خانہ دار کی پریشانیاں
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’اودرادِک‘‘ اصلاً سلانی زبان کا لفظ ہے اور اسی بنیاد پر وہ اس کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس کی اصل جرمن ہے اور سلانی زبان کا اس پر صرف اثر پڑا ہے۔ ان دونوں تاویلوں کے تذبذب کی وجہ سے یہ نظریہ قائم کرلینا بے جا نہ ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی تاویل درست نہیں ہے، علی الخصوص جب کہ کوئی بھی تاویل اس لفظ کے قابل قبول معنی نہیں بتاتی۔
بے شک اگر اودرادک نام کی ایک مخلوق کا وجود نہ ہوتا تو کسی کو ان بحثوں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ مخلوق پہلی نظر میں ستارے کی شکل کی دھاگا لپیٹنے والی چپٹی پھرکی سی لگتی ہے، اور واقعی اس پر کچھ دھاگا لپٹا ہوا معلوم بھی ہوتا ہے۔ اصل میں یہ مختلف میل کے رنگ برنگے دھاگے کے الگ الگ ٹکڑے سے ہیں، جن میں فقط گانٹھیں ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے میں الجھے ہوئے بھی ہیں۔ لیکن یہ محض پھر کی نہیں ہے، اس لیے کہ اس ستارے کے وسط میں ایک تیلی گھسی ہوئی ہے اور اس تیلی میں ایک اور ڈنڈی کھڑی کھڑی جڑی ہوتی ہے۔ ایک طرف اس دوسری ڈنڈی اور ایک طرف ستارے کے کسی ایک کونے کی مدد سے یہ پوری چیز اس طرح سیدھی ٹکی رہتی ہے، جیسے دونوں ٹانگوں پر کھڑی ہو۔
یہ مان لینے کو جی چاہتا ہے کہ کبھی اس مخلوق کی کوئی معقول شکل رہی ہوگی اور اب یہ اسی کا ٹوٹا پھوٹا بقایا ہے۔ تاہم یہ حقیقت نہیں معلوم ہوتی، کم سے کم اس میں اس طرح کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس کی سطح پر کہیں کوئی ٹوٹ پھوٹ یا کھردراپن نہیں جس سے اس بات کا اشارہ مل سکے۔ یہ پوری چیز واہیات سی تو ضرور معلوم ہوتی ہے لیکن اپنی جگہ پر یہ بالکل صحیح و سالم ہے۔ بہرحال قریب سے اس کا معائنہ کرنا ممکن نہیں، اس لیے کہ اودرادک بے حد پھرتیلا ہے اور اس کو پکڑا نہیں جاسکتا۔
وہ کبھی کوٹھے کے سب سے اوپر والے کمرے سے جھانکتا ہے، کبھی زینے سے، کبھی دالان سے، کبھی ڈیوڑھی سے۔ اکثر وہ مہینوں تک نظر نہیں آتا، قیاس کہتا ہے کہ ان دنوں وہ دوسرے مکانوں میں رہنے لگتا ہوگا، لیکن وہ پابندی کے ساتھ پلٹ کر ہمارے ہی گھر آجاتا ہے۔ بسااوقات جب آپ دروازے سے نکل رہے ہوتے ہیں اور وہ آپ سے کچھ نیچے پر جنگلے سے ٹیک لگائے کھڑا ہوا ملتا ہے تو آپ کا جی اس سے باتیں کرنے کو چاہنے لگتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ اس سے مشکل سوال نہیں پوچھتے۔ وہ اتنا ننھا منا سا ہے کہ آپ اس کو بچہ سمجھنے پر مجبور ہیں۔
’’کہو بھئی تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ آپ اس سے پوچھتے ہیں۔
’’اودرادِک۔‘‘ وہ کہتا ہے۔
’’اور تم رہتے کہاں ہو؟‘‘
’’کوئی ایک ٹھکانا نہیں۔‘‘ وہ کہتا ہے اور ہنسنے لگتا ہے، لیکن یہ ہنسی ایسی ہوتی ہے جس کا پھیپھڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس میں سوکھے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ کی سی آواز ہوتی ہے اور عموماً اسی کے ساتھ یہ گفتگو ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن ان جوابوں کا بھی ہمیشہ ملنا ضروری نہیں۔ اکثر وہ عرصے تک چپ سادھے رہتا ہے اور بالکل اپنے جسم کی طرح لکڑی ہوجاتا ہے۔
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں، یوں ہی بے مقصد، کہ اس کا ہونا کیا ہے، کیا اس کے مرنے کا امکان ہے؟ ہر مرنے والی چیز کا زندگی میں کوئی مقصد ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی کام ہوتا ہے جو بالآخر ختم ہوجاتا ہے لیکن اودرادِک پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ تو کیا میں یہ سمجھ لوں کہ ایک نہ ایک وقت آئے گا جب وہ میرے بچوں اور میرے بچوں کے بچوں کی ٹانگوں تلے زینوں پر لڑھکتا پھرے گا اور دھاگوں کے سرے اس کے پیچھے پیچھے گھسٹ رہے ہوں گے؟ وہ کسی کو نقصان پہنچاتا نظر تو نہیں آتا لیکن یہ خیال کہ اغلباً وہ میرے بعد تک زندہ رہے گا، مجھے اذیت ناک سا معلوم ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.