جو تقریب ٹلتی آر ہی تھی، طے پا گئی تھی۔ تاریخ بھی سب کو سوٹ کر گئی تھی۔ پاکستان والے خالو اور خالہ بھی آ گئے تھے اورعرب والے ماموں ممانی بھی۔ مہمانوں سے گھر بھر گیا تھا۔
بھرا ہوا گھر جگمگا رہا تھا۔ درودیوار پر نئے رنگ وروغن روشن تھے۔ چھتیں چمکیلے کاغذ کے پھول پتوں سے گلشن بن گئی تھیں۔ کمروں کے فرش آئینہ ہو گئے تھے۔آنگن میں چمچماتی ہوئی چاندنی تن گئی تھی۔ چاندنی کے نیچے صاف ستھری جازم بچھ چکی تھی۔
باہر کے برآمدے میں بڑی بڑی دیگیں چڑھ چکی تھیں۔ باس متی چاولوں کی بریانی سے خوشبوئیں نکل رہی تھیں۔ قورمے کی دیگوں سے گرم مصالحوں کی لپٹیں ہواؤں سے لپٹ کردور دور تک پھیل رہی تھیں۔
دھیرے دھیرے محلہ پڑوس کی عورتیں بھی آنگن میں جمع ہو گئیں۔بچّوں کی ریل پیل بڑھ گئی۔
رنگ برنگ کے لباس فضا میں رنگ گھولنے لگے۔ سونے چاندی کے گہنے کھن کھن چھن چھن بولنے لگے۔ پرفیوم کے جھونکے چلنے لگے۔دل ودماغ میں خوشبوئیں بسنے لگیں۔ میک اپ جلوہ دکھانے لگا۔ چہروں سے رنگین شعاعیں پھوٹنے لگیں۔ ابرق سے آراستہ آنکھوں کی جھلملاہٹیں جھلمل کرنے لگیں۔ سرخ سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں کھلکھلا پڑیں۔ ماحول میں رنگ نور، نگہت تینوں رچ بس گئے ۔جگمگاتا ہوا گھر اور جگمگا اٹھا۔
ابو امی بےحد خوش تھے کہ خوشیاں سمٹ کر ان کے قدموں میں آ پڑی تھیں۔ دلوں میں بےپناہ جوش وخروش تھا کہ جوش ایمانی اور پرجوش ہونے والا تھا۔ آنکھیں پرنور تھیں کہ نورنظر سنت ابراہیمی سے سرفراز ہونے جا رہا تھا۔ چہرے پر تاب وتب تھی کہ لخت جگر کی مسلمانی کو تاب و توانائی ملنے والی تھی۔ سانسیں مشک بار تھیں کہ تمناؤں کے چمن میں بہار آ گئی تھی۔
تقریب کا آخری مرحلے شروع ہوا۔
مہمان برآمدوں اور کمروں سے نکل کر آنگن میں آ گئے۔ چاندنی کے نیچے بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہو گئے 151151فرش کے وسط میں اوکھلی آ پڑی۔ اوکھلی پر پھولدار چادر بچھ گئی۔خوان تازہ پھولوں کے سہرے سے سج گیا۔ ململ کا کڑھاہوا کرتا پیکٹ سے باہر نکل آیا۔
بزرگ نائی نے اپنی بغچی کھول لی۔ استرا باہر آ گیا۔ کمانی تن گئی۔ راکھ کی پڑیا کھل گئی۔
خالد کو پکارا گیا مگر خالد موجود نہ تھا۔ بچوں سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ سب نے نفی میں سر ہلا دیا۔ ابو امی کی تشویش بڑھ گئی۔ تلاش جاری ہوئی۔ ابو اور میں ڈھونڈتے ہوئے کباڑ والی اندھیری کوٹھری میں پہنچے۔ٹارچ کی روشنی میں دیکھا تو خالد ایک کونے میں دیرتک کسی دوڑائے گئے مرغ کی طرح دبکا پڑا تھا۔
’’خالد بیٹے! تم یہاں ہو اور لوگ ادھر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ آؤ، چلو! تمہاری ممی پریشان ہو رہی ہیں۔‘‘
’’نہیں ابو! میں ختنہ نہیں کراؤں گا۔‘‘ خالد منہ بسورتے ہوئے بولا۔
خالد سے ختنے کی بات چھپائی گئی تھی مگر شاید کچھ دیر پہلے کسی نے اسے بتا دی تھی۔
’’ٹھیک ہے، مت کرانا۔ مگر باہر تو آ جاؤ۔! ابو نے بڑے پیار سے یقین دلایا۔ مگر خالد دیوار سے اس طرح چمٹ کر بیٹھا تھا جیسے دیوار نے کسی طاقتور مقناطیس کی طرح اسے جکڑ لیا ہو۔ ہم نے اس کا ایک ہاتھ پکڑکر باہر کھینچنے کی کوشش کی مگر اس کا دوسرا ہاتھ دیوار سے اس طرح چپک گیا تھا جیسے وہ کوئی سانپ ہو جس کا اگلا حصہ کسی بل میں جا چکا ہو اوردم ہمارے ہاتھ میں۔ نہ جانے کہاں سے اس چھوٹے سے بچّے میں اتنی طاقت آ گئی تھی۔ بڑی زورآوری کے بعد مشکل سے اسے کوٹھری سے باہر لایا گیا۔
’’امی! امی! میں ختنہ نہیں کراؤں گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’اچھی بات ہے۔ نہ کرانا لیکن یہ نیا کرتا تو پہن لو۔ دیکھو نا سارے بچّے نئے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اوریہ دیکھو! یہ سہرا کتنا اچھا ہے۔ تمہارے سر پر بہت سجےگا۔ لو، اسے باندھ کر دولھا بن جاؤ۔ یہ سب لوگ تمھیں دولہا بنانے آئے ہیں۔ تمہاری شادی بھی تو ہوگی نا!
’’امی! آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ میں سب جانتا ہوں‘‘ میں کرتا نہیں پہنوں گا۔ میں سہرا نہیں باندھوں گا۔‘‘
’’یہ دیکھو! تمہارے لیے کتنے سارے روپیے لایا ہوں! ابو نے کڑکڑاتے ہوئے دس دس کے ڈھیر سارے نوٹ خالد کے آگے بچھادیے۔
آس پاس کھڑے بچوں کی آنکھیں چمک انھیں۔
’’اچھا! یہ دیکھو! تمہارے لیے میں کیا لایا ہوں؟ پاکستان والے خالونے امپورٹیڈ ٹافیوں کا ڈبہ کھول دیا۔
بچوں کی زبانیں ہونٹوں پر پھرنے لگیں۔
عرب والے ماموں آگے بڑھ کر بولے۔
’’دیکھو خالد! یہ کارتمہارے لیے ہے ۔بغیر چابی کے چلتی ہے۔ یوں151 151‘‘ تالی کی آواز پرکار ادھر اُدھر دوڑنے لگی۔
مگر خالد کی آنکھیں کچھ نہ دیکھ سکیں۔ اس کی نظریں کسی صیاد دیدہ جانور کی طرح پتلی میں سہمی ہوئی ساکت پڑی رہیں۔
ابو، امی، خالو، ماموں، پیار، پیسہ، ٹافی، کار سب کچھ دے کر تھک گئے۔ خالد ٹس سے مس نہ ہوا۔
جھنجھلا کر ابو زبردستی پر اتر آئے ۔خالد کی پینٹ کھول کرنیچے کھسکانے لگے مگر خالد نے کھلی ہوئی پینٹ کے سروں کو دونوں ہاتھوں سے کس کر پکڑ لیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کے ساتھ لبوں سے رونے کی آوازیں بھی نکلنے لگیں۔ خالد کے آنسوؤں نے امی کی آنکھوں کو گیلا کر دیا۔ ’’مت رؤو میرے لال! مت رؤو! تم نہیں چاہتے تو ہم زبردستی نہیں کریں گے۔ تمہارا ختنہ نہیں کرائیں گے۔‘‘ امی نے روندھی ہوئی آواز میں خالد کو دلاسا دیا اور اپنے آنچل میں اس کے آنسو جذب کر لیے۔ کچھ دیر تک امی خاموش رہیں۔ پھر خالدکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ ’’پچھلے سال تو پھوپھی کے گھر کامران کے ختنے کے وقت تم خود ضدکرتے رہے کہ امّی آپ میرا بھی ختنہ کرا دیجیے مگر آج تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ تم اتنے ڈرپوک کیوں بن گئے؟ تم تو بڑے بہادر بچے ہو۔ تم نے اپنے زخم کا آپریشن بھی ہنستے ہنستے کرا لیا تھا۔ اس میں تو زیادہ تکلیف بھی نہیں ہوتی۔‘‘
’’امی !میں ختنہ کرانے سے نہیں ڈرتا۔‘‘
’’تو؟‘‘
’’ابو! آپ ہی نے توایک دن کہا تھا کہ جن کا ختنہ ہوتا ہے بدمعاش انہیں جان سے مار دیتے ہیں۔‘‘
خالد کا جملہ ابو کے ساتھ ساتھ سب کے سروں پر فالج کی طرح گر پڑا۔ سب کی زبانیں اینٹھ گئیں۔ چہکتا ہوا ماحول چپ ہو گیا۔ جگمگاہٹیں بجھ گئیں۔ مسکراہٹیں مرجھا گئیں۔بچوں کی انگلیاں اپنے پاجاموں میں پہنچ گئیں۔
تلاشیوں کا گھناؤنا منظر ابھر گیا۔ جسم ننگے ہو گئے۔ چاقو سینے میں اترنے لگے۔ ماحول کا رنگ اُڑ گیا۔ نور پر دھند کا غبار چڑھ گیا۔ خوشبو بکھر گئی۔
نائی کا استرا بھی کند پڑ گیا۔ راکھ پر پانی پھر گیا۔
پاکستان والے خالونے ماحول کے بوجھل پن کو توڑتے ہوئے خالد کو مخاطب کیا۔
’’خالد بیٹے! اگر تم ختنہ نہیں کراؤگے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ تمہارا ختنہ نہ دیکھ کر تمھیں ختنہ والے بدمعاش مار ڈالیں گے۔‘‘
’’سچ ابو؟‘‘ خالد سر سے پاؤں تک لرز گیا۔
’’ہاں، بیٹے! تمہارے خالو سچ کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے میرا ختنہ کر دیجیے۔‘‘ جھٹ اس کے ہاتھوں سے کھلی ہوئی پینٹ کے سرے چھوٹ گئے۔ پینٹ کولھے سے نیچے سرک آئی۔ خالد ختنے کے لیے تیار تھا۔ مگر اس کی رضامندی کے باوجود کسی نے بھی اس کے سر پر سہرا نہیں باندھا۔ کوئی بھی ہاتھ کرتا پہنانے آگے نہیں بڑھا۔
اذیت ناک سکوت جب ناقابل برداشت ہو گیا تو پاکستان والے خالو نے آگے بڑھ کر خالد کو اسی حلیے میں اوکھلی کے اوپر بٹھا دیا۔
تقریب کا آغاز ہو گیا مگر نائی کے تھال میں پیسے نہیں گرے۔ نائی نے مطالبہ بھی نہیں کیا۔
خاموشی سے اس نے مسلمانی میں راکھ بھری۔ کمانی فٹ کی۔ چمٹے میں چمڑے کو کسا اور اس پر لرزتا ہوا استرا رکھ دیا۔ جیسے ختنہ نہیں، گردن کاٹنے جا رہا ہو۔
(افسانوی مجموعہ حیرت فروش از غضنفر، ص 68)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.