Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہانی

MORE BYصنوبر الطاف

    مغرب کا وقت ایک طرح کا اعلان ہے کہ ’’اے زمین والو!تمہارا وقت ختم ہوگیا ہے، اپنا سامان باندھو‘‘ سورج نے ذرا سا اپنے سر کو کیا جھکایا، پرندے اپنے پر پھیلانے لگے اور پھر یوں اڑے جیسے کوئی سمت نہ ہو، دیوانوں کی طرح۔ کبھی کبھار کچھ پرندے راستہ بھٹک بھی جاتے ہیں، پھر ساری رات وہ اکیلے اندھیرے میں اڑتے ہیں، ٹکراتے ہیں، گرتے ہیں اور پھر روتے ہیں انسانوں کی طرح۔۔۔

    ’’یہ سکول کا میدان ہے‘‘ نیلے پر والے بچے نے فخر سے اپنے سفید پروں والے ساتھی کو بتایا۔

    مستطیل نما بنجر میدان میں وہ دونوں کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک تو پورا تھا اورایک آدھا۔ اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ سکول کی عمارت تھی مگر شاید بچوں کی آوازیں اور قہقہے بھی عمارت کی طرح خاموش ہوگئے تھے۔ میدان کے تین طرف سلسلہ وار کمرہ جماعت تھے۔ دوسری منزل بھی کمروں سے بھرپور تھی مگر ایک پر اسرار ویرانی سکول کو کھنڈر بناتی تھی۔

    ’’لگتا ہے کافی عرصے سے یہاں کوئی کھیلا نہیں‘‘ سفید پروں والا ساتھی بچے کے برعکس ویرانی سے خوفزدہ تھا۔۔۔

    ’’یہاں ہم کرکٹ کھیلتے تھے، دیکھو ابھی بھی پچ موجود ہے‘‘ نیلے پر والے نے زمین کے ایک دراڑوں بھرے حصے کو ہاتھ لگایا۔ وہ زمین کے اس حصے کو سہلا رہا تھا۔

    ’’ہاں۔۔۔ یہ پچ جیسی کوئی چیز لگتی تو ہے۔‘‘

    ’’سب لائٹیں بھی ٹوٹ گئیں، ورنہ تمہیں بالکل ٹھیک نظر آتی۔ آئو۔۔۔ تمہیں ہیڈماسٹر صاحب کا کمرہ دکھائوں۔‘‘

    نیلے پر والا اسے ایک طرف گھسیٹتا لے گیا۔

    شام کا وقت تھا۔ اس لیے کمرے میں نیم روشنی تھی۔ بے حد دھول کی وجہ سے کمرے میں گھٹن سی تھی۔ کاغذوں پر مٹی کی بے شمار تہیں تھیں۔

    دروازے کے سامنے ہی ہیڈ ماسٹر صاحب کی میز اور کرسی تھی۔ میز پر کاغذ اور دفتری استعمال کی چیزیں بے ترتیبی سے دھری تھیں۔ اور ہر شے نے گرد کا لباس پہن رکھا تھا اس لیے رنگ اور صورت کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ ریوالونگ چیئر پر اب نیلے پر والے کا قبضہ تھا وہ خوشی سے اسے دائیں بائیں گھمارہا تھا۔ پورے کمرے میں ان نیلے پروں کی چمک بکھری تھی۔ اس کے لباس میں بھی نیلاہٹ کا اثر نمایا ں تھا اور چہرے پر بھی اس رنگ کا عکس بنتا تھا۔ اسی لیے اس کے ساتھی اسے نیلا بچہ کہتے تھے۔

    ’’نیلے بچے!اب چلو۔۔۔ ذرا مجھے اپنا کلاس روم تو دکھائو‘‘ سفید ساتھی نے محبت سے کہا۔

    ’’نہیں۔۔۔ پہلے ہم کینٹین دیکھیں گے۔‘‘

    ہیڈماسٹر کے کمرے کے سامنے ہی ایک لمبی راہداری تھی۔ جہاں کئی دوسرے کمرے بھی تھے۔ ایک گرد سے اٹے بورڈ کو سفید ساتھی نے ذرا سا صاف کیا تو اس پر ’’سٹاف روم‘‘ لکھاتھا۔ ساتھ شاید کلرک روم تھا اور با لکل ناک کی سیدھ میں سامنے کینٹین تھی۔

    کینٹین کے آدھے حصے کو ایک بڑے لکڑی کے تختے سے بانٹ دیا گیا تھا۔ اندرونی حصے میں ایک فریج تھی، سٹیل کے بڑے بڑے ڈونگے، پلاسٹک کی ٹوکریاں، ٹافیوں اور بسکٹوں کے کرٹن تھے۔ کینٹین اجڑ گئی تھی مگر نیلے بچے کی آنکھوں میں آج بھی شاید وہ پرانی تصویریں تیر رہی تھی۔ اس کا ناک ان گرما گرم چیزوں کی خوشبو کو سونگھ سکتا تھا۔

    ’’تم ہمیشہ سموسے کھاتے ہو گے۔‘‘ سفید ساتھی نے مسکرا کر نیلے بچے سے کہا۔

    ’’تم ہربات کیسے جان لیتے ہو۔‘‘ نیلے بچے نے مسکرا کر سفید ساتھی کی ہلکی بادامی آنکھوں کو دیکھا۔ وہاں نیلے بچے کے کئی جاننے والے تھے لیکن اس نے زمیں پر آنے کے لیے سفید ساتھی کو چنا۔ کیونکہ نیلے بچے کی بہن کی طرح اس کی آنکھوں کا رنگ بھی بادامی تھا۔

    ’’آئو کلاس میں چلیں۔‘‘ سفید ساتھی کا ہا تھ تھامتے ہوئے آگے بڑھا۔

    ’’یہ میری کلاس ہے۔ سوئم سی۔‘‘

    چوکور نما کلاس اب کھنڈر ہوچکی تھی۔ چھوٹی چھوٹی کرسیوں اور میزوں پر گرد اور جالے تھے۔ لیکن بچے کی آنکھوں کو یہ سب دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ تو شاید آج بھی وہی منظر دیکھ رہا تھا جب اس کلاس میں اس جیسے کئی بچے ہوتے تھے۔ ہنستے تھے، پڑھتے تھے ساتھ کھیلتے تھے۔ وہ خواب دیکھنے والی آنکھیں حقیقت کو کہاں سمجھ سکتی تھیں۔ جن آنکھوں میں صرف معصومیت بستی ہو وہ تلخیوں کو کبھی پہچان ہی نہیں پاتیں۔

    ’’میں یہاں بیٹھتا تھا۔ چوتھی کرسی پر۔‘‘ نیلے بچے نے کرسیوں کی قطاروں کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’ارے دیکھو!عباس اپنا بیگ یہیں بھول گیا۔ وہ بہت اچھے پھول بناتا تھا۔ میں تمہیں دکھاتا ہوں۔‘‘ وہ ایک گرد سے اٹے بیگ کی زپ کھولنے لگا۔

    ’’تم آخری دن کہاں تھے؟‘‘ سفید ساتھی نے پوچھا۔

    ’’میں سکول آیا تھا۔ پھر جب گولیاں چلنے لگیں تو میں بھاگ گیااور سڑک پر ایک گاڑی کے نیچے آگیا۔ جب میں بہت تیز بھاگتا ہوں تو مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اُس دن بھی یہی ہواتھا۔ پھر جب آنکھ کھلی تو تم لوگوں کے ساتھ تھا۔‘‘ وہ زپ کھولنے کی کوشش میں تھا لیکن وہ جم گئی تھی۔

    ’’افسوس۔۔۔‘‘ سفید ساتھی نے ایک سرد آہ بھری۔

    ’’اگر کچل کر نہ مرتا تو گولیوں سے مارا جاتا۔ میرے دوست بتاتے ہیں گولیوں سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ زپ نہ کھل سکی۔

    ’’آئو میری بہن کی کلاس میں۔‘‘ نیلا بچہ بیگ چھوڑ کر دروازے کی طرف چل پڑا۔

    ’’اب ہمیں چلنا چاہیئے۔ اندھیرا ہونے کو ہے۔‘‘

    ’’مجھے اپنی بہن کو ڈھونڈنا ہے‘‘ نیلا بچہ کلاس سے نکل کر دوڑنے لگا اور ایک کمرے میں گھس گیا۔ سفید ساتھی بھی پیچھے ہو لیا۔

    ’’یہ میری بہن کا کلاس روم ہے۔ وہ بھی اس دن سکول آئی تھی لیکن نہ وہ گھر پہنچی نہ وہ عرش پر ہے۔۔۔‘‘ نیلا بچہ کلاس میں گھومنے لگا۔ میز کے نیچے دیکھتا، کھڑکیوں میں جھانکتا۔

    ’’اسے راستے یاد نہیں رہتے تھے۔ وہ تو گھر کا راستہ بھی نہ جانتی تھی۔ اسے عرش کا راستہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے۔ میں اسے لینے آیا ہوں۔ وہ راہ بھٹک گئی ہے۔‘‘ نیلا بچہ وہاں سے نکل کر دوسرے کمرے میں جاگھسا اور ڈھونڈنے لگا۔۔۔ سفید ساتھی نا سمجھی کے عالم میں اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

    ’’شاید وہ زندہ ہو۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ سب مر گئے ہیں اور عرش پر ہیں۔۔۔ وہ یہاں ہے۔ میں اسے ہی تو لینے آیا ہوں۔‘‘

    ’’اندھیرا بڑھ رہاہے۔ یہ نہ ہو ہم بھی بھٹک جائیں‘‘ سفید ساتھی نے بچے کو ڈرانا چاہا۔

    ’’جو بھٹک جاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں؟‘‘ نیلے بچے نے آنسوئوں بھری آواز میں قریب آکر سفید ساتھی سے پوچھا،

    ’’وہ دبوچ لیے جاتے ہیں‘‘ سفید ساتھی نے پر پھیلائے اور بچے کا ہاتھ تھام کر اڑنے لگے۔ وہ بھٹکنا نہیں چاہتے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے