کچرا کنڈی
پھٹے ہوے مڑے تڑے بدرنگ کاغذ، سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے، پکی ہوئی چائے کی پتی، چّسی ہوئی ہڈیاں، ڈبل روٹی کے ٹکڑے اور سالنوں کا ڈھیر، جس میں سے اب سڑاند آنے لگی تھی، اور شاید سڑاند تو اب پورے کچرے کے ڈھیر سے آرہی تھی۔ مجھے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب کچھ دیر پہلے کچرے کے اس ڈھیر کے ساتھ دیوار کے اس طرف فلیٹوں کا رہائشی گھنی مونچھوں والا شخص ایک بنی سنوری اسمارٹ خاتون کے ساتھ اپنی چمکتی دمکتی سیاہ کار میں وہاں سے گزرا۔ کار کے شیشے بند ہونے کے باوجود اس نے کچرے کے ڈھیر کے قریب اپنے منہ پر رومال رکھ لیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کچرے کا ڈھیر ان بڑے لوگوں کے لیے کتنا بدبودار ہے، ورنہ میں تو گزشتہ آدھ گھنٹے سے مسلسل اس کچرے کے ڈھیر میں اپنے لیے جھوٹی غذا تلاش کررہا تھا۔
غذا جو میرے پیٹ کی آگ کو سرد کرسکتی تھی، میرے معدے کے اندھے غار میں اتر کر مجھے دوبارہ جینے کی راہ پر ڈال سکتی تھی، میں دونوں ہاتھوں تیزی سے کچرے کے ڈھیر کو اِدھر سے ادھر تلپٹ کرنے لگا۔ اچانک ایک پلاسٹک کی بندھی ہوئی تھیلی اوپر والے کسی فلیٹ سے آکر گری۔ میں نے گیلریوں کی طرف دیکھا۔ تیسری منزل پر لوہے کی جالیوں میں اڑسے دھاری دار تولیے اور رنگ برنگے کپڑوں کے پیچھے کوئی تیزی سے فلیٹ کے اندر چلا گیا۔
میں نے تھیلی کو اٹھالیا۔۔۔ گرہ کھولی۔۔۔ اندر بروسٹ کے دو ڈبے، بیئر کے ٹن، شراب کی خالی بوتل اور غلیظ استعمال شدہ لسڑے ہوئے ربر کے غلاف پڑے ہوے تھے، جن میں سے مہک آرہی تھی۔ میرے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ ابھر آئی۔ میں شاید رشتوں اور تعلقات کے مسائل پر غور کرنے لگتا مگر مجھے شدید بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے ان تمام چیزوں کو بروسٹ کے ڈبوں سے علیحدہ کیا اور ادھ کھلے ڈبے کی تلاشی لینے لگا۔ اوپر والے ڈبے میں مرغی کی پوری ران اور آلو کی چپس موجود تھی۔ میں نے دوسرا ڈبا اٹھالیا۔ اس پر ربر چڑھا ہوا تھا۔ میں نے جیسے ہی اس کو اتارا کوئی چیز اچھل کر میری گود میں آپڑی۔ میں نے سرجھکا کر اپنے دامن میں آگرنے والی چیز کو دیکھا اور پھر اٹھالیا۔
یہ ایک انگوٹھی تھی۔ یقیناًسونے کی رہی ہوگی۔ میں نے انگوٹھے اور انگلی کے بیچ دبی ہوئی انگوٹھی کو غور سے دیکھا۔ انگوٹھی کے اوپری حصے پر جڑے ہوئے پتھر جگمگارہے تھے۔
پتھروں کی چمک دمک ان کے قیمتی ہونے کا پتا دے رہی تھی۔
’’کہیں یہ ہیرے تو نہیں؟‘‘
یہ خیال تیزی سے میرے دماغ میں ابھرا۔ میں نے اب زیادہ توجہ اور انہماک سے انگوٹھی اور اس میں جڑے ہوے پتھروں کو دیکھا، جن میں ہزاروں سمتوں سے کرنیں کچھ اس طرح نکل رہی تھیں جیسے ان گنت اسپاٹ لائٹس کو مختلف زاویوں سے زمین پر رکھ کر روشن کردیا گیاہو۔ میں نے انگوٹھی کو ذرا جنبش دی تو کرنیں اپنا رنگ بدلنے لگیں۔۔۔ پہلا سرخ۔۔۔ پھر نیلا۔۔۔ پھر اچانک سفید۔۔۔ میں اپنے ماحول کو نظرانداز کرکے کرنوں میں گم ہوگیا تھا۔ میں نے اپنے دوسرے ہاتھ سے بال سے زیادہ باریک ان چمکدار لکیروں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن میرا ہاتھ کرنوں کو چھو کر رہ گیا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ ہیرے ہی ہیں۔
اس یقین کے ساتھ ہی میں نے انگوٹھی کو اپنی مٹھی میں دبالیا۔ کوڑے کے ڈھیر پر پڑاہوا مال پہلے جس کا بھی تھا، لیکن جس کو مل جائے اب تو اسی کا ہے۔ میں نے دوسرے ہاتھ میں بروسٹ کا ڈبا تھاما اور وہاں سے اٹھ گیا۔ سڑک پار کی اور پھر سڑک کے دائیں جانب میدان کے گرد اٹھی ہوئی چار پانچ بلاکوں کی دیوار پھلانگ کر دوسری طرف اتر گیا جہاں لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ انگوٹھی میری جیب میں تھی۔ میں مرغی کی ٹانگ کو دانتوں تلے بھنبھوڑ رہا تھا۔ دور ہاتھ میں بلا پکڑے ہوئے نوجوان نے ایک زور دار ہٹ لگائی۔ گیند تیزی سے لڑھکتی ہوئی میری سمت آگئی۔ لڑکوں نے مجھے اشارہ کیا۔ میں نے اس چھوٹی سی گیند کو غربت کی گٹھریا سمجھتے ہوئے حقارت بھری ایک زور دار ٹھوکر ماردی۔ گیند غربت کی طرح میرے نزدیک آکر اب بہت دور چلی گئی تھی۔ میں وہاں سے سیدھا انور کے پاس پہنچا۔
میرے بوسیدہ کمبل کے آدھے حقدار انور بھائی چالاک آدمی ہونے کے علاوہ ذہین اور معاملہ فہم بھی ہیں۔ گو کہ وہ میری طرح فٹ پاتھیے ہیں، لیکن یہ تو حالات کی ستم ظریفی ہے، ورنہ یہ شخص اگر کسی اہم منصب پر ہوتا تو یقیناًبہت آگے تک جاتا۔ اب جب کہ میں یہ بتاچکا ہوں کہ وہ میری طرح فٹ پاتھیے ہیں تو پھر حلیہ بتانا بے کار ہے۔ بس جیسے فٹ پاتھیے ہوتے ہیں، ویسے ہی وہ ہیں، اور ویسا ہی میں بھی ہوں۔ ہاں فرق ہے تو یہ کہ وہ ذرا پڑھ لکھ کر فٹ پاتھ پر چلے آئے اور میں تقریباً جاہل ٹیکسی چلاتے چلاتے فٹ پاتھ پر آگیا۔ ہم دونوں میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ ہم دونوں کی زندگی میں ترقی کا زینہ کبھی نہیں آیا۔ بلکہ ہمارا سفر خط معکوس کی طرح الٹا ہی چلا( یہ لفظ میں نے انور ہی سے سنا تھا)۔
انور کے سگریٹوں سے پھنکے ہوئے سینے پر ابھری ہوئی متوازی پسلیوں کی طرح ریل کی لاتعداد پٹریوں کے دوسری طرف بنی ہوئی کوٹھری میں جب میں نے انور کو وہ انگوٹھی دکھائی تو اس نے بے نیازی سے کہا:
’’اسے تو کہیں جا کر بیچ نہیں سکتا۔ لے دے کر اسے بابو ہی کو دینا پڑے گا اور بابو اس کے بدلے میں پیسہ پائی کچھ دے گا نہیں۔ بس کچھ دن تک ہمارے حصے کی پڑیاں دیتا رہے گا اور پھر ایک دن کہے گا۔ ابے جا تیرا حساب پورا ہوگیا‘‘۔
’’انور بھائی! یہ ہیرے ہیں ہیرے۔ نہ تو میں اسے بابو کو دوں گا اور نہ پڑیاں لوں گا۔ میں اس سے ایک ٹیکسی لوں گا۔ ابھی میرے بازوؤں میں گاڑی چلانے کی طاقت ہے‘‘۔
’’میرے دوست! ہم جیسے لوگوں کو یہ بابو ہی سوٹ کرتا ہے۔ اگر تو بازار میں اس انگوٹھی کو بیچنے جائے گا تو دکاندار ویسے ہی تیرا حلیہ دیکھ کر پولیس کے حوالے کردے گا۔ چوری کا مال بیچنا اتنا آسان کام نہیں ہے‘‘۔
’’انور بھائی! یہ میں نے چوری نہیں کی ہے۔ اللہ کی زمین سے اٹھائی ہے۔ یہ کسی فلیٹ والے کی معشوقہ کی انگوٹھی ہے‘‘۔
تجھے کیسے معلوم کہ یہ کسی معشوقہ کی انگوٹھی ہے، بیوی کی نہیں؟‘‘
’’جس تھیلی میں یہ انگوٹھی تھی اس تھیلی میں چار چیزیں اور تھیں جو کہ کم از کم بیوی والے نہیں پھینکتے‘‘۔
پھر میں نے جب خوشبودار ڈبے، بدبودار بوتلیں اور لیس دار مہکے ہوئے ربرکے غلاف کے متعلق انور کو بتایا تو وہ ہنسنے لگا اور پھر بولا۔
’’تجزیہ تیرا خوب ہے‘‘۔
’’یار انور بھائی! آخر میں نے ساری زندگی ٹیکسی چلائی ہے ۔اپنی ٹیکسی میں ایسی ایسی ہستیوں کو سفر کروایا ہے کہ بتا نہیں سکتا۔ میں بیٹھنے والے ایک ایک آدمی اور ایک ایک عورت کو دیکھ کر بتاسکتا ہوں کہ وہ کیوں جارہا ہے ، خوش جارہا ہے، دکھ میں گھر جارہا ہے یا کہیں اور‘‘۔
انور نے کان پر دھری سگریٹ میری طرف بڑھائی جسے میں نے فوراً جھپٹ لیا ۔ وہ بولا۔
’’بات تو تیری ٹھیک ہے لیکن یہ بتا۔ تیرے آگے پیچھے تو کوئی ہے نہیں۔ ایک بیٹی تھی وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ داماد سے تو کوئی تعلق رکھتا نہیں۔ پھر ٹیکسی کس کے لیے چلائے گا؟‘‘
انور کی بات سن کر میرے ہاتھ میں جلتی ہوئی تیلی کے شعلے نے میری یادوں کو روشن کردیا۔ ان دنوں میں اپنی زندگی کے سخت ترین دور سے گزررہا تھا۔ میرا واحد روزی کا ذریعہ ٹیکسی بک چکی تھی۔ بیوی کو مرے ہوے کئی سال ہوچکے تھے۔ جس بیٹی کی شادی کے لیے ٹیکسی بیچی وہ اپنے سسرال والوں کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے چل بسی۔ جب مجھے شک ہوا کہ اسے جلتے چولہے اور اس پر رکھے کھولتے پانی پر دھکا دیا گیا تو میں تھانے جا پہنچا۔ لیکن وہاں مجھ غریب کو سننے کے بجائے حوالات میں بند کردیا گیا۔ پتا چلا میرے سمدھی کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں۔ وہیں تھانے کی تغفن زدہ کوٹھری میں پہلی بار میں چرس اور ہیروئن سے آشنا ہوگیا۔ ہفتہ بھر بعد تھانیدار میری بدلی ہوئی حالت دیکھ کر پہلے تو خوب ہنسا اور پھر بولا۔
’’چاچا ! بندے کو پنگا اپنے برابر والے سے لینا چاہیے۔ اب جا عیش کر تیری چھٹی کررہا ہوں‘‘۔
تھانے کی فضا سے باہر ملنے والا پہلا شخص انور تھا۔ جس کا آدھا کمبل اب میں اوڑھتا ہوں یا جو میرے آدھے کمبل کا مالک ہے۔ میں نے یاد کے شعلے کو بجھادیا اور بولا:
’’انور بھائی ! ٹیکسی اب میں تمہارے لیے چلاؤں گا۔ جیسے تم پہلے لکھا کرتے تھے، بس ویسے ہی لکھنے لگو۔ تم بس دن رات لکھنا۔ اس دنیا کے ایک ایک ظلم کے خلاف لکھنا۔ میں تمہارے لکھے ہوئے کالم اخبار کے دفتروں میں خود دے کر آیا کروں گا۔ جب وہ چھپے تو بس انقلاب آجائے۔ ایسا انقلاب جس میں سارے ظلم کرنے والے پھانسی پر چڑھادیئے جائیں۔ سارے درندے نما انسانوں کو لائن میں کھڑا کرکے گولی سے اڑادیا جائے، اور تمام موٹے پیٹ والوں کے پیٹ چیر کر ان کی جمع کی ہوئی ساری دولت غریبوں میں بانٹ دی جائے۔ کوئی عدالت نہیں۔۔۔ کوئی انتظار نہیں۔۔۔ ادھر پکڑو ادھر فیصلہ سنادو۔۔۔ ختم۔۔۔‘‘
انور نے مجھے اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ بس۔۔۔ بس ۔۔۔ اتنا جذباتی نہ ہو۔
میری آواز جوش و جذبات سے بھر گئی تھی۔ انور کے اشارے پر میں خاموش ہوگیا۔ انور نے پوچھا۔
’’وہ تھیلا کہاں ہے جس میں سے یہ انگوٹھی ملی تھی؟‘‘
’’وہ وہیں ہوگا کچرے پر‘‘۔
’’چل میرے ساتھ چل۔ وہ تھیلا لے کر آتے ہیں۔ اس کا موجود ہونا ضروری ہے‘‘۔
ہم دونوں ریل کی پٹریاں پار کرکے سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ کچھ فاصلے پر وہ فلیٹ کھڑے تھے جن کی دیوار کے ساتھ کچرا کنڈی بنی ہوئی تھی۔ کچرے کے ڈھیر میں کچھ اضافہ ہوگیا تھا۔ تاہم ذرا سی کوشش سے وہ تھیلا مل گیا جس میں بروسٹ کا ڈبا اور دوسرا سامان پھینکا گیا تھا۔ انور بھائی نے تھیلا اٹھالیا اور کہا۔
’’چلو چلتے ہیں۔ کس کو بیچنا ہے اور کیسے بیچنا ہے یہ تو بعد کی بات ہے۔ پہلے میں تجھے ایک تماشہ دکھاتا ہوں‘‘۔
خالی ڈبے ، بوتلوں اور مہکے ہوئے تھیلے کو اٹھالانے کی وجہ صبح پتہ چل گئی۔ جب فلیٹوں میں واقع مسجد کے اسپیکر سے انور بھائی نے یہ اعلان کرویا کہ سب سے آخری بلاک کے مکینوں کا اگر کوئی قیمتی زیور گم ہوا ہے تو نشانی بتا کر گیٹ پر موجود انور حسین سے لے جائیں۔ ذرا دیر میں آخری بلاک کے آٹھوں مکین، جن میں تین خواتین بھی شامل تھیں ، گیٹ پر موجود تھے۔ مجمع اکٹھا ہوگیا تھا۔ مجھے اب انور بھائی کے تماشے کا انتظار تھا۔ ایک صاحب بولے:
’’دیکھیں جی چیزیں تو اکثر گم ہوتی رہتی ہیں۔ اب پتا نہیں آپ ہماری کون سی چیز کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ دکھائیں تو پتا چلے گا‘‘۔
’’ارے شاہ جی! میرا چھوٹا بیٹا ٹمی تو اکثر گیلری سے نہایت قیمتی چیز یں پھینک دیتا ہے۔ یقیناً ان میں سے ہی کچھ ہوگا۔ لائیں جی دکھائیں ،ٹمی کے بچے نے کیا پھینک دیا‘‘۔
’’موٹے آدمی نے کہا ۔ اسی اثناء میں ایک خاتون آگے بڑھ کر بولیں۔
’’ارے بھیا میں تو چولہے پر سالن چڑھا کر آئی ہوں۔ تین دن سے میں اپنے جیولری بکس کی تین نہایت قیمتی چیزیں تلاش کررہی ہوں۔ لاؤ دکھاؤ تو کدھر ہے وہ‘‘۔
میں کھڑا ان لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔ میں نے دیکھا ان میں چمکتی دمکتی سیاہ کار کا مالک گھنی مونچھوں والا شخص بھی ایک موٹی سی گھریلو خاتون کے ہمراہ کھڑا ہوا تھا، جو کہ میرے کچرے میں غذا تلاش کرتے وقت ناک پر رومال رکھے وہاں سے گزرا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے وہ کار والی اسمارٹ خاتون یاد آگئی۔ سب کو موجود پا کر انور بھائی نے کہا۔
’’ وہ قیمتی چیز اس وقت میری جیب میں ہے۔ لیکن اسے دکھانے سے پہلے آپ لوگوں کو ایک اور چیز شناخت کرنا ہوگی کیونکہ وہ قیمتی چیز ہمیں اسی کے اندر سے ملی ہے۔ جو بھی شخص یہ کہہ دے گا کہ یہ دوسرا سامان اس کا ہے،ہم وہ قیمتی چیز اس کے حوالے کردیں گے‘‘۔
یہ کہہ کر انور بھائی نے پلاسٹک کا تھیلا آگے بڑھا کر رکھ دیا۔ یکدم کئی آوازیں بلند ہوئیں۔
’’ارے ایسے ہی تھیلے کے اندر میں پرسوں سامان لایا تھا‘‘۔
دوسری آواز آئی۔
’’میں بھی لایا تھا‘‘۔
تیسری آواز ابھری۔
’’ارے میاں میرے ٹمی نے ایسا ہی تھیلا تو اوپر سے پھینکا تھا۔
میں خاموشی سے تماشا دیکھ رہا تھا۔ انور بھائی نے مسکرا کر سب کو دیکھا اور آگے بڑھ کر تھیلے کے اندر ہاتھ ڈالا اور ایک ایک کرکے ساری چیزیں باہر نکالنے لگے۔
پہلے ایک بیئر کا ٹن۔۔۔ پھر دوسرا بیئر کا ٹن۔۔۔ پھر تیسرا بروسٹ کا ڈبا۔۔۔
انور بھائی ایک لمحے کو رک گئے۔ سب سے آگے کھڑی خاتون بولیں۔
’’میرا بیٹا عدنان ہر دوسرے دن بروسٹ لاتا ہے اور وہی کبھی کبھی نان الکوحل بیئر بھی پی لیتا ہے۔ پیٹ کے لیے اچھی ہوتی ہے نا ،اس لیے‘‘۔
انور بھائی کا ہاتھ تھیلے میں سے ایک بار پھر برآمد ہوا۔
’’شراب۔۔۔‘‘
کئی لوگوں نے بیک وقت شراب کے شین کو لمبا کھینچتے ہوے کہا۔
’’آنٹی ۔۔۔ یہ بھی عدنان پیتا ہوگا؟‘‘
ایک منچلے لڑکے نے طنزیہ پوچھا۔ خاتون نے برا سا منہ بنایا۔ مال غنیمت سمجھ کر آنے والی خواتین کے قدم پیچھے ہٹ گئے۔ مرد بہرحال ڈھٹائی سے کھڑے ہوے تھے۔
’’یار تھیلے میں جو کچھ بھی ہے نکالو۔ تاکہ جو بھی اصل دعوے دار ہے سامنے آجائے‘‘۔
ایک صاحب نے کہا ۔ سیاہ کار والے نے انہیں گھور کر دیکھا اور پھر اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوے اپنے ہاتھ سے اپنی ہی گردن کو مسلنے لگا۔ آخر کار انور بھائی نے آخری چیز بھی تھیلے سے باہر نکال لی۔ انور بھائی کا لہراتا ہوا ہاتھ دیکھتے ہی تمام خواتین اور مرد حضرات ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔
’’لاحول ولا قوۃ اجی یہ کیا واہیات حرکت ہے۔ یہ کیا گندی گندی چیزیں دکھا رہے ہو۔۔۔‘‘
’’میاں ہمارے گھر میں ایسی خرافات نہیں آتیں۔ سمجھے۔۔۔‘‘
ٹمی کے موٹے ابو نے منہ بناتے ہوئے کہا اور بڑے تفاخر سے چل دیئے۔
’’ارے میاں توبہ کیجیے‘‘۔
دوسرے نے کہا۔
’’استغفراللہ‘‘
شاہ جی کی آواز آئی۔
خواتین نے ایک دوسرے کو جھینپتے ہوے دیکھا۔ سیاہ کار والے نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا۔ مگر کچھ سوچ کر خاموش ہوگیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ انور کو غصے میں گھوررہا تھا۔ انور نے اسے نظرانداز کرتے ہوے پوچھا۔
’’اگر ان تمام چیزوں کا کوئی دعوے دار ہے تو میں وہ قیمتی زیور ابھی اس کے حوالے کرنے کو تیار ہوں‘‘۔
لیکن ایک ایک کرکے سب سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔ میں ہنسنے لگا۔ انور بھائی نے مجھے دیکھا اور پھر اپنی جیب پر ہاتھ مارتے ہوے بولے :
’’عزت دار لوگوں کو اتنی قربانی تو دینا پڑتی ہے‘‘۔
(۱۹۹۹)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.