’’اس گھانی کے بعدآپ کی باری آئےگی۔ تب تک انتظار کرنا پڑےگا۔‘‘ شاہ جی نے میرے ہاتھ سے تلہن کا تھیلا لے کر کولھو کے پاس رکھ دیا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں دروازے کے پاس پڑے ایک اسٹول پربیٹھ گیا۔
کولھو کسی پائدار لکڑی کا بنا تھا اور کمرے کے بیچوں بیچ کچے فرش میں بڑی کاری گری اور مضبوطی کے ساتھ گڑا تھا۔ کولھو کی پکی ہوئی پائدار لکڑی تیل پی کر اور بھی پک گئی تھی اور کسی سیاہی آمیز سرخ پتھر کی طرح دمک رہی تھی۔
اس کا منہ اوکھلی کی طرح کھلا ہوا تھا۔ منہ کے اندرسے اوپر کی جانب موسل کی مانندایک گول مٹول ڈنڈا نکلا ہوا تھا جس کے اوپری سرے سے جوئے کا ایک سرا جڑا تھا۔ جوئے کا دوسرا سرا بیل کے کندھے سے بندھا تھا جسے بیل کھینچتا ہوا ایک دائرے میں گھوم رہا تھا۔
بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دباہوا تھا۔ کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہاں کوئی بڑا سا پہیہ رکھ کر زور سے دبا دیا گیا ہو۔
کولھو کے منہ میں اوپر تک سرسوں کے دانے بھرے تھے۔ دانوں کے بیچ موسل نما ڈنڈا مسلسل گھوم رہا تھا اور اس عمل میں اس کا دباؤ چاروں طرف کے دانوں پر پڑ رہا تھا۔
دانے ڈنڈے کے دباؤ سے دب کر چپٹے ہوتے جا رہے تھے۔
دبے اور کچلے ہوئے دانوں کا تیل اندر ہی اندر نیچے جاکر کولھو کے نچلے سرے میں بنے ایک باریک سوراخ کے ذریعے بوند بوند ٹپک کر ایک مٹ میلے سے برتن میں جمع ہو رہا تھا۔
برتن میں جمع تازہ تیل ایسا لگتا تھا جیسے بیل کی پگھلی ہوئی چربی ہو یا جیسے سونا پگھلاکر ڈال دیا گیا ہو۔
تیل کی چمک دیکھ کر میری آنکھوں میں چمکتے ہوئے چہرے، مالش شدہ اعضا، گٹھے ہوئے جسم، کسے ہوئے پٹھے، چکنی جلدیں، دمکتی ہوئی لاٹھیاں اور زنگ سے محفوظ مشینوں کے پرزے چمچمانے لگے۔ مضبوط اور چمکدار جسموں کے ساتھ صحت منددماغ اور ان دماغوں کے تاب دار کارنامے بھی اس تیل میں تیرنے لگے۔
تیل کے برتن سے نگاہیں نکلیں تو کولھو میں جتے بیل کی جانب مبذول ہو گئیں۔
بیل اوپر سے نیچے اور آگے سے پیچھے تک پٹخا ہوا تھا، پٹھا پچک گیا تھا۔ پیٹ دونوں طرف سے دھنس گیا تھا۔ پیٹھ بیٹھ گئی تھی۔ گوشت سوکھ گیا تھا۔ ہڈیاں باہر نکل آئی تھیں۔ قد بھنچا ہوا تھا۔ گردن سے لے کر پُٹھے تک پورا جسم چابک کے نشان سے اٹا پڑا تھا۔ جگہ جگہ سے کھال ادھڑ گئی تھی۔ بال نچے ہوئے تھے۔ گردن کی جلد رگڑ کھاکر چھل گئی تھی۔ دونوں سینگوں کی نوکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کانو ں کے اندر اور باہر جلد خور کیڑے جلد سے چمٹے پڑے تھے۔ پچھلا حصہ پیروں تک گوبر میں سنا ہوا تھا۔ دم بھی میل میں لپٹی پڑی تھی۔ دم کے بال بیل کے چھیرے میں لت پت ہوکر لٹ بن گئے تھے۔ پچھلے ایک پاؤں سے خون بھی رس رہا تھا۔
بیل کی آنکھوں پرپٹیاں بندھی تھیں۔ ناک میں نکیل پڑی تھی۔ منہ پرجاب چڑھا ہوا تھا۔ بیل ایک مخصوص رفتارسے دائرے میں گھوم رہا تھا۔ پاؤں رکھنے میں وہ کافی احتیاط برت رہا تھا۔ گھیرے کی دبی ہوئی زمین پر اس کے پیر اس طرح پڑ رہے تھے جیسے ایک ایک قدم کی جگہ مقرر ہو۔ نہایت ناپ تول اور سنبھل سنبھل کر پاؤں رکھنے کے باوجود کبھی کبھار وہ لڑکھڑا پڑتا اور اس کی رفتار میں کمی آ جاتی تو شاہ جی کے ہاتھ کا سونٹا لہراکر اس کی پیٹھ پر جا پڑتا اوروہ اپنی تلملاہٹ اور لڑ کھڑاہٹ دونوں پر تیزی سے قابو پاکر اپنی راہ پکڑ لیتا۔
سونٹا اس زور سے پڑتا کہ سڑاک کی آواز دیر تک کمرے میں گونجتی رہتی۔ کبھی کبھی تو میری پیٹھ بھی سہم جاتی۔
بیل کو ایک مرکز پر لگاتار گھومتے ہوئے دیکھ کر میرے دل میں ایک عجیب سا خیال آیا اور میری نگاہ رسٹ واچ پر مرکوز ہو گئی۔
ایک چکر میں تیس سیکنڈ 151
میں نے گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے چکروں کو گننا شروع کر دیا۔ ایک 151 دو 151 تین 151 چار 151 پانچ 151 چھ151 سات 151 آٹھ 151 نو 151 دس 151
دس چکر پانچ منٹ چار سکنڈ میں 151
گویا اوسطاً فی چکر 151 تیس سکنڈ
’’شاہ جی یہ بیل کتنے گھنٹے کولھو کھینچتا ہوگا؟‘‘
’’یہی کوئی بارہ تیرہ گھنٹے؟’’کیوں؟‘‘
’’یوں ہی پوچھ لیا۔’’ مختصر سا جواب دےکر میں بارہ گھنٹوں میں پورے کیے گئے چکروں کا حساب لگانے لگا۔
پانچ منٹ میں دس چکر تو ایک گھنٹے میں؟
ایک گھنٹے میں ایک سو بیس چکر
اور بارہ گھنٹے میں؟
ایک سو بیس ضرب بارہ برابر چودہ سو چالیس چکر 151
اچانک میری نگاہیں اس گھیرے کو گھورنے لگیں جس میں بیل گھوم رہا تھا۔
دس، دس، بیس، دس، تیس، دس چالیس151 میرے آگے دائرے کی لمبائی کھنچ گئی۔
بیل ایک چکرمیں تقریباً چالیس فٹ کی دوری طے کرتا ہے۔
چالیس ضرب چودہ سو چالیں برابر ستاون ہزار چھے سو فٹ 151
ستاون ہزار چھ سوفٹ مطلب سوا سترہ کلومیٹر
گویا ایک دن میں سوا سترہ کلومیٹر کی دوری
اگر بیل کمرے سے باہر نکلے تو روزانہ 151
کمرہ پھیل کر میدان میں تبدیل ہو گیا۔ دور دور تک پھیلے ہوئے میدان میں کھلی فضائیں جلوہ دکھانے لگیں۔ سورج کی شعاعیں چمچانے لگیں۔ تمام سمتیں نظرآنے لگیں۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں 151 151 چاروں طرف سبزہ زار اگ آئے۔ کھیت ہرے ہو گئے۔ سبزے لہلہانے لگے۔ پودے لہرانے لگے۔ شاخیں ہلنے لگیں۔ سبزہ زاروں کے بیچ پانی کے سوتے ندی، نالے، تالاب اور چشمے جھلملانے لگے۔
یکایک بیل کے کندھے سے جوا اتر گیا۔ اس کی آنکھو ں سے پٹیاں کھل گئیں۔ منہ سے جاب ہٹ گیا۔ بیل کھلی اور روشن فضامیں ہری بھری دھرتی کے اوپربے فکری اور آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے لگا۔ سبزوں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ہریالی بھر گئی۔ اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ وہ مختلف سمتوں میں بےروک ٹوک گھومتا، من پسند سبز، تازہ، نرم ملائم پودوں، پتوں اور مخملی گھاس کو چرتا، چباتا، جگالی کرتا، ندی، نالوں اور چشموں سے پانی پیتا، تمام سمتوں کی جانب دیکھتا، میدان کی وسعتوں کو آنکھوں میں بھرتا جھومتا ہوا کافی دور نکل گیا۔
سڑاک
سونٹے کی چوٹ پر ذہن جھنجھنا اٹھا۔ پھیلی ہوئی سرسبز دھرتی میری آنکھوں سے نکل گئی۔
بیل کولھو کھینچنے لگا۔ اس کی آنکھو ں کی پٹیاں لہرانے لگیں۔
لہراتی ہوئی پٹیاں میری آنکھوں پر بندھ گئیں۔
بیل کے کندھے پر بندھا جوا، اس کی ناک میں پڑی نکیل، گھومتا ہوا کولھو، کچلتے ہوئے سرسوں کے دانے، دانوں سے بناکھل، برتن میں جمع تیل، تیل کے پاس کھڑا شاہ جی سب کچھ میری آنکھوں سے چھپ گیا۔ سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
اندھیرا میرے اندر تک گھلتا چلا گیا۔
مجھے ہول اٹھنے لگا۔ میرادم گھٹنے لگا۔ بےچین ہوکرمیں نے اپنی آنکھوں سے پٹیاں جھٹک دیں۔
’’شاہ جی! ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’پوچھیے۔‘‘
’’بیل کی آنکھوں پر پٹی کیوں بندھی ہوئی ہے؟‘‘
’’اس لیے کہ کھلی آنکھوں سے ایک جگہ پر لگاتار گھومتے رہنے سے اسے چکر آ سکتا ہے اور 151 151 151‘‘
یک لخت میں اپنے بچپن میں پہنچ گیا۔ جہاں ہم کبھی کھلی اورکبھی بند آنکھو ں سے کھلیان کے وسط میں گڑے کھمبے کے چاروں طرف چکر لگانے کا کھیل کھیلاکرتے تھے اورکھلی آنکھوں سے گھومتے وقت اکثر چکر کھاکر گر پڑتے تھے۔
شاہ جی ویسا نہیں ہے جیسا کہ میرے ذہن نے اس کی تصویر بنا لی ہے۔ شاہ جی کو کم سے کم بیل کی تکلیف کا احساس ضرور ہے۔ تصویر قدرے صاف ہو گئی۔
’’اور اسے چکر آنے کا مطلب ہے میرا گھن چکر‘‘
’’مطلب؟‘‘ دوسرا جملہ سن کر میں چونک پڑا۔
’’مطلب یہ کہ میں گھن چکر میں پڑ جاؤں گا۔ یہ بار بار چکر کھاکر گرےگا توکام کم ہوگا اور کم کام ہوگا تو ہمارا نقصان ہوگا۔‘‘
شاہ جی کی تصویر سے جوسیاہ پرت اتری تھی، دوبارہ چڑھ گئی۔
مجھے ان کے گھن چکر میں کچھ اور بھی چکر محسوس ہونے لگا۔ کئی اور باتیں میرے دماغ میں چکر کاٹنے لگیں۔
کولھو کے منہ میں پڑے سرسوں کے دانے میرے قریب آ گئے۔
آنکھوں پر پٹی باندھنے کی وجہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ کہیں بیل ان دانوں میں منہ نہ مار لے اور شاہ جی کواپنے پاس سے ہر جانے بھرنا پڑ جائے۔
کولھو کا دائرہ بھی میرے نزدیک سرک آیا۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کہیں بیل کو یہ احساس نہ ہو جائے کہ وہ برسوں سے ایک ہی جگہ پر صبح سے شام تک گھومتا رہتا ہے اور اس احساس کے ساتھ ہی وہ بغاوت پر اتر آئے، جوا توڑ کر بھاگ نکلے۔
اوریہ بھی کہ اسے کھل اور تیل نہ دکھ جائے۔
سرسوں کے زیادہ تر دانے کچل کر کھل میں تبدیل ہو چکے تھے۔ برتن میں کافی سارا تیل جمع ہو گیا تھا۔
بےساختہ میرے منہ سے نکلا۔
’’شاہ جی! یہ کھل تواسے ہی کھلاتے ہوں گے؟‘‘
’’نہیں اسے کیوں کھلائیں گے یہ کوئی گاڑی تھوڑے کھینچتا ہے۔ کھل تواسے دیتے ہیں جو گاڑی کھینچتا ہے۔ یا ہل جوتتا ہے۔‘‘
میری نظر ایک بار پھر بیل کے اوپر مرکوز ہو گئی۔
دھنسی ہوئی کوکھ۔ پچکا ہوا پٹھا، دبی ہوئی پیٹھ اور ابھری ہوئی ہڈیاں میری آنکھوں میں چبھنے لگیں۔
’’شاہ جی! یہ بیل توکافی کمزور اور بوڑھادکھتا ہے۔ اسے رٹائرڈ کیوں نہیں کر دیتے۔‘‘
’’نہیں بابو صاحب! اس کی بوڑھی ہڈیوں میں بہت جان ہے۔ ابھی تویہ برسوں کھینچ سکتا ہے۔ پھر یہ سدھا ہوا ہے۔ اپنے کام سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس کی جگہ جوان بیل جوتنے میں کافی دقت ہوگی۔ جوان بیل کھینچے گا کم بدکے گازیادہ۔ اس لیے فی الحال یہی ٹھیک ہے۔‘‘
میری نگاہیں بیل کی رفتارکی طرف مبذول ہو گئیں۔
بوڑھا بیل واقعی سدھا ہوا تھا۔ ایک متوازن رفتار سے کولھو کھینچ رہا تھا۔ اس کے پاؤں نپے تلے پڑ رہے تھے۔ قدم گھیرے سے باہر شاید ہی کبھی نکلتا تھا۔ لگتا تھا اس کی بند آنکھیں شاہ جی کے سونٹے کو دیکھ رہی تھیں۔
’’ویسے ایک بچھڑے کو تیار کر رہا ہوں۔ کبھی کبھی اسے جوتتا ہوں۔ مگر پَٹھا ابھی، پٹھے پر ہاتھ رکھنے نہیں دیتا۔ کندھے پر جوار رکھتے وقت بڑا ادھم مچاتا ہے۔ آنکھ پرآسانی سے پٹی بھی باندھنے نہیں دیتا۔ سر جھٹکتا ہے مگردھیرے دھیرے قابومیں آہی جائےگا۔‘‘
میری آنکھوں میں بچھڑا آکر کھڑا ہو گیا۔
لمبا چوڑا ڈیل ڈول، بھرا بھرا چھریرا بدن، اٹھا ہوا پٹھا، اونچا قد، تنی ہوئی چکنی کھال، چمکتے ہوئے صاف ستھرے بال، پھر تیلے پاؤں۔
بچھڑے کا کسا ہوا پرکشش جسم مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ میری نگاہیں اس کے ایک ایک انگ پر ٹھہرنے لگیں۔ اچانک بچھڑے کا ڈیل ڈول بگڑ گیا۔ قددب گیا۔ پیٹ دھنس گیا۔ پٹھا پچک گیا۔ پیٹھ بیٹھ گئی۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ کھال داغ دارہوگئی۔ پیروں کی چمڑی چھل گئی۔ بالوں کی چمک کھوگئی۔ بدن گوبر میں سن گیا۔
میرے جی میں آیا کہ میں کمرے سے باہر جاؤں اور بچھڑے کی رسی کھول دوں۔ یہ بھی جی میں آیا کہ اور نہیں تو آگے بڑھ کربیل کی آنکھوں کی پٹی ہی نوچ دوں مگر میں اپنی گھانی کا تیل نکلنے کے انتظار میں اپنی جگہ پر چپ چاپ بیٹھا کبھی بیل، کبھی کولھو کے سوراخ سے نکلتے ہوئے تیل کو دیکھتا رہا۔
اور بیچ بیچ میں سڑاک سڑاک کی گونج سنتا رہا۔
(افسانوی مجموعہ حیرت فروش از غضنفر، ص 15)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.