غنی نے لکھا تھا، ’’عطا کا خط آیا ہے، وہ اس ماہ کے آخر تک اپنی بیوی بچوں کے ساتھ آ جائےگا۔ آج ۱۰ تاریخ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ۲۵،۲۶ تک بیٹا، بہو اور بچے آجائیں گے۔۔۔ گھر میں بہار آ جائےگی‘‘۔
سجاد نے غنی کے خط کی ان سطروں کو بار بار پڑھا اور ہر بار اسے ایک نیا لطف آیا۔ پتہ نہیں کیوں اسے یہ محسوس ہوا کہ یہ خبر غنی کے بیٹے عطا نے نہیں بھیجی ہے، بلکہ اس کے بیٹے مختار نے اسے بھیجی ہے۔
لیکن جب اسے یاد آیا کہ مختار اور اس کے بچوں کو گئے تو ابھی دو مہینے بھی نہیں ہوئے ہیں اور ابھی تو اسے پورے دس مہینے اور ان کا انتظار کرنا ہوگا، تو اس پر ایک بےکیفی سی طاری ہو گئی۔۔۔ کیسی محرومی ہے۔
ایک بیٹا ہے، وہ سعودی میں ہے، ایک بیٹی ہے وہ اپنے شوہر کے ساتھ پونا میں ہے۔۔۔ بیٹا سال بھر بعد آتا ہے، تو بیٹی کیوں نہ سال بھر بعد آئے؟ کتنی بار کہا کہ سال میں دو بار تو آیا کرو۔ لیکن وہ ہمیشہ اپنی پریشانیوں کا قصہ چھیڑ دیتی ہے، بچوں کا اسکول، ان کے امتحانات، میاں کی مصروفیتیں، ان کا ٹور، موسم کی سختیاں۔۔۔ اور آتی جب ہی ہے، جب مختار آتا ہے۔ بس مہینے ڈیڑھ مہینے کے لیے۔۔۔ اب اس مخصتر سی مدت میں کس سے بات کی جائے، کس کی بات سنی جائے، کس کے بچوں کو پیار کیا جائے اور کس کے بچوں کو گود میں کھلایا جائے۔
پھر آنے کے چار دنوں بعد ہی انہیں اپنی اپنی سسرال یاد آ جاتی ہے۔۔۔۔ چھ گھنٹے کی راہ بیٹے کی سسرال ہے اور دو گھنٹے کی راہ بیٹی کی سسرال کی۔۔۔
مصیبت تو یہ ہے کہ اب اس دنیا میں کوئی کسی سے گلے شکوے بھی نہیں کر سکتا۔ اگر مختار سے کہا جائے کہ بیٹا سال بھر بعد تو مہینے ڈیڑھ مہینے کے لیے آتے ہو، اس میں بھی ہفتے دس دن کے لیے سسرال چلے جاتے ہو تو کہتا ہے۔۔۔ ’’پاپا سوچیے، عابدہ کے گھروالوں کا بھی تو حق ہے ہم لوگوں پر‘‘۔ اس پر میں کہتا ہوں، ’’وہ تو صحیح ہے بیٹا لیکن اب تم ہی سوچو۔۔۔‘‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس سے آگے مجھ سے کچھ کہا بھی نہیں جاتا۔ بہو کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے۔
عندلیب بھی ہفتے دس دن کے لیے سسرال جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔ اس سے تو یوں بھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ داماد برامان جائیں گے۔۔۔ لیکن آنکھوں ہی آنکھوں میں ہم لوگ اس سے کچھ درخواست ضرور کرتے ہیں۔۔۔ دونوں ہی عجیب طوفانی انداز سے آتے ہیں اور طوفانی انداز سے چلے جاتے ہیں۔۔۔ داماد زیادہ تر اپنے گھر میں رہتے ہیں، اسی لیے عندلیب کچھ دنوں اپنی سسرال میں رہ کر ایک بچے کے ساتھ میرے یہاں چلی آتی ہے۔۔۔ ادھر بہو بھی زیادہ وقت اپنے میکے میں رہنا چاہتی ہے۔۔۔ بس ایک کشاکش سی رہتی ہے۔
عندلیب سے جب بھی یہ کہا کہ بیٹی تم مختار کے ساتھ کیوں آتی ہو، اگر اس کے آنے کے چھ ماہ بعد آؤ، تو ہمارے گھر، سال میں دو بار عید منائی جائے، تو اس نے ہمیشہ مجھے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا، ’’واہ پاپا، پھر بھیا سے ملاقات کیسے ہوگی؟‘‘
دریا کے ایک کنارے پر اگر ہم کھڑے ہیں تو دوسرے کنارے پر عندلیب اور اس سے کچھ فاصلے پر مختار کھڑا ہے۔پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سب اسی کنارے پر آ ملتے ہیں، جلدی جدا ہونے کے لیے۔ اس کے بعد ہم ہوتے ہیں اور محرومی اور تنہائی کا نہ ختم ہونے والا کرب۔۔۔
فاطمہ کو دیکھو تو سال بھر بچوں کے آنے کی تیاریاں کرتی رہتی ہے، جب مٹر کا سیزن ختم ہونے کو آتا ہے تو خدا جانے کتنی مٹر چھیل کر ا ن کے دانے پولی تھین میں بھر کر رکھ دیتی ہے، پھر اس طرح دس پندرہ کیلو ہرے چنے بھی تھیلوں میں بھر کر ڈیپ فریزر میں ڈال دیتی ہے کہ اگر عندلیب کو مٹر کا پلاؤ پسند ہے تو مختار کو ہرے چنے کی قبولی۔
لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب عندلیب اور مختار آتے ہیں تو دونوں ایک ہی بات اپنی ماں سے کہتے ہیں ’’امی کیوں ہم لوگوں کے لیے اتنی پریشانیاں مول لیتی ہیں؟‘‘ اس پر مختار کہتا ہے، ’’ناشتے میں تو امی مجھے میدے کی خوب پھولی پھولی کچوریاں، آلو کی خوب سرخ سرخ بھجیا اور کرچھل میں تلا ہوا انڈا پسند ہے۔۔۔‘‘ ادھر عندلیب کہتی ہے، ’’امی دن کے کھانے میں باسمتی چاول ہو، ارہر کی دال، ہری مرچ کا دوپیازہ اور لیموں کی نمکی۔۔۔ میری تو جان جاتی ہے اس کھانے پر‘‘۔
تب فاطمہ بگڑ کر کہتی ہے، ’’ٹھیک ہے تو اس بار سردیوں میں تم لوگوں کے لیے مٹر اور ہرے چنے نہیں رکھوں گی‘‘۔ اس پر دونوں ماں سے لپٹ جاتے ہیں، ’’نہیں امی ایسا غضب نہ کیجئےگا‘‘۔
سجاد سوچتا، کاش یہ سارے مناظر آنکھوں کی دنیا میں مستقل سکونت اختیار کر لیتے، لیکن یہ کہاں ہوتا ہے، تب وہ دھیرے سے اپنی آنکھوں کو خشک کر لیتا ہے۔
بچے آ جاتے ہیں تو کچھ چھوٹی موٹی تقریبات بھی ان کے آنے سے ہو جاتی ہیں۔ عندلیب نے لکھا تھا، چھوٹے کا عقیقہ میں اپنے گھر سے کروں گی، میں نے ان سے بھی کہہ رکھا ہے، بس بھیا آجائیں گے تو وہیں آکر یہ پروگرام بناؤں گی۔
مختار نے لکھا تھا، ’’پاپا ساجد کا مکتب آپ ہی کو کرنا ہے۔ اقرا باسم۔۔۔‘‘
چلیے دو تقریبات تو ہو گئیں۔ اگر یہ سب نہ بھی ہوا تو میلاد النبی کی تقریب تو ہو ہی جاتی ہے۔
’’سچ یہ ہے کہ روشنی ہی روشنی کو کھینچ لاتی ہے‘‘۔
بچے آتے ہیں تو گھر بھر دیتے ہیں، کپڑے لتے، چھوٹی چھوٹی مشینیں۔ مسالہ پیسنے کی مشین، جوسر، وی سی پی اور ویڈیو کیسٹ۔
تین چال سال پہلے مختار ڈیپ فریزر لے آیا۔ کہا بھی میں نے کہ بیٹا کیا ہوگا ان چیزوں کا، خاصی ڈیوٹی دے کر لاتے ہو۔ اس پر مختار نے ذرا درشت لہجے میں کہا، ’’پاپا یہ سب نہ کہا کیجئے۔ آپ لوگوں کی دعاؤں سے اللہ کا فضل ہے‘‘
ظاہر ہے ڈاکٹر ہے، لمبی تنخواہ پاتا ہوگا، لیکن یہ سب تو فضول کا خرچ ہے۔ عندلیب بھی جب آتی ہے تو دنیا بھر کی چیزیں پونا اور بمبئی کے بازار سے خرید کر لے آتی ہے۔
کیا بچے ہیں۔۔۔ آتے آتے گھر کو بھر دیتے ہیں اور جاتے جاتے دلوں کو خالی کر دیتے ہیں۔ کیا خاک اڑتی ہے ان کے جانے کے بعد۔
فاطمہ تو ان کی روانگی سے ہفتے بھر پہلے ہی سے رونا شروع کر دیتی ہے۔ عندلیب سمجھاتی ہے، امی کیا کریں ان کی سروس ہے نہ، آپ تو جانتی ہی ہیں بندگی بیچارگی۔ خورشید میاں بھی سمجھاتے ہیں، امی ہم لوگ ادھر آنے کو پریشان ہیں۔ اگر آگئے تو کوشش کریں گے کے اسی شہر میں پوسٹنگ ہو جائے۔ مختار بھی اپنی امی کو چپ کرانے کی سعی کرتا ہے۔ امی اتنی سمجھ دار ہوکر بھی دل کو چھوٹا کرتی ہیں اور یہ کہہ کر چپکے سے کسی بچے کو فاطمہ کی گود میں بیٹھا دیتا ہے۔ بیٹا دادی کو پیار کر لو۔
مختار بہت پیسے بھیجتا ہے۔ لیکن سجاد سوچتا، پیسوں سے دکھ کا مداوا تو نہیں ہوتا۔ کسی خط میں بیماری آزاری کے متعلق لکھا، یا مختار سے فون پر کچھ بتایا، تو پھر دوسرے ہی دن اس کا دوست ڈاکٹر رام پرکاش آ جاتا ہے۔ آتے ہی پوچھتا ہے، ’’پاپا امی آپ لوگ کیسے ہیں، کل ہی رات مختار کا فون آیا تھا۔۔۔‘‘ دیکھ بھال کر، دوائیں دے کر چلا جاتا ہے۔ پھر مختار کا خط آتا ہے، تو پھر دنیا بھر کی ہدایتیں ہوتی ہیں اس میں اور تب اگلے مہینے کے ڈرافٹ میں دو ڈھائی ہزار فاضل آ جاتے ہیں۔ اب اسے کون سمجھائے کہ یہ وہ دکھ نہیں ہے جو پیسے سے کم ہو جائے۔
یہ لوگ چلے جاتے ہیں، تو پھر گھر میں کون رہ جاتا ہے؟ ایک میں ایک فاطمہ، ایک تیرہ چودہ سال کا ضلع ویشالی کا رہنے والا لڑکا قاسم، جو بازار کا کام کرتا ہے اور جو ٹی وی کے ڈراموں کا بڑا شوقین ہے۔ باہر سے آئے ہوئے ڈراموں کے کیسٹ وی سی پی پر دیکھا کرتا ہے اور کوئی کام نہ ہو تو دھیمے سروں میں نئی سے نئی فلموں کے گانے گاتا رہتا ہے۔ وہ جب سال میں ایک بار لمبی چھٹی لے کر اپنے گھر جاتا ہے تو بڑا برا لگتا ہے، کہ اس کے رہنے سے گھر میں آدمی کی آواز تو سنائی دیتی ہے۔ ایک باورچن بھی ہے جو دن چڑھے آتی ہے اور سرشام گھر چلی جاتی ہے۔ کبھی کبھار دو چار دنوں کے لیے بھائی بہنوں کے بچے یا کوئی رشتہ دار آ جاتا ہے تو لگتا ہے کوئی بولنے چالنے والا آیا، ورنہ یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔
قصہ یہ ہے کہ ہر آشنا کے پاس مصائب کا دشت ہے، اس لیے کیا کوئی کہیں آئے جائے۔۔۔ ویسے اگر کبھی کوئی آ گیا، تو اسی کے ساتھ بیٹھ کر گھڑی دو گھڑی ہنس بول لیے، تھوڑی دیر کے لیے دل بہل گیا۔
رہی فاطمہ تو وہ اتنی چڑچڑی ہو گئی ہے کہ ذرا کچھ بات کرو تو کاٹنے کو دوڑتی ہے۔۔۔ مختار ڈاکٹر ہو کر دو سال رہا اور پھر ایک انٹرویو دے کر سعودی چلا گیا۔۔۔ اس میں میرا کیا قصور؟ داماد ایم بی اے کر کے بمبئی کی کسی بڑی فرم میں ملازم ہو گیا، پھر وہاں سے پونا چلا گیا، تو اس میں میری کون سے غلطی ہے۔۔۔؟ لیکن نہیں، آپ ہمیشہ منہ سیئے بیٹھے رہتے ہیں۔۔۔ ارے بھائی تو میں کیا کرتا۔ مختار اپنی مرضی کا مالک ہے اور داماد پر کسی کو کیا اختیار؟
تنہائی کا دکھ میں بھی جھیل رہا ہوں، تنہائی کا دکھ وہ جھیل رہی ہے، لیکن اس کا تو عجیب حال ہے۔
خط نہیں آتا ہے تو اس میں میری کاہلی کا دخل ہوتا ہے، پوسٹ آفس جا کر دریافت نہیں کرتے ہیں حالانکہ ہر دوسرے تیسرے دن میں پوسٹ آفس کا چکر لگا آتا ہوں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ مختار اور عندلیب کا فون برابر آتا ہے۔ وہ دونوں ہم لوگوں کو طرح طرح سے سمجھاتے رہتے ہیں ماں سے کہتے ہیں کہ اگر آپ پریشان ہو ں گی تو بابا بھی پریشان ہوں گے اورمجھ سے کہتے ہیں کہ اگر آپ پریشان ہوں گے تو امی بھی پریشان ہوں گی۔
بچوں کی تصویریں آتی رہتی ہیں۔ انہیں دیکھ کر فاطمہ کا تو عجب حال ہو جاتا ہے، چومنا چاٹنا، بلائیں لینا۔ کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، پھر تصویریں الماری میں حفاظت سے بند کر کے رکھ دی جاتی ہیں۔ کئی بار کہا کہ البم میں لگا لو، لیکن فاطمہ کو تو اب میری کوئی بات پسند ہی نہیں آتی۔
پیسے کی اللہ کے فضل سے کبھی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ سات ساڑھے سات ہزار مختار کے یہاں سے آ جاتے ہیں، ساڑھے تین ہزار کے قریب میری پینشن ہوتی ہے، اپنا گھر ہے۔ بس دو چار آدمیوں کے کھانے پینے کا جو بھی خرچ ہو۔
علاج معالجے کا یہ حال ہے کہ جہاں ہم لوگوں کی بیماری کی خبر مختار کو ملی، اس نے ڈاکٹر رام پرکاش کو فون کر دیا اور دوسرے دن ہی وہ دیکھنے پہنچ گیا۔ البتہ کچھ دن پہلے جب فاطمہ کو گردے کی تکلیف ہوئی تھی تو میں نے خود ڈاکٹر رام پرکاش کو فون کر کے بلایا تھا۔ ڈاکٹر آیا تو اس نے دیکھ بھال کے بعد کچھ دوا لکھ دی اور کچھ ٹیسٹ بتائے، پھر دوسرے دن ایک اسپیشلسٹ کو لے کر پہنچ گیا۔ دونوں نے گردے میں پتھری ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔ لیکن دونوں کا خیال تھا کہ کچھ دن آپریشن کو ٹالا جا سکتا ہے، شاید دواؤں سے ہی فائدہ ہو جائے۔
دوسرے دن فاطمہ کو آرام ملا تو میں نے دیکھا کہ وہ کروندے کی جیلی تیار کررہی ہے، شام تک جیلی تیار ہو گئی تو مجھے ایک طشتری ملی۔ اس کے بعد دو ڈھائی کلو جیلی اس نے شیشوں میں بند کرکے رکھ دی۔ کروندے کی جیلی مختار اور عندلیب دونوں کو پسند ہے۔۔۔ اور بچے تو ہر میٹھی چیز پر جان دیتے ہیں۔
مختار اور عندلیب مشکل سے ڈیڑھ مہینے رہتے ہیں، لیکن فاطمہ کی تیاریاں دیکھنے والی ہوتی ہیں، کیا نہیں بنتا ہے ان کے لیے، چٹنی، اچار، مربے، حلوہ، ساس اور جانے کیا کیا۔۔۔ فریزر میں انواع و اقسام کی کھانے کی چیزیں رکھی رہتی ہیں۔
کوئی دو ماہ بعد آج پھر غنی کا خط آیا ہے۔
’’عطا پچھلے ہفتے بچوں کو لے کر چلے گئے۔۔۔ پھر وہی زندگی ہماری ہے‘‘۔
خط لے کر میں فاطمہ کے کمرے میں آیا تو دیکھا وہ کیلنڈر کے سامنے کھڑی کچھ حساب کتاب کر رہی ہے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگی:
’’مختار کو آنے میں ابھی آٹھ مہینے سات دن اور ہیں‘‘۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.