کہانی کیسے بنتی ہے
وہ میرے پاس آئی اور مجھے کرید کرید کر پوچھنے لگی:
’’کہانی کیسے بنتی ہے؟‘‘
مجھے کوئی جواب نہ سوجھ رہا تھا کہ میرا سیل میری مدد کو آیا ۔ دوسری جانب گاؤں سے فون تھا:
’’سیموں مر گئی۔‘‘
’’کون سیموں؟‘‘
میں نے اپنے وسوسے اوندھانے کے لیے خواہ مخواہ سوال جڑ دیا۔ حالاں کہ ادھر ہمارے خاندان میں ایک ہی سیموں تھی۔
’’جی بالے کی بیوی۔‘‘
اطلاع دینے والے کی ہچکی بندھ گئی۔
ابھی تک مجھے بھی یقین نہ آیا تھا۔ اس کے مرنے کے دن تو نہ تھے۔ چھوٹے چھوٹے چار بچے تھے۔ اتنے چھوٹے کہ جنہیں ممتا کے گھنّے سایے کی اشد ضرورت تھی۔
’’وہ کیسے مر گئی؟‘‘
میری آواز بھی رندھا گئی۔ اطلاع دینے والے کی سانسیں ہچکولے کھا رہی تھی۔ اور پھر رابطہ منقطع ہوگیا۔
آج دوسرا دن تھا کہ ایسی جگر چیرنے والی خبریں آئے چلے جاتی تھیں۔ کل صبح میں ابھی گھر سے دفترے لیے نکلا ہی تھا کہ سامنے رہنے والی نائلہ کے منّے سے پیارے بیٹے ارباز کو ایک نودولتیے کی نابالغ اولا دنے ویلنگ کرتے ہوے ٹکر مار دی تھی۔ میں اسے بچانے آگے بڑھا۔ وہ میرے بازؤوں میں مچھلی کی طرح تڑپا اور دم توڑ گیا تھا۔ جب میں اس کی لاش اس کی ماں کی گود میں ڈال رہا تھا تو میں اس کی طرف دیکھنے کی ہمت اپنے دل میں نہ پاتا تھا حالاں کہ جب سے اس کا شوہر اسے چھوڑ گیا تھا اسے چوری چھپے دیکھنا مجھے اچھا لگنے لگا تھا۔
کل ہی دفتر میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر محبت سے باتیں کرنے اور اپنے کام سے کام رکھنے والے طاہر خان کو ویگن نے کچل ڈالا تھا۔ وہ سڑک پر دیر تک تڑپتا رہا۔ گاڑیاں اس کے پاس سے گزرتی رہیں۔ تھانہ کچہری کے چکروں سے بچنے کے لیے کوئی مدد کے لیے آگے نہ بڑھا۔ یہ تو اتفاق تھا کہ ہمارے دفتر کے نفیس کی نظر اس کے کچلے ہوے بدن پر پڑی۔ نفیس اسے ہسپتال لے گیا۔ مگر بہت دیر ہو گئی تھی۔ رگوں سے سارا خون نچڑ چکا تھا۔
سب دعا کرتے رہے مگر وہ مر گیا۔
ایک نوخیز شاعرہ شرمین کچھ دنوں سے ہی ہمارے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع ہوئی تھی۔ ابھی تک اس نے بے ریا محبت کی کچی نظمیں ہی لکھنا سیکھی تھیں۔ کل شام اس نے محبت کی ایک اداس کر دینے والی ایک نظم ہمیں سنائی تھی۔ یوں کہ ہم دیر تک کچھ کہ نہ پائے تھے۔ اس نے اپنی ساری نظمیں سمیٹ کر پرس میں ڈال لیں اور چپکے سے باہر گلی میں قدم رکھ دیا۔ باہر موت تاک میں بیٹھی تھی۔ دو موٹر سائیکل سوار نوجوانوں نے ادھر ادھر آکر اس سے پرس چھننا چاہا۔ وہی پرس جس میں اس کی نظمیں تھیں۔ اس نے مزاحمت کی اور اسے گولی مار دی گئی۔
زخمی حالت میں ہم اسے ہسپتال لے گئے۔ بہت ساری دعائیں کیں مگر وہ بھی مر گئی۔
مجھے اپنی دعاؤں کے قبول نہ کیے جانے کا دکھ تھا۔ رات سونے سے پہلے میں نے موت کے تین چہرے کا عنوان جما کر ایک نظم لکھ ڈالی تھی:
’’یہ کیسی پت جھڑ ہے کہ اے مالک‘ کسی دعا کی شاخ پر قبولیت کی کوئی کونپل نہیں پھوٹتی۔
اے جہانوں کو پالنے والے! ایک ننھّی منّی جان کے لیے آخر کتنا رزق درکار ہوتا ہے۔
اے دلوں کو محبت کے نور سے منور رکھنے والے‘ ایک محبت کے چراغ کو روشن رکھنے کے لیے زندگی کے کتنے ایندھن کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اے حرف میں معنی اور معنی میں تاثیر رکھنے والے ‘نازک جذبوں کو کومل لفظوں میں ڈھالنے والی کی کل کائنات تمہاری اتنی بڑی کائنات سے بڑی تو نہ ہو سکتی تھی۔‘‘
میں لکھتا رہا۔۔۔ حتیٰ کہ یہ تین اموات کا دکھا اس نظم میں سما گیا۔ اتنا بڑا دکھ جو تین گھروں میں نہ سما رہا تھا‘ میری اکلوتی نظم ڈکار گئی تھی اور میں صبح معمول سے جاگا تھا۔
مگر آج صبح ہی صبح مجھے اندر سے ایک بار پھر یوں ادھڑنا تھا کہ کئی نظمیں لکھ ڈالتا تو بھی دل کو واپس ٹھکانے پر نہ لا سکتا تھا۔
بات کرنے والا سسکیاں لے کر خاموش ہو گیا۔ پھر سیل کا روشن ڈسپلے بھی بجھ گیا مگر میں مسلسل اسے دیکھ رہا تھا۔ جتنی دیر تک میں سیل کو دیکھتا رہا‘ وہ مجھے دیکھتی رہی۔ یوں جیسے اپنے سامنے کہانی کو بنتا دیکھ رہی ہو۔
جب میں گاؤں جا رہا تھا تو میں اس کا سوال بھول چکا تھا۔
بالے کے گھر کے باہر لوگوں کا ایک جم غفیر تھا۔ سب ہی دکھ میں ڈوبے ہوے تھے۔ گھر کے اندر سے عورتوں کے رونے اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
میں دکھ میں ڈوبے لوگوں کو چیرتا دروازے تک پہنچ گیا تھا۔ اندر سے آنے والی چیخوں سے میں نے ایک مانوس آواز کو صاف الگ کر لیا۔ یہ مرنے والی کی ماں تھی:
’’سوجھا ‘نی مینڈھیے دھیے توں تاں لمے پینڈے پیے گئی ایں
انج نییں کریدا۔‘‘
(دھیان ‘اے میری بیٹی کہ تم نے تو طویل مسافت اختیار کرلی ہے۔ ایسا تو نہیں کرتے۔)
جوں ہی بین کا ایک ٹکڑا مکمل ہوتا‘ عورتوں کی چیخیں نکل جاتیں۔
جب میت اٹھا کر باہر لائی گئی تو مردوں کی چیخیں بھی نکل گئیں۔
میت والی چارپائی کو ایک طرف سے سیموں کے سسر شیفے نے کندھا دے رکھا تھا اور دوسری طرف اس کا شوہر بالا تھا۔
بالے نے شیفے سے جوئے میں بھینس جیتی تھی لیکن اسے بدلے میں پیاری سی لڑکی مل گئی تھی۔ یہ اس کی دوسری بیوی تھی۔ مگر گھر میں گھستے ہی بالے کو پہلی سے زیادہ عزیز ہو گئی تھی۔ اب تواس کا گھر اس ہی کے نصیبوں سے محبت کا گہوارہ تھا۔
جب دونوں کندھا دے کر چارپائی گھر سے نکال رہے تھے تو سیموں کی ماں کے بینوں اور عورتوں کی چیخوں میں کوئی آہنگ نہیں رہا تھا۔
جب میں کندھا دینے کے لیے چارپائی کی دائیں جانب گھوم کر بالے کے قریب ہو گیا تو مجھے یوں لگا جیسے مرنے والی کی ماں کے بین یک لخت تھم سے گئے تھے۔ میں نے چور نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ یکا یک اس نے عارضی خاموشی توڑ دی اورپہلے سے کہیں زیادہ درد بھری آواز میں بین کرتے ہوے اپنی بھاری چھاتیاں تھپاتھپ پیٹ ڈالیں:
’’توں دل لائیا سی حیاتی نال چپ چپیتے۔
لمیاں چپاں تینوں موت جئے روگ دتے۔
سوجھا نی مینڈھیے دھیے تینوں کندھا دین اپنے آ گئے نیں۔
انج نئیں کریدا۔‘‘
(تم نے چپکے چپکے زندگی کے ساتھ دل لگایا تھا۔ لمبی چپ نے تمہیں موت جیسے روگ دیے
دھیان ‘اے میری بیٹی کہ تمہاری میت کو کندھا دینے والے تمہارے اپنے آ پہنچے ہیں۔
ایسا تو نہیں کیا جاتا۔)
کہتے ہیں بالا‘ اب پہلے جیسا اکھڑ اور بدمزاج نہیں رہا تھا۔ سیموں نے اسے بدل کر رکھ دیا ۔ بدلے ہوے بالے نے رو رو کر اپنی آنکھیں سرخ بیرا بنا لی تھیں۔
گاؤں کا ہر شخص میت کو کندھا دینے کے لیے یوں آگے بڑھ رہا تھا جیسے یہ بالے کی سیموں کا نہیں اس کی اپنی بیٹی کا جنازہ تھا۔
جب میں اپنا کندھا کھسکاتے کھسکاتے چارپائی کے پچھلے پائے سے ٹکرا کر جنازے کے عقب میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مرحومہ کے بچے گم صم پیچھے پیچھے یوں چل رہے تھے جیسے اس اچانک صدمے نے انہیں کچھ سمجھنے ہی نہ دیا ہو۔ بچوں کی نانی کے بین تعاقب میں تھے:
’’تتّیاں دھپّاں وچ اپنے بالاں تے ٹھنڈی چھاں ہوں والیے مینڈھیے دھیے۔
کس دے آسرے انہاں نوں چھوڑ چلی ایں توں۔
انج نئیں کریدا۔‘‘
(تپتی دھوپوں میں اپنے بچوں پر ٹھنڈی چھاؤں ہو جانے والی اے میری بیٹی
اب کس کے سہارے انہیں چھوڑ کر تم چل پڑیں۔
یوں تو نہیں کیا جاتا)
میں نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ جنازے کے پیچھے گلی میں آگئی تھی۔ اس کے بال کھلے ہوے تھے اور سر کی چادر پیچھے گر کر گھسٹ رہی تھی۔
’’ایہہ کچے کولے معصوم ہن کہدی چنّی وچ سر لکان گے مینڈھیے دھیے
انج نئیں کریدا‘‘
(یہ نرم ونازک معصوم بچے اب کس کے آنچل کی اوٹ لیں گے اے میری بیٹی
یوں تو نہیں کیا جاتا)
بین اتنے دردیلے تھے کہ دکھ میرے پورے وجود کے اندر بھر گیا تھا۔
میت جنازہ گاہ پہنچی۔ صفیں ترتیب دی گئیں۔ جنازہ بالے کے دادا نے پڑھایا تھا۔ جب وہ تکبیر کہتا تو اس کی آواز لڑکھڑا جاتی۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب دکھ کے شدید حملے کی وجہ سے تھا۔
دعا کے بعد میت وہاں لائی گئی جہاں کھدی ہوئی قبر اسے اپنی آغوش میں لینے کو تیار تھی۔ میت قبر میں اتار دی گئی۔ قبر کی بغل میں چیرویں کھدائی اس طرح کی گئی تھی کہ اس کا جسم پوری طرح اس میں سما گیا تھا۔ اوپر پتھروں کی ترشی ہوئی سلیں پہلو بہ پہلو رکھ کر چیرویں کھپّے کو پاٹ دیا گیا۔
بالا آگے بڑھا۔ اس نے بھر بھری مٹی کی مٹھیاں بھر بھر کر پہلے تو قبر پر ڈالیں اور پھر اپنے سر پر ڈال کر پاگلوں کی طرح سر پیٹنے اور چیخنے لگا۔ وہ جنازہ اٹھنے سے لے کر میت کے قبر میں اترنے تک یوں چپ تھا ‘جیسے اس نے جتنا رونا تھا‘ رو چکا تھا۔ اس کا یوں اچانک پھٹ پڑنا سب کو رلا گیا تھا۔
اس کے باپ نے ’’حوصلہ‘حوصلہ‘‘ کہ کر اسے اپنے بوڑھے بازوؤں میں جکڑ لینا چاہا اور پھر اپنی ہی بات کو دہراتے دہراتے رو رو کر دوہرا ہو گیا۔
مجھ سے یہ منظر دیکھا نہ جا رہا تھا۔ میرے بھائی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا:
’’مرنے والی کا جتنا غم کیا جائے اتنا ہی کم ہے کہ اس نے اس گھر کو مکمل تباہ ہونے سے بچا لیا تھا اور جو بچا لیتا ہے اس کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھانا اور اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘
میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تھا۔
میں نے سوچا کیا میں چاہتا تو سیموں کے نصیب بدل سکتا تھا؟
مگر ‘اب جب کہ وہ زمین میں دبا دی گئی تھی‘ میں نے ایسا کیوں سوچا تھا؟
میں نے اپنا سرجھٹکا۔ یوں جیسے اپنا دامن جھٹک کر تب الگ ہو گیا تھا جب سب کچھ ہو سکتا تھا۔
سیموں کے مرنے کی وجہ مجھے معلوم ہو گئی تھی ۔ اسے بجلی کا شاک لگا تھا ۔ قبرستان سے پلٹنے کے بعد جب میں اندر زنان خانے گیا تھا تومجھے بجلی کے وہ تار دکھائے گئے جو صحن کے اوپر سے گزارے گئے تھے۔
یہی تار ٹوٹ کر سیماں کی موت کا سبب بن گئے تھے ۔
صحن میں سٹیل کاایک تار دھلے ہوے کپڑے پھیلانے کے لیے شمال اور جنوب کی دیواروں کے درمیان بندھا ہوا تھا۔ سیموں اس پر گیلا کھیس ڈال رہی تھی کہ ایک جانب سے یہی تار کھل کر اچھلا اور اوپر سے گزرتے بجلی کے تاروں میں الجھ گیا۔
پورا کھیس بجلی سے بھر گیا تھا۔
کھیس بھی اور گیلی سیموں بھی۔
پھر وہ اچھلی اور دیوار کی سمت سر کے بل گئی یوں کہ اس کا سر ٹکرا کر کھل گیا تھا۔
اور اب جب کہ میں واپس شہر آ گیا ہوں۔ اور مجھے اس کا انتظار ہے جو یہ جاننا چاہتی تھی کہ کہانی کیسے لکھی جاتی ہے؟ تو سوچ رہا ہوں کہ وہ آئے گی تو بتاؤں گا کہ حادثات کس طرح کہانی کا مواد بن جایا کرتے ہیں۔
لو ‘وہ آگئی ہے اور میری آنکھوں میں یوں جھانک رہی ہے کہ میں کہانی کا گر اسے بتانا بھول گیاہوں۔ وہ میرے چہرے پر نظریں ٹکائے ٹکائے دھیرے سے کہتی ہے:
’’میں جان گئی ہوں جی‘ کہ کہانی دکھ سہے بغیر نہیں لکھی جاتی۔ محبت میں دکھ۔‘‘
وہ یہ ڈیڑھ آدھا جملہ میری لڑھکا کر خاموش ہو گئی ہے۔ میں کھسیانا ہو رہا ہوں۔ وہ مستقل چپ رہتی ہے۔ یوں کہ مجھے اطمینان ہو جاتا ہے کہ اب وہ کچھ بھی نہ کہے گی۔
مگر اس نے سوال جیسا جملہ لڑھکاکر مجھے بوکھلا دیا ہے:
’’آپ کی کہانیوں میں ایک لڑکی بار بار آتی رہی ہے
محبت کی علامت بن کر
کہیں وہ مرنے والی ہی تو نہیں ہے؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.