کرب
ماہ رمضان کی آمد کا بےصبری سے انتظار اور اس بابرکت مہینے میں مختلف قسم کی چیزوں کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ صرف روزہ دار ہی اس کی اصل لذت کا تذکرہ کر سکتا ہے۔ بازار مختلف رنگین قمقموں سے سج چکے تھے۔ کہیں کہیں مسجدیں بھی سجائی جا چکی تھیں۔ ساتھ ہی بازار بھی لذت دار میوؤں، پھلوں اور مشروبات سے بھرے تھے۔ واقعی رمضان رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ کہتے ہیں جو شخص گیار ہ مہینوں میں اتنی نیکی نہیں کماتا جتنی نیکی اس ایک مہینے میں کما لیتا ہے۔ بازار، فٹ پاتھ اور ہوٹلوں میں افطاری کے لیے طرح طرح کی اشیا بہترین طریقوں سے سج دھج کر فروخت کے لیے تیار تھیں۔ نمازی، روزہ دار اور دیگر افراد کی چہل پہل سے رونقیں بکھری ہوئی تھیں۔ بچے، بوڑھے اور خواتین بازاروں اور فٹ پاتھوں پر افطاری کی خرید اری میں بڑے مصروف نظر آ رہے تھے۔ قمقموں سے جگ مگ ہوٹلوں کے اندر باہر لوگوں کا ہجوم اپنی اپنی پسندیدہ چیز یں خریدنے میں منہمک تھا۔ اس مہینے میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت کا معاملہ ضرور فرماتا ہے۔
ان مصروف جگہوں کے درمیان ایک پھٹی پرانی ساڑی میں ملبوس نہا یت ضعیف الجثہ خاتون ساڑی کے پلو سے بار بار اپنے ماتھے پر بہنے والے پسینے کو پونچھتی ہوئی افطاری کی اشیا فروخت کرنے کی غرض سے، فٹ پاتھ کے ایک کونے میں خریداروں کے انتظار میں تھیں۔ پر افسوس کہ خریدار اس بے چاری خاتون کے سامنے سے آ جا رہے تھے، لیکن کوئی بھی اس سے کچھ نہیں خرید رہا تھا۔ یہ ضعیف خاتون روزانہ گاہکوں کا انتظار کرتیں اور اذان کی آواز کانوں میں پڑتے ہی پورا سامان لیے گھر کی طرف لوٹ جاتیں۔ آج بھی شام کے وقت وہ بڑی امیدوں سے افطاری کا سامان لیے اللہ کے نیک بندوں، روزہ داروں کو فروخت کرنے کی غرض سے اسی مقام پر بیٹھ گئیں اور روزانہ کی طرح ساڑی کے پلو سے ماتھے کا پسینہ پونچھتی رہیں۔ ان کے لب پر کسی کے لیے بھی کوئی شکوہ نہیں تھا۔ یکا یک ان کے ٹھیلے کے سامنے ایک شاندار قیمتی کار آکر رک گئی۔خاتون کی نظریں اس کار پر پڑیں۔ کچھ پل بعد کار کا دروازہ کھلا، اس میں سے سفید پوشاک پہنے ایک سفید داڑھی والے، عمر دراز بابا باہر نکلے، خاتون کے قریب گئے، انھیں میٹھے لہجے میں سلام کیا۔ ان کے پاس بیٹھ گئے، جیسے وہ ان کی والدہ ہو۔ انھوں نے خاتون سے پورے سامان کی قیمت پوچھی اور قیمت ادا کرکے وہ سارا افطاری کا سامان لے کر چلے گئے۔ کسی کے پوچھنے پر ضعیف خاتون نے پہلے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکر اللہ کا شکر ادا کیا اور اس خریدار کو ڈھیروں دعائیں دینے لگیں اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگیں۔
”میرا بیٹا اور بہو مجھ پر زیادتی کرکے یہ اشیا فروخت کرنے بھیجتے ہیں۔ نہ بکنے پر کئی مرتبہ مجھے بھوکی ہی سونا پڑتا ہے۔ لیکن آج اللہ کے فضل و کرم سے میرا پورا سامان بک گیا۔ آج گھر پہنچ کر حساب دوں گی اور پیٹ بھر کھانا کھاکر پر سکون نیند سو جاؤں گی۔“
یہ کہتے ہوئے خاتون کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.