Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھنڈر

نجمہ نکہت

کھنڈر

نجمہ نکہت

MORE BYنجمہ نکہت

    اللہ جانے آپ نے وہ ڈیوڑھی دیکھی بھی ہے یا نہیں جہاں سے چوڑیوں والوں کی چھکا چھک روشنی پھینکتی ہوئی دوکانوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ وہیں راستے سے ذرا ہٹ کر صداقت نواز جنگ کی سفید دیواروں اور منقش ستونوں سے گھری ہوئی عظیم الشان ڈیوڑھی، لاتعداد، دروازوں اور کھڑکیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ داخل ہونے کے لئے اتنی بڑی کمان ہے کہ ہاتھی بھی آسانی سے گذر جائے۔ آگے صحن ہے اور صحن کے بیچوں بیچ بیضوی وضع کا بڑا سا حوض ہے جس میں کبھی سچ مچ فوارے چھوٹتے تھے اور سبز بھیگی دوب پر شام تک پانی کے بے شمار قطرے سچے موتیوں کی طرح پڑے چمکا کرتے مگر اب تو حوض خالی پڑا ہے۔ پانی کی سطح کی جگہ بھوری کائی سوکھی مٹی کی طرح جم گئی ہے۔ اب یہ سوکھا حوض لے پالک لڑکوں اور باندیوں کی لاتعداد اولاد کے لئے اسٹیڈیم کا کام دیتا ہے۔ گھنی سرسبز لان کی بجائے صرف ریت رہ گئی ہے۔ یہاں کام پر لگے رہنے والے مالی د مالین اب نظر نہیں آتیں۔

    کمسن لڑکوں میں بیہودہ ہنسی مذاق، دھول دھپا اور گالی گلوج کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔

    اندر کے بڑے ہال میں جہاں تختوں پر کارچوبی مسندیں لگائی جاتی تھیں اور زرین پھولوں والے دیوان رکھے رہتے تھے، اب وہاں میلی دریاں بچھی رہتی ہیں۔ قیمتی، بھاری پردوں کی جگہ پرانی جارجٹ کی پھولدار ساڑیاں پھڑپھڑایا کرتی ہیں۔ چھتوں سے لٹکے کانچ کے بلوریں جھاڑ و رنگین کنول جہاں اجالے بکھرتے تھے وہاں اب میلے کچیلے بجلی کے بلب، ہلکی دم توڑتی ہوئی روشنی پھیلا کے مطمئن ہیں۔

    منقش ستونوں پر جنگلی کبوتروں نے بسیرا لینا شروع کر دیا ہے اور جگہ جگہ ساگوانی ناٹوں پر چڑیوں کے گھونسلوں سے گھانس پھوس لٹک رہا ہے۔ کونوں کچروں میں مکڑیوں نے جالے تان لئے ہیں۔

    پالش کئے ہوئے شاہ آبادی سیلو کے فرش پر کبوتروں کی بیٹ پڑی ہے اور سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے کتوں نے ڈیوڑھی کے باورچی خانے سے راشن حاصل کرنا سیکھ لیا ہے۔ ڈیوڑھی میں ہر طرف مٹکتی پھرنے والی باندیوں کے دل میں ڈیوڑھی کو سجانے سنوارنے، فرش دھونے اور عود عنبر کے دھوئیں سے ہر کمرہ کو معطر رکھنے کا خیال مردہ پڑا ہے۔

    اپنے سیاہ گھنی ابروؤں کے اشارے پر ڈیوڑھی کے ذرے ذرے کو چلانے والی حشمت جہاں اب تپ دق میں مبتلا یوں اپنے نواڑی پلنگ پر بےحس و حرکت پڑی ہیں جیسے ان کا جسم زندگی کی ساری حرارت، لمبے چین جذبات و گمبھیر احساسات سے خالی ہو چکا ہو۔ پاندان کے خرچ کے لئے پانچ سو کی رقم لے کے بڑ بڑا نے والی کا پاندان اب عجیب انداز میں بکھرا پڑا تھا۔ چونے کی کٹوریاں نہ جانے نواب پاشا کے بچوں نے کھیل کھال کے کہاں پھینک دی تھیں۔ چھالیا کے خانوں کے ڈھکن، ادھر ادھر کہیں دالان میں دکھائی دیتے ان کی خوبصورت آنکھوں میں عجیب ساڈر اور وحشت نظر آتی۔ اب تو بال بھی پکنے شروع ہو گئے تھے۔ بڑی بیگم پن کٹی میں زور زور سے پان کوٹتیں تو وہ دھیرے سے کراہتیں۔

    ’’اماں حضت۔ یوں پان نہ کوٹیئے، میرے دل پر ہتھوڑے لگتے ہیں اللہ قسم۔ اب آپ لوگوں کو ہمارے دکھ درد کا احساس نہیں رہ گیا ہے۔ ہائے! اللہ! سانس جیسے سینے سے نکلی بھاگی چلی جاتی ہے’‘۔

    جھریاں پڑے ہوئے سخت ہاتھ رک جاتے۔ تیوری چڑھ جاتی۔

    ’’بوڑھا ذہن ہے، کوئی بات یاد نہیں رہتی، تم اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتی ہو تمہارے گھر پڑی ہوں، جو کہو کم ہے۔ لاکھوں روپے تمہارے پیچھے برباد کئے آج اپنی جان کے لئے رکھے ہوتے تو یہ سب کاہے کو سننا پڑتا۔ سچ ہے۔ بڑھاپے میں بیٹی کے گھر کا کھانا حرام کھانے کے برابر ہے’‘۔

    ’’اماں حضت‘‘ حشمت جہاں زور سے چیختیں۔

    ’’خدا کے لئے۔ رسول پاک کے لئے خاموش رہئے۔ آپ ماں ہیں اور ماں بھی کون جو اپنے وقت کی ملکہ تھیں۔ آپ نے کیا تو اپنی اولاد کے لئے کیا۔ کیا ہر روز کے احسان گنوا کر مجھے قبر میں اتاریں گی؟‘‘

    بڑی بیگم پان منہ میں رکھ کے حشمت جہاں کو قہر آلود نظروں سے گھورنے لگتیں۔ آپ کے لئے کس چیز کی کمی ہے جو میری جان کھائے جاتی ہیں۔ میں بیمار ہوں، مجبور ہوں، آپ کو مری جان عزیز نہیں بس ہر دم روپیوں کا کلمہ پڑھا کرتی ہیں۔ حشمت جہاں، ماں کو جھنجھلا کے جواب دیتی۔

    بڑی بیگم کی پھٹی ہوئی آنکھوں میں پانی تیر جاتا۔

    ’’ہاں۔ ہاں میں لالچی ہوں، ندیدی ہوں تب ہی تمہیں اس قابل بنایا کہ پلنگ پر پڑی پڑی بھی راج کرتی ہو۔ پیدا ہوئیں تو آٹھ انائیں دودھ پلانے پر رکھ چھوڑی تھیں کہ بیٹا کو نظر نہ لگے اور۔۔۔‘‘۔

    ان کی بکواس حشمت جہاں کی پیدائش کے بیان سے شروع ہوتی تھی تو گھنٹوں جاری رہتی۔

    ’’خاموش رہئے۔ آپ کی زبان میری رگ رگ قینچی کی طرح کاٹ کر رکھ دے گی۔ تب آپ کو سکون ہوگا‘‘۔

    ایک دوسرے کو خاموش رکھنے کی کوشش میں دونوں ضرورت سے زیادہ بولتے۔

    ’’دیکھو لوگو! ذرا اس دوزخی کو دیکھو۔ ماں کو بدنام کرتی ہے۔ ماں کی کوکھ میں مٹی ڈالتی ہے۔ اگر یہ معلوم ہوتا۔۔۔اگر یہ۔۔۔’‘

    بڑی بیگم آس پاس کی مغلانیوں، بواؤں ار باندیوں کو اپنا دکھ بتاتیں جھوٹ موٹ آنکھیں پونچھ کر گھر سے چلے جانے کا اعلان کرتیں تو حشمت جہاں اپنا سینہ پیٹنے لگتیں۔ بال نوچ کے چلاتیں۔ یہ سب وہ چپ چاپ دیکھ کر حیرت زدہ سی پتھر کی مورتی بن جاتی۔

    سٹھیا گئی ہیں بےچاری۔۔۔ روز روز بیمار سے لڑنا جھگڑنا ایک دن کہیں بھاری ماتم میں نہ بدل جائے۔۔۔

    نواب پاشا اپنے ضدی بچے کو کولھے سے جھٹک کے دوڑتیں۔

    بیگم پاشا کا پیر سیڑھیاں اترنے میں پھسل پڑتا اور گھر بھر میں بھونچال آ جاتا۔ یوں لگتا جیسے چیخوں سے ستون ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔ دروازوں اور کھڑکیوں کی کھچیاں ہوا میں تحلیل ہو جائیں گی۔ اور علاء الدین کے محل کی طرح اس ڈیوڑھی کو بھی لڑائیوں کا خوفناک دیو کندھے پر رکھ کر اڑ جائےگا۔ پھر کیا ہوگا؟

    اس نے جب صداقت نواز جنگ کے تابعدار عربوں سے اپنے ماں باپ کو پٹتے دیکھا تھا۔ جب ماں باپ سے ایسی طویل داستان سنی تھی جس کا سلسلہ پچھلے ہزاروں صدیوں کے ظلم سے جا ملتا تھا، جب انسان نے زمین پر پہلی بار اپنی جنسی بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ ایک زنجیر تھی جس کی کڑیاں دور تک چلی گئی تھیں۔ ان کڑیوں میں جھول جھول کے اس کو بہت دور جانا پڑا تھا۔

    ’’کہیں کسی تقریب میں دیکھ لیا ہوگا‘‘۔ اس کی ماں آنسو پونچھ کر منمناتی۔

    ’’جو تو نظر میں نہ پڑتی تو ہم پر یہ ظلم کیوں ہوتا؟‘‘ اس کا باپ دانت پیستا اور وہ سہمی سہمی سی اپنی سیاہ خوبصورت آنسو بھری آنکھیں دوپٹہ سے ملنے لگتی۔

    ’’مجھے کیا خبر تھی اماں’‘ وہ سسک سسک کر زیر لب بڑبڑاتی۔

    روز روز کی پٹائی اور مار کوٹ سے تنگ آ کے اس کے باپ نے اس کا ہاتھ پکڑا کر ڈیوڑھی کا رخ کیا۔ تو جیسے اس نے اپنے سارے حسین خوابوں کو گھر کی بوسیدہ چوکھٹ پہ چھوڑ دیا۔

    بچپن کی ضد، الھڑ پن اور بات بات پر پھوٹنے والی ہنسی اس کے پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ گھر کے بڑے سے لکڑی کے صندوق میں بند ہو گئی۔ ماں کی شفقت اور بات بات پر اس کی طرفداری کرنے کی عادت، اس کی محبت اس کے ذہن میں دھند کی طرح پھیل گئی۔

    اس نے جب کانپتے قدموں سے ڈیوڑھی میں قدم رکھا تو پلکیں جھپکا جھپکا کے رنگ برنگے فانوس و کنول دیکھتی رہ گئی۔ ہوا کے جھونکوں میں چھن چھن کے بج اٹھنے والی رنگین کانچ کے ٹکڑوں کی جھالر۔ ہائے بالکل دور کسی جزیرے میں گایا جانے والا رسیلا نغمہ لگی۔ جس میں رچی ہوئی موسیقی آہستہ آہستہ بے ہوش کر دیتی تھی۔ بھاری پردوں کو چھوکر دیکھنے کی خواہش بری طرح ستانے لگی۔ چاندی کے گلدانوں میں سجائی گئی گلاب کی ٹہنیاں برقی پنکھے کی تیز ہوا میں جھوم رہی تھیں اور آتش دان پر رکھا ہوا بدھا کا اسٹیجو اس کو اپنی غم نصیب آنکھوں سے تک رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے آخری بار اس کے ابا میاں نے ڈیوڑھی کی بڑی پھاٹک پر اس کو دیکھا تھا مگر ڈیوڑھی کے اندر آ کے اس کو اپنے ہزاروں بار دیکھے ہوئے خوابوں کے خوبصورت جزیرے یاد آ گئے۔

    بہت سی سیاہ فام لڑکیاں اپنے سفید چمکیلے دانتوں ار مڑے ہوئے چھلے دار بالوں کے ساتھ اس کو افریقہ کے لوگوں کے بارے میں تیسری چوتھی کلاس کے سبق یاد دلا رہی تھیں۔

    تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ اپنے ملک کی تیز و تند گرم ہواؤں سے گھبرا کے تم کہاں کہاں گھومتی پھرتی ہو؟ غلامی کا طوق گلے میں ڈالے زندگی بھر اپنے وطن میں گائے جانے والے نغموں اور نیم برہنہ جسموں کے ساتھ کھیتوں میں بے باک گھومنے والی کنواریوں کو کب تک یاد کئے جاؤگی؟ وہ دیر تک ان لڑکیوں کو دلچسپی سے دیکھتی رہی۔

    ’’تم پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی ہو۔ اللہ پاک نے یہ ناک نقشہ اپنے ہاتھوں بنایا ہوگا۔ تب ہی بہار میں کھل اٹھنے والے پھولوں کا نکھار ہے۔ کبھی اپنی غربت کا خیال نہ کرنا، نہ کبھی یہ سمجھنا کہ تم یہاں اجنبی ہو، رف کام کاج کرنے آئی ہو، ہاں سرکار کا غصہ بہت برا ہے، وہ غصہ کریں تو ہونٹ سی لینا۔ سمجھیں؟ اب جاؤ، اوپر کوٹھے پر جیبی کمرہ دکھا دےگی۔ ’’بیگم نے اسے سمجھایا اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور لرزتی آنکھوں سے سر پر کھیوے کی ساڑی کا سرخ آنچل ٹھیک کرتے ہوئے اس نے سوچا ہائے یہ کیسی بیوی ہے جو اپنے آوارہ مزاج شوہر کے لئے یوں اپنے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور پر خلوص الفاظ کے پھولوں میں سجا کے اس کی من پسند لڑکیاں پیش کرتی ہے اور اس قدر اہتمام سے مارا ہوا تھپڑ شوہر میں بیوی کی اس قربانی کا ذرا سا احساس نہیں جگا پاتا؟

    یہ محلوں میں کچلی ہوئی روحیں۔ یہ ہر طرف بکھرے ہوئے عظمتوں کے نشان اور خطابوں کا دور تک پھیلا ہوا سلسلہ۔ یہ رعب داب، یہ چھک چھک کر کے چمکنے والے لباس، سچے موتیوں کے کنٹھے، سونے چاندی کی ریل پیل اور ان سب کے بیچ روشنی بکھیرنے والے دلوں کے داغ۔ بےوطن کنیزوں کے نوحے اور جنسی بربریت کے یہ کھلے ہوئے مناظر۔ جن سے ڈیوڑھی کا ہر فرد واقف ہے۔ اس نے سوچا۔ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں اپنے آس پاس کی تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا مکمل جائزہ لیتی تھیں۔

    اس نے بےبسی سے ہاتھ پیروں کو جھٹکا دے کر چونکا دیا۔ جسم کے سارے اعضاء مسلسل خدا کئے جا رہے تھے۔ ہم تمہارے ساتھ نہیں جائیں گے۔ اوں۔ ہوں۔ اوں۔ مگر جب جیبی نے کوٹھے والے سجے سجائے کمرے میں ہلکا سادھکا دے کر ڈھکیل دیا تو روتے ہوئے اعضاء چلانے لگے مسلسل چوٹ کھا کھا کے زخمی ہونے والا ضمیر مردہ ہو گیا۔

    وہ دو بچوں کی ماں بن کر بھی اپنی ممتا دار نے کو ترستی رہی، بچے اس کے ضرور تھے مگر حشمت جہاں نے دو بوند دودھ بھی اس کی چھاتی سے پینے نہ دیا سرکار کے بچے ہیں، اونچے خاندان کی اناؤں کو رکھ کر دودھ پلایا گیا۔ ساری دنیا کو یہی پتہ تھا کہ بچے حشمت جہاں کے ہیں۔

    ’’خبردار حرامزادیو۔ اس بارے میں زبان کھولی تو گولی ماردوں گا‘‘۔

    سرکار کئی بار بندوق میں کارتوس بھرتے ہوئے مستقبل کی بشارت دے چکے تھے اور سب اسی واقعہ کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے انھیں تو یہاں زندگی گذارنی ہے۔ یہاں سے نکل کے کہاں جائیں گی؟ اتنی وسیع دنیا میں ایک تنکا بھی تو ان کی نہ تھا۔ یہاں اس ٹھاٹ باٹ سے رہنے کو تو ملتا ہے۔ ویسے ظلم کہاں نہیں ہے۔ وہ حالات سے ہمیشہ سمجھوتہ کرلیتیں۔ بیچاری بے زبان عورتیں۔ عنایات کے بوجھ تلے دبی ہوئی کمزور ارادوں کے ساتھ بے بس ہو جاتیں اس کی دونوں بچیاں اس کو حشمت جہاں کی طرح پکارتی تھیں اور جب ان کے منہ سے حشمت جہاں کے لئے ’’اماں جان‘‘ نکلتا تو وہ اندھیری راتوں میں مسہری پر تڑپ تڑپ کر کراہتی۔

    یہاں تو سب کچھ پرایا ہے۔ سہاگ، بچے، گھر بار، نوکر چاکر۔ سب پرائے ہیں کسی چیز میں کوئی حصہ نہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس کو وہ اپنی اور صرف اپنی کہہ سکے۔ بس جب تک زندہ رہو، کھاؤ، پیو، قیمتی لباس پہنو اور اپنے سجے سجائے کمرے میں پڑے پڑے سوچاکرو۔ یہ کیسی زندگی ہے؟ آخر اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ جاپانی گڑیا کی طرح چابی سے چلنے پھرنے، ناچنے والی گڑیا کی طرح وہ کب تک زندگی رہے گی؟ وہ کس کو اپنا کہہ کے دل کو سہارا دےگی؟

    بچیوں کے بڑھنے اور سرو کی طرح جھومتے قدو قامت و خوبصورت پھول جیسے چہروں کو سڈول جس میں تبدیل ہوتے دیر نہ لگی۔ کتنی پیاری بیٹیاں ہیں اس کی۔ وہ نظر بھر کے نہ دیکھتی۔ کہتے ہیں سب سے پہلے ماں کی نظر لگ جاتی ہے۔

    لڑیوں کی شادی میں اس نے رات دن ایک کر دیئے۔ اس کے ہاتھ شل ہو گئے، اسکی آنکھیں دھندلا گئیں۔

    داماد گھر آ گئے۔ کوٹھے والے کمرے بیگم پاشا کے حصہ میں آئے اور نیچے نواب بیگم نے اپنا بے حساب سامان رکھوا دیا۔ حشمت جہاں کی خدمت میں روز صبح پردے کے پاس آکے قدمبوسی عرض کرنے والے دامادوں نے کسی طرح اس کو جھک کے سلام نہ کیا۔

    ’’بوا۔۔۔ ذرا جلدی کھانا بھجوا دو چھوٹے سرکار کا’‘ بیگم پاشا کوٹھے کی کھڑکی سے اس کو مخاطب کرتیں۔

    ’’ابھی بھجواتی ہوں’‘۔ وہ دل میں ہزاروں گھاؤ لئے دھیمی آواز میں جواب دیتی۔ یہ دنیا ختم کیوں نہیں ہو جاتی۔ اب اور کیا باقی رہ گیا؟ وہ ہزاروں بار اپنے آپ سے پوچھتی۔

    نواب پاشا بیگم پاشا کئی بار بچوں کے معاملے میں اس کو ڈانٹ چکی تھیں۔

    ’’ارے ہے بوا۔۔۔ تم تو خدا کی قسم سٹھیا گئی ہو۔ بارہ بج گئے اور اب تک بچے بھوکے مر رہے ہیں۔

    اللہ جانے بوا کی عقل ماری گئی ہے یا ابھی سے سمجھ جواب دے گئی ہے۔

    صبح عید ہے اور اب تک بچوں کے کپڑے کشتیوں میں نہیں لگائے گئے۔

    توبہ اللہ بوا کا کام ایسا لسر لسر ہوتا ہے کہ افیونیوں کو بھی مات کر دیا۔

    وہ کیسی ماں تھی جو اپنے بچوں کی نظر میں گھر کی معمولی مغلانی بن کر رہ گئی تھی جو اپنے بچوں کو میرے بچے کہہ کر کلیجے سے نہیں لگا سکتی تھی۔ جس کے بچوں کو کبھی یہ علم نہ ہو سکا تھا کہ حشمت جہاں اماں جان ضرور ہیں مگر ممتا کسی اور کے سینے میں بے چین ہے۔ وہ نظریں جو ان پر واری جاتی ہیں کس کی ہیں۔ ان کے بچوں کو وقت پر کھلانے پلانے، سلانے اور منہ اندھیرے قرآن شریف پڑھانے اور رات گئے تک سنبھالنے میں ایک بوا کا نہیں بلکہ خاندانی خون کا ہاتھ ہے مگر یہ سب کہنا سننا ہی کس کو منظور تھا؟ اس کی تسکین کے لئے یہی کافی تھا کہ اس کے جگر کے ٹکڑے شاہی خاندان کا سلسلہ قائم رکھے ہوئے تھے۔ انھیں لوگ شہزادیاں کہتے تھے۔

    اچانک بوا کی یہ تسکین بھی کسی نے چھین لی۔ بڑے سرکار کے بعد بے حساب بیوائیں سفید کفنیاں پہنے ادھر ادھر گھومتیں تو اتنی بڑی ڈیوڑھی وسیع قبرستان میں تبدیل ہو جاتی جس میں بے چین روحیں آدھی رات کو بھٹکتی پھر رہی ہوں۔

    جاگیر داری کے خاتمے کا دورا تازیانہ پڑا تو ڈیوڑھی کی کمر ٹوٹ گئی۔ یوں سب بکھر گئے منتشر ہو گئے جیسے آندھی سوکھے پتے اڑائے لئے جا رہی ہو۔ سارا قیمتی سامان دو تین برسوں میں فروخت ہو گیا جنھیں پکے فرش پر بیٹھنے عادت تھی۔ انھوں نے ہزار ہا روپئے کا سامان، کوڑیوں کے مول خرید خرید کے گھروں میں بھر لیا۔ جو اجازت لے کر بڑی بڑی ڈیوڑھیوں کو میوزیم کی طرح دیکھنے جاتے تھے انھوں نے ڈیوڑھیاں خریدنا شروع کر دیں جن کی سات پشتوں نے کبھی اپنے گھر میں فانوس و کنول نہیں لٹکائے تھے وہ آج ہراجوں سے چھڑائے ہوئے فانوس اپنی دوکانوں پر لٹکائے بیٹھے تھے۔

    یہ شاید ماں باپ پر ظلم ڈھا کے زبردستی ان کی کنواری لڑکیوں کو محل میں داخل کر لینے کی سزا ہے۔ بیوی کے دل سے نکلی ہوئی آہوں کا کرشمہ ہے۔ ماں سے ممتا چھین لینے و بے آسرا کر دینے کے عوض دیا گیا عذاب ہے۔

    زلزلہ سے تباہ ہونے والے خوبصورت شہروں کی طرح سب کچھ دفن ہو چکا تھا۔ یہ کیسا زلزلہ تھا جس نے زندگی کی بنیادیں ہلا کر کمزور کر دی تھیں۔ کل تک ڈیوڑھی جس آن بان سے کھڑی تھی آج سیلاب زدہ مکانوں کی طرح کمزور و بوسیدہ ہو گئی تھی۔ اب یہاں صرف معمولی زندگی تھی۔ پے درپے شکستوں نے سب کو چڑ چڑا اور بدمزاج بنا دیا تھا۔ اب یہاں بیماریوں، لڑائیوں اور آپس کی دشمنی کا راج تھا۔ ہر وقت بڑی بیگم اپنی لٹی ہوئی دولت کا مرثیہ پڑھا کرتیں۔ حشمت جہاں کراہتی رہتیں۔ نواب پاشا اور بیگم پاشا بچوں پر جھنجھلا کے مارنے دوڑتیں اور وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرانی لئے نقش بہ دیوار بنی سب کچھ دیکھتی رہی۔

    ڈیوڑھی کے کئی حصے گر پڑ گئے تھے اور اب ان کھنڈروں میں گرتے ہوئے منقش ستون آنے جانے والوں سے عظیم داستانیں بیان کرتے۔ وہ بھی ایک کھنڈر تھی کمزور بوسیدہ، گری ہوئی دیواروں کا کھنڈر، جس کے نیچے ایک عہد دبا پڑا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے