اس کے سمانے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر بڑی باتیں لکھی پڑی ہیں۔ جونہی شیشے کی دیوار کے اس پار بیٹھا ہوا شخص اشارہ کرتا ہے وہ بولنا شروع کر دیتا ہے۔ مگر آج سے اپنی آواز بدلی بدلی معلوم ہوتی ہے۔ شاید بھی اس کا وہم ہو۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کی آواز تبدیل ہو جاتی ہے۔ جیسے اس کے اندر کوئی اور بول رہا ہو۔ وہ چپ ہو جانا چاہتا ہے مگر سمانے بیٹھا ہوا شخص اسے بات جاری رکھنے کا اشارہ کرتا ہے۔ بولتے بولتے اسے لگتا ہے کہ جیسے اس کی آواز مدھم ہونے گی ہے اور آہستہ آہستہ سرگوشی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ وہ معذرت کر کے گلا صاف کرتا اور اپنے اندر سے آواز کا سوت کھینچ نکالنے کے لئے زور لگاتا ہے مگر شاید اس کے اندر آواز کے سوت کا سارا گچھا ختم ہو گیا ہے۔ اس کی آواز مسلسل ڈوبتی چلی جاتی ہے۔ پھر اچانک اسے لگتا ہے کہ جیسے وہ چپ ہو گیا ہو۔ حالانکہ اس نے ایسی کوئی کوشش نہیں اور نہ کر سکتا ہے۔ اگر کر سکتا تو وہ گھر سے سیدھا یہاں نہ آتا۔ کسی اور طرف کو نکل جاتا۔ کسی بِل رہے ہیں۔ وہ پریشان ہو کر شیشے کی دیوار کے اس پار بیٹھے ہوئے شخص کو معذرت طلب نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس شخص کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئی ہوں۔ گی وہ سٹپٹا کر کھڑا ہو جائےگا اور ابھی ابھی چند لمحوں میں ہر طرف اُودھم مچ جائےگا۔ مگر یہ دیکھ کر اے بے حد مسرت ہوتی ہے کہ سامنے والا شخص نہایت پر سکون اور مطمئن ہے۔ بالکل اس کی بیوی کی طرح جو صبح ہی صبح اسے شرمندہ کر کے باورچی خانے میں جا کر روٹیاں پکانے لگی تھی۔ پتہ نہیں آج کیسی صبح طلوع ہوئی تھی کہ ہر چیز کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ رنگ بدلا ہوا نہ ہوتا تو صبح ہی صبح اُسے خفت نہ اٹھانا پڑتی۔ اس نے منڈیر پر بیٹھے ہوئے کبوتر کو دیکھ کر یوں ہی کہہ دیا تھا۔
’’واہ کیا صحت مند کبوتر ہے۔‘‘
’’وہ اچھا تو اب آپ کو کوے بھی کبوتر نظر آنے لگے ہیں۔‘‘
’’کوا۔۔۔ ارے بھئی وہ تو کالا ہوتا ہے‘‘
’’یہ کوا ہی ہے‘‘ اس نے زہر خند سے جواب دیا۔
’’اور کالا بھی ہے آپ اب عینک لگوا لیجئے۔‘‘
اس نے اس کوے کو جو اسے سفید کبوتر نظر آتا تھا بار بار غور سے دیکھا۔ اس کی شکل و صورت واقعی کوے جیسی تھی۔ مگر اس کا رنگ اسے بالکل سفید نظر آتا تھا۔ کچھ دیر بیوی سے اُلجھ کر اس ے سوچا آخر سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوا سفید ہے یا سیاہ۔ کیا یہی غنیمت نہیں ہے کہ وہ اور اس کی بیوی کم از کم اس بات پر تو متفق ہیں کہ وہ کوا ہے اور سامنے منڈیر پر موجود ہے۔ وہ غسلخانے کی طرف جا رہا تھا کہ بلیوں کے لڑنے اور غرانے کی خوفناک آوازیں سنائی دیں۔ اس نے بڑی لڑکی سے پوچھا
’’یہ بلیاں کہاں لڑ رہی ہیں؟‘‘
’’لڑکی کی بجائے پھر اس کی بیوی نے جواب دیا‘‘
’’ثمینہ بیٹی بند کر دے۔حد ہو گئی ہے۔‘‘
اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔مگر بلیوں کے لڑنے اور غرانے کی آوازیں بند ہو گئیں۔ وہ غسل خانے میں آ کر شیو بنانے لگا۔ شیو بناتے بناتے اس نے آئینے میں اپنے بالوں کی دیکھ اور دم بخود رہ گیا۔ ایک ہی رات میں اس کے سر کے بال سفید ہو گئے تھے مگر کیس؟ کیا رات اتنی طویل تھی یا عجیب طرح کی صبح طلوع ہوئی تھی۔ جس میں چیزوں کے رنگ اور ذائقے بدل گئے تھے اس نے چاہا بیوی کو آواز دے مگر اسے کوے والی تکرار یاد آ گئی پھر اسے یاد آیا کہ ایک بار وہ اسے ایک خوبصورت باغ میں لے گیا تھا اور جب اس نے پولوں اور مخملی سبزے کی طرف اشارہ کر کے اس کی تعریف کی تھی تو وہ پریشان ہو کر کہنے لگی تھی۔
’’اس لق و دق صحرا اور ویرانے کو تم باغ کہتے ہو، یہ خاردار جھاڑیاں اور جگہ بلوں سے جھانکتے ہوئے سانڈے اونہہ۔‘‘
پھر ایک دفعہ وہ اس کے ہمراہ راستہ بھول کر ویرانے میں پھنس گیا تو اس کی تشفی کے لئے اس نے کہا۔ ہم جلد ہی یہ صحرا عبور کر لیں گے تو وہ تنک کر بولی۔
’’تم اس سبزہ زار کو صحرا کہتے ہو؟‘‘
بیوی سے ایسی ہی باتوں کی وجہ سے اس کی تکرار ہوتی رہتی تھی مگر وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے اور ایک دوسرے کے لئے قربانیاں دیتے آئے تھے۔ اس نے سوچا رنگوں کے چکر میں پڑ کر گھر کی فضا کو مکدر نہیں کرنا چاہئے۔
ناشتہ کر کے وہ جلدی جلدی گھر سے باہر آیا۔ گھر سے باہر ساری چیزیں اجنبی اور غیر مانوس لگ رہی تھی۔ اسے سارے رنگ پھیکے دکھائی دے رہے تھے۔ سفیدی ہر چیز پر غالب تھی۔ اسے خیال آیا مسلسل اور شدید بارشوں کی وجہ سے چیزوں کے رنگ اُڑ گئے ہوں گے۔
گلی میں گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑآ تھا۔ کئی روز سے قیامت خیز بارش ہوتی رہی تھی اور آج کئی دنوں کے بعد مطلع ذرا صاف ہوا تھا۔اس نے دیکھا گھر کے باہر ہر طرف کوڑا کرکٹ جمع تھا اور نالیاں غلاظت اور کیچڑ سے بھری ہوئی تھیں۔ گٹروں سے گندا اور بدبو دار پانی اُبل رہا تھا۔ اس نے بدبو سے بچنے کیلئے ناک پر رومال رکھ لیا اور پتلون کے پائنچے اُوپر کر کے گلی کی دلدل عبور کرنے لگا۔
آہستہ آہستہ اس کے ذہن صاف ہونے لگا۔ اسے بھولی ہوئی باتیں اور چیزیں یاد آنے لگیں۔ اُسے یاد آیا کہ کس طرح بستی کے لوگ بارش کی دعائیں مانگتے تھے۔ وہ سخت گرمی اور لُو سے پریشان تھے۔ اس بات نہایت سخت گرمی پڑی تھی۔ لگتا تھا سورج سوا نیزے پر آ یا ہے۔ دن بھر آگ برستی۔ دھوپ کے شعلے سڑکوں، گلیوں، بازاروں، کھیتوں اور گھروں کی چھتوں پر ناچتے۔ رات دیر تک گرم ہَوا چلتی رہتی۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں چشموں کے ابلنے اور ہریالی کے لہرانے کی بجائے آگ دہکتی۔ ائیرکنڈیشنڈ کمروں اور سوئمنگ پولوں کے علاوہ ساری زندگی جھلس کر رہ گئی تھی اور لوگ گرمی، لُو اور خشک سالی کے خوف سے گھبرا کر بانگیں دینے لگے تھے۔
اُسے یاد آیا کہ ایک شکر دوپہر کی سیاہ بادل گھر آئے اور قبل از وقت سام کا اندھیرا ہر طرف پھیل گیا اور اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گیا۔ گلیاں اور سڑکیں ندی نالے بن گئیں۔ ندی نالے چنگھاڑنے اور دریا بپھرنے لگے۔ بستیوں اور ویرانوں پر بجلی کڑکتی، چمکتی اور کوندتی رہی۔ کچے مکان ڈھے گئے۔ پکے مکان ٹپکنے لگے۔ مویشی اور انسان پانی کے تندریلوں میں بہہ گئے۔ کھیت اور فصلیں برباد ہو گئیں۔ زمین کے اندر بلوں اور سوراخوں میں چھپی ہوئی آفات باہر نکل آئیں اور زمین کے سینے پر رینگنے لگیں۔بہت سی جگہوں پر بند ٹوٹ گئے۔ بستیاں مٹ گئیں، لوگ بے گھر ہو گئے۔ طرح طرح کی وبائیں پھوٹ نکلیں اور بہت سا اناج پانی میں بہہ گیا۔ پھر جیسے صدیوں بعد مطلع صاف ہوا اور صبح طلوع ہوئی مگر یہ کیسی عجیب صبح تھی کہ چیزوں کے رنگ بدل گئے تھے یا کم از کم اسے ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا۔
اسے یاد آیا۔ آتی بار بس سٹاپ ر ناآشنا چہروں کے ہجوم نے اسے آج بھی حسبِ معمول عقیدت اور محبت کی نظروں سے دیکھا تھا۔ وہ ان نظروں اور چہروں پر لکھے ہوئے خوشگوار جذبات سے آشنا تھا۔ مگر آج وہ ان نظروں سے چھپ جانا چاہتا تھا۔اسے لگ رہا تھا۔ جیسے وہ۔ وہ نہ ہو۔ اس نے اپنا روپ دھار رکھا ہو۔۔۔!
اس نے چاہا جانے کا ارادہ ترک کر دے۔ کسی اور طرف کو نکل جائے۔ مگر پھر اسے بیوی بچے اور گھر یاد آیا اور چیزوں کی وہ فہرست بھی جو باغ کو ویرانہ، صحرا کو سبزہ زار اور کبوتر کو کوا سمجھنے والی بیوی نے اس کی جیب میں اڑس دی تھی۔
بس روانہ ہوئی تو بہت سے لوگوں اس کے ٹکٹ کے پیسے ادا کرنا چاہے۔ مگر اس نے منع کر دیا۔ بس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مگر اس کے لئے سیٹ کالی کر دی گئی۔ یہ کوئی انوکھی اور خلافِ معمول بات نہیں تھی مگر آج اسے لوگوں کی محبت اور عقیدت اے خوف لگ رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ اسے نہ پہچانیں۔ اسے عام آدمیوں کی بھیڑ میں گم ہو جانے دیں وہ جہاں جانا چاہے جائے۔یہاں بیٹھنا چاہے بیٹھے۔ کوئی اس کی طرف توجہ نہ دے اس کا نوٹس نہ لے۔ کاش اس کی پاس سلیمانی ٹوپی ہوتی تو وہ سب کی نظروں سے بچ کر نکل جاتا۔ مگر سلیمانی ٹوپی ہوتی تو وہ وہاں کیوں جاتا۔ وہ قہقہے لگاتا ہوا ان کے پاس سے گزر جاتا جو اسکے منتظر تھے۔
سڑک کے دونوں جانب چھوٹی بڑی دکانیں تھیں۔ بازار کے عقب میں پھر بازار تھے۔ بازاروں اور منڈیوں میں خرید و فروخت ہو رہی تھی۔ اچھی بری ہر قسم کی جییں بیچی اور خریدیں جا رہی تھیں۔ ہر شخص اپنا مال بیچنے کی فکر میں تھا۔ اس نے اپنی ڈھارس بن دھائی زندہ رہنے کے لئے ہر کسی کو کچھ نہ کچھ بیچنا، ہی پڑتا ہے۔ جو چیزیں اپنے پاس نہ ہوں انہیں حاصل کرنے کے لئے جو کچھ میسر ہو بیچنا ضروری ہوتا ہے لیکن اس کی ڈھارس نہ بندھ سکی۔ رہ رہ کر اس کا جی چاہتا وہ کہیں چھپ جائے۔ کسی اور طرف کو نکل جائے۔ مگر وہ اس طرف کو جدھر اس کا جانے کو جی نہیں چاہتا تھا مسلسل کھنچا چلا جا رہا تھا۔ جیسے دوسرے سرے پر کوئی اس کی میلوں لمبی انتڑی کا سِرا پکڑے اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتا۔ انتڑی کی تکلیف میں کمی ہوتی جاتی۔
بس سے اُتر کر وہ پیدل چلنے لگا۔ اب فاصلہ اور کم ہو گیا تھا۔ وہ یہ فاصلہ ایک ہی جست میں طے کر لیتا تھا مگر آج جب اُس نے اس فاصلہ کو ایک ہی سانس میں طے کرنے کر لئے خود کو ایڑ لگائی تو اس کے اندر کوئی چیز اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہو گئی اور زور زور سے ہنہنائے لگی اور ابھی وہ اسے چمکارنے اور تھپتھپانے سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ سفید رنگ کے کوّے اور گدھ اسکے سرپر منڈ لانے لگے۔ اور اسے پناہ لینے کے لئے اس عمارت میں داخل ہونا پڑا جس میں وہ داخل نہیں ہونا چاہتا تھا۔
مگر یہاں آ کر وہ ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو گیا بولتے بولتے اسے اپنی آواز بدلی ہوئی محسوس ہوئی پھر ہلکی ہوتی گئی اور آخر کار بالکل ختم ہو گئی اور اب وہ شیشے کی دیوار کے اس پار بیٹھے ہوئے شخص کے اشارے پر محض ہونٹ ہلا رہا ہے۔ مگر وہ حیران ہے کہ جب اس کے حلق سے آواز ہی نہیں نکل رہی تو سامنے بیٹھا ہوا شخص اسے قدر خاموش اور پر سکون کیسے ہے؟ اس کی سمجھ نہیں آ رہا کہ اب تک وہ دروازہ کھول کر اندر کیوں نہیں آ گئے ہیں اور ہر طرف شور کیوں نہیں مچ گیا ہے۔
اچانک اسے خیال آتا ہے کہ کیا پتہ اس کی اواز اس کے اپنے سوا سب کو سنائی دے رہی ہو لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ جہاں تک اسے معلوم ہے جب تک آواز اور کانوں کے درمیان ہَوا کا واسطہ موجود رہتا ہے آواز کی لہریں کانوں تک پہنچتی رہتی ہیں تو کیا اس کی آواز اور کانوں کے درمیان خلاء پیدا ہو گیا ہے؟ کیا وہ اپنی ہی آواز سننے سے محروم ہو گیا ہے؟ کیا وہ اپنی ہی آواز سننے سے محروم ہو گیا ہے؟ کیا وہ اب کبھی آوازیں اور آہٹیں نہیں سن سکےگا؟ سوالات چلتی ہوئی مشینوں کی طرح اس کے اندر گھرر گھرر کرنے لگتے ہیں اور ابھی وہ کچھ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اُسے یاد آتا ہے کہ انسنی کان وہی آواز سن سکتے ہیں جس کی فریکوئنسی بیس سے بیس ہزار تک ہو تو کیا اس کی آواز کی موجوں کا تعدد بیس سے بھی کم ہے یا اس کی آواز ULTRASAONIC ہے؟ کیا چمگادڑ کی طرح اس کے منہ سے بھی اس قدر تیز چیخ کی آواز نکل رہی ہے جسے انسانی کان سننے سے قاصر ہیں مگر کاش ایسا ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو سامنے بیٹھا ہوا شخص اس قدر پر سکون دکھائی نہ دیتا۔ یقیناً اس کی آواز میں نہیں، سماعت میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے۔
وہ اسی شش و پنج میں ہے کہ اس کے سامنے رکھے ہوئے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر لکھی ساری عبارت ختم ہو جاتی ہے اور شیشے کی دیوار کے اس پار بیٹھا ہوا شخص اسے باہر آنے کا اشارہ کرتا ہے۔ وہ دروازہ کھول کر باہر آتا ہے۔
سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔
لوگوں کے ہنسنے بولنے، دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے اور پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں اسے صاف سنائی دیتی ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.