Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کم آشنائی، گریز پائی

تسنیم منٹو

کم آشنائی، گریز پائی

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    نہ کم نہ زیادہ پورے ستائیس برس بعد اسے اچانک محسوس ہوا کہ آج دھوپ بہت دھوم دھام سے نکلی ہے۔ اس کے چاروں جانب بے حد شفّاف روشنی تھی۔ وہ باہر لان میں کرسی ڈالے بیٹھی تھی۔ اس نے آنکھیں سکیڑیں، تھوڑا کرسی کے پیچھے کھسکی اور گردن کو کندھوں پر پھینک کر آسمان کی طرف دیکھا تو اسے دھوپ کے ساتھ گلے ملتے ہوئے کئی رنگ نظر آئے، یہ رنگ ایسے گلے مل رہے تھے، جیسے آج اس کی زندگی سے منسوب وقت کی آگہی اور اس کا تھکا ماندہ وجود۔ لیکن ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے نے اسے چھوا تو اسے آسودگی اور طمانیت کا احساس ہوا۔

    وہ ستائیس برسوں میں ایک ہی رنگ ڈھونڈتی رہی، محبت کا رنگ، شیفتگی کا رنگ، لیکن یہ رنگ اس کی زندگی کے شب و روز میں کہیں نہیں تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ زندگی کے اس دراز سلسلے پر پھیلے اپنے وجود کی اکائیوں کو وہ کہاں سے بھورا بھورا چننا اور سمیٹنا شروع کرے۔

    ان دنوں اس کی عمر کوئی پانچ ایک سال رہی ہو گی، اس نے محسوس کیا کہ اس کے جواں سال بھائی کی موت کی وجہ سے اس کے گھر والے ایک گہرے آشوب سے گزر رہے ہیں۔ گھر کا ہر فرد ایک لمبی چپ کے حصار میں تھا۔

    اس کا مناسا وجود یہ گھٹن برداشت نہ کر پاتا تو وہ مئی جون کی تپتی دوپہروں میں چپکے سے گھر سے کھسک جاتی، اپنی ہی عمر کی دو چار سہیلیوں کو محلے سے اکٹھا کرتی اور گھر کے قریب ہی ایک کھلے میدان میں کہ جہاں کسی کے جلے ہوئے گھر کا ملبا پھیلا تھا، وہاں پہنچ جاتی۔ وہ اور اس کی سہیلیاں اس جلے ملبے سے موتی، کانچ کے ٹکڑے، ڈبیاں، شیشیاں، کوئی ٹوٹا پھوٹا بُندا یا انگوٹھی تلاش کر لیتیں، اور جب سایے لمبے ہونے لگتے تو وہ اور اس کی مُنّی مُنّی سہیلیاں اپنا اپنا سامان اپنی جھولیوں میں بھرتیں اور گھروں کو لوٹ آتیں۔

    وہ اس انتظار میں رہتی کہ سب گھر والے دوپہر کا کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں سو جائیں تو وہ اپنے روزانہ ٹوئر پر روانہ ہو۔ وہ سب جائز ہ لیتی، اور مطمئن ہو کر اپنی چپلیں کستی اور کمرے سے برآمدے میں، اور پھر صحن سے ہوتی ہوئی ڈیوڑھی تک ابھی پوری طرح پہنچ بھی نہ پاتی کہ اوپر سے ایک منچلا جلدی میں سیڑھیاں پھلانگتا ہوا عین ڈیوڑھی میں آ کر اس کے مُنّے سے وجود کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیتا، اس کے گالوں پر پیار کرتا اور پھر گود سے اتار کر اس سے پوچھتا؛ ’’پروفیسر صاحب! آپ اس دھوپ میں کہاں جا رہے تھے، جب آپ کمرے سے ڈیوڑھی کی جانب آ رہے تھے تو میں آپ کے دوڑنے سے آپ کی مُنّی مُنّی چپلوں کی آواز سن رہا تھا۔ ’’پروفیسر صاحب! یہ بتائیے، آپ نے سکول کا کام کر لیا ہے؟‘‘ جواب میں وہ تھوڑا کسمساتی، کیوں کہ سکول کا کام کرنا اسے پسند نہیں تھا۔ ’’دوپہر کو گھر سے نہیں نکلتے، اماں خفا ہوتی ہیں، ہوتی ہیں نا؟‘‘ وہ ایک اور پیار کرتے ہوئے اس سے پوچھتا۔ وہ شرمسار سی سر ہلا کر ہاں میں جواب دیتی اور وہ انگلی پکڑے اسے اوپر لے جاتا۔ دونوں آنکھوں سے بولتے، دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھ جاتے اور وہ مسکرا کر کہتا، ’’یہ لیجیے پروفیسر صاحب، کاغذ اور پنسل۔ آپ اپنا کام کریں اور میں اپنا کام کرتا ہوں، ٹھیک ہے نا!؟‘‘ وہ کاغذ پنسل لے کر بے حد خوش ہوتی اور پھر پیٹ کے بل لیٹ کر جو جو اس کے من میں آتا، ساری لکیریں اور دائرے کاغذ کے حوالے کرتی جاتی۔ یوں آنے والی زندگی میں قلم اور کاغذ سے اس کا رشتہ استوار ہوا۔ یہ منچلا کیسا سجیلا اور شاندار تھا، یہ سب دیکھنے کے لیے اس ننھی جان کو گردن اٹھا کر دیکھنا پڑتا۔ لانبی قامت، کتابی چہرہ، قدرے تنگ پیشانی، چمک دار بے چین آنکھیں، کھلے کھلے ہاتھ پان58و، سر پر گھنے بال جنھیں وہ بیچ میں سے مانگ نکال کر سن58وارتا تھا،اور جب وہ چلتا تو یہ اس کی چال کی دھمک سے لرزتے تھے۔

    سنسان دوپہروں کو وہ کتابوں سے پر رونق بناتا، نہ معلوم کیا کچھ پڑھتا اور کیا کیا لکھتا۔ برسوں بعد بھی زینب اس سجیلے اور منچلے بھائی کو ایک سیکنڈ میں اپنے سامنے کھڑا دیکھ سکتی تھی۔ سجا بنا ایک خوب صورت فریم میں فٹ۔ لیکن ہوا یہ کہ منچلے کی دوسرا تھ بھی جب اس مُنّی سی زینب سے چھن گئی تو اس کا مُنّا سا وجود ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اوپر کا کمرا بے آباد ہوا۔ کتابیں چپ سادھ گئیں اور پروفیسر صاحب کے لیے کاغذ پنسل کی دعوت تمام ہوئی۔ خجل خجل سی دوپہریں، سہمی سہمی شامیں اور ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے گھر کے افراد۔ کچھ مدت تک کتابوں پر گرد پڑی رہی، لیکن ایک روز اماں نے ہمت کی اور کتابوں پر سے گرد بڑے دلار سے صاف کی اور الماری میں ان کو ویسے ہی سنبھال سینت کر رکھ دیا، جیسے انھوں نے اپنے کچھ عرصے پہلے چلے جانے والے بیٹے کی وہ ٹوکری سنبھال کر رکھی تھی، جس میں اس نے شیشے کی رنگ برنگی گولیاں سجا رکھی تھیں۔

    کمرے کی دیوار پر ایک کیلنڈر لٹک رہا تھا۔ کیلنڈر پر بنی تصویر والی لڑکی زینب کی ہم عمر ہی تھی، خوب صورت فراک اور جوتے پہنے ہوئے تھی، اور زینب کرسی پر کھڑی بڑے انہماک سے اس لڑکی کی تصویر پر ہاتھ پھیر رہی تھی کہ پاس سے گزرتے ہوئے کسی نے کہا ’’زینب یہ تم ہو؟‘‘ زینب نے بے اعتباری سے یہ کہنے والے کی جانب دیکھا، ’’ہاں! ہاں بھئی یہ تم ہی ہو!‘‘ یہ کہنے والی آپا تھیں، اور آپا جھوٹ نہیں بولتی تھیں، سو ایک مدتِ دراز تک وہ خود کو کیلنڈر والی لڑکی سمجھتی رہی۔۔۔ لیکن ایک دن یہ سپنا یوں ٹوٹا۔۔۔ ان کے گھر میں کہیں دوسرے شہر سے مہمان آئے تھے، اور انھوں نے دو ایک روز رہنا بھی تھا۔ مہمانوں کے ساتھ تقریباً زینب کی ہم عمر ایک لڑکی بھی تھی۔ زینب نے اس لڑکی کو کھیلنے کی دعوت دی۔ لڑکی اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ تب مہمان خاتون نے اپنی بیٹی کو کہا۔ ’’جاؤ نا! کھیلو۔ مجھے تنگ مت کرو۔‘‘ لڑکی نے کھٹ سے اپنی ماں سے کہا؛ ’’نہیں مَیں اس کالی کلوٹی سے نہیں کھیلتی‘‘۔ لڑکی کی ماں کھسیانی ہو کر ہنسنے لگی، لیکن زینب کے مُنّے سے دل پر اس بچی کے انکار کا یہ پتھر اس زور سے لگا کہ اس کی دنیا ہی بدل گئی، اور احساسِ تنہائی اس کے اندر اتنا گہرا ہوا کہ حیرانی ،کم آشنائی اور گریز پائی اس کے مزاج کا حصّہ بنیں!!

    بہت پرانی بات۔۔۔ اسے یاد آتی ہے۔ ایک سہ پہر گملوں میں کھاد ڈالتے ہوئے اس نے مالی سے پوچھا کہ کیکٹس کو کتنا پانی دوں؟ تو مالی نے بڑے سبھاو سے اسے سمجھایا کہ بی بی جی اس پودے میں جنگل کی خُو بُو ہے۔ گرمی، سردی سارے موسم جھیل جاتا ہے۔ اسے پانی ترسا ترسا کر دیتے ہیں۔ سو آنے والے بہت سے وقتوں میں وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ زندگی میں میری بڑھوتری، میری برداشت، پرداخت کیکٹس جیسی ہی تو ہے۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے آس پاس ایک ہنگامہ ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے اندر اس قدر تنہا ہوتی ہے کہ جیسے بھری دوپہر میں تپتی سڑک پر کوئی کسی کا منتظر ہو۔ ’’نہ معلوم ایسا کیوں ہے کہ مَیں ذہنی طور پر ہمہ وقت سفری کیفیت میں رہتی ہوں‘‘۔ ایسی حالت میں وہ سوچتی، خود سے پوچھتی کہ مجھے کہاں جانا ہے۔

    اس کے وجود میں ممتا کے لمس اور باپ کے دُلار کی کسی بھی قسم کی خوشبو موجود نہیں تھی۔۔۔ بہت پرے،۔۔۔ بہت دور دروازے پر بیل ہوئی، جب کسی نے بھی بیل کی آواز پر توجہ نہ دی تو وہ لپک کر ڈیوڑھی تک گئی، ڈیوڑھی میں دو جواں سال لڑکے کھڑے تھے۔ زینب نے کہا ’’جی؟‘‘ لڑکے کچھ نہ بولے۔ زینب نے محسوس کیا کہ وہ بغور اسے دیکھ رہے ہیں۔ وہ گھبرا کر یہ کہتے ہوئے واپس آ گئی کہ ابا تو گھر پر نہیں ہیں۔

    کمرے میں آ کر یہ جاننے کے لیے کہ وہ دونوں لڑکے اسے کیوں بغور دیکھ رہے تھے، وہ شیشے کے سامنے کھڑی ہو گئی، خود کو آئینے میں دیکھ کر اس کی آنکھیں ہنس دیں۔ وہ حیرت زدہ تھی کہ اس کے سراپے کی تمام قوسیں اور زاویے مکمل تھے۔ رنگت بھی سانولی نہ لگی۔ اسے اپنا آپ بہت بھلا بھلا سا لگا۔ یہ سوچ کر کہ وہ دونوں لڑکے فقط اسی کو اس قدر محویت سے دیکھ رہے تھے، اس نے اپنے پانو میں پہنی چھوٹی ایڑی کی سینڈل کا اگلا حصّہ ہوا میں کھڑا کیا اور بازو پھیلا کر وہ اپنی سینڈل کی ایڑی پر ایک سرشاری کی کیفیت میں کمرے میں گھوم گئی۔

    ہاں ایک دفعہ یوں بھی تو ہوا تھا۔ زینب کو جیسے کسی نے ٹہوکا دیا ہو۔ وہ اپنی دوست کے گھر بیٹھی تھی۔ اس کی دوست کے سب بہن بھائی بھی یہیں موجود تھے۔ اسے لگا کہ اس کی آنکھ میں کوئی تنکا یا پلک گر گئی ہے۔ اس کی دوست نے اندر سے شیشہ لا کر دیا، اس نے شیشہ گھٹنوں پر رکھا اور پپوٹا اٹھا کر اندر دیکھنے لگی۔ جب وہ دیکھ چکی تو آنکھ میں آئے پانی کو صاف کرتے ہوئے اچانک اس کی نظر اپنی دوست کے بھائی پر پڑی جو اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا، ستواں ناک، بڑی بڑی آنکھیں، بالوں میں لہریں، دُبلا پتلا سا، دوست کے بھائی کا یوں محویت سے دیکھنا اسے قطعی برا نہ لگا۔ کیوں کہ کچھ مدت سے اسے احساس ہو چکا تھا کہ لوگ اس کی جانب دیکھتے ہیں، شوق سے اور بغور دیکھتے ہیں اور ان نگاہوں میں ستایش اور لگاوٹ ہوتی ہے۔ دوست کے بھائی نے راہ و رسم بڑھانی چاہی۔ زینب کو بھی اعتراض نہ تھا کہ دونوں کچی عمر کے کھلاڑی تھے۔ لیکن زینب کے اندر سکڑنے کی کیفیت اور کم آشنائی، گریز پائی کی خُو سے بات وہیں ختم ہو گئی۔ ایسے والہانہ پن کے دوایک سلسلے اور چلے، لیکن وہ اپنی موت یوں مر گئے کہ وہ سوچتی کہ چاہنے والا میری صورت کو تو دیکھتا ہے، کیا وہ ’’مجھے‘‘ بھی دیکھتا ہے؟ مجھے پڑھ سکتا ہے؟ مجھے سن سکتا ہے؟

    بعض اوقات وقت چلنے میں آواز پیدا نہیں کرتا، اور جب کبھی تھوڑا کھٹکا ہوتا ہے تو اس کے اندر رہنے والا چونک جاتا ہے۔ شیشے کے سامنے تو وہ روز ہی جاتی تھی، لیکن اس روز شیشے نے جیسے اسے تھام لیا، اور وہ حیرت زدہ سی رہ گئی کہ اتنے بہت سارے سال کدھر پھسل گئے۔

    زینب نے سوشل ورک میں ماسٹرز کیا تو ساتھ ہی ایکLeave Vacancyپر اس کی اپوائنٹمنٹ ہو گئی، زندگی میں قدرے نئے صبح و شام سے تعارف ہوا۔ لیکن کچھ دنوں بعد نہ کچھ نیا لگا نہ پرانا۔

    الحمرا میں ’’ابلاغِ عامہ‘‘ کے ادارہ نے ایک فیچر فلم دکھانے کا اہتمام کیا تھا۔ فلم کے ختم ہونے پر زینب جب باہر آئی، تو تھوڑا تھوڑا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ زینب کی گاڑی ابھی نہیں آئی تھی، جب کہ اس کی کولیگ راشدہ نے بھی اس کے ساتھ ہی جانا تھا۔ راشدہ اپنے بچے کے لیے مضطرب تھی، کہ وہ گھر پر اکیلا تھا۔ پاس سے گزرتی ایک گاڑی کے اندر راشدہ نے مسکرا کر جھانکا۔ جواب میں گاڑی والے صاحب بھی مسکرائے اور نیچے اتر کر گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ راشدہ جلدی سے گاڑی کے اندر بیٹھ گئی۔ جب زینب بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھنے لگی تو راشدہ نے ہنس کر کہا ’’بھئی تم تو آگے بیٹھو نا، زمان صاحب ہمارے ڈرائیور تو نہیں ہیں!‘‘ لہٰذا زینب اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

    ’’زمان صاحب فلم کیسی لگی؟‘‘ راشدہ نے زمان صاحب سے پوچھا ’’بس ٹھیک تھی۔‘‘ زمان صاحب نے مختصر سا جواب دیا۔

    ’’مجھے تو یہ فلم‘ فیچر فلم کے بجاے ڈاکومینٹری فلم زیادہ لگی ہے۔ وہی تھرڈ ورلڈ کا استحصال، سستا خام مال، سستی لیبر، اور کرافٹ تو بالکل ہی کوڑیوں کے مول۔ ایک بڑی ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ چھوٹی چھوٹی ایسٹ انڈیا کمپنیاں۔ In a smaller role وہی کمزور کا استحصال اور طاقتور کا اختیار‘‘ زینب نے گردن پیچھے موڑ کر راشدہ سے کہا۔

    ’’ تم نے تو ضرور ہی کوئی نہ کوئی Cynical پہلو نکالنا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن زینب کس قدر خوب صورت ساڑھیاں تھیں، اور بنانے والے بے چارے تنگ گلیوں اور محلّوں میں رہنے والے۔ بیمار، مدقوق اور کم خوراکی کا شکار‘‘۔ ’’اور اب کیا تم Cynical نہیں ہو رہی ہو‘‘، زینب نے ہنس کر کہا۔ ’’لیکن زینب ساڑھیاں خریدنے کو تو میرا بڑا جی چاہ رہا تھا‘‘۔ ’’میرا بھی‘‘، زینب نے بھی ہنس کر کہا۔ زمان صاحب بھی ہنس پڑے اور کہا، ’’عورتیں کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں۔ ایسی گفتگو سے باز نہیں رہ سکتیں‘‘۔ اسی طرح دو چار باتیں اور ہوئیں۔ زینب کا گھر پہلے آتا تھا۔ زینب گاڑی سے اتری۔ بیگ، کتابیں سنبھالے اور ساڑھی درست کرتے وقت اس نے محسوس کیا کہ زمان صاحب نے ایک نظر بغور زینب کو دیکھا۔

    ’’دیکھاہو گا‘‘!! زینب نے سرسری انداز میں سر جھٹکا اور گھر کے اندر داخل ہو گئی۔ اس کے ذہن نے ہمیشہ کی طرح بات آئی گئی کر دی۔

    بعض اوقات نہ نگاہوں کا کھیل رچتا ہے، نہ دل میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے، اور بات آپ ہی آپ بنتی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اب کی بار زینب کو کم آشنائی، گریز پائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اور راشدہ کی وساطت سے چند ہی دنوں میں زینب کے گھر والوں نے زینب کی رضامندی سے زمان صاحب کے ساتھ شادی طے کر دی۔

    زمان صاحب ایک Seasoned جرنلسٹ تھے اور اپنے حلقے میں اپنے مضبوط اور متوازن موقف کی وجہ سے ایک خاص حیثیت و اہمیت کے مالک تھے۔ ’’جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔‘‘ اس فرسودہ کہاوت کے عمل پذیر ہونے پر وہ حیرت زدہ ضرور تھی۔

    ’’آپ میرے بارے میں پہلے سے کچھ جانتی تھیں؟‘‘

    ایبٹ آباد کے ایک بڑے ہوٹل کے ایک وسیع لان میں چاے پیتے ہوئے زمان نے زینب سے پوچھا۔

    ’’نہیں بالکل بھی نہیں‘‘، زینب نے جواب دیا۔

    ’’تو پھر ہاں کیسے کر دی؟ ،آپ تو پڑھی لکھی ہیں‘‘ زمان نے بات آگے بڑھائی ’’بس کر دی‘‘ زینب مسکرائی ’’ویسے آپ نے بھی شاید سُنا ہو کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔‘‘ زینب نے ہنستے ہُوئے کہا۔ ’’ہاں وہ توسُنا ہے۔‘‘ زمان بھی ہنسا۔ ’’اچھا وہ کاکول اکیڈمی جانا ہے نا۔ مَیں تیار ہوتا ہوں، آپ چاے ختم کر کے آ جائیے۔‘‘ زمان یہ کہتا ہوا لان سے اٹھ گیا۔ زینب نے چاے ختم کی۔ فضا میں خنک موسم کا غبار سا تھا۔ زینب نے ایک لمحے کے لیے اس غبار سے پرے بہت دُور نگاہ دوڑائی۔اضطراری حالت میں لان میں سے ایک گھاس کا تنکا توڑا، دانتوں میں دبایا، پھر پھینک دیا۔ چاے کی پیالی اٹھائی اور کمرے کی جانب چل دی۔

    زینب کی ذہنی سوچ اس کے شوہر زمان کی معمول کی زندگی کے مطابق تھی۔ پڑھنا، لکھنا، گفتگو کرنا، آنا جانا۔ دوست، احباب، ڈراما، زندگی گویا ایک ہنگامہ تھی۔ اس ہنگامے میں زینب نے خود کو بڑی خوب صورتی سے سمو لیا۔ وہ مطمئن تھی، بے حد مطمئن۔

    بچے پیدا ہوئے۔ دونوں نے مل کر بڑی ذمّہ داری سے بچے پالے۔ وقت جیسے دوڑ رہا تھا۔ بچے بڑے ہوئے۔ قابل اور ذہین نکلے۔ اپنی اپنی پسند کا پروفیشن اختیار کیا۔ زینب اور زمان مطمئن تھے کہ انھوں نے بخوبی اپنے فرائض ادا کیے۔ وقت اس قدر رسانیت سے گزر رہا تھا کہ بعض اوقات زینب سہم جاتی اور معمولی کھٹکے سے بھی چونک اٹھتی۔

    بچوں کی شادیاں ہو گئیں، پھر بچوں کے بچے آ گئے۔ زمان اپنی روٹین کی زندگی میں مصروف رہا، لیکن اب اکثر ایسا ہوتا کہ زینب پوتے پوتیوں کی وجہ، سے بہت سی سماجی تقریبات میں زمان کا ساتھ نہ دے سکتی، اور زمان کو اکیلے ہی جانا پڑتا۔ زینب کی عدم موجودگی شروع شروع میں زمان کو محسوس ہوئی، لیکن جلد ہی ہر جگہ اکیلے جانے کی عادت پختہ ہو گئی۔ بعض اوقات زینب فارغ ہوتی تو ساتھ جانا چاہتی، لیکن زمان کی جانب سے کوئی گرمجوشی نہ پا کر ارادہ بدل دیتی اور یوں بہت ہی آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے سے دُور ہوتے چلے گئے۔ باہر کی زندگی میں دونوں ایک دوسرے سے کیا دُور ہوئے کہ وہ گھریلو زندگی میں بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنتے چلے گئے۔ زینب سوچتی کہ یہ شخص میرے پاس تو ہے لیکن میرے ساتھ نہیں ۔ زینب نے اپنے خدشات یا شکایات کا اظہار زمان سے کبھی نہیں کیا تھا۔ لیکن کچھ دن پہلے کسی نے فون کر کے ایک افواہ اس کے کان میں ڈال دی۔ زینب نے بڑے تجاہل سے افواہ سنی، اور بڑی فراخ دلی سے ٹال گئی۔ زینب کوئی گھاگ عورت نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ اوّل تو یہ بات سچ نہیں ہے اور اگر مَیں پوچھوں گی بھی تو مذاق کا رنگ دے کے پوچھوں گی۔ سو ایک دن دوپہر جب زمان اخبارات پھیلائے کام کر رہا تھا، زینب کافی بنا کر لائی، اور زمان کے ساتھ سوفے کے بازو پر بیٹھتے ہوئے ایک خاتون کا نام لے کر بولی ’’لوگ کہتے ہیں کہ شمسہ آج کل اس طرح سے آپ کے سوفے کے بازو پر بیٹھتی ہے، یعنی اس طرح سے جیسے مَیں آپ کے پاس بیٹھی ہوں۔‘‘ زمان نے کافی کی پیالی زمین پر رکھی، اور ایک زور کا دھکا زینب کو دیتے ہوئے کہا ،’’ہاں آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شمسہ اس طرح بیٹھ سکتی ہے، آپ نہیں بیٹھ سکتیں‘‘ اور پیالی کو ٹھوکر مارتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اس دھکے میں نفرت تھی، حقارت تھی اور زینب کے وجود سے بیزاری تھی۔ اس دھکے نے زینب کے ذہن میں کربلا سی جگا دی۔ اس کربلا نے زینب کو بہت رُلایا، کھپایا اور آخرِ کار اُس نے خود سے یہ جھوٹ بولا، ’’زمان نے دھکا تو نہیں دیا ہو گا۔ مَیں ہی توازن برقرار نہ رکھ سکی۔ لیکن وہ اقرار وہ جملہ تو زمان نے ہی بولا تھا۔‘‘ اِس سے آگے اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی۔ اس واقعے کو دو ہفتے گزر چکے تھے، لیکن وہ خود کو ابھی تک نارمل نہ کر سکی تھی۔ آج رات بھی وہ جاگتی رہی تھی، لیکن صبح صبح وہ ٹھنڈے پانی سے نہائی، سر میں بھی بہت سارا ٹھنڈا پانی ڈالا، اور ایک خوب صورت ساڑھی پہن کر چھوٹے لان میں کرسی ڈال کر بیٹھ گئی، صبح کی خنک ہوانے اسے مزید سکون بخشا، دن بھر وہ اپنے ذہن کی انگلی پکڑے نہ معلوم کہاں کہاں گھومتی رہی۔

    ستائیس سال یا ستائیس صدیاں، بعض لمحوں میں عمر کے تمام موسم جوان ہو جاتے ہیں اور مٹے، دھندلے نقوش اجاگر ہو جاتے ہیں۔ مجھے خود کو ایک بڑے سچ کے سپرد کرنا ہی ہو گا۔ ایسا سچ جسے میں تا عمر جھٹلاتی رہی ہوں۔ جب بھی خیال آیا سر کو جھٹکا اور آگے نکل گئی۔

    نومبر کا آغاز، فضا میں ہلکی خنکی، سہ پہر کے ڈھلتے لمحوں کا وقت، یونی ورسٹی کے لان میں کتابیں بکھیرے میں اور وہ بیٹھے تھے کہ عام لہجے میں بات کرتے کرتے اچانک اس کا لہجہ گمبھیر ہوا، جیسے اس میں مدھ گھول دی گئی ہو۔ وہ بولا ’’مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا۔‘‘۔۔۔ اس کے بعد نہ معلوم کیا ہے؟ وہ گویا خود سے گویا ہوا۔ میں نے حیران ہو کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ اس کے چہرے اور آنکھوں کے مدھ بھرے تاثّر سے میں ششدر اور خوفزدہ سی، کن اکھیوں سے اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی آہستگی سے لان سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گئی تھی کہ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ یہ مصرع مدّتوں میرے ساتھ رہا، اور آج بھی پورے سیاق و سباق کے ساتھ میرے ذہن میں موجود ہے۔

    دادی۔۔۔ دادی۔۔۔د۔۔ا۔۔د۔۔ی کھانا لگ گیا ہے، مما بلا رہی ہیں۔ اس کی پوتی نے لاڈ سے اپنا سر زینب کے زانوؤں پر رکھ دیا۔ زینب نے پوتی کے بالوں کو سہلایا۔ اس لمس سے زینب کے سارے وجود میں شگفتگی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ یہ عجب جبرِمشیّت ہے کہ اولاد کی محبت آپ کے لیے ہزار پایہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ہزار پایہ بِنا زہر کے ہے، لیکن تاعمر آپ کو جکڑے رکھتا ہے۔ پچھلے ستائیس سالوں سے اس کی زندگی کی سلیٹ پر فقط زمان لکھا ہوا تھا۔ لیکن پچھلے چند دنوں سے یہ لفظ اپنی آب و تاب کھوتا جا رہا تھا، دھندلا ہوتا جا رہا تھا۔ ردِّذات نے ایک دفعہ پھر اسے کم آشنائی، گریز پائی کے Cocoon میں دھکیل دیا تھا۔ ’’زندگی نسبتاً سہل ہو جائے گی۔‘‘ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے نہایت سکون سے سوچا۔

    زینب خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہی تھی۔ وہ بالوں کو جوڑے کی شکل میں سمیٹتی ساری کی سلوٹیں سنوارتی کھانے کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کی بہو نے کہا ’’آئیے آنٹی ہم دونوں تو کھانا کھائیں، جب اور کوئی آئے گا تو کھا لے گا۔ ساس بہو کی نظریں ملیں۔ بہو کی آنکھیں متورّم تھیں، اور آواز میں زکام کی کیفیت تھی۔ ’’The same old story‘‘ زینب نے دل میں ملال سے سوچا، لیکن جب وہ کرسی سے اٹھ کر فریج میں سے دہی نکال رہی تھی تو وہ گنگنا رہی تھی ’’مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا‘‘ اور زینب کی پوتی حیران ہو کر دادی سے پوچھ رہی تھی۔ ’’دادی آپ تو گا رہی ہیں، آپ کو گانا آتا ہے؟‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے