کہانی اور کرچیاں
واصف تو بس مجھے اپنی نئی کہانی سنانے آیا کرتا تھا۔
مگر اب کے ملا تویوں کہ اس کے ہاتھ میں کسی نئی کہانی کا مسودہ نہیں تھا۔
کہانی لکھ چکنے کے بعد ‘اس کے چہرے پر جو آسودگی ہوتی تھی‘ وہ بھی نہ تھی۔
وہ آیا اور چپ چاپ میرے سامنے بیٹھ گیا۔ میں نے اسے چھیڑتے ہوے کیا:
’’لگتا ہے کہانی ازبر کرتے کرتے اتنے دن لگا دیے‘‘
وہ چپ رہا۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔
’’خیریت تو ہے نا یار‘‘
میں نے اسے تھام کر کہا۔ اس کا جسم تپ رہا تھا۔ مجھے دیکھا۔ نگہہ میں وہ چمک بھی نہ تھی۔ تشویش کی سنسنی میرے بدن میں تیرنے لگی۔ وہ گم سم رہا۔ بدن میں دوڑتی سنسنی جھنجھلاہٹ میں ڈھل گئی۔
’’ارے بابا‘ کچھ بولو بھی۔ کون سی نئی کہانی لکھی ہے تم نے؟‘‘
ایک ثانیے کے لیے اس کے ہونٹ پھیلے پھر سکڑ گئے۔ چہرہ یوں ہی تنا رہا۔ پھر اس کی آواز کہیں دور سے آئی۔
’’کہانی؟۔ کیسی کہانی یار؟میں اب تک کہانیاں ادھر ادھر سے کشید کرتا رہا مگر‘‘
’’مگر کیا؟ ‘‘
وہ چپ رہا‘ میں چڑ گیا۔
’’تم اپنی کہانی سنانے کے لیے کیسی پہیلیاں بجھوانا چاہتے ہو؟‘‘
’’پہیلی؟ پہیلی تو میری اپنی زندگی بن گئی ہے یار‘‘
وہ خواب آلود لہجے میں بولا ‘ سر جھٹک کر کہنے لگا:
’’تم شانوں کو تو جانتے ہونا؟‘‘
میں نے اس بات کاٹی :
’’تمہیں یاد ہے جب تم اور تمہاری بیگم اس کے یتیم ہونے پر اپنے گھر کے کام کاج کے لیے اسے رکھنا چاہتے تھے تو میں نے تم لوگوں سے کہا تھا؛ ایسا نہ کرو ‘مت رکھو اسے اپنے گھر۔ جوان جہان ہے‘ کہیں ادھرادھر منھ مار لیا تو‘‘
واصف غصے سے اٹھ کھڑا ہوا‘ کہنے لگا:
’’تم سے بات کرنا بھی کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ میری بھی سنوگے یا اپنی ہی بکے جاؤگے۔‘‘
میں ٹک کر بیٹھ رہا۔ کہا:
’’ہاں میں چپ ہوں ‘اب تم کہو؟‘‘
وہ بیٹھ گیا‘ ساتھ ہی اس کا لہجہ بھی دھیما ہو گیا۔
’’کیا کہوں دوست۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں‘ لفظوں کے رحم ان کا مفہوم نہیں سہار سکتے‘‘
میں نے اسے ٹوکا:
’’واصف ‘تم ایک مرتبہ پھر بہک رہے ہو۔‘‘
’’میں بہک گیا تھا‘‘
اس نے کہا تو میں چونک اٹھا:
’’تم بہک گئے تھے؟‘‘
’’ہاں‘ ہاں میں۔‘‘
یوں لگتا تھا گویا واصف خواب میں بول رہا ہو۔ میں نے پوچھا:
’’کیسے بہکے تھے تم؟‘‘
اب کے وہ سنبھل گیا۔ میرا سوال ان سنا کرتے ہوے کہنے لگا:
’’وہ ‘میرا مطلب ہے‘ شانوں پچھلے ہفتے آئی تھی ‘اس کی گود میں نومولود بچہ تھا؟‘‘
میں نے لعاب منھ میں اکٹھا کر کے یوں تھوکا گویا کوئی کڑوی شے چکھ لی ہو:
’’حرامزادی ! میں نے کہا تھانا‘ وہ ضرور ایسا ویسا گل کھلائےگی۔ وہی ہوا نا ‘جس کا ڈر تھا۔‘‘
واصف نے میری بات کاٹی اور غصے سے مجھ پر پل پڑا:
’’مت بولتے جایا کرو یونہی۔ تمہارے اندازے ہمیشہ غلط اور بے ہودہ ہوتے ہیں‘‘
’’تو کیا اس نے شادی کر لی تھی؟‘‘
میں پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ وہ پھر برسا:
’’میں نے کہانا‘ مت بولا کرو بیچ میں۔ چپ رہو اور پہلے مجھے بات مکمل کر لینے دو۔‘‘
میں چپ بیٹھ رہا تو اس کے سانس بحال ہوے۔ کہنے لگا:
’’اس کی گود میں نومولود بچہ تھا ‘جب کہ خود اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ میں نے اسے دیکھا تو سہم گیا۔ لفظ میرے ہونٹوں کی چوکھٹ سے پرے بارش میں بھیگی بلی کی طرح دبکے بیٹھے رہے۔ دروازے پر کھڑے چپ چاپ کئی لمحے بیت گئے۔ ’’کون ہے؟ کون ہے؟‘‘ کہتے ہوے میری بیوی فاخرہ دروازے پر پہنچی۔ مجھے دیکھا تو باہر جھانکا؛ شانوں بچہ گود میں اٹھائے ٹک ٹک‘ دیدم دم نہ کشیدم مجھے تک رہی تھی۔ فاخرہ ٹھٹکی۔ پوچھا:
’’کس کا بچہ اٹھا لائی ہو شانوں ؟‘‘
شانوں چپ سہمی کھڑی رہی۔ فاخرہ نے مجھے ایک جانب دھکیلا ‘اسے گھسیٹ کر آنگن میں لے آئی۔ کہا:
’’اری بک بھی‘ کس کا بچہ ہے یہ؟ اور کہاں رہی اتنا عرصہ؟
’’شانوں بدستور چپ رہی۔ پوچھا‘‘
’’شادی کر لی؟‘‘
اس نے صرف نفی میں سر کو جنبش دی۔ فاخرہ چڑ کر بولی:
’’کس کا بچہ اٹھا لائی ہو مردود؟‘‘
اس نے سسکاری بھری اور رک رک کر بہ مشکل روتے ہوے کہا:
’’نہیں بی بی جی نہیں۔ ‘‘
’’ تو پھر حرام کا ہوا نا!‘‘
فاخرہ نے فیصلہ دے دیا۔
’’توبہ توبہ ‘خدا کا قہر نازل ہو تم پر۔ ذلیل کمینی آخر کم ذات ہی نکلی نا تم۔‘‘
اب فاخرہ کا مخاطب میں تھا۔
’’اس کی شکل دیکھو اور اس کے لچھن‘ منھ مومناں کرتوت کافراں۔ اللہ میری توبہ!‘‘
اپنے کانوں کو چھونے کے بعد پھر اس پر برس پڑی۔
’’اب اس حرام زادے کو میرے دروازے پر کیوں لائی ہو حرام خور؟ جس سے منھ کالا کیا ہے ‘اسی کے پاس چل مر۔‘‘
فاخرہ غصے میں آپے سے باہر ہو رہی تھی۔ شانوں کو دھکے دے کر بچے سمیت باہر نکال دیا اور اندر سے کنڈی چڑھالی۔ اس روز سے مجھے نیند نہیں آئی یار‘‘
’’تمہیں نیند نہیں آئی؟ آخرکیوں؟ کہیں تم گوئٹے کی طرح اسے Marinanne-Von-Willemer تو نہیں سمجھ بیٹھے تھے۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا‘ تو واصف کہنے لگا:
’’نہیں یار نہیں۔ میرینانے کہاں اور شانوں کہاں۔ میرینانے تو خوب صورتی کا شاہ کار تھی اور شانوں؟ شانوں تو بس واجبی سی صورت والی معصوم سی لڑکی ہے۔ فرینکفرٹ کے ادھیڑ عمر مہاجن کی آسٹرین منکوحہ رقاصہ میرینانے کا شانوں سے کیا مقابلہ ‘کہ اس کی گفتگو بھی اس قدر پر اثر اور شاعرانہ تھی‘ کہ گوئٹے کے لہو میں لفظ لفظ محبت کی گرمی بن کر دوڑنے لگتا تھا۔ اور شانوں ‘وہ تو بس ضرورت کے چند لفظ بول سکتی ہے۔‘‘
مجھے محض اپنے مزاح کے اس قدر سنجیدہ جواب کی توقع نہ تھی۔ گفتگو کا پہلو بدلتے ہوے کہا:
’’تو‘ تمہیں پھر نیند کیوں نہیں آتی؟‘‘
واصف کہنے لگا:
’’مجھے نیند کیسے آتی میرے دوست؟ نیند تو خدا کا عطیہ ہے ‘انعام ہے‘ جو وہ خوش ہو کر آسمانوں سے نازل کرتا ہے۔ میں اب اس کی اس نعمت کا حق دار کہاں تھا‘‘
واصف حساس تھا ‘میں یہ جانتا تھا۔ جس کرب سے وہ گزر رہا تھا‘ میں اسے شانوں کی خطاکاریوں کا فطری رد عمل سمجھ رہا تھا۔ بات پھر شانوں کی جانب موڑنا چاہی:
’’وہ کہاں گئی؟‘‘
’’کہاں جاتی؟‘‘
اس نے دھیرے سے کہا اور پھر دھیمے لہجے میں ہی کہنے لگا:
’’رات بھر باہر دیوار سے لگ کر بچے کو لپٹاے رہی۔‘‘
’’رات بھر؟ میرا مطلب ہے ‘باہر گلی میں؟‘‘
’’ہاں‘ اور مجھ میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ فاخرہ سے کہتا ‘انہیں اندر آنے دے اور۔۔۔‘‘
میں نے بےصبری سے اس کی بات کاٹی اور پوچھا:
’’صبح جب تم اٹھے ‘تو‘ تو کیا وہ باہر تھی؟‘‘
’’صبح اٹھا؟‘‘
اس نے حیرت سے میری جانب دیکھا‘ پھر کہا:
’’ارے بابا کہا نا! کہ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ گو میں فاخرہ کے پہلو میں لیٹا ہوا تھا مگر مجھے محسوس ہوتا تھا ‘بالکل ایسے‘ جیسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ‘کہ شانوں وہیں دیوار سے لگی بیٹھی تھی‘ بچے کو گود میں سمیٹے۔ فاخرہ بڑبڑاتے بڑبڑاتے کب کی سو چکی تھی اور مجھے لگ رہا تھا ‘میری آنکھیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔ گزرتے وقت کی ساعتیں میں گن سکتا تھا۔ گنتا رہا۔ مگر حوصلہ نہ تھا کہ قدم بستر سے نیچے دھرتا۔ صبح جب فاخرہ بستر سے اٹھی اور مجھے کہا:
’’کب تک یونہی بے سدھ پڑے رہو گے؟‘‘
تومیں جبر کر کے اٹھا۔ باہر نکلا۔ وہ وہاں نہیں تھی۔‘‘
میں نے بے دھیانی سے جملہ لڑھکا دیا:
’’چلی گئی ہوگی؟‘‘
وہ خوابیدہ سا بولتا رہا۔
’’چلی گئی؟ ہاں چلی گئی تھی۔ میں نے اسے بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملی۔‘‘
میں نے حیرت سے واصف کو دیکھا اور کہا:
’’مگر تم؟ تم کیوں اسے تلاش کرتے رہے؟‘‘
’’و۔۔۔و۔۔۔ہ بےآسرا تھی۔ ا ور مجھے اندیشہ تھا وہ کسی اور حادثے کا شکار نہ ہو جائے‘‘
واصف کا اندیشہ بجا تھا‘ میں نے رائے ظاہر کی:
’’وہ یقیناً وہاں چلی گئی ہوگی جہاں تمہارے ہاں سے بھاگ کر اتنا عرصہ رہی۔‘‘
واصف بول پڑا:
’’وہ وہاں نہیں گئی تھی‘‘
میں چونکا:
’’مگر تم یہ کیسے وثوق سے کہ سکتے ہو؟‘‘
وہ گڑ بڑا گیا۔ کہنے لگا:
’’م۔۔۔ م۔۔۔ میرا مطلب ہے وہ وہاں کیسے جا سکتی تھی؟ ان لوگوں نے نکال دیا ہو گا تب ہی تو ہمارے ہاں آئی ہوگی‘‘
واصف کی رائے میں وزن تھا۔
’’ہاں ایسا ممکن ہے‘‘
میں نے اتفاق کیا۔ ایک بےآسرا لڑکی کے لیے جو اب کنواری ماں بن چکی تھی ‘واصف کی اتنی بےچینی‘ میرے لیے خلاف توقع نہ تھی کہ اس کی بیشتر کہانیاں عورت کی مجبوریوں اور مظلومیت کے گھر گھومتی تھیں۔ شانوں کو نہلا پھسلا کر کسی نے بے آبرو کیا تھا اور اب وہ ایک نومولود بچے کے ہمراہ بے آسرا ہو گئی تھی‘اس واقعے کے زیر اثر واصف کا اپنی نیند کھو دینا اور اس قدر بے چین ہو جانا اس کی فطرت کے عن مطابق تھا۔
آئی بات‘ گزر گئی۔
وہ پہلے کی طرح کہانیاں لکھنے لگا اور وقفے وقفے کے بعد مجھے سنانے آنے لگا۔
پھر یوں ہوا کہ شانوں اور اس کا تین سالہ بچہ اچانک مجھے مل گئے۔
میں دارالامان کی عمارت میں توسیع کے منصوبے کی نگرانی پر تھا کہ وہ مجھے وہاں نظر آگئی۔ میں نے چپکے سے اسے جالیا۔ مجھے دیکھ کر وہ بھونچکی رہ گئی۔ میں نے پوچھا:
’’تم شانوں ہی ہو نا؟‘‘
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے بچے کی جانب اشارہ کیا:
’’اور یہ؟‘‘
’’یہ امجد ہے میرا بیٹا۔‘‘
’’تم دارالامان کب آئیں؟‘‘
میں نے بات بڑھانے کو کہا تو وہ جھوٹ بولتے ہوے کہنے لگی۔
’’و۔۔۔ وہ۔۔۔ میرا شوہر مر گیا تھا۔۔۔ نا۔۔۔ اس لیے۔‘‘
اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ میں نے کہا:
’’تم نے یہ جھوٹ یقیناً دارالامان میں داخلے کے لیے بولا ہو گا؟‘‘
’’جھوٹ؟‘‘
اس نے بوکھلا کر دہرایا:
’’ہاں۔ کیا یہ بن باپ کا بچہ نہیں ہے؟‘‘
میں ایک مرتبہ پھر امجد کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔
وہ سسک پڑی۔ چہرہ پلو میں چھپا لیا پھر لفظوں کو سمیٹا اور ہاتھ جوڑ کر التجا کرنے لگی۔
’’خدا کے لیے واصف صاحب کو نہ بتائیےگا کہ۔۔۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
میں نے بات کاٹتے ہوے کہا:
’’وہ تو تمہارے لیے بہت بے چین رہا ہے۔ تمہیں تلاش کرتا رہا ہے۔‘‘
’’تلاش؟‘‘
اس نے سسکاری بھری۔ خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھا پھر قہقہہ مار کر دیوانوں کی طرح ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔ اس کی ہنسی رکی تو خوف سے چہرہ ایک مرتبہ پھر کانپنے لگا۔ وہ بچے کی طرف بڑھی اور اسے اپنے بازؤوں میں لے لیا۔ کہنے لگی:
’’میں خود اس کی حفاظت کروں گی اور انہیں اس تک نہ پہنچنے دوں گی۔‘‘
میں شانوں کے پاس بیٹھ گیا۔ پوچھا:
’’بھلا تمہارے بیٹے کو اس سے کیا خطرہ ہے؟‘‘
شانوں کی ایک مرتبہ پھر گھگی بندھ گئی۔ رندھائی ہوئی آواز میں کہنے لگی:
’’بچے کی پیدائش کے بعد غربی محلے والوں نے مجھے اس گھر سے نکال دیاتھا جہاں میں کئی ماہ سے اکیلے رہ رہی تھی۔ اب صاحب جی کی چوکھٹ ہی میری آخری امید تھی مگر بیگم صاحبہ نے مجھے گھر سے ذلیل کر کے نکال دیا اور صاحب جی بس منھ دیکھتے رہے۔‘‘
مجھے کچھ کھٹکا۔ میں نے بات کی وضاحت چاہی:
’’تم بتا رہی تھیں کہ تم غربی محلے کے مکان میں رہتی تھیں۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’وہ مکان کس نے لے کر دیا تھا تمہیں؟‘‘
’’جی وہ صاحب جی نے کرائے پر لے کر دیا تھا مجھے ‘میں ان کے گھر سے سیدھا وہیں گئی تھی‘‘
مجھے واصف کی عظمت پر رشک آنے لگا۔ ایک ادنیٰ سی ملازمہ کی غلطی کو چھپانے اور اسے دوسروں کی نظروں سے گرنے سے بچانے کے لیے اس نے اسے علیحدہ مکان تک لے دیا تھا۔ میں نے اسے بات جاری رکھنے کو کہا تو وہ کہنے لگی:
’’رات کے پچھلے پہر صاحب جی گلی میں نمودار ہوئے۔ میں اپنے بچے کو لپیٹے وہیں دبکی بیٹھی تھی۔ کہنے لگے:
’’لاؤ بچہ مجھے دو‘ میں اس کا قصہ یہیں ختم کر دوں۔‘‘
میں نے بچہ دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے چھیننا چاہا تو میں بھاگ کھڑی ہوئی۔ اور کچھ نہ پوچھیں جی ‘یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں کن کن مرحلوں سے گزری ہوں۔ دیکھیں نا جی‘ بچہ تو بچہ ہوتا ہے نا۔ گورا کالا‘ خوب صورت بدصورت ‘صحت مند معذور یا پھر حلالی حرامی کچھ نہیں ہوتا۔ اور ممتا بھی تو جی ممتا ہوتی ہے نا! اس میں بھی اور کوئی کھوٹ نہیں ہوتا جی۔ گناہ گار تھی تو میں تھی۔ میری ممتا یا بچہ تو گناہگار نہ تھے۔ پھر میں اپنی ممتا کیو ں مارتی‘ بچہ ان کے حوالے کیوں کرتی؟‘‘
یک دم اس کا لہجہ دھیما پڑ گیا۔ دونوں ہاتھ میرے سامنے جوڑے اور کہنے لگی:
’’آپ خدا کے لیے صاحب جی کو مت بتائیےگا ورنہ۔۔۔ورنہ۔۔۔ وہ میرے بچے کو مار ڈالیں گے۔‘‘
یہ کہتے ہوے اس نے ایک مرتبہ پھر بچہ اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ میں نے اس کا حوصلہ بحال کرنے لے لیے کہا:
’’نہیں نہیں اب بھلا وہ تمہارا بچہ کیوں مارےگا؟ اس روز تو اس نے محض یہ سوچا ہوگا کہ بن باپ کے بچے کے ساتھ تمہاری زندگی کٹھن تر ہو جائےگی۔ وہ شخص کہ جس نے ساری عمر عورت کی مظلومیت کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ عملی طور پر بھی تمہارے ساتھ بہت ہم دردانہ سلوک کیا ہے۔ یہ معلوم ہوتے ہوے بھی کہ تم بن باپ بچے کی ماں بن رہی ہو ‘تمہیں معاشرے کے ظلم سے بچانے کے لیے علیحدہ مکان تک لے کر دیا۔ تمہیں تلاش کرتا رہا ادھر ادھر۔ وہ بھلا تمہارا بچہ اب کیوں مارےگا؟‘‘
’’بھولے ہیں صاحب جی آپ بھی۔‘‘
اس نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوے کہا۔ پھر اس کا چہرہ پہلے کی طرح متفکر ہو گیا۔ کہنے لگی:
’’اب بھی میرا امجد انہیں نظر آ گیا تو وہ ضرور اسے مار ڈالیں گے۔ ہاں ضرور۔‘‘
میں نے جھنجھلا کر کہا:
’’مگر کیوں؟‘‘
اس نے لمبی سانس بھری‘ بیٹے کو دونوں ہاتھوں سے تھاما اور کہا:
’’اس لیے کہ امجد صرف میرا ہی نہیں ‘صاحب جی کا بھی بیٹا ہے اور ایسا بیٹا جسے وہ اپنا نہیں کہ سکتے۔‘‘
ایکا ایکی حیرت انگیز خامشی اور اضطراب میرے اندر جا گھسا۔ میری نظر پھسلتے پھسلتے بچے پر جا پڑی۔ یہ واصف کی کیسی کہانی تھی‘ جو اس کے نجیب بت کو سفاکیت سے کرچی کرچی کر کے میرے قدموں میں ڈھیر کر رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.