کفن بکس والا
نہ تو وہ کبھی آس پاس کی بستیوں میں دیکھا گیا تھا اور نہ ہی اسے یہاں کوئی جانتا تھا۔ اس پر ایک نظر ڈالتے ہی قدیم دور کی گم شدہ انسانی نسلوں کے ہیولے ذہن میں تھرتھرانے لگتے تھے۔ پھر بھی یہ اندازہ لگا نا مشکل تھا کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے۔ لوگوں نے بھی کھوج کی ضرورت نہیں سمجھی ان کے لیے اس عجیب و غریب آدمی میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں۔ اس لیے پرانی عمارت میں اس کا دکان کھول لینا معمولی بات تھی۔
لیکن اپنی وضع قطع اور طور طریقوں سے وہ بیو پاری معلوم نہیں ہو تا تھا۔ پھر اس نے پرانی عمارت، ہر دم جس کے زمین بوس ہو نے کا دھڑ کا لگا رہتا تھا کے تاریک اور ویران گوشے میں انتہائی مہنگی دکان خریدی تھی اور اس طرف گاہکوں کی آمدورفت بھی نہیں تھی۔ کیونکہ عمارت کے اس حصے کے متعلق جنوں، چڑیلوں اور بھوتوں کے قصے مشہور تھے۔ جو پوری بستی کی زبان پر عام تھے، ہر قصے کا ایک ہی راوی ہو تا تھا عمارت کا بڈھا پھونس چوکیدار جو شام ڈھلتے ہی لالٹین اور لاٹھی پکڑے تاریک راہ داریوں میں بھٹکنے لگتا تھا۔
اور یہ چوکی دار ہی تھا جس نے پہلے پہل اس عجیب و غریب آدمی سے تعلق جوڑا، دونوں نے جب پہلی مر تبہ دکان کا شٹر اٹھایا تو بہت سی چیخیں دیواروں سے ٹکراکر رہ گئیں۔ کوئی تیز بوان کے نتھنوں سے ٹکرائی اور حرام مغز تک جا پہنچی، چوکیدار نے کانپتے ہاتھوں سے بجلی کا بورڈ تلاش کیا، ساٹھ وولٹ کے بلب نے دکان کا وحشت بھرا چہرہ ظاہر کر دیا، وہ مسکراتا ہوا دکان میں گھسا جب کہ چوکی داراس کی مسکراہٹ کی تفہیم ڈھونڈتا باہر نکل گیا۔
جب اس نے دکان کے فرش، دیواروں اور چھت کا جائزہ لیا تو اس کی مسکراہٹ ایک خاموش ہنسی میں تبدیل ہو گئی۔ اکھڑا ہو ا فرش مٹی، کا غذوں اور لکڑی کے ٹکڑوں سے اٹا تھا۔ اس پر چیونٹیوں اور کاکروچز کی بہتات تھی۔ جب کہ دیواریں مکڑی کے جالوں اور چھپکلیوں سے آلودہ تھیں۔ چھت سے دو تین چمگادڑیں چمٹی ہوئی تھیں۔
بلب جلتے ہی ان کے پر سمٹ گئے تھے۔ دیواروں کی دراڑیں کسی خزانے کی طرح الجھی ہوئی تھیں۔
وہ بہت دیر تک خاموشی سے ہنستا رہا۔ بلب کی زرد روشنی میں اس کا سایہ سمندر میں ڈولتے جہاز کی طرح ہلتا رہا۔ اگلے دن اس نے صفائی نہیں کروائی۔ بلکہ ایک مزدور سے کچھ سامان اٹھوا کر وہاں پہنچا۔ وہ ساما ن بیچنے کا نہیں تھا اسی لیے اس نے باہر رکھوا دیا۔ ایک آرام کر سی تھی۔ جس پر وہ ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ رہا اور ایک انگیٹھی تھی جسے اس نے فرش پر پھیلے کچرے سے گرم کیا۔ پھر انگیٹھی کے کوئلوں سے بیڑی سلگائی اور لمبے لمبے کش بھر نے لگا۔
عمارت کے اس حصے میں ہوا کا گذر نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے اوور کوٹ پہن رکھا تھا۔ جس کے سارے بٹن بند رہتے تھے۔ اس کے لانگ شوز، شکاری کے جوتوں جیسے تھے اور اس نے کالا ہیٹ پہن رکھا تھا۔ اسے آرام کر سی پر دراز، بیڑی پیتے ہو ئے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے دنیا کی سیاحت سے ابھی لو ٹا ہو اور سستا رہا ہو۔
چوکیدار پھر آ گیا اور اس کی خوش آمد کر تے ہو ئے مسکرانے لگا۔ مگر اس نے چوکی دار کو نہیں دیکھا۔ بیڑی میں مگن رہا۔ پھر باقی ماندہ ٹکڑ ا انگیٹھی میں پھینک دیا۔ شعلے کو دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ جب اس نے چوکی دار پر نگاہ ڈالی تو وہ آنکھیں نہ ملا سکا۔ اس نے اوور کوٹ کی جیب سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر اسے تھما یا تو چوکیدار نے پہلی بار اس کے ہاتھوں کی یخ بستگی کو محسوس کیا۔ اسی لمحے اس کے چہرے کو بھی غور سے دیکھا جو جھریوں سے اٹا ہوا تھا۔ ہونٹ سوکھے ہو ئے تھے۔اس کی آنکھوں میں مکارانہ چمک تھی۔
چوکی دار نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ آئندہ اس کے سامنے نظریں نہیں اٹھائےگا۔
اس نے انگیٹھی کو آرام کر سی کے نزدیک کھسکا لیا اور ہاتھ سینکنے لگا۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا اور ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ مطمئن تھا کہ یہاں پر کوئی خود میں مگن ہے اور اس کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ پھر بھی اس نے خود کو اس ویران گوشے کے انتخاب پر داد دی۔
شاید وہ بیوپاریوں کی نفسیات سے آگاہ نہیں تھا، اس کے دکان خرید نے سے زیادہ انہیں بات سے دلچسپی تھی کہ وہ بیچتا کیا ہے۔ ان کے ہر کارے اس کی ٹوہ میں لگے تھے اور اپنے مالکوں کو خبریں پہنچا رہے تھے۔
لیکن اس کے متعلق کوئی خبر ہوتی ہی نہیں تھی۔ وہ ہر روز سب سے پہلے وہاں پہنچتا اپنی دوکان کھولتا کونوں کھدروں میں رینگتے حشرات کا جائزہ لیتا۔ مسکرا تا اور پھر ہنسنے لگتا۔ پھر آرام کر سی کو گھسیٹ کر باہر نکالتا اور اس پر دراز ہو جاتا۔
فرش کا سارا کچرا انگیٹھی میں جل چکا تھا۔ اس لیے دکان میں صرف کیڑے مکوڑے باقی رہ گئے تھے۔
ایک دن اس نے چوکی دار سے کچھ سوکھی لکڑیاں منگواکر دکان میں ڈال لیں۔ چوکیدار جانتا تھا کہ یہ انگیٹھی میں جلنے کے لیے ہیں اور جب یہ خبر دوکان داروں تک پہنچی تو وہ حیران ہو ئے اور ہنسی میں لوٹنے لگے وہ سمجھ گئے کہ یہ آدمی مخبوط الحواس ہے اور انہوں نے اپنے ہر کاروں کو اس کی ٹوہ لینے سے روک دیا۔
اس کا وہی معمول تھا آرام کرسی پر دن گزار نا، انگیٹھی پر ہاتھ سینکتے رہنا اور بیڑیاں پھونکنا۔ وہ آرام کرسی سے اٹھتا ہی نہیں تھا نہ کہیں جاتا تھا۔ اس کا جسم صرف اس قدر ہلتا تھا، جتنا کہ انگیٹھی پر ہاتھ سینکنے کے لیے ضروری تھا۔ اس کی خبر گیری کو آتے ہوئے اسے دیکھ کر چوکی دار ہمیشہ ٹھٹھک جاتا تھا، اسے لگتا کہ آرام کرسی پر مردہ جسم پڑا ہے۔
وہ شام ڈھلے دوکان بند کر تا اور بستی کی مخالف سمت چل دیتا۔
ایک روز چوکی دار حسبِ عادت اس کی خبر کو پہنچا تو دوکان کو لکڑی کے تختوں سے بھرا ہوا پایا، وہ حیرت سے اندر کو جھانکتا رہ گیا، وہاں سیاہ مخمل کے تھان، فوم کے بڑے سے رول
اور ٹین کی چادریں بھی تھیں۔ وہ سمجھ نہیں سکا کہ یہ عجیب و غریب آدمی کیا بیچنا چاہتا ہے۔
چوکی دار نے مسکراتے ہو ئے اسے دیکھا۔وہ انگیٹھی کے کوئلوں کو گھور رہا تھا۔ لیکن جب اس نے جیب میں سے دس روپے کے دو نوٹ نکالے اور اس کے ہاتھ میں تھما دیئے۔ پھر اس کے چہرے پر کچھ اس طرح نگاہ کی کہ چوکی دار کو اپنی جان نکلتی ہو ئی محسوس ہوئی۔
اس کی دوکان اچانک بند ہو گئی، وہ کہیں چلا گیا تھا، جب اس نے یہ خبر بیوپاریوں کو سنائی تو انہیں کوئی تعجب نہ ہوا۔
کچھ عرصہ بعد ایک صبح چوکی دار نے اس عجیب و غریب آدمی کو دوکان کھولتے دیکھا تو خوشی سے مسکراتے ہو ئے اس کے گرد منڈلا نے لگا۔ اس نے اس کے گرد آلودہ لباس اور کیچڑ سے اٹے جوتوں سے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کسی لمبی مسافت سے لوٹا ہے۔ چوکی دار نے آرام کر سی باہر نکال دی۔ وہ ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گیا اور لمبے لمبے سانس بھر نے لگا۔ چوکی دار نے انگیٹھی بھی گرم کر دی مگر اس میں ہاتھ سینکنے کی بھی ہمت نہیں تھی، اس کا سر بائیں طرف ڈھلک گیا تھا او ر آنکھیں بند ہو گئی تھیں۔
اگلے دن وہ دو آدمیوں کو ساتھ لایا۔ دیر تک انہیں لکڑی کے تختوں، مخمل کے تھانوں، فوم اور ٹین کی چادروں کے متعلق کچھ سمجھا تا رہا۔ پھر آرام کرسی پر دراز ہو گیا۔
دو پہر تک عمارت کی دیواریں لکڑی کے تختوں پر ہتھوڑوں کی ٹھونکا پیٹی سے گونجنے لگیں، بیوپاریوں نے دوبارہ اپنے ہر کارے دوڑادیے او ر جو خبریں انہیں موصول ہوئیں ان پر وہ بہت حیران ہو ئے ان کا یقین اور پختہ ہو گیا کہ یہ عجیب و غریب آدمی واقعی پاگل ہے۔
سب لوگ ٹھونکا پیٹی کی آوازو ں سے اتنے مانوس ہو ئے کہ انہیں اس کی پر واہ نہ رہی۔
لیکن عجیب و غریب آدمی پریشان رہنے لگا تھا اس لیے کہ وہ دوسرے بیوپاریوں سے مختلف تھا اسے بکری کی کچھ زیادہ فکر نہ تھی مگر وہ چاہتا تھا جو بھی مال تیار ہو وہ مضبوط اور پائیدار ہو اسی لیے وہ بار بار کاریگروں کے پاس جاتا، انہیں ہدایت، مشورے دیتا، وہ جانتا تھا کہ بنی ہوئی چیز کی خامیاں درست کر نا ممکن نہیں ہوتا۔
کاریگر اس کی طبیعت سے واقف تھے اسی لیے اس کی ہر بات تسلیم کر تے گئے یوں بھی وہ ان کی محنت سے کہیں زیادہ رقم بطور پیشی ادا کر چکا تھا۔
لکڑی کے تختوں، مخمل کے تھانوں، فوم اور ٹین کی چادروں کے خام مواد سے جب پہلا کفن بکس تیار ہو ا تو عجیب و غریب آدمی کی خوشی دیدنی تھی، اس نے کفن بکس کا اچھی طرح جائزہ لیا، اس کی مضبوطی کو جانچا، آرام دہ ہو نے کو پر کھا اور اس کی لمبائی چوڑائی ناپنے کے لیے خود اس میں لیٹ گیا۔ پھر لیٹے لیٹے کوٹ کی جیب سے بیڑیوں کا بنڈل نکال کر کاریگروں کی طرف بڑھا دیا۔ انہوں نے ایک ایک بیڑی اٹھا لی، بیڑی پیتے پیتے وہ دونوں کسی خیالی دنیا میں پہنچ گئے۔ جب کہ وہ کش لگاتے ہو ئے کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔
ایک کے بعد بہت سے کفن بکس بنتے چلے گئے حتیٰ کہ انہیں رکھنے کے لیے دوکان میں بھی جگہ نہ رہی بہت سے راہ داری میں رکھ دیے گئے، اگر چہ کوئی گاہک بھی اس طرف نہیں آیا تھا۔
اس نے ایک اور دوکان کرائے پر لے لی اور کفن بکس وہاں منتقل کر دیے، دوکان کو پھر سامان سے بھر دیا اور کاری گر دوبارہ کا م میں مشغول ہو گئے۔
اس نے دوکان کے باہر جلی حروف میں لکھوا دیا تھا:
’’کفن بکس والا ‘‘
ہر مذہب کے تابوت ہر وقت تیار ملتے ہیں۔
نیز کفن دفن کا سارا سامان بھی موجود ہے۔
اب وہ کاری گروں کی طرف سے بے نیاز ہو گیا تھا، ان کے کام نے ظاہر کر دیا تھا کہ وہ اپنے ہنر میں طاق ہیں، سو وہ لانگ شوز چڑھائے، اوور کوٹ پہنے، سیاہ ٹوپی گود میں رکھے، مسرور نظروں سے انہیں دیکھتا او ر انگیٹھی پر ہاتھ سینکتے ہو ئے بیڑیاں پیتا رہتا۔
کسی کو معلوم نہیں کہ یہ عمارت کتنی پرانی ہے اس کی ضرورت بھی نہیں اور نہ ہی کسی نے اس کی بیرونی حالت پر غور کیا ہوگا۔ چھت کی ٹوٹی پھوٹی منڈیر، بےشیشہ کھڑکیاں، جھولتی ہو ئی ویران بالکو نیاں اور گھلی ہوئی خستہ لال اینٹیں۔
اس کی اوپر ی منزلیں کب سے خالی پڑی ہیں، جن کے باسیوں کے متعلق بہت سے قصے کہانیاں بستی کے لوگوں میں دوہرائے جاتے رہے، لیکن اب کسی کو بھی یاد نہیں، کیونکہ عمارت کے بیرونی منظر کو دیکھ کر یہ خیال بھی ذہن میں نہیں آتا کہ کبھی اس کی منڈیروں پر دھوپ میں سکھانے کے لیے ملبوسات بچھائے جاتے ہوں گے، یاکوئی نوجوان لڑکی گھبراکر کھڑکی کے پٹ بند کر دیتی ہوگی۔
اگر کوئی ایک مرتبہ عمارت کے بیرونی منظر کو غور سے دیکھ لے تو زندگی بھر ادھر نہ آئے، پھر بھی ہر کوئی گھسا چلا آتا ہے۔ اونگھتا ہوا، بڑبڑاتا ہوا اور اپنے مطلب کی چیزیں خرید کر تیزی سے پلٹتا ہوا، جیسے دوبارہ نہیں آئےگا۔ مگر آتا ہے، اس روز نہیں تو اگلے روز آتا ہے۔ جب اتفاقاً بھی اس عمارت کے نزدیک پہنچ جائے تو اس کے اندر خود اکساہٹ پیدا ہوتی ہے کہ اندر چل کر دیکھا جائے اور یہی خواہ مخواہ دیکھنے کی خواہش زندگی کی مجبوری بھی بن جاتی ہے۔
عمارت سے کچھ دور بو کے بھبھکے نتھنوں میں گھستے چلے جاتے ہیں، کئی سادہ لوح اسے خوشبو کہتے ہیں اور نتھنے پھلا کے لمبے لمبے سانس بھر تے ہیں، باہر بڑے بڑے ڈھیر لگے رہتے ہیں، جن پر مکھیوں، کوؤں اور کتوں کے ٹھٹھ منڈلاتے رہتے ہیں، لوگ ناک سکیڑ ے بغیر شتابی سے عمارت میں داخل ہو جاتے ہیں۔
دکانوں کی روشنیوں کے باوجود راہ داریاں تاریک رہتی ہیں، مگر اتنی بھی نہیں کہ لوگ ٹکرا جائیں، فرش گیلا رہتا ہے۔ اس لیے قدم احتیاط سے رکھنے پڑتے ہیں، ہر دوکان پر لوگوں کی بھیڑ دھکم پیل کر تی ہے۔ آپس میں الجھتی ہے، گالیوں کا تبادلہ کر تی ہے۔ ایسے میں دوکان دار کی نرم آواز فیصلہ چکا دیتی ہے۔
اس عمارت کی دوکانوں کے متعلق سب جانتے ہیں کہ یہاں انسانی ضرورت کی ہر شے مل جاتی ہے۔
اور اب تو کفن بکس کی دوکان بھی کھل گئی تھی۔
دوکانداروں نے عجیب و غریب آدمی کو کفن بکس والے کانام دے دیا تھا۔
وہ گاہکوں کی فکر سے بے نیاز دن بھر آرام کرسی پر لیٹا رہتا۔
اس کی حرکات میں خفیف سی تبدیلی یہ ہوئی کہ وہ اپنی مخروطی انگلیوں سے کر سی کے بازؤوں پر اجنبی سی دھن بجانے لگا۔ کاریگر جب سستا نے کے لیے کام روکتے اور یہ اجنبی دھن ان کے کانوں میں پڑتی تو وہ اس کی پر اسراریت میں گم ہو جاتے اور مبہو ت ہو کر اک دوسرے کو دیکھنے لگتے۔ ایسے میں کفن بکس والا غصیلی نظروں سے انہیں گھورتا اور اپنی انگلیوں کو روک دیتا، وہ چونک جاتے اور اپنے کام میں مصروف ہو جاتے۔
بہت دن گزر گئے تھے مگر ایک بھی کفن بکس نہیں بکا تھا، جب کہ کاری گر مسلسل کفن بکس بنا رہے تھے۔ وہ کسی بھی چیز میں کمی نہ ہونے دیتا، اس نے دو مزید دوکانیں کرائے پر لے لی تھیں اور تیار شدہ مال وہاں رکھوا دیا تھا۔
ایک شام دوکانیں بند ہو نے سے ذر اپہلے کفن بکس والے کے پاس کچھ آدمی آئے۔
انہوں نے خوب دیکھ بھال کر ایک کفن بکس خریدا اور اسے ارتھی کی طرح اٹھالے گئے، اس پر دوکان داروں میں چہ میگوئیاں ہو نے لگیں۔
اس شام کفن بکس والا دیر تک قہقہے لگا تا رہا، اس کے قہقہے الو کی چیخ و پکار سے مشابہ تھے۔
مہینے کے آخر میں جب کریانہ مرچنٹ نے ادھار والا کھاتہ کھولا اور حساب کتاب کر نے لگا تو اسے کھاتوں میں گڑ بڑ معلوم ہوئی، اس نے سمجھا کہ یہ اس کے بیٹوں کی کارستانی ہے، وہ ان پر پل پڑا اور غلیظ گالیاں دینے لگا۔ اس کے بیٹے اپنی بےگناہی جتانے کے لیے دلائل دیتے رہے مگر وہ تو ہو ش گنوا بیٹھا تھا، ہر گاہک کے کھاتے میں بہت کم چیزوں کا اندراج تھا اور اس کے ذمے جو ادھار بنتا تھا وہ بھی معمول سے کم تھا، پھر کر یا نہ مرچنٹ نے مہینے بھر کی فروخت کا حساب لگا یا تو وہ بھی بہت کم تھی، اس نے اسی وقت اپنے بیٹوں کو کاروبار سے الگ کر دیا۔
سبزی فروش پر بھی یہ معاملہ کھل گیا کیوں کہ وہ روز سامان خرید تا اور بیچتا تھا، کچھ دنوں سے شام تک بہت سبزی بچنے لگی تھی، جو صبح ہو تے گل سڑجاتی اور اسے منافع کے بجائے نقصان ہو نے لگا تھا، اسی لیے وہ سبزی کی مقدار گھٹا تا جا رہا تھا۔
شاید کتب فروش، درزی اور دوسرے دکان دار بھی اسی صورت حال کی زد میں آنے لگے تھے۔
مگر اگلے مہینوں میں سب کو خبر ہو گئی کہ گاہکوں کی تعداد گھٹنے لگی ہے۔
زیادہ نقصان کر یانہ مرچنٹ کو ہو رہا تھا کیوں کہ اس کی دونوں دکانیں سامان سے لدی پھندی ہو ئی تھیں۔ اس نے گودام بھی کرائے پر لے رکھے تھے، جہاں وہ اجناس کا ذخیرہ کرتا تھا اور سستے داموں خریدی ہو ئی چیزوں کو مہنگا فروخت کر تا تھا، لیکن اب گوداموں میں پڑے چاولوں، دالوں اور آٹے میں کیڑے پڑنے لگے تھے حتیٰ کہ وہ چیزیں جو ڈبوں میں بند تھیں خراب ہو نے لگی تھیں۔
سبزی فروش کے گھر پر بھی آلو اور پیاز کا اسٹاک گلنے سڑنے لگا تھا۔
کتب فروش کچھ عرصہ مطمئن رہا کیوں کہ اس کی بکری یوں بھی کم ہو تی تھی، لکھنے پڑھنے کا سامان تین چار مہینوں میں ہی زیادہ بکتا تھا مگر ان اس گاہکوں کی تعداد بھی گھٹنے لگی تھی، وہ مدت سے ادب اور سنجیدہ موضوعات پر کتب بیچنا چھوڑ چکا تھا، مگر اب نصابی کتب کی فروخت بھی گھٹ گئی تھی وہ کاؤنٹر پر سر جھکائے پہروں ان چیزوں پر غور کر تا رہتا تھا۔
درزی بھی حیران تھا کہ بستی والوں نے تہوار وں پر بھی نئے کپڑے سلوانے کم کر دیئے تھے وہ حیران تھا کہ ماتمی لباس سلوانے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تھی۔ اس نے گزشتہ مہینے پچاس کفن بھی سیے تھے۔
کفن بکس والے کے طور طریقے نہیں بدلے، وہ صبح سے شام تک آرام کرسی پر لیٹا بیڑیاں پھو نکتا رہتا، اسے عمارت کے دوکان داروں کی پشیمانی سے کوئی سر وکار نہیں تھا وہ جانتا تھا۔
کہ سب سے اچھی ہنسی اس کی ہو تی ہے جو سب سے آخر میں ہنستا ہے۔
کفن بکسوں کی فروخت پر اس نے کسی رد عمل کا اظہار بھی نہیں کیا البتہ اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کچھ گھمبیر ہو گئی اور پیشانی پر نئے تل نمایاں ہو نے لگے۔ وہ انگیٹھی کو آرام کرسی کے بہت نزدیک رکھوانے لگا تھا، بعض اوقات اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔ جو بعد میں خودبخود تھم جاتی تھی، جھر جھری لینا بھی اس کی عادت بن گئی تھی۔
پہلے کفن بکس کی فروخت کے دو مہینے بعد ہی سارا اسٹاک ختم ہو گیا۔ اس نے بھی سامان کی فراہمی میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ سامان کے لیے ایک گودام بھی کرائے پر لے لیا۔
ایک بار پھر وہ کچھ عرصے کے لیے غائب ہو گیا اور جب لوٹا تو پانچ کاری گر ساتھ لایا۔ اب ساری عمارت صرف ٹھونکا پیٹی کے شور سے گونجتی رہتی تھی۔
عمارت کے کچھ دوکان دار اپنی دوکانیں بیچنے لگے تو کفن بکس والے نے انہیں سستے داموں خرید لیا اور وہاں نئے کاری گروں کو سامان ڈال دیا۔
ایک دن کر یانہ مرچنٹ، سبزی اور کتب فروش آپس میں سر جوڑ کر بیٹھے اور شام ڈھلے تک سرگوشیاں کر تے رہے۔ وہ دوکانیں بیچنا نہیں چاہتے تھے، جب کہ انہیں بہت نقصان ہو چکا تھا، سو انہوں نے عمارت میں رہتے ہو ئے کا روبار تبدیل کر نے کا منصوبہ بنا لیا۔
کر یانہ مرچنٹ نے عرقِ گلاب، اگر بتیاں، لوبان اور دوسرا سامان خرید لیا۔ سبزی فروش پھول بیچنے لگا جب کہ کتب فروش موت کا منظر، نمازوں اور دعاؤں والی کتابیں فروخت کر نے لگا۔
درزی کاکام بڑھ گیا تھا، اس نے ماتمی لباس اور کفن سینے کے لیے ایک کاری گر بھی رکھ لیا تھا۔
یہ عمارت کھنڈر ہو کر بھی کھنڈر نہیں بنی اس کی خستگی بھی پہلے جیسی ہے۔ وہی ٹوٹی پھوٹی منڈیر، بےشیشہ کھڑکیاں، جھولتی ہوئی ویران بالکونیاں اور گھلی ہوئی خستہ لال اینٹیں۔ لوگ اب بھی اس کا بیرونی منظر دیکھے بغیر اندر گھس آتے ہیں۔ لیکن ان کے طور طریقوں میں پہلے سی زندگی نہیں رہی۔ اب وہ دھکم پیل نہیں کرتے آپس میں الجھتے نہیں اور ایک دوسرے کو گالیاں بھی نہیں دیتے۔ کر یانہ مرچنٹ، پھول بیچنے والا اور کتب فروش افسردگی سے انہیں نزدیک سے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ کفن بکس والے کے گاہک بن گئے ہیں۔ جو ان کی طرف دیکھے بغیر دام وصول کرتا ہے وہ چپ چاپ ارتھی کی طرح کفن بکس اٹھاتے ہیں اور عمارت سے باہر نکل جاتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.