کالے پیڑوں کا جنگل
سورج ڈوبتے ہی بستی کے اندر کالے پیڑوں کا جنگل نمودار ہو جاتا تھا۔ ان کالے پیڑوں کی آدمی خور شاخیں، آدم زاد کے قدموں کی آہٹ محسوس کرتے ہی آگ کے شعلے بر سانا شروع کر دیتی تھیں اور جب اندھیری رات کا بھیانک سایہ بستی کے طول و عرض میں پھیل جاتا تو زندہ انسانوں کی چہکتی بستی شہر خمو شاں کا نظارہ پیش کرتی تھی۔ خوف کے آسیب نے بستی کے پیرو جواں کے ذہنوں کو مفلوج بنا کے رکھ دیا تھا اور یہ لوگ طرح طرح کی نفسیاتی بیماریوں کے شکار ہو چکے تھے۔ کالے پیڑو ں کی دہشت کی وجہ سے اندھیاری راتوں میں نہ کسی گھر میں روشنی چمکتی تھی اور نہ کوئی زبان اونچی آواز نکال سکتی تھی۔ لیکن! بچے۔۔۔ معصوم بچے۔۔۔ اس خوف و دہشت سے نا آشنا۔۔۔ جب کبھی ماں کی گود میں رونا شروع کرتے تو ماں سر کے آنچل سے ان کے منہ کو بند کر کے رکھتی تا کہ باہر سے کوئی وحشیانہ دستک سنائی نہ دے۔ کوئی بھی انسان گھر سے باہر نکلنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا وراگر کسی فرد کو مجبوراً گھر سے نکلنا پڑتا تو وہ آگ کے شعلوں کی نذر ہو جاتا۔ شب خون کا یہ سلسلہ اس بستی میں کئی دہائیوں سے جاری تھا۔
ایک منحوس رات جب تاجہ بیگم کے دودھ پیتے بچے کو اندھیرے میں بچھونے ڈنک مارا تو وہ در د سے چیخنے لگا۔ بچے کو تڑپتا دیکھ کر رمضان چچا سخت پریشان ہو گیا۔ میاں بیوں نے اسپتال جانے کا مشورہ کیا۔ رمضان چچا نے لالٹین جلائی اور اسے ہاتھ میں لے کر گھر سے باہر نکل آیا۔ وہ تاریکی میں روتے روتے اونچی آواز میں کالے پیڑوں سے فریاد کرنے لگا۔
‘’مجھے اسپتال جانے دو! میرا بچہ درد سے مر رہا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور رمضان چچا کو اپنی لپیٹ میں لے کر بھسم کر ڈالا۔ تاجہ بیگم ابھی گھر سے باہر نہیں آئی تھی۔ ان کے دوسرے بچے یہ اندوہ ناک منظر دیکھ کر نہ رو سکے اور نہ ہی تاجہ بیگم خاوند کی لاش کو دیکھ کر کچھ بول پائی۔ وہ رات بھر سسکیاں لیتی رہی اور پوہ پھٹنے کے انتظار میں تڑپتی رہی۔
صبح کے اجالے میں جب بستی کے لوگ رمضان چچا کی لاش قبرستان میں دفن کرنے کے بعد واپس اپنے اپنے گھر کی طرف لوٹنے لگے تو ایک انجانی آواز نے ان کو روکا۔
‘’عقل کے اندھو کہاں بھاگے جارہے ہو؟ کب تک خود کو دھوکہ دیتے رہو گے؟ اگر اسی طرح آنکھیں بند کرکے اپنی تقدیر کو کو ستے رہوگے تو وہ کالے پیڑ تم سبھوں کو ایک ایک کر کے ختم کر ڈالیں گے۔ ذرا ہوش میں آ جاؤ، اپنی آنے والی نسل کے بارے میں سوچو۔‘‘
سب لوگوں نے جب مڑکر دیکھا تو صدیوں پرانے بلند قامت چنار کے گھنے سائے میں ایک بارعب نورانی چہر ے والے خدارسیدہ بزرگ کو باوقار اور پرسکون حالت میں پایا۔ تما م لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے ہو گئے۔ بھیڑ میں سے ایک شخص نے جرأت کر کے بزرگ سے پوچھا۔
‘’حضرت! ہم لوگوں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی بزرگ غضبنا ک آواز میں بول پڑا۔
‘’ارے نادانو! تمہاری آنکھوں پر غفلت کا پردہ پڑا ہے۔ میں تمہارا ماضی ہوں۔۔۔ وہ شاندار ماضی ،جس پر زمانے کو ہمیشہ ناز رہا۔ میں تمہاری تو رایخ ہوں۔ وہ عظیم الشان تواریخ، جس کی مثال آج تک دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔‘‘
بزرگ کے یہ پرمغز الفاظ سن کر تمام لوگوں کے سرشرم سے جھک گئے۔ لوگوں نے جب بزرگ کو اپنی داستان الم سناکر اسے نجات حاصل کرنے کے لئے دعا کی درخواست کی تو بزرگ نے جلال میں آکر انھیں پھٹکارا۔
‘’یہ مصیبت تمہاری جرم ضعیفی کی سز اہے۔ یہ تمہارے برے اعمال کا بدلہ ہے۔ تم ان کالے پیڑوں کے رکھوالوں کے سرپر اپنے ہاتھوں سے حاکمیت کا تاج رکھتے ہو۔ اپنے اسلاف کے اصولوں کے برعکس ان دوست نما دشمن حاکموں کے اصولوں کی آبیاری کرتے ہو۔ دماغ تمہارا اور سوچ ان کی۔ تم لوگ اپنے ایمان سے آنکھیں چراکر، اپنے ضمیر کو کچل کر ان کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ہو اور انھیں برسوں تک مسند اقتدار پر بٹھا تے ہو۔ اگر تمہیں ان کالے پیڑوں کے شعلوں سے خود کو بچانا ہے تو ان کی ہیبت سے نکل کر اپنی راکھ میں چنگاریاں تلاش کرو۔ کیونکہ یہی چنگاریاں دھکتے شعلے بن کر ان کالے پیڑوں کے جنگل کو راکھ کا ڈھیر بنا سکتی ہیں۔‘‘
خزاں کا موسم تھا۔ بستی کے گردونواح کی پہاڑیوں کے اندر کا لاوا پھٹ پڑا اور سردفضا، فضائے آتشین بن گئی۔ صدیوں پرانے چنار کے سرخ مائل پتوں کو اپنے وجود کا احساس ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے پر سکون چنار، آتشِ چنار کا منظر پیش کرنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.