اس کا نام کاشی ہے اور وہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے۔
یوں تو ہر باپ اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے مگر میں کاشی سے بہت محبت کرتا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو یہی کہ ڈھلتی عمر کی اولاد ویسے ہی زیادہ عزیز ہوتی ہے شاید آدمی اس کے مستقبل کی متوقع خوشیاں نہ دیکھ سکنے کے خوف میں مبتلا ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ عمر کے اس دور میں پہنچنے تک آدمی ریاکاریوں، منافقتوں اور مکاریوں کے اتنے خار زار عبور کر چکا ہوتا ہے کہ چلتے چلتے پاؤں کے نیچے جب کبھی معصومیت کی نرم نرم اور ہری بھری گھاس آ جاتی ہے تو اسے عجیب میٹھی میٹھی گدگدی کا احساس ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے اوائل عمری میں جب دل میں خودرو پودے اگتے اور ان میں جذبوں کے شگوفے پھوٹتے تھے تو میں کسی کے بارے میں کوئی اندوہناک خبر سن کر اس قدر ملول ہو جاتا تھا کہ بھوک مر جاتی اور نیند اڑ جاتی تھی مگر پھر جب اندر اگنے والے خوشنما اور نازک پودے بڑھ کر تن اور درخت بن گئے تو آہستہ آہستہ میرا سارا اندر کاٹھ کا ہو گیا۔ لطیف جذبوں کے پرندے بہت کم ادھر کا رخ کرتے اور اگر کبھی کرتے تو تھوڑی دیر کے لئے کسی ڈال پر بیٹھ کر چہچہاتے مگر پھر کرخت سوچوں کا کلہاڑا چلنے کی آواز سن کر فوراً ہی اڑ جاتے۔ اب مجھے اپنی عمر کے ہر آدمی کی طرح ہر بات میں مکاری، عیاری اور جھوٹ کی ملاوٹ نظر آنے لگی ہے شاید اس لئے کہ میں نے ہر جگہ یہی کچھ دیکھا اور برتا۔ اگر کہیں کسی بات میں مکاری نہ بھی ہو تو میرا ذہن اپنے پاس سے اس کی آمیزش کر لیتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ افسانہ یا ناول پڑھتے اور ڈرامہ یا فلم دیکھتے ہوئے میں ہیرو یا ہیروئن کی ٹریجڈی پر بے اختیار رو پڑتا تھا مگر اب ہیروئن زہر پھانکتی یا ہیرو پھانسی چڑھتا ہے تو مزے سے آئس کریم کھاتا اور کوک پیتا رہتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے میرے اندر جذبوں اور احساسات کے دریاؤں کی ساری مچھلیاں خود غرضی کے اود بلاؤں نے مار کر کھا لی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ناول یا فلم میں کسی بچے کی ماں مر جاتی تھی تو اپنی ماں کی موت پر روکا ہوا بے شمار رونا میرے دامن ضبط کو تار تار کر دیتا تھا مگر اب ہیرو کی ماں مر جاتی ہے تو میری خبیث آنکھ اس ٹوہ میں ہوتی ہے کہ مرنے کی اداکاری کرنے والی اداکارہ کی بھنووں یا ہونٹوں میں کسی قسم کی جنبش تو نہیں ہو رہی؟ لطیفوں اور ایسی باتوں پر جن کو سن کر کبھی ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے، اب میں ناک بھوں چڑھاتا ہوں۔ مجھے ان سے عمومیت،بازاری پن اور اوور ایکٹنگ کی بو آتی ہے۔ اخبارات میں آئے دن اندوہناک وارداتوں، مظالم اور انسانی بربریت کے واقعات پڑھتا رہتا ہوں اور لمحہ بھر کے لئے ناگواری کا احساس مجھے بدمزہ بھی کر دیتا ہے مگر پھر سب کچھ اندر کے سؤر کے پیچھے بھونکتے کتوں کے شور میں دب جاتا ہے۔
پتہ نہیں کیوں جیسے جیسے ہماری عمریں کم ہوتی جاتی ہیں ہم زیادہ خود غرض اور بےرحم ہو جاتے ہیں ہم ایسی چیزوں، لوگوں، حتیٰ کہ قریبی عزیزوں سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہتے جن سے ہمیں جلد یا بدیر کسی مالی منفعت کی توقع یا نقصان کا احتمال نہ ہو۔ پچھلے برس ہمارے پڑوس میں ایک ایسا ہی خاندان آ کر آباد ہوا۔ محلے میں کوئی مرے یا جئے ان کی بلا سے ۔۔ دوسرے لوگوں کی طرح ہم نے بھی انہیں شادی غمی کی ہر تقریب میں بلایا مگر انہوں نے معذرت کرنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کی۔ کاشی کبھی کھیلتا ہوا ان کے گھر چلا جاتا تو وہ اس ڈر سے کہ ان کی چیزیں الٹ پلٹ نہ دے نہایت رکھائی سے اسے باہر نکال کر دروازہ بند کر لیتے۔۔ مگر جب سے ہمارے ہاں ٹیلیفون لگا ہے اور ان لوگوں کی لوکل اور ٹرنک کالیں آنے جانے لگی ہیں ان لوگوں کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل اپنوں جیسا ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ٹیلیفون کے تار ان کے دلوں کے گرڈ سے ہوتے ہوئے ہم تک پہنچتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں ذرا سا کوئی بیمار پڑ جائے تو ان کے دلوں میں محبت اور بھائی چارے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ کاشی کے لئے اکثر کھلونوں، مٹھائیوں اور پھلوں کے تحفے آتے رہتے ہیں اور اگر وہ کسی روز ان کے گھر کھیلنے نہ جائے تو اس کی آنٹی کو اپنا گھر اور آنگن سونا لگنے لگتا ہے۔
کاشی سے میرے بےپناہ محبت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے فنا کا خوف جو میرے ذہن اور روح سے ہر لمحے چمٹا رہتا تھا وہ بہت حد تک دور ہو گیا ہے اب مجھے احساس ہو تا ہے کہ میں اپنے بعد کاشی اور کاشی کے کاشی کی صورت میں زندہ رہوں گا۔ دئیے سے دیا جلتا رہتا ہے۔جلتا چلا جاتا ہے۔انسان اتنا فانی بھی نہیں ہے۔
کاشی میرا مستقبل بھی ہے جو ہمیشہ خوش آئندہ ہوتا ہے اور ماضی بھی۔ اس کی شکل و صورت اور بہت سی عادتیں مجھ سے ملتی جلتی ہیں اور میں اس کی شکل و صورت میں اپنے بچپن کو بالغ نظروں سے دیکھتا اور خوش ہوتا ہوں۔ میں اسے وہ سارے کھیل کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں جو میرے کھیلنے سے رہ گئے تھے۔ میں اسے وہ ساری محبتیں دینا چاہتا ہوں جن سے میں بچپن اور زندگی میں محروم رہا اور میں اسے وہ ساری چیزیں کھلانا چاہتا ہوں جن کے لئے میں ترستا رہا۔ میرا جی چاہتا ہے اسے ہر وقت وہ آم چوستے ہوئے دیکھتا رہوں جو بچپن میں ایک بار سوتیلی ماں نے میرے ہاتھ سے چھین کر خود کھا لیا تھا۔
کاشی نے جب سے بولنا اور چلنا پھرنا سیکھا ہے میں فارغ اوقات میں اسے اکثر اپنے ساتھ رکھتا ہوں دوستوں کی بے وفائیوں اور رشتہ داروں کے حاسدانہ رویوں سے اکتا کر میں نے اس کی محبت میں پناہ ڈھونڈھ لی ہے۔ ہم دونوں اکثر ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے اور بازاروں، باغوں اور پارکوں میں اکٹھے گھومتے ہیں میں اس کے ساتھ ہم عمر دوست کا سا سلوک کرتا ہوں اور اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور کھیلوں میں پوری دلچسپی لیتا ہوں۔ اگر وہ تتلی پکڑنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو میں تتلی پکڑ کر اس پر اپنے بڑے ہونے کا رعب نہیں جماتا، تتلی نہ پکڑ سکنے کی اداکاری کر کے اس کی انا کو تسکین پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اب وہ پہلے کی نسبت کافی سمجھدار ہو گیا ہے ورنہ پچھلے سال جب وہ میرے ساتھ بازار جاتا تھا۔ تو میری آنکھ بچا کر مٹھائی یا ٹافیوں کی کسی دکان میں گھس جاتا اور دکاندار سے کہتا۔
’’یہ دے دو۔‘‘
مگر اب اسے پتہ چل گیا ہے کہ یہ چیزیں ایسے نہیں مل جاتیں ان کے لئے پیسے دینا پڑتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس کے ذہن میں پیسے اور سکے کی اہمیت واضح ہوتی جا رہی ہے مگر ابھی اسے حساب کتاب کا شعور نہیں ہے نہ اسے یہ معلوم ہے کہ پیسے کہاں سے اور کیسے آتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ ہر چیز کی قیمت ایک چونی ہوتی ہے۔ ایک روز جوتوں کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے کہنے لگا۔
’’مجھے نئے جوتے لے دیں۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’پھر کبھی لے دوں گا۔‘‘
اس نے اصرار کیا اور کہا۔ ’’ابھی لے دیں نا۔‘‘
اس پر میں نے کہا۔ ’’بیٹے میرے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں۔‘‘
اس نے اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چونی نکال کر کہنے لگا۔
’’میرے پاس ہیں۔‘‘
میں اس کی ایسی معصومانہ باتوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں لیکن یہ خیال مجھے فوراً ہی افسردہ کر دیتا ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب اسے گنتی یاد ہو جائےگی۔ چیزوں کی قیمتوں اور اپنی قوت خرید کا شعور حاصل ہو جائے گا اور ہندسوں اور اعداد کے چکر میں پڑ کر اس کے سارے سہانے خواب چور ہو جائیں گے۔
ہم سیر کے لئے نکلتے ہیں تو میں اس خیال سے کہ اس میں زندگی کی دشواریوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا ہو اس کے لئے نسبتاً مشکل راستوں کا انتخاب کرتا ہوں۔ اس میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے اس کا ہاتھ چھوڑ دیتا ہوں مگر وہ اس کا برا نہیں مانتا۔کیوں کہ اسے آسان اور مشکل راستوں کا فرق معلوم نہیں ہے۔ اس لئے اگر کبھی سیڑھیاں اونچی ہوں اور اس سے عبور نہ ہو سکتی ہوں تو وہ بیٹھ کر اور گھسٹ کر انہیں عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے فٹ پاتھ سے بچ بچا کر گزر جاتا ہے۔ مگر بنانے والوں کی نیت اور کارکردگی پر شک کا اظہار نہیں کرتا۔ مین ہول کے ڈھکنے چوری کرنے والوں کو گالیاں نہیں دیتا اور کارپوریشن کے عملے کی نا اہلی کا شکوہ نہیں کرتا۔ میں سوچتا ہوں کاشی کتنے مزے میں ہے۔سارا آشوب تو آگہی کاہے۔حقیقت سے آگاہ ہو کر آدمی کتنا غیر مطمئن ہو پریشان ہو جاتا ہے۔ ذہنی طور پر نابالغ لوگ کتنی سادگی اور معصومیت سے استحصالی قوتوں اور صورت حال کا شکار رہتے ہیں مگر کتنے مطمئن اور قانع نظر آتے ہیں۔
کاشی کو ہر بچے کی طرح پرندے، جانور اور ان کی کہانیاں اچھی لگتی ہیں میں اسے تمام کہانیاں جو مجھے یاد تھیں سنا چکا ہوں لیکن اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ میں ہر بار نئی کہانی سناؤں۔ چنانچہ میں جانوروں اور پرندوں کی کہانیاں اپنے پاس سے گھڑ گھڑ کر سناتا رہتا ہوں۔ اس طرح میرا اپنا بھی کیتھارسس ہوتا رہتا ہے مثلاً میں نے پچھلے دنوں اسے طوطوں والی ایک کہانی سنائی اس کہانی میں ایک باغ کا ذکر تھا جس میں طرح طرح کے خوبصورت اور پھلدار درخت تھے مگر جب بھی بور آتا اور پھل لگتا، قریبی جنگل سے ہریل طوطوں کی ایک ڈار آ جاتی اور کچے اور ادھ پکے پھلوں کو کتر کتر کر نیچے پھینکنے لگتی۔ یوں ہر بار پھلوں کے پکنے سے پہلے سارے پیڑ ویران اور بے ثمر ہو جاتے۔
کاشی ابھی کم سن ہے اس لئے اسے کہانی سنانے میں بڑی آسانی رہتی ہے۔وہ سوال جواب نہیں کرتا اور ہر بات چپکے سے تسلیم کر لیتا ہے مثلاً طوطوں والی اس کہانی کو سن کر وہ یہ نہیں پوچھتا کہ باغ کے رکھوالے کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ اور اپنی غلیلوں سے ان کو مار یا بھگا کیوں نہیں دیتے۔
میں چونکہ کاشی سے محبت کرتا ہوں اس لئے اس کے بارے میں ہر وقت فکرمند رہتا ہوں۔ مجھے خوف لگا رہتا ہے کہ وہ ٹرائی سائیکل سے گر کر زخمی نہ ہو جائے، چاقو یا بلیڈ سے انگلی نہ کاٹ بیٹھے،چولہے کے قریب جانے پر اس کا ہاتھ یا پاؤں نہ جل جائے۔ کوئی سکہ نہ نگل لے یا کوئی دوسرا بچہ پتھر مار کر اس کی آنکھ نہ پھوڑ دے۔ رات کو وہ زکام کی وجہ سے زور زور سے خراٹے لیتا ہے تو میرا دل بیٹھنے لگتا ہے خدانخواستہ اسے خناق یا نمونیہ تو نہیں ہو گیا ؟بیمار پڑ جائے تو ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے ہچکچاتا ہوں کہیں وہ کوئی مہلک یا خطرناک بیماری دریافت نہ کر لے۔
اس نے جب سے چلنا پھرنا سیکھا ہے۔ مجھے گلیوں اور محلوں میں سائیکلیں دوڑانے اور سکوٹر اور کاریں بھگانے والے کھٹکنے لگے ہیں۔ مجھے یہ سوچ کر ہول آتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد جب وہ اسکول جانے لگا تو اسے سڑکیں پار کرتے ہوئے کتنی ہی موٹر سائیکلوں اور تیز رفتار گاڑیوں سے بچنا ہو گا اور اس کی سلامتی کیسے کیسے غفلت شعار اور رفتار کے نشے میں چور ڈرائیوروں کے رحم و کرم پر ہوگی۔
گلی محلے میں کوئی اجنبی شخص نظر آ جائے تو مجھے اس پر بردہ فروش ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ ہم نے کاشی کو سخت تاکید کی ہوئی ہے کہ وہ گھر سے باہر کسی آدمی پر اعتبار نہ کرے اور کھلونا یا کھانے پینے کی چیز ہرگز قبول نہ کرے اور اس اندیشے کے پیش نظر کہ وہ گم ہو جائے یا کھو جائے تو اسے والدین کے نام اور گھر کا پتہ یاد ہو ہم نے باتوں باتوں میں یہ معلومات ذہن نشین کرا دی ہیں۔ ایک روز وہ گلی میں کھیل رہا تھا اس کی امی باورچی خانے سے نکل کر تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسے ایک نظر دیکھ لیتی تھی کہ اچانک وہ بھاگتا ہوا اندر آیا۔ وہ بے حد گھبرایا ہوا تھا اور اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ اس کی امی نے پوچھا۔
’’کیا ہوا بیٹے؟‘‘
کہنے لگا۔ ’’امی۔۔۔ آدمی۔‘‘
اس کی امی نے بھاگ کر دروازہ بند کر لیا کیونکہ وہ آدمی اس کے پیچھے پیچھے دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا مگر اسی لمحے باہر سے آواز سنائی دی۔
’’بیٹی میں اختر علی ہوں۔۔۔ ادھر سے گزر رہا تھا کہ کاشی کو دیکھ کر رک گیا۔میں اسے پیار کرنا چاہتا تھا مگر وہ ڈر کر اندر بھاگ آیا۔ آپ لوگوں نے آدمیوں سے اسے اس قدر خوفزدہ کیوں کر رکھا ہے؟‘‘
پچھلے دنوں سابقہ تلخ تجربوں کی بنیاد پر بیوی نے مجھے مشورہ دیا کہ کاشی کے نرسری کلاس میں داخلہ کی بروقت رجسٹریشن کروا لینی چاہیے تاکہ بعد میں دشواری نہ ہو۔ میں نظریاتی طور پر انگلش میڈیم تعلیم کے خلاف ہوں۔ اپنی قومی زبان سے محبت کرتا اور انگریزی زبان کی بالا دستی کے خلاف تقریریں کرتا رہتا ہوں۔ لیکن کاشی کے لئے میں نے انگلش میڈیم سکول میں داخلے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ مجھے اس سے محبت ہے اور میں اسے اپنی طرح ناکامیوں اور احساس کمتری کا شکار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں نے نرسری کلاس میں اس کے داخلہ کے بارے میں جو معلومات حاصل کیں ان سے پتہ چلا کہ اس کے لئے اسے جنوری اور جون کے درمیان کسی وقت پیدا ہونا چاہیے تھا جب کہ وہ چودہ اگست کو پیدا ہو گیا تھا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ ایک جھوٹا برتھ سرٹیفیکیٹ بنوایا جائے اور اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز اور بنیاد ہی جھوٹ پر استوار ہو۔ میں ہر تعلیم یافتہ شخص کی طرح جھوٹ کو ناپسند کرتا ہوں مگر کیا کیا جائے مجھے کاشی کا مستقبل بہت عزیز ہے۔ویسے بھی جہاں تک سرٹیفیکیٹ کا تعلق ہے میں اسے معمول کا ایک حصہ خیال کرتا ہوں۔ دفتری امور میں ہر بات پر سرٹیفیکیٹ اور بیان حلفی مانگا جاتا ہے اگر ہم سچ اور جھوٹ کے چکر میں پڑے رہیں تو دفتری امور تو ایک طرف تنخواہ، اوور ٹائم اور ٹی اے ڈی اے کچھ بھی وصول نہ ہو مثلاً مجھے تین سو روپے ماہوار سواری الاؤنس یہ سرٹیفیکیٹ دینے پر ملتا ہے کہ میں نے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے لئے کم از کم تین سو میل سفر کیا ہے اگر میں نے یہ سفر دو سو ننانوے میل کیا ہو اور سچ بولتے ہوئے اس کا اندراج بھی اسی طرح کر دوں تو مجھے ایک پیسہ تک نہیں مل سکتا۔ اب کون اتنا احمق ہو گا جو اتنا بے ضرر سا جھوٹ نہ بول کر مہنگائی کے اس زمانے میں پورے تین سو روپے کا نقصان کر بیٹھے۔ سچی بات یہ ہے کہ غیر فطری قوانین اور ضابطے بنا کر بد دیانتوں اور مجرموں کی ایک پوری نسل پیدا کی جا سکتی ہے۔ آپ بے شک مستطیل یا مربع کے اضلاع پر سڑکیں اور فٹ پاتھ بنوا دیں مگر جیومیٹری اور ریاضی سے نابلد شخص بھی وتر کے مقام پر شارٹ کٹ خود تلاش کر لیتا ہے۔
میں نے کاشی کے کیرئیر کے بارے میں بھی سوچا ہے اگرچہ میرا جی یہی چاہتا ہے کہ اسے ایسی تعلیم دلاؤں اور اس کے لئے ایسے مضامین کا انتخاب کروں جو اسے بہتر انسان بننے میں مدد دیں مگر میں نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں فیصلہ کیا ہے کہ میں اسے ایسی تعلیم دلاؤں گا کہ وہ کچھ اور بنے یا نہ بنے معاشی اور اقتصادی طور پر بہرحال آسودہ حال انسان ہو۔
کاشی کی وجہ سے گھر کا ماحول ہی نہیں بدلا، میرا مزاج اور بہت سی عادتیں بھی تبدیل ہو گئی ہیں میں رات کو اکثر دیر سے گھر آنے کا عادی تھا مگر اب زیادہ تر وقت گھر پر گزارتا ہوں گھر کے دوسرے افراد کی طرح میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ کاشی کو خوش رکھا جائے اور اس کے سامنے چیخ یا چلا کر بات نہ کی جائے۔ گالی نہ بکی جائے۔ الزام تراشیاں نہ کی جائیں، جھوٹ نہ بولا جائے۔ بات بے بات سرزنش کر کے اس کی انا اور تشخص کو مجروح نہ کیا جائے اور اس پر بلاوجہ پابندیاں لگا کر اس کے دل میں نفرت کا بیج نہ بویا جائے۔۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کاشی نے میری ہمت اور حوصلے کو پست کر دیا ہے۔ اس سے پہلے اگر میرا نا اہل اور بدمزاج باس بلاوجہ مجھ پر بگڑتا یا میرے ساتھ نا انصافی کرتا تھا تو میں اس کے منہ پر فائل مار دینے کا حوصلہ رکھتا تھا مگر اب بہت کچھ سن اور سہہ لیتا ہوں۔ پہلے اگر میں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کو جہاد سمجھتا تھا تو اب خاموش رہنے کو جہاد سمجھتا ہوں۔ میں نے مصالحت اور مصلحت پسندی کو اپنا شعار بنا لیا ہے اور اپنے بہت سے نظریات میں لچک پید کر لی ہے اور یہ سب کچھ میں نے کاشی کی وجہ سے کیا ہے۔ میرا خیال ہے میں اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتا ہوں۔ اگر اس کے گلے پر چھری رکھ کر مجھے کسی ناکردہ گناہ کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا جائے تو میں اس کے گلے پر چھری نہیں چلنے دوں گا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ وہ لوگ کتنے عظیم اور غیرمعمولی انسان تھے جو اپنے بیٹوں کو حق کی راہ میں قربان کر دینے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتے تھے۔ میں نے خود سے کئی بار سوال کیا ہے کہ کیا میں ایسا کر سکتا ہوں مگر مجھے بڑے سے بڑے آدرش کے لئے بھی اپنی طرف سے خاموشی کے سوا کوئی جواب نہیں ملا۔ ایسا لگتا ہے جیسے کاشی سے بڑھ کر میرا کوئی آدرش نہیں ہے۔مجھے اپنی اس خود غرضی اور بزدلی پر ندامت ہے۔مجھے اپنے جرم کا احساس ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا نہیں، اپنے اپنے کاشی سے محبت کرنے والے بہت سے اور لوگ بھی اسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اسی کی سزا پا رہے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.