پہلے سیمی اور پھر منی جب انہوں نے میرے حسین خوابوں کو چور چور کر دیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے زندگی ہمارے حسین خوابوں کی لاشوں پر بنی ہوئی ایک ایسی عمارت ہے، جس کی آخری منزل پر موت کھڑی مسکرا رہی ہے اور ہمارے خدا نے ہمیں صرف اس لیے زندگی عطا کی ہے کہ ہم آخری منزل پر پہنچتے پہنچتے کئی مرتبہ پھسل جائیں۔ پہلے اپنے جذبات اور احساسات کے عزرائیلوں سے ملیں اور پھر جب ہمارے ذہن کو کچلتے کچلتے یہ عزرائیل شرماجائیں تو وہ ہمیں بڑے اطمینان سے آخری منزل کی طرف دھکیل دیں، جہاں حیات کا عزرائیل ہمیں اپنے خوشنما، لیکن ایک نامعلوم خوف کا احساس دلانے والے پردوں میں چھپالے اور پھر قبر کی مٹی میں تحلیل ہوتے ہوئے ہم اس حیات ابدی کا تجربہ کریں جس کا وجود شاید نہ ہو۔
بہرحال اگر مجھے یہ معلوم ہوگا۔ کہ پینو کے ساتھ زندگی بتانے کاخواب بھی کانچ کا خواب ثابت ہوگا اور زندگی کے متعلق میرا نظر یہ قنوطی ہوکر رہ جائےگا۔ تو میری انتہائی کوشش یہ ہوتی کہ میں خواب نہ دیکھتا۔۔۔ لیکن خواب دیکھنے بھی تو اپنے بس میں نہیں ہوتے۔ یہ تو لاشعور سے آتے ہیں اور نیند کو خوشیوں اور مسکراہٹوں سے ویران کرتے ہوئے جانے کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔ صرف ان کی بے جان لاشوں پر ہماری زندگی کی عمارت بنتی رہتی ہے۔
پینو کے آخری ٹیلیفون کے بعد جانے کیوں ایک ویران سی اداسی نے میری روح اور میرے دل کو محیط کر لیا تھا۔۔۔ شاید احساس کمتری کے باعث مجھے اپنے اکیلے پن کااحساس شدید سے شدید تر ہو گیا تھاکہ مجھ ایسے انسان کے ساتھ کوئی لڑکی بھی محبت نہیں کر سکتی۔ ایک ایسا انسان جس کا قد بہت چھوٹا ہے اور جو موٹے موٹے شیشوں کی عینک لگاتا ہے اور جس کے سر کے بال ٹائیفائیڈ کے باعث غائب ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔ میرے پاس جسمانی خوبصورتی نہیں، لیکن الائیڈز بینک میں میرا حساب تو تھا۔۔۔ اور سیمی، منی، پینو بھی تو ایسی لڑکیاں تھیں جن کے والدین کا اکاؤنٹ الائیڈز کے علاوہ گرنڈ لے بینک میں تھا۔ لیکن ان کے پاس جسمانی خوبصورتی بھی تو تھی۔
ان تمام حقائق کے باوجود جانے میری فطرت محبت کی پیاسی کیوں تھی۔ زلفی کا خیال تھا کہ میں ایسے انسانوں میں سے ہوں، جو دو ایک مرتبہ لڑکیوں سے فریب کھانے کے بعد لڑکی کی محبت کو زندگی کی ڈھال بناتے ہیں۔ بڑے سے بڑے خطرے کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس لڑکی کی خاطر بڑے آدمی بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور اکثر بہترین لیکن ’’ماڈرن‘‘ آرٹسٹ بن جاتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا، تو انہیں خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ۔۔۔ میرے متعلق شاید زلفی کا مشاہدہ عمیق تھا۔
جب میری اداس خاموشی سے زلفی بور ہوکر پریشان ہو گیا تو اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اس کی زمینوں پر چلا جاؤں، وہاں دیہاتی زندگی کو ’’ماڈرن تکنیک‘‘ میں پینٹ کروں۔ ممکن ہے ہنگاموں سے دور میرا دل بہل جائے۔
وہ خود تو کسی سرکاری امتحان کی تیاری میں مشغول تھا۔ اس لیے میرے ساتھ نہ آ سکا۔ میں اس کی زمینوں پر پہلی مرتبہ جا رہا تھا۔ سارا راستہ ریل گاڑی میں بھی اور بیل گاڑی میں بھی رہ رہ کر ایک خیال مجھے تنگ کر رہا تھا کہ جانے میں وہاں رہ بھی سکوں گا یا نہیں۔ خدا معلوم وہاں کا ماحول کیسا ہو۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں بھول کر کسی ماؤنٹ اولپیا پر پہنچ گیا ہوں۔ جہاں میری حیثیت باکل جوپیٹر دیوتا ایسی ہے۔۔۔ تاج سرور کی مختصر سی آبادی میری پرستش پر تلی ہوئی تھی۔
زلفی نے اپنے ذوق کے مطابق ایک چھوٹا سا خوبصورعت گھر بنوایا تھا۔ شیشم اور نیم کے درختوں میں گھری ہوئی یہ عمارت یوں معلوم ہوتی تھی جیسے بونوں کی باتصویر کہانیوں میں چھپا ہوا مکان نکل کر تاج سرور میں آ گیا ہے۔ اس مکان میں باقاعدہ بیڈروم، ڈرائنگ روم اور سٹڈی روم بھی تھے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ایسی کوٹھی کے بجائے مٹی کا گھر ہوتا۔ تاکہ میں مخصوص دیہاتی زندگی بسر کرتا۔ لیکن زلفی کی عقل مندی کا قائل میں اس وقت ہوا جب اس کے منشی صاحب سے ملنے ان کے ہاں گیا تھا اور لاتعداد مکھیوں نے میرا سواگت کیا تھا۔ ان کے بتانے پر مجھے معلوم ہوا کہ گاؤں کے ایسے مکانوں میں آدمی کم ہوتے ہیں اور مکھیاں زیادہ۔
میرے جانے کے بعد وہ ایک دن تک چاروں طرف سے لوسن، چٹالا اور کپاس کے کھیتوں میں گھری درختوں کے دامن میں چھپی اس عمارت میں زمینوں کے ملازموں کے علاوہ اور دوسرے دیہاتی بھی اپنے ’’سیدبادشاہ‘‘ یعنی مجھ سے ملنے کے لیے آتے رہے، میرے پیر اور گھٹنے چھوکر آنکھوں کو لگانے کے بعد باہر باغیچے میں میرے گرد نصف دائرے کی شکل میں یوں بیٹھ جاتے۔ جیسے میں ابھی آگ کو گلزار بنادوں گا۔ کسی دریائے نیل پر عصا پھینک کر پل بنادوں گا۔ یا قم باذن اللہ کہہ کر کسی قبر سے جیتا جاگتا انسان برآمد کروں گا۔
وہاں کے نوکر کھیتوں کو جانے سے پہلے ہرصبح مجھے سلام کرنے آتے۔ میرا چہرہ دیکھنا وہ اچھا شگون سمجھتے تھے۔ شام کے وقت سب نوکرمیرے پاس باہر باغیچے میں آ بیٹھتے۔ حقوں کی گڑگڑاہٹ میں دنیا بھر کے قہقہے گونجتے۔ سجوارے کی باتوں پر کریم، سلطان اور بابا روشن خاص طور پر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ سجوارا اپنے تحصیل دار کی نقلیں اتارتا۔ تو سب محسوس کرتے کہ وہ بہت تنگ کرنے والے تحصیل دار سے بدلہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ تحصیل دار کا تعلق براہ راست زلفی سے تھا۔ لیکن پھر بھی وہ سب لوگ زلفی کی خاطر جان دینے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ زلفی نے انہیں احساس دلایا تھاکہ ان زمینوں کا مالک صرف زلفی ہی نہیں بلکہ ہر وہ آدمی ہے جو ان زمینوں کو اپنے پسینے سے سینچتا ہے۔
میں باتوں ہی باتوں میں اپنے گلے سے ’’سید بادشاہ‘‘ کا طوق اتارنے کی بہت کوشش کرتا تھا کیونکہ ان کے رویے سے مجھے شرمندگی سی محسوس ہوتی تھی مجھے پسند کرنے کے باوجود سجوارا میرے اس نظریے کا سختی سے مخالف تھا۔ وہ اپنے عقیدے پر سختی سے پابند تھا کہ دنیا اور آخرت میں سکھ پانے کا ذریعہ صرف سید بادشاہ ہیں اور اس سلسلے میں سجوارا کے انداز گفتگو سے محسوس ہوتا تھا کہ سید ہونے کے باوجود اگر میں اس کے عقیدے کو جھٹلاؤں گا تو وہ یقیناً مجھے بھی کلہاڑی سے قتل کرنے سے گریز نہیں کرےگا۔۔۔ وہ لوگ مجھے بےحد عزیز تھے اور مجھے اپنی جان بھی پیاری تھی۔ اس لیے خاموش ہو رہا۔
سجوارا ایک عجیب و غریب قسم کا انسان تھا۔ وہ عجیب بھی اتنا ہی تھا جتنا کہ غریب وہاں کے تمام باسیوں میں اسی کی شخصیت نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
اس کا جسم بالکل کپاس کے پودے کے مانند کھردار تھا۔ لیکن اس کے ہونٹوں پر ہر وقت زعفران کے کھیت جھومتے تھے۔ اس کے پچکے ہوئے گالوں کے ساتھ لپٹے ہوئے موٹے موٹے ہونٹوں پر لہراتی ہوئی بڑی خوفناک مونچھوں کا بسیرا تھا۔ روشن چاچا کا خیال تھا کہ سجوارے نے مونچھیں نہیں رکھیں بلکہ مونچھوں نے سجوارے کو رکھا ہے۔ روشن چاچا کا یہ خیال حقیقت سے بہت دور تھا کیوں کہ مجھے تو یوں محسوس ہوتا تھا۔ جیسے منشی صاحب کے ایلسیشن کتوں کی دمیں کاٹ کر اس کے ہونٹوں کے اوپر چپکا دی گئی ہیں۔۔۔
سجوارا کچھ اسی قسم کا جانور تھا کہ جس کی دم اپنے مالک کے سوا اور کسی کے لیے نہیں ہلتی تھی۔۔۔ روشن چاچا اور دوسروں کاخیال تھا کہ وہ دیوانہ ہے کیونکہ آج تک کسی نے اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے۔ وہ ہروقت ہنستا رہتا تھا۔ اس کے اپنے قول کے مطابق اس کا دل بہت ہی دکھوں کا گہوارہ تھامگر کسی نے آج تک اسے اداس نہیں دیکھا تھا۔۔۔ بابا دارا کہتا تھا کہ رات کے وقت اپنی بیوی کے گھٹنوں سے لگ کر روتا ہے۔ لیکن روشن چاچا نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو بھی ہنساتا رہتا ہے۔ وہ اس طرح کہ رات گئے روشن چاچا بابا دارا کو لے کر اس کی کوٹھری کے باہر لے گیا۔ انہوں نے دروازے کے ساتھ کان لگاکر سنا اندر سے ہلکے ہلکے قہقہوں کی آواز آ رہی تھی۔
سجوارا انتہائی اونچی آواز سے باتیں کرتا تھا۔ باتیں کرتے وقت اس کا منہ لٹک سا جاتا اور اس کے منہ سے جھاگ اڑاڑ کر مونچھو کو سیراب کرتے رہتے اور اگر اتفاقاً کسی وقت اس کا منہ بند ہوتا تو لعاب کی ایک پتلی سی لکیر اس کے ہونٹوں کے درمیان جمی رہتی جسے کبھی کبھی وہ اپنی قیض کے کف سے پونچھ لیتا۔۔۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا کہ وہ خاموش ہو۔ فصل کاٹتے وقت اس کے آس پاس اگر کوئی نہ ہوتا۔ تو وہ اپنی درانتی سے گفتگو کرتا۔ فصلوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوا ہنستا رہتا۔ اس کے چہرے پر بیک وقت اجنبیت اور مانوسی کا ایک عجیب سا امتزاج رہتا تھا جسے محسوس نہ کرنے کے باعث منشی صاحب کے السیشن کتے اکثر بھونکتے ہوئے اس پر لوگوں کو کاٹنے کا ریہرسل کیا کرتے تھے اور پھر پہچان لینے کے بعد اس سے یوں گلے ملتے جیسے برسوں سے بچھڑا ہوا بھائی گھر لوٹ آیا ہے۔
میں نے کئی مرتبہ چاچا اور دوسروں سے پوچھا کہ سجوارا ایسا کیوں ہے۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ بچپن سے اس کے دماغ کے پیچ ڈھیلے ہیں، اسی لیے وہ بیل گاڑی کے پہیوں کی مانند چر چراتا رہتا ہے لیکن میں اس جواب سے مطمئن نہ ہو سکا کیونکہ ان میں کسی کو اس کے ماضی کا پتہ نہ تھا۔
پھر ایک دوپہر کو سجوارا میرے ہاں آیا۔ میں اس وقت بیٹھا تصویر کشی کر رہا تھا۔ میں نے اس کی آمد کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرے لیے گنے لے کر آیا ہے۔ میں نے اس سے کہا۔۔۔ زمین پر دس پندرہ منٹ ٹھہر کر چلے جانا۔ آؤ میرے پاس بیٹھو۔ اکٹھے گنے چوستے ہیں۔ پہلے تو وہ نہ مانا پر میرے مجبور کرنے پر اس نے دوگنے اٹھائے اور جھجکتے ہوئے میرے پاس گھاس پر بیٹھ گیا۔ میں نے بھی پیلٹ اور برش میز پر رکھ دیے اور گنا اٹھاکر اس کے پاس گھاس پر بیٹھ گیا۔
وہ گھبراکر کچھ اس طرح سکڑنے لگا جیسے وہ سمٹ سمٹ کر ہوا میں تحلیل ہو جائےگا میں نے مسکراکے کہا، ’’سجوارے تم اس طرح کیوں محسوس کرتے ہو۔۔۔ کیا میں انسان نہیں؟‘‘
’’نہیں جی آپ تو انسان نہیں۔۔۔ شاہ جی آپ تو فرشتہ ہیں۔‘‘
اور پھر جانے ہم کیوں ہنس دیے میں نے اس سے کہا، ’’سجوارے تم نے ایک مرتبہ ذکر کیا تھا، تمہارے سینے میں بھی دکھوں کا بسیرا ہے۔ وہ کون سے دکھ ہیں سجوارے۔۔۔؟ کیا تم ایسا انسان بھی دکھی ہو سکتا ہے؟‘‘ ۔۔۔ جانے کیوں میرے اپنے دکھ میرے سینے میں امڈ آئے تھے۔ اس نے ہنستے ہوئے کئی لطیفوں کے ساتھ مجھے اپنے ماضی کا خلاصہ سنا دیا۔
سجوارے کاوجود بالکل کپاس کے مانند کھردرا تھا لیکن کپاس کا یہ پودا بانجھ نہیں تھا۔ اس کے ساتھ کومل روئی بھی کھلتی تھی۔ اس کا دل بالکل روئی تھا۔۔۔ شاید اسی وجہ سے اس کے دل نے حالات کی آگ کو بہت جلد قبول کر لیا تھا۔ جانے اس آگ نے اس کے ہونٹوں کو مسکراہٹیں کیوں بخشیں تھیں۔ شاید اس لیے کہ بہت سارے دکھ مل کر انسان کو گدگدی کرتے ہیں اور وہ ہنستا رہتا ہے۔
سجوارے کو اپنی ماں سے بے پناہ محبت تھی۔ لیکن جہاں وہ شادی کرنا چاہتا تھا۔ اس کے ماں باپ اس لڑکی کے سخت مخالف تھے۔ اس کی ماں کے کہنے کے مطابق وہ لڑکی بہت آوارہ تھی اور اس کے تعلقات چودھری کے بڑے لڑکے کے ساتھ تھے لیکن سجوارا اس بات کو نہیں مانتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ماں یہ کیڑے صرف اس لیے ڈال رہی ہے کہ وہ اس کی بھانجی سے شادی کرے۔ سجوارا اپنی ماں کی بھانجی سے شادی کر لیتا لیکن اس کو اس سے محبت نہیں تھی۔ لیکن وہ لڑکی بھینگی بھی تھی۔ اس کی ماں کے نزدیک یہ کوئی خامی نہ تھی۔ کیونکہ اس کے باپ کی زمین کافی تھی۔ صرف زمین کی خاطر سجوارا ان شاموں کو فراموش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جو اس نے غلام فاطمہ کے ساتھ گزاری تھیں۔ وہ غلام فاطمہ جو سجوارے کے چوڑے چکلے سینے پر سر رکھ کر اس کے بازوؤں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے جسم کی مضبوطی کی تعریف کیا کرتی تھی۔
غلام فاطمہ کا خیال تھا کہ سجوارا اگر بھینسے سے بھی لڑے تو اسے گردن دباکر مار سکتا ہے (سجوارے نے مجھے بتایا تھا کہ وہ واقعی اتنا مضبوط اور طاقتور تھا لیکن غلام فاطمہ کے دیے ہوئے دکھوں کے باعث اب وہ آدھا بھی نہیں رہا تھا) جس شام اس نے اپنی ماں سے صاف انکار کر دیا تھا کہ وہ اس بھینگی کے ساتھ شادی نہیں کرائےگا، اسی شام اس کی ماں کے سرمیں درد ہوکر بخار ہو گیا۔ لیکن سجوارا اپنی ماں کے ساتھ محبت کے باوجود اپنی بات پر اڑا رہا۔ کیونکہ اسے اپنے الفاظ کے مطابق غلام فاطمہ کے ساتھ عشق تھا اور اسے شادی کا قول دے چکا تھا۔
اس کاباپ بھی غلام فاطمہ کو بہو نہیں بنانا چاتا تھا۔ کیونکہ وہ بہت غریب تھے لیکن جب اس نے اپنی محبوبہ کے ساتھ شادی کی تو اس کے باپ نے اسے اپنی تھوڑی بہت زمین سے بھی محروم کر دیا۔ شادی کے دوسرے تیسرے روز اس کی ماں فوت ہو گئی لڑکی کے والدین چونکہ بہت غریب تھے اس لیے انہوں نے سجوارے کو بصد خوشی قبول کر لیا۔ اسے اپنی وراثت کی زمین جانے کا کوئی صدمہ نہیں تھا۔ اسے صدمہ تھا تو اپنی ماں کی موت کا، جس کی زندگی کسی کی جائیداد نہیں تھی، جو کسی کے ورثے میں آ سکتی۔ شادی کے بعد کچھ دیر تو وہ اپنے سسر کے ہاں رہا۔ لیکن پھر اس کی غیرت نے جوش مارا اور نوکری کی تلاش میں نکل پڑا۔
دو ایک دن خاک پھانکنے کے بعد زلفی کے ہاں اسے ملازمت مل گئی۔ وہ اپنی بیوی کو بھی وہیں لے آیا۔۔۔ چونکہ ایک تو اسے چودھری کے لڑکے پر واقعی شک ساہو نے لگا تھا۔ دوسرے زلفی کا گھر وہاں سے بہت دور تھا اور اس وقت سجوارا ایک لحظہ بھی اس سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں سجوارے نے تفصیلات میں جانے سے گریز کیا اور میں نے بھی زیادہ پوچھن کچھ مناسب نہ سمجھا۔۔۔ اس کی شادی کا تیسرا سال ہونے کو آیا تھا لیکن سجوارے نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خداکی بندی ایسا اکثر ہو جایا کرتا ہے کہ بچے دیر سے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن غلام فاطمہ اسے ہر وقت کوستی رہتی۔
سجوارا اس معاملے میں خود کو ہی قصوروار گردانتا تھا اسے اس بات کا بھی صدمہ تھا کہ وہ اپنی بیوی کو ابھی تک سونے کے زیور نہیں پہنا سکا تھا اور غلام فاطمہ سارادن سجوارے کو گالیاں دیتی رہتی لیکن سجوارے کی بیوی کی خوبصورتی کی تعریف بہت دفعہ سنی۔ ٹیوب ویل اور ٹریکٹروں کا مستری محمد حسین جب بھی اس کی بیوی کا ذکر کرتا۔ تو اس کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی اور اس کی باتوں سے صاف پتہ چل جاتا کہ انگور کھٹے ہیں۔ مستری محمد حسین کنوارا تھا۔ اس نے غلام فاطمہ کی خوبصورتی اور جوانی کو اپنے مضبوط بازوؤں کے جال میں لانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن غلام فاطمہ سجوارے کے بازوؤں کی جکڑ نہ بھولی تھی اور بابا دارا کے کہنے کے مطابق وہ لڑکی بہت شریف تھی۔
یہ تھے وہ مختصر سے حالات جنہوں نے سجوارے کے روئی ایسے دل کو انگارے بخشے تھے۔ یہ تھے وہ مختصر سے دکھ (ممکن ہے یہ دکھ سجوارے کو نہ سمجھنے کے باعث کسی کے نزدیک دکھ نہ ہوں) جنہوں نے اس کے ہونٹوں کو کڑوی مسکراہٹیں اور کانٹے دار قہقہے عنایت کیے تھے اور اس کے ذہن میں زعفران کا کھیت اگایا تھا۔ میں نے سجوارے کا ماضی سن کر اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تو وہ میرے بہت قریب ہو گیا۔
’’شاہ جی ہم بہت غریب لوگ تو صرف محبت کے دو بولوں کے بھوکے ہوتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر میں نے اسے سینے سے لگانا چاہا۔ لیکن وہ اچھل کر دور ہو گیا۔ جیسے میرے سینے پر الٹے چاقو گڑے ہوئے تھے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں سجوارے کی ایک ایسی تصویر بناؤں جس میں دنیا بھر کے آنسو اور قہقہے بھر دوں لیکن میرے برش میرے ذہن کا ساتھ نہ دے سکے۔
روشن چاچا اور مستری محمد حسین کی تعریفوں کے باعث مجھے سجوارے کی بیوی دیکھنے کا بہت شوق تھا لیکن وہ اپنے میکے گئی تھی۔ میں نے باتوں باتوں میں سجوارے سے اس کی بیوی کی آمد سے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا، ’’جی مرضی کی مالک ہے جب چاہے آ جائے۔‘‘
پھر چٹالا اور لوسن میں سفید اور کاسنی پھول کھلنے لگے اور کپاس کی گود سفید سفید گالوں سے بھرنے لگی۔
سارا سارا دن عورتیں روئی چنتی رہتیں اور میں قریب ہی کسی جگہ تصویر کشی کرتا رہتا۔ بلکہ سچ کہوں تو عورتوں کے جسموں کے تناسب دیکھتا رہتا تھا۔ ان کے نزدیک جانے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ مبادا وہ گندم کے کھیتوں میں چڑیوں کی مانند اڑ نہ جائیں اور مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں میرے سیدپن کے وقار کو ٹھیس نہ پہنچے اور وہ لوگ کہیں مجھے جوتے مار مار وہاں سے نکال نہ دیں۔
پھر میں نے محسوس کیا کہ ایک لڑکی، ہمیشہ مخالف سمت سے کپاس چنتی ہے اس کا منہ میری طرف ہوتا ہے۔ شاید مجھے متوجہ کرنے کے لیے وہ بہت اونچی آواز میں باتیں کرتی ہے اور غالباً میری طرف دیکھ کر بار بار مسکراتی بھی ہے۔۔۔ میں ہندوستانی فلموں کا ہیرو نہیں بننا چاہتا تھا جو گاؤں میں آکر کسی نہ کسی لڑکی پر عاشق ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں ہر وقت میری آنکھوں میں اس لڑکی کے زرد دوپٹے کا آنچل جھولنے لگا۔
میں نے کئی مرتبہ شعوری طور پر اس آنچل کو اپنی آنکھوں سے نکالنے کی کوشش کی۔ مبادا یہ لڑکی، سیمی، منی یا پینو ہو۔۔۔ لیکن پھر میں سوچتا کہ پگڈنڈیوں میں اور کولتار کی سڑکوں میں بہت فرق ہے۔
میرا دل بہت چاہتا تھا کہ اس زرد دوپٹے کو اپنے گرد لپیٹ لوں اور اس کی گود میں دفن ہو جاؤں لیکن میرے جذبات میری اس خواہش میں حرکت پیدا کرنے سے قاصر تھے۔
پھر ایک روز منشی صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ دن ڈھلے جب عورتیں ان کے گھر روئی جمع کرانے اور اپنا حصہ لینے آتی ہیں تو بڑا اچھا منظر ہوتا ہے۔ آپ آرٹسٹ ہیں۔ ان کی تصویر بنائیے۔ میں نے سوچا ممکن ہے میں زرد دوپٹے والی لڑکی کو بہت قریب سے دیکھ سکوں۔ چنانچہ میں نے ان کی دعوت منظور کر لی۔
دوسرے دن میں اپنی پنسل اور اسکیچ بک لے کر منشی صاحب کے ہاں پہنچ گیا۔ عورتیں ابھی تک نہیں آئی تھیں۔ میں مکان کی چھت پر چلا گیا اور اپنے ذہن میں اس کی تصویر بنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد شور مچاتی ہوئی عورتیں روئی کی گانٹھیں سر پر رکھے دروازے سے داخل ہوئیں۔ میری نگاہیں اس لڑکی کو ڈھونڈ رہی تھیں، پھر سب سے آخر میں زرد آنچل دروازے میں لہرایا اور وہ سب سے الگ تھلگ بیٹھ گئی۔ وہ میرے ذہن کی تصویر سے کہیں مختلف تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے رافیل کی کوئی میڈونا پنجابی دیہاتی کا سٹیوم میں وہاں آ گئی ہے۔
میں نے اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی خاطر ایک چھوٹا سا کنکر اس کی طرف پھینکا اور دو کنول اس کی آنکھوں میں ڈوب گئے۔ وہ تمام عرصہ میری طرف دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہی۔
سورج، دور شیشم کے درختوں کے پیچھے چھپ گیا۔ سب عورتیں چلی گئیں اور میرا دل ڈوبنے لگا کہ اپنے حصے کی روئی لینے کے بعد وہ بھی چلے جائےگی۔ رافیل کی میڈونا میری آنکھوں سے اوجھل ہو جائےگی۔ پھر پینٹنگ میں تبدیل ہو جائےگی لیکن اس نے اپنی چھوٹی سی گٹھڑی ایک کونے میں رکھ دی اور وہ شرما شرما گئی۔ میں نے اس سے نام پوچھا۔ اس کا نام گومی تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ خشک کنوئیں کے قریب جو کیکر کا ٹھنٹھ ہے وہاں مجھے صبح ملے۔ اس نے کہا اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔۔۔؟ میں نے کہا کہ کہہ دوں گا کہ تصویر بنا رہا تھا اگرچہ یہ جواز بڑا سطحی سا تھا۔ لیکن وہ مطمئن ہو گئی۔
اگلی صبح وہ مجھے ملی۔ اس نے مجھے بتایا کہ کتنے ہی دنوں سے وہ مجھے دیکھتی رہی ہے اور میں اسے بہت اچھا لگتا ہوں۔
گومی ہر روز مجھے اس کیکر کے ٹھنٹھ کے پاس ملنے لگی اور بعض وقت موقع دیکھ کر میرے گھر بھی آجاتی۔ گومی کون تھی اور کہاں رہتی تھی۔ مجھے یہ جاننے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ کیونکہ اس کو مجھ سے محبت تھی اور مجھے اس سے۔ گومی نے میری کائنات مکمل کر دی تھی۔ میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان خیال کرتا تھا۔
میں نے زلفی کو خط کے ذریعہ گومی سے متعلقہ حالات سے آگاہ کیا تو اس کا لعنتوں ملامتوں بھرا جواب آیا کہ یہاں بھی محبت کی دیوی نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔
یہاں میں نے سنا تھا کہ لڑکیوں کے والدین لڑکے والوں سے دو ایک سو روپے لے کر اپنی بیٹی کی شادی کر دیتے ہیں۔ میں نے سوچا ممکن ہے گومی کے والدین بھی اسی طرح اسے بیچ دیں اور میری زندگی کی عمارت کی بنیادوں میں ایک اور لاش کا اضافہ ہو جائے۔ میں گومی سے شادی کرنا چاہتا تھا اور سیمی، منی، پینو کو مدعو کرکے انہیں بتانا چاہتا تھا کہ۔۔۔ تم نے اپنی تعلیم کے باوجود مجھے دھوکا دیا۔ تمہارے شہری پن نے تمہاری وفا تم سے چھین لی۔ تم کسی کی نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ تم کولتار کی سڑک ہو۔۔۔ آؤ میں تمہیں گومی سے ملاؤں جو محض میرے لیے مجھ سے محبت کرتی ہے۔ جو صرف میرے لیے زندہ ہے۔۔۔ لیکن نہیں تمہارا قصور نہیں یہ تو اس ماحول کا قصور ہے جس سے تمہارا خمیر اٹھا ہے۔۔۔
پھر ایک صبح میں نے گومی سے شادی کے لیے کہا۔
’’آپ مجھے سونا پہنائیں گے نا۔۔۔‘‘
’’گومی میں تمہیں سونے میں تول دوں گا۔‘‘ اور گومی کی آنکھیں خوشی سے سونے کی مانند چمکنے لگیں۔
میں نے کہا کہ میں اس سلسلے میں تمہارے والدین سے ملنا چاہتا ہوں تو اس نے بتایا کہ اس کے والدین اسے شادی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘ اگر میں چاہوں تو اسے اپنے ساتھ بھگاکر لے جا سکتا ہوں۔ یہ کہہ وہ روئی چننے کے لیے چلی گئی۔
میں شادی اور اغوا کے مخمصے میں الجھا ہوا گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں مستری محمد حسین مل گیا۔ اس نے ایک عجیب انداز سے کہا، ’’آپ سجوارے کی بیوی سے کیا بات چیت کر رہے تھے۔۔۔؟‘‘
’’سجوارے کی بیوی۔۔۔؟ گومی۔۔۔؟‘‘ مجھے یوں محسوس ہوا۔ جیسے مستری محمد حسین نے جلتے ہوئے موبل آئیل کا ڈرم میرے کانوں میں انڈیل دیا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ ’’جی سجوارے کی بیوی گومی۔۔۔ غلام فاطمہ۔‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ میں تو۔۔۔ تو۔۔۔‘‘
مستری محمد حسین چلا گیا۔ میں نے سوچا کم از کم گومی کو تو سیمی، منی اور پینو کا ضمیمہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
شام کے وقت گومی مجھے ملنے آئی تو میں برس پڑا۔ وہ خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی اور جب میں چپ ہو گیا تو اس نے کہا، ’’شاہ جی۔۔۔ میں نے تو آپ سے یہ بات صرف اس لیے چھپائی تھی کہ آپ کو مجھ سے عشق ہے۔ اگر آپ کو بتادیتی تو آپ کو بہت دکھ ہوتا۔ میں آپ کا دل توڑنا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ آپ کادل میرا دل ہے۔۔۔ شاہ جی آپ کی قسم ہم ایک دوسرے سے بہت دکھی ہیں۔۔۔ وہ آج کل ہر وقت مجھے اس لیے کوستا رہتا ہے کہ میں اس کے لیے بچہ کیوں نہیں پیدا کرتی۔ میں ہر وقت کڑھتی رہتی ہوں۔ کم بخت طلاق کا رعب مجھے بھی دینے لگا ہے۔۔۔ آج تک سونا ہی پہنایا ہے نہ ریشمی کپڑے سلاکر دیے ہیں۔۔۔ مجھے آپ سے عشق ہے۔ مجھے اپنا بنا لیجیے ورنہ مرجاؤں گی۔۔۔ شاہ جی۔۔۔ شاہ جی۔‘‘
اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے ابل پڑے اور میں ان میں ڈوب ڈوب گیا۔ مجھے سجوارے پر بہت غصہ آیا کہ مجھ سے یہ کہتا ہے کہ غلام فاطمہ یعنی گومی کی خاطر اس نے اپنی ماں کی موت بھی گوارا کر لی۔ لیکن اس کے ساتھ سلوک اتنا ظالمانہ ہے گومی کے جانے کے بعد میں نے اسی وقت سجوراے کو بلایا اور اس سے ساری بات کہی۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے میری ٹانگیں دباتے ہوئے کہا، ’’شاہ جی۔ وہ تو یونہی بکتی ہے مجھے اب بھی اس سے عشق ہے۔‘‘
پھر میں نے بڑی ڈھٹائی سے اس کی محبت کی پروا نہ کرتے ہوئے کہا، ’’سجوارے تو اسے طلاق دے دے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
میری ٹانگیں دباتے دباتے اس کے ہاتھ جم کر رہ گئے۔۔۔ ’’جی۔۔۔؟‘‘ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور منہ سے لعاب نکلنے لگا۔ میں خاموش تھا۔
سجوارا بھی خاموش تھا۔ اس کی مونچھیں ڈرے ہوئے کتے کی دم کی طرح دبی ہوئی تھیں۔
میں نے بڑی مشکل سے دنیا بھر کی خودغرضیوں کو سمیٹے ہوئے کہا، ’’ہاں سجوارے میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘
اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد مسکراتے ہوئے کہا، ’’آپ سید بادشاہ ہیں۔۔۔ آپ کو انکار کرکے دوزخ مول لینی ہے۔۔۔ آج ہی سے حرام ہے اگر اس کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھوں۔۔۔ ویسے۔۔۔‘‘
’’ویسے کیا۔۔۔؟‘‘
اس نے گھبراکر کہا، ’’جی کچھ نہیں۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔‘‘
سجوارے نے اس حقیقت کا قطعاً احساس نہ ہونے دیا کہ میں اس کے دل پر درانتی چلا رہا ہوں۔۔۔ اورمیں بھی یہ بھول چکا تھا کہ سجوارا دنیا کا سب سے قابل رحم انسان ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں کل تیرے گھر آکر گومی کو لے آؤں گا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ چلا گیا۔
دوسری صبح کسی کے زور سے دروازہ کھٹکھٹانے کے باعث میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو روشن چاچا کھڑا تھا۔
اس نے مجھے دیکھتے ہی تیزی سے کہا، ’’شاہ جی ادھر چل کے دیکھیے کیا ہو گیا ہے۔۔۔ سجوارا پاگل ہو گیا ہے۔ اس نے رات پچھلے پہر گومی کو کلہاڑی مار کر قتل کر دیا ہے۔۔۔ ہمیں ابھی ابھی پتہ چلا ہے۔‘‘ میری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔
میں بھاگا ہوامنشی صاحب کے گھر کے قریب سجوارے کی کوٹھڑی میں گیا۔ باہر سارے نوکر جمع تھے۔ سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے اور مستری محمد حسین ایک طرف کھڑا دانتوں میں زبان چبا رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی سجوارا میری طرف آیا۔ اس کے ہونٹوں اور ہاتھوں پر خون جما ہوا تھا۔ جیسے وہ گومی کو چومتا رہا تھا۔ اس نے ہنستے ہوئے زور سے کہا، ’’شاہ جی۔۔۔ میں نے جنت خرید لی ہے۔‘‘
’’یہ تم نے کیا کر دیا سجوارے؟‘‘
اس نے چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’کچھ نہیں شاہ جی۔۔۔ اسی سے پوچھیے۔۔۔‘‘ اس کے منہ سے جھاگ نکل نکل کر اس کی مونچھوں میں اٹکنے لگے۔ اس نے چارپائی سے کپڑا اٹھایا میں نے دیکھا کہ تیز کلہاڑی نے گومی کی گردن کاٹ کر رکھ دی تھی۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔
’’شاہ جی میں تو پہلے ہی کہنا چاہتا تھا کہ یہ آپ کے قابل نہیں۔۔۔ جس طرح اس نے مجھے دیوانہ بنا چھوڑا تھا۔ اسی طرح خدانخواستہ آپ کو بھی پاگل بنا دیتی۔۔۔ لیکن میں سید بادشاہ کا کہا کس طرح رد کر سکتا تھا آپ کی خوشی میری خوشی ہے۔‘‘
میں نے چیخ کر کہا، ’’سجوارے تونے اسے قتل کیوں کیا؟‘‘
میں نے پہلی مرتبہ سجوارے کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔۔۔ کپاس کا دل رو دیا تھا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے گومی کے سرہانے سے ایک پوٹلی اٹھاکر مستری محمد حسین کے ہاتھوں میں تھمادی۔ پوٹلی سے جھانکتے ہوئے زیور دیکھ کر اس کامنہ پاگل قہقہے اگلنے لگا۔
ہنستے ہنستے کپاس کے دل سے برسات امڈ آئی۔۔۔ اور اس کی مونچھیں بالکل اسی طرح زور زور سے ہل رہی تھیں، جیسے منشی صاحب کے السیشن کتے وفاداری کے اظہار کے لیے دم ہلایا کرتے تھے۔
گومی کی چارپائی کے ساتھ لپٹ کر روتے ہوئے سجوارے کو اور سوتی ہوئی گومی کو دیکھ کر ایک بار پھر مجھے محسوس ہوا۔ جیسے زندگی ہمارے حسین خوابوں کی لاشوں پر بنی ہوئی ایک ایسی عمارت ہے جس کی آخری منزل پر موت کھڑی مسکرا رہی ہے۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.