خبر ہونے تک
میں نے جب کبھی حقیقت کا سامنا کرنا چاہا ہے تو خود کو اپاہج محسوس کیا ہے۔ انسان، کتنا بے بس ہے، وقت کے ہاتھوں کا کھلونا، اس پر یہ تیور کہ میں انقلاب لا سکتا ہوں۔ زندگی تیز رفتار سے چلتی رہتی ہے اور انسان خواب اور حقیقت کے دو راہے سے گذرتا رہتا ہے۔ کبھی اسے محسوس ہوتا ہے کہ ہر خواب ایک حقیقت ہے اور کبھی لگتا ہے کہ ہر حقیقت ایک خواب ہے۔ یہ گتھی بھی عجیب ہے۔
کیا کہیں ہم زندگی کو ؟
زندگی کو فرصت نہیں اپنے کاروربار سے کبھی زندگی آگے تو کبھی ہم پیچھے، کبھی ہم آگے تو زندگی پیچھے۔ بھیڑ چلی جا رہی ہے تیز دھوپ میں، بارش میں، منزل کا پتہ نہیں۔ ہم بھیڑ کو روک کیوں نہیں دیتے؟
میں = ہم اور ہم = ہم سب۔
ہم ہم نہیں رہے۔ زندگی کی کڑوی سچائیوں کو پانی کی طرح پی رہے ہیں اور جی رہے ہیں ایک اپاہج کی طرح۔ شہروں نے دیہاتوں میں بسنے والی آبادی کی خوشیاں چھین لی، ان کے حصے کی روشنی چھین لی۔ دیہاتوں میں اب کیا رہ گیا۔ ہمارے قدم اب گاؤں کی طر ف نہیں بڑھتے۔ دادا کی حویلی سنسان ہوتی جا رہی ہے اور پیپل کا پیڑ خاموش ہے۔
لوگوں کا ہجوم گاؤں سے شہر کی طرف بھاگا جا رہا ہے سکون کی تلاش میں، مگر شہر نے انھیں کیا دیا۔ ٹاٹ میں لپٹی زندہ لاشیں، کوڑے کے ڈھیر میں اپنا مستقبل تلاش کرتے معصوم بچے اور بھی بہت کچھ!
ہم سب زندہ لاشیں ہیں جن کے ہاتھ میں قلم ہے وہ بھی، کیوں کہ انکے قلم سے نکلنے والے لفظ اپنا معنی کھو تے جا رہے ہیں اور ہمارا احساس مردہ ہو چکا ہے۔
ابھی میں یہ سب غور کر ہی رہا تھا کہ اچانک نظروں کے سامنے سے کئی تصویریں گذرنے لگیں۔
ایک انسان کے دو ہاتھ غائب تھے۔
ایک انسان کوڑھی تھا بالکل گلا ہوا۔ چلنے پھرنے سے مجبور۔
ایک انسان کی ٹانگیں نہیں تھیں اور وہ ٹرالی چلانے والے کے ذریعہ لے جایا جا رہا تھا۔
ایک کا چہرہ مسخ تھا۔
اور ایک کی آنکھیں نہیں تھیں۔۔۔
۔۔۔
۔۔۔
یہ اپاہجوں کی ٹولی بس ایک سمت میں رواں تھی اور میری آنکھیں ان کا محاصرہ کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ دماغ یہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب قدرت کے خواب کی تعبیر یں ہیں۔
خواب جھوٹا۔ تعبیر حقیقی!
قدرت کہانی گڑھ رہی تھی فطرت کہانی سن رہی تھی۔ انسان اس کی کہانی میں مختلف رول ادا کر رہا تھا۔ کبھی بیمار اور کبھی مسیحا۔ خود ہی درد بھی ہے، خود ہی درد کا مداوا بھی۔
خوف اور سراسمیگی کی فضا چھاتی جا رہی تھی۔ تاریکیاں بڑھ رہی تھیں۔ مگر انسان کی کاوشیں بھی اپنی جگہ قائم تھیں۔ پنڈال پر لکھا ہوا 146146اپاہجوں کابین الاقوامی سال 145145 بین الاقوامی سطح پر اپاہجوں کے مسائل کا حل پیش کرنا چاہتا تھا۔ مگر اسی دم بیک وقت کئی آوازیں کانوں کو سنائی دینے لگیں۔
مجھے ہاتھ دو۔۔۔۔۔
میرا کوڑھ دور کرو۔۔۔۔۔
میرا چہراہ مجھے واپس لادو۔۔۔۔
مجھ کو آنکھیں دو ۔۔۔۔
آواز تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی۔ پورا پنڈال گونج رہا تھا اور میں محسوس کر رہا تھا کہ میرا دماغ ماؤف ہو رہا ہے۔ ذہن میں کوئی حل نہیں باقی رہ گیا تھا۔ عالم بےچارگی میں۔ میں نے مائک پر آکر اعلان کیا، ہمارے بادشاہ نے اپاہجوں کے لئے کمبل کا انتظام کیا ہے۔
ابھی میرا اعلان مکمل بھی نہ ہو پایا تھا کہ بھیڑ میں سے ایک شخص اٹھا اور چیخ چیخ کر گانے اور ناچنے لگا۔ وہ پاگل تھا اور اسے دماغ کی ضرورت تھی۔ میں وہ دماغ اسے کہاں سے دیتا۔ جس دماغ سے وہ سردی اور گرمی کا احساس کر پاتا۔ اس کے لئے کمبل لایعنی تھے۔
اس وقت مجھے محسوص ہو رہا تھا کہ انسان، انسان کہاں رہ گیا ہے۔ وہ تو اپاہج ہو چکا ہے۔ اس کے ہاتھ ٹوٹ چکے ہیں اس کی ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں۔ اس کا چہرہ مسخ ہے۔ آنکھیں بےنور ہیں اور دماغ۔۔۔ دماغ مفلوج۔۔۔ احساس سے پرے۔۔۔ خیالات سے ماورا!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.