کہانی مکھوٹے کی
میرے دادا جان ہمیشہ اپنے قصوں میں اس جگہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ان کی باتوں اور یادوں میں اس جگہ کا بارہا ذکر میرے لیے دلچسپی کا سبب بن چکا تھا۔ اکثر اس کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ وہاں ان کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کا بیشتر حصہ گزرا تھا۔ اُس جگہ کی یادیں ان کے دل، دماغ میں پیوست ہوچکی تھیں، شاید اسی لیے ان کو یہاں کی آب و ہوا، رہن سہن اور لوگ مصنوعی سے لگتے۔ نہ جانے ایسا کیوں تھا؟ آخر اُس جگہ میں ایسی کیا بات تھی جو یہاں، ہر طرح کا آرام و آسائش میسر ہونے کے باوجود، ان کی نگاہیں عالم خواب میں کیا، حقیقت کی دنیا میں بھی اس جگہ کو تلاش کرتیں! ’’کیا وہ جگہ اب کھنڈر بن چکی ہے؟۔‘‘ میں ان سے اکثر پوچھتا۔ وہ ناراضگی سے میری جانب دیر تک دیکھتے پھر منھ پھیر لیتے۔ ’’بتایئے نا۔‘‘ وہ مجھے نہ جانے کس کیفیت کے زیراثر دیکھتے رہتے۔ شاید امید یا کچھ اور۔ ان دنوں اپنی عمر کے جس حصے میں، میں تھا، مجھے انسانی حواس میں موجود صفات کو پہچاننے کا ہنر نہیں آیا تھا۔ ان کی نظروں میں ایک سمندر موجزن تھا، وہ آسمان کو تکنے لگتے۔ ’’ایسی کیا بات ہے دادا جان، جو آپ اس جگہ کو اتنا یاد کرتے ہیں؟‘‘ وہ خاموش رہتے۔ شایدمجھ سے کچھ کہنے کا ابھی وقت نہیں آیا تھا۔ انھیں یہاں آئے ہوئے اتنا عرصہ ہو چکا ہے۔ کیاکوئی شخص اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی، گزشتہ واقعات اور یادوں کو اس طرح سنبھال کر رکھ سکتا ہے؟ اگلے وقتوں میں تو ایسا ہوتا ہوگا، لیکن آج کے دور میں ایسا ہونا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔
روز بروز میری عمر دادا جان کی عمر کو پہنچنے کے لیے سرپٹ دوڑنے لگی لیکن ابھی زندگی کے بہت سے پڑاؤ عبور کرنا باقی تھے۔ ایک دن دادا جان نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت دیر تک یوں ہی بیٹھے رہے۔ شاید وہ ہتھیلی کی حدت سے میری قسمت کی ان لکیروں کو محسوس کرنے کی کوشش کررہے تھے جن میں اس جگہ کے سفر کی جھلک موجود تھی، ایسی جھلک جس کے احساس نے ان کے خیال کو تقویت دی اور انھوں نے پرامید ہوکرکہا:’’کیا تم میرے لیے وہاں جاؤگے؟‘‘ میں، جو ایک عرصے سے دادا جان کے دل، دماغ کے ہر گوشے کو ٹٹولنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا تاکہ اس جگہ کا راز جان پاؤں، وہاں کے بارے میں کچھ جاننا میرے لیے کوئی مہم سر کرلینے کے مترادف تھا۔ میری طبیعت اس قسم کے عناصر کی جانب جلد مائل ہوجاتی تھی لیکن میں خاموش ہوگیا۔ انھوں نے میرے ہاتھ کو اس انداز سے دبایاجیسے پھر کسی چیز کی تلاش میں ہوں۔ میں اب ان کے چہرے پر امید اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت واضح طور پر دیکھ سکتا تھا، اس لیے جلدی سے ہامی بھرلی تو وہ ایک دم اس طرح خوش ہوئے جیسے میرے ساتھ جانے والے ہوں۔ انھوں نے مجھے اس جگہ کے متعلق بتایا لوگوں کی محبت، ایمانداری، ایک دوسرے کے لیے قربانی، بہت ساری صفات سے متصف افراد کے بارے میں بہت سارے قصے سنائے۔ مٹی کی سوندھی خوشبو اور ہریالی کی کہانی سنائی، میں دلچسپی اور حیرت سے انھیں سنتا رہا، مجھے یہ سب باتیں اجنبی معلوم ہورہی تھیں لیکن دادا جان سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا انھیں برا لگتا۔ ان کو اپنے جانے کا یقین دلا کرمیں اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ چہرے پر خوشی اور غم کے تاثرات لیے مجھے دیکھتے رہے۔
چند دنوں میں ہی میں نے اپنے جانے کی تمام تیاریاں مکمل کرلیں۔ جانے سے پہلے میں داداجان سے ملنے گیا اس مرتبہ انھوں نے ہاتھ نہیں پکڑا بلکہ زور سے گلے لگایا، اپنے سینے کی گرمی مجھ میں منتقل کرنے لگے اورمیرے اندر کی تپش کو محسوس کرکے بولے :’’میں اس جگہ کے عکس کو تم میں دیکھنے اور اسے محسوس کرنے کا منتظر رہوں گا۔ خیر سے واپس آؤ!۔‘‘
نہ جانے کتنے گھنٹے کا سفرتھا، مجھے پتا ہی نہیں چلاکیونکہ راستے میں حسبِ عادت نیند نے مجھے گھیر لیا تھا۔ حالانکہ میں گھر سے تازہ دم ہوکر چلا تھا، نیند کو مجھے مزید پُرسکون کردینا چاہیے تھا لیکن میرا بدن ٹوٹ رہا تھا میں اسے نظرانداز کرتا ہوا نیچے ا تر آیا اور باہر کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے۔ گرم ہوا کے تھپیڑوں نے میرا استقبال کیا۔ میں نے ایک اچٹتی سی نگاہ اپنے اردگرد ڈالی، عجیب تھکا دینے والا احساس تھا۔ میں درخت اور سواری کی تلاش میں کھردری اور پتھریلی زمین پر کافی دیر تک چلتا رہالیکن دور تک نہ درخت تھا، نہ کوئی سواری۔ یوں ہی چلتے چلتے میں ایک بازار میں داخل ہوگیا۔ پہلی مرتبہ مجھے یہاں کچھ لوگ نظر آئے، جومختلف دکانوں پر سامان خریدنے میں مصروف تھے۔ مجھے ان کی صرف پُشت نظر آرہی تھی میں ایک آدمی کی طرف بڑھا، تاکہ قریب ہی کسی ہوٹل کا پتہ دریافت کرسکوں۔ وہ پتہ بتانے کے لیے میری جانب پلٹا تو مجھے اس کا چہرہ کچھ عجیب لگا۔ غور کرنے پر احساس ہوا کہ اس نے ماسک لگا رکھا ہے لیکن نہیں، ا س کے لیے مکھوٹا لفظ زیادہ بہتر رہے گا۔ ہاں اس نے یقیناََمکھوٹا پہن رکھا تھااور سرکس کے جوکر جیسا معلوم ہورہا تھامجھے اس کے چہرے کے اصل تاثرات نظر نہیں آئے تو جھنجھلاہٹ ہونے لگی۔ ’’آپ نے یہ مکھوٹا کیوں پہنا ہوا ہے؟‘‘ اس نے اپنے چہرے پر بے یقینی کے عالم میں ہاتھ پھیرا۔ ’’تمہارا دماغ خراب ہے، پاگل ہوکیا؟‘‘ وہ میری بات پر بھڑک اٹھا۔ اس کا یوں طیش میں آنا مجھے سمجھ میں نہیں آیامیں معافی تلافی کرتا ہواآگے بڑھ گیا۔ کشمکش کے عالم میں دوسرے آدمی سے پتہ معلوم کرنے کے لیے اس کے پاس گیاتو اس کے چہرے پر بھی مکھوٹا لگا ہواتھامیں پتہ پوچھنا بھول گیا۔ ’’ایسے گھور گھور کر کیا دیکھ رہے ہو؟ کیا چاہیے؟‘‘ اس نے تیوری چڑھا کر مجھے دیکھا میں گھبراکر آگے بڑھ گیا اور اپنے چاروں طرف موجود لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھنے لگا مجھے یہ دیکھ کر حیرت کا جھٹکا لگاکہ یہاں سب کے چہروں پر مکھوٹے چڑھے ہوئے تھے۔ یہ میری نظر کا دھوکا تھا یا انھوں نے قصداََ ایسا کیا تھا، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میں اب کسی سے کچھ نہ پوچھنے کا ارادہ کرکے سیدھا چلتا گیا۔ کئی آدمیوں نے میری طرف پلٹ کردیکھا اور آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا تو تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا بازار سے نکل گیا۔ کچھ دور آنے کے بعدمیں تھک کر وہیں بیٹھ گیا اور ان مکھوٹوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ داداجان نے آخر مجھے کون سی جگہ بھیج دیا ہے۔ میں غلط مقام پر تو نہیں پہنچ گیا لیکن میں سب کچھ معلوم کرکے ہی گھر سے نکلا تھا پھر یہ سب لوگ۔۔۔ دھوپ کی تپش نے میرے خیالوں کو منتشر کیا تو میں اٹھ کھڑا ہوا اور خود ہی کوئی جائے پناہ تلاش کرنے کی غرض سے کھردری اور پتھریلی سڑک پر تقریباً دوڑنے لگا کچھ ہی دور گیا تھا کہ ہوٹل نما ایک چھوٹی سی عمارت نظر آئی۔
مکھوٹوں کے خوف کو دل میں دبائے میں اندر داخل ہوا توایک شخص کرسی پر بیٹھا سو رہا تھا۔ اسے جگانے سے پہلے میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ پرسکون، معصومیت سے لبریز، اس شخص کا چہرہ دمک رہا تھا۔ مجھے کچھ اطمینان محسوس ہوا۔ ’’بھائی صاحب، بھائی صاحب!۔‘‘ وہ پھر بھی نہیں جاگا تو میں نے میز پر ہاتھ مارا۔ ’’او بھائی صاحب۔‘‘ وہ ہڑبڑا کر لڑکھڑاتا ہوا جاگااور آتشیں نظروں سے مجھے گھورنے لگا۔ ’’اندھا ہے کیا!، دکھائی نہیں دیتا! سورہا تھا، یوں پاگلوں کی طرح کوئی آواز دیتا ہے؟‘‘ میں نے چند ثانیے ٹھہر کر سوچا کیا واقعی میں نے تیز آواز میں۔۔۔ مجھے اندازہ نہیں ہوا۔ اسی اثنا میں اس کے چہرے کی معصومیت نے مکھوٹے کی شکل اختیار کرلی، وہ تبدیل ہوکر پہلے والوں سے زیادہ بھیانک معلوم ہونے لگا۔ میں نے اس سے معذرت کی اور کمرے کی چابی لے کر اوپر آگیااپنے پیچھے مجھے اس کے بڑبڑانے کی آواز دیر تک سنائی دیتی رہی۔
آخر ماجرا کیا ہے؟ یہاں کے لوگ مکھوٹا لگائے کیوں گھومتے ہیں؟ اور یہ مکھوٹے کچھ عجیب و غریب قسم کے ہیں، جنھیں پہننے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یہ خود بہ خود ظاہر ہوجاتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کیا یہاں کی حکومت نے اس کو لازمی قرار دیا ہے؟ مگر وہ شخص سوتے ہوئے تو بہت معصوم لگ رہا تھا، مکھوٹے سے عاری چہرہ اور جاگتے ہی یکایک تبدیل ہوتاہوگیا۔ میں دادا جان کو کیا بتاؤں گا؟ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کیا اس جگہ کی یادیں ان کے اندر محفوظ ہیں؟؟؟
میں سوکر اٹھا تو شام ہوچکی تھی اور مجھے بھوک بھی لگ رہی تھی۔ سواری لے کر میں اندرونِ شہر داخل ہوا۔ وہ بھیڑ بھاڑ والا علاقہ تھا لوگ ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مصروف تھے ہنسی کی آوازیں آرہی تھیں میں نے ان کے چہروں کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن صاف نظر نہیں آیا، سورای سے اتر کر میں نے اسے پیسے دیے تو وہ مجھ سے جھگڑنے لگا :’’یہ پیسے کم ہیں۔‘‘ ’’لیکن اتنے روپے ہی طے ہوئے تھے تبھی تم نے بٹھایا تھا۔‘‘ ’’جھوٹ مت بولو! میں نے اس سے زیادہ بتائے تھے۔‘‘ ’’جھوٹ میں نہیں تم بول رہے ہو۔‘‘ میرے اتنا کہنے پر وہ تیز تیز چلانے لگا لوگ جمع ہوگئے اور پوری بات سنے بغیر اس کی حمایت کرنے لگے۔ اُس سمیت تمام آدمیوں کے چہرے پر مکھوٹے لگے ہوئے تھے۔ وہ گدھ کی سی نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے، آخر کار اس کی بات کو درست مانتے ہوئے جو کہ سراسر غلط تھی، میں نے روپے اس کی طرف بڑھا دیے، جسے اس نے تقریباََ مجھ سے جھپٹ لیے اور بکتا جھکتا نکل گیا، بھیڑ چھٹ گئی، اسی کے ساتھ میری بھو ک بھی مرگئی پھر بھی میں نے تھوڑا بہت کھایا کہ دن بھی تو گزارنے تھے۔
مجھے یہاں آئے ہوئے کچھ دن گزرچکے تھے۔ یہاں کے لوگوں کو اب میں تھوڑا بہت سمجھنے لگا تھا، لیکن کیا میں دادا جان کو بتا پاؤں گا! کچھ ہی دیر میں اٹھ کر میں بازار جانے کے لیے تیار ہوا تاکہ ان کے لیے یہاں سے کوئی پسندیدہ شے خرید سکوں۔ مجھے کچھ دن اور گزارنے تھے اس حساب سے روپئے بھی خرچ کرنا تھے۔ بہت دیر تک گھومنے کے بعد بھی مجھے سمجھ میں نہیں آیا کیا خریدوں!۔ اچانک میری نظر دھول سے اٹی پڑی شیشے کی ایک الماری میں رکھے بلکہ گرے ہوئے چھوٹے سے عطردان پر پڑی، میں جلدی سے اس دکان میں گھس گیا۔ قیمت معلوم کی تو اس نے بتایا کہ یہ برائے فروخت نہیں ہے۔ میں نے اس سے بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہیں مانا۔ میں نے التجا کی تو وہ غصے میں چیخنے چلانے لگا اورمجھے دکان سے باہر نکل جانے کے لیے کہا۔ عجیب بدتمیز قسم کا آدمی تھا ایک معمولی بات پر اس کا یوں بھڑک جانا مجھے اچھا نہیں لگا۔
مجھے اب ان لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے مکھوٹوں کی عادت ہوچکی تھی، اس لیے ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے خاموشی کو ہی ترجیح دیتا تھا اور اب مکھوٹوں کے پیچھے چھپی منطق کو سمجھنے کی کوشش کرتا بلکہ میں خود اب رکشے والے کو چکما دے دیا کرتا تھا وہ مجھ سے کچھ نہیں کہتا تھا۔ جو بھی ہو دادا جان کو یہاں، اس جگہ کے متعلق بہت کچھ بتانا تھا۔ یہاں کا ہر آدمی مکھوٹے کے ساتھ آرام سے زندگی گزار رہا ہے۔ کیا انھیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کے چہروں نے تبدیل ہوکر مکھوٹوں کی شکل اختیار کرلی ہے؟، شاید نہیں! اسی لیے وہ بازار والا آدمی مجھ پر بھڑک اٹھا تھا۔ خیر مجھے عادت پڑ چکی ہے بلکہ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس میں برائی بھی کیا ہے۔ سب خوش ہیں آرام سے ہیں۔
مجھے یہاں آئے ہوئے کافی دن گزر چکے ہیں اس جگہ کو مزید دیکھنے کے لیے میں ایک دن یوں ہی ٹہلتے ٹہلتے دور نکل گیا۔ گنجان علاقہ تھادرختوں سے خالی، عمارتوں کا انبار موجود تھا۔ اچانک ایک آدمی کے چیخنے کی آواز آئی میں آواز کی جانب بھاگا، جیسے دوسرے لوگ بھاگ رہے تھے وہ شخص ایک بڑے گٹر میں گرا ہواتھا اور کیچڑ کی سطح پر اس کا صرف سر نظرآرہا تھا اس کے ہاتھ اندر کسی چیز سے چپک کر رہ گئے تھے، جسے باہر نکالنے کی کوشش میں وہ مچل رہا تھا میں نے فوراََ اپنا کیمرہ نکالا، جوسفر کے دوران اکثر میرے پاس موجود ہوتا تھا، اور ایک کے بعد ایک اس کی تصویریں اتارلیں، ویسے بھی اب تک میں نے یہاں کی کوئی تصویر نہیں لی تھی یا شاید تصویر لینے لائق کچھ تھا ہی نہیں۔ چلو دادا جان کو کچھ تو دکھا سکوں گا یہ سوچتے ہوئے میں ہوٹل آگیا۔ اب میں ان مکھوٹے والے چہروں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ جاتا اور باتیں کرتابلکہ مجھے اب کچھ چہروں پر سے مکھوٹے نظر آنے بند ہوگئے تھے ایسا کیوں ہوا میں سمجھ نہ سکا!
حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ لوگ مجھ سے بڑے انہماک اور لگاؤ سے باتیں کرنے لگے، اپنے قصے سناتے اور خوب ہنستے۔ مجھے ان لوگوں کا ساتھ اچھا لگنے لگا تھامگر واپسی کے دن قریب تھے اور اُس ہستی کو بہت کچھ بتانا تھا جس کی وجہ سے میں یہاں آیا تھا۔ میرے جانے کا دن آگیا تو لوگوں نے مجھے گلے لگا کر رخصت کیا۔ پھر ایک طویل سفر میرے سامنے تھا کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد میں نے شہر میں قدم رکھا، اترتے ہی محسوس ہوا جیسے لوگ مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ میں انھیں نظرانداز کرتا ہوا ٹیکسی میں بیٹھا اور گھر کی جانب روانہ ہوا، نہ جانے کیوں مجھے راستے میں موجود درخت اور دیگر اشیا کو دیکھ کر اکتاہٹ کا احساس ہورہا تھا، اچانک اُس جگہ کے خیال نے میرے چہرے پر ایک خوش گوار مسکراہٹ بکھیردی، لیکن مجھے لگا کہ اس خوش گوار مسکراہٹ نے ابہام کی صورت اختیار کرلی ہے، میں نے اپنا سرجھٹکا، ڈرائیور بار بارمجھے آئینے میں دیکھ رہا تھا، اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہو۔ اس کی آنکھوں میں تحیرتھا یا شاید مجھے ایسا لگا۔ میں نے اس کی طرف سے دھیان ہٹایا اور گھر کی طرف لگا دیا۔ دادا جان سے ملنے اور انھیں سب کچھ بتانے کی مجھے جلدی تھی۔ پھاٹک پر موجود میرے پیارے کتے نے مجھے دیکھ کر بلا وجہ بھونکنا شروع کردیا، میں ا س کو پچکارنے کے لیے آگے بڑھا، نہ جانے وہ کیوں بدک گیا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی میں سب سے پہلے دادا جان کے کمرے میں گیا۔ انھیں معلوم تھا میں آج واپس آنے والا ہوں۔ میں نے ان کا اتاولے پن سے بھرا ہوا چہرہ تصور کرلیا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑے تھے، آواز سنتے ہی، بچوں کی سی خوشی لیے میری جانب لپکے مگر کچھ ہی فاصلے پر رک گئے، اور غور سے مجھے تکنے لگے ان کے دیکھنے کے انداز نے میرے قدم بھی جمادیے۔ مجھے ان کے چہرے پر اپنے چہرے کی جھلک نظر آئی۔ میں ان کو گلے لگانے کے لیے آگے بڑھالیکن سرنگ کے اندر سے آتی ہوئی ان کی آواز نے مجھے پتھر کا کردیا، تمہارے چہرے پر یہ مکھوٹا کیساہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.