کہانی کتھا
’’چلو آج ذرا الگ سوچتے ہیں دونوں مل کر۔۔۔میں اور تم۔۔۔۔تم یعنی کہانی۔۔۔میں۔۔۔کہانی کار‘‘
’’آج تم ایک کہانی لکھو۔۔۔مجھے تمہاری طاقت سے ملنا ہے۔ مجھے خود کو تم سے لکھوانا ہے۔۔۔؟‘‘
’’لیکن اس بدن کے غار میں سرکتی اس یاد کا کیا کروں۔۔۔‘‘
’’خیر اسے میں سنبهالتا ہوں تم مجھے سنبھالو۔۔۔‘‘
’’پہلے یہ کانپتی سوچ سنبھالو۔۔۔‘‘
چلو میں لکھتی ہوں اس سنسان ویران خواہش کی کتها جو تم نے کسی سرد جذبے کے پتھر تلے دبا رکھی تهی چلو اس کا ذکر کرتی ہوں۔۔۔تمہیں تم سے کسی اور میں ملواتی ہوں۔۔۔یاد ہے۔۔۔یاد ہے تمہیں وہ لمحہ۔۔۔وہ لمحہ جب وقت کی کوکھ سے جنما تب اگلے کئی پل صدیاں بن گئے جب تم نے اس کے دھیان میں پہلا قدم رکھا تھا اور اس ایک مسکراہٹ نے پھر تمہاری کائنات کے ہر ورق پر حسرتوں کے رنگ بھر دئیے تھے۔۔۔اس معصوم کہانی نے تمہاری کہانی نے تمہیں خوشبو کی طرح خود میں بسایا۔۔۔تم نے بھی اسے چاہا بکھر بکهر کر چاہا۔۔۔ میں گواہ ہوں تمہارے اور اس کے آنسوؤں کی جو تم دونوں کے جذبات کی مٹی کو گوندھنے کے لیے ہمیشہ ناکافی رہے۔۔۔تمہاری کہانی کی محبت کی شدت کی قسم۔۔۔وہ تم سے تمہاری محبت سے کہیں زیادہ محبت کرنے والی تھی وہ ’’میں‘‘ سے ’’تم‘‘ ہو چکی تھی۔۔۔لیکن!!! لیکن تم کیسے انسان ہو۔۔۔!!؟؟
’’رکو یہاں تمہاری کہانی میں مجھے بولنے کا پورا حق ہے کہ میں گواہ ہوں ہر اس ہنستے اور روتے پل کی۔۔۔تم کیسے انسان ہوں تم نے محبت میں انا کی چنگاریوں سے اس مسکراتی ہوئی کہانی کی خواہشوں کے حسین محل کو راکھ کر ڈالا۔۔۔مجھے یاد ہے تم اس کی ایک مسکراہٹ کے لیے اپنے کروڑوں آنسوؤں کو نچھاور کرتے رہے لیکن ایک گھٹیا سوچ کی خاطر تم نے اسے ہمیشہ کے لیے خود سے الگ کر دیا کیوں؟؟ میں اس کے دل کو جانتی ہوں وہ تمہاری تھی تمہاری ہے تمہاری رہےگی اس کہانی کو اپنا لو وہ تمہاری ہی کہانی ہے اس کے علاوہ تم کسی کہانی کے کردار بن ہی نہیں سکتے۔۔۔یہ مجھ کہانی کا کہنا ہے یاد رکھنا۔۔۔کہانیاں یوں ہی نہیں بنا کرتیں ایک کہانی کے لیے کئی کہانیوں کو نگلنا پڑتا ہے ورنہ کہانی تو ہر گھر میں ہر پل میں ہے لیکن کون کہانی کو کتنے طمطراق سے بُنتا ہے مزا اسی میں ہے۔۔۔‘‘
’’ارے ارے ارے۔۔۔کچھ بھی کہے جا رہی ہو۔۔۔اب تم خاموش رہو تم نے مجھے تمہاری کہانی لکھنے کو کہا ہے تو آج مجھے لکھنے دو تم نے مجھے کتنی بار لکھا ہے اور کتنا درست لکھا وہ کہانی پھر کبھی۔۔۔‘‘
’’ابھی تو تمہاری سنگ دلی اور حماقت کا پہلا باب لکھا ہے میں نے۔۔۔اب سنو میں جانتی ہوں اس رات تم بدن کی ریاضت کے بعد سگریٹ جلاتے ہوئے کیا سوچ رہے تھے یہی نا کہ۔۔۔اب شادی ضروری نہیں۔۔۔باقی بچا ہی کیا ہے۔۔۔تو اس بستر کی ہر سلوٹ نے بےشمار لعنتیں تم پر بھیجیں۔۔۔جنہیں تم نے نہیں میں نے سنا۔۔۔اس معصوم کہانی کو تم نے محبت کے پنجرے میں قید کر کے اس کے پر جس طرح نوچے اس کی گواہ میں ہوں تمہاری کہانی تو وہاں ختم ہو گئی تھی ہوس کی کہانی لیکن ایک کہانی وہاں سے شروع ہوئی جو اب تمہاری کہانی لکھےگی اور میں لکھواؤں گی اس کہانی سے ہی لکھواؤں گی۔۔۔تمہاری کہانی‘‘
’’کیا بک رہی ہو۔۔۔‘‘
’’چپ رہو۔۔۔بس لکھتے جاؤ ۔۔۔یاد ہے تمہیں اس رات سے اگلی رات اپنے دوستوں میں بیٹھ کر پیتے ہوئے کیا کہا تھا تم نے۔۔۔ہائے بند بوتل کا اپنا ہی نشہ ہے۔۔۔اور قہقہہ لگایا تھا۔۔۔جانتے ہو اس قہقہے میں کون مرا تھا۔۔۔انسان۔۔۔انسان مرا اس دن۔۔۔‘‘
’’مجھے شرم آتی رہی تمہارے ان آنسوؤں کو یاد کر کر کے کیسے گھناؤنے انسان ہو تم تمہارے انسان ہونے پر افسوس ہوتا ہے مجھے۔۔۔‘‘
’’میں کہہ رہا ہوں چپ ہو جاؤ۔۔۔!‘‘
’’کیوں چپ کروں۔۔۔کیوں۔۔۔!‘‘
’’یاد آیا۔۔۔ہاں یاد آیا۔۔۔اور سنو!!‘‘
’’کچھ دنوں بعد جب تمہارے گھر اس کے والدین رشتے کے لیے آئے تو تم نے کیا کیا۔۔۔چبائی ہوئی چوینگم کی طرح اس موقع کو تھوک دیا۔‘‘
’’اور تمہارا وہ جملہ مجھے یاد ہے ۔۔۔جس پهل کا ذائقہ چکھ چکے اب اس کے رس میں کیا رکھا ہے۔۔۔تهو ہے تم پر۔۔۔آخ تهو۔۔۔‘‘
بکواس بند کرو۔۔۔
’’بہت سن چکا تمہاری گھٹیا باتیں۔۔۔‘‘
تم جانتی ہو میں خوش و خرم شادی شدہ زندگی گزار رہا ہوں۔۔۔
’’تو یہ کیا بکواس ہے سب ۔۔۔‘‘
’’ہاہا ہا خفا کیوں ہوتے ہو ۔۔۔میں تمہاری کہانی لکھتی تو یوں ہی لکھتی۔۔۔!!!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.