Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہانی سے پہلے کا ماجرا

محمد امین الدین

کہانی سے پہلے کا ماجرا

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    میں نے جوں ہی قلم سنبھالااسٹڈی تاریک ہوگئی۔

    ’’ہتھ تیرے کی‘‘۔

    منہ سے بے اختیارنکلا اور اچھی خاصی سوچی ہوئی کہانی دماغ سے اچھل کر تاریکی میں تحلیل ہوگئی۔ لمحہ بھر کو سامنے رکھے کاغذ بھی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ یو پی ایس سے جو بلب اور پنکھے گھر کو روشن اور ہوادار رکھتے ہیں، کچھ کام نہ آئے۔ یکایک دھب کی آواز آئی اور پھر شیشہ ٹوٹنے کی آواز نے سناٹے اور تاریکی پر چھناکے دار قہقہہ لگایا۔ بیوی چلائی۔

    ’’دیکھ کر نہیں چلتے کیا؟‘‘

    ’امی اندھیرے میں علی سامنے آگیا‘‘۔بیٹی کی آواز آئی۔

    میں نے اسٹڈی میں سے پوچھا۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں ابو، علی سے ٹکراگئی تھی۔ ہاتھ سے گلاس چھوٹ گیا‘‘۔

    ’’ذرا سنبھل کر، اندھیرے میں پیر نہ زخمی ہوجائے ۔ یہ یو پی ایس کیوں کام نہیں کررہا؟‘‘

    ’’تین دن سے کہہ رہی ہوں کہ سوئچ بورڈ میں کچھ خرابی ہوگئی ہے مگر میری سُنتا کون ہے‘‘۔بیوی نے جملہ مجھ سے کہا تھا مگر اگلا بیٹے سے کہا۔’’جلدی سے شاہ جہاں کو بُلا کر لاؤ‘‘۔

    ’’امی اندھیرا بہت ہے اور کیمپس کے وہاں تو زیادہ ہی اندھیرا ہوجاتا ہے‘‘۔

    مجھے اندازہ تھا کہ یہ سُن کر میری بیوی نے ضرور مجھ کو دیکھا ہوگا، جس کا مطلب میں خوب سمجھتا تھا۔ لہذا میں خود ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ لاؤنج میں موم بتی کی مدھم روشنی میں میری بیٹی فرش پر بکھرے کانچ کے ٹکڑے سمیٹنے میں مصروف تھی۔ مجھے اٹھتے دیکھ کر علی بولا۔

    ’’ابو! شاہ جہاں انکل کو موبائل کردیں‘‘۔

    ’’اس کا موبائل یونیورسٹی کے باہر لڑکوں نے چھین لیا، بے چارے کے ساتھ یہ واردات دوسری بار ہوئی ہے‘‘۔

    یہ کہتا ہوا میں گھر سے باہر نکل آیا۔ گلی میں اندھیرا تھا، اور میں شام سے باہر نہ نکلا تھا۔ بے خبری میں جیسے ہی اسکول کی دیوار کے پاس سے گزرا، پیروں تلے چھپاک کی آواز آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پائینچے گندے ہوگئے۔ چھینٹے اچھل کر اوپر کُرتے تک آئے تھے۔ بدبودار پانی کے چھینٹے۔۔۔ میں سمجھ گیا اسکول کا گٹر ابل رہا تھا۔ گھر کی طرف پلٹنا چاہا مگر بیوی کے ڈر سے گندا پانی پھلانگتا ہوا آگے نکل گیا۔ تھوڑے فاصلے پر مین روڈ اور سامنے سڑک کے دوسری جانب یونیورسٹی کیمپس کے اندر شاہ جہاں کا فلیٹ تھا۔ سنٹرل آئی لینڈ عبور کرتے ہوئے اچانک اس احساس نے جکڑ لیا کہ سڑک کچھ اجنبی اجنبی سی ہے۔ میں نے خود کو مطمئن کیا، ظاہر ہے گذشتہ سال بھر سے ابوالحسن اصفہانی روڈ زیر تعمیر ہے۔ روز کچھ نہ کچھ بدلا ہوا ہوتا ہے۔ میں کیمپس کے گیٹ پر پہنچا اور سیکیورٹی گارڈ سے مخاطب ہوا۔

    ’’بابا جی! شاہ جہاں گھر پر ہوگا؟‘‘

    ’’ابھی تھوڑی دیر پہلے مسکن کی طرف گیا ہے‘‘۔

    ’’اس وقت! کیوں؟‘‘

    ’’آپ کو نہیں معلوم؟‘‘ بووی چک (مقامی بروسٹ کمپنی)کے کاؤنٹر پر جو گورا سا لڑکا بیٹھتا تھا ، اسے ڈاکوؤں نے گولی ماردی ،اور کیش بھی لوٹ کر لے گئے‘‘۔

    ’’اوہ!‘‘

    میں نے افسوس کرتے ہوے گردن ہلائی۔ مسکن کی طرف دیکھا۔ وہاں معمول سے ہٹ کر سناٹا تھا۔ سڑک پار کرتے ہوے میری چھٹی حِس نے صحیح اشارہ دیا تھا۔ بیکن ہاؤس کے سامنے کھلی جگہ پر سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کی بھاری مشینری اور اس کے عین عقب میں چوراہے پر غیر معمولی بے ترتیبی تھی۔ قتل کا سن کر میرا دل دھک کرکے رہ گیا۔ میں گارڈ سے کچھ کہے سُنے بغیر تیز تیز قدم گھر لوٹا۔ گلی میں مڑتے ہوے دائیں سمت سے ایک رکشہ تیزی سے گزرا۔ عقب سے رکشے میں تنہا سیاہ برقعہ پوش خاتون دکھائی دی۔ میں بے ساختہ مسکرادیا۔ رکشہ تیزی سے گلی میں بڑھتا چلا گیا۔ یکایک میرے قدم بھی تیز ہوگئے۔ میرا شک صحیح نکلا۔ رکشہ میرے اندازے کے مطابق ہی رُکا تھا۔ خاتون تیزی سے اتری اور تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوے سفید مرمری عمارت میں گم ہوگئی۔ میں دھیمی مسکراہٹ سجائے اپنے گھر میں چلا آیا۔ مجھے دیکھتے ہی بیوی نے تجسّس آمیز لہجے میں کہا۔

    ’’ایک منٹ پہلے آتے توآ ج میں آپ کو پکا ثبوت دکھا دیتی‘‘۔

    میں سمجھ گیا کہ وہ کیا دکھانا چاہتی تھی۔ میں نے کہا۔

    ’’میں نے گلی میں داخل ہوتے ہی دیکھ لیاتھا‘‘۔

    ’’اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ محلہ ٹھیک نہیں ہے‘‘۔

    ’’اس گلی میں بارہ تیرہ دیگر محلے دار نہایت شریف اور نیک لوگ ہیں۔ ایک ایسا بھی سہی‘‘۔

    ’’ہوں!‘‘

    بیوی نے تنک کر جواب دیا۔ اور پھر بولی۔

    ’’آپ سے تو بات کرنا فضول ہے۔ گئے تھے شاہ جہاں کو پکڑنے، اتنا سا کام نہ کرسکے‘‘۔

    تب میں نے مسکن پر ہونے والی واردات کا ذکر کیا تو وہ گھبر ا کر بیٹے سے مخاطب ہوئی۔

    ’’آج کے بعد تم بووی چک پر گئے تو اچھا نہیں ہوگا‘‘۔

    ’’آپ خود مجھے بار بار بھیجتی ہیں۔ کبھی دہی لادو تو کبھی ہری مرچ، ہرا دھنیا‘‘۔

    ’’میں بووی چک جانے کے لیے منع کررہی ہوں، مسکن نہیں‘‘۔

    ’’امی! مسکن جانے کے لیے بووی چک کے سامنے سے ہی گزرنا پڑتا ہے‘‘۔

    علی نے وضاحت کی۔ یکایک مجھے خیال آیا کہ میری گاڑی کا ٹائر منتظر کے پاس ہے جو کہ بووی چک کے بالکل برابر میں بیٹھتا ہے۔ شام کو دفتر سے آتے ہوئے میں نے پنکچر لگانے کے لیے دیا تھا۔ میں نے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا۔

    ’’منتظر سے ٹائر لے آؤں‘‘۔

    بیوی نے فوراً کہا۔

    ’’اولاد کو کیا منع کرسکوں گی جب باپ کے چلتر ہی اچھے نہ ہوں۔ اب جا کر تماشا دیکھیں گے کہ بووی چک پر کیا ہوا۔ ایسے موقع پر حادثے کی جگہ سے آدمی دور ہی رہے تو بہتر، مگر افسانہ نگار جو ہوئے۔ لوگوں سے پوچھنا اور تاکنا جھانکنا اچھا لگتا ہے‘‘۔

    ’’خدا کی بندی! وہاں منتظر کے پاس میرا ٹائر پنکچر لگا رکھا ہوگا، وہ لانا ہے اور اگر وہاں شاہ جہاں نظر آیا تو اسے بھی لے آؤں گا،تاکہ آپ کا یوپی ایس ٹھیک ہوجائے۔ اس میں افسانہ نگار کہاں سے آگیا‘‘۔

    یہ کہہ کر میں جوں ہی پلٹا بجلی آگئی۔ روشنی میں جیسے ہی بیوی کی نگاہ میرے کپڑوں پر پڑی وہ ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔

    ’’اللہ توبہ ہے۔ یہ کیا کیا؟ نئے سفید سوٹ کا ستیاناس کردیا۔ آپ تو حد ہی کردیتے ہیں۔ بچوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ اور تماشا دیکھو گٹر کی گندگی لیے پورے گھر میں دندناتے پھررہے ہیں‘‘۔

    ’’یار میں ابھی باہر سے آیا ہوں۔ اسکول کے سامنے والا گٹر ابل رہا ہے۔ اندھیرے میں دکھائی نہیں دیا۔ کیا میں جان بوجھ کر گٹر کے پانی میں چھلانگیں مارتا پھروں گا؟‘‘

    ’’کیا پتا وہ رکشے میں برقعے والی کو دیکھ کر بھاگے ہونگے۔ مرد سارے ہی ایک جیسے ہوتے ہیں‘‘۔

    ’’نیک بخت! واپسی پر میں پانی پھلانگ کر گزرا تھا‘‘۔

    ’’آپ کا پھلانگنا میں خوب سمجھتی ہوں۔ آپ پانی نہیں مجھے پھلانگنے کی کوشش کررہے ہوں گے‘‘۔

    ’کاش میں ایسا کرسکتا‘‘۔

    ہنس کر کہتا ہوا میں بیڈ روم کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے پتا تھا کہ اس نے مجھے مصنوعی غصے سے دیکھا ہوگا، کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ میں کتنا ڈرپوک شوہر ہوں۔ تھوڑی دیر بعد میں کپڑے تبدیل کرکے اپنی اسٹڈی میں قلم تھام کر بیٹھ گیا اور دماغ میں تتر بتر ہوئی کہانی کو سمیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر دیر تک کوشش کے باوجود اس کا سرا پکڑنے میں ناکام رہا۔ کیونکہ اب وہ اتنی آسانی سے تو ہاتھ آنے سے رہی۔

    (۲۰۰۶ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے