Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کینچلی

صنوبر الطاف

کینچلی

صنوبر الطاف

MORE BYصنوبر الطاف

    کاش سانپوں کی طرح انسان بھی اپنی کینچلی اتار سکتا۔ ایک نئے اوتار کے ساتھ اس دنیا میں داخل ہوتا۔ ایک نیا جنم لیتا۔ یہ جنم جس کی سانسیں اب ختم ہونے کے قریب ہیں۔ بہت قدیم ہوچکا ہے۔ اب اس میں کچھ باقی نہیں رہا۔ ہاں یہ قبول کرنے میں کیا برائی ہے کہ میں بھی اس پرانی کینچلی سے تنگ آچکی ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اس بہروپ کے ساتھ میں نے زندگی کا کونہ کونہ دیکھ لیا ہے اور ہاں مجھے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ اس جنم کی مایوسی، تھکاوٹ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے اندر تک اتر چکی ہے۔ میں بھی کچھ نیا، منفرد اور تازہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ نہ جانے وہ کون سی عورتیں ہوتی ہیں جو نئے گھر، بچوں کی نئی کلاسزاور شوہر کی پروموشن پر خوش ہوتی ہیں اور انہیں یہی سب کچھ پھر نیالگنے لگتا ہے۔ بھلا ان سب میں میرے لیے نیا کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ میں بھی ایک نئے گھر میں شفٹ ہورہی ہوں۔ نیا گھر مطلب نیا کرائے کا گھر۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہاں میرے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ گھر بدلتے رہتے ہیں لیکن میرے کاموں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ وہی دیواریں، کمرے، کچن جہاں میں نے دس دس گھنٹے کھڑے رہ کر کام کرنا ہے۔ وہ بیڈروم جہاں مجھے شوہر کے ساتھ سونا ہے اور ایک زبردستی کی ذمہ داری بچے۔۔۔ جن کی خدمت میں میری ساری عمر گزر جائے گی اور ایک مسلسل تھکاوٹ کے علاوہ مجھے کچھ نہ ملے گا۔

    نئے گھر کی خوشی اگر چھلک رہی ہے تو صرف میرے بچوں کے چہروں سے۔ میرے شوہر کے ماتھے کی شکنیں اور سنجیدگی یہ بتا رہی ہیں کہ وہ اس وقت حساب کتاب میں مصروف ہیں۔ گھر کی مرمت پر کتنا خرچ آئے گا، یہ گھر بچوں کے سکول اور ان کے دفتر سے دور ہے تو روزانہ کے حساب سے پٹرول کا خرچ کتنا بڑھے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آج رات کے کھانے تک وہ یہ سارا حساب لگا کر میرے سامنے رکھ دیں گے مشورے کے لیے۔ کیا میرا شوہر نیا جنم لینا چاہے گا؟نہیں، وہ ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ اکائونٹ آفیسر ہے اور صرف یہ جانتا ہے کہ اکائونٹ کے بڑھنے سے ہی زندگی بدلتی ہے۔ نیا جنم ہوتا اور نئی کینچلی ملتی ہے۔

    نیا گھر آبادی سے ذرا ہٹ کر تھا۔ اس علاقے کی خاموشی، صفائی اور تنہائی نے مجھے بڑا متاثر کیا۔ گھر اور جگہ دیکھ کر میرے موڈ میں کافی تبدیلی آئی۔ یہ ایک دومنزلہ مکان تھا۔ نچلاپورشن ہمارا تھا اور اوپر والا حصہ کسی لڑکے کے پاس تھا جو میرے شوہر کا بہت اچھا دوست تھااور اکیلا رہتا تھا، یہاں کہیں جاب کرتا تھا۔ میرے شوہر اس کی ملازمت اور قابلیت سے کافی متاثر تھے۔

    گھر پر ہمیں اس لڑکے نے ہی ریسیو کیا۔ میں سوچنے لگی کہ اتناخوبصورت لڑکا میرے شوہر کا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ میرے شوہر کے دوست تو اسی جیسے موٹے، کسی قدر گنجے اور خشک ہوتے تھے۔ اور وہ لڑکا۔۔۔ وہ تو صرف تیس تک کا ہوگا۔ پتلا لمبا، اس کے بال بہت کالے اور صحت مند تھے۔ جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ میں وہ کتنا سمارٹ اور کم عمرلگ رہا تھا۔ اور کھلی کھلی بے ڈھنگی ڈریس پینٹ اور شرٹ میں ملبوس میرا شوہر، شرٹ کے بازو اوپر کیے ہوئے کتنا عجیب لگ رہاتھا۔ شاید پہلی بار میرا دل چاہا کہ کاش وہ میرا شوہر نہ ہوتا۔ اور اس لڑکے کا انداز اور گفتگو کس قدر حسین تھی۔ وہ سچ میں بہت خوبصورت تھا۔ اسے دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ہماری کینچلی اتر تی تو نہیں ہے لیکن یہ پگھل سکتی ہے۔ دھیرے دھیرے۔ ہم خود اسے پگھلتا دیکھتے ہیں۔ اور جب پرانی کینچلی اترنا شروع ہوتی ہے تو سب کچھ کیسا ان چھوا، نازک اور ہلکا ہوجاتا ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے لگا کہ جیسے کچھ میرے ہاتھ سے جارہا ہے۔ اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ میری دعا قبول ہورہی ہے۔ مجھے نئی زندگی مل رہی ہے۔

    وہ صبح گھر سے نکلتا تھا اور رات کو واپس آتا تھا۔ میرے شوہر اسے اکثر ڈنر ہمارے ساتھ کرنے کے لیے کہتے۔ ایک دو دفعہ تو وہ آیا بھی لیکن پھر اس نے آنا چھوڑدیا۔ کچھ اچھا بنا ہو تو میں اسے ضرور بھیجتی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اس گھر میں آنے کے بعد میرا سب کچھ بدل گیا تھا۔ میں پہلے جیسی نہ رہی تھی۔ صبح اٹھتی تو مجھے اس لمحے کا انتظار رہتا جب وہ مجھے چابی دینے آئے۔۔۔ اس کے منہ سے نکلے لفظ میں تنہائی میں کئی بار دہراتی اور ان لفظوں کے نئے نئے معانی ڈھونڈنے کی کوشش کرتی۔ وہ چابی پکڑاتے ہوئے مجھ سے میری اور بچوں کی خیریت پوچھتا، میرے شوہر کا حال پوچھتا، کبھی موسم کے حوالے سے کوئی بات ہوجاتی۔ ایک بار اس نے مجھے یہ کہا کہ ’’آپ بہت ویک لگ رہی ہیں‘‘ اور میں سارا دن آئینے کے سامنے کھڑی رہی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ مجھے دیکھتا ہے۔ مجھ پر غور کرتا ہے۔ وہ مجھ میں کیا دیکھتا ہوگا؟کیا میرے گال کے سیاہ تل پر اس کی نظر پڑی ہوگی؟کیا اس نے غور کیا ہوگاکہ میری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں؟ اس دن کے بعد سے میں نے اپنے کپڑوں اور چہرے کا اسی طرح خیال رکھنا شروع کر دیا جیسے نوجوانی یا شادی کے ابتدائی دنوں میں رکھتی تھی۔

    ہاں یہ سچ ہے کہ میں اسے چاہنے لگی تھی۔ میں اس کی خوبصورتی، اسکی جوانی پر مر مٹی تھی۔ اس کی پینٹ، سیاہ شرٹ، گھڑی، گلاسز مجھے اس کی ہر چیز بھلی اور اپنی لگتی تھی۔ اس کا سب کچھ مجھے خود سے جڑا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ میں اس کی خوشبو بھی پہچاننے لگی تھی۔ اور اکثر رات کو سونے سے پہلے میں اس خوشبو کو اپنے پاس محسوس کرتی۔۔۔ مجھے یہ خواہش نہیں تھی کہ وہ میرے قریب آجائے۔ میں جانتی تھی یہ ناممکن ہے۔ مجھے اس کا قرب چاہیئے تھا یا نہیں مجھے نہیں معلوم لیکن ایک دن نہاتے ہوئے میں نے کئی گھنٹے باتھ روم میں گزار دیے۔ میں دیکھتی رہی کہ کیا میں ابھی بھی اس قابل ہوں کہ اسے چاہ سکوں۔ دوبچے پیدا کرنے کے بعد بھی میرا جسم ڈھیلا نہ تھا۔ بہت سی دوسری شادی شدہ عورتوں کے مقابلے میں اب بھی میں پرکشش تھی۔ یہ بات میری ساری سہیلیاں کہتی تھیں اور مجھے خود بھی اس بات کا احساس تھا۔ لیکن کیا صرف یہ سب کچھ اس کے لیے کافی ہے؟جیسا وہ ہے اس کے مقابل تو یہ سب بہت تھوڑا ہے۔

    میں نے اس گھر میں ابتدائی چند ماہ نجانے کیسے کاٹے۔ میرے دل میں ہر وقت اس کا خیال بسا رہتا۔ میں اکیلی بیٹھی ان سیڑھیوں کو تکتی رہتی جو اس کے کمرے تک جاتی تھیں۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ میری ڈور اس کے کمرے کی کسی شے سے بندھی ہے۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ میں نے خود کوکئی بار ٹالنے کی کوشش کی۔ کبھی ماں کی حیثیت سے اپنی اس سوچ پر خود کو لعن طعن کیا اور پھر اپنے بچوں کو بہت ساپیار کیا۔ کبھی اپنے شوہر کا سوچا اس کی بہت سی خدمت کی۔ لیکن کوئی خدمت کوئی مصروفیت میری سوئی کو اس نکتے سے ہٹا نہ سکی۔ میں اسے سوچتی رہی اور بے قراری تھی کہ بڑھتی رہی۔ میں نے خود کو یہ بھی سمجھایاکہ وہ لڑکا ہے اس کی بہت ساری لڑکیوں سے دوستی ہوگی۔ ممکن ہے وہ کسی سے محبت بھی کرتا ہو لیکن مجھے اس بات سے بھی کوئی فرق نہ پڑا۔

    اس دن جب وہ صبح نیچے اترا تو میں اس کے سامنے ہی کھڑی تھی۔ اس کی پرفیوم کی خوشبو اتنی تیز اور خاص تھی کہ مجھے پتہ چل جاتا تھا کہ وہ کس وقت کہاں ہے۔ اپنے کمرے سے نکلنے، دروازہ بندکرتے اور سیڑھیوں سے اترتے ہوئے میں اس کی ایک ایک حرکت کو بنا دیکھے بھی جان سکتی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا میں نے اسے چائے کی آفر کی لیکن وہ جلدی میں تھا۔ اس دن وہ مجھ سے بنا کچھ پوچھے گھر سے نکل گیا۔ دوپہر کے وقت بچوں کے آنے سے پہلے میں نے خود کو اس کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے پایا۔ ایک انجانے سے تجسس میں، ایک اجنبی سی بے قراری مجھے وہاں لے گئی۔ میں بس دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کا کمرہ کیسا ہے؟اس کے کمرے میں کوئی بے ترتیبی نہ تھی۔ وہ جلدی میں نکلا تھا لیکن اس کے بستر پر کوئی شکن نہ تھی۔ وہ سب کچھ اپنی جگہ پر رکھ کر گیا تھا۔ کپڑے، کتابیں، فائلیں سب اپنی جگہ پر تھے۔ اس کے کمرے کی نفاست اورترتیب دیکھ کر مجھے لگا کہ میری اس کمرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ کمرے کا مکیں اپنا اور اپنی چیزوں کا خیال رکھنا جانتا ہے۔ تم بس اپنے بچوں اور شوہر کا بکھراہوا سنبھالو۔ یہ میری جگہ نہیں ہے۔۔۔ میں بہت دیر اس فرش پر بیٹھ کر زور زور سے روتی رہی۔۔۔ میں چاہتی تھی کہ میں ہر دکھ، ہر تکلیف اور ہر حسرت پر آج آخری بار رو لوں۔۔۔ پھر میں کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچوں گی۔ بس یہ آخری دفعہ ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا دل خالی ہوچکا ہے اوراب اس میں کچھ نہیں ہے تو میں جانے لگی۔۔۔ اچانک میری نظرپلنگ کے پاس جا پڑی جہاں ایف ایل کے ریپر پڑے تھے۔ میں نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اس کے کمرے سے اپنے کمرے تک کاسفر ہوا میں طے کیا۔ میں نے اپنی الماری سے وہ بکس نکالا جو صرف میرا تھا۔ اس میں سے اپنی پرانی ڈائری نکالی جس میں کالج کے دنوں میں اشعار لکھا کرتی تھی۔ میں نے ڈائری کے آخری اوراق کھولے اور وہ ریپر میں نے اس ڈائری کے اندر رکھ کر ڈائری بند کردی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے