کالی گھٹا
ٹیکسی روانہ ہوئی توبملانے سوچا، یہ سین بالکل ایسا ہے جیسا فلموںمیں ہوتاہے۔سامنے اس کے اپنے مادھو کے چہرے کاکلوزاپ ہے۔ اتنے قریب کہ وہ اس کے ہلکے سانولے گالوں پرخوب اچھی طرح گھٹی ہوئی داڑھی کی نیلاہٹ کودیکھ سکتی ہے، اس کی ریشمی سفیدقمیص اورریشمی نیلی ٹائی کے نیچے کار کے گردپسینے کے نشان کودیکھ سکتی ہے، اس کے گھنے چمکیلے سیاہ بالوں کے گپھوں کے نشیب وفرازکامعائنہ کرسکتی ہے اوراکتوبر کی گرمی میں مادھو کے بدن سے پھوٹتی ہوئی اس بْو کوبھی سونگھ سکتی ہے جوبیک وقت خوشبو ہے اوربدبوبھی اورجس میں مادھو کے مردانہ جسم کے جوان پسینے کے علاوہ ہیئرڈریسنگ سیلون میں مفت لگایاہوا لوشن بھی شامل ہے اورایک گھٹیاقسم کا فرانسیسی تیزخوشبودارسینٹ بھی ہے اورمادھوکے اس فلمی کلوزاپ کے پیچھے ٹیکسی کی کھڑکی میں سے بمبئی کی سڑکوں پراوربازاروں کا پس منظر دوڑتاہوانظرآرہاہے۔
پریل کی چالیں۔۔۔ جن میں سے ایک وہ اپنے ماں باپ بھائی بہنوں کے ساتھ ایک کھولی میں رہتی ہے اوران چالوں کے پیچھے دھواں اگلتی ہوئی اونچی اونچی ملوں کی چمنیاں اور ان کے پیچھے نیلے آسمان پردوڑتے ہوئے بھورے بھورے بال، سفیدبگلوں کی ایک قطارجوغیرمعمولی خاموشی سے پروازکررہی ہے اورایک چاندی کی طرح چمکتاہوا مچھلی کی شکل کا ہوائی جہاز جوفضامیں معلق معلوم ہوتا ہے۔ نہ جانے کس دیس سے آیاہےاورکس دیس جانے والاہے۔ اس کی نظرآسمان سے زمین پرآئی تودیکھافٹ پاتھ پربیکارٹوکری ڈھونے والے اور فقیردھوپ میں پڑے سورہے ہیںاورکچرے کے ڈرم کے پاس ایک مریل میلی کچیلی بلی کوڑے کے ڈھیر میں کریدرہی ہے، مگراسی وقت اس نے دیکھاکہ گل مہر کے پیڑوں میں شعلوں کی طرح لال لال پھول کھلے ہوئے ہیں اور وہی پیڑجوچنددن تک پہلے تک سوکھے ویران ٹھنٹھ بنے کھڑے تھے جن کی سوکھی ٹہنیوں میں ایک ہری پتی تک نہیں تھی آج اپنے پھولوں کے بوجھ سے جھکے جارہے ہیں۔دفعتاً اسے محسوس ہواکہ دنیا میں اوراس کے اپنے جیون میں بہار آگئی ہے۔بہارآگئی کیوں کہ مادھو آگیاہے۔ اب زندگی کی سب کلفتیں اورمحرومیاں دورہوجائیں گی، اب ہرطر ف پھول کھلیں گے اوران پربھنورے منڈلائیں گے، خوش رنگ پرندے چہچہائیں گے اور ساری فضا میٹھے اورسریلے نغموں سے گونج اٹھے گی۔
مادھو نے ایک نظراس کی طرف دیکھااوربملا کے تن بدن میں ایک جھرجھری سی کوندگئی اورگووہ اس سے دور اپنے کونے میں دبکی ہوئی بیٹھی تھی اور ان کی انگلیوں نے بھی ایک دوسرے کونہیں چھواتھا۔پھربھی ایسامحسوس ہواجیسے اس نے دفعتاً ایک بجلی کے تارکوچھولیاہو اوراس برقی جھٹکے سے اس کی رگ رگ میں ایک میٹھا میٹھادرد دوڑنے لگا۔
’’بمبئی میں آئے ہوئے اتنے دن ہوگئے تمہیں پھربھی دیہاتی لڑکیوں کی طرح اتنا شرماتی ہو؟ سرکوآنچل سے ایسے ڈھانکاہواہے کہ بالکل گھونگھٹ معلوم ہوتاہے۔‘‘ مادھو نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
بملا نے سوچا اب تمہیں کیسے بتائوں کہ سرپرآنچل کیوں ڈالاہواہے، ارے ظالم میں جو کچھ ہوں، جوکچھ میں نے کیاہے، جو کچھ میں سوچتی ہوں وہ تیرے اور صرف تیرے خیال سے ہوتاہے، مگرنہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا تو چھچھوراپن ہوگا، بے شرمی ہوگی اوریہ سوچ کراس نے آنچل کوایک انچ اور آگے سرکالیا اورایک کھسیانی سی مگر محبت بھری مسکراہٹ مسکراکر دوسری طرف کھڑکی کے باہردیکھنے لگی۔
اب ان کی ٹیکسی لال باغ سے ہوکرباٹکلہ کے علاقے سے گزررہی تھی، اینگلوانڈین اورکرسچین لڑکیاں اونچے فراک اور اونچی ایڑی کی سینڈل پہنے بس اسٹینڈ کے کیو میں کھڑی تھیں۔مکان کے چھجوں سے پارسی عورتیں اپنے گھروں کاکچرا فٹ پاتھ پرپھینک رہی تھیں۔ پلیس سنیماپر، ’’دل دے کے دیکھو‘‘ کے بڑے بڑے پوسٹرلگے ہوئے تھے۔ جس میں خوبروشمی کپور نئی نویلی آشاپاریکھ کے ساتھ ناک سے ناک ملاکر انگریزی ڈانس کررہاتھااوربملا نے سوچااگر یہ زندگی نہ ہوتی ایک فلم ہوتا، اگرمیںسواسوروپے ماہوارپانے والے ٹرام کنڈیکٹربنسی لال کی بیٹی بملا نہ ہوتی بلکہ ایک فلم کی ہیروئن ہوتی۔ اورمادھو، مادھونہ ہوتا شمی کپور ہوتا، راج کپور ہوتا، دلیپ کمار اشوک کمارہوتااورکسی اچھے ڈائیلاگ رائٹر نے مجھے یہ سین لکھ کردیا ہوتاتوآج میں کتنے خوبصور ت الفاظ میں اپنے دل کی کیفیت اسے سناتی اور راستے بھر سناتی جاتی اوریہ بھی پروانہ کرتی کہ ٹیکسی ڈرائیور ہماری باتیں سن رہاہے او رکن انکھیوں سے اپنے سامنے لگے ہوئے شیشے میں دیکھتا جارہاہے کہ پیچھے والی سیٹ پر یہ نوجوان لڑکااورلڑکی کوئی گڑبڑگھوٹالا تونہیں کررہے ہیں، مگر زندگی زندگی ہے اورفلم فلم ہے، وہ بملا ہے مدھو بالانہیں بن سکتی، نہ مادھودیوانندبن سکتاہے، ٹیکسی ڈرائیور بھی اصلی ٹیکسی ڈرائیور ہے، فلم کمپنی کاایکٹر نہیں ہے کہ ہیروئن کورومانس کرنے کے لئے آزادچھوڑدے اورٹیکسی کسی اسٹوڈیو میں بیک پروجکشن کے پردے کے سامنے کھڑی نقلی حرکت نہیں کررہی بلکہ سچ مچ ہے، جو ہسپتال سے گزرکربھنڈی بازار کی طرف جارہی ہے۔
بوری اور فوہرعورتیں لمبے لمبے کرتے پہنے فٹ پاٹھ پرلگی ہوئی دکانوں سے پھل ترکاری خرید رہی تھیں، تین برقع پوش لڑکیاں نقابیں الٹے اپنے رنگین آنچلوں اور پائوڈر اورلپ اسٹک لگے چہروں کی نمائش کرتی ہوئی زور زور سے باتیں کرتی چلی جارہی تھیں، پٹرول پمپ کے پاس گٹر کے کنارے ایک سفیدداڑھی والے بزرگ بیٹھے اطمینان سے پیشاب کررہے تھے، بملا نے بے اختیار شرماکرمنہ پھیرا تومادھو کواپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔
’’بملایاد رہے یہ ریکارڈ؟‘‘
ان کی ٹیکسی چوراہے پرما شاء اللہ ہوٹل کے برابرکھڑی تھی، کیوں کہ ٹریفک کانسٹبل نے ہاتھ دکھاکر راستہ روکاہواتھا، ہوٹل میں ریڈیو چالوتھااور ریڈیو پرایک بہت پرانا ریکارڈ بج رہاتھا۔
’’کالی گھٹاچھائی ہوراجہ کالی گھٹاچھائی‘‘
’’بملایاد ہے نہ ریکارڈ؟‘‘ مادھونے پھراپناسوال دہرایا۔
اورجواب دینے سے پہلے ایک لمحے کے وقفے میں بملاکے دماغ میں نہ جانے کتنی یادیں ابھرآئیں اوراس کاذہن وقت اورمکان دونوں کے فاصلوں کوپھلانگتا ہوا دوردورہوکراسی لمحے میں لوٹ آیا۔
’’اسے کبھی بھول سکتی ہوںکیا؟‘‘ اوراسی دم سپاہی نے اپناسگنل تبدیل کیااورایک جھٹکے کے ساتھ ٹیکسی آگے روانہ ہوگئی۔ بملاکاذہن ماضی کی طرف چل پڑا۔۔۔‘‘
جاڑوں کے دن تھے۔وہ نہاکرآنگن میں بیٹھی اپنے لمبے بالوں میں کنگھی کررہی تھی کہ دروازے پرکسی نے کنڈی کھٹکھٹائی، اس کے چھوٹے بھائی بہن اسکول گئے ہوئے تھے، (بملانے خوداسی سال ا سکول جاناچھوڑدیاتھا۔ کیوں کر اس کی ماں کاخیال تھا کہ چودہ برس کے بعدلڑکیوں کااسکول جانا ان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتاہے اوراس لئے اس نے بملاسے کہاتھا کہ پرائیویٹ امتحان کی تیاری کرے) باپ توجب بھی بمبئی میں کام کرتے تھے، سال میں صرف دس پندرہ دن کوکبھی آتے تھے، ماں اس وقت پڑوسن کے ہاں گئی ہوئی تھی، بملا نے سوچا نہ جانے کون آیاہے اس سمے۔
’’کون ہے؟‘‘ اس نے کسی قدر چڑکرکہا کیوں کہ کنگھی بالوں میں الجھ گئی تھی اور زور لگانے سے کتنے ہی بال ٹوٹ کرنکل آئے تھے۔
’’میں ہوں مادھو۔کرایہ دینے آیاہوں۔‘‘
بملا کے باپ بنسی لال نے عمربھر کی جمع جوڑ سے یہ ایک چھوٹا سامکان بنایاتھا جس میں وہ لوگ رہتے تھے۔بنسی لال خود بمبئی میں ٹراموے کمپنی میں کام کرتاتھا۔وہاں جگہ نہ ملنے سے گھروالوں کوجھانسی ہی میں چھوڑاہواتھا، ہرمہینے پچاس روپے بیوی کوبھیجتا مگر اس مہنگائی کے زمانے میں چاربچوں کے ساتھ اتنے میں گزارہ کیسے ہوتا۔سوبملاکی ماں نے گھرکے دوکمرے پانچ پانچ روپے ماہوار میں کرائے پراٹھادیئے تھے، ایک میں میونسپلٹی کا ایک بوڑھا چپراسی رہتاتھا اوردوسرے میں ایک کالج کااسٹوڈنٹ، وہ امتحان پاس کرکے گیاتو اس نے اپناکمرہ اپنے ایک دوست کودے دیاتھا جوکسی گائوں کارہنے والا تھا اورجھانسی میں نیانیاہی آیاتھا۔
مگربملا کونہیں معلوم تھا کہ اس کانام مادھو ہے سوبے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔’’آجائو ا ندردیکھوں مٹی کے مادھو ہویا۔۔۔ ۔۔۔‘‘
اس نے دیکھاکہ سترہ اٹھارہ برس کاایک گنوارساچھوکرا سامنے کھڑاہے، پائوں میں گنوارہ چمرودھے جوتے موٹے کھدر کی دھوتی، آدھی آستینوں کی بنڈی، گلے میں کنٹھاا ورگھٹے ہوئے سر پرلمبی چوٹی۔
’’دفعتاًایک جوان لڑکی کواس طرح سامنے دیکھ کروہ گھبراسا گیا اور آنکھیں جھکاکر بولا۔’’دیوجی آپ نے کچھ کہا؟‘‘
اوربملا جواپنی الہڑزبان درازی کے لئے محلے بھر میں مشہورتھی بولی۔’’میں کہہ رہی تھی کہ دیکھوں کیاتم سچ مچ مٹی کے مادھو ہو مگر تم تونکلے تانبے کے۔‘‘
بے اختیارمادھوکا ہاتھ اپنے گھٹے ہوئے سرپرگیااور گھبراہٹ میں چوٹی میں گرہ باندھتے ہوئے بولا۔’’میرانام مادھورام ہے، آپ کا نیاکرایہ دارہوں۔ کرایہ آپ کو دے دوں؟‘‘
’’وہاں رکھ دو، کھاٹ پہ، پان کی پٹاری میں۔‘‘
نوٹ کوپٹاری میں رکھ کے جاتے جاتے اس نے ایک بار پھر ا، چنچل لڑکی کی طر ف دیکھا تودیکھتاہی رہ گیا۔
’’کیاگھوررہے ہو؟کیاپہلے کبھی کسی لڑکی کوکنگھی کرتے نہیں دیکھا؟‘‘
بملاکے بال سچ مچ بہت ہی لمبے اورگھنے، چمکیلے اورملائم تھے۔پڑوسنیں اکثرپوچھتیں۔’’بملا کی ماںاپنی بیٹی کے سرمیں کونساتیل ڈالوہو۔ ہمیں بھی بتائو۔‘‘ اوربملاکی ماں کہتی۔’’اری بہن وہی کڑواتیل جوتم ڈالو ہو، پرنگوڑے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور گھنے بھی تو کتنے ہیں۔میں توکنگھی چوٹی کرتی کرتی تنگ آگئی ہوں۔میں نے بملاسے کہہ دیاہے۔’’بیٹی اب توبڑی ہوگئی ہے، اپنے بالوں میں خودکنگھی کیاکرو۔‘‘
بملا کوخوداپنے لمبے بالوں پربڑاگھمنڈتھا، اسکول میں وہ دوسری لڑکیوں کے بالوں کی لمبائی سے ان کامقابلہ کرتی رہتی، سب کے سامنے فٹ رول لے کر اپنی چوٹی کوناپتی اور اپنی سہیلیوں سے ہنس کرکہتی۔
’’ارے نگوڑیو! یہ بال میرے قدسے بھی لمبے ہوگئے توکیاکروں گی۔ پھرتم میں سے ایک کومیری چوٹی سنبھالنے کے لئے میرے پیچھے پیچھے گھومناہوگا جیسے کسی ملکہ یامہارانی کاشاہی لباس سنبھالنے کے لئے داسیاں چلتی ہیں۔‘‘
مگراس وقت اس گنوارچھوکرے کوچڑانے کے لئے اس نے کہا’’میں توان نگوڑے بالوں سے تنگ آگئی ہوں۔جی میں آتا ہے ایک دن قینچی لے کربیچ سے کاٹ دوں۔‘‘
جیسے یہ خطرناک عمل اسی وقت سچ مچ ہونے والاہے، مادھو نے گھبرا کر کہا، ’’ہائیں، ہائیں، ایسا نہ کرنادیوجی۔‘‘
’’اچھاجائومعاف کیا، نہیں کروں گی، پرایک شرط پر، خبردار جومجھے کبھی دیوجی کہا، ایسا لگتاہے جیسے میں سفیدبالوں والی بڑھیاہوں یامندرمیں رکھی ہوئی کالی کی مورتی۔میرانام ہے بملا۔‘‘
اگلے مہینے جب مادھو کرایہ دینے آیاتو ماں گھرمیں موجود تھی، بملا سے اس کی کوئی بات نہیں ہوئی، مگربملانے دیکھاکہ مادھو کے گھٹے ہوئے سر پربال اگ آئے ہیں اور چوٹی چھوٹی ہوگئی ہے۔
اس سے اگلے مہینے جب وہ آیاتو ماں مندرگئی ہوئی تھی اورچھوٹے بہن بھائی چھت پرکھیل رہے تھے۔بملا نے دیکھا کہ مادھو کے سر سے چوٹی غائب ہوگئی ہے اورنئے اْگے ہوئے بالوں میں انگریزی ڈھنگ کی حجامت کرائی گئی ہے، دھوتی کے بجائے پاجامہ اوراونچے کالرکاکھدر کاکرتا پائوں میں لئے چپل۔
’’ارے مادھوتمہاری چوٹی کیاہوئی؟‘‘
کالج میں لڑکے ہنستے تھے دیو میرامطلب ہے بملا۔‘‘ اور پھرجھینپ مٹانے کے لئے جلدی سے بولا۔’’تمہارے بال تواور بھی لمبے ہوگئے ہوں گے؟‘‘
’’ہاں کمبخت بڑھتے ہی رہتے ہیں۔ ساڑھے تین فٹ ہوگئے ہیں۔‘‘
اوراب ہرمہینے کایہ معمول ہوگیاکہ جب کبھی ان کوالگ بات کرنے کا موقع ملتا تومادھو بالوں کی لمبائی کے بارے میں یہی سوال کرتا اوربملا بھی جواب دینے کے لئے فٹوں اورانچوں کاپورا حساب تیاررکھتی اوراس طرح وقت گزرتا گیا، بملا کے بال بڑھتے گئے اورمادھو اب قمیص پتلون میں مٹی کے مادھو کے بجائے مسٹرمادھو رام دکھائی دینے لگا۔
ایک دن ماں نے بملا سے کہا۔’’اری بھوشن کے امتحان میں اب دوہی مہینے رہ گئے ہیں۔ میں توتجھے کبھی پڑھتے دیکھتی نہیں، پاس کیسے ہوگی اور پاس نہیں ہوگی توتیرابیاہ کیسے ہوگا؟پرائمری پاس لڑکوں کوتوآج کل پٹواری بھی نہیں جڑتا۔‘‘
اوربملا نے کہا۔’’ماں پڑھوں کیسے کوئی پڑھانے والا بھی توہوناچاہئے۔ اسکول تم جانے نہیں دیتیں۔اپنے آپ سے پڑھتی ہوں۔ توکتاب میری سمجھ میں نہیںآتی۔
اتنے میںدروازے پرکنڈی کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔
’’کون ہے؟‘’بملاکی ماں نے اپنی گرجدارآوازمیں پکارا۔
’’ماں جی، میں ہوں، مادھوکرایہ لایاہوں۔‘‘
عام طورسے بملاکی ماں کرایہ داروں سے بڑی سختی سے پیش آتی تھی۔ایک دن کی بھی دیرہوجائے تو خوب ڈانٹ پلاتی تھی۔آج مادھو ڈرتا ڈرتاآیاتھا۔ کیوں کہ اس باراسے کرایہ دینے میں پورے سات دن کی دیرہوگئی تھی۔ سوجب اسے اندرآنے کوکہا گیا تو اس نے ماں جی کونہایت ادب سے نمستے کرکے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔’شماکرناماں جی اس مہینے اتنی دیر۔۔۔ ۔۔۔‘‘
لیکن بملا کی ماں نے بڑی ملائمت سے کہا۔’’کوئی بات نہیں بیٹا۔ دیرسویر تو ہوہی جاتی ہے۔‘‘ اورپانچ کانوٹ پٹاری میں رکھتے ہوئے بولی۔’’کیوں رے مادھوتوکون سے درجے میںپڑھے ہے؟‘‘
’میں ایف۔اے میں ہوں ماں جی۔‘
اچھا، بھلاکیاکیاپڑھے ہے توکالج میں؟‘‘
مادھوکی سمجھ میں نہیںآیاکہ ماں جی کوآج دفعتاً اس کی تعلیم میں اتنی دلچسپی کیسے ہوگئی ہے۔
’جی۔انگریزی پڑھتاہوں، اکنامکس، اتہاس۔‘‘
’’اورہندی؟ہندی نہیں پڑھتا۔‘‘
’’وہ بھی پڑھتاہوں۔ پراس میں مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، میں کالج میں آنے سے پہلے ہی پربھاکر کاامتحان پاس کرچکاہوں۔‘‘
’’پربھاکرپاس کرچکاہے؟تب توبیٹا بہت ہندی پڑھاہواہے، بھوشن جیسے چھوٹے امتحان کے واسطے توتواسکول میں ماسٹربھی ہوسکتاہے۔‘‘
’’جی ہاں مگرمیں آگے پڑھناچاہتاہوں، ابھی نوکری نہیں کرناچاہتا۔‘‘
’’نوکری کی بات نہیں بیٹا، میں کچھ اورہی سوچ رہی تھی۔‘‘
اورسویہ ہواکہ اگلے دن سے مادھو نے بملا کوہندی پڑھاناشروع کردیا۔ پہلے توجب وہ پڑھانے آتا۔بملاکی ماں سارے وقت وہیں بیٹھی رہتی لیکن اس کودیکھ کریہ اطمینان ہوگیاکہ مادھو اس کی بیٹی کی طرف نظربازی نہیں کرتا، جلدی جلدی سبق پڑھاکرچلاجاتاہے۔ بملابھی مادھو میں کوئی خاص دلچسپی نہ لیتی اور کبھی ذکربھی کرتی تواس اندازمیں کہ، ’’ماں اور وہ تمہارامٹی کامادھو آج اب تک نہیں آیا۔‘‘ اورماں کوکہناپڑتا۔’’بیٹی ماسٹر کانام ادب سے لیاکر۔گروکا استھان بہت اونچا ہوتاہے۔‘‘
وقت گزرتا گیا۔بملا کے قدکے ساتھ اس کے بال بھی اوربڑھتے گئے اور اس کاچنچل مزاج دھیما اورشانت ہوتا گیا۔مادھو نے اب قمیص کے کالرپرٹائی لگائی اوربالوں میں ٹیڑھی مانگ نکالنی شروع کردی، بملا امتحان میں بیٹھی اور ڈیڑھ مہینے بعدخط ملاکہ وہ تیسرے درجہ میں پاس ہوگئی، ماں نے خوش ہوکر بانٹنے کے لئے مٹھائی منگائی اوربملا سے کہا۔’’بیٹی سب سے پہلے مادھو کومٹھائی کھلاکر آ۔امتحان میں تو اس بیچارے کی محنت کی وجہ ہی سے پاس ہوئی ہے۔‘‘
بملا آج تک مادھو کے کمرے میں نہیں گئی تھی، ہاتھ میں مٹھائی کادونالئے سرپرپلوڈالے دروازے پرجاکردھیرے سے کھٹکھٹایا۔اندر سےآوازآئی، ’’کون ہے؟اندرگئی تو دیکھامادھوپلنگ پرپڑاسگریٹ پی رہا ہے، بملاکودیکھتے ہی بڑبڑاکراٹھ بیٹھااورسگریٹ کھڑکی میں سے پھینک دی جیسے چھوٹاسا بچہ بیڑی پیتے ہوئے پکڑاگیاہو۔
’’تم سگریٹ پیتے ہو؟‘‘ بملاکویہ دیکھ کراتناتعجب ہواکہ وہ امتحان کی خبربتانااورمٹھائی دینابھی بھول گئی۔
’’ہمیشہ نہیں۔کبھی کبھی۔۔۔ مگرتم یہاں کیسے؟ماں جی کیاکہیں گی؟‘‘
’’ماں جی ہی نے بھیجاہے یہ مٹھائی دینے کے لئے۔میں امتحان میں پاس ہوگئی ہوں۔‘‘
’’اورمیں۔۔۔؟‘‘ وہ کچھ کہناچاہتاتھا، مگررک گیااور بات بدل کربولا۔
’’یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے بملا، لائومٹھائی کھلائو۔‘‘
’’یہ لو۔‘‘ بملانے دونابڑھایا۔
’’یوں نہیں اپنے ہاتھ سے کھلائو۔‘‘
بملا نے ادھرادھردیکھا، وہ لمحہ اوراس کی تمام تفصیلات بملا کی یادمیں ہمیشہ کے لئے منجمدہوگئیں، دروازے پرپردہ پڑاہواتھا، کھڑکی کے باہرنیم کے پیڑ پرکبوتروں کی ایک جوڑی بیٹھی غٹرغوں غٹرغوں کررہی تھی، پڑوس میں کہیں گرامو فون پرکوئی گھساہواریکارڈ بج رہاتھااورکتابوں سے لدی ہوئی میز کے گردایک چمکیلے نیلے پروں والی شہدکی مکھی بھنبھنارہی تھی۔
ہاتھ میں پیڑالیے ہوئے وہ آہستہ آہستہ مادھوکی طرف بڑھی قریب۔ اورقریب۔اورقریب یہاں تک کہ وہ اس کی گرم گرم سانس کالمس اپنے گالوں پر محسوس کرنے لگی، اس نے پیڑامادھو کے منہ کی طرف بڑھایا اورکہا۔’’منہ کھولو۔‘‘ مادھونے منہ کھولااور آنکھیں بندکرلیں۔بملا نے پیڑامنہ میں رکھا تو مادھو نے اس کی انگلی کاٹ لی، بملا کودانت کاٹنے سے کوئی تکلیف نہیں محسوس ہوئی مگر اسے مادھوکے ہونٹ جلتے ہوئے لگے اور اس نے جلدی سے انگلی کھینچ لی۔ جیسے آگ میں جھلس گئی ہو۔
اورپھر نہ جانے یہ کیسے ہواکہ وہ آنکھیں بندکرکے مادھو کی آغوش میں گرگئی اوراسے معلوم ہواکہ دہکتے ہوئے ہونٹوں پردہکتے ہوئے ہونٹ رکھ دیئے جائیں تواس لمحے میں انسان زندگی کی تمام اذیتوں اورزندگی کی تمام راحتوں سے آشناہوجاتاہے۔ دنیا گھومتے، گھومتے رک گئی، میزپررکھی ہوئی ٹائم پیس کی ٹک ٹک جووقت کی آوازتھی۔ نہ جانے کس سناٹے میں گم ہوگئی۔صرف نیم کے پیڑپرکبوترغٹرغوں غٹرغوں کرتے رہے، شہدکی مکھی کی بھنبھناہٹ ایک لاہوتی موسیقی میں تبدیل ہوگئی اورپڑوس کے گرامو فون کی سوئی جو’’کالی گھٹاچھائی ہوراجہ کالی گھٹاچھائی‘‘ کافلمی ریکارڈ بیٹھی ہوئی آوازمیں سنارہی تھی ایک مقام پرپہنچ کراٹک گئی اوراب صرف دوبولوں کالامتناہی سلسلہ سنائی دیتا رہا۔ کالی گھٹا، کالی گھٹا، کالی گھٹا، کالی گھٹا، کالی گھٹا، کالی گھٹا۔‘‘
اورپھرایک جھٹکے کے ساتھ گراموفون بندہوگیا۔ کبوترو ں کی جوڑی پھرکرکے ہوامیں اڑگئی اور دوپہر کے سناٹے میں ٹائم پیس کی ٹک ٹک دفعتاً ایسی سنائی دی جیسے وقت دماغ پرہتھوڑے مارمارکراپنی اہمیت کومنوارہاہو، بملا تڑپ کرمادھوکی آغوش سے نکل گئی اوراس کے بال جودیرسے نہانے کے بعداس نے جلدی جلدی جوڑے میں باندھ لئے تھے اب کھل کراس کے شانوں پرلہراگئے، اس نے گھبراکرگھڑی کی طرف دیکھا۔ کمرے میںآئے ہوئے اسے تین منٹ بھی نہ ہوئے تھے، مگراتنے سے عرصے میں دنیاہی بدل گئی تھی۔
’’کالی گھٹا۔‘‘ مادھو نے کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’کیا؟وہ ریکارڈ۔‘‘ بملا نے جلدی سے پوچھا۔
’’نہیں ریکارڈنہیں یہ تمہارے بال، یہ بھی توکالی گھٹاسے کم نہیں۔‘‘
اوربملا نے شرماکراپنے بالوں کوآنچل میں چھپالیااور بولی۔’’چلوچلومذاق چھوڑواورمٹھائی کھائو۔‘‘
’’بملا تم توپاس ہوگئیں، مگر میں۔۔۔ فیل ہوگیا۔‘‘
’’تم فیل ہوگئے!کیوں؟کیسے؟تم توہروقت کتاب پڑھتے رہتے تھے۔‘‘
’’پڑھتاتوتھابملا۔پرمیرامن ان کتابوںمیں نہیں لگتاتھا کچھ اورہی سوچتا رہتاتھا۔‘‘
’’کیاسوچتے تھے؟‘‘
’’سچ بتادوں؟۔تمہارے اوراپنے بارے میں سوچتا تھا۔‘‘
بملاشرماکرخاموش ہوگئی، مادھوبولتا رہا۔’’بملا اگرمجھے تمہاری طرف سے ذرابھی آشا ہوتو میں بہت جی لگاکرپڑھو ں گا۔اگلے برس ضرورپاس ہوں گا۔ ہم گھر کے بہت غریب ہیں مگرمیں بی اے کرلوں گا تومجھے ضرور اچھی سی نوکری مل جائے گی۔ پھرتوشاید ماں جی کوانکارنہیں ہوگا؟کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘
بملا نے ساڑی کاپلوٹھیک کرتے ہوئے کہا۔’’میں کیاجانوں، جب وقت آئے گا تو ماں جی سے پوچھنا۔’‘مگرجس اندازمیں اس نے یہ کہا اورجس انداز سے اس نے مادھوکی طرف دیکھا۔اس میں اقرارہی اقرارتھا اورپھروہ وہاں سے چلی آئی۔
گھرآئی توماں نے کہا۔’’اری کہاں رہ گئی تھی اتنی دیرکردی۔‘‘ مگراس سے پہلے کہ بملا کوئی بہانہ بناسکے۔ماں نے ایک خط اس کے سامنے رکھ دیا۔
’’ذرایہ توپڑھ تیرے بابا کی چٹھی آئی ہے بمبئی سے، میراتوڈاکیے کودیکھ کرہی دل دھکڑپکڑکرنے لگتاہے۔ہاں توکیالکھاہے؟‘‘
’’ماں بابانے لکھاہے کہ مجھے رہنے کواچھاکمرہ مل گیاہے۔کوئی جگہ ہے پریل وہاں۔سووہ کہتے ہیں۔ تم لوگ گھرکوکرایہ پرچڑھاکریہاں آجائو۔‘‘
سوبملا اور اس کی ماں اوراس کے بھائی بہن سب بمبئی چلے آئے اوراپنے جھانسی والے تین کمروں، ایک برآمدے اور ایک چھوٹے سے آنگن والے مکان کے بجائے پریل کی ایک چال کی ایک کھولی میں رہنے لگے۔یہ کھولی اتنی چھوٹی تھی کہ رات کوبنسی لال اوردونوں لڑکوں کوباہربالکنی ہی میں سوناپڑتاتھا، مگراس کے لئے بھی چارسوروپے پگڑی کے دینے پڑے تھے اوربیس روپے ماہوار کرایہ تب ہی توہزاروں بیچارے ہررات کوفٹ پاتھ پرسوکرہی زندگی گزاردیتے تھے، بملا نے ایک دن اپنے باپ سے پوچھا۔’’باباان لوگوں کواس پتھریلے فٹ پاتھ پرکیسے نیند آتی ہوگی۔‘‘ اوراس نے ایک ٹھنڈی سانس لے کرکہا۔’’بیٹی نیندکہیں بھی آسکتی ہے۔‘‘ بملانے جھجھکتے ہوئے پوچھا’’بابا کبھی تم بھی فٹ پاتھ پرسوئے ہو۔‘‘ اوراس کا جواب سن کروہ حیرت میں رہ گئی۔’’ایک دودن نہیں بملا، مہینو ں، گیارہ برس پہلے جب میں بمبئی آیاتھا، تو ٹرام کمپنی میں نوکری ملنے سے پہلے بیکاری کے دن فٹ پاتھ پرہی سوکرگزارے ہیں۔‘‘
کھولی چھوٹی تھی مگربمبئی شہربہت بڑاتھا اور جلدہی بمبئی کی رنگین گہماگہمی میں بملاکھولی کی زندگی کی مشکلات کوبھول گئی، بالکنی ہی میں کھڑے کھڑے وہ گھنٹوں سیرکرتی رہتی، کالی، نیلی، لال، پیلی، سفیدہررنگ اور ہرسائزکی موٹریں ہروقت دوڑتی رہتیں، دومنزلہ بسیں اوردومنزلہ ٹرامیں مست ہاتھیوں کی طرح جھومتی ہوئی گزرتیں اورلوگوںکاتانتاتوکبھی ٹوٹتاہی نہیں تھا، رات کے بارہ بجے بھی جب قریب کی مل میں شفٹ بدلتاتوسڑک پرمیلہ لگ جاتا، سامنے مختلف فلموں کے بڑے بڑے رنگین پوسٹرلگے ہوئے جن پرفلم اسٹاروں کی بڑی بڑی خوبصورت تصویریں ہوتیں، ہرروز ان میں سے کوئی نہ کوئی پوسٹرغائب ہوجاتا اور اس کی جگہ کسی نئے فلم کا پوسٹر آجاتا اور پھربنسی لال مہینے میں دوباراپنے گھروالوں کے ساتھ ان ہی میں سے کوئی فلم دیکھنے جاتا اورپانچ آنے کاٹکٹ لے کربملا ایک محل جیسے عالیشان سنیماہال میں بیٹھ کرفلم دیکھتی اور حسن وعشق ناچ اورگانے کی روپہلی دنیا میں کھوجاتی مگرپھرکوئی ہیرو کسی ہیروئن سے کہتا۔’’تم مجھے بھول جائو کملا، ہمارے لئے یہی بہترہے‘‘ توبملاسوچتی بھلایہ کیسے ممکن ہے کوئی کیسے کسی کو بھلا سکتا ہے کیامیں مادھو کوبھلاسکتی ہوں؟ اورمادھو کی یاداس کے دل میں چٹکیاںلینے لگتی اوراس کے ہونٹ دوجلتے ہوئے ہونٹوں کے خیال سے دہکنے لگتے۔
ان کوبمبئی آئے ایک مہینہ ہی گزراتھا کہ جھانسی سے ایک رجسٹری لفافہ آیاجس میں پانچ روپے کانوٹ تھا اور ساتھ میں ایک خط، خط ماں جی کے نا م تھا، مگرپڑھ کرسنایابملا نے اوردوسطریں پڑ ھ کرہی وہ سمجھ گئی کہ مضمون دراصل اسی کے لئے ہے، لکھا تھا، ’’ماں جی نمستے جب سے آپ لوگ گئے ہیں۔گھرمیں سب کرائے دار آپ سب کوبہت یادکرتے ہیں، پڑوس میں منشی کرامت علی بھی کل یہی کہہ رہے تھے کہ بنسی لال کاپریوار جب سے گیاہے اپنی گلی میں رونق ہی نہیں رہی اورہاں وہ وکیل صاحب جن کوآپ نے مکان کرائے پردیاہے، کہہ رہے تھے کہ انہوں نے آپ کے کہنے کے مطابق سفیدی کروالی ہے۔اس کے ساڑھے پانچ روپے پہلے مہینے کے کرائے میں کاٹ لیں گے اور ہاں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ گھرکی صفائی ہورہی تھی توسامنے والے کمرے کی الماری میں ایک کالی کنگھی ملی ہے وہ انہوں نے مجھے رکھنے کودے دی ہے، یہ شاید بملابی کی ہوگی کیوں کہ جوبال اس میں الجھے ہوئے تھے وہ بڑے لمبے لمبے تھے، سووہ اگرکہیں توڈاک سے بھیج دوں نہیں توجب آپ لوگ ادھرآئیں گے تو لے لیجئے گا۔باقی سب خیریت ہے، شری بنسی لال جی کونمستے اورہاں اس لفافے میں پانچ روپے کا نوٹ بھیج رہاہوں اس مہینے کاکرایہ، کرپاکرکے اس کی رسیدضروربھجوادیں، کیوں کہ آج کل ڈاک کانظام کچھ ٹھیک نہیں۔‘‘
خط پڑھ کربملاکے گالوں پرایک تمتماتی ہوئی لالی دوڑگئی۔’’کتناڈھیٹ ہے یہ مادھو، کنگھی کی کہانی کیسی گھڑی ہے حالانکہ یہ کنگھی آتے ہوئے خودبملا نے اسے نشانی کے طورپردی تھی اورمادھو نے اصرارکیاتھا۔ مجھے کنگھی کے ساتھ اس میں الجھے ہوئے تمہارے سرکے بال بھی چاہئیں، کتنامکار ہے یہ مادھو، روپے منی آرڈرکرنے کے بجائے رجسٹری سے بھیج کر ان کی رسید کے بہانے جواب منگوانے کاانتظام بھی کرلیا۔ سوایساہی ہوا۔بنسی لال کا م پرجانے لگاتو بیوی نے چلاکرکہا۔’’اجی او، ایک پوسٹ کارڈالیتے آنا، مادھو کو جواب لکھناہے اورروپے جوبیچارے نے بھیجے ہیںان کی رسیدبھی بھیجنی ہے، بڑا ہی اچھا چھوکراہے، کرائے کے ساتھ خط بھی بھیجاہے، نہیں توآج کل آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔’’ کون کسی کوپوچھتاہے۔‘‘ بملا نے سوچاکارڈ پرمیں بھی دوچارشبداپنی طرف سے لکھ دوں گی مگرجب اس کی ماں لکھوانے بیٹھی تواتناکچھ بولاکہ دو نوں طرف سے کارڈبھرگیااورآخرمیں وہ اپنی طرف سے صرف اتنا لکھ پائی۔
’’بملاتمہیں یادکرتی ہے۔‘‘
ہفتہ کے دن بنسی لال نے کہاآج سنیمانہیں اپالوبندرکی سیرکوچلیں گے، ٹرام میںبیٹھ کر میوزیم اترے، پہلے توعجائب گھردیکھابملاکوایسے لگاجیسے اس کی اسکول کی ساری کتابیں زندہ ہوگئی ہیں، ایسی سندرمورتیاں توجھانسی کے کسی مندرمیں بھی نہیں۔ یہ بڑی بڑی تصویریں اوربھس بھرے ہوئے جانور، شیر، چیتے، جنگلی بھینسے شیشوں کے پیچھے نقلی جنگل میں کھڑے بالکل اصلی لگتے تھے، پھر عجائب گھرسے نکل کر وہ سمندرکے کنارے گئے جہاںبڑے بڑے جہازجناتی خچروں کی طرح دوڑتے پھررہے تھے۔گیٹ وے آف انڈیاکے سائے میں بچے کھیل رہے تھے۔ پاس ہی چاٹ بک رہی تھی۔سب نے دودوآنے کی چاٹ کھائی۔پھربچے دوڑنے بھاگنے لگے، بنسی لال نے کہا۔’’ میں تو تھک گیا۔‘‘ اوربملا کی ماں بولی’’بملاتو ان شیطانوں کا خیال رکھیو۔کہیں پانی میں نہ جاگریں۔‘‘
بچے پہلے توگیٹ وے آف انڈیامیں کھیلتے رہے۔پھر وہ تاج محل ہوٹل کی طرف دوڑے کہ شیشوں میں سے ہوٹل کی رونق دیکھیں گے اوربملا ان کے پیچھے دوڑی کہ کہیں سڑک پارکرتے ہوئے کسی موٹرکے نیچے نہ آجائیں، ایک شیشے میں سے جھانکاتواندرہوٹل میں امیرلوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔بینڈبج رہاتھا اورایک میم کچھ گارہی تھی لیکن اس کی آوازشیشے کی دیواروں میں قیدتھی اوران کوایسالگاجیسے وہ صرف ہونٹ ہلارہی ہے اور ہاتھوں کے اشارے کررہی ہے۔ اگلے شیشے میں جھانکاتودیکھا کہ لمبی گدے دارکرسیوں پرسفیدکفن اوڑھے مردے پڑے ہیں اورسفید کوٹ پہنے ہوئے لوگ لمبے لمبے دھاردارچاقولئے ان مردوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ چھوٹاموہن ڈرکے مارے بہن کوچیک گیا، ’’دیدی یہ قصائی ہیں کیا؟‘‘ بملانے غورسے دیکھا تومعلوم ہواکہ یہ سفیدکوٹوں والے باربرہیں جوصاحب لوگوں کی داڑھیاں مونڈ رہے ہیں۔ اگلے شیشے میں بے جان میمیں ریشمی فراک پہنے کھڑی تھیں۔ اس سے آگے کے شیشے کے پیچھے میموں کے کٹے ہوئے سرسجے ہوئے تھے، کسی کے سرپر سنہری بال، کسی کے کالے، کسی کے بھورے، کسی کے گھونگریالے۔کسی کے بالکل مردوں کی طرح کٹے ہوئے، کسی کی لمبی چوٹیاں اوران کے قریب ہی بالوں کی نقلی چوٹیاں لٹکی ہوئی تھیں۔بملا نے سوچا ان نقلی چوٹیوں کاکیاہوتاہوگا اوردل ہی دل میں ان کی لمبائی کااپنے بالوں کی لمبائی سے مقابلہ کیااوریہ سوچ کرمسکرادی کہ بھلا میرے بالوں کی لمبائی کا کون مقابلہ کرسکتاہے۔
اندرسے ایک کالی میم نکل کرباہر جارہی تھی، بملا نے ہمت کرکے اس سے پوچھا۔’’میم صاحب یہ بال یہاں بکتے ہیں کیا؟‘‘
میم بولی۔’’ہاں ہاں، ادھران کاسیل ہوتاہے۔‘‘
’’مگرمیم صاحب یہ آتے کہاں سے ہیں کیامردوں کے بال کاٹ لیتے ہیں؟‘‘
’’نونو۔‘‘ میم ہنس کربولی۔’’بندہ لوگوں کابال ادھرآتاہے۔‘‘ اورپھرجیسے ہی اس کی نظربملا کی ناگن کی طرح لہراتی ہوئی لمبی چوٹی پرپڑی اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔’ ’چھوکری تمہارایہ بال اصلی ہے یانقلی؟‘‘
’’بالکل اصلی ہے میم صاحب۔‘‘
’’ویری گڈ ان بالوں کاہم تم کوبہت دام دے سکتاہے، ٹورپیزاین انچ۔تم کوکوئی سوروپیہ مل سکتاہے۔‘‘
’’جی کیاکہامیم صاحب؟تم چاہتی ہومیں اپنے بال کٹوادوں۔ نہیں جی مجھے شماکرو۔‘‘
اورپھربچوں کوگھسیٹتے ہوئے، ’’چلوچلویہاں سے بھاگ چلیں کہیں یہ میم صاحب بالوں کے بعد میراسربھی نہ کاٹنے لگیں۔‘‘
سووقت گزرتا گیا۔ہرمہینے مادھوکا خط آتارہااورماں کی طرف سے بملا جواب لکھتی رہی مگر ایک مہینے مادھو کاخط جو آیاوہ رجسٹری نہیں تھا، سادے لفافے میں تھااورجب وہ کھو لاگیاتو اس میں پانچ کانوٹ بھی نہیں تھا، لکھا تھا،، ’’ماں جی مجھے بڑی شرمندگی ہے کہ اس باروقت پرآپ کوکرایہ نہیں بھیج پایا ۔ امتحان قریب آگیاہے۔ اس کے لئے ایک کتاب خریدنی تھی۔کرائے کے روپوں سے وہ خریدلی۔پندرہ دن میں امتحان کی فیس بھرنی ہے۔لگ بھگ سوروپے چاہئیں مگرمیرے پتاجی کی حالت خراب ہے۔اس برس فصل خراب ہوئی ہے۔ جانوروں کی بیماری میں دوبیل بھی مرگئے۔ اس لئے انہوں نے صاف لکھ دیاہے۔ میں توکوئی انتظام نہیں کرسکتا۔ اس وجہ سے میں بہت پریشان ہوں، سب رشتہ داروں، دوستوں کومددکے لئے لکھ رہا ہوں۔دیکھئے کسی نے وقت پر روپے بھیج دیئے توٹھیک ہے۔ ورنہ ایک سال اوربیکارہوجائے گا۔ایک سال توپہلے ہی فیل ہوکرکھوچکاہوں، ایشور سے پرارتھنا کیجئے کہ کوئی بندوبست ہوجائے۔ شری بنسی لال کونمستے ۔بملا سے کہئے گااگرمجھے یہ گھر چھوڑناپڑاتو اس کی کنگھی ڈاک سے بھیج دوں گا۔‘‘
بملا نے سوچاسوروپے کہاں سے لائوں یہ توبہت بڑی رقم ہوتی ہے۔ بابا مہینے بھرآٹھ گھنٹے روزٹرام چلاتے ہیں۔ تب سب کچھ کٹ کٹاکرسوروپے ملتے ہیں۔ اس کے پاس تو کوئی سونے کازیوربھی نہیں کہ وہ ہی بیچ ڈالے، چاندی کے دوتین گہنے ہیں، ایک ہنسلی، ایک چھاگل، ہاتھوں کی چارچوڑیاں، نہ جانے چاندی کاکیابھائوہے؟اس نے سوچا۔ اگلے دن ماں کی نظربچاکر اس نے گہنوں کواپنی ساڑی کے پلومیں باندھا اورقریب کے ایک سنار کے ہاں پہنچی۔ اس نے آنگ کرسب گہنوں کی اٹھارہ روپے قیمت لگائی مگر ساتھ میں یہ بھی کہاکہ بیچنے والے کونام و پتہ بھی رجسٹرمیں لکھواناپڑے گا، بملا ڈری کہ ماں باپ کو معلوم ہوگیا توپٹائی ہوجائے گی۔جلدی سے بولی، میںاپنا نام نہیں لکھوانا چاہتی۔ سنار نے اسے ایسی نظرسے دیکھاجیسے وہ یہ گہنے چراکرلائی ہو، ’’اچھاایساہے تب تومیں پندرہ روپے سے زیادہ نہیں دے سکتا۔‘‘ مگرپندرہ روپے سے سوروپے کاکام کیسے چلے گا، یہ سوچ کروہ چلی آئی۔
کئی دن تک وہ اسی سوچ میں رہی کہ مادھو کوسوروپے بھیجوں تو کیسے بھیجوں لیکن کوئی ترکیب سمجھ میں نہ آئی، رات کی نیندبھی اڑگئی، صبح ہوتے آنکھ بھی لگتی تو خواب دیکھتی کہ زمین سے لے کرآسمان تک اونچی ایک سیڑھی ہے اور اس کے نیچے مادھو کھڑاکہہ رہاہے۔’’بملا یہ ترقی کازینہ ہے پرسوروپے فیس دیئے بنااس پر چڑھنے کی اجازت نہیں مل سکتی، کبھی دیکھتی سمندرمیں طوفانی لہریں اٹھ رہی ہیں اوران لہروں میں مادھوغوطے کھارہاہے۔ بملااسے دیکھ کرسمندر میں کودپڑتی ہے اورغوطے کھانے لگتی ہے اس وقت مادھوچلاکرکہتاہے۔’’بملا جلدی سے سوروپے کا نوٹ ساگردیوتا کی بھینٹ کرنہیں توہم دونوں آج ڈوب جائیں گے۔‘‘ اورکبھی سپنے میں اسے محسوس ہوتاکہ دوجلتے ہوئے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست ہوئے جارہے ہیں اور وہ اذیت بھری مسرت کے اندھیرے میں ڈوبتی جارہی ہے کہ دفعتاً کوئی شیطانی ہاتھ مادھوکواس کی آغوش سے گھسیٹ کر دور ایک چٹان پرپٹخ دیتاہے اورایک ڈرائونی آوازسپنے میں بھی اس کادل دہلادیتی ہے، ’’پہلے سوروپے لائوسوروپے۔‘‘
چیخ مارکراس کی آنکھ کھلی تودن چڑھ چکاتھا اوراس کی ماں کہہ رہی تھی، ’’اری کیاہوا؟سپنے میں ڈرگئی تھی کیا؟‘‘
اس دن بملا نے ماں سے کہا۔’’باباکوبہت محنت کرناپڑتی ہے ماں، پھربھی ہماراخرچہ پورا نہیںہوتا، میں بھی کہیں نوکری کرلوں توکیساہو؟‘‘ پہلے تواس کی ماں کویہ خیال ہی برا لگا، ’’پاگل ہوئی ہیری ایسے بدنظرشہرمیںچھوکریوں کاکام پرجانامجھے توبالکل نہیں پسند، کرسچین چھوکریوں کی بات اور ہے۔‘‘ مگرکچھ سوچ کریہ بھی کہا۔’’خیرتیرے باباآئیں گے توان سے کہوں گی تو جانے اوروہ جانیں۔‘‘ بملا کا خیال تھابابا کبھی اجازت نہیں دیں گے مگربنسی لال نے بیوی کی بات سن کرکہا۔’’ٹھیک توکہتی ہے بملا اس تنخواہ پرتومیں ان بچوں کوبمبئی میں نہیں پڑھاسکتا، بملا کی چھوٹی موٹی نوکری لگ جائے تو بڑا سہاراہوجائے گا۔‘‘ اورپھربملا سے۔’’بڑے وقت پریادآیا، اری تونے ہندی کابھوشن پاس کیاہے نا؟ بس پھرکام بن جائے گا۔اپنے پڑوسی ہیں نارتن لال جی، وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی مل میں جوسوشل ورکر ہیں وہ مزدوروں کے لئے ہندی کلاسیں کھولناچاہتی ہیں انہیں ضرورہندی ٹیچروں کی ضرورت ہوگی۔‘‘
باہربورڈ پرلکھا تھا’’مس سیتادیوی رام چندرسوشل ورکرز‘‘ مگربملااندر جو پہنچی تو دیکھا سفیدکرتا پاجامہ پہنے ایک دبلاساگوراسا لڑکابیٹھاہے۔
’’جی شماکیجئے۔میں سیتادیوی جی سے۔۔۔ ۔‘‘ اوریہ کہتے ہوئے وہ الٹے پیروں لوٹناچاہتی تھی کہ اس’’ لڑکے‘‘ نے اشارے سے اسے روکااورمسکراکرکہا۔
’’میں ہی سیتادیوی ہوں، کہوکیاکام ہے؟‘‘
تب بملانے دیکھاکہ’’لڑکا‘‘ دراصل اس سے عمرمیں کچھ بڑی لڑکی ہے۔ جس کے بال لڑکوں کی طرح چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے ہیں اورجوکھدر کاکرتا اور لڑکوں جیساڈھیلے پایئنچو ں کاکھدرکاپاجامہ پہنے ہوئے ہے ا ور نہ جانے کیوں بملا کویوں محسوس ہواجیسے اس سیتادیوی کے لڑکوں جیسے بال اس سے کچھ کہہ رہے ہیں مگر وہ کیاکہہ رہے ہیںیہ وہ اس وقت نہ سمجھ سکی۔
اس کے بھوشن کے سرٹیفکیٹ پڑھ کرہی سیتادیوی نے بملاکوہندی ٹیچرکی نوکری دینا منظورکرلی، کام صرف چارگھنٹے روزاورتنخواہ صرف پچاس روپیہ ماہوار ہفتے میں ایک دن چھٹی سال میں ایک مہینے چھٹی۔’’اورپیشگی؟کیادومہینے کی تنخواہ پیشگی مل سکے گی؟‘‘ سیتادیوی نے جواب میں کہا۔’’بملاتم بیٹھ جائو اورپھربات کرو۔تم بمبئی میں بالکل نئی سیدھی معلوم ہوتی ہو۔جانتی ہو کتنی مشکل سے اورکتنے دبائو ڈال کرمیں نے مل مالکوں کویہ ہندی کلاسیں چلانے پرراضی کیاہے۔ اگرکہیں ان کومعلوم ہواکہ ہندی ٹیچر دومہینے کی تنخواہ ایڈوانس مانگ رہی ہے توسیٹھوں کودل کادورہ پڑجائے گا۔‘‘ اورپھر کرسی آگے سرکاکردھیمے لہجے میں جیسے ایک سہیلی دوسری سہیلی سے بات کرتی ہے؟مگرتمہیں یہ ایڈوانس کیوں چاہئے، گھرمیں کوئی بیمار ہے؟ تومیں علاج کا انتظام کرسکتی ہوں۔‘‘
’’نہیں نہیں بہن جی گھرمیں کوئی بیمار نہیں ہے۔‘‘
’’توتمہارابیاہ ہے کیا؟ایسی صورت میں تمہارے پتا کوایڈوانس دلوایا جاسکتاہے، ٹرام کمپنی کے سوشل ورکر کے ذریعہ۔‘‘
’’نہیں نہیں بہن جی باباکوتواس بات کاپتہ بھی چل گیا توبراہوگا۔ اچھااب میں جاتی ہوں۔ کل سے کام پرآجائوں گی۔‘‘
مل سے لوٹتے وقت وہ ٹرام میں اوپرجاکر بیٹھ گئی۔حالانکہ اس کاگھروہاں سے دورنہیں تھا، مگراس وقت وہ کہیں الگ بیٹھ کر اس مسئلے پرسوچناچاہتی تھی، کنڈکٹر نے پوچھا۔’’کہاں کاٹکٹ کاٹوں۔‘‘ اس نے کہہ دیاجہاں تک یہ ٹرام جائے گی۔‘‘ اورپھر اپنے خیالات میں کھوگئی۔
دفعتاً اسے ایسامحسوس ہوا کہ ٹرام خالی ہے اورنیچے کوئی ٹرام کی آ ہنی دیواروں کودھڑدھڑپیٹ رہاہے۔’’اے دیوی جی میوزیم آگیا، اترناہے یاواپس جاناہے۔‘‘
وہ نیچے اترآئی اور بے خیالی میں اپالوبندر کی طرف چلنے لگی، دوموٹروں کے نیچے آتے آتے بچی، جلدی سے فٹ پاتھ پر ہولی۔اس کے بعد اسے ہوش آیاتو وہ شیشے کی دیوار کے سامنے کھڑی اس میں سجے ہوئے میموں کے سروں کودیکھ رہی تھی۔کسی کے سرپرسنہری بال، کسی کے سرپرکالے، کسی پربھورے، کسی کے گھونگریالے، کسی کے بالکل مردوں کی طرح کٹے ہوئے۔
اوریکایک اس کی سمجھ میںآگیاکہ سیتادیوی کے لڑکو ں جیسے بال اس سے کیاکہہ رہے تھے۔
ٹیکسی کرافورڈمارکیٹ سے آگے نکل چکی تھی۔
بملا نے پوچھا۔’’تم نے امتحان پاس کرلیااورہمیں مٹھائی بھیجناتوکیاخبربھی نہ بھیجی، ماتا جی کوتوبہت چنتاتھی کہ نہ جانے مادھو کا کیاہوا۔ہمارا گھرجب سے چھوڑاایک چٹھی بھی نہ بھیجی؟‘‘
’’بملاکیابتائوں میں کچھ ایسے ہی کاموں میں پھنساہواتھا، چھ مہینے دہلی میں رہا، وہاں سے کانپورگیا، پھر کلکتے مگراب میں بمبئی آگیاہوں۔ہمیشہ کے لئے۔‘‘
’’بی اے ہو۔ نوکری تواچھی ملی ہوگی؟‘‘
’’نوکری تواچھی ہے مگرمیں نے بی اے نہیں کیا، امتحان نہیں دے سکا۔‘‘
’’امتحان نہیںدیا!تووہ فیس۔۔۔‘‘
’’فیس کابھی عجیب قصہ ہوابملا!یادہے میں نے تمہاری ماتاجی کواس بارے میں خط لکھا تھا؟اسی طرح اوربھی دس بارہ رشتہ داروں اوردوستوں کوخط لکھے تھے۔ ان میں سے تین توبمبئی میں تھے مگر کسی نے پھوٹی کوڑی تک نہیں بھیجی اورفیس بھرنے کی آخری تاریخ گزرگئی۔ اگلے دن میں تمہاراگھر چھوڑکر واپس گائوں جانے کی سوچ رہاتھا کہ ڈاکیے نے ایک تارکامنی آرڈردیا، سو روپے کامگراس پربھیجنے والے کانہ نام تھا نہ پتہ اورآج تک یہ نہ معلوم ہوسکا کہ یہ مہربانی کس کی تھی، مگران سوروپوں سے میری قسمت بدل گئی۔‘‘
’’توکیاکیاان روپوں کاتم نے؟‘‘
’’میں نے امتحان کی فیس دے کربی اے کی ایک بیکارڈگری لینے کے بجائے ساٹھ روپے کاایک بڑھیاسوٹ سلوایااور باقی روپے لے کر دہلی پہنچ گیا۔ وہاں ایک دوست نے اس کام میں لگوادیاسوتم دیکھ سکتی ہوکہ میں کتنا کامیاب ہوں۔‘‘ اوریہ کہہ کر اس نے اپنی ریشمی ٹائی کی گرہ کوٹھیک کیا۔
’’کیاہے تمہارا کام؟‘‘
’’میراکام یہی ہے کہ۔۔۔‘‘ مگر اتنے میں ٹیکسی ایک چھ منزلہ عمارت کے نیچے جاکرکھڑی ہوگئی سومادھو نے کہا۔’’ابھی معلوم ہوجائے گاتمہیں۔‘‘
بملاپہلی بارلفٹ میں چڑ ھ کرچوتھی منزل تک پہنچی، مادھو اسے لے کربڑی بے تکلفی سے ایک دفتر میں داخل ہوا اور ٹائپسٹ لڑکیوں کے بیچ میں سے، ’’ہیلو، ہیلو‘‘ کہتا ہواایک کمرے میں گیا، جواتناٹھنڈاتھا کہ اندر گھستے ہی بملا کوچھینکیں آنے لگیں۔
’’لگتا ہے ایئرکنڈیشننگ کی عادت نہیں ہے تمہیں؟اچھا تم بیٹھومیں ابھی آتاہوں، یہ کہہ کر وہ باہرگیااور بملا نے سہمی ہوئی نگاہوں سے ادھرادھر دیکھا، زمین پرگہرانیلاقالین اتنانرم اوردبیز کہ پائوں دھنسے جاتے تھے، ایک میز کاغذوں اورتصویروں سے لدی ہوئی، تصویریں سب خوبصورت عورتوں کی، ایک طرف تین ٹانگوں پرلداہوابڑاساسنیماکاکیمرہ۔ دوتین اورکیمرے۔ تین بڑے بڑے بلبوں کے لیمپ جن کی روشنی چندھیانے والی تھی اور ایک چھوٹی تپائی پرلال لال تیل کی بوتلیں جن کے لیبلوں پرکھلے بالوں والی ایک لڑکی کی تصویرتھی اور تیل کانام لکھا تھا۔
’’کالی گھٹاہیئرآئل‘‘
سامنے ایک بلیک بورڈاوراس پر ہندی حروف میں لکھا تھا۔’’میرے بال اتنے لمبے صرف اس لئے ہیں کہ میں ہمیشہ کالی گھٹاہیئرآئل استعمال کرتی ہوں۔‘‘
وہ ان سب اَن مل اوربے جوڑچیزوں کاآپس کاتعلق سمجھ نہیں پائی تھی کہ اتنے میں دروازہ کھلااورایک گنجاساموٹا سا آدمی موٹے موٹے شیشوں کی عینک پہنے داخل ہوااورانگریزی میں بولا۔
’’اوہیلو، سویوآرکرنزگرل فرینڈ؟‘‘ (So you are kiran,s girl friend)
’’جی میں مادھوکے ساتھ آئی ہوں۔‘‘
’’مادھو؟کون مادھو!وہ تمہارامطلب ہے اپنا کرن کمار، ویری اسمارٹ بوائے۔‘‘
اوراسی وقت مادھوداخل ہواہاتھ میں ایک کنگھالیے ہوئے۔
’’مادھویہ کیاتم نے اپنانام بدل لیا ہے کیا؟‘‘
’’ہاں بملامادھوجیسے بھولے نام سے اس دنیا میں کوئی ترقی نہیں کرسکتا، ہاں تودیکھوتم اپنے بالوں میں کنگھی کررہی ہو۔تمہارا منہ دوسری طرف ہے۔ کیمرہ صرف تمہارے بالوں پرہے، دھیرے دھیرے کیمرہ پیچھے جاتاہے اب ہم تمہارے بالوں کی حیرت انگیزلمبائی دکھاتے ہیں، اب تم آہستہ آہستہ کیمرے کی طرف مڑتی ہو، مسکراتی ہو اورکہتی ہو۔
’’میرے بال اتنے لمبے صرف اس لئے ہیں کہ میں ہمیشہ کالی گھٹاہیئر آئل استعمال کرتی ہوں۔‘‘
’’مگرمادھومیرے بال تو‘‘
اس میں شرمانے کی کوئی بات نہیں یہ توبزنس ہے، دھندا ہے، کام ہے، کیوں شرماجی ٹھیک کہتا ہوں؟ہاں توبملا چندمنٹ پوزکرنے کے پورے سوروپے تمہیں ملیں گے۔یہ فلم پروڈیوس کرنے کے ہزارروپے مجھے ملیں گے اوراس فلم کوبنانے کے ٹھیکے میں پانچ ہزارکامنافع ہوگا شرما جی کو۔۔۔ہاں توشرماجی اب آپ ہندوستان کے ہی نہیں، ایشیاکے ہی نہیں، دنیاکے سب سے لمبے بال دیکھیں گے۔‘‘
اوریہ کہہ کراس نے ڈرامائی اندازمیں بملا کے سرسے پلوکھینچ لیااور بملانے شرم کے مارے اپنامنہ چھپالیا۔
مادھوچلایا۔’’بملا!تم نے یہ کیاکیا؟‘‘
اورشرما نے کہا’’کرن۔یہ سب کیاہے۔ہم سے مذاق کرتے ہو۔‘‘
’’ہندوستان کے ہی نہیں، ایشیاکے ہی نہیں، دنیا کے سب سے لمبے بال؟ ساڑھے پانچ انچ لمبے۔اسی پروگرام کے تم ہزارروپے مانگ رہے تھے؟‘‘
’’مگرمسٹرشرما‘‘
’’گیٹ آئوٹ اوراب مجھے اپنی صورت کبھی نہ دکھانا اور نہ کسی دوسری ایڈورٹائزنگ کمپنی میں گھسنے کی کوشش کرنامیں تمہاری اس حرکت کی رپورٹ اپنی ایسوسی ایشن کوبھیجنے والا ہوں۔‘‘
ٹیکسی کے بجائے اب وہ ٹرام میں لوٹ رہے تھے۔
بملا نے پوچھا۔’’اب میں تمہیں مادھو کہوں یامسٹر کرن کمار؟‘‘
’’مسٹرکرن کمارمرگیا، مادھو ہی کہو۔‘‘
’’مجھے معاف کرنامادھو، میں نے بال کٹواکر تمہارا اتنانقصان کروادیا۔‘‘
’’وہ توہوامگر بملا میری سمجھ میں نہیں آتاکہ تم نے ایسا کیاکیوں؟‘‘
’’کنگھی کرنے میں بہت وقت جاتاتھا، اب میں روزکام پرجاتی ہوں نا، مل میں مزدوروں کوہندی پڑھانے، وہی ہندی جو تم نے مجھے پڑھائی تھی۔‘‘
’’توکیا مجھے ایسا کام نہیں مل سکتا؟چھوٹی سی نوکری بھی مل جائے تو میں تمہارے پتا جی سے بات کروں۔‘‘
’’کیوں نہیں، ہمارے یہاں ہی کام کرسکتے ہو اب وہ مل میں باقاعدہ اسکول بنانا چاہتے ہیں۔تم توپربھاکرہوڈیڑھ سوروپے مل جائیں گے۔سارے دن پڑھانے کے۔‘‘
’’اورتم؟‘‘
’’میں چارگھنٹے پڑھائوں گی۔‘‘
’’اورباقی وقت؟‘‘
’’باقی وقت تمہارے گھرکی دیکھ بھال کروں گی۔‘‘
’’میراگھر؟‘‘
’’نہیں میراگھر۔‘‘
اوران دونوں نے چلتی ٹرام میں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھااور نہ جانے کتنی دیردیکھتے ہی رہے اور اس وقت بملا کو معلوم ہواکہ نگاہوں کا طویل بوسہ بھی ہونٹوں کے پیارسے کم تکلیف دہ اورکم لذت بخش نہیں ہوتا۔
’’چلو، چلوٹرمنس آگیاٹرام خالی کرو‘‘ کنڈکٹر کی آواز نے وہ طلسمی لمحہ ختم کردیا، گھبراکر دونوں اٹھے، جیسے چورپکڑے گئے ہوں۔کنڈکٹر کھڑا ان کی طرف دیکھ کرمسکرارہاتھا’’بابا‘‘ بملاچلائی۔’’یہ ہیں‘‘ مگراب وہ مادھو کا نام نہ لے سکی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.