اس نے دروازے پر لٹکتے کڑوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔ پھر ڈور بیل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
ویسے بھی اب کنڈیاں کھڑکانے کا دور کہاں رہا؟ کڑے کھنکانے اور ان سے جھول جانے کا زمانہ تو وہ بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے۔
وہ توان کڑوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا۔ مگر ان کی میخیں کواڑ میں اس قدر پیوست تھیں کہ بڑھئی کو کہنا پڑا، ”بابو صاحب، رہنے دیجئے۔ پلا کمزور ہو جائےگا۔ آج کل کے لاکنگ سسٹم کا کیا بھروسہ۔ انھیں رہنے دیجئے گھر سرکچھت رہےگا۔“
اور اسے بڑھئی کی بات مان لینی پڑی۔
بچپن میں جب وہ کھیل کود کر گھر لوٹتا تو دروازے پر کچھ دیر ٹھہر جاتا۔ ان کڑوں کو نچاتا۔ کھنکاتا اور انھیں پکڑ کر جھول جاتا۔
ماں آہٹ پہچان لیتی۔ 'کھٹ' سے کواڑ کھول دیتی۔ وہ اپنی بانہیں پسار دیتا۔ ماں جگر پارے کو چھاتی سے چمٹا لیتی تھی۔
لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ آہٹ پہچاننے والی ماں بھی نہیں رہی۔ اب تریشا ہے جو محض گھنٹی کی آواز پہچانتی ہے۔ اسے سن کر ہی دروازہ کھولتی ہے۔
دنیا بدل گئی۔ ببھاش کے گھر کا نقشہ بھی بدل گیا۔ سیمنٹ کی فرش کی جگہ رخام اور گرینٹ بچھ گئے۔ چھت، دیواراورستونوں پر چونے کا لیپ نہیں رہا روغناب چڑھ گئے۔ اب جھولتے تار دکھائی نہیں دیتے۔ دیواروںمیں مدفون ہو گئے ہیں۔ چھت سے لٹکنے والے بلب کی جگہ بریکیٹ پر نصب خوشنما قمقمے اور پنکھے کی جگہ ائیرکولر لگ گئے۔ غسل خانے میں گلیز ٹائل، واش بیسن، کموڈ، جھرنا، شیشہ، گیزر، گیجٹ اورمختلف شکل کے شیکل چمکیلے نل فٹ ہو گئے ہیں۔ پلائی ووڈ، سن مائیکا اور پینل چپکا کر میز، کرسی، ٹیبل، الماری سبھوں کو نئے سانچے میں ڈھال دیا گیا۔ کھڑکیاں نقرئی ہو گئی ہیں۔
مگر یہ سب یوں ہی نہیں ہوا۔ اس کے لیے اسے بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ اب تک چکا رہا ہے۔ پرویڈنٹ فنڈ کی تہ ٹوٹ چکی ہے۔ ہر ماہ تنخواہ کا ایک بڑا حصہ قسطوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ مہنگائی بھی اس قدربڑھ رہی ہے کہ بچی کھچی رقم سے کھینچ تان کے گزارا ہوتا ہے اور اس پر تریشا کی یہ نئی فرمائش! خدا خیر کرے!
اس نے کندھا اچکا کر جھولے کو سنبھالا دیا۔ ڈور بیل پر انگلی رکھی۔ بٹن دبتے ہی چڑیوں کی چہچہاہٹ سے پورا گھر گونج اٹھا۔
اور جب دروازہ کھلا تو تریشا بنی سنوری، نیلی پیلی بنگلہ تانت ساڑی کا آنچل سنبھالے تبسم افشاں تھی۔ ببھاش نے اسے دیکھا اور مسکراتا ہوا اندر چلا آیا۔
اندر آیا تو دیکھا، رسوئی میں ماسی برتن سینت رہی ہے۔ ببھاش نے اپنا جھولا ایک طرف رکھا، ماسی کو کن انکھیوں سے دیکھا اور کھسیاتا ہوا غسل خانے میں داخل ہو گیا۔
تریشا رسوئی میں چلی گئی اور ماسی کو معنی خیز نظروں سے تکنے لگی۔
ماسی بھی کچھ دیرخاموش اسے گھورتی رہی۔ پھر روہانسی صورت بناکر بولی، ”باچا، کھوکا مجھے اس طرح کھسیائی نظروں سے کیوں دیکھ رہا تھا؟“
”نہیں نہیں ماسی، ایسی بات نہیں ہے۔ آفس میں کام زیادہ ہوگا۔ تھکے ہارے آئے ہیں۔ اس لیے موڈ بگڑ گیا ہوگا۔“
اتنا سننا تھا کہ ماسی کے چہرے کارنگ ایک دم سے بدل گیا۔ لبوں پر تبسم کی موج امنڈ پڑی۔ چہرے پر چہرہ اوڑھنے کے فن میں وہ اس قدر ماہر تھی کہ اچھے سے اچھا اداکارہ کو بھی بہت پیچھے چھوڑ سکتی تھی۔ وہ 'موڈ' کا مطلب بھلی بھاتی جانتی تھی، مگر اس لفظ کو پوری طرح ادا نہیں کر پاتی تھی۔ موڈ کو 'موٹھ' کہتی اور شرم سے نظریں جھکائے ہولے سے مسکرا دیتی تھی۔
وہ اس بار بھی مسکرائی، پتلیاں نیم دائرے میں دائیں سے بائیں کی جانب گھمائی اور ہوک پر ٹنگی المونیم کی ایک چھوٹی سی کڑھائی اتار کر تریشا کے سامنے رکھ دی۔ نظریں جھکا کر دبے لہجے میں بولی، ”باچا، تویہ لو، کھوکا کا وہ کیا کہتے ہیں۔۔۔، 'موٹھ!' ہاں، 'موٹھ' بنا دو۔“
ماسی بھی عجب خلقت ہے۔ بوڑھی ہے، بیوہ ہے اور بیوہ کے تمام دھرم کا پالن بھی کرتی ہے۔ سفید ساری، ترشے ہوئے بال، تلسی کی مالا! کھان پان میں بھی احتیاط برتتی ہے۔ لیکن لگائی بجھائی میں نارد منی کی تائی ہے۔ اِس گھر کی اس گھر اور اس گھر کی اس گھر کرنے میں ایسی طاق ہے کہ رائی کا پہاڑ بنا دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس کی یہ فطرت ببھاش کو قطعی پسند نہیں۔
اور اس دن تو وہ ایک دم سے اکھڑ گیا تھا جب اس نے دیکھا کہ وہ ہاتھ چمکاکر، ہونٹ بچکاکر، دیدے مٹکا مٹکا کر تریشا سے کہہ رہی ہے، ”باچا، کتنا سندر رسوئی ہے ان لوگوں کی! جھانس، دھوئیں کا جھنجٹ نہیں۔ نہ آنسو نہ کھانسی، گھر کی سوبھا (شوبھا) بھی بڑھ جاتی ہے اور سمّان بھی۔ بجلی، گیس، سمے، پریسم (پریشرم) سب بچتے ہیں۔۔۔!“
ہاتھ چمکاکر، ہونٹ بچکا کر، دیدے مٹکا کر اپنی بات اس ڈرامائی انداز میں کہتی ہے کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کی بات سن کر تریشا ایسی مچل اٹھی کہ دوسرے ہی دن گنگولی باڑی جا ٹپکی۔ گنگولی دیدی نے بھی اپنی نئی رسوئی کی جی کھول کر تعریفیں کیں۔ الفاظ وہی ماسی کے تھے، مگر انداز قدرے شائستہ تھا، ”جھانس، دھوئیں کا جھنجٹ نہیں۔ نہ آنسو نہ کھانسی، گھر کی شوبھا بھی بڑھ جاتی ہے اور سمّان بھی۔ بجلی، گیس، سمے، پریشرم سبھی بچتے ہیں۔۔۔!“
اس کے بعد تریشا اور گنگولی دیدی کے تعلقات پروان چڑھتے گئے۔ فون پر دونوں میں گھنٹوں باتیں ہونے لگیں اور ماسی بھی ہاتھ چمکا کر، ہونٹ بچکاکر، دیدے مٹکا مٹکا کر ان کی باتوں کو تقویت بخشتی رہی۔ اس کی کہی اسے اور اس کی سنی اِسے مرچ مسالہ کے ساتھ لگاتی رہی۔
اب تریشا جھلانے لگی تھی۔ ایک دن ببھاش پر برس پڑی، ”لوگ کیا کچھ نہیں خرید رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ۔۔۔“
شکست خوردہ سپاہی کی طرح ببھاش کو خاموش یہ سب سننا پڑتا ہے۔ توتان کرتے نہیں بنتا۔
تریشا کے اس احساس کو حسد کہنا مناسب نہیں۔ ہاں، رشک کا نام دیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس کی بنیاد دوسروں کی کفالت نہیں، اپنی کم مائیگی ہے اور ببھاش تریشا کی کم مائیگی کو چوٹالنا نہیں چاہتا۔ اسے پیار سے سمجھاتا ہے، ”میری جان، دیکھو، مکان میں کتنے خرچ ہو گئے ہیں۔ قرض کتنا بڑھ گیا ہے! کچھ دن ٹھہر جاؤ۔۔۔“
تریشا اندر ہی اندر بھبک اٹھتی، لال پیلی بھی ہو جاتی اور کبھی کبھار ایک آدھ تجویز بھی پیش کر دیتی ہے، ”ایسا ہے تو میں پوجا میں ساڑی نہیں لوں گی۔ گھومنے بھی نہیں جاؤں گی اس بار۔ پندرہ بیس ہزار تو بچ ہی جائیں گے۔۔۔“
(دو)
ببھاش ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نئے مسئلے کا حل ڈھونڈ رہا تھا کہ تریشا آئی۔ ٹیبل پر ٹرے رکھ کر اٹھلاتے ہوئے بولی، ”مچھلی کے انڈے کی کچوڑی۔ آپ کا پسندیدہ ناشتہ۔“
بیوی کی اس بے وقت دل جوئی سے ببھاش ڈر گیا۔ سیانی عورت کبھی کبھی پیٹ کے راستے بھی مرد کے دل تک پہنچنا چاہتی ہے اور مرد اگر ببھاش جیسا شوہر ہو تو عقلمندی کا یہی تقاضہ ہے کہ وہ قفل بر لب بیوی کو راستہ فراہم کرتا جائے۔
ببھاش نے بھی یہی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ وہ بیوی سے الجھنا نہیں چاہتا تھا۔ ویسے بھی سمجھ دار شوہر بیوی کی دلفریب مسکراہٹ کا تجزیہ نہیں کرتے۔ اس کا لطف لیتے ہیں۔ دلفریب مسکراہٹ کے درپردہ دل خراش مطلب بھانپ لیتے ہیں۔ ببھاش نے بھی بھانپ لیا۔ تریشا کی مسکراہٹ میں چھپی ماڈولر کچن کی طلب کو۔ چنانچہ اس نے برا نہیں مانا۔ ہاں، اپنی بےبسی اور کم مائیگی کا نوحہ گر ضرور ہوا۔
اور دوسرے دن تو وہ بھونچکا رہ گیا!
جب اس نے ڈور بیل پر انگلی رکھی تو دروازہ تریشا کے بجائے کوٹ پینٹ میں ملبوس ایک نوخیز حسینہ نے کھولا۔ گوری چٹی سڈول جسم والی اس خندہ رو حسینہ نے اسی کے گھر میں اس کا استقبال کیا۔ گرم جوشی سے بولی، ”ہیلو، آئم، مس آرتی شرما!“
اس سے پہلے کہ وہ تجسس کے سمندر میں غرق ہو جاتا، بیوی کی آواز نے اسے سنبھالا دیا، ”ٹی وی پر ہوم شاپنگ کا ایڈ آ رہا تھا۔ میں نے فون کر دیا۔ یہ وہیں سے آئے ہیں۔ ڈیمو دکھانے۔“
ایک نوجوان سوٹ بوٹ پہنے تریشا کے پاس کھڑا تھا۔ آگے بڑھ کر ہینڈ شیک کیا اور بولا، ”ہیلو سر، آیم، سوربھ مکھرجی، سنیئر سیلس ایکزکیوٹو فرام کچن اینڈ گیجٹ، شیز مائی کولیگ، مس آرتی شرما۔“
ببھاش اندر ہی اندر جھنجھلایا۔ اس نے بیگ ایک کونے میں رکھا اور بےدلی سے بولا، ”ٹھیک ہے، دکھایئے۔“
لڑکے نے کہا، ”سر، آج باورچی خانے کا کانسپٹ بدل گیا ہے۔ پہلے باورچی خانہ گھر سے باہر ایک کونے میں ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ ہمارے گھر کا ایک important حصہ بن گیا ہے۔ ویسٹرن کنٹریز میں تو اس کی سجاوٹ پر خاص دھیان دیا جاتا ہے۔ وہاں نئے نئے کنسپٹس آ رہے ہیں۔ وہاں لوگ باورچی خانہ کو کچن نہیں، بلکہ ماڈولر کچن کہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ الگ الگ Modules سے بنے ہوتے ہیں۔ دیکھئے ان فوٹو کو۔“
مس آرتی نے ایک البم آگے بڑھایا۔ صفحہ پلٹتے ہوئے کہنے لگی، ”سر، دیکھئے یہ الگ الگ ماڈیولس ہیں۔ چیمنی، شٹر، شیلف، کبینٹ، سینک، باسکیٹ اینڈ پل آؤٹ! اور دیکھئے، جب یہ سب ایک ساتھ مل جاتے ہیں تو کتنا مارویلس کچن بن جاتا ہے، جو گھر کے Environment کو گلمرس ٹچ دیتا ہے۔۔۔“
تمام ڈیزائنس اور ماڈلس دیکھ لینے اور ان کی خوبیاں جان لینے کے بعد تریشا کو ایک ماڈل بھا گیا۔
ببھاش نے قیمت پوچھی۔
لڑکے نے سلری سلپ کی کاپی مانگی۔ قرضوں اور قسطوں کی رقم دریافت کی۔ اس کے بعد سر ہلاتے ہوئے کہا، ”سر، آپ کا پے پکیج تو ٹھیک ہے لیکن ہوم ٹیک سلری Sufficient نہیں۔ آپ کو کم سے کم سیکسٹی پرسنٹ ڈان کرنے پڑیں گے۔ یعنی راؤنڈ اباؤٹ سیونٹی تھاؤزنٹ۔ باقی چھ انسٹالمنٹس میں۔
سچ پوچھئے تو ببھاش کو بھی وہ ماڈل پسند آ گیا تھا مگر بات قیمت اور ادائیگی کی صورت پر اٹک گئی۔ اس نے کہا، ”ٹھیک ہے، ہم مشورہ کر لیں، پھر آپ کو فون پر بتاتے ہیں۔“ وہ دونوں چلے گئے۔ ببھاش غسل خانے میں داخل ہو گیا۔ جی تو چاہا کہ بیوی کو جھڑک کر اس کے سر سے ماڈولر کچن کا بھوت اتار دے۔ وہ باہر آیا مگر تریشا کو جھڑکنے کی ہمت نہ جٹا پایا۔ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بولا، ”آج باس اور ٹائم کے لیے کہے رہے تھے۔ آئندہ ماہ سے انکرمنٹ بھی مل جائےگا۔ بینک مینیجر سے کہہ کر دو چار قسطیں ملتوی کرا دوں گا۔ بس دو چار مہینے۔“
تریشا خاموش کھڑی رہی۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔ اس سے پہلے کہ وہ ابل پڑتی کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ ببھاش نے فون اٹھایا اور اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا، ”تمہاری گنگولی دیدی!“
اسے ببھاش کا لہجہ طنزیہ لگا۔ اس نے جھپٹ کر فون لیا اور صوفے پردے مارا۔ فون بجتا رہا۔
ببھاش نے مارک کیا کہ تریشا کی پیشانی پر ایک ساتھ بہت ساری لکیریں ابھر آئی ہیں، مگر وہ اس بات کا اندازہ لگانے سے قاصر رہا کہ یہ لکیریں مایوسی کی ہیں یا غصے کی۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ بادلوں کی مانند پھٹ پڑی، ”کہہ تو دیا کہ پوجا میں کپڑے نہیں لوں گی۔ گھومنے بھی نہیں جاؤں گی۔ پھر بھی۔۔۔“
اتنا کہہ کر وہ سسکیاں بھرنے لگی۔ آنکھ کے کونوں سے آنسو کی دھار پھوٹ پڑی۔
آنسوکی یہ دھار نسوانی شکست کا پرتو نہیں، مجروح انا کا آئینہ دار تھی۔ آج صبح کو ماسی نے بھی کچن کا ذکر چھیڑا تھا۔ تریشا نے لہک کر کہہ دیا تھا کہ آج ڈیمو کے لیے آدمی آئیں گے۔ کل خرید لیں گے۔ پرسوں تک ڈلیوری ہو جائےگی۔“
اور اس کی زبان سے جب لفظ 'ڈلیوری' ادا ہوا تھا تو اس کے اندرایک ساتھ خوشی کی کئی ترنگیں ابھریں جن کو ماسی نے بھی محسوس کیا تھا۔ مگر ببھاش کی بات سن کر تریشا افسردہ ہو گئی۔ سوچنے لگی، ”اتنی بے عزتی کیسے برداشت کروں گی؟“
وہ بپھر گئی۔ اس کے اندر ضد و انا کا ایک پرزور طوفان اٹھا اور دیکھتے دیکھتے اس سرگردان طوفان نے تریشا کو اپنے نرغے میں لے لیا اور اس نے یہ فیصلہ کر لیا، ”جو بھی ہو، میں اپنا سر نیچا ہونے نہیں دوں گی۔ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ضرورت پڑی تو اپنے زیورات بیچ دوں گی۔ مگر ہار نہیں مانوں گی۔“
اور زیورات کا خیال آتے ہی اسے وہ کنگن یاد آئے، جو مرتے وقت ساس نے یہ کہہ کر اس کے حوالے کیے تھے، ”بیٹی، میری ساس نے مجھے سونپے تھے۔ میں نے اب تک سنبھالا ہے، لے اب تو سنبھال۔“
مگر کیا کیجئے انسانی خواہش تو پانی کی طرح ہوتی ہے۔ حد سے تجاوز کر تی ہے تو تکمیل کی کوئی نہ کوئی راہ تلاش کر لیتی ہے۔ صحیح غلط، جائز ناجائز، بھلے برے تمام بندشوں کو پاش پاش کر دیتی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا تھا۔
رات کو جب ببھاش گہری فکر میں ڈوبا ہوا تھا تو تریشا دبے پاؤں اندر والے کمرے میں داخل ہوئی اور الماری سے زیورات کا ڈبہ نکال لائی۔ ببھاش کے سامنے رکھ کر پرمعنی انداز میں تکنے لگی۔
ببھاش نے ڈبے پر ایک سوالیہ نگاہ ڈالی۔ بھوئیں جوڑ کر پوچھا، ”کہیں سے دعوت آئی ہے؟“
تریشا لمحہ بھر خاموش کھڑی رہی، پھرہونٹ پر دانت دبا کر، ببھاش کی گردن پر گوری گوری بانہیں ڈال دیں۔ چپک کر سینے پر رخسار رکھتے ہوئے معشوقانہ انداز میں بدبدائی، ”اس میں کچھ زیورات ایسے ہیں جو ہمارے کام کے نہیں ہیں۔“
”ہاں، تو؟“ اس نے تریشا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے پوچھا۔
تریشانئی نویلی دلہن نہیں کہ زلفوں سے سوندھی میٹھی خوشبو آتی اور ببھاش ہوش کھو کر اس کی نازبرداری میں جٹ جاتا۔ ادھیڑ عمری کو پہنچتی ہوئی دس سال پرانی بیوی تھی۔ لہٰذا اس نے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھانے کا منصوبہ بنایا۔ اسے پتہ تھا کہ اس کی زلفیں نئی نویلی دلہن کی زلفوں کی طرح معطر نہیں مگر گھنی کالی ریشم جیسی چکنی ضرور ہیں جن پر ببھاش جیسے مرد کی انگلیا ں آسانی سے پھسل سکتی ہیں۔ ویسے بھی اس عمر میں عورتیں مردوں کو شیشے میں اتارنے کا گر تو سیکھ ہی لیتی ہیں۔
اس نے ببھاش کی روئیں دار چھاتی پرگداز گال رگڑے۔ پلکوں کے تیر چھوڑے، تیغ ابرو سے نشانہ سادھ کر کہا، ”ساٹھ ستر ہزار تو مل ہی جائیں گے۔ آرام سے آجائےگا اپنا اسمارٹ کچن۔“، ”جھانس، دھوئیں کا جھنجٹ نہیں۔ نہ آنسو نہ کھانسی، گھر کی شوبھا بھی بڑھ جائےگی اور سمّان بھی۔ بجلی، گیس، سمے، پریشرم سبھی بچیں گے۔۔۔!“
وہ سوچنے لگا۔ حیرت و استعجاب کے سمندرمیں غوطے لگانے لگا، ”آخر اس ڈبے میں کون سا زیور ہے جسے بیچ کر اتنے سارے روپے مل سکتے ہیں۔“
وہ سوچ رہا تھا کہ اچانک اس کے اندر ایک بجلی سی کوند گئی، ”کہیں، اس کی نظر ماں کے کنگن پر تو۔۔۔؟“
اس کا شک صحیح ثابت ہوا۔ تریشا نے ڈبہ سے کنگن کا جوڑا نکالا اور کھنکاتے ہوئے اس کے آگے کر دیا، ”دیکھ رہے ہو انھیں؟“
ببھاش کی نگاہ کنگن کی جوڑی پر جم گئی۔ ہکلاتا ہوا بولا، ”مگر۔۔۔ یہ تو۔۔۔ ماں کے۔۔۔“
”ماں کے تھے۔ لیکن انھیں سینت رکھنے سے کیا فائدہ؟“ وہ تلخ الفاظ کو شیریں لہجے میں انڈیلتی گئی، ”اولڈ فیشن ہوگئے ہیں۔ اتنے بڑے ہیں کہ میں تو پہننے سے رہی۔ بکسے ہی میں پڑے رہتے ہیں۔“
”تو اس کا مطلب۔۔۔ انھیں بیچ دیں؟“
تریشا میٹھی ہنسی ہنس کر بولی، ”نہیں، انھیں رہنے دیں۔ بکسے میں پڑے پڑے دو کے چار ہو جائیں گے، ہے نا؟ اور اگر چور ڈاکو لے گئے تو؟“
”مگر۔۔۔“ ببھاش پھر ہکلایا اور اس مرتبہ اس کی ہکلاہٹ دیکھ کر تریشا بھانپ گئی، لوہا گرم ہو رہا ہے۔ دھونکنی پھونکنے کی ضرورت ہے۔
چنانچہ اس نے مزید کچھ نہیں کہا۔ دھیرے سے اٹھی اور اسے گھورتی ہوئی اندر والے کمرے میں چلی گئی۔
ببھاش اکیلا بیٹھا سوچنے لگا اور جب آدمی سوچنے لگتا ہے تو دماغ بھی الٹی سیدھی منطقیں پیش کرتا ہے۔ پھر یہ منطقیں دھیرے دھیرے دل پر حاوی ہونے لگتی ہیں۔
ببھاش سوچتا رہا۔ دماغ نے بچپن کا منظر اس کے سامنے پھیر دیا۔
(تین)
ماں کے گورے اجلے ہاتھ۔ ہاتھوں میں لال سفید سنکھ کی چوڑیاں۔ ان کے درمیان ہلتے ڈولتے چمکدار کنگن۔ جھن جھن بجتے ہوئے، کھن کھن کرتے ہوئے خوبصورت کنگن۔ اس وقت اس کے بابا بھی زندہ تھے۔
ماں جب پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی تو کنگن اس کے بالوں کو چھو جاتے تھے جیسے ماں کی محبت، اس کا پیار ان کنگنوں میں سمٹ آئے ہوں۔
وہ ماں کا ہاتھ تھام لیتا تھا۔ انھیں نچاتا، کھنکاتا اور پکڑ کر جھول جاتا تھا۔
ماں کہتی تھی، ”ببھو، شام کے وقت جب سنکھ بجنے کی آواز سنائی دے اور پرندے چہکارتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں کی اور لوٹنے لگیں تو سمجھ لینا کہ سورج ڈوب چکا ہے۔ اندھیرا ہونے والا ہے۔ تیرے باپو کام سے لوٹتے ہوں گے۔ تو بھی گھر لوٹ آنا۔ تیرے باپو آتے ہی تیرے بارے میں پوچھتے ہیں۔“
اور کھیلتے کھیلتے جب اس کے کان میں سنکھ بجنے کی آواز آتی تو ماں کا چمکتا چہرہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا اوراس سے پہلے کہ آس پاس کے مناظر رات کی سیاہی میں گم ہو جائیں وہ بھاگتا ہوا گھر لوٹ آتا تھا۔
ماں آہٹ پا کر کواڑ کھول دیتی اور وہ اپنی بانہیں پھیلا دیتا، ماںا اسے اپنی چھاتی سے لگا لیتی۔ اس وقت وہ اپنی پسلیوں پر کنگنوں کی میٹھی میٹھی چبھن محسوس کرتا اور اسے یوں لگتا تھا کہ اس کی تھکن ان کنگنوں میں جذب ہوتی جا رہی ہے۔
اسے پوچھنے والا بابا نہیں رہا۔ ممتا نچھاور کرنے والے وہ ہاتھ بھی نہیں رہے۔ بس یہ کنگن ہیں، جواب چمکتے نہیں، کھنکتے بھی نہیں۔ بس ڈبے میں بند پڑے رہتے تھے۔ تریشا کہتی ہے یہ اولڈ فیشن ہو گئے ہیں۔ سائز بھی بے ڈھب ہے۔ اس لیے وہ انھیں نہیں پہن سکتی۔ بات یہاں تک تو ٹھیک تھی، مگر اب ببھاش کویہ اندیشہ ہو چلا تھا کہ ماں کے یہ کنگن کہیں گھریلو فساد کی جڑ نہ بن جائے۔ لٹ لٹا جانے کا خطرہ تو لاحق تھا ہی۔
ادھر ببھاش ان خیالوں میں الجھا ہوا تھا ادھر تریشا ہوشیار شکاری کی طرح جال بچھا کر ایک کونے میں دبک گئی۔ کہہ گئی، ”مجھے جو کہنا تھا کہہ دیا، اب فیصلہ آپ کو لینا ہے۔“
ببھاش سوچتا رہا۔ دیر رات تک سوچتا رہا۔ تریشا نے بظاہر فیصلہ اس پر چھوڑ دیا تھا مگر اندر ہی اندر سوزشِ ِ شوق میں تپ رہی تھی۔ اسے کچن چاہیے ہی چاہیے۔ اس نے دور سے ببھاش پر نگاہ ڈالی، مسکرا کر اپنی سوزش شوق کا رخ موڑا اور ببھاش کی روح کو اس کی گرمی سے پگھلا دینے کا تہیہ کیا۔
ببھاش ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ آنکھیں موندے، پیشانی پر سینکڑوں سلوٹیں ڈالے، سوچ رہا تھا کہ اچانک اسے ٹی وی کی آواز سنائی دی۔ دیکھا، تریشا نیم عریاں کھڑی ہے۔ ڈی وی ڈی آن ہے۔ اسکرین پر نظر پڑتے ہی سوچنے کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ رگ مردانگی پھڑک اٹھی۔
ایسی نازک گھڑی میں عورت اکثر اپنی پیٹھ بستر سے لگا دیتی ہے۔ چاہتی ہے کہ مالِ غنیمت سمجھ کر مرد اس پر ٹوٹ پڑے۔ مگر یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی تھی۔ تریشا نے ببھاش ہی کو مالِ غنیمت سمجھ لیا۔ فاتح فوج کی طرح اُس پر ٹوٹ پڑی۔
(چار)
دوسرے دن شام سے پہلے ہی سارا سامان آ گیا۔ مسٹر مکھرجی اور مس شرما بھی ساتھ آئے تھے۔ گاڑی سے سارا سامان اتارا گیا۔ پکڑ دھکڑ کر گھر کے اندر لایا گیا۔ مسٹر مکھرجی اور مس شرما نے مل جل کر کبینٹ لگائی، ریک، چیمنی، اسٹو، واش بیسن فٹ کیے۔ ببھاش بھی ان کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ کبھی ریک پکڑتا، کبھی اوون اٹھاتا اور کبھی چیمنی کو سہارا دیتا۔ اس پکڑ دھکڑ کے دوران اس نے سینے پر دفعتاً ایک بوجھ سا محسوس کیا۔ دل میں ٹیس سی اٹھی۔
تریشاتو اپنی ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ جوش و ولولہ سے پھٹی جا رہی تھی۔ ہونٹ دبائے مسکرا رہی تھی۔
اب جھانس اور دھوئیں کا جھنجٹ نہیں رہا۔ آنسو تھے نہ کھانسی۔ گھر کی رونق بڑھ گئی تھی اور سماج میں مرتبہ بھی۔ بجلی، گیس، وقت، محنت سبھی بچنے لگے۔۔۔!“
مگر ببھاش کے سینے کا بوجھ اور دل میں اٹھنے والی ٹیس برقرار تھے۔
دوسرے دن صبح ہی سے اس کی طبیعت اچٹنے لگی تھی۔ سینے کا بوجھ بڑھتا گیا۔ دل کی ٹیس بھی تیز ہوگئی۔ دن کسی طرح اس نے دفتر میں گزارے اور شام ہوتے ہی وہ گھر لوٹ آیا۔ دروازے سے سر ٹکائے کچھ دیر نڈھال کھڑا رہا۔ کندھے سے لٹکتے ہوئے جھولے کو انگلی سے سرکا کر نیچے گرایا۔ سیدھے کھڑے ہوکر ہتھیلی سے چھاتی دبائی، دو چار لمبی لمبی سانسیں لیں۔ پھر بیل بجانے کے لیے بایاں ہاتھ اوپر کیا۔ مگر ہاتھ بیل تک نہیں پہنچا۔
اس نے دائیں ہاتھ سے کوشش کی۔ پھر بھی ناکام رہا۔
ایڑیاں اوپر کیں، مگر بیل نہ چھو سکا۔
اور جب نگاہ اٹھائی تو اسے محسوس ہوا کہ آج بیل کچھ زیادہ ہی اونچائی پر پہنچ گیا ہے۔ کچھ دیرتک وہ مایوس نگاہوں سے اسے تکتا رہا۔ پھر بائیں پسلی جھکائی۔ دائیں پسلی جس قدر چڑھ سکتی تھی چڑھا لی۔ بازوں کو اوپر کی جانب اس قدر لمبا کیا کہ بغل کی ہڈیاں تک چٹخ گئیں، پھر بھی بیل اس کی پہنچ سے باہر رہا۔
اس کی مایوسی بڑھتی گئی۔ دروازے سے جسم ٹیکے شکستہ حال کھڑا رہا۔ زمین پر پڑے جھولے کو پاؤں سے ایک طرف ڈھکیلا اور پوری توانائی سمیٹ کر اس بار وہ اچھلا۔
مگر بےسود، دوسرے ہی پل دھپ سے زمین پر آ گرا۔ سر چکرا گیا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ زانوں سے پیٹ اور چھاتی دبائے اکڑوں بیٹھا رہا۔
تبھی اسے ایک آواز سنائی دی۔ دور سے آتی ہوئی سنکھ کی آواز!
اس کا دل مسوسنے لگا۔ بےقراری بڑھنے لگی اور جب اس نے دروازے پر جھولتے کڑوں پر نظریں ڈالیں تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
سنکھ کی آواز تیز ہوتی گئی۔ پرندے چہکارتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹنے لگے۔ سورج ڈوبنے کے تمام آثار نمایاں ہو گئے۔
وہ روتا رہا۔ دھندلائی نظروں سے ان کڑوں کو دیکھتا رہا۔ پھر ہمک کر اپنی دونوں بانہیں ان کی طرف پسار دیں۔
(ماہنامہ آج کل، نئی دہلی ٢٠١٢ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.