Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کابلی والا کی واپسی

انور قمر

کابلی والا کی واپسی

انور قمر

MORE BYانور قمر

    کابلی والے کے ہونٹ لرزے۔

    ’’اچھا صاحب اب میں چلوں۔۔۔ وقت کم ہے۔ کچھ سامان بھی خریدنا ہے۔ صبح چار بجے کی گاڑی ہے۔‘‘

    ’’ہاں خان۔ ‘‘جیسے میں نیند سے جاگا۔ کوئی دردناک خواب دیکھتے دیکھتے چونکا۔

    ’’اب کب آؤگے خان؟ میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ ایک انجانے دکھ سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے ایک لمبا گرم سانس چھوڑکر کہا: پتہ نہیں صاحب۔۔۔ اکیس برس کے بعد گھر لوٹا ہوں۔۔۔ پلٹ کر دیکھو تو یہ عرصہ کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا! آگے دیکھو تو ایک ناقابل عبور پہاڑی راستہ! اب تو شاید ہی واپسی ہو۔ ‘‘یہ کہتے کہتے اس کا گلا رُندھ گیا اور وہ اپنے وجود کی گہرائیوں میں آئے ہوئے زلزلے سے لرزنے لگا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جیسے اسے اچانک یاد آیا۔

    ’’صاحب ! جاتے جاتے مجھے وہ تصویریں پھر دکھا دیجیے۔ جو تصویریں آپ جیل میں دکھانے کے لیے اکثر لایا کرتے تھے۔ ایک عرصے کے بعد گھر جا رہا ہوں، چاہتا ہوں کہ وطن کی ہر چھوٹی بڑی یاد تازہ ہو جائے اور اپنے ملک سے برسوں کی دوری کی بنا پر جو اجنبیت کا پر خوف احساس پیدا ہو گیا ہے۔ میرے دل میں۔۔۔ وہ ڈر بھی دور ہو۔ ‘‘میں نے اثبات میں گردن ہلائی اور بک شلف سے کتاب نکال کر اس کے آگے رکھ دی۔ بیس سال بہت ہوتے ہیں اور قیمتی بھی بہت ہوتے ہیں اپنی بیتی ہوئی زندگی سے ہم نے ان کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ خان کی زندگی جیل کی دیواروں کے بیچ میں کٹی تھی۔ میں جب بھی اس سے ملنے کے لیے جایا کرتا تھا، یہ کتاب اس کی دلجوئی کے لئے اپنے ساتھ ضرور لے جاتا تھا۔ وہ کتاب کے اوراق الٹتا اور اپنی یادوں کے تہہ خانوں میں اتر جایا کرتا۔ پھر وہ آج کے رحمت سے کل کے نوعمر رحمت کو یوں ملاتا گویا وہ جدا جدا شخصیتیں ہوں اور ایک دوسرے سے اجنبی ہوں۔

    ’’یہ ہے میرا مدرسہ۔ فجر کی نماز کے بعد مولوی صاحب ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ ‘‘

    ’’لا الٰہ الا اللہ محمدالرسول اللہ‘‘۔ ۔ ۔ میں دہراتا،

    ’’لا الٰہ الا اللہ محمدالرسول اللہ‘‘۔۔۔ پھر عبدالرزاق دہراتا،

    ’’لا الٰہ الا اللہ محمدالرسول اللہ‘‘۔۔۔ عبدالقادر دہراتا۔ ہماری آواز مسجد سے لگی خانقاہ کے دریچوں سے نکلتی اور کوہِ دمام اور ہندوکش کی وادیوں میں ڈوب جاتی تھی۔ مولوی صاحب کی آواز پاٹ دار تھی۔ ان کے چہرے کو دیکھ کر مجھے جلال آباد کا وہ خطہ یاد آ جاتا کہ جہاں کی زمین سوکھ کر تڑخ چکی تھی۔ ان کی آنکھیں دو بڑے بڑے گڑھوں میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ لمبی سفید داڑھی، باریک مونچھیں، سر پر عمامہ لمبا کرتا، کسا ہوا کمر بند، ٹخنوں سے اونچی شلوار اور زری کا کمانی دار جوتا، وہ خانقاہ میں بلا معاوضہ قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ پر روزی کمانے کے لیے روس کی سرحد پر لگنے والے بازار میں سے گھوڑے خریدتے اور انہیں شہر میں لا کر بیچا کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارت یوں کرو کہ جیسے ہمارے رسول نے کی تھی۔ یعنی نفع اتنا ہی کماؤ کہ جتنا آٹے میں نمک پڑتا ہے۔ صاحب میں بھی اپنا مال بہت کم نفع پر بیچتا ہوں۔ مولوی صاحب کی بات مجھے اب تک یاد ہے۔ مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگتی کہ یہ بات نو عمر رحمت سے نہیں کہی گئی ہے، بلکہ یہ بات کا بلی والے نے مجھ سے کہی ہے۔

    ’’وہ دن تو ہمارے لیے بڑی تفریح کا ہوتا کہ جس دن مولوی صاحب گھر میں اون رنگا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے مکان کے پچھواڑے پتھروں کو جوڑ کر حوض سا بنا لیا تھا۔ اس حوض میں وہ اخروٹ کی کوٹی ہوئی چھال اور رنگ، پانی میں حل کرتے، پھر وہ اسے نیچے سے لکڑی لگا کر تپاتے تھے۔ جب یہ آمیزہ ابل ابل کر خوب گاڑھا ہو جاتا تو وہ اس میں اون چھوڑا کرتے تھے۔ کیا رنگ چڑھتا تھا اون پر!۔‘‘ وہ کہتا :

    ’’دیکھ رہے ہیں آپ اس رومی دروازے کو! پتھروں کی سلیں ایک دوسرے پر رکھی ہوئی یوں نظر آ رہی ہیں کہ جیسے ان کے بیچ کوئی مصالحہ ہی نہ لگایا گیا ہو! آپ چاہیں تو ایک ایک کر کے انہیں اٹھا کر الگ رکھ سکتے ہیں۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ یہ سلیں پچھلے ڈیڑھ ہزار برس سے یوں ہی رکھی ہوئی ہیں۔ نہ تو برفانی ہواؤں کا اثر ہوتا ہے ان پر نہ صحرا کے گرم جھکڑوں کا! یہ دیکھے نا۔۔۔ یہ کمان سترہ سلوں کو جوڑ کر بنائی گئی ہے اور ہر دو سلوں کے درمیان میں کھانچے ہیں، لیکن مجال نہیں کہ ایک بھی سل اپنی جگہ سے سرک جائے۔‘‘ وہ یہ بھی کہتا:

    ’’دیکھئے یہ اسی خانقاہ کا دروازہ ہے۔ فریم کے اطراف کا پلستر جھڑ چکا ہے۔ لیکن پھر بھی فریم اپنی جگہ پر قائم ہے۔ لکڑی کے کام میں باریکی نہیں، نقش نہیں، کوئی ابھار نہیں۔ لیکن۔۔۔ پائیداری ہے۔ سادگی ہے اسی لئے دیکھنے میں بھلا لگتا ہے۔ دور دور سے عورتیں اپنی منتیں مانگنے یہاں آتی ہیں۔ اس کے دستے سے بندھے ہوئے ہر ڈورے سے ایک ایک مراد منسوب ہے۔‘‘ اس کتاب میں بے شمار تصویریں تھیں۔ کابلی والا ورق الٹے چلا جاتا اور اس کا سلسلۂ کلام بھی جاری رہتا۔ یہ ہے عبدالرحمان سقّہ۔ چاندی کے پیالوں میں دھوپ میں جھلستے ہوئے مسافروں کو پانی پلایا کرتا۔ ۔ ۔ گرمیوں میں پہاڑیاں تپ جاتی تو وہاں سے ہوا بگولوں کی شکل میں ہمارے شہر میں داخل ہوا کرتی تھی۔ گھر سے نکلنا جان جوکھوں کا کام ہوتا۔ ایسی تپش میں عبدالرحمان کی آواز پانی لے لو پانی۔ پیر مراکش کے چشمے کا ٹھنڈا پانی۔۔۔ ‘‘

    ’’اس کا پانی واقعی کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاتا اور جسم کو تراوٹ بخشتا تھا۔ ‘‘کابلی والے کی ان تمام باتوں کو میں کیوں کر سمیٹوں؟ بیس سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے واقعات! بعض اوقات رحمت ایک ہی تصویر کے کئی کئی وژن پیش کرتا۔ مجھے لگتا کہ مقام تو ایک ہی ہوسکتا ہے۔ عمارت بھی ایک ہی ہوگی۔ راستہ بھی ایک ہی ہوگا۔ لیکن موسم بدل جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ دل کی کیفیتیں بھی! دن رات میں اور رات دن کے قالب میں اتر جاتی ہے۔ ان بدلتی ہوئی رتوں اور اس لمحہ لمحہ پگھلتے ہوئے وقت کے درمیان میں کتنے رنگ، کتنی خوشبوئیں، کتنے نغمے ہم دیکھتے، محسوس کرتے اور سنا کرتے ہیں۔ یہ تمام احساسات ہمارے ذہن کے تہہ خانوں میں اتر کر روپوش ہو جاتے ہیں لیکن جب کبھی ہم اس کیفیت سے ملتی جلتی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں تو وہ تمام رنگ، وہ تمام خوشبوئیں اور وہ تمام نغمے دھیرے دھیرے ہمارے ذہن کے گھونسلوں سے خوش رنگ پرندوں کی طرح برآمد ہونے لگتے ہیں اور پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ کابلی والا کبھی مجھ سے پہاڑوں پر بسے ہوئے گاؤں کا ذکر کرتا۔ پہاڑوں پر ہی قائم مدرسوں میں تختیاں لکھتے اور خدا کی حمد و ثنا کرتے بچوں کا ذکر کرتا اور یہ واقعہ ہے کوہ بابا، بند بیاباں، سفیدہ کوہ، کوہ دمام، ہندوکش اور کوہ سلیمان پر چھوٹی چھوٹی کئی بستیاں آباد ہیں کہ جن پر اس جدید دور کا سایا تک نہیں پڑا اور وہاں کے باسی اب بھی قدیم روایتوں اور پارینہ رسموں کے سہارے اپنی زندگی گزار ا کرتے ہیں۔ وہ کسی دوست محمد خاں، ہمایوں، احمد شاہ، عاشق خان، شاہ محمود، فتح خان، کامران، شیر علی اور یعقوب خاں کا ذکر کرتا کہ بلندو بالا پہاڑیوں پر جڑی بوٹیوں کی تلاش میں جایا کرتے تھے یا پہاڑ پر سے نمک حاصل کرتے اور پھر گاؤں میں آ کر اسے تبرک کے طور پر تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ انہی سے منسوب کابلی والا مجھے وہ واقعے بھی سناتا کہ کس طرح احمد شاہ نے ایک حملہ آور شیر کو اپنے لٹھ کی واحد ضرب سے ادھ موا کر دیا تھا اور کسی موقعے پر شیر علی نے ایک کوڑیالے ناگ کو اپنی مٹھیوں میں پکڑ کر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ کاشتکاری کی صعوبتیں، مردوں کو راتوں دفنانے کے پراسرار واقعات، کارواں کے گزرنے کا سحر انگیز بیان وہ یوں کرتا گویا ہر منظر اس کی آنکھوں میں تصویر بن چکا ہو۔ وہاں کے بازاروں، دستکاروں اور عاشقوں کا بھی ذکر کرتا۔ مجھے تو روز نامچہ لکھنا چاہیے تھا۔ تب کہیں جا کر میں اس قابل ہوتا کہ اس یادداشت کے سہارے آپ کو وہ تمام واقعات تفصیل سے سناتا اور یہ بھی درست نہیں ہے کہ وہ باتیں میرے ذہن سے محو ہو چکی ہوں۔ پتہ نہیں، کب کوئی لمحہ کسی واقعے کو ازسرنو یاد کرا دے اور میں رحمت ہی کی تڑپ اور لگن سے ان باتوں کو آپ کے گوش گزار کر سکوں۔

    ’’خان یہ کتاب تم اپنے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے‘‘ آں؟ نہیں صاحب اسے لے جا کر کیا کروں گا؟ اب تو میں خود ہی وہاں پہنچنے والا ہوں۔ اسی فضا میں سانس لوں گا۔ اپنے لوگوں میں رہوں گا۔ انہی پہاڑوں میں گھوموں گا۔ وہی نغمے سنوں گا۔ نہیں، مجھے اس کتاب کی ضرورت نہیں۔ ویسے صاحب !میرے لئے یہ بہت مقدس ہے اسے آپ اپنے پاس احتیاط سے رکھیں نہ جانے کب یہ کس کے کام آ جائے۔ ‘‘رحمت نے اسے آنکھوں سے لگا لیا اور کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ بڑے احترام سے اس نے وہ کتاب میرے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں رکھ دی۔ اسی لمحے میرے دل میں خیال آیا کہ اب میں اس کی نئی جلد بنواؤں گا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یہ کتاب رحمت کے ان خوابوں کا مسکن ہے کہ جن کی تکمیل کی خاطر آج وہ اپنے وطن جا رہا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے، اس نے آنکھیں پونچھیں اور پھر مکان کی دہلیز سے باہر نکل آیا۔ میں بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ کچھ فاصلے تک اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا پھر رک گیا۔ آخر جدائی کے لمحوں کو کون ٹال سکتا تھا۔ خان نے مڑ کر ہاتھ ہلایا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ تعلقات کے ریشمی بندھنوں سے اپنے آپ کو رہائی دلانے میں اسے دشواری ہو رہی تھی۔ آخری بار جب میں نے اسے خوب غور سے دیکھا تو مجھے اچانک محسوس ہوا کہ عمر اس کی پیٹھ پر اپنا بھاری بوجھ ڈال چکی ہے!۔ میرے سینے میں درد کا لاوا ابل پڑا۔ بیس برس پہلے یہ لمبا تڑنگا پٹھان میری بچی کو گود میں اٹھائے ہوئے جب میرے گھر میں داخل ہوا تھا تو مجھے اسے دیکھ کر وحشت سے ہوئی تھی اور مجھے اپنی بچی کا وجود خطرے میں نظر آیا تھا۔ لیکن آج۔۔۔!وہ موسمی پرندے کی طرح رخصت ہو رہا تھا۔ اپنے دیس کو کہ جہاں فرحت بھی تھی اور چاہت بھی، دلنوازی بھی تھی اور راحت بھی اور جہاں کا موسم خوشگوار تھا۔ کابل کے بازار میں جب رحمت کی بس جا کر رکی تو کوئی شور نہیں اٹھا! کوئی کسی کو لینے نہیں لپکا! کسی نے کسی کو نہیں پکارا! نہ قہوہ بیچنے والے کی آواز آئی! نہ کسی چائے والے کی پکار سنی! کوئی آواز تھی تو صرف، سڑکوں پر دھمکتے بوٹوں کی۔۔۔!! کابلی والا بس کی کھڑکی سے سر ٹکائے سو رہا تھا۔

    ’’اے‘‘کسی نے اسے ٹھوکا دیا۔ رحمت کراہ اٹھا۔ ایک فوجی رائفل کے دستے سے اسے دوبارہ ٹہوکا دینے جا رہا تھا۔ رحمت نے دونوں ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔

    ’’پاسپورٹ ‘‘ فوجی نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

    ’’ہندوستان سے آئے ہو؟‘‘ سوال پشتو میں کیا گیا۔

    ’’ہاں‘‘ فوجی کے رویے نے اسے دکھی کر دیا تھا۔ یہ کیا، میرے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک!

    ’’میرے ساتھ آؤ۔‘‘ یہ کہہ کر فوجی بس میں سے تیزی سے اتر پڑا۔

    ’’میرا سامان‘‘ رحمت نے بس کے کیرئیر پر رکھے اپنے سامان کی طرف اشارہ کیا۔ اس فوجی نے اپنے ساتھی سے کسی غیرزبان میں بات کی۔ دوسرے نے اثبات میں گردن ہلائی۔ کابلی والا اب تک سمجھ نہیں پارہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

    ’’ارے بھائی مجھے اپنا سامان تو لینے دو۔ تم اپنی ہی ہانکے جا رہے ہو۔ میں کوئی چور اچکا نہیں ہوں اور نہ ہی اسمگلرہوں۔‘‘

    ’’بکواس بند کرو۔۔۔ جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل کرو۔‘‘ یہ کہہ کر اس فوجی نے رائفل کے دستے سے اس کے شانوں پر دوسرا ٹہوکا دیا۔ آہ۔۔۔ خان اپنا شانہ تھام کر کراہا۔ اس کے جی میں آیا کہ رائفل چھین لے اور گھما کر ایسا ہاتھ مارے اس کے ماتھے پر کہ کھوپڑی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے۔ لیکن اس کے کانوں میں بوٹوں کی دھمک کے ساتھ ساتھ اجنبی زبان میں دیے جا رہے فوجی احکامات بھی گونج رہے تھے۔ اب وہ فوجی کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا اور مینٹل نوٹس لینے لگا تھا۔ سڑک اب پختہ ہو چکی ہے۔ لیمپ پوسٹ قائم کر دیے گئے ہیں۔ فلمی پوسٹر، اشتہارات۔۔۔ اس نے گالی دی۔ دنیا میں سب سے زیادہ چڑھ اگر اسے تھی تو ان اشتہارات سے تھی۔ جھوٹے، گمراہ کن اشتہارات، جو اپنے مال کا وصف بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اس میں وہ وہ خوبیاں کرتے ہیں کہ جن کا سرے سے اُس میں وجود ہی نہیں ہوتا۔ سالا کوئی تو ہو جو اپنے مال کا تھوڑا سا کھوٹ بھی بتا دے۔ پولس اسٹیشن۔۔۔ ہاں وہی ہے۔ عمارت کو لیپ پوت کر، نئی روح پھونک دی گئی ہے اس میں! پتھر کی بنی ہوئی پختہ عمارت لمبی چوڑی! لیکن یہ کیا؟ بیس پچیس برس پہلے یہ اتنی وسیع تو نہ تھی اور اب! کیا میرے دیس میں اتنے جرم ہونے لگے ہیں؟وہ کئی راہ داریوں سے ہوتے ہوئے کئی کمروں کے سامنے سے گزرتے، عمارت کے بالکل آخری حصے میں پہنچ گئے جہاں صرف ایک کمرہ تھا اور دو با وردی فوجی پہرے پر تعینات تھے۔ خان کو ان کی تحویل میں دے کر یہ فوجی دستک دے کر اس کمرے کے اندر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد واپس ہوا۔ اشارے سے اس نے خان کو اندر آنے کے لئے کہا۔ سب سے پہلی بات جو خان نے نوٹ کی وہ کہ کمرہ بہت بڑا تھا۔ اس کا فرنیچر اعلی اور قیمتی تھا۔ دوسری بات جو اس نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ کھڑکیوں پر دبیز پردے پھیلے ہوئے تھے۔ باہر والے کو اندر کی کسی بات کا نہ تو علم ہو سکتا تھا، نہ تو احساس۔ تیسری بات جو اس نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ جو شخص ٹیبل کے پیچھے اونچی کرسی پر بیٹھا تھا وہ اس کے ملک کا باشندہ نہیں تھا۔

    ’’بیٹھو۔‘‘ اس نے خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ذرا سی جھجک محسوس کرتے ہوئے خان کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ سوچنے لگا یہ شخص مجھ سے کیا پوچھےگا؟ ان سوالات کے پیچھے اس کا کیا مقصد ہوگا؟ آخر یہ شخص کون ہے؟ غیرملکی ہے تو پشتو کیسے جانتا ہے؟ یہ سوچ کر اسے الجھن سی ہونے لگی۔ رحمت اس سے پہلے بھی کئی موقعوں پر ایسی ہی الجھنوں کا شکار ہوا تھا۔ یہ الجھنیں ہی تھیں کہ جو اسے ٹینس رکھتی تھیں اور اس کے اعصاب پر بوجھ ڈالتی تھیں۔

    ’’کتنے عرصے بعد لوٹے ہو؟‘‘ اس نے رحمت کے پاسپورٹ کو الٹتے پلٹتے ہوئے پوچھا۔

    ’’اکیس برس بعد۔ ‘‘ خان اگلے سوال کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے لگا۔

    ’’اکیس برس بعد؟ اتنے برسوں تک کیا کرتے رہے؟ سوال میں ہمدردی کا پہلو نمایاں تھا۔

    ’’سوکھا میوہ۔۔۔‘‘ خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ سوکھا میوہ بیچنے کی غرض سے وہ یہاں سے ہندوستان گیا تھا۔ پھر جو حادثہ پیش آیا؟ جس کے نتیجے میں اسے عمر قید کی سزا ملی۔ کیا میں اس کا ذکر کر دوں؟ تو پھر یہ میرا شمار خونیوں اور قاتلوں میں نہ کرنے لگے؟

    ’’ہاں ہاں کہو۔۔۔ رک کیوں گئے؟‘‘ اس کے لہجے سے شفقت اب بھی ٹپک رہی تھی۔ خان نے ہمت باندھی اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سارا واقعہ سنا دیا۔ میوے کی فروخت۔۔۔ پھر خریدار کا میوے کی خریداری سے مکر جانا۔۔۔ بعد حجت کے طیش میں آکر خان کا اسے چھرا مار دینا۔۔۔

    ’’اور پھر مجھے بیس سال کی سزا ہو گئی۔‘‘ یہ کہتے کہتے خان کی آواز بلند ہو گئی۔

    ’’اوہ۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ تم نے اس دوران میں اپنے گھر کوئی خط لکھا؟‘‘

    ’’خط۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ اس نے ہامی بھری۔

    ’’کئی لکھے۔ اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنی بیٹی کو‘‘ وہ یاد کرنے لگا۔۔۔’’اور اپنے دوست رمضان خان کو۔ ‘‘

    ’’لیکن ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ انہیں تمہارا کوئی خط نہیں ملا۔‘‘

    ’’نہیں ملا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘

    ’’ان کی جانب سے تمہیں کوئی خط ملا؟‘‘

    ’’نہیں‘‘ خان پریشان ہو گیا۔

    ’’اور سنو تمہارا دوست رمضان اب یہاں پر نہیں ہے۔ وہ کراچی جا چکا ہے۔ تقریباً سات برس ہوئے۔ وہاں وہ ٹیکسی چلاتا ہے۔ ‘‘

    ’’ٹیکسی چلاتا ہے؟ کراچی میں ہے؟‘‘ خان کو جیسے اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔ اس کے ذہنی افق پر رمضان کی بڑی دھندلی تصویر اتر آئی۔ رمضان اب یہاں نہیں ہے کراچی میں ٹیکسی چلاتا ہے۔ اس سنگین شہر میں، جہاں لوگ چھرا لے کر سینوں پر چڑھ بیٹھتے ہیں اور بات بات میں ماں بہنوں کو یاد کرتے ہیں اور وقت بےوقت علاقائی تعصب، رنگ و نسل کا فرق اور فرقوں کے اعلی و ادنی ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ رمضان وہاں کیسے جی پاتا ہوگا؟

    ’’لیکن صاحب آپ کو یہ ساری باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟ اور میں غلطی نہیں کر رہا ہوں تو آپ غیر ملکی ہیں؟‘‘ وہ مسکرایا اور ٹیبل پر رکھی ہوئی فائل خان کے سامنے اچھال دی۔

    ’’یہ تمہاری تاریخ ہے۔ ‘‘

    ’’میری تاریخ؟‘‘

    ’’ہاں تمہاری ہسٹری، اس میں سب کچھ درج ہے۔۔۔ تمہارے چچا محمد یار خان مظفر آباد کے موضع گڑھی سیداں سے شہر کا بل میں کب وارد ہوئے؟۔ ان کی سرپرستی میں تمہارا بیاہ دلاور خان کی بیٹی سے کب ہوا؟۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران تمہارے چچا کا موروثی کاروبار کیوں کر ٹھپ ہوا؟ اور تم پھر اپنی قسمت آزمانے ہندوستان کب گئے؟۔ یہاں تمہارے کون کون سے رشتے دار ہیں اور کن کن کا انتقال ہو چکا ہے؟۔‘‘

    ’’انتقال‘‘ خان نے ہاتھ بڑھا کر اسے رکنے کا اشارہ کیا۔

    ’’انتقال؟ کس کا انتقال ہوا ہے؟ بتائیے۔۔۔ میری بیوی، میری بیٹی، میرا بھائی خیریت سے تو ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ سب خیریت سے ہیں ۔ جب تم اپنے گھر جاؤگے تو تمہیں سب پتا چل جائےگا۔ کچھ دیر بعد بولا

    ’’اچھا یہ بتاؤ کہ تمہیں کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے؟‘‘

    ’’کام سے؟‘‘

    ’’ہاں لیاقت علی خان نے۔ ‘‘

    ’’نہیں جناب میں کسی کام سے نہیں آیا ہوں یہاں اور لیاقت علی خان سے میرے مراسم بڑے پرانے ہیں۔ ہم دونوں نے اکھٹے ہی کابل چھوڑا تھا۔ اب وہ دلی میں کسی جگہ ملازم ہیں۔ وہ مجھ سے کیا کام لےگا میں تو اپنی بیوی، اپنی بچی اور اپنے بھائیوں سے ملنے آیا ہوں۔ ان کے ساتھ اپنی زندگی کے بچے کھچے دن گزارنے آیا ہوں۔ آپ کو۔۔۔ آپ کو شاید میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے جناب! میں بہت معمولی آدمی ہوں۔‘‘ رحمت نے اپنے تئیں یہ باتیں تو بڑی زندہ دلی اور بڑے خوش گوار انداز میں کہیں لیکن دلی طور پر وہ رنجیدہ ہو چکا تھا۔ اسے فکر ہونے لگی تھی کہ کسی انجانی غلطی کی سزا نہ مل جائے اسے۔ بہ ظاہر متین اور سنجیدہ نظر آنے والے اس چوڑے چکلے شخص سے اب وہ خوف محسوس کرنے لگا تھا۔

    ’’اچھا یہ بتاؤ کہ تم کبھی اس کے دفتر گئے ہو؟۔‘‘ خان کے لئے اس کے سوالات ناقابلِ برداشت ہوتے جا رہے تھے۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بخار میں تپ رہا ہے اور کوئی لاؤڈاسپیکر اس کے کانوں سے لگائے چیخ رہا ہے۔

    ’’بس جناب بس کیجیے۔ کل کے لئے بھی کچھ اٹھا رکھیے اور اس وقت مجھے گھر جانے دیجیے۔ آپ کیوں مجھ پر شک کر رہے ہیں؟ میں وہی رحمت ہوں کہ جس کی زندگی کا ایک طویل حصہ اس سرزمین پر گزرا ہے۔ یہ میرا وطن اور میری امنگوں کا گہوارہ ہے۔‘‘ یہ کہہ کر رحمت کرسی سے اٹھا۔ کرسی الٹ گئی۔ رحمت پر اب اتنی ہیبت طاری ہو چکی تھی کہ اسے خیال بھی نہ آیا کہ وہ الٹی ہوئی کرسی کو سیدھا کر دے۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے کمرے سے باہر چلا آیا۔ آفیسر نے ٹیبل کے داہنے کونے پر نصب بٹن دبایا۔ دو باور دی فوجی کمرے میں داخل ہوئے۔

    ’’اس پر نظر رکھو اور کل دس بجے یہاں پھر پہنچنے کی ہدایت دے دو۔ ‘‘وہ اپنی ایڑیاں بجا کر مجسموں کی طرح پلٹے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی کمرہ ایک ویران مقبرے میں بدل گیا۔ رحمت کو اپنا مکان تلاش کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ اس بیس برس کے عرصے میں سب کچھ بدل چکا تھا۔ ماحول بھی اور منظر بھی۔ درخت اکھاڑ دیے گئے تھے اور ان کی جگہ ٹیلی فون، ٹیلی گراف اور لیمپوں کے پوسٹ کھڑے کر دئے گئے تھے۔ کچے پکے مکان ڈھا دئے گئے اور ان کی جگہ سمنٹ کنکریٹ کے مکعب تعمیر کر دیے گئے تھے۔ دور دور تک کوئی حصہ کھلا نظر نہ آتا تھا۔ شانے سے شانہ لگائے مکانوں کا ایک سلسلہ سا تھا۔ دو چار جگہوں پر پوچھتا پچھاتا آخر کار رحمت اپنے مکان کے دروازے پر پہنچ گیا۔ اپنوں سے ملنے کی بےچینی کے سبب اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔ بیس بائیس برس پہلے کے تمام واقعات اس کی نظروں میں گھومنے لگے۔ اسے وہ خط یاد آیا جو ہندوستان پہنچتے ہی اسے اپنے بھائی کی جانب سے ملا تھا: برادر عزیز! اللہ تعالیٰ کے کرم سے تمہارے ہاں چاند سی لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ بھابی خیریت سے ہیں اور تمہارے سلسلے میں بےحد فکرمند رہتی ہیں ۔ تم نے اپنے ہونے والے لڑکے یا لڑکی کے جو دو چار نام ہمیں بتائے تھے، ہم نے انہی میں سے ایک نام تمہاری بیٹی کا منتخب کیا ہے۔ ’ارجمند بانو‘ اپنا احوال بہ تفصیل ہمیں لکھ بھیجنا۔۔۔ اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے رحمت نے دروازے سے لٹکی ہوئی زنجیر کھٹکھٹا دی۔

    ’’کون؟‘‘ کوئی زنانہ آواز اندر سے آئی۔

    ’’میں ہوں۔‘‘رحمت سوچنے لگا یہ میری بیٹی کی آواز تو نہیں؟ اپنے گھر میں کوئی اجنبی آواز کیسے گونجے؟ اب وہ جوان ہو چکی ہوگی۔ ظاہر ہے اس کی آواز کو میں کیونکر پہچانوں؟ لیکن رحمت کے کان میں جیسے کوئی سرگوشیوں میں کہہ رہا تھا: یہ تیری بیٹی کی آواز ہے۔ ارجمند بانو کی آواز۔

    ’’میں۔۔۔ میں کون؟‘‘ رحمت کو محسوس ہوا کہ اب آواز دروازے کے بہت قریب سے آئی ہے۔ بےاختیارانہ طور پر رحمت کے منہ سے نکلا۔

    ’’میں ہوں میری بیٹی، میں ہوں تیرا باپ رحمت۔‘‘ گویا آسمان شق ہو گیا۔ رحمت کو ایک مسرت آمیز پکار سنائی دی۔ ’’اب۔۔۔ با۔‘‘ والہانہ طور پر وہ اس کے سینے سے چمٹ گئی۔

    ’’ابا۔ کتنی دیر کر دی تم نے آنے میں!۔۔۔ کتنی دیر کر دی تم نے آنے میں!!‘‘رحمت اس کے سرپر ہاتھ پھیرے جاتا تھا اور آنسو اس کی داڑھی میں جذب ہوتے چلے جاتے تھے۔ یکے بعد دیگرے اس کی ملاقات اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ہوئی۔ بیس برس کے عرصے میں وہ اپنے بےشمار عزیزوں کو کھو چکا تھا۔ کوئی ہمیشہ کے لیے اس جہاں سے کوچ کر گیا تھا تو کسی نے تلاش معاش میں اپنا وطن چھوڑ دیا تھا۔ کوئی لام پر تھا! تو کوئی قید میں !!مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھایا گیا۔ برادری کے کم و بیش پچاس ساٹھ آدمی جمع تھے۔ وہ تمام اس کی خیریت دریافت کرتے رہے اور اس کے وطن واپس ہونے پر اپنی مسرت ظاہر کرتے رہے۔ روٹیاں اس کی بیٹی، بھابھی، اور آس پڑوس کی عورتوں نے سینکیں۔ آب گوشت زینب نے پکایا، مرغے شیر خان نے بھونے۔ ان باتوں سے رحمت نے اندازہ لگایا کہ اب ایسی دعوتیں عنقا ہو چکی ہیں بڑی مشکلوں سے چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ راشن پر اناج اور مٹی کا تیل ملتا ہے شکر کی بڑی قلّت ہے۔ دبے سروں میں اسے یہ بھی بتا دیا گیا کہ سیاسی فضا ناسازگار ہے۔ رات میں دروازے پر دستک دی جاتی ہے پھر وہ شخص غائب ہو جاتا ہے یا اطلاع ملتی ہے کہ فلاں فلاں جگہ پر وہ قید کر دیا گیا ہے۔ آدھی رات کے قریب اس نے زینب کو چھوا۔

    ’’کہیے‘‘ اس نے دھیرے سے کہا۔

    ’’تمہیں مجھ سے کوئی شکایت تو نہیں۔‘‘ رحمت نے اس کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیریں۔ زینب کے سامنے گویا اکیس برس کی تمام صعوبتیں اپنے بیمار اور مدقوق چہرے سے ظاہر ہوئیں۔ اس نے ایک ایک کو گنا، ہر ایک کو پہچانا، لیکن رحمت کے ہاتھوں کو اپنے سینے پر تھام کر انہیں فراموش کر دیا۔

    ’’کیسی شکایت؟ اگر ہو بھی تو آپ سے! کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ!‘‘ بڑی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ ان دونوں کو محسوس ہوتا رہا کہ اب وہ نہیں بلکہ ان کی روحیں ایک دوسرے سے مخاطب ہیں اور ان کے جسم ایک دوسرے کو اپنی خوشبوؤں، اپنے لمس، اپنے انداز اور اپنی تپش سے پہچان رہے ہیں۔ فجر کی نماز کے لیے جب رحمت کو جگایا گیا تو اس نے دیکھا کہ ارجمند بانو نے اس کے لیے پانی گرم کر رکھا ہے۔ نیا جوڑا کھونٹی پر لٹک رہا ہے کھڑاویں غسل خانے کے باہر رکھی ہوئی ہے اور انگیٹھی پر رکھی کیتلی میں سے قہوہ کی خوشبو منتشر ہو رہی ہے۔ ناشتے کے بعد رحمت نے حقے کا کش لیا، ایک نظر زینب پر ڈالی جو قہوہ کا فنجان ہاتھ میں تھامے نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔ پھر اپنی بیٹی کو اس نے دیکھا۔ وہ چٹائی کی تیلیوں میں اپنے ناخن پھنسائے کچھ سوچ رہی تھی۔ رحمت کو یاد آیا کہ اس نے کلکتہ کے میوزیم میں نور جہاں کی تصویر دیکھی تھی اور اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ تصویر فریم سے نکل کر اس چہار دیواری میں چلی آئی ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کا بڑا خوش قسمت آدمی سمجھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جیسے اس کا طویل سفر مکمل ہو گیا ہے۔ وہ کٹھن راستوں، پہاڑوں، دریاؤں اور وادیوں کو عبور کرتا اپنی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ اس نے پھر حقّے کا کش لیا۔ خستہ اور اعلیٰ تمباکو کا خوشبودار دھواں سارے میں پھیل گیا۔ رحمت کی پلکیں سرور سے بوجھل ہوئیں اور پھر جھک گئیں ۔ اسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔ ارجمند نے پوچھا ’’کون؟‘‘

    ’’پولس۔‘‘ اونگھتا ہوا رحمت ہڑبڑا کر یوں ہوش میں آ گیا گویا ہزاروں بھینسوں نے اس کے گھر پر حملہ کر دیا ہو۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ اس متین اور سنجیدہ افسر کے سامنے اسی کرسی پر بڑا مؤدب بیٹھا تھا۔

    ’’کیسے ہو خان؟‘‘

    ’’اچھا ہوں جناب‘‘ خان نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

    ’’یہ جوڑا تم پر بہت جچ رہا ہے، ہندوستان سے لائے ہو؟‘‘

    ’’نہیں جناب‘‘ وہ اپنی مخمل کی واسکوٹ پر ہاتھ پھیر کر بولا: ’’میری بیٹی نے سیا ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ اسے تمہارا سائز کیسے معلوم ہوا؟ یہ جوڑا تو ٹھیک تمہارے ہی ناپ کا ہے۔‘‘

    ’’جناب، وہ اپنی ماں سے میرا قد اور میرا ہاڑ پوچھتی، پھر میرا تصور کرتی اور اپنے دھیان سے کپڑے سیتی۔‘‘

    ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ افسر نے خوشگوار انداز میں پوچھا۔

    ’’ممکن ہے جناب، جب لگن سچی ہو اور کام میں کوئی غرض پوشیدہ نہ ہو تو غیب سے امداد نصیب ہو جاتی ہے۔‘‘

    ’’یہاں کیا پروگرام ہے تمہارا؟‘‘

    ’’پروگرام؟‘‘

    ’’ہاں۔ یعنی کہ یہاں کیا کرو گے؟‘‘

    ’’کیا کر سکتاہوں میں یہاں جناب، سوائے یاد الہی کے۔ اس جسم میں صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں باقی رہ گئی ہیں ۔ ساری قوت عمر نچوڑ چکی ہے۔‘‘

    ’’اچھا خان اب یہ بتاؤ کہ لیاقت علی خان نے تمہیں یہاں کس کام سے بھیجا ہے؟‘‘

    ’’جناب میں آپ کو کل ہی بتا چکا ہوں کہ میرا اور لیاقت کا محض دوستانہ رشتہ ہے، ہم وطنی کا تعلق ہے۔ ہم نے ایک دوسرے سے اس کے علاوہ نہ کبھی کوئی غرض رکھی تھی نہ رکھی ہے۔ ‘‘

    ’’خان تم ہم سے کچھ چھپا رہے ہو۔ خوب سوچ لو۔ نتائج تمہارے حق میں برے ثابت ہوں گے۔ میں چاہوں تو تمہیں اس کمرے سے باہر نکلنے نہ دوں۔ لیکن تم اپنے وطن کل ہی لوٹے ہو، اس لئے مجھے تمہیں یہاں روکتے ہوئے افسوس ہوتا ہے۔ اب تم جا سکتے ہو۔‘‘ رحمت اس رات اپنے بستر پر پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔ اس کے کانوں میں افسر کے الفاظ گونجتے رہے اور اس کی آنکھوں کی سرد چاندنی سے وہ جھلستا رہا۔ یہ افسر میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ اسے مجھ پر کیوں اعتبار نہیں؟ اسے مجھ پر کیوں شبہ ہے؟ کیا میں اس سے کچھ چھپا رہا ہوں؟ نہیں کچھ بھی نہیں۔ کیا میں نے اس کی شان میں کوئی گستاخی کی ہے؟ نہیں، میں تو اُسے آپ جناب ہی کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔ اسے یاد آیا کہ جو کرسی ہڑبڑاہٹ میں اس سے الٹ گئی تھی وہ اسے کھڑی کئے بنا ہی کمرے سے نکل گیا تھا۔ رحمت کو اب یہ واقعی گستاخانہ حرکت معلوم ہوئی کمرے سے نکلنے سے پہلے اس نے اس افسر سے اجازت بھی نہیں لی تھی اور نہ اسے رخصتی سلام کیا تھا۔ خدا کرے کہ اب وہ مجھے طلب نہ کرے۔ اس کے باوجود سرِ راہ اگر میری اس سے ملاقات ہو گئی تو میں ضرور اپنی اس غلطی کی اس سے معافی مانگ لوں گا۔ تسلی دیتے ہوئے وہ اپنے آپ کو سمجھانے لگا۔ غیر ملکی لوگ ہیں، آج آئے ہیں، کل چلے جائیں گے۔ انھیں ہم سے کیا لینا دینا۔ انگریزوں کی طرح تھوڑے ہی جم کر رہیں گے اور پھر خود حفاظتی کی تدبیریں تو ہر کسی کو کرنی پڑتی ہیں۔ مجھ سے باز پرس ممکن ہے اسی کی ایک کڑی ہو لیکن اگلی سوچ نے ان تسکین بخش خیالات کی بساط الٹ دی۔ اسے یاد آیا، اس روز کہا جا رہا تھا۔

    ’’سیاسی فضا ناسازگار ہے۔۔۔ رات میں کسی کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، یا تو وہ نابود ہو جاتا ہے یا خبر ملتی ہے کہ فلاں فلاں جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔‘‘ نادانستہ طور پر اس کے منہ سے آہ نکل گئی۔

    ’’کیا بات ہے۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ زینب نے پُر تشویش لہجے میں پوچھا۔

    ’’اوں۔۔۔ ہاں کھڑکی بند کر دو مجھے ٹھنڈ محسوس ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’کھڑکی تو بند ہے۔ ٹھہریے میں آپ کو ایک اور لحاف اڑھاتی ہوں۔‘‘زینب نے دوسرا لحاف اسے اڑھا دیا۔ پھر بڑبڑائی:

    ’’یہ موئی بد روحیں بھی تنگ کرتی ہیں، اچھے بھلے انسان کو۔ آپ چاروں قل پڑھ کر کے سویا کریں۔‘‘وہ خود سورۂ الحمد کا وِرد کرنے لگی۔ فجر کی نماز اس نے خانقاہ سے لگی مسجد میں ادا کی، نماز کے بعد وہ خانقاہ میں داخل ہوا۔ فاتحہ دی، دعا مانگی۔ مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ چند لڑکے خانقاہ میں داخل ہوئے۔ انھوں نے اس اجنبی کو حیرت سے دیکھا۔ رحمت نے انھیں سلام کیا۔ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا، پھر ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ خوف اس کے ذہن سے رفع ہو چکا تھا۔ اسے یہاں پہنچ کر بڑا سکون ملا تھا۔ وہ اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گیا۔ جب وہ خانقاہ سے نکلا تو سورج پہاڑوں کے عقب سے ابھر آیا تھا۔ آسمان پر سرخی آمیز سنہری سیال بکھرا ہوا تھا۔ درختوں پر پرند چہچہا رہے تھے۔ جب وہ پہاڑوں کی سمت آگے بڑھا تو اس کے قدم تختی پر لکھی تحریر نے جکڑ دیئے۔ فارسی رسم الخط میں جلی حرفوں میں لکھا تھا ’’لشکر‘‘ اور خفی حرفوں میں اس ممنوعہ علاقے میں داخلے پر پابندی کے احکامات درج تھے۔ اپنے بھائی کے گھر ناشتہ کرتے ہوئے اسے معلوم ہوا کہ کثیر تعداد میں غیر ملکی فوجی وہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ پکی بارکیں بنائی گئی ہیں اور کسی صورت میں ان کے فوری انخلا کے امکانات نظر نہیں آتے ’’برادر‘‘ تمہاری واپسی ناخوشگوار موقع پر ہوئی ہے۔ اﷲ بڑا ہے، یہ غضب بھی ٹل جائےگا۔ ‘‘رحمت بڑی دیر سے اس کشمکش میں تھا کہ وہ اپنے بھائی سے اس باز پرس کا ذکر کرے یا نہ کرے۔ کرے تو بھائی اس کی کیا مدد کر سکتا ہے؟ اس کا کوئی واقف کار اگر کسی بڑے سرکاری عہدے پر ہوگا تو ممکن ہے کہ وہ اس غیرملکی افسر کو رحمت کے نیک سیرت ہونے کی ضمانت دے پائے۔ لیکن رحمت نے بھائی کو زحمت دینے سے اپنے آپ کو باز رکھا۔ بغل گیر ہو کر جب وہ اپنے گھر پہنچا تو اس نے دو باوردی سپاہیوں کو اپنا منتظر پایا۔ دو گھنٹے کے جاں سوز انتظار کے بعد اس افسر کے کمرے میں اس کی طلبی ہوئی۔ پولس اسٹیشن کے مہیب آسا ماحول اور عمارت کی سنگینی نے اسے اندر ہی اندر سکیڑ سمیٹ دیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی رحمت نے اس افسر کو بڑے احترام سے سلام کیا۔ اس وقت تک کرسی پر نہیں بیٹھا جب تک کہ اس افسر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ نہ کیا۔

    ’’حضور اجازت دیں تو ایک بات عرض کروں۔‘‘ رحمت نے ہاتھ دل پر رکھتے ہوئے کہا۔ افسر نے اثبات میں گردن ہلائی۔

    ’’جناب عالی نادانستگی میں مجھ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے۔ میں اس کی معافی چاہتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’یہی کہ تم آج چھاؤنی کی طرف گئے تھے۔‘‘

    ’’نہیں جناب، یہ بات نہیں۔ میں تو ٹہلتا ہوا ادھر نکل گیا تھا۔ میں تو کچھ اور کہنے جا رہا تھا۔۔۔‘‘

    ’’لیاقت علی خان کا سندیسہ تم نے اپنے بھائی کو پہنچا دیا۔‘‘

    ’’نہیں جناب، لیاقت نے مجھے کوئی سندیسہ اپنے بھائی کے لیے نہیں دیا تھا میں تو حضور۔۔۔‘‘رحمت کے گلے میں گرہ پڑنے لگی۔ اس نے اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ اس کا دماغ تیزی سے سوچ رہا تھا یہ کیا میں تو اپنی ایک معمولی سی غلطی کی معافی طلب کرنے لگا تھا، اس نے دو الزام سیاسی نوعیت کے مجھ پر اور تھوپ دیئے۔ اسے کیوں کر معلوم ہوا کہ میں آج چھاؤنی کی طرف جا نکلا تھا اور اپنے بھائی سے ملاقات کا علم بھی یہ رکھتا ہے! کیا اس نے اپنے آدمی سائے کی طرح میرے پیچھے لگا رکھے ہیں؟ اور تو کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا اس کے پاس۔ یہ عزرائیل کی طرح میرے تعاقب میں ہے۔ اس کے ذہن سے میں یہ شبہات کیسے دور سکتا ہوں؟ حق گوئی ہی میرے کام آ سکتی ہے۔

    ’’حضور، معاف کیجئےگا، ذرا ذہن بھٹک گیا تھا آپ کی باتوں سے۔ دراصل میں یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ اس روز نادانستہ طور پر یہ کرسی الٹ گئی تھی۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے صاحب کہ میں بوکھلا گیا تھا اور اسی بوکھلاہٹ میں مجھ سے یہ نادانی بھی ہوئی کہ میں نے نہ اسے سیدھا کیا اور نہ آپ سے رخصت مانگی، بلکہ بےامتیازی سے چلا گیا۔ صاحب میں نے اس قصور پر بہت غور کیا۔ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی۔ میں واقعی آپ کی دل آزاری کا قصور وار ہوں، گستاخ ہوں، بے ادب ہوں، آپ مجھے معاف فرمائیں۔ مجھے بخش دیں۔‘‘ یہ کہتے کہتے رحمت نے ہاتھ جوڑ لیے اور غیر ارادی طور پر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ افسر کرسی پر جھول رہا تھا۔ اس کی پشت کا بوجھ کرسی پر تھا اور کرسی پچھلی دو ٹانگوں پر کھڑی تھی۔ اپنے کولہوں کے لیور پر یہ اپنا بوجھ آگے پیچھے کیے چلا جا رہا تھا۔ کچھ سوچ کر اس نے ٹیبل میں نصب بٹن دبایا۔ وہی با وردی جوان کمرے میں فوجی سلام کرتا ہوا داخل ہوا۔ اس نے غیرزبان میں کہا:

    ’’ایک دو روز میں یہ ٹوٹ جائےگا۔ فکر کی بات نہیں اب اسے گھر جانے دو۔ ‘‘پھر اس نے رحمت کو پشتو میں مخاطب کیا۔

    ’’اب تم جا سکتے ہو۔ ‘‘رحمت کو توالی سے جب گھر کی طرف چلا تو اسے احساس ہوا کہ اپنے وطن واپس ہونے کے بجائے وہ کسی اجنبی جگہ پہنچا ہوا ہے۔ یہ اس کا وطن کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کونے کونے پر کھڑے با وردی سپاہی! یہ گلی کوچوں میں ٹہلتی جیپیں! یہ سڑکوں پر مٹر گشت کرتے فوجی ٹرک! یہ راشن کی قطاریں! یہ خوفزدہ چہرے! یہ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے لوگ! یہ قدم قدم پر پہرے! یہ زہر ناک فضا کیا اس کے اپنے شہر کی ہے؟ نہیں یہ تو کوئی دیار غیر ہے۔ یہ میرا وطن نہیں ہو سکتا۔ اچانک اس کی نظر ایک بہت بڑے اشتہار پر پڑی۔ اس نے اسے غور سے دیکھا، سنہری بالیاں، درانتی، ہتھوڑا، سرخی۔ پل بھر کے لیے اسے اپنی شبیہ ان سنہری بالیوں کی جگہ یوں نظر آئی کہ درانتی کا ہالہ اس کی گردن میں تھا اور ہتھوڑا سر پر۔ یوں ان دونوں کی ضربوں سے وہ لہولہان ہو گیا، سرخی سارے میں پھیل گئی۔ ایک گھنٹے کے بعد اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے بستر کے گرد زینب، ارجمند، بلقیس، شاہ بانو، داؤد، الیاس اور حسینہ کو کھڑا پایا۔ ان کے چہروں سے فکر مترشح تھی اور آنکھوں سے غم!وہ دونوں کہنیوں کے سہارے بمشکل اٹھا۔ ارجمند نے اس کی پشت سے تکیے لگا دیئے اور وہ ان کے سہارے بیٹھ گیا۔ اس نے سبھوں کے چہروں کو پڑھا پھر مسکرایا۔

    ’’تم سب یوں فکر مند نظر آرہے ہو کہ جیسے میرا وقت آخر آ پہنچا۔ ذرا سا چکر آ گیا تھا۔ مجھے معلوم ہے میں۔۔۔ میں راستے میں بیٹھ گیا تھا۔‘‘ پھر اس نے اپنے آپ سے کہا ’’نہیں میں تو گر پڑا تھا۔‘‘ پھر وہ کچھ دیر کے بعد بولا ’’رات میں ٹھیک سے نیند نہیں آئی تھی، ممکن ہے دن میں آ گئی ہو۔۔۔ اب کوئی فکر کی بات نہیں۔ مجھے تھوڑا سا قہوہ مل جائے تو۔۔۔‘‘ اس نے ارجمند کی طرف دیکھا، پھر زینب سے مخاطب ہوا۔

    ’’تم ذرا حقہ بھر دینا۔‘‘ آدھی رات جب گزر چکی تو اس نے زینب کو جگایا۔ دھیرے دھیرے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اسے تاکید کی کہ ارجمند کی شادی کسی محنت کش نوجوان سے کرنا پڑھے لکھے سمجھ دار آدمی سے۔ دولت مند سے ہرگز مت کرنا۔ بھائی سے حجت نہ کرنا۔ کیوں کہ وہی سرپرست اور خبرگیری کرنے والا ہے۔ پاس پڑوس والوں سے اپنوں کی شکایت نہ کرنا، کہ یہی کانا پھوسی کرتے ہیں اور پھٹے میں پاؤں ڈالتے ہیں۔ میری فکر قطعی نہ کرنا، میں جہاں بھی رہوں گا، خیر خیریت سے رہوں گا۔ اپنے حالات سے مطلع کرتا رہوں گا اور جوں ہی یہاں سے بلا ٹلی حاضر ہو جاؤں گا۔ اﷲ بڑا کریم ہے، اس کی ہر بات میں مصلحت پوشیدہ ہے۔ تم نے زندگی بھر صبر کیا، میری جدائی کے کڑے کوس کاٹتی رہیں، اب پھر ویسا ہی مرحلہ درپیش ہے۔ ‘‘زینب اپنی ہچکیاں روک رہی تھی اور اس کے آنسوؤں سے رحمت کا گریبان تر تھا۔۔۔ صبح کی سیر کے بعد جب میں گھر لوٹا تو اپنے دروازے پر میں نے ایک شخص کو کمبل اوڑھے اُکڑوں بیٹھا پایا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کون شخص ہے جو سویرے سویرے آ پہنچا ہے۔ میرے قریب پہنچنے سے پہلے ہی وہ شخص کھڑا ہو گیا۔ دھول میں اَٹا ہوا بوسیدہ لباس میں ملبوس، تھکن اور نیند سے نڈھال رحمت۔

    ’’ار۔۔۔ رے رے۔۔۔ تم کب آئے؟‘‘ میں نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔

    ’’گھر گئے بھی یا نہیں؟ بال بچے تو ٹھیک ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں صاحب سب ٹھیک ہیں۔ بِٹیا جوان ہو چکی ہے بیوی ذرا بوڑھی ہو گئی ہے۔ بھائی کے گھر دو بیٹے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا کاروبار ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اور۔۔۔‘‘ میں نے کنجی ڈال کر دروازہ کھولا۔ ملازم کو جگاکر اسے چائے اور ناشتہ تیار کرنے کی ہدایت دی۔ غسل خانے میں جا کر خان کے غسل کا خود انتظام کیا اور پھر جا کر میں نے مینی کے کمرے میں جھانکا۔ وہ اپنی بیٹی کو سینے سے چمٹائے سو رہی تھی۔ خان نے نہا دھوکر میرے ساتھ ناشتہ کیا۔ پھر اپنا احوال سنانے لگا۔

    ’’اور صاحب آخری پہر میں اپنی بیوی کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے وطن سے بھاگ نکلا۔ پہاڑوں اور گھاٹیوں کو پھلانگتا، درۂ خیبر سے گزرتا، سرحدی چوکیوں پر فوجیوں اور افسران کی منت سماجت کرتا، ان کے ہاتھ پاؤں پڑتا، یہاں پہنچا ہوں۔‘‘ میں بکھرے دل سے اسے تسلی دینے کی کوشش کرنے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے کیا کہوں؟ کیسے کہوں؟ کیوں کر کہوں؟ میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھاما اور بولا:

    ’’دیکھو رحمت تمہاری رخصتی کے بعد سے میں دکھی دکھی سے ہو گیا تھا، کیوں؟ مجھے معلوم نہیں۔ اب تم آئے ہو تو میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ہے۔ پتہ نہیں تمہارا میرا کیا سمبندھ ہے؟ تم کون اور میں کون؟ ممکن ہے بھگوان نے تمہیں میری سنگت کے لیے بھیجا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے جیون کے آخری دن ساتھ ساتھ گزارنا ہی ہمارا مقدر ہو! گھر تمہارا ہے، تم یہیں رہو۔ میں اکیلے جیتے جیتے اُکتا گیا ہوں۔‘‘

    ’’پتاجی یہ صبح صبح آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ یہ کہتے کہتے مینی اپنی بچی کو گود میں اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔

    ’’رحمت یہ کل ہی اپنے سسرال سے آئی ہے۔‘‘

    ’’ارے کابلی والا۔۔۔ تم؟‘‘ مینی کی باچھیں کھل گئیں اور کابلی والے نے بڑھ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔۔۔ کابلی والا مجھ سے پہلے اخبار دیکھنے کا عادی ہو چکا ہے۔ اب وہ مجھ سے سیاسی مسائل پر تبادلۂ خیال بھی کرتا ہے اور روزانہ پوچھتا ہے۔

    ’’صاحب میرے اخبار میں تو خبر نہیں چھپی، ممکن ہے آپ کے اخبار میں چھپی ہو۔‘‘ میں انجانے میں پوچھ بیٹھتا:

    ’’کون سی خبر خان؟‘‘ کابلی والا گمبھیر لہجے میں کہتا:

    ’’اپنے دیس کی۔۔۔ وہاں کے موسم کی۔‘‘ میں کہتا:

    ’’نہیں رحمت اخبار میں وہاں کی کوئی خبر نہیں! ممکن ہے کہ وہاں کا موسم اب بھی ناخوشگوار ہو۔‘‘ کئی دن سے رحمت وہ مصور کتاب اپنے ساتھ رکھنے لگا ہے۔ گویا وہ کوئی عیسائی راہب ہو اور یہ اس کی بائبل! ایک طبعی کمزوری سی پیدا ہو گئی ہے، اس میں! وہ بیٹھے بیٹھے سو جاتا ہے۔ نیند میں اس کی انگلیاں کتاب سے کھیلا کرتی ہیں، جیسے وہ کوئی ساز ہو، جس کے تاروں کو چھو کر اسے سر یاد آ جاتے ہوں۔ کبھی کبھار اس کے سوئے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ سی پھیل جاتی ہے، گویا اسے کوئی دل آویز نغمہ یاد آ گیا ہو۔ میں سوچتا ہوں کہ زندگی باوجود اپنی پیچیدگیوں اور الجھاووں کے، سختیوں اور ناکامیوں کے، کس قدر پُر فریب اور پرکار ہے! با مراد اور بامعنی ہے!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے