہ وقت آ گیا تھا تو رقم بھی دوہزار ہو گئی تھی۔ وہ جب بھی تقاضا کرتی بی بی جی کچھ نہ کچھ بہانے بنا دیتیں۔ پچھلی بار ان کی لندن والی بھابی آگئی تھیں اور اچانک اتنی مصروف ہو گئی تھیں کہ آمنہ ان سے کچھ نہ کہہ سکی۔ لندن والی بھابی کو آمنہ نے پہلے بھی دیکھا تھا، تب وہ اتنی موٹی نہیں تھیں۔ ان دنوں ان کی لمبی سی چوٹی ہوا کرتی تھی اور سر پر آنچل۔۔۔ لیکن لندن جاکر ان کی کایا کلپ ہو گئی تھی۔ انہوں نے بال ترشوالیے تھے اور سر بھی آنچل سے بے نیاز تھا۔

    آمنہ کچن کے دروازے سے لگی ان کی نقل و حرکت دیکھ رہی تھی۔ ان کے جسم پر سرخ رنگ کا گاؤن تھا۔ وہ ابھی ابھی غسل کرکے نکلی تھیں اور مشین سے اپنے بال سکھا رہی تھیں۔اچانک بجلی چلی گئی اور مشین گھرّر کی آواز کے ساتھ بند ہو گئی۔ بھابی جھلّا گئیں۔

    ’’مائی گڈنیس! یہاں تو بجلی ہی نہیں رہتی ہے۔ ہمارے لندن میں ایک سکنڈ کے لیے بھی بجلی نہیں جاتی۔‘‘ آمنہ کو یاد آ گیا بھابی پہلے تولیے سے بال سکھاتی تھیں۔ دونوں ہاتھوں سے تولیے کو رسی کی طرح بل دے کر بھیگی لٹوں پر جھٹکے لگاتیں۔ پٹ۔ پٹ۔ پٹ۔ لیکن اب تو ان کے بال بوائے کٹ ہو گئے تھے۔

    بھابی نے مشین کو میز پر رکھا اور اسپرے کی شیشی اٹھالی اور بدن پر اسپرے کیا۔فوں ۔فوں ۔پھر اچانک بی بی جی کی کسی بات پر زور سے ہنس پڑیں۔

    ’’ریلّی۔(Really)۔؟

    ’’اوہ نو۔(Oh! no)۔‘‘

    ’’گڈ ویری گڈ۔ (Good very good)

    آمنہ مسکرائی۔ بھابی کو اس طرح انگریزی جھاڑتے اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ پاس ہی دیورانی بھی بیٹھی تھیں۔ ان کا منہہ آمنہ کو پچکا ہوا نظر آیا۔ لیکن بی بی جی کی بانچھیں کھلی تھیں۔

    وہ ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھیں۔ بھابی لندن سے سب کے لیے ڈھیر سارے کپڑے لائی تھیں۔ ان کی اٹیچی سامنے کھلی پڑی تھی۔

    ’’لندن میں ایک کپڑا کوئی چھ ماہ سے زیادہ نہیں پہنتا۔ چھہ ماہ بعد سب ڈسٹ بن(Dust bin)میں ڈال دیتے ہیں۔۔۔‘‘

    پھر ایک ایک کرکے وہ کپڑے باہر نکالنے لگیں۔

    ’’یہ منیرہ کے لیے۔‘‘

    ’’یہ عثمان کے لیے۔‘‘

    ’’بھائی صاحب کے لیے یہ جیکٹ۔‘‘

    منیرہ نے خوش ہو کر فراک پھیلایا پھر چونک کر بولی۔

    ’’امی۔۔۔ یہ داغ۔۔۔؟؟‘‘

    بی بی جی نے غور سے دیکھا۔ بھابی جھٹ سے بول اٹھیں:

    ’’کسٹم والوں نے لگایا ہے۔ ایک ایک چیز کھول کھول کر دیکھتے ہیں۔‘‘

    ایک مکھی بار بار ان کے سر پر بیٹھ رہی تھی جسے وہ ہاتھ سے ہنکا رہی تھیں ۔اچانک وہ چلّا کر بولیں:

    ’’مائی گڈنیس! یہاں مکھیاں ہی مکھیاں ہیں ۔ہمارے لندن میں ایک بھی مکھی نہیں ہے۔‘‘

    دیو رانی چمک کر اٹھیں اور کچن میں گھس کر بڑ بڑانے لگیں۔

    ’’ہمارے لندن میں۔۔۔ہمارے لندن میں۔۔۔‘‘ جیسے لندن کی ہی پیدا ہیں۔ بےچاری نے ہندوستان تو کبھی دیکھا ہی نہیں۔‘‘

    آمنہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکی۔ اس نے دیو رانی سے پوچھا:

    ’’آپ کو کیا ملا۔؟‘‘

    ’’میں نہیں لیتی ڈسٹ بن کے کپڑے۔۔۔‘‘

    دیورانی چڑی ہوئی تھیں۔ آمنہ ایسے ماحول میں پیسے کا تقاضا کیا کرتی۔ بی بی جی اپنی جگہ سے اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔آمنہ نامراد لوٹ گئی۔

    کچھ دنوں سے یہی ہو رہا تھا۔ پچھلے دنوں بی بی جی بیمار تھیں۔ وہ تقاضے کو گئی تو بستر پر پڑی ہائے ہائے کر رہی تھیں وہ پیسے کیا مانگتی اور ایک دن جب اچھی بھلی تھیں تو ان کو بازار جانے کی دھڑ پڑی تھی۔ آمنہ نے منہہ کھولا اور بی بی جی برس پڑیں۔

    ’’تم موقع محل نہیں دیکھتی ہو۔۔۔ اب بازار کے لیے نکل رہی ہوں تو چلی ہاتھ پسارنے۔۔۔‘‘

    آمنہ کو بہت غصہ آیا۔ وہ ہاتھ پسار رہی تھی یا اپنے پیسے مانگ رہی تھی؟ آمنہ جل بھن کر رہ گئی۔

    اور اس بار تو خیر چابی ہی گم ہو گئی تھی۔

    آمنہ کو اب یقین ہو چلا تھا کہ بی بی جی اس کے پیسے دینا نہیں چاہتیں۔ وہ لوٹ کر گیرج میں آئی تو اس کی جھنجھلاہٹ اور بڑھ گئی۔ اس کو حیرت ہوئی۔ کیا واقعی وہ پیسے ہضم کر گئیں۔؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔؟ ان کو کمی کس بات کی ہے۔؟چار چار قطعہ مکان ہے۔ بیٹا بھی امریکہ سے پیسے بھیجتا ہے۔ پنشن الگ ملتی ہے۔ پھر اس غریب کے دو ہزار روپے کیوں مارنے لگیں؟ لیکن دے بھی نہیں رہی ہیں۔‘‘ گھر میں اگر مہمان آ گیا تو کیا پیسے خرچ ہو گئے؟ اور اگر چابی گم ہو گئی تو ان کا خرچ کیسے چل رہا ہے۔؟ بینک سے تو نکال کر دے سکتی ہیں۔ یہ سب بہانے ہیں۔ ان کی نیت میں کھوٹ ہے۔ جب مانگنے جاؤ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیں گی۔ کام میں پھنسا دیتی ہیں۔ کبھی کپڑے دھوؤ۔ کبھی مسالہ کوٹو۔ کبھی مہندی توڑ کر لاؤ۔ آمنہ کو غصہ آ گیا۔ اس نے پیسے ہی کیوں جمع کیے ان کے پاس۔؟ اس سے اچھا تھا شبراتی دارو پی جاتا۔ کم سے کم صبر تو آ جاتا۔

    اچانک ببلو کھانا مانگنے لگا توآمنہ کا غصہ بڑھ گیا۔ اس نے ببلو کو ایک دھب لگایا۔ ’’ہر وقت بھوک۔ہر وقت بھوک۔‘‘

    آمنہ کے اس غیر متوقع رویے سے ببلو ڈر گیا اور روتا ہوا باہر چلا گیا۔ آمنہ پلنگ پر گر سی گئی اور چہرہ بازوؤں میں چھپا لیا۔

    ببلو مستقل ریں ریں کر رہا تھا۔ وہ کچھ دیر اس کی ریں ریں سنتی رہی پھر اٹھی اس کے لیے کھانا نکالا اور احاطے میں بیٹھ کر اسے کھلانے لگی۔

    شبراتی اس رات تاخیر سے لوٹا۔ وہ ترنگ میں تھا۔ حسب معمول آمنہ کے قریب بیٹھ گیا اور اس کے پاؤں سہلانے لگا۔ آمنہ کچھ نہیں بولی۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ آمنہ کو اس وقت شبراتی کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ ایک غم گسار کی ضرورت۔ اس نے کروٹ بدلی اور شبراتی کے قریب کھسک آئی۔

    دوسرے دن سویرے بی بی جی کے یہاں پہنچ گئی۔ اس نے عہد کرلیا تھا کہ آج پیسے لے کر رہےگی۔ پھر بھی وہ ان سے کچھ نہ کہہ سکی۔ اس وقت دیو رانی سے ان کی کسی بات پر تو تو میں میں ہورہی تھی۔ آمنہ نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔

    وہ لوٹ گئی لیکن دوپہر میں پھر پہنچ گئی ۔اتفاق سے وہ تنہا مل گئیں۔ بچے اسکول گئے ہوئے تھے۔ لندن والی بھابی کہیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ دیورانی بھی گھر پر نہیں تھیں۔ آمنہ نے موقع غنیمت جان کر ٹوکا۔

    ’’بی بی جی۔۔۔ میرے پیسے۔۔۔‘‘

    ’’ایسی کیا ضرورت پڑ گئی۔۔۔؟‘‘

    ’’ببلو کا باپ بیمار ہے۔۔۔ اس کا علاج کرانا ہے۔۔۔‘‘ آمنہ صاف جھوٹ بول گئی۔

    ’’شام کو آنا۔‘‘

    ’’مجھے ابھی چاہیے بی بی جی۔بہت ضروری ہے۔‘‘

    بی بی جی ایک لمحہ خاموش کھڑی آمنہ کو گھورتی رہیں۔ پھر کمرے میں گئیں اور ایک پرانا ٹی وی سیٹ لے کر آئیں۔ یہ ٹکسلا کمپنی کا چھوٹا سا بلیک اینڈوہائٹ ماڈل تھا جس میں انٹرنل انٹینا لگا ہوا تھا۔

    ’’تو ٹی وی لے جا۔‘‘

    ’’میں ٹی وی کیا کروں گی؟‘‘ آمنہ حیرت سے بولی۔

    ’’تیرے پیسے تو خرچ ہو گئے۔ بدلے میں تو ٹی وی لے جا۔یہ چار ہزار سے کم کا نہیں ہے۔‘‘

    ’’بی بی جی مجھے پیسہ چاہیے۔ میں ٹی وی کیا کروں گی؟‘‘

    ’’تجھے کیسے سمجھاؤں کہ میرا ہاتھ خالی ہے۔‘‘

    آمنہ جیسے سکتے میں آ گئی۔ ببلو کا داخلہ۔؟ اس کے جی میں آیا زور سے چیخے لیکن آنسو پیتی ہوئی روہانسی لہجے میں بولی۔

    ’’میں نے ایک ایک پیسہ جوڑ جوڑ کر اسی دن کے لیے آپ کے پاس جمع کیا تھا کہ وقت پر کام آئے۔۔۔‘‘

    ’’اب کیا کروں۔ پیسے خرچ ہو گئے۔مجھے دھیان نہیں رہا۔‘‘

    آمنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ سمجھ گئی بی بی جی پیسے ہضم کر گئیں۔ ٹی وی لے جانے میں ہی بھلا ئی تھی۔ بیچ کر کچھ پیسے تو وصول ہوں گے۔

    آمنہ کو خاموش دیکھ کر بی بی جی بولیں۔

    ’’ٹی وی سے دل بہلےگا۔ تیرا نکھٹو میاں جو دن بھر آوارہ گردی کرتا رہتا ہے اس بہانے گھر تو رہےگا۔‘‘

    آمنہ کے منہ سے نکلا۔

    ’’میرامیاں نکھٹو ہے لیکن بےایمان نہیں ہے۔ کسی کے پیسے نہیں مارتا۔‘‘

    بی بی جی کا چہرہ زرد ہو گیا۔ آمنہ کو حیرت ہوئی کہ اس کے منہ سے یہ بات کیسے نکل گئی اور ساتھ ہی اس کو ایک طرح کی راحت کابھی احساس ہوا۔

    بی بی جی رازدارانہ لہجے میں بولیں۔

    ’’دیکھو آمنہ کسی سے کہیو مت کہ روپے کے بدلے مجھ سے ٹی وی لیا ہے۔‘‘

    لاکھ غم و غصے کے باوجود آمنہ کے ہونٹوں پرتلخ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

    ٹی وی لے کر آمنہ گیرج میں آئی تو ببلو اچھل پڑا۔

    ’’اماں کس کا ٹی وی ہے؟‘‘

    آمنہ مسکرائی۔ اس نے پلگ لگایا اور ٹی وی آن کیا۔ کوئی فلم چل رہی تھی۔ ببلو اک دم خوش ہو گیا۔’’اماں یہ ہم لوگوں کا ہے۔۔۔؟؟‘‘ ببلو کو یقین نہیں آرہا تھا۔ آمنہ نے سر ہلایا۔

    ببلو کو خوش دیکھ کر آمنہ کا تناؤ کم ہونے لگا۔ وہ ٹی وی کے قریب ایک موڑھے پر بیٹھ گئی اور پاؤں پر پاؤں چڑھا لیے۔ دفعتاً اس کو یاد آیا کہ بی بی جی صوفے پر اسی طرح بیٹھتی ہیں۔ پاؤں پر پاؤں چڑھا کر۔ اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ رینگ گئی۔ آمنہ کو لگا اس کے اور بی بی جی کے درمیان جو فاصلہ تھا وہ کم ہو گیا ہے اور وہ ان کی وراثت میں جیسے دخیل ہوئی ہے اور خود ’’بی بی جی‘‘ ہو گئی ہے۔ یہ ٹی وی کبھی ان کی ملکیت تھی اب اس پر اس کا قبضہ ہے۔ آمنہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکی۔ تب اس کو گیرج کے ماحول میں تبدیلی کا احساس ہوا۔ اس کے جی میں آیا اچھا کھانا بنائے۔

    آمنہ نے اٹھ کر آلو کے پراٹھے تلے، کھیر بنائی، ببلو کو کھلایا۔ پھر ہاتھ منہ دھوکر کپڑے بدلے، بالوں میں کنگھی کی، چہرے پر پاؤڈر لگایا، ماتھے پر بندی سجائی اور موڑھے پر بیٹھ کر شبراتی کا انتظار کرنے لگی۔

    شبراتی حیران رہ جائےگا۔ وہ سمجھ جائے گا کہ اس سے چراکر پیسے جمع کرتی ہے لیکن اب پیسے کہاں سے آئیں گے۔؟ آخر ببلو کانام تو لکھانا ہے۔؟ شاید اور دوتین گھروں میں کام کرنا پڑے۔ رقم پیشگی مانگ لے گی۔ اس بار زمین میں گاڑ کر رکھنا ہے۔

    ٹی وی دیکھتے دیکھتے ببلو اونگھنے لگا۔پھر وہیں زمین پر سو گیا۔ آمنہ اسے اٹھا کر بستر پر لائی۔ شبراتی آیا تو ٹی وی دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ آمنہ نے ہنس کر کہا کہ اس نے خریدا ہے تو شبراتی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ چپ ہو گیا۔ اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ کتنے میں خریدا۔ اس نے ایک بار غور سے آمنہ کو دیکھا۔ آمنہ کے چہرے پر پاؤڈر کی تہیں نمایاں تھیں اور بندیا چمک رہی تھی۔ اس نے آمنہ کو اس طرح بن سنور کر کبھی گھر میں بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ شبراتی احاطے میں بے چینی سے ٹہلنے لگا۔

    آمنہ نے کھانے کے لیے پوچھا تو اس نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا کہ بھوک نہیں ہے۔ اس کو شبراتی کا یہ رویہ بہت عجیب معلوم ہوا۔ آمنہ کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑکنے لگا۔ وہ کچھ بولتا کیوں نہیں۔؟ٹی وی دیکھ کر خوش کیوں نہیں ہوتا۔؟ آمنہ احاطے میں آئی تو شبراتی باہر نکل گیا۔

    شبراتی لوٹ کر نہیں آیا۔ آمنہ رات بھر انتظار میں کروٹیں بدلتی رہی۔

    وہ جب صبح بھی نہیں آیا تو آمنہ گھبرا گئی۔ اس کو ڈھونڈنے کے ارادے سے باہر جانا چاہ رہی تھی کہ احاطے کے پیچھے شبراتی نظر آیا۔ وہ ببلو سے پوچھ رہا تھا۔

    ’’گھر میں کون کون آتا ہے۔؟‘‘

    ’’کوئی نہیں۔‘‘

    ’’اماں کہاں کہاں جاتی ہے؟‘‘

    ’’اماں کام کرنے جاتی ہے۔‘‘

    آمنہ کو لگا کسی نے اس کے سینے پر برچھی گھونپ دی ہے۔ اس نے ببلو کو لپٹا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے