کائنات
وہ جب سوئے تو تین تھے، مگر جاگے تو انہوں نے تیسرے کو نہ پایا۔ اس کے رنگوں کا تھیلا اور لکڑی کے تراشیدہ برش بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس کی چادر بھی غائب تھی، جسے وہ ہمیشہ اوڑھے رکھتا تھا۔ یہ دونوں اپنی اپنی فطرت میں مختلف تھے۔ جیسے خیر و شر۔ تیسرا جو غائب ہوا، ایک مصور تھا جسے خیر وشر سے کوئی سر وکار نہ تھا۔ دونو ں میں سے پہلے کون بیدار ہوا کچھ اندازہ نہیں تھا۔ کیونکہ دونوں ہی غار کی چھت کو دیر سے تک رہے تھے۔ اور اپنے اندازوں سے حساب لگانے کی کوشش کررہے تھے کہ کتنا عرصے سوتے رہے۔ بیداری کا احساس انہیں اپنے کانوں میں پڑنے والی آواز سے ہوا۔ وہ کتے کے بھونکنے کی آواز تھی۔ جب غیر مرئی طاقت نے انہیں غار کا رستہ دکھایا تو اس سے پیشتر کتے کی رفاقت بھی عطا کردی۔ وہ غیر مرئی طاقت سے باخبر تھے۔ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ غیر مرئی طاقت ان کے درمیان کب اور کیسے آئی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ جب مصور ہمراہ ہوا قریب قریب وہی زمانہ تھا جب کسی اور کے بھی موجود ہونے کا احساس ہوا۔
خیر کے منہ سے جو پہلا کلمہ اس غیر مرئی قوت کے لیے نکلا وہ خدا کا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ خدا کسے کہتے ہیں۔ اس نے بے شمار مجسم بتوں کے درمیان ایک غیر مرئی خدا کا بت اپنے خیالوں میں تراش رکھا تھا۔ غیر مرئی خدا جس کی بے شمار آنکھیں اور سینکڑوں ہاتھ تھے۔ جن سے وہ اپنے بندوں کو رزق بانٹتا اور دیکھتا ہے۔ دوسرا اس عقیدے سے منکر تھا۔ اسے خدا کی طاقت سے انکار تھا۔ ہر طرف بکھری ہوئی زندگی اور اس میں تہذیبوں کا عروج و زوال، عالم نامعلوم سے معلوم کا سفر ،سب کچھ پہلے سے موجود ہے۔ وہ ہمیشہ یہی بحث کیا کرتا۔ خدا کے بارے میں، کائنات کے بارے میں، ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت اور پھر جنت و دوزخ کے بارے میں۔ وہ نئے سوالات لاتا، جنہیں سن کر خیر کا پروردہ کبھی اپنے علم سے جواب دیتا اور کبھی خاموشی اختیار کرلینے میں عافیت محسوس کرتا۔ کیونکہ وہ یہ جانتا تھا کہ دوسرا اس سے زیادہ علم رکھتا ہے۔
دونوں کی نوک جھونک اکثر لمبی بحث کی صورت اختیار کرلیتی اور نوبت تکرار تک آجاتی۔ دونوں اپنے اپنے علم گیان دھیان سے ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے۔ الہامی کتب کا حوالہ دیتے۔ تاریخ عالم کو درمیان میں لاتے۔ مظاہر پرستی، دیوی دیوتاؤں، مطلق العنان بادشاہوں، فلاسفر اور علماء کا ذکر کرتے۔ ہند آریائی تہذیب ، رگوید، وید، انپشدوں سے نئے نکات نکالتے۔ بت پرستی، عقیدہ تثلیت ، گوتم بدھ، اور انبیائے کرام کا حوالہ دیتے۔ ان لمبی لمبی بحثوں میں تیسرا کبھی ان کے درمیان نہ الجھتا اور نہ کبھی اپنی رائے دیتا۔
ایک بار ایک بستی سے گزرتے ہوئے خیر نے وہاں کے رہنے والوں کو زندگی کے رموز سکھائے اور انہیں کھیتی باڑی کے بارے میں بتایا۔ بستی میں قیام کے چند روز ہی میں انہوں نے نہایت مہارت سے دریا کے کنارے چکنی مٹی میں دبی اور الجھی جھاڑیوں اور ان کی جڑوں کو زمین میں پھیلاکر دبایا تو زمین میں زرخیزی کی شدت سے وہ نئے پتوں اور کمزور تنوں کی شکل میں سطح پر ابھر آئی۔ دوسرا مٹی کے تودے کے اوپر بیٹھا گیان دھیان میں سیکچھ وقت نکال کر ادھر دیکھتا اور برا سا منہ بنا کر ان پودوں کو جڑوں سے اکھاڑنے کی تدبیر سوچا کرتا۔ نہ جانے کیوں اسے ترقی سے سخت چڑ تھی۔ وہ جیسا تھا ویسا ہی رہنا چاہتا تھا، یا پھر خود کشی کرنا چاہتا تھا۔ مگر کیسے؟ اسے اس کا کوئی طریقہ معلوم نہ تھا۔ تیسرا نہ جانے کس طرح ان کے ساتھ ہولیا تھا۔ وہ نہ بات کرتا اور نہ دخل دیتا۔ بس خاموش جیسے فضا تھی، سکوت سے بھری ہوئی۔ جیسے کائنات تھی ایک جگہ ٹھہری ہوئی ،یا جیسے دنیا تھی بغیر اجڑی بغیر بسی ہوئی۔
’’تم انہیں لڑائی جھگڑا سکھا رہے ہو‘‘۔
’’نہیں میں انہیں جینا سکھا رہا ہوں‘‘۔
’’جب یہ جینا سیکھیں گے تو حق جتائیں گے۔ زمین پر، انسانوں، عورتوں، بچوں پر‘‘
’’ابتداء میں ایسا ممکن ہے مگر رفتہ رفتہ سماجی نظام کے ادراک سے سب کچھ ٹھیک کرتے چلے جائیں گے‘‘۔
’’تم انہیں جب فصل کاٹنا سکھاؤ گے تو ہتھیار دو گے ، جنہیں یہ ایک دوسرے کی گردنوں پر وار کرنے کے لیے استعمال کریں گے‘‘۔
پہلے نے اس بے نتیجہ گفتگو پر خاموشی کو ترجیح دی۔ ایک بار ایک اور بستی کے پاس سے گزرتے ہوئے خیر نے بستی کے رہنے والوں کو چھوٹے درختوں کے تنے کاٹ کر بوڑھے قدیم درختوں سے لٹکی ہوئی لمبی ریشے دار بالوں والی جھولتی ہوئی رسیوں سے باندھنا اور اسے دریا کے پانی پر تیرانا سکھایا تو دوسرا غصے میں چیخ پڑا تھا۔
’’جب دریا کی کوئی بپھری ہوئی موج ان کے تیرتے تختے کو الٹ دے گی، تو یہ تم کو کوسنے دیں گے۔ ممکن ہے تم کو مار ہی ڈالیں‘‘۔
’’اسی طرح یہ سیکھ جائیں گے، کیونکہ نئی زرخیز زمینوں کی تلاش کے لیے دریاؤں کو پار کرنا ضروری ہے‘‘۔
’’یہ سارے کام ،انہیں جس نے پیدا کیا ہے، وہ کیوں نہیں سکھاتا؟‘‘
’’وہ کسی ایک کے ذہن و دماغ میں ڈال دیتا ہے۔ جیسے میرے دماغ میں ڈال دیا‘‘۔
’’تم اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع سمجھنے لگے ہو؟‘‘
’’یہ بات میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرا علم تم سے بہت کم ہے۔ مگر تم اپنے علم کو دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ منفی سوچ رکھتے ہو، بالکل شیطان کی طرح‘‘۔
’’مجھے لگتا ہے کہ کسی دن تم میرے ہاتھوں مارے جاؤ گے۔ کبھی تم میرے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار دیکھو تو مجھ سے دور رہنا‘‘۔
ایک بار تو دونوں نے حد کردی۔ ایک اور بستی کے طاقتور ترین آدمی کو جب خیر کے پروردہ نے حکومت کے کچھ اصول سکھلائے تو دوسرا غصے میں بالوں کو جکڑتا ہوا دور تک کھینچتا چلا گیا۔
’’تم اب انہیں قانون بھی سکھاؤ گے؟‘‘
’’ان کے لیے نظم و ضبط بہت ضروری ہے‘‘۔
’’تم کون ہوتے ہو انہیں یہ سب بتانے والے؟‘‘
’’میرے اندر کوئی مجھ سے بات کرتا ہے، مجھے حکم دیتا ہے، مجھے تعلیم کرتا ہے‘‘۔
’’مجھے کیوں نہیں کرتا؟‘‘
’’میں نہیں جانتا تم مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو، تمہیں خود معلوم ہوگا‘‘۔
’’دیکھو تم ایسا کرنا چھوڑدو، اگر خدا چاہتا ہے کہ یہ سیکھیں تو وہ انہیں خود کسی اور طریقے سے سکھادے گا۔ جس طرح اس نے مجھے اور تمہیں تعلیم دی، اور اگر میری بات کا اعتبار نہیں تو آؤ آج فیصلہ ہوجائے۔ ہم کسی غار میں پناہ لیتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔ جب ہم بیدار ہوں گے تو دیکھیں گے کہ کیا دنیا ویسی رہی جیسے چھوڑ کر جارہے ہیں یا تبدیل ہوئی ہے۔ اگر ویسی ہی ملی تو اس کا مطلب تمہارا انہیں تعلیم کرنا درست اور اگر یہ تبدیل ہوئی تو میری رائے مقدمہوگی‘‘۔
تیسرا اب بھی خاموش تھا۔ جب وہ پہاڑ کی طرف چلے تو پہرے دار کتا بھی ساتھ تھا۔ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے ہر ایک کو کبھی یوں لگا جیسے وہ اکیلا ہو اور کبھی یوں جیسے وہ بہت ہوں۔ تین سے بھی زیادہ۔ ویران غار کی بنجر زمین پر ہاتھوں کا تکیہ بنا کر لیٹتے ہوئے تینوں نے خدا سے دعا کی۔
’’اے خدا تو رحم دل ہے۔ ہم تجھ سے رجوع کرتے ہیں۔تیری مدد چاہتی ہیں اور تیرے لیے آہیں بھرتے ہیں۔تیرے دم سے سانس لیتے ہیں۔ تیرے حکم سے جاگتے ہیں اور سوتے ہیں۔تجھ سے ڈرتے ہیں۔ جو تجھ سے نہیں ڈرتے وہ بھٹک جاتے ہیں۔اے خدا تو افضل ہے۔ تیرا مقابلہ کون کرسکتا ہے
یہ کہتے ہوئے وہ سو گئے۔ بیدار ہوئے تو ایک دوسرے سے کوئی سوال نہیں کیا۔ انہیں یہ یاد نہیں تھا کہ وہ کتنا عرصہ سوتے رہے، اورنہ یہ معلوم تھا کہ کتنی بارکروٹ بدلی اور کتنی بار سورج ان کے دائیں اور بائیں سے گزرتا چلا گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے کچھ کہے بغیر جان لیا تھا کہ وہ لمبے عرصے تک سوتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کچھ کہے بغیر یہ بھی جان لیا کہ غارمیں تیسرا موجود نہیں ہے۔ نہ اس کا رنگوں والا تھیلا نہ لکڑی کے تراشیدہ بھدے برش نہ اس کی چادر۔ ہاں ایک عجیب بات ہوئی تھی۔ وہ جہاں بازوؤں کا تکیہ بنا کر سوئے تھے، اس کے سامنے والی ناہموار دیوار اب ایک بڑے کینوس کی طرح ہموار اور رنگوں، خطوں اور نقش و نگار سے بھری ہوئی تھی۔ نیم روشن غار میں دیوار پر رنگوں کے نقوش بہت واضح تو نہ تھے مگر سمجھ میں آرہے تھے۔ پہلا اٹھا اور دیوار کو قریب سے دیکھنے لگا۔ دائیں طرف سب سے پہلے اور سب سے اوپر ایک مرد اور ایک عورت، جس کی گودمیں بچہ، جو اپنی شکل میں خیر بھی تھا اور شربھی۔ ان کے آس پاس پہاڑ ، شاہ بلوط کا درخت، سانپ، فاختہ، شیر، بیل، آگ، چاند ستارے، پیپل کا درخت اور ان سب پر روشنی پھیلاتا ہوا سورج جس کے قریب ہی نوری رنگوں سے ڈھلا ہوا ایک بوڑھا جس کے چاروں طرف کرنیں تمام اجسام کو منور کررہی تھیں۔ دو بھیڑیے اس کے دائیں بائیں اور دو کوئے اس کے دونوں کندھوں پر تھے۔ تصویر میں اس کے ساتھ ہی دل ہلادینے والا منظر تھا۔ انسانی قربانی کا منظر۔
سجدہ ریز انسانوں کی گردن سے بہتے ہوئے خون کا منظر۔ قربان گاہ پر سرجھکائے انسان کی آنکھوں میں مسرت انگیز چمک جیسے وہ اپنی قربانی پر خوش ہو۔
ذرا نیچے چاند سے مشابہ سینگوں والا تاج پہنے اور پیپل کے سات پتوں کا گلدستہ اٹھائے ایک مرد خوبصورت عورت کے ساتھ جس کا سینہ عریاں تھا اور جس کی چھاتیوں سے دودھ کی دھاریں نکل کر دور تک زمین کی زرخیزی کو بڑھارہی تھیں۔
’’زمین ویران اور سنسان اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا، اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کررہی ہے‘‘
’’کیا تم نے کچھ کہا؟‘‘
دوسرے نے پوچھا۔ وہ بھی تصویروں کے سحر انگیز مناظر کو قریب سے دیکھنے چلا آیا تھا۔ نہ جانے کب سے خاموش کھڑا محو تماشا تھااور محسوس کررہا تھا کہ وہ بھی اس تماشا ہائے رنگا رنگی میں کہیں چھپا ہوا ہے، یا پھر یہ سارا تماشا اس کے اپنے اندر برپا ہے۔ وہ اپنے تیسرے دوست کی کاری گری پر حیران تھا کہ اس نے یہ سب کیسے کر دکھایا۔ ایک مصور کی طرح جس نے سادہ کینوس پر پہلا نقطہ ڈالا اور پھر لکیریں بکھیرتا چلا گیا۔ اسکیچ بنائے، انہیں ترتیب دیا پھر رفتہ رفتہ تصویریں بنتی چلی گئیں، پھر ان تصویروں میں رنگ بھرے خدوخال بنائے، شیڈ دیئے، مینا کاری و گل کاری کی، رنگوں اور خطوں کو واضح کیا، کہیں دھندلے رنگ ڈالے اور کہیں چمک پیدا کی، ان تصویروں میں کسی کو دیوتا کسی کو نبی کسی کو انسان اور کسی کو شیطان کا روپ دیا، بہت سے کردار بنائے، کہیں رعنائی اور شادابی توکہیں ظلم و بربریت، کوئی جابر توکوئی مظلوم۔ کوئی حاکم تو کوئی محکوم۔
’’تم نے ابھی کچھ کہا تھا؟‘‘
’’نہیں! میں تو کب سے خاموش ہوں‘‘۔
پھر کس نے کہا تھا کہ خدا کی روح پانیوں پر جنبش کررہی ہے؟‘‘
یہ میں نے پہلے کہیں پڑھا ہے، مگر کب کہاں یہ یاد نہیں۔ اورمیں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ:
’’ خدا ایک ہے ،جو دیوتاؤں اور انسانوں میں سب سے بڑاہے۔ اس کا جسم اوردماغ مثل انسان کے نہیں ہے۔ وہ سراپا بصارت، سراپا سماعت اور سراپا عقل ہے۔ لیکن فانی انسان نے دیوتاؤں کو اپنی صورت بنایا ہے۔ انہیں اپنا جسم اپنا لباس اور اپنی آواز عطا کی ہے۔ میرے خیال میں اگر بیلوں، شیروں اور گھوڑوں کے فقط ہاتھ ہوتے تو انہوں نے اپنے ہی ایسے دیوتا بنائے ہوتے۔ گھوڑوں کے دیوتا گھوڑوں کے ایسے اور بیلوں کے دیوتا بیلوں کے ایسے‘‘۔
’’کیا تم مشخص خدا پر یقین رکھتے ہو؟‘‘
’’نہیں میں اس تصویر میں خدا کو دیکھ کر یہ سب یاد کررہا ہوں۔۔۔‘‘
’’مگر اس تصویر میں خدا کہاں ہے۔ یہ تو دیوتا ہیں۔ جھوٹے دیوتا جن کو پچھلے زمانوں میں ہی نظرانداز کردیا گیا۔ جن کے وجود سے خود ان کے اپنوں نے انکار کیا۔ جنہیں بکھیر کر ریزہ ریزہ کرکے مٹی میں ملایا جاسکتا ہے۔ میرا ایمان ایسے رب پر ہے جس کا علم تمام کائنات پر محیط ہے اورجو نہ صرف ہمارے اعمال سے بلکہ ہمارے اندرونی جذبات و تصورات تک سے خبردار رہتا ہے۔ جو شخص نیکی کی راہ چلنا چاہتا ہے، اسے لازم ہے کہ خود اوصاف باری کا اتباع کرے۔ جس طرح خدا صادق ہے، وہ بھی صداقت اختیار کرے۔ جس طرح خدا آزاد ہے، وہ بھی آزادی حاصل کرے۔ جس طرح خدا نیک ہے، وہ بھی نیکی کرے، اور جس طرح خدا فیاض ہے، وہ بھی فیاضی کرے‘‘۔
’’یہ تم کون سے فلسفی کی زبان میں بات کررہے ہو؟‘‘
’’میں خودنہیں جانتا، شاید غیر مرئی قوت کی طاقت ہے جو مجھ سے الہامی الفاظ ادا کروارہی ہے‘‘۔
’’کہیں تم یہ تو نہیں کہہ رہے ہو کہ تم پر الہام ہورہا ہے؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔ یہاں دیکھو یہ خون کیسا بہہ رہا ہے۔ شاید اس ایک نے دوسرے کو قتل کردیا ہے۔ ذرا دھندلا دھندلا سا ہے‘‘۔
’’تصویر کی بے رنگی بتا رہی ہے کہ اسے بہت پہلے قتل کیا جاچکا ہے‘‘۔
’’میں نہ کہتا تھا کہ تمہارا خدا زمین پر خون ریزی کررہا ہے ، دیکھ لو یہ تصویر اس کی نشاندہی کررہی ہے‘‘۔
’’مگر یہ تصویر تمہارے اور میرے ساتھی نے بنائی ہے۔ خدا نے نہیں‘‘۔
’’ہم اس بارے میں صحیح طرح نہیں جانتے کیوں کہ جب یہ تصویر بنائی گئی، میں اور تم سورہے تھے ،اور ہوسکتا ہے کہ وہ بھی سورہا ہو‘‘۔
’’وہ بیدار تھا اور اگر بیدار نہ ہوتا تو ہمارے جاگنے سے پہلے غائب نہ ہوجاتا‘‘۔
’’یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی اسے اٹھا کر لے گیا ہو۔ جیسے کوئی جنگلی جانور کوئی خون آشام چڑیل یا کوئی جنات میں سے‘‘۔
ہمارا کتا غار کے دھانے پر ہے۔ اگر کوئی جھانک کر دیکھنے کی کوشش کرتا تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوگا۔ تم ایسا کرو کہ شہر جاؤ اسے بھی ڈھونڈو اور کچھ پاکیزہ کھانے کا بھی بندوبست کرلاؤ۔ کوشش کرو کہ کسی کو ہماری خبر نہ ہو۔ تب تک میں اس تصویر میں خدا اور کائنات، خیر و شر اور ابتدائے آفرینش کا سراغ لگانے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔
دوسرا اوڑھنی کندھے پر ڈال کر غار سے نکلتا چلا گیا اور پہلا دور تک پھیلی ہوئی تصویرکے اسرار و رموز کو سمجھنے میں مصروف ہوگیا۔ نامعلوم وقت کی نامعلوم ساعتوں کا سفر جاری تھا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے دوسرا لوٹ آیا۔ اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کا بیگ لٹکا ہوا تھا جس میں ڈبوں میں بند حوراک، خشک بسکٹ، چاکلیٹ، پنیر، اور سیل بند پانی کی ٹھنڈی بوتلیں تھیں۔ اس نے تمام چیزیں ایک اونچے پتھر پر رکھ دیں۔
’’تم یہ کیا لے آئے ہو۔ میں نے تمہیں پاکیزہ چیزیں لانے کو کہا تھا‘‘۔
’’زمانہ بہت تبدیل ہوگیا ہے۔ تمہیں باہر نکل کر دیکھنا ہوگا۔ ہم نہ جانے کتنا عرصہ سوتے رہے۔ اب باہر سب کچھ بند ڈبوں میں ملتا ہے۔ تم نے جو مجھے چاندی کے سکے دیئے تھے ۔اب نہیں چلتے ،یا تو کاغذ کے نوٹ چلتے ہیں یا پھر کریڈٹ کارڈ، اور پاکیزہ اور حلال چیزیں مذہب کے فرق سے پہچانی جاتی ہیں۔ میں نے جب پاکیزہ چیزوں کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مجھ سے میرا مذہب دریافت کیا۔ کبھی جہاں بستی ہوا کرتی تھی، اب وہاں بہت بڑا شہر آباد ہے۔ جس میں انسانوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ گزرگاہوں پر دیوہیکل عفریت نما مشینیں انسانوں کا بوجھ لادے پرشور آوازوں میں عربی النسل گھوڑوں سے زیادہ تیز دوڑتی ہیں۔ عمارتیں اس قدر بلند اور وسیع ہیں کہ دیکھ کر خوف آتا ہے۔ اور ہاں !جس دریا کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم یہاں تک آئے تھے اب وہ دریا نابود ہوچکا ہے۔ وہاں قطرہ بھی نہیں، صرف ریت ہی ریت ہے۔
تم نے اور کیا دیکھا۔ تم مجھے وہاں کے بارے میں بتاؤ، میں تمہیں اس تصویر کے حیرت انگیز مناظر دکھاتا ہوں۔
’’تمہیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ باہر کی دنیا میں اب کوئی بادشاہ نہیں ہوتا۔ ہم جہاں ہیں یہاں کا ایک حاکم ہے، فرعون، ہامان، نمرود اور شداد سے زیادہ دولت مند، مغرور، عیاش اور سفاک بھی۔ مگر لوگ اس حاکم وقت کے لیے نہ بددعا کرتے ہیں اور نہ اسے ہٹانا چاہتے ہیں ۔ ہر شخص اس کا قرب چاہتا ہے، تاکہ دوسروں سے ممتاز ہوسکے۔ اس تصویر میں یہ جو منظر ہے ،یہ اسی دور کا ہے، اور جیسا اس میں دکھایا گیا ہے، کم و بیش ایسے حکمران ہیں اور ایسی ہی رعایا‘‘۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ ہم یہاں سے وہاں تک اتنا لمبا عرصہ سوتے رہے۔ ہم نے اس کے درمیانی ساعتوں کا کوئی منظر نہیں دیکھا۔ تمہارے جانے کے بعد میں ان ساعتوں میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو بنتا بگڑتا دیکھتا رہا ہوں۔ میں جو تمہیں بتانا چاہتا ہوں، وہ تمہارے دیکھے ہوئے سے زیادہ حیران کن ہے۔ شاید تم میری بات پر یقین نہ کرو۔ مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ تمہارے جانے کے بعد میں اس تصویر میں زمان و مکاں کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتا رہا۔ تہذیبوں کے ارتقاء کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ بدلتے رسم و رواج اور تبدیلی مذاہب عالم اور ان کا عروج و زوال دیکھا کیا۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے دور کا انسان جو زمین پر چلنے سے ڈرتا تھا ،اب خلا میں سفر کرتا ہے، اور تسخیر کائنات کے خواب دیکھتا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ مجھے نیند نے آلیا۔ میں بازو کا تکیہ بنا کر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب بیدار ہوا توعجیب تماشہ دیکھتا ہوں۔ تصویر بہت آگے تک بن چکی تھی۔ زمان و مکاں تبدیل ہوگئے۔ تہذیب کسی اور منزل پر پہنچ گئی۔ انسان تسخیر کائنات سے آگے نکل گیا۔ بلکہ یوں لگا جیسے اس نے خدا کو پالیا ہے۔ وہ اپنی اس ترقی کو سائنس کا نام دیتا ہے۔ گزرے ہوئے زمان و مکاں کا سراغ لگاتا ہے۔ ماضی میں ردوبدل کرسکتا ہے۔ اپنے گزشتہ بگڑے ہوئے کاموں کو سنوارنے پر قدرت رکھتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے گزرے انبیاء کی زبان میں گفتگو کرتا ہے، ان سے باتیں کرتا ہے۔ ان سے وہ سوال کرتا ہے جو کبھی نہیں پوچھے گئے۔ ان کے لائے ہوئے ادیان کا اصل جوہر ڈھونڈتا ہے۔ آسمانی صحیفوں میں کی گئی تبدیلیوں کا سراغ لگاتا ہے۔ حرف مقطعات کے پوشیدہ معنی معلوم کرتا ہے۔ کروڑوں سال پہلے آسمانوں کے ان بند دریچوں کی کنجیاں دریافت کرتا ہے۔ جنہیں چوری چھپے سن گن لینے والے جنات کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔ زمین کے مدار میں پیدا ہوجانے والی خرابیوں کودرست کرنے کے لیے عجیب و غریب دھات کے بنے ہوے اوزاروں سے زمین کے نظام گردش کو ہموار اور تناسب میں لاتا ہے۔ کروڑوں نوری سال کی دوری پر واقع سیاروں کا سفر حیرت انگیز طریقے سے کرتا ہے۔ بغیر کسی ظاہری نظام کے ہزاروں
کوس دور بیٹھے ہوئے گروہوں سے بیک وقت پیچیدہ مسائل پر گفتگو کرتا ہے۔ خلا میں گم شدہ آوازوں کا سراغ لگاتا ہے، اور ہزاروں سال پہلے مرے ہوے لوگوں کی باتیں سنتا ہے۔ پہلے جسمانی اعضاء بدلنے کی صلاحیت حاصل کی اب تو پورا جسم تبدیل کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ گمشدہ کائناتوں میں پوشیدہ مخلوقات سے کبھی جنگ کبھی دوستی اور کبھی انہیں زیر کرنے کے لیے نت نئی ایجادات کرتا ہے۔ بظاہر مہذب ہوگیا ہے۔ تقریباً ہر جگہ خوش دکھائی دیتا ہے، مگر اس کا چہرہ پڑھنا محال ہے۔ یہ جیسا دکھائی دے رہا ہے ویسا نہیں ہے۔ اب تک اس کے ہاتھوں ہونے والی تباہیاں معمولی ہیں۔ ہم وہ سارے مناظر پیچھے چھوڑ آئے ہیں، جن میں قوم نوح، قوم لوط، قوم ہاد و ثمود، یونان، آریائی سب تہذیبیں ملیا میٹ ہورہی تھیں۔ اب فرق یہ ہے کہ جتنی بڑی بڑی وہ اقوام تھیں، اتنی بڑی تعداد صرف آسمانوں کو چھوتی ہوئی ان عمارتوں میں سما جاتی ہے۔ الغرض اس نے اپنے دماغ میں نصب کی ہوئی باریک ریشوں والی جھلیوں کی مدد سے خود کو یکسر تبدیل کرلیا ہے۔ جسے یہ برین چپس کا نام دیتا ہے‘‘
’’میں تمہاری کوئی بات نہیں سمجھ پایا ہوں کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ اورکون سی حیرت انگیز چیزوں کی نشاندہی کررہے ہو‘‘۔
’’مجھے بھی حیرت ہوئی تھی، اور کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ تصویر خود بخود بنتی جاتی ہے۔ بغیر کسی مادی کوشش کے۔ جو کچھ تم دیکھ کر آئے ہو وہ بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں، مگر یہ تصویر اس زمانے سے بھی بہت آگے کی نشاندہی کررہی ہے۔ کائنات کا سفر اب تک ختم نہیں ہوا۔ کیوں نہ ہم اسے باہر کی دنیا کے لوگوں کو بتائیں، تاکہ وہ مستقبل میں جھانک سکیں‘‘۔
’’یہ غلطی بھی مت کرنا۔ میں نے باہر کی دنیا کے لوگوں کو دیکھا ہے۔ بظاہر معصوم مگر بہت چالاک و خطرناک اور جدید علوم سے بہرہ مند ۔ ہم انکے پاسنگ کے بھی نہیں‘‘۔
اس طویل گفتگو کے دوران دونوں اور غار کے دھانے پر بیٹھے ہوئے کتے نے سیر ہو کر بند ڈبوں کی خوراک کھائی، اور سیل بند بوتلوں سے پانی پیا۔ تب ا ن کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں تو دونوں پہلے کی طرح بازو کا تکیہ بنا کر لیٹ گئے۔ پہلا بولا۔
’’کیا معلوم ! اب کی بار جب ہم جاگیں تو ایک بار پھر لمبا عرصہ گزار کر ایک نئے دور اور نئی تہذیب کے درمیان موجود ہوں‘‘۔
’’شاید۔۔۔‘‘
یہ دونوں اس سے بے خبر تھے کہ باہر کی دنیا میں اب شماریات کا کتنا دخل ہے۔ ان کے پاس اپنے ایک ایک بچے بڑے اور بوڑھے کا ریکارڈ ہے۔ پیدا ہونے اور مرنے والوں کا مکمل اندراج۔ جب دوسرا بازار میں کھانے کا سامان خرید رہا تھا تو قدیم چاندنی کے سکوں کی وجہ سے ہزاروں جاسوسی کیمروں نے اس کے اجنبی ہونے کی نشاندہی کردی تھی۔ تب ہی سے شہری نظام کو سنبھالنے والے سپاہی نگرانی کرتے ہوئے غار کے دھانے تک آ پہنچے تھے۔ نیند کی وادیوں میں اترنے سے پہلے دونوں نے قدموں کی آہٹ سنی اور ایک دوسرے کو دیکھا۔
’’کوئی اس طرف آرہا ہے‘‘۔
’’پریشان مت ہو ،ہمیں ڈھونڈنا محال ہے‘‘۔
دونوں نے آنکھیں موند لیں۔ نئی تہذیب کے پروردہ سپاہی اور بھاری وردی اور لوہے کا خول پہنے ہوئے کچھ لوگ غار کے دھانے پر آکر رک گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، کمر پر بندھے ہوئے کلپ کے ذریعے ایک موٹی رسی سے خو دکو مربوط کیا۔ اور ایک دوسرے کے سہارے سر پر بندھے روشنی کے گولوں سمیت غار میں داخل ہوگئے۔ غار کا اندھیرا بتدریج کم ہوتا چلا گیا۔ روشنی نے تمام دیواروں کو منورکردیا۔ داخل ہونیوالے سپاہیوں نے دیکھا کہ غار کی زمین پر تین ڈھانچے اپنے بازوؤں کا تکیہ بنائے ایسے پڑے ہیں جیسے محو استراحت ہوں۔ غار کے دھانے پر دیوار سے لگا ہوا کسی جانور کا پنجرہ وہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔ سپاہیوں نے چاروں طرف گھوم پھر کر غار کا جائزہ لیا تو انہیں دائیں سمت والی دیوار پر بے شمار آڑی ترچھی لکیریں کھنچی ہوئی دکھائی دیں۔ جیسے کسی نے نامانوس زبان میں کچھ لکھنے کی کوشش کی ہو۔ تحقیقات کرنے والے ایک ماہر ارضیات نے ڈھانچوں کو بغور دیکھا تو بولا:
’’مجھے لگتا ہے کہ آج ہم کروڑوں سال پہلے کے تین انسانوں سے ملاقات کررہے ہیں‘‘۔
ماہر ارضیات نے جب مزید قریب سے جائزہ لیا تو اس نے دیکھا کہ تیسرے ڈھانچے کے ہاتھ کی ہڈیوں میں کوئی بھدی سی شے دبی ہوئی ہے۔ اس نے عدسے کی مدد سے جائزہ لیا اور پھر دیوار کی آڑھی ترچھی لکیروں کو دیکھتے ہوئے بولا:
’’دیوار پر جو کچھ ہے ،یہ اس آدمی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے‘‘۔
ماہر ارضیات نے اپنی رائے تو دے دی، مگر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ تیسرا آدمی عالم امر کے قلب، روح، سر، خفی، اخفاء اور عالم خلق کے نفس، خاک ، باد، آتش، آب کی تراکیب سے گزر کرفنا فی الحقیقت کی منزل تک پہنچ کر سالک کے درجے تک پہنچ گیا تھا، اور جسے الہام کے ذریعے خدا کا سچا علم حاصل تھا، اور جو تیسرا ہوتے ہوئے بھی تیسرا نہیں تھا۔ اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کے دوبارہ سونے کے بعد اپنی تخلیق کو آخری ٹچ دیا۔ آخر وہ مرحلہ بھی آگیا جب اس نے کینوس پر سادہ برش چلادیا، سب چہرے سب کردار مٹتے چلے گئے، اب کچھ باقی نہیں تھا۔ کوئی نقطہ کوئی خط کوئی اسکیچ کوئی رنگ کوئی نقش کوئی خد اور نہ کوئی خال۔
اب کینوس عالم ازل کی طرح بالکل سادہ تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.