کمرے کو روشن کرتی سورج کی آخری کرن بھی آہستگی سے کھڑکی کی اوٹ میں معدوم ہو گئی۔ تاہم شام کے دھندلکے ابھی کچھ دور تھے اور دھوپ کو ابھی لان میں مزید رہنا تھا کمرے میں اندھیرا چھا چکا تھا۔ سیما نے جب کمرے کے اندر قدم رکھا تو مجھے اس کی مخصوص قدموں کی چاپ سے محسوس ہوا کہ وہ حسبِ معمول شام کی چائے لائی ہے۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہی کمرے کا لیمپ جلایا، جس سے کمرے میں ملگجی روشنی چاروں طرف پھیل گئی۔ میں نے بستر پر لیٹے لیٹے ہی آہستہ سے آنکھیں کھول دیں۔ اس نے میرے بیڈ کے ساتھ رکھی تپائی پر چائے کی پیالی رکھی اور پائنتی پر بیٹھ کر میری دائیں کلائی پر انگلیاں رکھ دیں۔ چند سیکنڈز کے بعد اسکے چہرے پر ایک ویران سی مُسکراہٹ ابھری۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اب بخار ہلکا ہو چکا ہے۔
میں نے جواباً اپنے ہاتھ کو جنبش دی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ دونوں طرف خاموش نگاہوں میں کئی ایک سوال تھے۔ گزرے وقت کے کئی ایک جواب تھے۔ سیما نے آنکھیں جھکا لیں اور دیر تک کمرے کا سناٹا نامعلوم آوازوں سے ہم آہنگ ہو کر کسی ایسے انجانے راگ کو الاپتا رہا جو دھیرے دھیرے روح میں اترتا جا رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ زیادہ دیر تک میرے پاس نہیں رکے گی۔ پھر بھی گذشتہ کئی ایک مہینوں سے وہ اپنا فرض جس جانفشانی سے نباہ رہی تھی وہ ناقابلِ یقین تھا۔ اس کے رویہ میں تبدیلی نے مجھے خود بھی حیران کر دیا تھا۔ کیا وہ میرے دل کی آواز سن چکی تھی؟
گزشتہ سال سے فالج کے اٹیک نے مجھے تقریباً اپاہج کر دیا تھا۔ بائیں حصے کے مفلوج ہو جانے سے میرا چلنا پھرنا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔ اگرچہ میرے بیٹے جواد نے ایک کل وقتی نرس لگا رکھی تھی لیکن وہ اکثر و بیشتر غائب رہتی۔ حوائج ضروری اور دیگر معاملات میں ضرورت پڑنے پر میری بیوی سیما طوعاً کرہاً میری مدد توکر دیا کرتی لیکن اس کا اپنا ایک الگ انداز تھا۔ کئی برسوں کی چپقلش نے ہم دونوں کے درمیان بے انتہا فاصلے بڑھا دئے تھے۔ دو ہفتے پہلے جب مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تو بڑی مشکل سے میں بچ پایا۔ ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ اب دوائیں کچھ کام نہیں کر رہی ہیں۔ میں شاید اگلا اٹیک برداشت نہ کر سکوں۔
لیکن اگلا اٹیک کب آئے گا کوئی نہیں جانتا تھا چند ماہ بعد یا چند سال بعد۔۔۔ اور انتظار سے مجھے نفرت ہے۔ انتظار کا جان لیوا اور کھٹن دکھ درد بھوگنا میرے لئے موت سے بدتر ہے۔
اب جس شخص کا آدھا جسم ایک سال سے مفلوج ہو اور وہ زندگی کی تمام تر خوشیوں سے محروم ہو چکا ہو۔ حال ہی میں اسے ہارٹ اٹیک ہوا ہو جس میں بڑی مشکل سے اسکی جان بچی ہو، جس کے پھیپڑے پہلے ہی سگریٹ نوشی سے ناکارہ ہو چکے ہوں تو ڈاکٹرز اس مریض کو اب کہاں تک زندہ رکھیں گے۔
لیکن یہ زندگی تھی، میں جانتا تھا کہ زندگی ہمیشہ طوالت کو اپنی ڈھال سمجھتی ہے لیکن میں کمزور ہو چکا تھا، منزل گو دور نہ تھی لیکن میں آبلہ پا چلنے سے معذور ہوچکا تھا، اب تو صحرا میں سراب بھی معدوم ہو چکے تھے، زندگی کا کھٹن راستہ جس طرح میں نے ہجوم میں رہتے ہوئے تنہا کاٹا، اس کی گواہی تو صرف میرا دل ہی دے سکتا تھا لیکن وہ تو خود زخمی حالت میں نصف حصے پر دھڑک رہا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ میں کئی ایک ہفتوں سے تقریباً روز ہی جواد کو اپنی آنکھوں سے کچھ پیغام دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مجھے پتہ تھا یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ صرف بڑے دل گردے والے ہی ایسا کر سکتے ہیں لیکن میں تن دہی سے ان دنوں یہی کام کر رہا تھا۔
ایک طرف میری صحت دن بہ دن جواب دی رہی تھی تو دوسری طرف میری ثابت قدمی مجھے آگے بڑھا رہی تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں کے راستے اپنا دل چیر کر اُس کے سامنے رکھ دیا تھا اور مجھے یقین تھا کہ کچھ دنوں سے وہ میرا پیغام سمجھ رہا ہے۔ اُسکی آنکھوں میں اداسی کے سائے مجھے یقین کی منزلوں تک لے جا رہے تھے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ میری زندگی کا سفر عین انہی راستوں پر لکھا ہے جن پر ابا چلے تھے۔۔ میں اب سمجھا تھا کہ ایسا کیونکر ہوا تھا۔ آج سے ٹھیک بائیس سال پہلے جب ابا بستر علالت پر تھے تو آخری سفر سے پہلے ان کی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔
میں ہر روز آفس سے نکلتے ہوئے پہلے اماں سے بات کرتا تھا اور پھر اپنے ساتھ ڈاکٹر کو اپنی گاڑی میں بیٹھا لاتا تھا۔ گو ڈاکٹر اپنا کام دلجمعی سے کرتے تھے لیکن ابا کی حالت دن بہ دن بگڑتی جاتی تھی اور پھر ان کی آنکھوں میں ان جھلملاتے موتیوں کو میں بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ انسان موت کو سامنے دیکھ کر بھی زندگی کی دعا کرتا ہے سبھی یہی کرتے ہیں لیکن ابا تو بہت پہلے سے دنیا کو چھوڑ چکے تھے۔ اماں سے انکی لڑائیاں گو اب بند ہو چکی تھیں لیکن دل کے آئینے پر آئے باریک بال دور نہ ہو سکے تھے۔ اور اب بیماری میں انکی دل کی خواہش مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ وہ زندگی بھر انتظار کے جبر و استبداد کا شکار رہے تھے اب شاید انکے زخموں میں زہر پھیل چکا تھا۔ میں جب کبھی ان کے پاس سامنے کرسی پر بیٹھتا تو اشارہ کر کے مجھے کہتے کہ میری قریب پلنگ کی پائنتی پر بیٹھ جاؤ اور پھر آہستگی سے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی خواہش کا اظہار کر دیتے۔ ان کے لبوں سے تو کچھ نہ سمجھا جا سکتا تھا لیکن ان کی آنکھیں مجھے پورا پیغام دے دیتیں۔ لیکن میں ایسے کیونکر کر سکتا تھا۔
میرے اند خوف کی ایک لہر سی دوڑ جاتی۔ مضبوط اور تنومند جسم و جاں کے باوجود میں اندر سے یوں نچڑ جاتا جیسے کسی نے دونوں ہاتھوں سے مجھے مروڑ کر دہرا کر دیا ہو۔ میرے آنسو نکل پڑتے لیکن ابا کو میں کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ ہر روز جب بھی میں شام کو انکے کمرے میں جاتا تو وہ انہیں نظروں سے مجھے دیکھتے۔ اپنے پاس بٹھاتے اور پھر نگاہوں سے وہی پیغام دہرا دیتے۔
پھر ایک تاریک رات کو انکی درد بھری آہوں سے اماں جاگتی رہیں اور صبح اٹھ کر مجھے بتایا کہ تمارے ابا ساری رات درد اور تکلیف میں رہے ہیں۔ آج ڈاکٹر کو ساتھ ضرور لیتے آنا۔ میں شام کو جب واپس آیا تو میرے ساتھ انکے وہی پرانے معالج تھے جو انہیں سال بھر سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے ابا کو وقفہ وقفہ سے تین انجکشن لگانے تھے اور تسلی دی کہ وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ آخری انجکشن لگاتے ہوئے ڈاکٹر نے ہمت بندھاتے ہوئے ابا سے کہا بس اب گھبرایئے نہیں یہ آخری انجکشن ہے۔ تو خلافِ معمول ابا گزشتہ ایک سال میں پہلی دفعہ مسکرا اٹھے اور ڈاکٹر سے کہا ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ یقیناً آخری انجکشن ہے اور پھر میری طرف عاجزانہ نظروں سے دیکھا۔
میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پر امیدوں کا ایک گھنا جھنڈ اُگ چکا ہے۔ جو دکھ اور درد میں نے آج ان کی آنکھوں میں دیکھا وہ پہلے کبھی نہ تھا۔ ڈاکٹر واپس جا چکا تھا۔ میں ابا کے پاس ہی بیٹھا رہا۔ ابا نے اس بیماری اور لاغرپن میں بھی اس طاقت سے میری کلائی پکڑی کہ میں ان سے چھڑا لینے کی ہمت نہ کر سکا۔ انکی آنکھوں سے عاجزی کے موتی جب انکے گالوں پر پھیل گئے تو میں اپنے آپ کو روک نہ سکا۔ میں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ میرے ہوتے ہوئے شکست ابا کا مقدر نہیں بن سکتی۔ میں آج اپنے ابا کو فتح یاب دیکھوں گا۔ جب میں نے انکے پاس پڑی دواؤں کی الماری کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انکی خوشی دیدنی تھی۔ وفورِ جذبات میں انہوں نے اپنے جسم کو ایک جھٹکے سے اوپر کی طرف کھینچا اور پلنگ کے کٹہرے سے ٹیک لگا لی۔ ان کے ہونٹ کانپ رہے تھے ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے موتی میں نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ ابا میری جان تھے یہ میں کیا کرہا ہوں، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے ان کے بوڑھے اور مرجھائے ہوئے رخسار اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور بڑھ کر انکا ماتھا چوم لیا۔
’’ابا۔۔۔ ابا۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔‘‘
میرا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے مجھے ایک جھٹکے سے پرے دھکیل دیا۔ انکے چہرے پر کرب و ابتلا کے سائے لہرا گئے اور غصہ سے انکے کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔۔۔ میں ڈر سا گیا۔ اپنے باپ کے لئے میرا سارا پیار امنڈ کر میرے ہاتھوں میں اتر آیا میں نے آگے بڑھ کر الماری کھولی اور چھوٹی سی شیشی سے کئی ایک گولیاں نکال کر انکے منہ میں ڈال دیں اور قریب پڑے پانی کے گلاس کو انکے منہ سے لگا دیا۔
کل جواد نے مجھے اپنی آنکھوں سے عندیہ دیا تھا کہ وہ شام کو میرے پاس آئے گا تو میرے دل کی دھڑکن سن لے گا۔ آخر میرا بیٹا ہے نا۔
سو اب میں اس کے انتظار میں چشمِ تصور سے کمرے کی کھڑکی سے آخری بار باہر جھانک رہا ہوں۔ لان میں کھِلے رنگ برنگے پھول اور ان کی خوشبو، بہار کی ترنگ میں اڑتی ہوئی مسکراتی رنگین تتلیاں اور امرود کے پیڑ کی اونچی شاخ پر بیٹھی چہچہاتی کوئل اپنی مَدھُر آواز میں مجھے بلا رہی ہے اور میں ہوں کہ اپنے جواد کا شدت سے انتطار کر رہا ہوں۔
سیما کئی ایک بار میرے کمرے سے گذر کر جا چکی ہے۔ اسے شائبہ تک نہیں کہ کل کی صبح ہم دونوں کے لئے کتنی خوشگوار ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.