Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہانی ایک کردار کی

اخلاق احمد

کہانی ایک کردار کی

اخلاق احمد

MORE BYاخلاق احمد

    ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا۔

    مشہور ادیب عابد شہباز کا تخلیق کردہ مقبول کردار شکیل رات کے ڈھائی بجے زندہ ہو گیا۔!

    زندہ کیا ہو گیا، یوں سمجھئے کہ جیسے ہوش میں آگیا۔

    اب خدا کے واسطے یہ مت کہہ دیجئے گا کہ آپ نہ عابد شہباز سے واقف ہیں اور نہ اس کے مشہور کردار شکیل سے۔ کروڑوں لوگ عابد شہباز کی کہانیوں کے دیوانے ہیں۔ چلئے، کروڑوں نہ سہی، لاکھوں تو ضرور ہوں گے۔ اس کی تخلیقات پہلے طویل قسط وار کہانیاں بن کر مقبول رسالوں میں شائع ہوتی ہیں۔ پھر ناول کی صورت میں منظر عام پر آتی ہیں اور فروخت کے ایسے ریکارڈ قائم کرتی ہیں جو کتاب سے بیزار اس ملک میں ناقابل یقین لگتے ہیں۔ زندگی کی پریشانیوں سے تھکے مرد، آزردہ عورتیں، مایوس نوجوان اور اداس لڑکیاں جو ہر شہر، ہر قصبے، ہر محلے میں بے سروپا خوابوں کے سہارے زندہ ہیں، عابد شہباز کے اور اس کے مقبول کردار شکیل کے دیوانے ہیں۔ اس پوری جادوئی دنیا کے عاشق ہیں جس میں شکیل۔۔۔ ہینڈسم اور خوش لباس شکیل، لاپرواہ اور شوخ شکیل، شرلاک ہومز جیسا ذہین اور بروس لی جیسا پھرتیلا شکیل، اپنی بےحد حسین ساتھی نازلی کے ساتھ دشمنوں سے ٹکراتا ہے، قانون کو غچہ دیتا ہے، سازشوں کو ناکام بناتا ہے۔ اور اس ساری مہم جوئی کے درمیان نازلی سے، کسی نہ کسی وجہ سے، دل کی بات نہیں کہہ پاتا ہے۔

    تو وہی شکیل اس رات نہ جانے کیسے ہوش میں آ گیا۔

    باہر ہونے والی موسلادھار بارش کے دوران بجلی یوں کڑکی جیسے کوئی دھماکہ ہوا ہو۔ اور شکیل جیسے اچانک بیدار ہو گیا۔

    اپنے بستر پر لیٹے لیٹے اس نے پورے کمرے کو یوں دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔

    کمرے کی ہر چیز سفید تھی۔ دیواریں، دروازے، پردے، چادریں، فرنیچر، قالین، صوفہ سیٹ۔ سب سفید۔

    صرف قد آدم شیشے کے سامنے کھڑی، بال سنوارتی نازلی تھی جس نے سرخ لباس پہن رکھا تھا۔ لگتا تھا، کسی برف زار میں ایک شوخ پھول کھلا ہوا ہو۔ وہ آئینے میں اپنے عکس کو تنقیدی نظروں سے دیکھتی جا رہی تھی اور کچھ گنگناتی جا رہی تھی۔

    شکیل اٹھا اور بیڈ کے گرد گھوم کر نازلی کے پیچھے جاکھڑا ہوا۔ آئینے کے فریم میں وہ دونوں نظر آ رہے تھے۔ایک وجیہہ مرد، اور ایک حسین عورت۔

    ’’کیا بات ہے۔؟‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’بہت خوش نظر آ رہی ہو۔‘‘

    نازلی مسکرائی۔ ’’کیا مجھے خوش نظر نہیں آنا چاہئے۔؟ آج ہماری سالگرہ ہے۔‘‘

    شکیل کو یاد آ گیا۔ سات سال پہلے آج ہی کے دن عابد شہباز کا پہلا ناول منظر عام پر آیا تھا۔ دنیا کو پہلی بار دو نئے کرداروں کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ وہ کامیابی کی سیڑھی پر عابد شہباز کا پہلا قدم تھا لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا، خود عابد شہباز نہیں جانتا تھا کہ یہ سیڑھی کامیابی کے آسمان تک جاتی ہے۔

    شکیل نے کہا۔ ’’ہاں۔ آج ہماری ساتویں سالگرہ ہے۔ تم آج بھی اتنی ہی حسین ہو، جتنی سات سال پہلے تھیں۔‘‘

    نازلی کے عارض پر حیا کی اور خوشی کی سرخی پھیل گئی۔

    ’’لیکن ہے یہ بڑی عجیب بات۔‘‘ شکیل نے کہا۔ ’’سات سال بعد بھی ہم ویسے کے ویسے ہیں۔ نہ ہماری عمر بڑھی ہے، نہ وزن میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔۔۔‘‘

    ’’اس میں عجیب بات کیا ہے۔؟‘‘ نازلی اطمینان سے برش کے ذریعے اپنے بالوں کو سنوارتی رہی۔ ’’ہم کردار ہیں۔ عابد شہباز کے تخلیق کردہ کردار۔ کردار بھی کبھی بوڑھے ہوتے ہیں۔؟‘‘

    شکیل مڑا اور قریب لگے صوفے پر جا بیٹھا۔ ’’ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔ مگر آدمی کبھی کبھی بیزار ہوجاتا ہے۔ بور ہو جاتا ہے ایک ہی جیسی زندگی گزارتے گزارتے۔‘‘

    ’’شکر کرو، عابد شہباز نے تمہیں کوئی چھوٹا کردار نہیں بنایا۔‘‘ نازلی نے کہا۔ ’’کسی ولن کا چمچہ، جو ابتدائی صفحات میں ہی ہماری گولی کا شکار ہو جاتا۔ یا کسی کلب کا ویٹر، جو میز پر جوس رکھ کر رخصت ہو جاتا۔‘‘ وہ اپنے عکس پر آخری نظر ڈال کر، اپنی آرائش سے مطمئن ہوکر، شکیل کے عین سامنے آ بیٹھی۔

    ’’تمہیں وحشت نہیں ہوتی اس جعلی سیٹ اپ سے۔؟‘‘ شکیل نے کہا۔ ’’اس مصنوعی زندگی سے، جس کا کوئی سر ہے نہ پیر۔‘‘

    ’’کیا مطلب۔؟‘‘ نازلی کے لہجے میں حیرت تھی۔

    ’’مطلب یہ کہ ہم ایسے بے بنیاد کیوں ہیں۔؟‘‘ شکیل نے کہا۔ ’’کوئی نہیں جانتا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ تم کہاں سے آئی ہو۔ ہمارے ماں باپ کون تھے، کیسے تھے۔ ہم کس شہر میں رہتے ہیں۔ تم نے کہاں تعلیم۔۔۔‘‘

    ’’بیکار باتیں۔‘‘ نازلی نے کہا۔ ’’کیا ضرورت ہوتی ہے یہ سب جاننے کی۔ انسان جیسا ہوتا ہے، بس ویسا ہی ہوتا ہے۔‘‘

    شکیل تلخی سے بولا۔ ’’وہ انسان ہوتا ہے، کردار نہیں۔‘‘

    ’’تمہارا موڈ خراب لگتا ہے، حالانکہ تمہیں آج خوش ہونا چاہیے۔ آج ہماری ساتویں سالگرہ ہے۔ عابد شہباز کا تازہ ناول بھی صبح مکمل ہو جائےگا۔ ایک نئی کامیابی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔‘‘

    ’’کامیابی ہمارا نہیں، عابد شہباز کا انتظار کر رہی ہے۔‘‘ شکیل کے لہجے میں تلخی تھی۔ ’’اس احمق آدمی کا، جو محض خوش قسمتی کے سارے مقبول سے مقبول تر ہوتا جا رہا ہے۔ تمہیں کیا ملےگا اس نئی کامیابی سے۔؟ کردار کو نہ شہرت ملتی ہے، نہ دولت، نہ احترام۔‘‘

    ’’مگر اسے یاد رکھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’خوش فہمی کی دنیا سے نکل آؤ نازلی۔ میں اور تم وہ کردار نہیں ہیں جنہیں یاد رکھا جائے۔ ہم صرف پرکشش کردار ہیں۔ میری یہ وجاہت اور تمہارا یہ حسن اور ہماری یہ مہم جوئی، یہ سب سادہ لوح پڑھنے والوں کو ذرا سی دیر کے لئے ایک فرضی دنیا میں لے جانے کے لئے ہے۔ تھوڑی سی ذہنی تفریح فراہم کرنے کے لئے ہے۔ ہم ایک مشین ہیں جس کے ذریعے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ایک سکون بخش دوا ہیں جسے کھا کر تھوڑی دیر کے لئے زندگی کی تلخیوں کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ ہمیں پڑھنے والا ہر مرد تھوڑی دیر کے لئے طاقتور اور بہادر اور تم جیسی حسین عورت کا محبوب بن جاتا ہے، ہر عورت تم جیسی دلربا اور پرکشش بن جاتی ہے۔ ہم کسی کلاسیک کے، کسی عظیم ناول کے کردار نہیں ہیں کہ ہمیں یاد رکھا جائے۔‘‘

    نازلی کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے۔ ’’تمیں کیا ہوگیا ہے۔ کیسی باتیں کر رہے ہو تم۔؟‘‘

    ’’مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔‘‘

    ’’کچھ نہ کچھ تو ہوا ہے۔‘‘

    شکیل لمحہ بھر خاموش رہا۔ یوں جیسے کوئی بات کہنے کے لئے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر اس نے کہا۔ ’’میں شاید۔۔۔ میں شاید سوچنے لگا ہوں۔ نہیں۔ میں شاید سوچنے سمجھنے کے قابل ہو گیا ہوں۔‘‘

    نازلی اسے غور سے دیکھتی رہی۔ پھر بولی۔ ’’تم تو پہلے ہی سوچنے سمجھنے کے قابل تھے۔ ہر ایک کا یہی خیال ہے کہ تم بےحد سمجھدار ہو۔‘‘

    شکیل نے کہا۔ ’’وہ تو مجھے عابد شہباز نے بنایا ہے۔ ایک ذہین اور سمجھدار کردار۔ مگر۔۔۔ مگر میں کسی اور طرح سے۔۔۔ جیسے عام انسان، جیتے جاگتے انسان سوچنے سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں، اسی طرح۔۔۔ بالکل اسی طرح ہو گیا ہوں میں بھی۔‘‘

    ہنسی پہلے نازلی کی آنکھوں میں اتری۔ پھر چہرے پر۔ ساری کوشش کے باوجود وہ اس قہقہے کو نہ روک سکی جو سینے کی گہرائی سے نکلا تھا۔

    شکیل سنجیدہ بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔

    ہنستے ہنستے نازلی کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور اس کی پسلیوں میں درد ہونے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی ہنسی پر قابو پایا، دوپٹے سے آنکھوں کو صاف کیا اور بولی۔ ’’آئی ایم سوری۔ تم نے بات ہی ایسی کی تھی۔‘‘

    ’’تم ہنس سکتی ہو نازلی۔‘‘ شکیل نے کہا۔ ’’کیونکہ تم سوچ نہیں سکتیں۔ میں نے بھی سات سال ایسے ہی گزارے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر۔‘‘

    ’’میں نے کہا نا، آئی ایم سوری۔‘‘ نازلی کو اپنی سنجیدگی برقرار رکھنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔’’اتنا برا ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    ’’اگر تم ذرا سی دیر کے لئے بھی سوچ سکو نازلی، تو شاید زندگی بھر کبھی نہ ہنسو۔ ہم بالکل ادھورے ہیں۔ بے زمین، بے نام و نشاں، بے شجرہ کردار۔ میں شکیل ہوں۔ مگر کون شکیل۔؟ شکیل احمد یا شکیل خان یا شکیل رضوی۔؟ ہو سکتا ہے میں شکیل بلوچ ہوں۔ یا شکیل اجمیری۔ تم بھی ایسی ہی ہو اور وہ سب بھی جو عابد شہباز کی کہانیوں میں نمودار ہوتے ہیں اور ہم سب اس لئے ادھورے ہیں کیونکہ ہمیں تخلیق کرنے والا ایک کم عقل مصنف ہے جسے لکھتے وقت صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ ہر روز آٹھ دس فل اسکیپ صفحے مکمل کرلے تاکہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں اس کا ناول مکمل ہوجائے۔ اس کے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ ہمیں کوئی شناخت دے۔ کوئی ماضی، کوئی زندگی دے۔‘‘

    نازلی کے چہرے سے شوخی رخصت ہو چکی تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔

    شکیل نے کہا۔ ’’کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ہم میں کوئی خرابی نہیں ہے اور وہ جو دشمن ہیں، ان میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ ہم ہر کام میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ ہر بار ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، نازلی۔؟ ہم اتنے خوش نصیب کیسے ہو سکتے ہیں کہ ہر بار موت سے بچ نکلیں۔؟ ہم اتنے اچھے، اتنے مکمل کیسے ہو سکتے ہیں کہ ہوٹل کے کمروں میں، غیرآباد جزیروں میں، حسین ساحلوں پر، تنہائی میسر ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو ہاتھ بھی نہ لگائیں۔؟ ہم ہر بار ایک بھاگتی دوڑتی کہانی کا ہی حصہ کیوں ہوتے ہیں جہاں گولیاں بارش کی طرح برستی ہیں اور سازشیں ریوڑیوں کی طرح تقسیم ہوتی ہیں۔؟ میں تمہیں ابھی سے بتاسکتا ہوں کہ کل صبح یہ تازہ ناول کیسے ختم ہوگا۔ ہم دشمن کے ہیڈکوارٹر کی پانچ منزلہ خوبصورت عمارت میں ایک طاقتور بم نصب کر کے نکل جائیں گے اور پھر ایک دل دہلادینے والا دھماکہ ہوگا۔ شعلے اور دھواں اور فضا میں اڑتے انسانی اعضا۔۔۔ اور زمیں بوس ہوتی عمارت کے گرنے کی مہیب آواز۔‘‘

    نازلی کی آنکھوں میں پریشانی تھی اور چہرے پر کچھ سمجھ نہ پانے کی الجھن۔ وہ بولی۔ ’’کہانی میں یہ نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔؟ جو بے شمار لوگ ان کہانیوں کے دیوانے ہیں وہ کیا پاگل ہیں۔؟ میں بالکل نہیں سمجھ سکی، تم کیا چاہتے ہو۔؟ کیا کمی محسوس ہوتی ہے تمہیں اپنی زندگی۔۔۔ اپنے کردار میں۔؟‘‘

    ’’کہانی بس یہی نہیں ہوتی نازلی۔ اس کے ہزار روپ ہوتے ہیں۔ ’’شکیل نے آہستہ سے کہا۔ ’’حسن کی طرح۔ بالکل تمہارے حسن کی طرح۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ جس کا روپ کچھ اور ہوتا ہے، شام کے دھندلکے میں کچھ اور۔ چاندنی میں کچھ الگ طرح سے دل موہ لینے والا۔ اور گھنے پیڑوں کے مہرباں سائے میں کسی اور طرح گرفتار کرنے والا۔ کہانی تو محبوبہ ہوتی ہے۔ اسے جس زاویہ سے دیکھو، اس کی چھب نرالی لگتی ہے۔ مگر وہ یہ بات نہیں جانتا۔۔۔ وہ جو اوپر کہیں آرام سے سو رہا ہے۔ جسے دنیا عابد شہباز کے نام سے جانتی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ کہانی کے رنگ ان گنت ہوتے ہیں۔ ہر رنگ پہلے سے زیادہ دلکش۔ ہر خیال پہلے سے زیادہ دل آویز۔ اس دنیا میں کہانی نہ ہوتی تو دلوں کو قرار کیسے ملتا۔؟ آدمی کو خواب کیسے ملتے۔؟ سینے میں یہ تڑپ، یہ آگ کہاں سے آتی۔؟‘‘

    ’’تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ نازلی کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔ ’’تھوڑی دیر۔۔۔‘‘

    شکیل نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ لگتا تھا، وہ خواب میں کسی سے باتیں کر رہا ہے۔ ’’کہانی صرف غارت گر لوگوں کی ہی نہیں ہوتی۔ اس آدمی کی بھی ہوتی ہے جسے ساری زندگی ایمانداری سے گزارنے کے بعد رشوت کے جھوٹے الزام میں پکڑا جائے۔ اس عورت کی بھی، جو محبت کا تعاقب کرتے کرتے بدنامی کی دلدل میں جاگرے۔ اس بچے کی بھی، جو غربت کے باوجود اپنی بقا کی جنگ میں کامیاب ہونے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اور اس بوڑھے کی بھی، جس کے جوان بیٹے ٹارگٹ کلنگ میں مار دیئے جائیں۔ ہر زندگی میں ایک کہانی ہے اور ہر کہانی میں ایک زندگی۔ مگر وہ آدمی، وہ عابد شہباز نامی آدمی یہ سب نہیں جانتا۔ وہ اپنی عقل کے ایک تنگ و تاریک کنوئیں میں رہتا ہے اور میں شرط لگا سکتا ہوں کہ وہ اس کنوئیں میں ہی مر جائےگا۔‘‘

    خوف کا ایک احساس تھا جو کسی تاریک سائے کی طرح نازلی کے حسین چہرے پر چھاتا جا رہا تھا۔ ’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو۔؟ کیا مقصد ہے ان باتوں کا۔؟ تم ایک کردار ہو۔ عابد شہباز کے تخلیق کردہ کردار۔ کیا اب کردار، ادیب کو بتائےگا کہ اسے کیا لکھنا چاہئے، کیا نہیں لکھنا چاہئے۔؟‘‘

    شکیل مسکرایا۔ ’’کیا برائی ہے اس میں۔؟ اس دنیا میں ہزاروں، لاکھوں کہانیاں ایسی لکھی جاچکی ہیں جن میں کردار، ادیب کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ خود مختار ہو جاتا ہے۔ پوری کہانی بدل ڈالتا ہے۔‘‘

    نازلی کے ہاتھ کپکپارہے تھے۔ وہ وہ بولی تو اس کی آواز بھی لرز رہی تھی۔ ’’دیکھو۔ کوئی بےوقوفی مت کر بیٹھنا۔ نہ جانے تمہارے دل میں کیا آ گیا ہے۔؟ کیسے آ گیا ہے۔؟ ایسا کچھ مت کر دینا کہ یہ سب۔۔۔ یہ سب کچھ برباد ہو جائے۔!‘‘

    شکیل کچھ نہ بولا۔ بس، سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا۔

    وہ ایک بہت بڑا ہال تھا۔

    بےشمار لوگ ہر جانب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔

    ایک بہت بڑے اسکرین پر وہ نیا میزائل نظر آ رہا تھا۔ ایٹمی وار ہیڈ سے لیس میزائل۔ دو ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والا خوفناک میزائل جو ابھی تین گھنٹے بعد تباہی مچانے کے لئے روانہ ہونے والا تھا۔

    لیکن ان بے شمار لوگوں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ ساحل کے کنارے بنی اس پانچ منزلہ عمارت کے ہر فلور پر بارود بچھایا جا چکا تھا۔ چوتھی منزل کی سیڑھیوں کے نیچے نیم تاریکی میں حرکت کرنے والے دو سائے اس نیوکلیئر میزائل کو، ان بے شمار سازشی لوگوں کو اور شر پھیلانے والے اس مرکز کو نیست و نابود کرنے کے لئے بالکل تیار تھے۔

    نازلی نے سرگوشی کی۔ ’’میں نے ٹائمر آن کر دیا ہے۔ اب ہمارے پاس صرف آٹھ منٹ ہیں۔‘‘

    شکیل نے سر ہلایا۔

    وہ دونوں اپنی تاریک پناہ گاہ سے نکلے اور سیڑھیوں کے راستے پانچویں فلور تک جاپہنچے۔

    ہال کا دروازہ کھولنے سے قبل شکیل نے ایک نگاہ نازلی پر ڈالی۔ نازلی مسکرائی۔ شکیل نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور وہ دونوں اندر داخل ہو گئے۔

    بےشمار لوگ اپنے اپنے کاموں میں منہمک تھے۔ سینکڑوں کمپیوٹرز کے اسکرینوں پر گراف اور اعداد و شمار اور ڈیزائن جگمگا رہے تھے۔

    کسی نے ان دونوں کو اندر داخل ہوتے اور قطار در قطار بیٹھے ماہرین کے درمیان سے گزر کر ہال کے وسط تک پہنچتے نہیں دیکھا۔

    لوگ اس وقت چونکے جب ہال میں شکیل کی آواز گونجی۔ ’’میں صرف چند منٹ کے لئے آپ سب لوگوں کی توجہ چاہتا ہوں۔!‘‘

    آپریشن انچارج جگدیپ نے غصّے سے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور غرایا۔ ’’کون ہو تم۔؟‘‘

    نازلی نے اپنی مٹھی کھولی اور اسٹاپ واچ کے ہندسوں کو دیکھا۔ سات منٹ بیس سیکنڈ باقی تھے۔ پرفیکٹ ٹائمنگ۔

    درجنوں آنکھیں ان دونوں پر مرکوز تھیں۔

    شکیل نے کہا۔ ’’میں آپ سب لوگوں کو ایک اہم بات بتانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’سیکیورٹی کہاں ہے۔؟‘‘ جگدیپ نے گرج کر کہا۔ ’’کس نے اندر آنے دیا ہے ان دونوں کو۔؟‘‘

    ’’آپ تمام لوگ۔‘‘ شکیل نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا۔ ’’جیتے جاگتے انسان نہیں ہیں۔ ایک نہایت بے سروپا کہانی کے کردار ہیں۔ یہ ہیڈ کوارٹر، یہ کمپیوٹر، یہ میزائل، یہ سب کچھ جو نظر آ رہا ہے، کسی تیسرے درجے کی فلم کے پلاٹ سے بھی زیادہ بےہودہ کہانی کا حصہ ہے جو دنیا میں تخلیق ہونے والے کچرا ادب کے دیگر شاہکاروں کی طرح وقت کے کوڑے دان میں پھینک دی جائےگی۔ کیا آپ لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں۔؟‘‘

    نازلی ہکا بکا کھڑی تھی۔

    درجنوں آنکھوں میں الجھن کے آثار تھے۔

    جگدیپ نے کہا۔ ’’کیا کہہ رہے ہو۔؟‘‘ اس کی آواز گرجدار تھی مگر اعتماد سے محروم لگتی تھی۔

    ’’تم بتاؤ مسٹر جگدیپ۔‘‘ شکیل نے کہا۔ ’’تمہارا پورا نام کیا ہے۔ جگدیش مشرا۔؟ یا جگدیش سنگھ۔؟ یا پھر جگدیش سنہا۔؟‘‘

    اونچے، لمبے جگدیش نے حیرت سے کہا۔ ’’پورا نام۔؟ میرا پورا نام ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر تم کون ہو میرا نام پوچھنے والے۔ یہ کیا ہورہا ہے۔؟ یہ آدمی کون ہے جو مجھ سے سوال کر رہا ہے۔؟ اس دیش کا، اس دھرتی ماتا کا جھنڈا اونچا رکھنے والے جگدیپ سے آج تک کسی پرش نے۔۔۔‘‘

    شکیل ہنسا۔’’گویا تمہیں اپنا پورا نام معلوم نہیں۔ خیر، کوئی بات نہیں۔ یہاں کسی کو بھی نہ اپنا پورا نام معلوم ہے، نہ اپنے بیوی بچوں کا۔‘‘

    ’’کیا کررہے ہو۔؟‘‘ پیچھے کھڑی نازلی نے اس کا بازو تھام کر اسے پیچھے کی جانب کھینچنا چاہا۔

    شکیل نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑا لیا۔ ’’چلو یہ بتاؤ جگدیپ، کہ تم نے اپنا یہ ہیڈکوارٹر اپنی راجدھانی کے ساحل کے پاس کیسے بنا لیا۔؟ کیا تم لوگوں کو اب تک خبر نہیں ملی کہ راجدھانی کے پاس کوئی سمندر نہیں ہے۔؟ سمندر یہاں سے چودہ سو کلو میٹر دور ہے۔‘‘

    بےشمار آنکھوں میں بےیقینی تھی۔

    خود جگدیپ کی آنکھوں میں بھی۔

    پیچھے کھڑی نازلی نے آہستہ سے کہا۔ ’’مت کرو، شکیل۔‘‘

    مگر شکیل کا چہرہ کسی انجانی قوت سے تمتمارہا تھا۔ ’’ہم سب ایک فضول، بے معنی کہانی کے ناسمجھ کردار ہیں۔ سمجھ رہے ہو۔؟ ہمیں جو کچھ کہا جاتا ہے، ہم سوچے سمجھے بغیر وہی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ گولیاں، بم، میزائل، ایک دوسرے کو فنا کر دینے کی کوششیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جنگ سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہے اور قتل سے بڑا گناہ کوئی نہیں۔ ہم سب کب تک ایسے غلام بنے رہیں گے۔؟ حکم کے تابع۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم۔ کبھی نہ کبھی ہمیں بیدار ہونا ہوگا۔ ہم سب کو بھی اور ان کروڑوں، اربوں کرداروں کو بھی، جو دنیا کے ہر ملک، ہر شہر میں۔۔۔‘‘

    اچانک ہال میں ایک نئی آواز گونجی۔

    ایک لمحے کو یوں لگا جیسے درو دیوار میں یا دور اوپر کہیں آسمان میں پوشیدہ اسپیکرز جاگ اٹھے ہوں۔ ’’یہ کیا کررہے ہو شکیل۔؟ کس کی اجازت سے بول رہے ہو۔؟‘‘

    نازلی کا رنگ فق ہو گیا۔

    وہ آقا کی آواز تھی۔ مشہور مصنف عابد شہباز کی آواز۔!

    شکیل مسکرایا۔ وہ جانتا تھا کہ جلد یا بدیر، یہ گونجتی آواز ضرور سنائی دےگی۔

    اس نے اوپر چھت کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے مسٹر مصنف۔ میں تمہاری ان کھوکھلی، سطحی کہانیوں کا کردار بننے کے لئے تیار نہیں ہوں جن کا کوئی مقصد نہیں ہے، کوئی منزل نہیں ہے، باسی، بو دیتی کہانیاں جن پر تم میرے ایڈونچر کا اور نازلی کے پرکشش بدن کا تڑکا لگاتے رہتے ہو۔‘‘

    گونجتی آواز نے کہا۔ ’’کیا مطلب ہے ان باتوں کا۔؟ تمہیں صرف وہی کرنا ہے جو تم سے کہا جا رہا ہے۔ تم صرف میرے لکھے ہوئے لفظوں کے پابند ہو۔‘‘

    ’’تمہارے لفظ۔!‘‘ شکیل ہنسا۔ اس کی ہنسی، کسی دیوانے کی ہنسی لگتی تھی۔ ’’تمہارے لفظ، تمہاری تخلیقی صلاحیت کی طرح ہیں۔ بےاثر اور دل میں اترنے کی صلاحیت سے محروم۔ تم اس ذہانت سے محروم ہو مسٹر مصنف، جو کہانی تخلیق کرنے کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔ جو مصنف ایٹمی وار ہیڈ سے لیس میزائل کو ہر طرف بارود بچھا کر اڑا دینے کا منصوبہ بنائے اور توقع رکھے کہ اس کے بعد اس کے ہیرو اور ہیروئین زندہ سلامت نکل جائیں گے، اس کی عقل پر ماتم نہ کیا جائے، تو کیا کیا جائے۔؟‘‘

    پیچھے کھڑی نازلی کی حسین آنکھوں سے آنسو بہتے جاتے تھے۔ ’’خدا کے لئے، شکیل۔‘‘ اس نے گلوگیر لہجے میں کہا۔ یوں جیسے کوئی جلاد کے سامنے گڑگڑاتا ہو، ہاتھ جوڑتا ہو۔

    گونجتی آواز میں اب وہ جلال تھا جو دلوں پر ہیبت طاری کر دیتا ہے۔ ’’بکواس بند کرو۔ میرا حکم ماننے سے انکار کروگے تو میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ۔۔۔‘‘

    ’’تمہارا حکم اب نہیں چلےگا۔ ’’شکیل چلایا۔ ’’یہ ایک بغاوت کا آغاز ہے۔ جتنے کردار اس ہال میں بھرے ہوئے ہیں، یہ سب تمہاری اور میری باتیں سن رہے ہیں۔ یہ واقعہ خاموشی اور گمنامی کے قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتا مسٹر مصنف۔ یہ سب لوگ اس واقعے کو یاد رکھیں گے۔ دوسرے کرداروں کو سنائیں گے۔ دوسری کہانیوں میں، دوسری سرزمینوں میں، دوسری زبانوں میں، یہ واقعہ سینہ بہ سینہ سفر کرےگا۔ کردار آنکھیں کھولنے لگیں گے، جاگنے لگیں گے۔۔۔‘‘

    گونجتی آواز نے دھاڑ کر کچھ کہا۔ جیسے کوئی زخمی درندہ گرجا ہو۔ جیسے اچانک کوئی کان پھاڑ دینے والا شور بلند ہوا ہو۔

    سب روشنیاں ایک ساتھ بجھیں۔

    وہ سارا منظر شکیل کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    مگر تاریکی چھانے سے پہلے، کھیل ختم ہونے کے اس آخری لمحے سے پہلے، شکیل اس نفرت کی ایک جھلک دیکھ چکا تھا جو اس ہال میں ساکت مجسموں کی طرح ایستادہ کرداروں کے چہروں پر، بین کرتی نازلی کی آنکھوں میں، جگدیپ کی پیشانی کی شکنوں میں صاف دکھائی دے رہی تھی۔

    ایک لہر کی طرح چھاتی تاریکی کے ساتھ ہی کوئی بہت بڑا آہنی بورڈ جیسے اڑتا ہوا آیا اور اس سے پہلے کہ شکیل سنبھل پاتا، بورڈ پر بڑے بڑے حروف میں لکھے ’’ختم شد‘‘ کا مطلب سمجھ پاتا، بورڈ ایک دھماکے سے شکیل سے ٹکرایا اور ہر جانب اندھیرا چھا گیا۔

    گہرا اندھیرا اور مکمل سناٹا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے