کلّو
جس دن کلّو رانڈ، اپنے ماموں کے ساتھ منہ کالا کرنے پر محلّے سے نکالی گئی، اُسی دن اتفاقاً مشتری بانو نے اپنے شوہر، حکیم شطاری کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر کراسین تیل پینے کا فیصلہ کرلیا۔ بے چاری مشتری بانو پاکیزہ اور صوم و صلوۃ کی پابند عورت جو کلّو کو بس دور ہی دور سے دیکھا کرتی تھیں، کیا جانتی تھیں کہ ایک دن وہ گشتی اُن کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دے گی۔
کلّو کو پہلی مرتبہ میں نے منجن والے کے تماشے پر دیکھا تھا، جہاں ہر جمعے کی شام ایک موٹا سا آدمی مختلف قسم کے داتاری منجن بیچا کرتا تھا۔ ہر جمعے کو سرِ شام ہی وہ ایک ڈھول والے کے ساتھ آدھمکتا اور پھر اُس کے گرد بچوں اور بڑوں کا مجمع سا لگ جاتا۔ ’’کبھی لکڑی کبھی کوئلہ کبھی دانتن چباتے ہو۔۔۔ لگا لودانت میں منجن اگر آرام چاہتے ہو۔‘‘ جس انداز میں وہ لہک لہک کر اور گا کر منجن کی تعریفیں کرتا، اُس کے آگے ہمارے مستقیم قادری نعت خواں پھیکے پڑ جاتے تھے، کیونکہ منجن والے کی آواز اُن سے زیادہ سریلی اور پرسوز ہوا کرتی تھی۔
کلّو اُس کے منجن کے لیے ماڈل کا کام کرتی تھی۔ اُس کے سیاہ چیچک روپر اُس کی پھٹی ہوئی وحشت زدہ آنکھیں، گھاس کی طرح سوکھے بال، گرد و میل میں اٹا چیکٹ لمبا فراک، پھٹی ایڑیاں اور لمبے ٹیڑھے میڑھے ناخن۔ جیسے غلاظت کا چلتا پھرتا شاہکار تھی وہ۔ مگر ان سب کے باوجود، اُس کے پاس سفید موتیوں کی طرح چمکتے دانت تھے۔ منجن والا کلّو کے منہ کو کھول کھول کر تماشائیوں کو یہ باور کرواتا کہ کلّو صرف اُس کا بنایا منجن استعمال کرتی ہے۔ جب کہ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ کلّو ہفتوں دانت نہیں مانجھتی۔
خیر ہمیں تو اُس کی لگائی نوٹنکی سے مطلب تھا۔ مجمع چھٹنے کے بعد، منجن والا کلّو کو مٹھی بھر چنے اور چند سِکّے اجرت کے طور پر دے دیا کرتا۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ کلّو اسی میں خوش تھی۔ بلکہ دوتین دن تک وہ اترائی سی پھرتی تھی، کیوں کہ یہ کام محلّے کے دیگر رذیل کاموں سے خاصا بہتر تھا۔ راشدہ بھابھی آواز دیتیں۔ ’’اے کلّو ننھے نے ٹٹی کرلی ہے۔ ذرا دھلا دیجو۔ پاخانے میں لت پت پڑا ہے لونڈا اور تو کیسے ننھی بنی، دید ے پھاڑ اُسے دیکھ رہی ہے، ہیں؟ شرم تو نہ آوے تجھے؟ ہاں اُدھر اُس کے نہالچوں کا انبار بھی پڑا ہے، دھوتی جانا۔ دیکھنا پیلے نشان نہ رہ جاویں۔ ڈنڈے سے کوٹنا ضرور۔ مگر ذرا ہلکے ہاتھ سے۔‘‘ کلّو، بغیر چوں چرا کیے کام میں جُت جاتی۔ راشدہ بھابھی اُس کے لیے چنگیر میں دو موٹی جوار کی روٹیاں اور پودینے کی چٹنی جو رکھ گئی تھیں۔ کلّو کے دن بھر کا سامان ہوگیا تھا۔
اُس کے دیگر فرائض میں صغرا کی دادی کی پیٹھ ملنا، صغرا اور منجھلی کی جوئیں اور لیکھیں چننا، بند گٹر میں بدّا مارنا، کوئلے کی ٹال سے من بھر کوئلے کی بوری پیٹھ پر لاد کر لانا، گیہوں پسوانا، بند کوٹھریوں کی سالانہ صفائی کرنا، بیلوں کو چارہ ڈالنا، بکریاں چرا کر لانا، وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ بدلے میں صرف جھوٹا موٹا کھانا اور کوئی پھٹا پرانا کپڑا۔ یہ سب کام کرکے، دکھتی کمر اور چٹختی ہڈیوں کے ساتھ جب وہ ماموں کے گھر جاتی، تو ممانی کی ڈانٹ پھٹکار اور ماموں کے گھونسے لاتیں کھانا بھی اُس کا فریضہ تھا۔ کہ سارا دن کہاں آوارہ کتیا کی طرح منہ مارتی پھرتی ہے۔ گھر کا ایک کام نہیں کرتی۔
کلّو کے لیے، گھر صرف ڈرائنگ کے کاغذ پر بنی ہوئی سرخ چھت اور بہت سے درختوں میں گھرا ہوا ایک مکان تھا جو اکثر ممانی کی لڑکی زہرا بنا کر، اُس میں پنسل سے رنگ بھرا کرتی تھی۔ اُس کا آسمان ہمیشہ نیلا اور اودے بادلوں سے بھرا ہوتا تھا۔ کلّو حسرت سے اُسے تکا کرتی۔ کلّو کے خیال میں گھر صرف کاغذ یا کیلنڈر پر ہوتا ہے، کیوں کہ جہاں وہ دن رات گزارتی تھی، وہاں تو صحن میں لگی زنگ آلود ٹین اور نیچے بِنا پلستر کا ایک فرش تھا۔ اُس پر وہ اپنا میلا کچیلا بوریا بچھا کر لیٹ جایا کرتی۔ ٹین کے سوراخوں سے آسمان پر چمکتے تاروں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتی، ہنستی اور سوجاتی۔ سردیوں میں سکڑتی، بارش میں بھیگتی اور گرمیوں میں جھلستی، کلّو کا وہی ایک سائبان تھا۔
مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ہمارے ہاں خواجہ بابا کی نیاز ہوئی تھی۔ سخت گرمیوں کے دن تھے۔ محلّے کے سارے گھروں میں پلاؤ اور زردہ بھیجنے کے باوجود کچھ بچ رہا تھا۔ اگلے دن دوپہر میں کھانے کے لیے پلاؤ نکالا، تو ذرا لسّن کی بُو اُٹھ گئی۔ کھانا اترنے کا اندیشہ سا ہوا۔ میاں صاحب نے ہاتھ کھینچ لیا اور دسترخوان سے اٹھ گئے۔ بچوں نے منہ بنا کر دودھ روٹی کھالی۔ مجھے فوراً کلّو یاد آئی۔ بڑھکی کے ہاتھوں اُسے بھیج بلوایا۔ کلّو سر کھجاتی دانت نکوستی آدھمکی۔ گیلے اور بدبو دیتے پلاؤ پر وہ مربھکوں کی طرح ٹوٹ پڑی۔ ایک دانہ نہ چھوڑا حتی کہ ہڈیاں تک چوس چوس کھائیں۔ کتنا ثواب ملے گا مجھے۔ پیٹ بھر کر ڈکار مارتی کلّو کو دیکھ کر میں نے سوچا۔ خواہ مخواہ میں کھانا کوڑے میں جاتا۔ کتے بلیاں کھاتے۔ خواجہ بابا کا عذاب اور مول لیتی میں۔ کتنا گناہ ملتا، فاتحہ کے رزق کو ضائع کرتے۔ کھانا کھا کر کلّو نے بے حساب برتن الگ دھو ڈالے اور مہینوں سے بند موری بھی کھول ڈالی۔ مجھے تو اُس کی بدشکلی کے باوجود اُس پر پیار آگیا۔ فوراً بڑھکی کا ایک پرانا ساٹن کا جوڑا جو ذرا ادھڑ سا گیا تھا، اُسے عطا کیا۔ وہیں موری کے پاس ایک چادر کی اوٹ لگا کر اُس نے غسل کیا۔ نیا جوڑا جو پہننے کو ملا تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر جو میں نے سلام پھیرا، تو اُس کے کالے کلّوٹے جسم کی طرف نظر پڑ گئی۔ لا حول ولا قوۃ! صورت شیطان تو بدن رحمٰن۔ بان کی کَسی چارپائی جیسا، لوہے کی طرح ٹھوس جسم لگتا تھا۔ گویا کہ قدِ آدم افریقی مورتی ہو۔ ڈونگے سے پانی سر پر ڈال رہی تھی۔ دو سیاہ چاند اور بھی تن کر گول ہوگئے۔ بالوں کی غلاظت جسم کے ہم رنگ ہو کر اتر رہی تھی اور گھنگھریالے بال مخروطی کولہوں پر کوڑیالے سانپوں کی طرح لوٹ رہے تھے۔ مجھے جلن سی ہوئی۔
بڑھکی کے ابا کئی دن ہوئے مجھ سے اجتناب برت رہے تھے۔ میں بھی لگاتار پانچ بچوں کے بعد کہاں تک اپنی گولائیاں اور مخروطیاں سنبھال پاتی۔ جسم ڈھیلا ڈھالاہوگیا تھا۔ جیسے پرانی ٹاٹ کی بوری، جو بے حد استعمال کے بعد صرف فرش پونچھنے کے کام آتی ہے۔ میں نے بڑھکی کا ساٹن کا جوڑا اٹھا کر واپس رکھ لیا۔ ذرا سا تو اُدھڑا ہے، ہاتھ سے رفو کردیا جائے گا۔ مہنگائی کس قدر ہوگئی ہے، جنگ سر پہ کھڑی ہے، نیا جوڑا خریدنا کوئی مذاق ہے۔ کلّونے بالکل بھی برا نہ مانا۔ اُسی چادر سے جسم پونچھا اور دوبارہ اپنی خلعت فاخرہ پہن کر خیالی پہل دوج کھیلتی نکل گئی۔
اِدھر حکیم شطاری اور مشتری بانوکے بیاہ کو کوئی دس برس ہونے کو آئے تھے ۔۔۔کس دھوم سے وہ انیس برس کی دھان پان مشتری کو بیاہ لائے تھے۔ حکیم کی بارات پر خوب آتش بازی کی گئی، انار چھوڑے گئے اور دلہا دلہن پر ڈھیروں سِکّے اچھالے گئے تھے۔ محلّے میں برسوں اس شادی کا تذکرہ رہا۔ حکیم شطاری اُس وقت کوئی چالیس کے پیٹے میں تھے۔ ہاں، روزانہ کشتے اور نر چھوہاروں کا حلوہ، بکری کے خالص دودھ میں ابال کر پینے سے وہ بہ مشکل تیس کے لگتے تھے۔ یہ سوال بھی اٹھا تھا، کہ حکیم نے اتنی دیر میں شادی کیوں کی؟
میرے میاں نے ایک مرتبہ دبے لفظوں میں بتایا تھا کہ حکیم شطاری لونڈے بازی سے شغل رکھتے تھے۔ والدہ کی ڈانٹ پھٹکار اور والدکی لعن طعن کے بعد الھڑ سی مشتری بانو کو بیاہ لائے۔ مشتری بھی بارہ بھائی بہنوں میں آٹھویں نمبر پر تھیں۔ چپ چاپ حکیم کے لیے گردن جھکادی اور رسی سے بندھی گائے کی طرح سر جھکائے چلی آئیں۔ شادی کے پہلے سال حکیم نے مشتری کو یوں برتا، گویا کسی بچے کا نیا نویلا کھلونا ہو۔ پاجامے میں بندھے اِزار بند کی طرح جسم کے ساتھ ہر وقت ہر گھڑی اُن پر نثار ہوئے جارہے ہیں۔ کبھی اخروٹ کا حلوہ، تو کبھی میٹھے پان۔ کبھی میلے ٹھیلے میں ساتھ لے جانا۔ اور تو اور مشتری بانو اُن کے ساتھ سنیما بھی ہو آئیں، جو کہ اُس وقت مسلمان بیبیوں کے واسطے سوّر کا گوشت کھانے جیسا حرام تھا۔ توبہ توبہ! جب بیاہ کے اُس ہنڈولے میں جھولتے دو برس ہوگئے اور مشتری بانو کا پاؤں بھاری نہ ہوا تو ساس سسر، خاندان والوں، سب کا ماتھا ٹھنکا۔ میاں ٹھہرے خود حکیم۔ دنیا جہاں کے سفوف، شربت، جڑی بوٹیاں اور پھر تھک ہار کر انگریزی دوا بھی دے ڈالی، لیکن مشتری بانو کی گود ہری نہ ہوئی۔ خاندان والوں نے حکیم شطاری کی مردانگی پر شبہ کرنا شروع کردیا، تو آؤ دیکھا نہ تاؤ وہ اپنے گاؤں سے ایک اور جورو کر لائے۔ مشتری بانو دھک سی رہ گئیں۔ جھٹ پٹ اپنا سامان باندھا کہ مائکے کا رستہ لیں۔ دہلیز الانگنے لگیں، تو وداعی کے وقت ضعیف باپ کے کہے روایتی جملے کان میں بازگشت کرنے لگے۔ ’’ڈولی میں جاتی ہو بٹیا۔ اب وہاں سے ڈولا ہی اٹھے۔‘‘ اٹھے قدم کسی ریل کے ڈبے کی طرح چرچرا کر مدھم ہوئے اور پھر تھم گئے۔ دل برداشتہ ہو کر مشتری بانو وہیں حوض کے پاس بیٹھ گئیں۔ آنسوؤں سے وضو کیا اور نماز مغرب کے لیے کھڑی ہوگئیں۔ ’’کاہے کو بیاہی بدیس‘‘ کے اصل معنی آج سمجھ میں آئے۔ جتنا گڑ اُتنا میٹھا۔ اس مقولے پر حکیم صاحب کا ایمان کامل تھا۔ جتنے زیادہ پیسے اُنھوں نے غریب سسر کی ہتھیلی پر رکھے، اتنی کم عمر لڑکی چن کر بیاہ لائے۔ بہ مشکل سترہ کی تھی کم بخت انوری۔ ابھی سکھیوں کے ساتھ گٹے اور بھائی کے ساتھ کنچے کھیلتی ہی تھی کہ سسر کی عمر کے شوہر کے ہتھے چڑھ گئی۔
وہ رات کس غضب کی رات تھی۔ یعنی، ’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔‘‘ مشتری بانو کو کسی پہلو قرار نہ آتا تھا۔ مغرب کے وقت جو مصلّے پر بیٹھیں تو عشاء کا وقت ہوگیا۔ تین، چھ، کہ نو، جانے کتنے وتر پڑھ ڈالے۔ پیر سُن ہوگئے۔ بار بار سجدۂ سہو ادا کرتیں۔ گھبرا کر زور زور سے درود شریف کی تسبیح شروع کردی، مگر میاں کے کمرے سے اٹھتی ہیجانی آوازوں کو نہ دبا سکیں، جو کسی پستول کی گولیوں کی مانند اُن کے جسم میں چھید کیے جارہی تھیں۔ دوکمروں، ایک برآمدے اور بالشت بھر کے صحن پر مشتمل اس گھر میں کاہے کا پردہ تھا۔ دیواریں گویا کاغذ کی تھیں، کیا اندر کیا باہر۔ اندرحجلۂ عروسی سے زیادہ کسی دنگل کا منظر تھا۔ دنگل میں بھی پہلوان برابر وزن و مراتب کے ہوتے ہوں گے، یہاں تو حاکم و محکوم اور ظالم و مظلوم کے درمیان محاذ آرائی تھی۔ کون جیتے گا یہ صاف ظاہر تھا۔ تھوڑی دیر میں سناٹا چھا گیا۔ حکیم کے خراٹے اور انوری کی دبی دبی سسکیاں ابھرنے لگیں۔ مشتری بانو جو ذرا اونگھی بھی نہ تھیں، حی علی الفلاح اور الصلوٰۃ خیرمن النوم سن کر فجر کی رکعت باندھنے لگیں۔ دوبارہ وضو کی چنداں حاجت نہ تھی۔
اگلی صبح حکیم شطاری تو بغیر کسی شرمساری کے، اصلی گھی میں ترتراتے پراٹھے اور پائے نہاری کھا کر مطب کو روانہ ہوئے، لیکن مشتری بانو کو دل کڑا کرکے انوری کے بکھرے ٹکڑے سمیٹنے پڑے۔ برہنہ انوری، خون آلود چادر میں ڈھکی، مردہ چھپکلی کی مانند پڑی تھی۔ پھر یہ روزآنہ کا ہی معمول ہوگیا۔ قیامت جتنی بھی بڑی ہو رفتہ رفتہ انسان اُسے جھیل ہی جاتا ہے۔ حکیم شطاری تو مشتری بانو کو کسی کھوٹے سِکّے یا فالتو سامان کی طرح گھر میں رکھ کر بھول ہی گئے۔ میٹھے پان اور اخروٹ و گاجر کے حلوے اب بھی گھر آتے لیکن صرف انوری کے لیے۔ انوری بدذات بھی اب راتوں کے دنگل میں برابر کی کشتی لڑتی، بلکہ اکھاڑے سے اب انوری کی مسرت آمیز آوازیں حکیم صاب کی کمزور سی ’’نہ نہ مت کرو۔ آج رہنے دو‘‘ والی مدافعت پر بھاری ہونے لگیں۔ لگتا تھا اندر شیرنی اور ممیاتے بکرے کی لڑائی ہورہی ہے۔
مشتری بانو نے اب مسجد سے ہزار دانوں کی تسبیح منگوالی تھی۔ تھوڑے ہی دنوں میں مشتری بانو اور انوری سوکنوں کے بجائے ساس اور بہو لگنے لگیں۔ اور جیسے ہی انوری کے حاملہ ہونے کی شیرینی محلّے بھر میں بانٹی گئی، تمام اہل محلہ اور اہل خاندان نے آکر مشتری بانو ہی کو مبارکبادیاں اور پہناؤنیاں دیں۔ جیسے حکیم شطاری اُن کی جائز اولاد یا داماد ہی تو ہیں۔ بے چاری مشتری بانو، بلکہ بانجھ مشتری بانو! اُس دن تو چوہے مار دوا کھاتے کھاتے رہ گئیں، جب خود اُن کی والدہ، حکیم صاحب اور انوری کے لیے مٹھائی اور نامولود بچے کے لیے نہالچے، کلّوٹ ہاتھ کی سلی گوٹا لگی کنٹوپ لیے چلی آئیں۔ اس کے بعد تو اُن کے لیے چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہی رہ گیا تھا۔ اتنے لاڈ دیکھ کر انوری نے بالکل ہی پیر پھیلا دیے۔ پلنگ پر پڑی صرف کھاتی اور بدن دبواتی رہتی۔ شام کو حکیم صاحب کو آتا دیکھ کر یہ درد اور بھی بڑھ جاتے۔ حمل کے دنوں میں خاص دھیان رکھتی، کہ ساری رات حکیم کا بازو اُس کے پھیلتے نرم سینے پر رہے، تاکہ حکیم اپنا پہلو کہیں مشتری بانو سے نہ گرما لیں۔ مرد ذات کا کیا بھروسہ۔ سرہانے بیٹھاناگ ہی تو ہے جانے کب ڈس لے۔
مشتری بانو اس سانحے کو بھی مشیت ایزدی سمجھ کر جھیل گئیں کہ چلو، گھر میں ننھے کے آنے سے رونق لگی رہے گی۔ لیکن اچانک ایک دن حکیم صاحب کوچوان کو گھر لائے اور چار صندوق، اپنا اگلدان، پاندان اور حاملہ انوری کو سمیٹ آبائی گاؤں کی طرف سدھارے۔ ہومیوپیتھی دواؤں کے غلبے کی وجہ سے اب یہاں اُن کا مطب کچھ مندا ہو گیا ہے۔ پرانے گاؤں میں نیا مطب کھولیں گے اور اسی بہانے والدہ کو پوتے کا دیدار بھی کروائیں گے۔ ان سب باتوں کی مشتری بانو کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ وہ اپنے فیصلے اپنے تک رکھنے کے قائل تھے۔ مردوں کا یہی شیوہ ہوتاہے، بیویو ں کے آگے راز نہیں اگلتے۔ سنتے ہیں کہ مطب چل پڑا۔ آٹھ سال میں حکیم شطاری نے پے در پے تین بچے انوری کو دے کر مردانگی کی مہر لگوالی۔ رہیں مشتری بانو، تو اب تیس برس کی عمر میں وہ پچاس سالہ بڑھیا کا روپ دھارے بیٹھی تھیں، کہ زندگی نے انھیں کلّو رانڈ سے ملوادیا۔
مینہ کی جھڑی لگے وہ پانچویں رات تھی۔ عورتوں نے آٹے کے تھال دہلیز پر الٹ دیے، پنڈتوں نے منتر پڑھے اور ملاؤں نے اذانیں دیں مگر برسات کی جھڑی بیوہ کے آنسوؤں کی طرح لگی سو لگی۔ کلّو اپنے اُسی شاہی بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ ٹاٹ بھیگ کر تر ہوگیا تھا۔ لاکھ پردے باندھ رکھے تھے مگر ہوا کے ساتھ بارش کی بوچھار تن من سب بھگوئے دے رہی تھی۔ کلّو کی ممانی اُس رات مائکے میں ٹھہر گئی تھی۔ باڑھ ٹوٹ کر سیلاب آنے کا بھی اندیشہ تھا۔ لونڈوں کو کمر اور کولہے پر رکھ، وہ اماں کے ہاں نکل گئیں جو کہ پرلا محلہ تھا۔ ممانی کے مائکے والا گھرپکے پتھرکا بنا تھا، جس پر اُنھیں خاصا غرور تھا۔ ماموں ہتھ رکشہ چلاتے تھے۔ اس طوفانی برسات میں کون سواری ملتی۔ نامراد جلد ہی گھر لوٹ آئے۔ کلّو گھنٹے بھر سے گیلے بستر میں کروٹیں بدل رہی تھی۔ آج اُسے لوری دینے والے تارے بھی آسمان پر نہ تھے۔ ماموں کو آتا دیکھ کر وہ سوتی بن گئی۔ جب سے برسات شروع ہوئی تھی موسم کے ساتھ ساتھ ماموں کی نظریں بھی کچھ بدلی بدلی سی تھیں۔ کلّو نے نہ تو قرآن پڑھا تھا نہ اُس کی کوئی تعلیم ہوئی تھی۔ تربیت کا تو پوچھنا ہی کیا۔ پھر بھی دل ہی دل میں وہ بھلا برا اور گناہ و ثواب کے مسائل جانتی تھی۔ ماموں پانچویں پاس تھے۔ قرآن انھوں نے دہرا رکھاتھا۔ مگر مرد کا تو ایک ہی دھرم ہوتا ہے، جس کی عبادت و پوجا پاٹ میں وہ کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔
آدھی رات کو ماموں اُس کے گیلے بستر میں آدبکے۔ بارش اور تیز ہوگئی۔ ہر طرف پانی۔ بدمزہ ہو کر اُسے بازؤں میں اٹھا اپنی مسہری پر لے گئے۔ کلّو کو لگا کہ آخر کار ماموں کو مرحومہ بہن کی یاد آگئی ہے اور اسی وجہ سے ترس کھا کر اُسے ممانی کے بستر پر سلانا چاہ رہے ہیں۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں اُسے پتہ چل گیا کہ اُنھیں مرحومہ بہن نہیں، بلکہ مائکے گئی ممانی کا جسم یاد آرہا تھا۔ ماموں کے گھونسوں لاتوں سے تو وہ واقف تھی ہی۔ اُس وقت اُس زور آزمائی میں دھمکیوں کا بھی اضافہ ہوگیا تاکہ کاروائی کسی طور رکنے نہ پائے۔ رات بھر کڑکتی بجلی اور بادلوں کی گرج چمک میں سب جل تھل ہوگیا۔ اُس رات گاؤں میں آنے والا طوفان تو ٹل گیا مگر کلّو کی زندگی میں باڑھ آگئی۔ صبح سویرے اچانک بارش رک گئی۔ سورج نکل آیا۔ ممانی کے لونڈے نے دودھ کی ہاہاکار مچائی تو ممانی، ایک لونڈا بغل میں دبائے، ایک کولہے پر ٹکائے، ایک کی انگلی تھامے اور ایک کو پیٹ میں سینچے گھر آن پہنچی۔ مسکراتی ہوئی مسہری تک پہنچی تو ماموں بھانجی ہم آغوش بے سدھ سوئے پڑے تھے۔ ماموں تو فوراً جاگے اور کلّو سے یوں منہ موڑ لیا، گویا دشمن ملک کی فوج کا کوئی سپاہی ہو اور سارا رائتہ کلّو فاحشہ پر ڈول دیا۔ ممانی نے اڑلا اڑلا کر گھر کیا، سارا پڑوس اور پھر سارا محلہ سر پر اٹھا لیا۔ بھوکا لونڈا فرش پر ایڑیاں مار مار کے روتا رہا مگرممانی بہری بنیں کلّو پر ساری چوڑیاں توڑتی رہیں۔ طمانچے، تھپڑ اور چپل مار کر اُس کا سیاہ منہ سرخ کر دیا۔ گھبرا کر بھاگتی کلّو پر کھڑاویں کھینچ ماری تو پیشانی سے خون ابل پڑا۔ ’’اری گشتی، کلموہی۔ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر بچے کھاتی ہے۔ تو تو اپنے ہی ماموں کو کھانے بیٹھ گئی۔‘‘ کلّو نے نگاہ اٹھا کر ماموں کی جانب دیکھا کہ شاید اب انھیں مرحومہ بہن یاد آجائے اور وہ اُسے بچالیں، لیکن ماموں نظریں پھیر، یوں معصوم بنے کھڑے تھے گویا ماں کے پیٹ سے جن کر انھیں کچھ ہی گھنٹے ہوئے ہوں۔ بہرحال ماموں اور ممانی نے اُسے محلہ بدر کرکے ہی دم لیا۔ ماموں کو ممانی کی اس ’’کلّو نکالو‘‘ مہم میں برابر کا، بلکہ بڑھ چڑھ کر یوں بھی ساتھ دینا پڑا کہ مبادا کل کو وہ ساری حقیقت ممانی یا کسی اور سے نہ جڑ دے۔ ایسی آوارہ اور ٹکیائی لونڈیوں کا بھروسہ ہی کیا؟ حاملہ ہونے کے باوجود ماموں کو اُس رات ممانی سے اظہار محبت طوہاً کرہاً کرنا ہی پڑا۔ تو جس دن کلّو رانڈ اپنے ماموں کے ساتھ منہ کالا کرنے پر محلّے سے نکالی گئی، اتفاقاً اُسی دن مشتری بانو نے حکیم شطاری کی بے وفائی سے بددل ہو کر کراسین تیل پینے کی ٹھانی۔ تنہائی کے عذاب سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ سالوں کی عذاب ناک تنہائی کاٹنے کے بعد آج مشتری بانو نے اس کا خاتمہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ دن بھر بچے قرآن پاک کا سبق لینے آتے۔ عورتیں اپنے پوشیدہ اور ظاہرامراض کے بارے میں اُن سے صلاح و مشورہ لیتیں۔ مجنوں اور مرگی کے مریضوں پر چھو دم بھی کرنے لگی تھیں۔ مگر یہ سب دن بھر کا جنجال تھا۔ رات آنے سے پہلے ہی اُنھیں وحشت آلیتی۔ کبھی بہشتی پانی کی مشک لیے اندر تک کھنکھار کر آتا، تو اُس کے کسرتی بدن اور بازوئوں کی مچھلیوں کا ذہن میں جھپاکا سا ہوتا۔ توبہ و استغفار کی تسبیح شروع ہوجاتی۔ اور تو اور ایک دن مائکے سے بڑی آپا کا داماد، کسی کے مرنے کی خبر لایا، تو اُس کے جانے کے بعد فضا میں ابلتی مردانہ خوشبو کو دیر تک سونگھتی رہیں۔ نظر بچا کے اُس کا جھوٹا پانی بھی غٹاغٹ پی گئیں۔ پھر تو بہ کا سلسلہ کوئی ہفتے بھر تک چلا۔
محرّم کا مہینہ تھا۔ تھک گئیں تھیں اس اجاڑ اور گنہ گار زندگی سے۔ اس سے پہلے کہ شیطان اُن پر پوری طرح غالب آئے، اس بانجھ ناشدنی زندگی کا خاتمہ نہ کرلیا جائے؟ یہ سوچ کر مٹی کے تیل کی بوتل دل کڑا کرکے اٹھالی۔ آنکھیں میچ کر ابا مرحوم، اماں جنتی، تمام بہنوں بھائیوں، بھانجے بھتیجوں، حکیم شطاری، انوری، یہاں تک کہ اُن کی آل اولاد کے لیے تک بے شمار دعائیں کر ڈالیں۔ اس حرام موت کے لیے پہلے ہی تہجد میں اللہ سے معافیاں مانگ چکی تھیں۔ پھر خیال آیا کہ اُن کی موت کی خبر سن کر جو پڑوس کی نیک بیبیاں گھر آئیں گی، تو گھر صاف ستھرا نہ دیکھ کر کتنی باتیں بنائیں گی؟ سارا دن گھر دھویا۔ نئی کروشیا کی چادریں پلنگ پر ڈالیں۔ باورچی خانے میں تھا ہی کیا پھر بھی جو کچھ اناج، اچار، پاپڑ، مسالے تھے، فقیر کی جھولی میں ڈال دیے۔ حیران سا ہندو فقیر پوچھ بیٹھا، ’’رام رام! بٹیا کہیں سفر پہ جارہی ہو؟‘‘ بولیں، ’’ہاں لمبے سفر پر۔‘‘ فقیربولا، ’’واپسی کب تک ہوگی؟‘‘ ڈبڈباتی آنکھوں اور رندھے ہوئے گلے سے بولیں، ’’پتہ نہیں‘‘ اور ٹاٹ کا بھاری پردہ گرادیا۔ برتن مانجھے، جالے جھاڑے، ٹین کے چھوٹے سے پچکے ہوئے ٹرنک سے نکاح کا محضر نکل آیا۔۔۔ اُسی کو اوڑھ لیا۔ کان میں خود بہ خود ڈومنیوں کا گایا ہوا گیت، ’’کاہے کو بیاہی بدیس، رے لکھی بابل مورے‘‘ گونجنے لگا۔ مٹی کے تیل کی بوتل ہاتھ میں اٹھائی کہ اچانک دہلیز پر کوئی دھب سے گرا۔ دل بولا کہ دیکھوں کون ہے، دماغ بولا تمھیں کیا! تم تو دنیا چھوڑ چلی ہو۔ بھاڑ میں جائے گرنے والا۔ اسی کشمکش میں تھیں کہ دہلیز سے آواز آئی، ’’پانی! پانی!‘‘ دل بولا، ’’کیسی یزید ہو۔ محرّم میں پیاسے کو پانی نہ دیتی ہو۔‘‘ بے اختیار کروسین کی بوتل چھوڑ، چمکتے کٹورے میں پانی لے آئیں اور نیم مردہ کلّو کو پلانے لگیں جو زمین پر کسی لنگڑی گائے کی طرح ڈھیر تھی۔ جی ہاں ! محلّے پار سے لڑھکتی، لنگڑاتی، بھوک سے بلکتی اور پیاس کے مارے العتش العتش کرتی آوارہ، فاحشہ، پلید اور دیدہ ہوائی کلّو رانڈ پاکیزہ مشتری بانو کی دہلیز پر آن گری تھی۔ یہ بھی مشیت ایزدی تھی۔ بس پھر کیا تھا، تقدیر سے زیادہ تعذیر کی ماری یہ دو عورتیں ایک دوجے کے جینے کا سہارا بن گئیں۔ جس کروسین تیل کو پی کر مشتری بانو جان دینے چلی تھیں اُسی کو جلا کر رات کی ہنڈیا پکائی گئی۔ کیونکہ کلّو اور وہ بوجہ دودن کے فاقوں سے تھیں۔
صبح ہونے پر مشتری بانو نے دیکھا کہ کلّو کے تکیے پر تو جوئیں رینگ رہی ہیں۔ بڑی کراہت آئی۔ جی میں آیا کہ اُسے کِھلا پلا کر چلتا کریں لیکن قدرت کے بھیجے ہوئے شیطان نما فرشتے کو کیوں کر رخصت کرتیں۔ سوچا اللہ کی آزمائش ہے انھیں اس میں پورا اترنا چاہیے۔ بچے ہوئے مٹی کے تیل کو اُس کے گندے سندے بالوں میں ڈال کر صدیوں سے بسی جوؤں کا خاتمہ کیا۔ گٹھریوں کی صورت باندھا گیا سامان کھولا گیا۔ جس میں ایک گھسی ہوئی سرخ صابن کی ٹکیا بھی رہ گئی تھی۔ کم بخت کو نہانے بھیجااور خود اتنی دیر میں قرآن پڑھنے آئے بچے کو بھیج، پرچون والے سے ضروری سامان منگوایا۔ جوار کی روٹیاں اور لہسن پودینے کی چٹنی پھرتی سے سل پر پیس ڈالی۔ ساتھ پیاز کی ایک ڈلی کاٹ لی کہ عرصے بعد کوئی مہمان گھر آیا ہے۔ دستر خوان بھرا بھرا لگے۔ سہہ پہر کا وقت، کوئل کی کوک اور بارش کے بعد کی ہوا جو صندل کے جنگل سے گزر کر وہاں پہنچ رہی تھی۔ ماحول عجیب خوبصورت ہوگیا اور کھانا شروع ہوا۔
کلّو، مشتری بانو سے ذرا پرے، چٹائی چھوڑ ننگے فرش پر بیٹھی۔ مشتری بانو نے اپنا زرد اور سیاہ چھینٹ کا پھول دار لامبا کرتا اور تنگ پاجامہ اُسے نکال کردیا تھا۔ کلّو کا قد کاٹھ اچھا تھا۔ کُرتا ذرا پھنسا پھنسا سا رہا خاص کر سینے کی طرف سے۔ مانگ تانگ کر کھانے والوں کی ہڈی بوٹی گداز ہی ہوتی ہوگی یا پھر یہ کلّو کی اٹھتی جوانی کا قصور تھا، جو وہ مشتری بانو کی دھان پان قمیض میں سما نہیں پارہی تھی۔ جو بھی ہو مشتری بانو کے گھر اور زندگی میں گویا بہار آگئی۔ کلّو کے سیاہ گھونگریالے بالوں میں سرسوں کا خالص تیل پڑا، ناخن کاٹے گئے۔ پھٹی ایڑیوں میں مکھن لگایا گیا اور بدن سے میل کی بتیاں اتریں، تو اندر سے سانولی سلونی کلّو نکھر کر باہر نکل آئی۔ کم بخت بلا کی پھوہڑ۔ نہ آٹا گوندھنے کا ہنر تھا نہ کپڑے دھونے کا سلیقہ تھا۔ پکانا تو بہت دور کی بات ہے۔ بشیر حلوائی کے دو لونڈے مشتری بانو سے قرآن پاک کا سبق لیتے تھے۔ ہدیے کے طور پر روزانہ آدھ سیر دودھ اور مہینے کے مہینے سیر بھر اصلی مکھن آجاتا تھا۔ پہلے تو مشتری بانو اُسے سڑا کر پھینکا کرتی تھیں یا قریب کے ایک چھوٹے سے مندر میں شیولنگ کو بھوگ لگا آتی تھیں۔ مندر اور مسجد پاس پاس ہی تو تھے۔ عبدالرحمٰن بھجن پر جھوما کرتے تھے اور رام لعل میلاد النبی میں پہلے کی صفوں میں بیٹھا، نعتوں پر گردن ہلاتا اور واہ واہ کرتا۔ محرّم تو سب کا ہی سانجھا ہوتا تھا۔ کیا سنی، کیا شیعہ، کیا برہمن، کیا کھتری۔ لیکن اب مشتری بانو مکھن کو پگھلا کر اُس دیسی گھی سے حلوہ بناتیں۔ کبھی چنے کی دال کا، کبھی مونگ کا اور کبھی سوجی کا۔ ترمال کھا کر کلّو کی جوانی اور بھی سوختہ ہونے لگی۔ اب اس کی تپش مشتری بانو تک آنے لگی۔ کلّو نے جھوٹ بولنا سیکھا ہی نہ تھا۔ اماں کی گود سے ماموں کی آغوش تک کی ساری کہانی مشتری بانو کے پہلو میں لیٹ سنا ڈالی۔
مشتری بانو کے دل کے کتب خانے میں بھی تو من من بھر کی کتابیں قید تھیں، جن پر زندگی کی ساری حکایتیں نقش تھیں۔ وہ دل جوان حکایتوں کو سمیٹے اور سانحوں کو سہتے بھاری سا ہوچلا تھا، اب کلّو کو سب سنا کر پھول سا ہلکا ہوگیا۔ کسی دکھ اور مسئلے کا شائبہ تک نہ رہا۔ عورت کسی کے آگے جب من ہلکا کرتی ہے یا اپنا مسئلہ کسی کو سناتی ہے وہی اُس مسئلے کا حل بھی ہوتا ہے۔ گویا گھن لگے اناج کی بوری کسی بہتے دریا میں بہادی۔ بوری بھی خالی ہوگئی اور دریا کا بھی کچھ نہ بگڑا۔ دونوں دن رات باتیں کرتیں۔ قرآن کا سبق لیتے بچے ٹکر ٹکر دونوں کو دیکھا کرتے۔ اب راتیں بھی اتنی لمبی نہ رہی تھیں۔ کلّو کی شکل میں دوسراہٹ جو آگئی تھی۔ کلّو کو بھی ململ کا دوپٹہ پہنا کر وضو سکھایا گیا اور اُس کی بسم اللہ کی گئی۔ کلّو اور بسم اللہ! جس نے سنا دانتوں تلے انگلی داب لی۔ خود مشتری بانو نے دو بڑے بڑے سیر بھر کے لڈو بنا کر اُس کے ہاتھوں میں رکھے۔ نیا سرخ ابرق کا دوپٹہ اوڑھایا۔ بچے خوب ہنسے۔ کلّو کافی دن آموختہ لیتی رہی۔ امور خانہ داری میں بھی برائے نام حصہ لیا لیکن مشتری بانو بھولی مخلوق نہیں۔ جانتی تھیں کہ کلّو ان سب زنانہ کاموں کے لیے نہیں تھی۔
دو تین ہفتوں میں کلّو نے باہر جانے کی تگ و دو شروع کردی۔ وہ کب عادی تھی کہ دن کے آٹھوں پہر گھر پر رہے۔ اُسے تو لٹو چلاتے، پتنگ اڑاتے لڑکے بالے دیکھنا تھے یا پھر لوہار کے ہاں کی دھونکنی، کولہو کے گھومتے اندھے بیل، ریل کی پرانی پٹریاں، جنگل جلیبی کے درخت اور پھر منجن والا۔ اُس کی تو وہ دھن دولت تھے۔ کلّو کو گھر میں بند پہلے وحشت، پھر گھٹن اور پھر بیزارگی ہونے لگی مگر مشتری بانو نے فی الحال اُسے گھر پر ہی رہنے کی تنبیہ کی۔ پہلے وہ اپنی وحشت زدہ آنکھیں پھاڑے، مردوں کی طرح ٹانگیں کھول بڑے بڑے قدم لیتی چلا کرتی تھی۔ مشتری بانو نے اُسے بیبیوں کی طرح چلنا سکھایا، بلکہ سکھانے کی کوشش ہی کی۔ کلّو موم کی ناک تو نہ تھی کہ جیسے چاہو موڑ لو۔ کلّو کو سب کچھ میسر تھا۔ پیٹ بھر کھانا، حلوے مانڈے، عزت سائبان، مگر اُسے پھر بھی کسی چیز کی کمی تھی۔ یہ چیز کیا تھی، وہ فی الفور جان نہ سکی۔ ایک دن صحن میں مشتری بانو نہا رہی تھیں۔ برسات کے بعد جاڑے کے دن آرہے تھے۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوگئی تھیں۔ غسل خانے کے نام پر صحن کے ایک کونے میں، مشتری بانو نے پرانی ساڑھی باندھ کر نہانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ برسوں پہلے حکیم شطاری اور انوری بھی یہیں غسل جنابت لے کر مشتری بانو کے سینے پر سانپ لوٹایا کرتے تھے۔ اب برسوں سے وہ اکیلی تھیں۔ دروازے پر محض ٹاٹ کا بھاری پردہ تھا۔ قرآن پڑھنے والی کسی بچی کو پہریداری پر بٹھا کر وہ بے دلی سے جھٹ پٹ نہا لیا کرتی تھیں کہ کوئی اچانک نہ آجائے۔ اب کلّو اُن کی پہریدار تھی۔
غسل خانے میں تھا کیا۔ ایک پیتل کا بھاری دیگچہ ہی بالٹی کا کام دیتا تھا۔ برسوں پہلے اماں نے جہیز میں یہ سوچ کر دیا تھا، کہ بیٹی اس دیگچے میں بڑی بڑی ضیافتوں کا پلاؤ زردہ بنوائے گی، لیکن اب بہشتی ایک دن آئے ایک مرتبہ اس بڑے سے دیگچے میں پانی گرا جاتا تھا جو دو دن کے لیے کافی تھا۔ انگیٹھی پر گرم پانی اونٹ رہا تھا۔ بادام کی کھلی، انولہ، ریٹھا اور بیسن۔ یہی غسل کے کل لوازمات تھے۔ صابن کی ٹکیہ خاص مہمانوں کے آنے پر سامنے رکھی جاتی تھی۔ کلّو کو آواز دی کہ اور گرم پانی لے آ۔ خود سردی کے مارے ٹھٹھر رہی تھیں۔ موسم ابرآلود ہو رکھا تھا، خنک اور نشیلا۔ کسی بدمست شرابی کی آنکھوں کی طرح۔ کلّو ’’ابھی لائی بانو بیگم‘‘، کی آواز کے ساتھ گرم پانی کا بگونہ لیے بے دھڑک اندر چلی آئی۔ مشتری بانو اور سمٹ گئیں۔ کلّو جاتے جاتے بولی۔ ’’بانو بیگم پیٹھ مل دوں؟ مجھے ٹوکتی ہیں اپنی پیٹھ تو دیکھیں، میل کی بتیاں نکلیں گی اس سے۔ جھانواں دیں مجھے۔‘‘ مشتری بانو شرم سے دہری ہوتی ہوئی بولیں، ’’رہنے دے، مجھے عادت نہیں۔‘‘ انھیں یاد آیا کہ کوئی چھ برس سے کسی نے اُنھیں جھوٹے منہ بھی چھوا نہیں تھا۔ انوری کے آنے کے بعد سے تو گویا اُنھیں سلیمانی ٹوپی پہنا کر عدم کردیا گیا تھا۔
حکیم کے سامنے وہ سارے کام کرتی پھرتیں، لیکن مجال ہے جو بے وفا شخص کبھی اُنھیں بھولے سے چھولیتا۔ کسی بہانے ہاتھ لگالیتا۔ کیا ہوا جو بانجھ تھیں۔ کیا بانجھ عورت کا دل نہیں چاہتا کہ اُس کا مرد اُسے پیار کرے؟ کیا عورت صرف اولاد فراہم کرنے کے لیے تخلیق کی گئی تھی؟ من سے چیخ کی صورت اٹھتے سوال وہ کس اندھے، بہرے، گونگے سے پوچھتیں؟ پھر انھیں یاد آیا کہ چھ برس پہلے، حکیم شطاری نے پل بھر کو اُن کا ماتھا چھوا تھا۔ وہ بھی معیادی بخار دیکھنے کی صورت میں۔ کسی اپنے کا لمس تو گویا جادو کی پڑیا کی طرح، انسان کے رگ و پے میں دوڑ کر اُس میں بجلیاں سی بھرجاتا ہے۔ یہی بجلی اس وقت مشتری بانو کے پورے جسم میں کوند رہی تھی۔ کلّو نے جواب کا انتظار کیے بغیر اُن کی پیٹھ ملنا شروع کردی۔ صغرا کی دادی کی پیٹھ مل مل کر اُس نے بڑھیا کو جوان کردیا تھا، مشتری بانو تو ابھی تیس کی بھی نہ ہوئی تھیں۔ پھر تو یہ معمول ہی بن گیا۔ وہ مشتری بانو جو صرف جمعے کے جمعے نہایا کرتی تھیں اب ایک دن بعد ہی غسل کا اہتمام کرنے لگیں۔ جاڑا ہو یا کپکی چھوٹے انھیں اس کی پرواہ نہ رہی تھی۔ ایک دن کلّو پنساری کے ہاں سے ابٹن بھی لے آئی۔ پھر کیا تھا، مشتری بانو کی چمپئی جلد چندن سی چمکنے لگی۔ ایک رات دونوں ایک پلنگڑی پر سوئیں تو اُن کی سمجھ کے مطابق شیطان کلّو کا روپ دھار کر آگیا۔ ساری رات شیطان سے غضب کا معرکہ ہوا۔ سوئی ہوئی شیرنی بپھر گئی اور شیطان کی خوب خبر لی۔ فجر میں موذن حی علی الفلاح اور الصلوٰۃ خیر من النوم پکارتا رہا، مگر مشتری بانو بے سدھ میٹھی نیند سوتی رہیں۔ دنیا مافیا سے بے خبر۔ ایسی نیند انھیں اپنی سہاگ رات کے بعد آج نصیب ہوئی تھی۔ کلّو کو بھی قرار سا آگیا۔ اس گھر اور زندگی میں جس چیز کی کمی اُسے شدت سے محسوس ہورہی تھی، شاید یہ وہی تھی جو اب پوری ہونے لگی۔
صبح غسل جنابت کے بعد مشتری بانو نے فٹافٹ اصلی گھی میں ترتراتے، گیہوں کے آٹے کے پراٹھے، دیسی انڈوں کے آملیٹ کے ساتھ کلّو کو پیش کیے۔ مشتری بانو شرمائی سی آنکھیں چراتی رہیں۔ ایک ہاتھ سے کلّو کے لیے پنکھا بھی جھلتی رہیں۔ کلّو نے بھی خوب مردانہ شرارتیں کیں۔ اور ایک بڑا سا نوالہ بنا کر مشتری بانو کے منہ میں ٹھونس دیا۔ دونوں کے قہقہے بلند ہوگئے۔ قہقہے اتنے بلند تھے کہ میرے گھر تک آرہے تھے۔ نگوڑ ماری کلّو رانڈ۔ ضرور کوئی گندی بات کی ہوگی اُس اللہ والی سے۔ بے شرم کہیں کی۔ مگر میں حیران ہوں کہ مشتری بانو، بجائے اُسے گھر سے نکالنے کے خود بھی ہنسی ٹھٹھہ کررہی ہیں۔ پہلی بات ایسی آوارہ چھنال کو گھر میں رکھنے کی ضرورت ہی کیا تھی، جو سگے ماموں کے ساتھ منہ کالا کرسکتی ہے وہ اچھال چھکا تو جو نہ کرے کم ہے۔ خیر ہمیں کیا۔
کل ہی باسی سالن کے عوض، میں نے کلّو سے کہا تھا کہ آکر مرغیوں کا ڈربہ صاف کردے۔ صاف منع کردیا ملکۂ نورجہاں نے، کہ بانو نے منع کیا ہے باہر کے کام کرنے کو۔ ہونہہ! ’’بانو‘‘ تو ایسے کہتی ہے جیسے اس کی بیگم ہوں وہ۔ اے بہن، دیکھتی ہوں کتنے دن یہ خدا ترسی اور پیار و محبت چلتے ہیں۔ مگر اُن دونوں کا یہ سمبندھ تو دن بہ دن گہرا ہوتا چلا گیا۔ مشتری بانو تو ٹھونٹ بڑھیا سے گلاب کا تازہ کھلا پھول بنتی چلی گئیں۔ کلّو کسی کنجڑے سے ڈھولک اٹھا لائی۔ دونوں مل کر شام کو امیر خسرو کے گیت گاتیں، پہلیاں بجھواتیں، بچوں سے پوچھتیں۔ ’’بھلا بتاؤ‘‘، کلّو شوخی سے پوچھتی، ’’اس محلّے بلکہ پورے گاؤں کی سب سے حسین عورت کون ہے؟‘‘ ’’اکرام کی دلہن‘‘، ’’سردارنی‘‘، ’’گنگوبائی۔۔۔‘‘ بچے طرح طرح کے نام دیتے۔ ’’اونہوں‘‘ کلّو آنکھ دبا کر کہتی، ’’اس گاؤں بلکہ پورے قصبے کی سب سے حسین عورت ہے ہماری بانو بیگم۔‘‘ ہاہاہا۔ بچے ناسمجھی اور سمجھی میں قلقاریاں مارتے اور مشتری بانو شرم سے دہری ہو کر وہاں سے اٹھ ہی جایا کرتیں۔ میری بڑھکی کو بٹھا کر مولانا رومی اور شمس تبریز کی کہانی سنائی اور کہا کہ وہ دونوں رومی اور تبریز ہیں۔ توبہ توبہ! ملعون عورتیں۔ خوفِ خدا بھی نہیں ان کو۔ کہاں مولانا رومی اور کہاں یہ ملعونہ؟ ’’بہن دال میں کچھ کالا ہے‘‘، اُس دن بلقیس اور میں سر جوڑ بیٹھے۔ بڑھکی کو میٹھا برس چڑھا تھا تو بلقیس مبارک باد دینے چلی آئیں۔ ’’بھئی ایسی محبت تو ہم نے میاں بیوی میں نہیں دیکھی۔ شیروشکر۔ دونوں لیلیٰ مجنوں کی طرح ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ پتہ کرو کہ آخر معاملہ ہے کیا؟‘‘ ’’تمھیں کیا۔‘‘ بلقیس تو سدا کی غبی تھی۔ کند ذہن اور کوڑھ مغز۔ اُس کے منہ میں بات ڈالنی پڑی تاکہ محلّے بھر میں جاکر ڈھنڈورا تو پیٹے۔ ’’ارے مجھے کیا؟ تم بھی بالکل بھولی ہو۔ پرسوں غوث کی اماں کا انتقال ہوا۔ برسوں سے سب مُردوں کی غسالنی مشتری بیگم تھیں۔ ان کو بھیج کہلوایا تو مشتری بانو کے بجائے کلّو پردے سے کسی غنڈے کی طرح منہ نکال کر بولی، کہ جاؤ جاؤ اب بانو بیگم ایسے گھٹیا کام نہیں کریں گی۔‘‘ بلقیس نے استعجاب میں ناک پر انگلی رکھ لی۔
’’لو اور سنو۔ حکیم شطاری کے جانے کے بعد اس بانجھ عورت کا ہم اہل محلہ نے خیال کیا ہے کہ نہیں؟ جب بڑھکی نے قرآن ختم کیا۔ تو خود میں نے بروکیڈ اور کتان کے جوڑے ان کو ہدیے میں دیے۔ بہشتی پانی گراتا ہے پیسہ نہیں لیتا۔ بڑی اماں بی، گھر کی پلی مرغیوں کے انڈے ان کو بھجواتی ہیں۔ اور ان کی اونچی ناک تو ذرا دیکھو؟ کہ اب یہ مردے نہیں نہلائیں گی۔ قرب قیامت کی نشانیاں ہیں بھئی۔ اے بھیا!‘‘ بلقیس کو میری سرگوشی سننے کے لیے میرے قریب ہونا پڑا۔ ’’میں تو کہوں دونوں میں کچھ رام لیلیٰ چل رہی ہے۔ بڑھکی قرآن دہرا رہی ہے۔ اُس نے خود دیکھا کہ سہ پہر کو بچوں کو لمبا سبق دے کر دونوں کوٹھری میں گھس جاتی ہیں اور مشتری بانو جب باہر آتی ہیں تو۔۔۔ اب کیا بتاؤں، اللہ معاف کرے ! بال الجھے ہوئے، پسینے میں شرابور، آنچل کہیں تو دامن کدھر، پان کھاتے ہونٹوں کی لالی ادھر اُدھر پھیلی ہوئی۔‘‘ بلقیس کچھ نہ سمجھتے ہوئے پان کھاتی رہی۔ ’’کسی بات پر منہ ماری ہوجاتی ہوگی۔ آخر کو دو عورتیں گھر میں رہیں تو، تُو تُو میں میں ہو ہی جاتی ہے۔ دو برتن بھی تو بورچی خانے میں کھڑک ہی جاتے ہیں۔ اچھا میں چلی۔ عبدالصمد کے باوا راہ دیکھتے ہوں گے میری۔‘‘
میں نے تو ماتھا پیٹ لیا۔ کاٹھ کی اُلو۔ بڑھکی کی خوشی پر بنائے موتی چور کے لڈو اور ملیدہ کھا کر چلتی بنیں اور میں کسی کمینے کھوجی کی طرح کڑیاں ملاتی، ساری دوپہر بیٹھی رہی۔ اُس دن میں نے خود دیوار کی اوٹ سے دیکھا تھا، کہ نہاتے نہاتے مشتری بانو یوں ہی ململ کا دوپٹہ اوڑھے کلّو کو مارنے دوڑ رہی تھیں۔ کلّو ہی نے یقیناً کوئی شرارت کی ہوگی۔ دونوں لڑتے لڑتے اندر کمرے میں گھس گئیں۔ بہت کان لگا کر سنا میں نے۔ اندر بڑی خاموشی تھی۔ اے بھیا! ان کالے کرتوت کا کون گواہ، کس عدالت میں مقدمہ کریں۔ یہاں تو دماغ ہی جج ہے اور دل مدعی۔ انھی شرمناک کرتوت کی وجہ سے سنا ہے انگریزوں اور جرمنوں نے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ مصیبت پہ مصیبت۔ اناج سونے کے بھاؤ اور سونا ہیرے کے مول بکنے لگا ہے۔ اس تنگ دستی میں عجیب نفسا نفسی کا عالم ہے۔ کون کس کی خبرگیری کرتا پھرے۔ بھاڑ میں جائیں یہ کلّو اور مشتری بانو۔ سوچتی ہوں اس جمعرات سیدہ بی بی کی کہانی سننے کے لیے سات پڑوسنوں کو بلوا لوں۔ سر سے بلائیں ٹلیں گی۔ یا پھر آیت کریمہ کا ورد کروالوں؟ جو بھی کرواؤں ان دونوں کلموہیوں کو ہرگز نہ دعوت دوں گی۔ ناپاک عورتیں !
مشتری بانو اور کلّو دنیا اور دنیا والوں کے ہر غم سے بے نیاز، جنت کے مزے لوٹ رہی تھیں۔ دونوں ہنستیں تو گھنٹوں ہنستیں۔ گیت گاتیں، پہل دوج اورگٹے کھیلتیں۔ ایک آدھ مرتبہ سنیما میں دیوداس بھی دیکھ آئیں۔ کلّو اُن کے لیے روزانہ موتیا اور چنبیلی کے گجرے گوندھتی۔ ٹال سے لکڑی یا کوئلہ لاکر دیتی۔ گھر پر دو بکریاں اور مرغیاں رکھ لی تھیں۔ بکریوں کو جنگل میں چرانا اور ڈربے صاف رکھنا کلّو کی ذمہ داری تھی۔ حکیم شطاری کی چار خانے والی دو لنگیاں فضول پڑی تھی۔ لمبے سے کرتے پر رنگین لنگی پہن کر کلّو بالکل کرتار سنگھ لگتی۔ بالوں کا چونڈا سا سر پر رکھ لیتی تھی۔
ایک دن بہشتی نے کلّو سے دست درازی کرنے کی کوشش کی۔ کلّو سے پہلے مشتری بھوکی چیل کی طرح اُس پر جھپٹیں اور بہشتی کو لنگوٹی اٹھائے بھاگتے بنی۔ اُس کے بعد کلّو سے خفا ہوگئیں کہ وہ ہرجائی ہے۔ بہشتی نے خواہ مخواہ تو نہیں اُس پر میلی آنکھ رکھی۔ کلّو خوب ہنسی اور گدگدی کرکے اور ناٹک دکھا کر مشتری بانو کو منایا۔ پھر برسوں سے آتے بہشتی کا آنا بند ہوگیا، اب کلّو خود مشک اٹھا کر دور کنوئیں سے ضرورت کاپانی بھر لاتی تھی۔ دونوں پھر پیار کے ہنڈولے میں جھولنے لگیں، کہ ایک دن گرتے پڑتے، مدھم، بلکہ لنگڑی چال چلتے حکیم شطاری چلے آئے۔ بال اڑ کر گنج نمایاں ہوگیا تھا جسے ترکی ٹوپی میں چھپا رکھا تھا۔ ظہر کی نماز کے لیے وضو کو ٹوپی اتاری تو ایک گنجا سا مخنی بوڑھا سامنے تھا۔ سارا طنطنہ وقت کی بارش میں دھل کر ذائل ہوچکا تھا۔ کمر اور کاندھے جھک کر کسی پرانے درخت سے مماثل تھے۔ سامنے کے دانت گر چکے تھے، مسوڑھے سیاہ۔ جانے کون کون سی اندرونی اور ظاہری بیماریوں میں مبتلا تھے مگر مرد کی جھوٹی شان اور آن بان اب بھی قائم تھی۔ کمر خمیدہ مگر گردن اب بھی مردانہ تکبر سے اکڑی ہوئی تھی۔ جیسے اچانک گئے تھے ویسے ہی بغیر اطلاع کے آن دھمکے۔ وہ اپنے فیصلے اپنے تک ہی رکھنے کے عادی جو تھے۔ نیک بی بی مشتری بانو نے ماحضر سامنے رکھا۔ کھا کر وہیں صحن میں بچھے تخت پر، گاؤ تکیے کے سہارے لیٹ کر گھڑی بھر میں سو گئے۔ جانے کتنے سالوں کی تکان تھی جو اپنے گھر آتے ہی اتر گئی تھی۔ تخت کے اوپر چنبیلی کا منڈوا تھا اور نیم نے سایہ کر رکھا تھا۔ مشتری بانو نے حسب عادت ہاتھ کا پنکھا اٹھایا، جس پر کشیدہ کاری کاباریک سا سرخ غلاف چڑھا تھا۔ کنارے روپیلی گوٹ تھی۔ چھوٹے چھوٹے آئینے الگ ٹانک رکھے تھے۔ حکیم صاب کو ہوا جھلنے لگیں۔ خود بہ خود پرانی عادات کے مطابق سر پر آنچل بلکہ ہلکا سا گھونگٹ ماتھے تک آگیا۔ بہت پوچھنے پر حکیم شطاری نے اُگلا تھا کہ انوری تین بچے چھوڑ کر، اُن کے ایک ہٹے کٹے مریض جو کہ انگریزوں کی فوج میں ملازم تھا، کے ساتھ بھاگ گئی۔ کم بخت کے منہ کولہو لگ گیا تھا۔ بات دراصل یہ تھی کہ غریب کب تک پرانے گلے سڑے پھل کھاتی۔ تازہ اور رس سے پھٹ پڑتا انار کسے نہیں بھاتا؟ ’’اور بچوں کا کیا بنا؟‘‘ شفیق سی مشتری بانو بے اختیار پوچھ بیٹھیں۔ کلیجہ پھٹ گیا کہ انوری نے بچوں کے چھٹپن کا بھی خیال نہ کیا۔ پتہ چلا کہ انھیں دادی اور پھوپھیاں بھگت رہی ہیں۔ کروٹ بدلتے حکیم نے اشارہ کیا کہ فالتو بیٹھے بیٹھے مشتری بانو اُن کے پاؤں نہ دبا دیں۔ لاچار اپنے نرم ہاتھوں سے کھردرے کھر جیسے پاؤں دبانے لگیں، جن پر برسوں کی مسافت، بے وفائی کی دھول اور ظلم کی گرد جابجا و بے دریغ چپکی ہوئی تھی۔ اُسی لمحے کلّو ملجگی لنگی کرتا پہنے، سر پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے، ہاتھ میں دھانی چوڑیوں کا ایک دونا لیے چلی آئی۔ مشتری بانو کو چوڑیاں اور خاص کر سبز یا دھانی رنگ کی چوڑیاں بہت پسند تھیں۔ آج کلّو نے کچھ مزدوری کرلی تھی۔ سردار کی نئی حویلی بن رہی تھی۔ وہاں تین گھنٹے سیمنٹ اور گارے کی تغاریاں اٹھائیں۔ کچھ پیسے ہاتھ آئے۔ جلدی سے بانو بیگم کے لیے یہ تحفہ خرید لیا کہ اب جو بھی ہو، اس رشتے کا جو نام بھی ہو، وہی کلّو کا جینا مرنا تھیں۔ مشتری بانو تھا ہی ایسا اکسیر مرہم، جسے لگادو وہ شفا پاجائے، جسے چٹادو وہ بھلا چنگا ہو کر اُن ہی کی مدح سرائی کرنے لگے۔
کلّو کی ٹھوکریں کھاتی زندگی کو آخر کار مشتری بانو کی دہلیز پر پناہ، پیار اور اختیار ملا تھا۔ اب تو وہ نماز کی بھی پابندی کرنے لگی تھی۔ محلّے کے نائی، حجام، لوہار، سنار، گھڑی ساز، موسیقار، مطلب کہ سب کسی نہ کسی طرح اُس کی چٹکی نوچتے تھے، مگر کسی نہ کسی طرح اپنی آبرو کو بچا کر وہ روزانہ سینہ چوڑا کیے، بانو بیگم کی طرف دوڑی چلی آتی کہ اُن سے بے وفائی ہرگز نہ کرے گی۔ اچانک، خراٹے لیتے حکیم شطاری اور سر جھکائے پنکھا جھلتے مشتری بانو پر نظر پڑی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ مشتری نے پلکیں جھکالیں۔ چنبیلی کے منڈوے سے دو پھول حکیم شطاری کی ڈاڑھی پر گرے۔ مشتری بانو نے پھول اٹھا کر یوں ہی بے وجہ مسلنا شروع کردیے۔ کلّو لکڑیاں پٹک کمرے میں جاکر لیٹ گئی۔ چوڑیاں ایک طرف رکھ دیں۔ ہوا دان میں رکھا کھانا بھی نہ کھایا۔ نہ ہی بانو بیگم نے پروسا۔ شام کو حکیم کی آنکھ کھلی۔ تروتازہ ہو کر بکری کے دودھ اور موٹی ملائی کی چائے پی۔ مشتری بانو بے دلی سے مرغیوں کو دانہ ڈال کر ڈربے میں بند کررہی تھی۔ حکیم کا دماغ اور آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ جس مشتری بانو کو وہ چھوڑ گئے تھے وہ تو یہاں ناپید تھی۔ اُس کی جگہ ایک ہری بھری، سہاگن نما جوانی سامنے تھی جس کا چاند مکمل جوبن پر تھا۔ آج جاڑے کی لمبی اور روشن رات سامنے تھی۔ مشتری بانو نے اتفاقاً مخمل کا جامنی آڑا پاجامہ اور پیروں میں جہیز کی رکھی پازیب پہن رکھی تھی۔ ململ کے سرخ انار کرتے اور دوپٹے پر خود سنہری کامدانی توڑی تھی۔ کل ہی تو کلّو نے پکڑ کر مہندی ہاتھوں پاؤں میں تھوپ دی تھی۔ آج وہ مہندی سیاہی مائل ہو کر اور بھی حکیم کا کلیجہ لوٹ رہی تھی۔ مہندی کی کٹیلی مہک سراسر بلاوا تھی۔ آنکھوں میں کاجل کے گہرے ڈورے باہر تک کھنچے ہوئے تھے۔ بال ہمیشہ سے کولہوں تک آتے، آج اُن میں سے غضب کی خوشبو آرہی تھی۔ واضع طور پر سہاگن کا روپ تھا۔ حکیم کی عقل دنگ رہ گئی اور اُن کے مرجھائے جسم میں جنبش سی ہونے لگی۔ سوچا کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ میں مغز کھپانے کی، ہیں؟ فریضۂ زوجیت ادا کرنے میں دیر نہ لگاؤ۔ عین سنت ہے۔ انھیں یاد بھی نہ آیا، کہ مشتری بانو کو بانجھ ہونے کی سزا انھوں نے کس طور دی تھی۔ سوچنے لگے کہ درخت اگر پھل دار نہ بھی ہو، تو اُس کے سائے میں لیٹ کر آرام کے مزے تو لوٹے جاسکتے ہیں۔ پھل کسی اور درخت سے توڑ لیے جائیں گے۔ عشا کی نماز گول کرنے کے بارے میں غور کرنے لگے۔ بے تابی حد سے بڑھی جارہی تھی۔ کلّو کو گھر میں دیکھ کر وہ پہلے ہی دنگا مچا چکے تھے کہ ایسی فاحشہ اور آبرو باختہ لڑکی کو گھر میں کیسے ڈال رکھا ہے؟ جواب میں مشتری بانو ایک کہہ سکیں نہ دو۔ کلّو باہر نکل گئی تھی۔ حکیم نے اپنے کمرے میں پہنچ کر سیج سجالی۔ بقچی سے نکال کر ہنگامی بنیادوں پر رکھے تمام کشتے اور خصوصی جڑی بوٹیاں بغیر پیسے اور تولے جھٹ سے پھانک لیں کہ ان کے بغیر آج رات کام نہیں چلنے والا تھا۔ خدا کا شکر بھی ادا کرتے گئے کہ اُس مردود بھگوڑن انوری کے بدلے اُس نے ایسی باحیا اور باوفا مشتری بانو اُن کے لیے بحفاظت چھوڑ رکھی ہے۔ اپنی مردانگی پر بے طرح اترا گئے۔ کلّو نے شام سے اب تک کا وہ وقت گھر سے دور ایک چبوترے پر کلس کے گزارا۔ پچھلے ایک سال کے واقعات سنیما میں دیکھی فلم کی طرح تیزی سے گھوم گئے۔ آگے اندھیرا ہی اندھیرا معلوم ہوتا تھا۔ جیسے کہ سنیما کی ریل اچانک اٹک کر ٹوٹ گئی ہو۔ پردے پر صرف اندھیرانظر آتاہو۔
کلّو اُس رات بہت روئی۔ مالک سے بہت شکوے شکایتیں کیں۔ پھر معافیاں بھی طلب کیں۔ دل ایک آخری مرتبہ بانو بیگم کو دیکھنے کے لیے تڑپا جاتا تھا۔ سوچا کہ ابھی حکیم نے دروازہ کی زنجیر لگائی نہ ہوگی۔ چل کر کسی بہانے بانو بیگم سے مل لوں گی۔ محبوب کے آخری بوسے کا حق تو بنتا ہے۔ پتہ نہیں وہ بھی نصیب میں ہو یا نہ ہو۔ کلّو ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر بپھرے ہوئے انداز میں داخل ہوئی۔ کروسین کی بوتل پر بھی نظر پڑی۔ ارادہ ہونے لگا کہ کیوں نہ اسے پی کر ناہنجار زندگی کا خاتمہ ہی کرلوں۔ آگے بڑھی۔ اچانک چوڑیوں کی چھنک سے پلٹی۔ پیچھے بانو بیگم اُس کی لائی ہوئی سبز چوڑیاں پہنے لگاوٹ سے اُسے دیکھ رہی تھیں۔ آنکھیں یہ بھی پوچھ رہی تھیں کہ اتنی دیر کہاں لگائی؟ کیوں انتظار کروایا؟ کلّو کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ اتنے میں بیقرار ہو کر حکیم شطاری باہر چلے آئے۔ کشتے کی گرمی سے جاڑے کی اس رات میں پسینے بہہ رہے تھے۔ کرتا پاجامہ اتار تہبند باندھ رکھی تھی۔ گنجا سر، غصے سے ابلتی آنکھیں، بالکل راون کا سچا روپ معلوم دے رہے تھے۔ آگے بڑھے کہ کلّو رانڈ کو باہر نکالیں اور بانو کو گھسیٹ کر اندر لے جائیں۔ اتنے میں حکیم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مشتری بانو آگے بڑھیں۔ کلّو کا ہاتھ تھاما، اُسی مہندی بھرے سرخ ہاتھ سے جس میں دھانی چوڑیاں جھنک رہی تھیں۔ منہ میں پان بھرا تھا۔ اگلدان قریب تھا مگر جان بوجھ کر حکیم کی طرف منہ کرکے پیک تھوکی۔ ’’تھو!۔‘‘ اور کلّو کا کرخت ہاتھ مضبوطی سے تھامے جھپاک سے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ حکیم نے واضع طور پر اندر سے زنجیر چڑھانے کی آواز سنی۔ ہتک سے حکیم کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ کشتے کی غلط مقدار کھانے سے دل پہلے ہی دھڑ دھڑا رہا تھا۔ دماغ کی شریان تن کر پھول گئی۔ دل تھامے وہیں مٹی کے کچے صحن پر تیورا کر گر پڑے۔ صبح حی علی الفلاح اور الصلوٰۃ خیر من النوم کی صدا پر مشتری بانو باہر آئیں۔ وضو کے ارادے سے آگے بڑھیں تو دھک سے رہ گئیں۔ حکیم ٹھنڈے بدن سے اکڑے پڑے تھے۔ مشتری بانو نے زور زور سے بین کرتے ہوئے دو ہتڑ مارے اور ہاتھوں کی چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ بین کرتی مشتری بانو کی آواز سنی تو میں نے بھی دیوارپر سے جھانکا۔ چہ چہ چہ۔ بے چاری سہاگن آج بیوہ ہوگئی۔ محلّے سے مجمع اکھٹا ہونے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.