کہانی ایک خواب کی
خوابوں کی حقیقت کیا ہے۔۔۔نامعلوم، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ خواب اتنے شفاف ہوتے ہیں حقیقت کا گمان ہوتا ہے کبهی کبهی میں اٹهتا ہوں تو آنکهیں بهیگی ہوتی ہیں بس اتنا یاد رہتا ہے میں بہت رویا ہوں اور میرا تکیہ بهی اس کا گواہ ہوتا ہے۔۔۔میں اس رات اپنے موبائل پر ہی سورۃ کہف کا ترجمہ پڑھ رہا تها دیر تک سوچتا رہا یہ حضرت ذوالقرنین جن کا ذکر باری تعالٰی نے قرآن میں سورۃ کہف میں کیا ہے وہ کس زمین پر گھوڑا دوڑاتے رہے کہ پہلے انہیں جہاں سے سورج نکلتا ہے اس جانب اور پهر جہاں سورج ڈوبتا ہے اس مقام تک حکم سفر ملا، ظاہر ہے یہی زمین ہو گی لیکن وہ مقام کون سا تها اور کہاں ہے جہاں دو پہاڑوں کب بیچ آپ نے ایک قوم کی مدد کرتے ہوئے سیسہ پلائی دیوار اٹهائی، دیر تک نیٹ پر تلاش کے باوجود اس مقام کے اشارے نہیں ملے۔۔۔معلوم نہیں کب آنکھ لگی۔
مجهے محسوس ہوا میں گہرے پانی میں تیر رہا تها لیکن سب صاف دکهائی دے رہا تها میرے اردگرد ایک ہجوم تها مچھلی نما لوگ یا مچھلیاں ادھر ادھر کسی انجان منزل کی جانب تیر رہے تهے۔۔۔مجهے لگا میں اکیلا ہوں لیکن نہیں کوئی میرے ساتھ تها۔۔۔غور سے دیکھا تو وہ ایک نہایت ہی حسین مچھلی تهی لیکن وہ تو بہت حسین عورت تهی سبز آنکهوں والی سنہری بالوں والی اتنی حسین کہ حسن بهی اسے دیکهے تو مبہوت ہو جائے وہ میرے ساتھ ساتھ ہی تیر رہی تهی پر میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ اس کا دهڑ تو انسانی تها لیکن وہ نیچے سے مچھلی نما تهی۔۔۔میرے منہ سے چیخ نکلی تم تم جل پری ہو۔۔۔تو وہ مسکرانے لگی اور اس نے میری ٹانگوں کی جانب اشارہ کیا میں نے غور سے نیچے دیکها تو میں بهی دهڑ سے نیچے اس جیسا ہی تها۔۔۔مچھلی نما۔۔۔میرے ہاتھ۔۔۔میں چلایا۔۔۔میرے پیر ۔۔۔میں رونے لگا۔۔۔بچاؤ۔ تم کون ہو۔۔۔وہ میرے پاس آئی اور پہلی بار بولی میرے ساتھ چلو ڈرو مت تمہیں کچھ نہیں ہوگا خاموش رہو اور غور سے دیکھو ہم مگرمچهوں کی بستی سے گزر رہے ہیں لیکن یہ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے اس وقت یہ سب سو رہے ہیں۔۔۔میں نے غور سے دیکها تو ان کی آنکهیں کهلی تهیں۔۔۔تم جهوٹ بول رہی ہو یہ تو جاگ رہے ہیں وہ ہنسی۔۔۔ارے پگلے اسے کهلی آنکهوں سے سونا کہتے ہیں یہ خیال رکھنا یہ پیٹھ پر دانت گاڑهنے والے مگرمچھ ہیں میں میں نے مزید غور کیا تو ان میں کئی چہرے مجهے بہت قریبی لگے شاید میرے اپنے۔۔۔ہم تیزی سے وہاں سے نکلے۔۔۔اس نے کہا آنکهیں بند کرو۔۔۔میں نے آنکهیں بند کیں۔
ہاں اب کهولو۔۔۔ارے ارے۔۔۔ہم۔۔۔ہم اڑ رہے تهے اور کس قدر بلندی پر اور میرے پر اس قدر بڑے تهے کہ میں حیران پریشان اس کو تک رہا تها جو میرے ساتھ ہی قوس قزح کے جیسے پروں کے ساتھ اڑ رہی تهی شاید میں نے سوال کرنا مناسب نہیں سمجھا ہم لمحوں میں فضا کو چیرتے آگے بڑھ رہے تهے کیا حسین منظر تها دور دور تک سبزہ ہی سبزہ تها انسانوں کا نام و نشان نہیں تها آبشاریں یوں لگ رہیں تھیں جیسے پہاڑوں سے دودھ بہہ رہا ہو کچھ دیو قامت جانور گھومتے نظر آئے، پهر ہم ایک بندروں کی بستی سے گزرے اس نے کہا یہاں ٹھہرو اور نہیں غور سے دیکھو یہ انسان تھے میں نے انہیں گفتگو کرتے سنا تو وہ عجیب سی بولی بول رہے تهے لیکن ان کا رہن سہن انسانوں جیسا ہی تها لیکن مجهے ان کے برتاؤ اور آپسی نفاق سے ان کی اس حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہ تها۔۔۔ہم ایک بار پهر محو پرواز تھے وہ میرے ساتھ ہی تهی اب ہم انسانی حالت میں تهے لیکن پروں کے ساتھ بےلباس ایک دوسرے کو تکتے جاتے لیکن شہوت کے آثار کہیں نمایاں نہیں تهے وہ بولی دیکهو بولنا نہیں بس دیکهنا یہ بستی یہ لوگ غور سے دیکھ لو مجهے تمہیں یہاں تک لانا تها میں سنتا رہا جیسے میرے لب سلے ہوں ہزاروں سوالات کے باوجود میں کچھ کہہ نہ پایا۔۔۔سبزے سے ٹهکے ہوئے پہاڑوں کا ایک نہ ختم ہونے والا دلکش سلسلہ میرے سامنے تها ہوا میں ٹھہرے ہوئے ہم اس جنت نظیر وادی میں دور چند انسانوں کو رینگتا دیکھ رہے تهے لیکن یہ تو کوئی پستہ قد مخلوق تهی مجهے وہ زمین پر رینگتے ہوئے کیڑے معلوم ہوئے کہ یکایک میں نے دو قوی ہیکل انسانوں کو ان کے بیچ دیکها جو ان پر ظلم ڈھا رہے تهے تشدد بهرے یہ مناظر دلخراش تھے جب وہ چلے گئے تو اس رینگتی ہوئی مخلوق میں سے ایک چبوترے پر آ کهڑا ہوا اور سب اس کے اردگرد جمع ہو گئے انہوں نے اس شخص کا خطاب سنا اور سب زمین پر سجدہ ریز ہوگئے۔۔۔میں یہ سب دیکھ رہا تها۔۔۔شاید وہ اپنے خدا سے رحم کی بھیک مانگ رہے تهے کہ ان ظالموں کے ظلم و ستم سے انہیں چھٹکارا نصیب ہو ان کے رونے اور دراڑیں مارنے کی صدائیں فضا میں بلند ہو رہیں تهیں یہ سلسلہ جانے کتنے دن جاری رہا نہیں معلوم لیکن میں وہاں موجود تها اور سب دیکھ رہا تها۔۔۔پهر میں نے گھوڑے پر سوار ایک خوب رو شہزادے کو آتے دیکها اس نے ان رینگتے انسانوں کو مخاطب کیا تمام لوگ ایک بار پهر اس چبوترے پر اکٹھے ہوئے اور سب کے چہرے خوشی سے جھوم اٹھے شاید وہ ان کا مسیحا تها۔۔۔پهر وہ قوم ایک ہو کر اس کا ہاتھ بٹانے لگی اور دیکهتے ہی دیکهتے انہوں نے اس شہزادے کی مہارت کی مدد سے ان دو پہاڑوں کے بیچ و بیچ لوہے کی ایک دیوار چن دی بنیادوں میں لوہا پگهلایا گیا اور یوں وہ رینگتی ہوئی مخلوق ان دیو ہیکل ظالموں سے محفوظ ہوئی اپنا کام ختم کرتے ہی شہزادے نے ان سے اجازت چاہی اور گھوڑے پر سوار نامعلوم سمت میں روانہ ہوا۔۔۔وہ مخلوق ایک بار پهر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوئی۔
ہم دونوں ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر مسکرائے۔۔۔وہ بولی اب تم جاؤ مجهے شدت سے یاد کرنا میں پهر حاضر ہو جاؤں گی۔۔۔اس بار میں اس سے مخاطب ہوا لیکن تم اپنا نام تو بتاتی جاؤ میں تمہیں کیسے پکاروں گا۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی میں تمہارے ساتھ ہی رہتی ہوں۔۔۔میں خواہش ہوں خواہش!!
میری آنکھ کھلی تو میں پسینے سے شرابور تها ایک بار پهر اس مقام کی تلاش میں جت گیا جہاں سے ابهی ابهی میں لوٹا تها۔
وہ دنیا سے اوجهل مقام کہیں تو ہے۔۔۔لیکن یہ آج بهی ایک سول ہے!!! کہاں؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.