کہی ان کہی
کہانی کی کہانی
’’یہ کہانی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی ایک شاندار مثال پیش کرتی ہے۔ بھارت میں ایک سکھ خاندان اپنے مسلم پڑوسی کے پاکستان چلےجانے کے بعد بھی محلے کی مسجد کو پہلے کی طرح ہی آباد رکھتا ہے۔ سالوں بعد پاکستان گئے خاندان کا سربراہ جب اپنے سکھ دوست سے ملنے آتا ہے تو صاف ستھری مسجد کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے۔ اس پر اس کا دوست کہتا ہے کہ ہم نے تو آپ کو جانے کے لیے نہیں کہا تھا۔ آپ خود ہی گئے تھے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے وہ دن کون سا ہے۔‘‘، شیروانی میں ملبوس شخص نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
’’سچ؟‘‘ سائل کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’ہاں مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’تو پھر بتاؤ برادر عزیز! مجھے۔۔۔ انہیں، ان سب کو، جہاں تک تمہاری آواز پہنچے، خدا کے لئے بتادو کہ یہ آگ ہمارا پیچھا چھوڑے، ہم عذابوں سے محفوظ رہیں اور۔۔۔ اور نعمتیں ہم پہ اتریں۔‘‘
’’افسوس میں۔۔۔ میں نہیں بتا سکتا۔ کیونکہ جانتا ضرور ہوں اس دن کے بارے میں لیکن مانتا نہیں ہوں اس دن کی اہمیت کو!‘‘
’’اے لوگو، اے لوگو!‘‘
شہر کے سب سے بڑے چوک کے درمیان کھڑے ہوکر اس نے آواز لگائی، مشینی شہر کے مشینوں کے پرزے سمان لوگ چلتے چلتے رکے، آواز لگانے والے پر ایک نظر ڈالی، کچھ آگے بڑھ گئے، بلا کسی ردعمل کا اظہار کیے، کسی کی پیشانی پہ سلوٹوں کا جال ابھرا، کسی نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا، کچھ قدرے توقف کے بعد سرجھٹک کر آگے بڑھ گئے۔ لیکن بیس پچیس افراد ادھر ادھر اس کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے۔ آواز لگانے والے نے گھوم کر چاروں طرف نظر دوڑائی، پھر کھنکار کر اس مختصر سے مجمع سے مخاطب ہوا، ’’تمہیں کچھ پتہ ہے؟‘‘
’’کاہے کا؟‘‘
’’اس دن کا۔‘‘
’’اس دن کا۔۔۔ بولے تو؟‘‘
پوچھنے والا حیران ہوا، پھر اس نے اپنے آس پاس کھڑے لوگوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا، جواب میں سب نے لاعلمی میں شانے اچکائے اور پھر اس نے بھی کندھے اچکاتے ہوئے، آواز لگانے والے سائل سے پوچھا، ’’کس دن کا؟‘‘
’’افسوس۔۔۔ تمہیں بھی نہیں معلوم۔‘‘
مایوسی سے اس نے سر جھکایا، پھر آہستہ سے بولا، ’’قسم ہے اس زمین کی، اس کے باپ کی اور اس باپ کے پیدا کرنے والے کی۔ ہم سب گھاٹے میں ہیں۔‘‘
’’گھاٹا!‘‘ اور پھر تو چاروں طرف اسی ایک لفظ کا ورد ہونے لگا۔ لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے، پھر اس بھیڑ میں شامل کسی آفس کے چپراسی نے سہمے سہمے لہجے میں آواز لگانے والے سے پوچھا، ’’اپن کچھ بولےگا؟‘‘
آواز لگانے والے نے سر اٹھاکر اسے دیکھا، پھر سر کی خفیف سی حرکت سے اسے اجاز ت دے دی، چپراسی نے مسمسی سی صورت بناکر کہا، ’’اپنا کلیان ہو جائےگا۔ سچی بولتا ہوں۔ بہت واندے میں آ گیا ہوں، بس ایک پانا بتاؤ بابا اپنا۔۔۔‘‘
پیون کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی قہقہے ابل پڑے، قہقہوں کی آواز سنتے ہی ادھر ادھر سے کچھ لوگ بھی اس بھیڑ میں شامل ہو گئے۔ چپراسی نے خفگی اور خجالت سے مجمع کو دیکھا اور بڑبڑاتا ہوا مجمع سے نکل گیا۔
’’سچ کہتا ہوں، تم سب خسارے میں ہو، میری طرح، کیونکہ تمہیں بھی نہیں معلوم۔‘‘
’’کیا نہیں معلوم؟‘‘ ایک سوٹ بوٹ والے جنٹل مین نے اس سے سوال کیا۔
’’وہ دن، جس کا ہمیں علم نہیں۔‘‘
’’کون سا دن؟ ہم تو بہت سے دنوں کو جانتے ہیں، ایسٹر، نیوایئر، ہولی، عید، بقرعید، پہ پے ٹی، کپور۔‘‘
’’کون ہو تم۔۔۔؟‘‘ سوال کرنے والے نے کسی قدر کرخت لہجہ میں پوچھا، ’’ہندو، مسلمان، عیسائی، یہودی، کون ہو؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ میں پارسی ہوں۔‘‘
’’تم سب غور سے سنو۔۔۔ ہم نے غلط دنوں کو حافظے میں جگہ دے رکھی ہے۔ وہ دن ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ جاؤ، جاؤ مندر، مسجد، گرجا اور اگیاری میں اور پوچھو اس دن کے بارے میں جسے جان لینا ضروری ہے۔‘‘
’’تم جانتے ہو؟‘‘ اطمینان بھرے لہجے میں کسی نے اسی سے پوچھ لیا۔ اس نے سوال کرنے والے کی طرف دیکھا۔ یہ کوئی مولوی نما فرد تھا۔ ممکن ہے مولوی ہی رہا ہو، چھوٹی موری کا پاجامہ، اس پر شیروانی پہن رکھی تھی اور چہرے پر سیاہ داڑھی بھی تھی۔ خط تازہ بنا ہوا تھا۔
’’تم نے کچھ کہا؟‘‘
’’ہاں بھائی! میں نے پوچھا تھا، تم جانتے ہو اس دن کو؟‘‘
’’جانتا تو۔۔۔ تم سے کیوں پوچھتا؟‘‘
’’پر یہ تو بتاؤ۔۔۔ تم کون ہو؟‘‘
’’آدمی ہوں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ ابھی اس دنیا میں آدمی رہتے ہیں؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’سنا ہے اس زمین پر ہندو، مسلمان، یہودی کرسچین اور دہریے رہتے ہیں۔‘‘
’’آدمی دلچسپ ہو۔ چلو مان لیا۔۔۔ میں آدمی نہیں، مسلمان ہوں، پھر؟‘‘
’’پھر تو شاید تم میرا سوال حل کر سکو۔‘‘
’’یہ امید کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ مجھے یہ سوال قرآن سے ملا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’سوال کا پوچھتے ہو یا۔۔۔‘‘
’’قرآن کو تم کیا سمجھے؟ سمجھے بھی یا۔۔۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو میرے بھائی! اسے سمجھنے کا حق صرف تمہارا ہے۔ اسی لیے میں نے کہا، شاید تم میرا سوال حل کردو۔ بتاؤ، وہ دن کون سا ہے، جس دن کائنات کا پیدا کرنے والا تم سے راضی ہوا تھا اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں تمام کی تھیں۔ سنا ہے اس روز تمہارا دین بھی مکمل ہوا تھا۔‘‘
مولوی نما شخص کی آنکھوں میں حیرت کے سائے اتر آئے، پیشانی پر شکنیں ابھریں اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، اس سائل نے اپنی بات آگے بڑھائی۔
’’جانتے ہو۔ اس روز کس نے کہا تھا، آج کا اعلان تمہاری اپنی خواہش کا اظہار ہے، اللہ کا حکم نہیں اور اگر تم نے وہی کہا ہے جو وہ چاہتا ہے تو میں اسے ماننے سے انکار کرتا ہوں۔ وہ ہستی جو عالمین کے لئے رحمت قرار دی گئی خاموش تھی، انحراف کرنے والے نے کہا تھا، کہو اللہ سے مجھ پہ عذاب نازل کرے اور۔۔۔ اور تم جانتے ہو جس ہستی نے ہمیشہ آتے ہوئے عذاب لوٹائے اور دعا کی، پالنے والے مجھے اتنا عزم عطا کر کہ میں انہیں سمجھا سکوں اور انہیں توفیق دے کہ یہ ہدایت پا جائیں۔ لیکن اس روز۔۔۔ اس روز مجسم رحمت نے عذاب ٹالنے کی دعا نہیں کی، اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور تپتی دوپہر میں، جھلستی ہوئی دھوپ میں کھڑے ہزاروں ہزار لوگوں نے دیکھا، انکار کرنے والے پر ایک کنکری گری اور وہ۔۔۔ وہیں ڈھیر ہوگیا۔‘‘
وہ جس نے سائل کو چھیڑا تھا، پہلو بدلنے لگا۔ سائل سے نگاہیں ملانے کی اس میں ہمت نہ رہی۔ اس نے کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا، بھیڑ میں ایک شخص اخبار لیے کھڑا تھا۔ اس کی نظریں شاہ سرخی پر جم گئیں۔
’’اسرائیل نے غزہ میں اپنی خوریز کارروائی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے سلامتی کونسل کی تجویز مسترد کر دی۔‘‘
’’امریکہ اور اس کے حوارین نے ایران پر پابندیوں کی سختی پر اصرار شروع کر دیا۔‘‘
’’حکومت مہاراشٹر کے ٹال مٹول کے رویے پر سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ برہم۔‘‘
’’جانتے ہو اس دن کو، جس کا واقعہ میں نے بیان کیا؟‘‘
’’بتاؤ ملا جی۔‘‘
’’یہ آدمی۔۔۔ یہ آدمی۔۔۔‘‘ شیروانی والے نے نظریں بچاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن سائل اس کے سامنے پہنچ چکا تھا۔
’’میں۔۔۔ پاگل ہوں، خبطی ہوں، یہی کہنا چاہتے ہو؟ یہ غلط ہے کہ میں پاگل ہوں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ میں پاگل ہوتا جا رہا ہوں اور یقین کرو میرے بھائی۔۔۔ اگر یہی طور طریقے رہے تو ایک روز ہم سب۔۔۔ ہم سب۔۔۔‘‘
چند لمحوں کے لئے پھر خاموشی چھائی، مولوی نما شخص نے مجمع سے نکل جانے کا ارادہ کیا تو سوال کرنے والے نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ پلٹا، غصے سے اسے دیکھا اور حقاقت بھر انداز میں اس سے پوچھا، ’’اب کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’اس دن۔۔۔‘‘
’’تاریخ کئی اہم دنوں سے بھری پڑی ہے۔‘‘
’’تب تو۔۔۔ تمہیں ضرور معلوم ہوگا۔ بتاؤ، خدا کے لئے، تاکہ میں پاگل ہونے سے بچ جاؤں۔ بتاؤ وہ کون سا دن تھا؟‘‘
’’مگر یہ مسئلہ کیا ہے؟ تم دیکھ رہے ہو۔ ہم آگ میں جل رہے ہیں اور تم۔۔۔ اس دن کو تلاش کر رہے ہو۔‘‘
’’اس آگ سے ہم کہاں تک بچ پائیں گے۔ یہ آگ برسوں پہلے خود ہم نے لگائی تھی۔ برسوں پہلے ہم نے کسی کا گھر جلایا تھا۔ کسی محترم خاتون کی پسلیاں توڑ دی تھیں اور پہلے قدم کی تسلیمی کے لئے چوتھی منزل پہ کمند ڈالی تھی۔۔۔ یاد ہے؟ وہی آگ آج ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔ اگر اس سے بچنا چاہتے ہو تو اس دن کا پتہ چلاؤ جب نعمتیں ہم پہ نازل ہوئی تھیں۔‘‘
غیرارادی طور پر مولوی نما شخص کی نظریں اسی اخبار کی شاہ سرخی پر مرکوز ہو گئیں۔ ساتھ ہی اس سے ملتی جلتی کئی خبریں اس کی سماعت سے ٹکرائیں جو نیوز بلیٹن میں سن کر ہی وہ گھر سے نکلا تھا۔
’’مجھے معلوم ہے وہ دن کون سا ہے۔‘‘، شیروانی والے نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
’’سچ؟‘‘ سائل کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’ہاں مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’تو پھر بتاؤ۔ مجھے۔۔۔ انہیں۔ ان سب کو۔۔۔ جہاں تک تمہاری آواز پہنچے۔ خدا کے لئے بتا دو کہ یہ آگ ہمارا پیچھا چھوڑ دے ہم عذابوں سے محفوظ رہیں اور۔۔۔ اور نعمتیں ہم پر اتریں۔‘‘
’’افسوس۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.