Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کمبخت ظالم عورت

شہناز پروین

کمبخت ظالم عورت

شہناز پروین

MORE BYشہناز پروین

    آج برسوں بعد ایک ٹیلیفون کال نے مجھے پھر بےقرار کر دیا تھا، صبح ہی صبح میرے چھوٹے بیٹے نے فون اٹھایا اور بےاختیار مجھ سے لپٹ کر رونے لگا،

    ’’امی بھیا بہت رو رہا تھا، ابو اچانک فوت ہو گئے۔۔۔‘‘

    اس کی آواز رندھ گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ روؤں یا ہنسوں، دکھ کا اظہار کروں یا سکھ کا سانس لوں، پہلے تو میرا جی چاہا خوب ہنسوں کہ رشتے کی اس اذیت رساں زنجیر سے ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی تھی ،لیکن وجود میں وہی بےقراری اور بےکلی سی محسوس ہو رہی تھی جو برسوں پہلے ہوئی تھی، وہ میری گود میں سر رکھے روئے جا رہا تھا، امی آپ چلیں گی نا؟‘‘ میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو بوسے دیے اور کہا۔

    ’’بیٹا تم فوراََ بھائی کے پاس چلے جاؤ،میں ذرا سنبھل جاؤں تو کوشش کرتی ہوں۔‘‘

    کہنے کو تو میں نے کہ دیا لیکن اگلے تمام لمحات میں ایک بار پھر دکھ ساگر میں ڈوبتی اور ابھرتی رہی۔ سوچتی ہوں تو حیران سی رہ جاتی ہوں، میں چھوٹی سی تھی، یہی کوئی بارہ تیرہ برس کی، کھیلتے کھیلتے گھر آئی تو معلوم ہوا میرا رشتہ کسی پائلٹ کے ساتھ طے کر دیا گیا ہے، اس کی ماں نے میری ماں سے کہا تھا۔

    ’’میرے بیٹے کو ایسی ہی کامنی سی خوب صورت لڑکیاں پسند ہیں،نکاح کر لیں ہم وعدہ کرتے ہیں رخصتی کے لیے جلدی نہیں کریں گے، بھلے ہی یہ میٹرک بلکہ انٹر بھی کر لے، وہ نکاح کے بعد اسی کے تصور میں رہےگا ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کسی ایئر ہوسٹس کے چکر میں نہ پڑ جائے۔‘‘مگرنکاح کے دو ماہ کے بعد آئے دن کے تقاضوں سے میرے والدین رخصتی پر مجبور ہو گئے، انھوں نے مجھے سمجھایا،

    ’’تمھیں ہواؤں میں اڑنے کا بہت شوق ہے نا۔۔۔اسی لیے ہم نے تمھارا رشتہ پائلٹ سے کیا ہے، وہ تمھیں ساری دنیا کی سیریں کرائےگا۔‘‘

    شادی کیا ہوتی ہے یہ تو مجھے نہیں معلوم تھا، مگر اتنا جانتی تھی کہ شادی میں لڑکیاں قیمتی، خوب صورت کپڑوں میں بہت سارے گہنے پہن کر میک اپ کے بعد بہت خوب صورت ہو جاتی ہیں، مجھے اپنی خوب صورتی پر پہلے بھی ناز تھا اور پرواز کا بھی بہت شوق تھا، جی چاہتا تھا ہواؤں میں اڑتی پھروں، ساری دنیا کی سیر کروں، جب بارش سے پہلے تیز ہوائیں چلتیں، میرے پاؤں میں گھنگھرو سے بج اٹھتے، میرے اندر باہر ہر طرف رنگ و نور کی بارش ہوتی اور میں مورنی کی طرح مست ہوکر ناچتی، اسکول کی ثقافتی تقریبات میں مجھے ہمیشہ پہلا انعام ملتا، لوگ کہتے رقص کرتے وقت میرے پاؤں زیادہ تر زمین سے اوپر ہوتے ہیں۔

    اس روز بھی جب میں نے شادی کی بات سنی تو سمجھ میں نہیں آیا کیا کروں، میں نے اسے دیکھا بھی نہیں تھا مگر تصور میں ایک تصویر ضرور بنائی تھی، شادی کے دن اسے دیکھا تو وہ اس تصویر سے بہت مختلف تھا، پہلی ہی رات اس نے مجھ سے کہا۔ ’’یہ شادی میں نے اپنی ماں کی خواہش پر کی ہے ورنہ میں کوئی رشتہ ایک یا دو دن سے زیادہ نہیں رکھتا۔۔۔میں تو سہم کر رہ گئی تھی، میری سہیلیوں نے کہا تھا اگر وہ تم سے گانے کی فرمائش کرے تو اسے ضرور سنانا، وہ تمھاری آواز پر مر مٹےگا۔‘‘مگر اس نے تو کوئی فرمائش نہیں کی، بس مجھے سارے زیورات اتار کر شب خوابی کے لباس پہن لینے کو کہا اور پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا، میرے سارے خواب چکنا چور ہو چکے تھے، میں ایک ٹوٹی ہوئی گڑیا کی طرح ایک طرف پڑی تھی، میں نے پاؤں پھیلانے کی کوشش کی تو محسوس ہوا جیسے میرے پیر بھی ٹوٹ گئے ہیں، مجھے ظالم دیو اور ننھی پری کی کہانی یاد آئی جس کے پر نوچ لیے گئے تھے۔

    میں نے عجیب بھیانک خواب دیکھا تھا، اس سے پہلے میں ہمیشہ تتلیوں اور پریوں کے خواب دیکھا کرتی تھی مگر پہلی بارایک جیتے جاگتے دیو کو پری کو بے بس کر کے اس کے پروں کو نوچتے ہوئے دیکھا تھا۔

    ولیمے کے دن جب میرے بھائی بہن مجھے لینے آئے تو میں ایک پر کٹی چڑیا کی مانند سسک رہی تھی، مگر میری آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہ تھا۔ انھوں نے اس آدمی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں انھیں کیا بتاتی کہ میرے کمرے میں اس کے ساتھ آج ایک نیا چہرہ ہے۔

    میرے کانوں میں ایک ہی جملہ گونج رہا تھا۔ ’’میں ایک ہی چہرہ بار بار دیکھنے کا عادی نہیں ہوں۔‘‘

    میری ساس نے کہا۔ ’’وہ سو رہا ہے،ولیمے کی ساری تیاری کا انتظام بھی تو اسی کو کرنا ہے۔‘‘ میں نے چپ سادھ لی۔

    میری ساس میرا بہت خیال رکھتیں، ولیمے کے بعد وہ کسی فلائٹ پر پندرہ دنوں کے لیے چلا گیا، کچھ ہی دنوں کے بعد مجھے معلوم ہوا میں ماں بننے والی ہوں، میری ساس خوشی سے پھولے نہیں سماتیں، انھوں نے فون پر اپنے بیٹے کو خوش خبری سنائی، اس نے پہلی بار مجھے فون کیا اور بڑے پیار سے باتیں کیں۔

    میری ساس نے کہا۔ ’’اب وہ مکمل طور پر بدل جائےگا، بچے کو آ جانے دو، پھر تم اپنے آپ کو بہت محفوظ پاؤگی۔‘‘

    لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، وہ واپس آیا تو اس کا لہجہ بہت میٹھا تھا مگر اس نے جو بات کی وہ زہر سے بھی زیادہ قاتل تھی۔

    ’’تم ابھی بہت چھوٹی ہو،مجھے ڈر ہے تمھیں کچھ ہو نہ جائے، میرے ساتھ چلو، میں ابارشن کراکے تمھیں اس مصیبت سے بچا لوں گا۔‘‘

    میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، اس وقت مجھے انکار کا یارا بھی نہیں تھا، میری چپ کو اس نے رضا مندی سے تعبیر کیا اور غالباََ کسی ڈاکٹر سے باتیں کرنے نکل گیا۔

    میں نے اپنی ساس سے کہا تو انھوں نے واویلا مچا دیا، وہ ہر لمحے مجھ پر نظر رکھتیں اور اس کے ساتھ کہیں نکلنے نہیں دیتیں، انھوں نے مجھے سمجھایا، میں نے بھی ضد پکڑ لی کہ میں ابارشن نہیں کراؤں گی، مجھے یقین تھا میری کوکھ میں پلنے والا بچہ ایک نہ ایک دن ایک جانور کو انسان بنا دےگا۔

    پہلے بچے کے بعد اس نے میرے تین بچے ضائع کرا دیے تھے، چوتھے بچے کی آمد کا سن کر وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا، اس کے دوستوں سے معلوم ہوا اس نے دوسری شادی کر لی ہے اور یورپ میں ہے۔

    مجھے جیسے سانپ سونگھ گیا تھا، اس لیے نہیں کہ اس نے دوسری شادی کر لی تھی کیونکہ ویسے بھی وہ جب چاہتا اپنی ماں کی موجودگی میں کسی نہ کسی کو گھر لاکر رنگ ریلیاں مناتا، مجھے اپنے دونوں بچّوں کی فکر کھائے جاتی تھی۔ میں نے اپنی زندگی ان دونوں کے لیے وقف کر دی تھی مگر زندگی نے میرے لیے دوسرے امتحان بھی رکھ دیے تھے، بڑا بیٹا جب دس سال کا ہوا تو وہ پھر لوٹ کر آیا، اسے نئی گاڑی اور پیسوں سے نوازتا رہا، جب وہ اٹھارہ سال کا ہوا تو اسے یا مجھے کسی عدالت میں جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، پیسوں کی مقناطیسی کشش نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا، دوسرے بیٹے نے بھائی اور باپ کے بےحد اصرار کے باوجود میرے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی اور دکھ سکھ کے ہر موسم میں میرے ساتھ تھا اور آج برسوں بعد اس خبر نے پھر ہلاکر رکھ دیا تھا، میں تو تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ اس کی موت کا مجھ پر کوئی اثر ہوگا، میرے لیے تو وہ بہت پہلے مر چکا تھا۔

    محلہ پڑوس والوں کو ایک تماشا دیکھنے کا انتظار تھا، خواتین بار بار میرے بچوں کو اکساتیں۔

    ’’بیٹا آج آخری بار اپنی ماں کو لے کر آؤ، کہنا کہ اسے معاف کرنے آ جائے۔‘‘

    دونوں بچے مجھے لینے کے لیے آئے، کمرے سے گیراج تک جاتے ہوئے میرے قدم سو سو من کے ہو گئے تھے، میرے اور اس کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہو گیا تھا وہ اتنا طویل تھا کہ ہر قدم سو میل کا بن گیا تھا، بچوں سے میں کیا بتاتی کہ آج میں پھر ایک ٹوٹی ہوئی گڑیا کی مانند ہوں، اس کا بےجان جسم سفید کپڑوں سے ڈھکا ہوا سامنے دھرا تھا، وہاں رشتہ دار خواتین و حضرات کا ایک ہجوم ایک تماشے کا منتظر تھا کہ میں اس کے بےجان جسم کو دیکھ کر دھاڑیں مار کر روؤں گی، اس سے فریاد کروں گی یا بےہوش ہوکر گر جاؤں گی، سب نے مجھے رلانے کی بھرپور کوشش کی،

    ’’بٹیا ایک بار اسے معاف کر دو تاکہ اس کی روح کو سکون آ جائے۔‘‘ میں نے کتنے لمحوں کو آوازیں دیں لیکن اتنے طویل عرصے میں ایک لمحہ بھی ایسا یاد نہیں آیا جس میں کوئی خوب صورت یاد بسی ہو، ہر لمحہ عذاب بن کر آتا اور رگ جاں میں نشتر اتار دیتا اس نے میرے جسم و جاں میں ا تنے کانٹے بو دیے تھے کہ ان کی چبھن سے میرا وجود لرز اٹھتا تھا، میرا جی چاہتا تھا اس سے پوچھوں میں نے تمھارا کیا بگاڑا تھا۔ گھر کے باہر مرد حضرات جنازہ اٹھانے کی جلدی کر رہے تھے کہ ایک بار میں اسے معاف کر دوں تو وہ اسے لے جائیں، میں نے چہرے پر سے کپڑا اٹھایا اور جانے کیوں بےساختہ رو پڑی، آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے، خواتین کہہ رہی تھیں،

    ’’زور سے کہو میں نے تمھیں معاف کیا۔‘‘

    سارا مجمع منتظر تھا بالکل اسی طرح جیسے نکاح کے وقت میری طرف سے حرف اقرار سننے کے لیے جمع ہوا تھا۔

    میری زبان سے بےاختیار نکلا۔

    ’’جاؤ آج میں نے تمھیں معاف کیا لیکن اپنا معاملہ اس کو سونپ دیا جو بہترین انصاف کر نے والا ہے۔‘‘

    اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کیا ہوا، کانوں میں خواتین کی آوازیں جیسے خواب میں سنائی دے رہی تھیں،

    ’’کمبخت ظالم عورت۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے