کچھ عرصہ ہوا میں نیک ہیں پڑھا کہ جس طرح ہنسنا اور مسکرانا صحت کے لئے مفید ہوتا ہے اسی طرح کبھی کبھی رو لینا بھی دل دل و دماغ اور روح کی صحت کے لئے ضروری ہے خواہ اپنے کسی جسمانی، روحانی یا ذاتی دکھ پر رویا جائے یا کوئی ناول پڑھتے، فلم دیکھتے یا کوئی جگ بیتی سنتے ہوئے بہرحال دل ہی دل میں کڑھتے اور سلگتے رہنے کی بجائے دل کی کیتلی کا ڈھکنا اٹھا دینا کہیں بہتر ہے۔ یہ بات مجھے پسند آئی اور میں نے پہلی بار غور کیا کہ میری بہت سے پریشانیاں اور ان میں آئے دن کا اضافہ محض اس لئے ہے کہ میری روح پر تال پڑا ہوا ہے۔ میں نے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ مجھے روئے ہوئے زیادہ نہیں تو بارہ تیرہ برس برس ضرور ہو گئے ہوں گے۔ آخری بار میں کب رویا تھا مجھے اچھی طرح یاد نہ،ن مگر میرا خیال ہے کہ اس وقت میں ابھی شہر میں نہیں آیا تھا۔ گاؤں کی کسی لڑکی کا بیاہ تھا ہاں مجھے یاد آ گیا فتح دین تیلی کی بیٹی کی ڈولی نکلی تھی اور بینڈ باجے والوں نے بابل سے بچھڑنے سے متعلق کسی گیت کی دھن بجائی تھی اور مجھے ایسا لگا تھا جیسے وہ فتح دین تیلی کی بیٹی نہیں میری سگی بہن ہے اس کے بعد میں شہر چلا آیا یہاں ایسے گیتوں کا سیلاب آتا تھا اس قسم کے کتنے ہی گیت میں پاؤں تلے روندنے لگا کبھی کسی گیت کو سن کر میرا جی نہ بھر آیا اور بھرتا کیسے قدم قدم پر طرح طرح کے گیت سنائی دیتے تھے جگہ جگہ ریڈیو چیختے تھے۔ اب اگر آدمی ہر گیت پر رونے لگے تو آٹھوں پہر روتا چیختا ہی رہے مگر ایک بات ضرور ہے رونے سے دل ہلکا ہو جاتا تھا۔ ہڈیاں بھی نہیں کھرتی تھیں مگر افسوس مجھے آہستہ آہستہ رونے کا ڈھنگ بالکل بھول گیا۔
پچھلے بارہ تیرہ برسوں میں میں نے کتنے ہی نشیب و فراز دیکھے ہیں کتنے ہی دل چیرنے اور تڑپانے والے مناظر آنکھوں کے سامنے آئے ہیں جنہیں دیکھ کر دل کو کچھ ہوتا بھی رہا ہے۔ مگر آنکھ سے آنسو کبھی نہیں ٹپکا۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ میری سگی خالہ فوت ہو گئیں مجھے معلوم تھا کہ خاندان کے لوگ مجھ سے رونے کی توقع رکھتے ہوں گے اسی لئے میں نے کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے دوسروں کو خالہ کی میت پر بین کرتے اور پچھاڑیں کھاتے دیکھ کر عبرت حاصل کرنے اور خالہ کو اپنی سگی ماں فرض کر کے کود پر رقت طاری کرنے کی بہت کوشش کی مگر ایک بھی آنسو میری آنکھ سے نہ ٹپکا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرے اندر لطیف جذبات کا بےحد صدمہ تھا اور میرے اندر آگ سی بھی سلگ رہی تھی مگر اس کا دھواں آنکھ کے راستے باہر جانے کی بجائے میری روح سے چمٹ گیا تھا۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پچھلے بارہ تیرہ برسوں میں مجھے مصائب و آلام کے مراحل کبھی پیش نہیں آئے یا کسی جذباتی جسمانی دکھ سے دو چار نہیں ہوا۔ میں ایک عام آدمی ہوں جسے مشکلات، بیماریاں، پریشانیاں، حق تلفیاں، معاشی بد حالیاں اور دل اور خون کے رشتوں کی جذباتی بےقراریاں قدم قدم پر ٹھوکروں کی طرح ملتی ہیں، میں آہوں، آنسوؤں، سسکیوں، چیخوں، دکھوں اور موت کی ہولناکیوں سے بھر پور فلمیں دیکھتا رہا ہوں اور ٹریجک کہانیاں بھی پڑھتا رہا ہوں مگر شائد زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستوں میں ٹھوکروں کی اس قدر ارزانی ہے کہ آدمی ان کا عادی ہو جاتا ہے بلکہ ہر قدم پرنئی ٹھوکر کے لئے ذہنی طور پر تیار رہتا ہے۔
ویسے میں سمجھتا ہوں جب میں رو لیتا تھا اور میری ہڈیاں نہیں کھرتی تھیں۔ا س وقت میرا دل ایک بہتا ہوا دریا تھا گندا جوہڑ نہیں تھا۔ جذبات و محسوسات کی مچھلیوں کا دم نہیں گھٹتا تھا۔ اور وہ بدبو نہیں پھیلاتی تھیں، تڑپتی مچلتی اور تیرتی ہوئی سیدھی نکل جاتی تھیں۔ مگر اب میرے اندر کے جوہڑ میں نہ جانے کیا کیا کچھ گل سڑ چکا ہے کہ بعض اوقات مجھے خوشبو اور خوشبو اور بدبو میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جب میں رو لیتا تھا میری سوچیں سیدھی سادی نرمل اور پاک صاف تھیں دوسروں کے بارے میں اچھی اچھی اور میٹھی میٹھی باتیں سوچتا تھا۔ ہر بات دل سے اٹھتی تھی اور سچ ہوتی تھی، شائد اسی لئے سیدھی دل میں اتر جاتی تھی۔ میں نے جس لڑکی سے پہلے پہل اظہار محبت کیا تھا مجھے اس سے سچ مچ محبت تھی میں اسے جو کچھ کہتا تھا سب سچ ہوتا تھا مجھے اس کی آنکھیں اچھی لگتی تھیں۔ اور میں صرف اس کی آنکھوں کی تعریف کرتا اور انہی کر بارے میں سوچتا تھا۔ مگر اب کسی شاعر لڑکی کا جسم اچھا لگے تو اس کی غزل کے مجموعی تاثر کی تعریف کرتا ہوں اور افسانہ نگار خاتون اچھی لگیں تو بات افسانے کے عنوان کی تعریف سے شروع ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ محض اس لئے ہے کہ مجھے روئے ہوئے بارہ تیرہ برس ہو گئے ہیں اور میرے اندر معصومیت اور سادگی کا قحط پڑ گیا ہے۔ ورنہ میں پہلے کبھی ایسا نہ تھا میرا اندر بے حد اجلا اور سفید تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میرے اندر کی دیواریں کالک سے نا آشنا تھیں، میں ایک ایسے لڑکے کے لئے دھاڑیں مار مار کر رویا تھا جس نے بس کے نیچے آ کر کچلے جانے سے دو ایک روز پہلے مجھے ربڑ کی ایک گیند کی وجہ سے تختی سے پیٹا تھا مگر پھر بھی میں اس کے مرنے پر بہت رویا تھا اور مجھے یوں لگتا تھا جیسے وہ میری بد دعا سے مر گیا ہو میں اس کی قبر پر نئی گیند خرید کر لے گیا تھا اور ہچکیاں لے لے کر کہا تھا۔ ’’گلو یار تم تو سچ مچ روٹھ گئے یہ لو نئی گیند اور واپس آ جاؤ خدا کی قسم اب کبھی تمہیں بد دعا نہیں دونگا۔‘‘
ویسے ہی تو اب کبھی کسی دوست یا دشمن کی موت مجھے اداس کر دیتی ہے (ہاں ابھی کر دیتی ہے) میں آہیں بھی بھرتا ہوں ہمدردی بھی محسوس کرتا ہوں اور مرنے والے کے لواحقین پر ترس بھی آتا ہے۔ لیکن آنکھ میں آنسو نہیں آتا۔ اور اس نہ رو سکنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ میرے اندر کے جوہڑ میں مری ہوئی مچھلیوں کی بو اور زیادہ پھیلتی جا رہی ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ میر ی کوکھ میں کوئی مکروہ سی چیز لے رہی ہے اس لئے میں رونا چاہتا ہوں تاکہ اس مکروہ چیز کا پیدا ہوتے ہی گلا دبا دوں۔
اپنی کوکھ میں کسی مکروہ چیز کے بارے میں مجھے اس وقت پتہ چلا جب پڑوسی کا مسروقہ ریڈیو چھ ماہ بعد اچانک مل گیا پولیس نے یہ ریڈیو کسی عادی چور سے برآمد کیا تھا مجھے اپنے پڑوسی کا ریڈیو مل جانے کی خوشی مجھے نہ جانے کیوں پھیکی پھیکی اور بدمزہ سی معلوم ہوئی میں نے اپنے پڑوسی کو مبارکباد بھی دی اور وہ میرے گہرے خلوص و ہمدردی کے جذبات سے متاثر بھی ہوا مگر کوئی انجانی بیزاری میرے وجود کے چاروں طرف مکھی کی طرح بھنبھناتی رہی جب میں نے اس بیزاری اور بدمزگی کا تجزیہ کیا تو مجھے یقین نہ آیا کہ میں اس قدر کمینہ بھی ہو سکتا ہوں اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ریڈیو گم ہو جانے کے بعد پڑوسی نے ریڈیو کا ایریل مجھے دے دیا تھا۔
اس سے بڑھ کر کمینگی کا ثبوت میں نے اس وقت دیا جب نور علی کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا۔ نور علی کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو ان بیوی اور بوڑھے والدین تھے۔ وہ میرا ساتھی اور دوست بھی تھا میرے ساتھ اس کے تعلقات اور مراسم بھی اچھے تھے ہم اکٹھے شطرنج کھیلتے اور سیر کو جاتے تھے۔ دفتر میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے اس کی موت دماغ کی رگ پھٹ جانے سے اچانک ہو گئی تھی۔ میں اس کا قریبی دوست تھا اس لئے سب سے پہلے مجھے اطلاع دی گئی مجھے اس کی موت کا بے حد صدمہ ہوا۔ اس کے بچوں کی چیخیں میرا دل چیر گئیں۔ اس کی بیوہ کے بین میرا کلیجہ چھلنی کر گیا اور اس کے بوڑھے والدین کی دھاڑیں سن کر میرا جسم لرزنے لگا مگر مجھے رونا نہ آیا۔ رونے کی فرصت بھی نہیں تھی۔ میں بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ دفتر کے دوسرے لوگوں کو اطلاع دی، قبر کھودنے، نہلانے اور جنازہ پڑھنے کا انتظام کیا، اس کے رشتہ داروں کو ٹیلی فون کئے، تار دئیے، اس کے بال بچوں کو تشفی دی آنے جانے والوں کے لئے اٹھنے بیٹھنے کا انتظام کیا۔ جب جنازہ گھر سے روانہ ہوا۔ بڑا تڑپانے اور رلانے والا منظر تھا۔ مجھے رونے کی فرصت بھی تھی۔ اس سے بہت اور موقع کیا ہو سکتا تھا کاش میری آنکھوں میں ایک آدھ آنسو ہی آ جاتا مگر کیسے آتا میری روح پر تو تالا پڑا تھا۔ میرے اندر کی دیواروں کی سفید کالک سے سیاہ ہو چکی تھی گندے جوہڑ میں مردہ مچھلیوں کا ڈھیر لگ چکا تھا اور چاروں طرف بدبو پھیل چکی تھی۔
جب نور علی کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اچانک خوشبو کی لہر کی طرح ایک خوشگوار خیال میرے اور نور علی کی میت کے درمیان آ کر کھڑا ہو گیا کہ نور علی کے مرنے سے اب سنیارٹی لسٹ میں میرا چوتھے سے تیسرا نمبر ہو جائےگا۔ اور اس طرح شائد اب مجھے تین سالوں کی بجائے دو سالوں میں ترقی مل جائے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ میں اس سے پہلے دیانت داری کے سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ امتحان پاس کر چکا ہوں۔ ایک مرتبہ دکاندار سے پانچ روپے کا سودا سلف خرید کر میں نے اسے دس روپے کا نوٹ دیا تو اس نے پچانوے روپے واپس کئے لیکن میں نے صاف دلی سے نوے روپے لوٹا دئیے۔
ایک بار مجھے بغیر کسی خطرے اور اندیشے کے راتوں رات امیر ہو جانے کا موقع ملا لیکن نہ جانے کہاں سے میرے پیٹ میں قوم کا درد اٹھنے لگا اور یوں میں آزمائش پل صراط سے صحیح سالم گزر گیا۔
میرا خیال ہے میں برا آدمی نہیں ہوں۔ صرف نہ رونے کی وجہ سے میرا دل روز بروز مٹھی کی طرح بھنچتا جا رہا ہے یا پھر باہر اس قدر سردی ہے کہ دن بدن میں اپنی کھال کے اندر سکڑتا جا رہا ہوں۔ ورنہ مجھے اپنے اکلوتے انعامی بانڈ پر انعام نہ نکلنے کی خوشی نہ ہوتی۔ جو خوشی مجھے صرف اس لئے ہوئی کہ میرے ماموں زاد بھائی کے انعام بھی نہیں نکلا تھا جس کے پاس ان گنت بانڈز تھے۔
یوں لگتا ہے جیسے میرے ہر زخم پر لہو کی پہلی بوند کھرنڈ بن جاتی ہے۔ غلیظ خون بہہ نہ سکے تو بدبو پیدا ہو جاتی ہے مگر نہیں۔۔۔!
خون بہتا رہے خواہ وہ گندا اور غلیظ ہی کیوں نہ ہو تو جسم کی ساری تپش اور حرارت ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے ماں کے مرنے کے بعد غلام محمد کا جسم سن ہو گیا ہے، روح یخ بستہ ہو گئی ہے۔ اور وہ برف کے تودے کی طرح کھلکھلاتا نظر آتا ہے۔
اس کی ماں بوڑھی اور ضعیف تھی۔ اکیلی دوسرے شہر میں رہتی تھی وہ اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔ کیونکہ اس کی بیوی اور اس کی ماں میں ساس بہو کا رشتہ تھا ساس اور بہو کا بیر ہماری قدیم روایت ہے۔
روایتوں کے کپڑے خواہ وہ تار تار ہو جائیں یا ساری دنیا انہیں پہن کر اتار چکی ہو ہم ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ غلام محمد کی ماں اس کے پاس آ کر اور زیادہ بیمار ہو جاتی تھی۔ اس لئے وہ بیماری اور ضعیفی کے باوجود علیحدہ رہنے کو بہتر سمجھتی تھی۔ غلام محمد اس کی بیمار پرسی اور خبر گیری کے لئے اکثر جانا پڑتا تھا۔ بار بار دفتر سے چھٹی لینی پڑتی تھی۔ دوائیوں اور کرایوں پر تنخواہ کا ایک بڑا حصہ اٹھ جاتا تھا پھر بھی وہ ایک فرمانبردار اور ہونہار بیٹے کی طرح ماں کی خدمت کر رہا تھا۔ مگر پھر ماں اس دنیا سے (جہاں ڈاکٹروں کی فیسیں بھاری ہیں جہاں ہسپتالوں میں سفارش سے داخلہ ملتا ہے اور جہان دوائیوں کے اخراجات سے مر جانا کہیں زیادہ سہل اور سستا ہوتا ہے) ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی۔ غلام محمد دھاڑیں مار مار کر رویا۔ اس قدر رویا کہ اس کا اندر خالی ہو گیا، لہو نچڑ گیا اور جسم سرد ہو گیا۔ جب وہ ماں کو کفنانے اور دفنانے کے بعد لوٹا تو میں۔۔۔ جو کھرنڈ کھرچ کھرچ کر عاجز آ گیا تھا۔ اس کے پاس اظہار افسوس کے لئے گیا اور مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ غلام محمد کا دل رو رو کر بالکل بنجر ہو گیا ہے اور اس کی کوکھ بھی خالی ہے، یا شائد اپنے اندر کی کالک کی وجہ سے مجھے ہر چیز سیاہ اور مٹیالی نظر آتی ہے۔ غلام محمد ماں کے ہمیشہ کے لئے بچھڑ جانے کی اندوہناک باتیں لہک لہک کر کر رہا تھا۔ اس کے الفاظ پر زور تھے مگر لہجے میں برف کی سی ٹھنڈک تھی یا شائد مردہ مچھلیوں کی بو کی وجہ سے میں خوشبو اور بدبو میں تمیز نہیں کر سکتا کیوں کہ مجھے روئے ہوئے کم از کم بارہ تیرہ برس ہو گئے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.