خوف کے سائے
اس اندھیرے اور خوفناک کمرے میں کبھی کسی کے رونے تو کبھی کسی کے ہنسنے کی آواز نے ماحول کو ہیبت ناک بنا دیا تھا۔ جگہ جگہ بے سر کے جسموں نے خوف کا منظر پیدا کردیا تھا۔ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ کہیں کوئی سرگوشیوں میں باتیں کررہا ہو۔ ایک کالے رنگ کا ہاتھ جس کے لال رنگ کے بڑے بڑے ناخن تھے زمین پر یہاں سے وہاں رینگ رہا تھا، کہیں سے گھٹی گھٹی چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اچانک وہ کالا ہاتھ دیوار پر چلنے لگا، کسی کی بہت تیزتیز چلتی ہوئی سانسیں قریب ہی محسوس ہوئیں اور جسم میں چیٹیاں سی چلنے لگیں۔ وہ کالے رنگ کا ہاتھ پھر دوبارہ زمین پر رینگتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے لال رنگ کے نوکیلے ناخن جیسے کسی کے منتظر ہوں۔
یہ اس کی نوکری کا پہلا دن تھا۔ بہت سارے لمحوں میں تو وہ خود بھی ڈر گیا تھالیکن کیا کرتا پیٹ کی آگ بھی تو بجھانا تھی۔ دیر سے بیٹھا ہوا وہ کبھی اپنے داہنے تو کبھی بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو سہلائے جا رہا تھا۔ جیسے کوئی باپ کھیت پر سے لوٹنے والے اپنے تھکے ماندے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اس کی انگلیاں پتلی اور لمبی تھیں جس پر گوشت برائے نام تھااور کالا رنگ اور لال رنگ کے ناحن لگانے کی وجہ سے بھدی اور ڈراؤنی معلوم ہورہی تھیں۔ ہاتھوں کی ہڈیاں کافی ابھر گئی تھیں۔ وہ انہیں ایک ٹک دیکھتا گیا۔
یہ ہاتھ ہی تو میری کمائی کا ذریعہ ہے اگر اسے کچھ ہو جاتا ہے تو میں اپنے بوڑھے ماں باپ اور بہن کا پیٹ کیسے پال سکوں گا۔ اس نے ایک نظر اپنے گھر کو دیکھا جس میں گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھااور آنگن میں ایک لالٹین ٹمٹما رہی تھی۔ اسے وہ گھر اچانک آسیب کا مسکن محسوس ہونے لگا۔ لالٹین کی لو اس کی آنکھوں میں سما گئی اور وہ خود ایک بھٹکی ہوئی روح کی مانند لگنے لگا۔
”بیٹا اتنی دیر سے کیا سوچے جارہا ہے۔“ اماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چیخ کر پیچھے ہٹا۔
”ک ک کچھ نہیں۔۔۔ اماں۔۔۔“ اس نے پیشانی پر آئے ہوئے پسینے کے قطروں کو صاف کیا۔
”کیا ہوا بیٹا۔۔۔ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے۔ یا مالک نے کچھ کہا۔“
”نہیں۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ بس ایسے ہی کچھ خیال آگیا۔“
”ابا کہاں ہیں؟“
”وہ ابھی واپس نہیں آئے ہیں۔۔۔ شاید آج مونگ پھلیاں بکی نہیں۔“ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے کی جھریاں بڑھ گئیں۔ حلقے مزید گہرے ہوگئے۔ آنکھیں باہر کو نکلیں نمایاں لگنے لگیں۔ وہ گھبرا کر اٹھا اور تیزی سے نل کی طرف چلا گیا۔
وہ روز الگ الگ حلیہ بنا کر بھوت بنگلہ جاتا اور وہاں ہر طرح کی آوازیں نکال کر اور ہاتھ کی جنبش اور حرکتوں سے آنے والوں میں زیادہ ڈر پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔ کبھی ہاتھ کو صرف کالے رنگ سے رنگتا کبھی کئی رنگوں سے ایک ساتھ رنگ لیتا، کبھی زبان کو کالا کرکے اور شکل کو لال کرکے دروازے کے پاس کھڑا ہوجاتا تاکہ آنے والے کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ کر وہ اپنی کامیابی پر خوش ہوسکے۔
گاؤں میں یہ بھوت بنگلہ سرکس کے میدان کے پاس کھولا گیا تھا۔ اسے کھلے ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ بچوں اور جوانوں کی بھیڑ لگ گئی تھی۔ روز دس سے بارہ لوگ بھوت بنگلہ کا مزہ لینے آتے جو ڈرتے توتھے ہی لیکن لطف اندوز بھی خوب ہوتے تھے اور وہ اپنے گاہکوں کو نئے ڈر سے آشنا کروانے کے لئے نت نئی تراکیب کرتا رہتا۔ مہینے کی پہلی تاریخ کو جب اس کے مالک نے پانچ سو کا نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھا تو وہ اپنے آپ کو دنیا کاخوش نصیب آدمی سمجھنے لگا اور اپنی محنت پر فخر محسوس کرتا ہوا گھر آگیا۔
”ابا۔۔۔! یہ میری محنت کی پہلی کمائی۔“ اس نے ابا کے ہاتھ پر پیسے رکھ دیے اور ان کے چہرے کے تاثرات پڑھنے لگا۔ ابا کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے کھلے لیکن کپکپاہٹ کی وجہ سے وہ کچھ بول نہ سکے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
اس نے ابا کے چہرے پر خوشی اورآنسو کے ملے جلے تاثرات دیکھے تو اس کو اپنے اطراف روشنی ہی روشنی محسوس ہوئی اور وہ اپنے کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنے لگا۔ وہ رنگوں کی کئی پڑیاں لے کر آیا اور اس کو پانی میں گھول کر بھوت بنگلہ کی دیواروں کو زیادہ ہیبت ناک بنانے کی کوشش میں جٹ گیا۔ جگہ جگہ لال رنگ کا چھڑکاؤ خون سے مشابہہ ہوتا۔ الگ الگ رنگوں کے قلم سے اس نے کٹا ہوا سر، ہاتھ اور پیر بنائے اور ہر ایک کٹے ہوئے عضو کے پاس اس نے لال، کالا اورپیلے رنگ کا چھوٹا بلب لگا دیا جس سے وہ تصویریں اور زیادہ خوفناک معلوم ہونے لگیں۔ اس نے جھاڑ پھونس کو ایک بڑے سے سفید کپڑے میں بھر کر اس کو گیند نما شکل دے دی اور اس پر کالے رنگ سے آنکھ، ناک، کان اور بال بنا دیے جس سے وہ کٹا ہوا سر معلوم ہونے لگا۔ اس کے مالک نے اس کی محنت کو خوب سراہااور وہ آئندہ دنوں میں زیادہ اچھی کمائی کی امید لئے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
اس کو اپنا گھرآسیب کا مسکن نہیں بلکہ زندوں کا مسکن لگنے لگا جہاں وہ اپنے اماں، ابا اور بہن کومسکراتا ہوا اور پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا۔ خوشیوں سے بھرا ان کا چہرہ اور روشن آنکھیں اس میں زیادہ ہمت و استحکام پیدا کرتیں اور وہ جوش و ولولہ کے ساتھ روز صبح کام کی طرف بڑھ جاتا۔
جوتے اب اس کے پیروں میں پھنسنے لگے تھے۔ اب وہ ابا کے پرانے جوتے پہن کر کام پر جاتا لیکن رفتہ رفتہ لوگوں کی آمد بھوت بنگلہ پرکم ہونے لگی اور وہ ہر وقت بھوت بنگلہ کو بہتر بنانے کے متعلق سوچا کرتا۔
”کیا بات ہے صابر، تم اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہو۔۔۔ کیا سوچ رہے ہو۔“
”بس مالک یہی سوچ رہاتھا کہ لوگ اب کم آتے ہیں۔۔۔ ایسے چلے گا تو۔۔۔ ہم نے بہت محنت سے بھوت بنگلہ کو سجایا ہے۔“
”تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ لیکن لوگ یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتے ہیں۔ نئی نئی چیزیں ہر ایک کو بہت اچھی لگتی ہیں۔ تم چاہوتو اور کچھ تبدیلیاں لا سکتے ہو۔ لیکن ہاں۔۔۔ کیونکہ گاہک اب کم آرہے ہیں اس لیے میں اور زیادہ پیسہ خرچ نہیں کر سکتا اور تم تو جانتے ہو کہ میں نے اس پر پہلے ہی بہت پیسہ خرچ کردیا ہے۔ اب تم پر ہے کہ تم اس میں اور کتنی محنت کر پاتے ہو۔“
وہ گھر آکر مسلسل کچھ نیا کرنے کے متعلق سوچتا رہا اور اپنے ہاتھوں، پیروں اور جسم کو چھو چھو کر دیکھتا رہا۔
آخر ایسا کیا کیا جائے جس سے لوگ اتنی تعداد میں آنا شروع ہوجائیں جتنا پہلے آیا کرتے تھے۔ اس نے اپنا کرتا اتارا پھر پتلون اتاری اور آگے پیچھے سے خود کو ہر زاویہ سے دیکھتا رہا۔ پھر جب کوئی بات بنتی نظر نہ آئی تو کپڑے پہن کر پلنگ پر آبیٹھااور اپنے ہاتھوں کا معائینہ کرنے لگا۔ لوگ سب سے زیادہ اسی ہاتھ سے ڈرتے ہیں۔ اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا اور اسے خیال آیا کہ کیوں نا میں اس میں ایک اور انگوٹھے کا اضافہ کرلوں اور چھوٹی والی انگلی کے پا س ایک اور چھوٹی انگلی لگالوں تو ہو سکتا ہے بات بن جائے۔
وہ رات کو ماں کے بکس میں پڑے، گودڑ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو تلاش کرتا رہا۔ لالٹین کی روشنی میں اس نے بمشکل ان ٹکروں کو جوڑ کر پتلی سی انگلی اور انگوٹھے کی شکل دے دی ایسا کرنے میں کئی دفعہ سوئی اس کے ہاتھ میں چبھی لیکن گھر چلانے اور پیسہ کمانے کی فکر نے اس کے ذہن کو اپنی گرفت میں لئے رکھااور وہ ایک نیا تجربہ کرنے کی خوشی میں صبح کا انتظار کرنے لگا۔
صبح وہ جلدی سے تیار ہوا۔ مصنوعی انگوٹھے اورانگلی کو ایک کپڑے کے ٹکڑے کی مدد سے ہاتھ پر باندھ لیا اور اس پر مصنوعی ناخن چپکا کر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ جیسے ہی وہ پہنچا کچھ لوگ ٹکٹ لینے کے لئے لائین میں کھڑے ہوئے تھے وہ پیچھے کے دروازے سے اند داخل ہوا اور داخلی دروازے کی جانب لکڑی کی دیوار کے نیچے الٹا ہو کر لیٹ گیا تاکہ ہاتھ کی کرامت سے لوگوں میں خوف و حراس پیدا کر سکے۔ جیسے ہی دروازہ کھلا اس نے فوراََدیوار کے نیچے سے اپنی انگلیوں کو لہراتے ہوئے آنے والے کی جانب بڑھایا۔ لڑکی تیزی سے چیخ مار کر پیچھے ہٹی لیکن لڑکے نے غور سے اس کے ہاتھ کو دیکھا اور مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ کچھ دنوں تک لوگ آتے رہے لیکن پھر تعداد اتنی کم ہو گئی کہ کئی کئی دن وہ خالی بیٹھا اپنی ساتوں انگلیوں کو تکتا رہتا۔
”صابر۔۔۔ لگ رہا ہے تم زیادہ محنت نہیں کر پارہے ہو۔۔۔ یا تمہاری دلچسپی ختم ہورہی ہے۔۔۔ اگر ایسا ہی رہا تو بھئی پھر مجھے کچھ سوچنا پڑے گا۔“ مالک نے بیزاری سے کہا
”نہیں مالک۔۔۔ میں تو نئی نئی تراکیب لگاتا ہوں۔۔۔ لیکن شاید اب۔۔۔“
”دیکھو صابر۔۔۔ یہ دنیا بڑی عجیب ہے۔ تم جھوٹ کو جتنا زیادہ سچ بنا کر دکھاؤگے یہاں کے لوگ اتنے ہی متاثر ہوں گے اور اس چیز پر اپنا پیسہ بھی خرچ کریں گے، بس جھوٹ کو سچ بنا کر دکھانے کا ہنر ہونا چاہئے اور حوصلہ بھی۔ تمہارا جھوٹ، جھوٹ ظاہر ہوجاتا ہے اس لئے خریدار بھی۔۔۔، اور یاد رکھنا اکثر جھوت ہی بکتا ہے۔ ورنہ سچ کے سکوں سے تو جھونپڑیاں بھی روشن نہیں ہوتیں۔“
مالک کے الفاظ بہت دیرتک اس کے کانوں میں گونجتے رہے بار بار انہیں الفاظ اور جملوں کی بازگشت سے تنگ آکر وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیخنے لگا۔ اس کے چہرے پر بے بسی اور مجبوری کے آثار نمودار ہونے لگے اور وہ تھکے ہوئے قدموں سے گھر لوٹ گیا۔
گھر میں گھستے ہی امید کی نگاہ سے اس کے باپ نے اس کی طرف دیکھا لیکن وہ نظریں جھکائے نل کی جانب ہاتھ دھونے چلا گیا۔ آج ایک ہفتہ ہوگیا تھا جب گھر میں کسی نے پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا تھااسے دوبارہ اپنا گھر آسیب کا مسکن لگنے لگاجہاں خوف کے سایے اپنے پر پھیلائے بیٹھے ہوں۔ آج اسے لالٹین کی مدھم لو بجھتی ہوئی معلوم ہوئی اس نے بار بار آنکھیں پھیلا کر اسے ٹھیک کرنا چاہا لیکن وہ دھندلی ہونے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی گئی اس نے تیزی سے اپنے سر کو دونوں مٹھیوں میں جکڑ لیا جیسے ابھی اس کی رگیں پھٹ جائیں گی۔ اچانک اس کی نظر چولہے کے پاس پڑے ہوئے کوئلے کے ٹکڑوں پر پڑی۔ اس نے جھٹکے سے ایک ٹکرا اٹھایا اور زمین پر مختلف طرح کے نقش و نگار اور عجیب و غریب شکلیں بنانے لگا یہاں تک کہ اس نے آنگن کی پوری زمین کالی کردی جس میں اس نے اپنے ہاتھوں کو بری طرح زخمی کرلیا اس کا داہنا ہاتھ جو لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا کرتا تھاخون سے لت پت تھا وہ اسی حالت میں اٹھا اور اپنے ابا، اماں اور بہن کے پلنگ کے قریب گیا۔ بہت غور سے باری باری ان کے چہروں کودیکھا۔ ابا کے چہرے کی ہڈیاں پہلے سے زیادہ ابھری ہوئی لگیں۔ گال پچک کر جبڑوں سے لگے ہوئے محسوس ہوئے۔ صابر کو ابا پر ایک مردہ شخص کا گمان ہونے لگا اس نے اندھیرے گھر کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ ابھی بہت سی بدروحیں نکل کر اس کو چمٹ جائیں گی اس کو اپنے اطراف کی چیزیں خود بہ خود ہلتی ہوئی محسوس ہوئیں اور وہ تقریباََ بھاگتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
کئی ہفتوں تک اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ اڑتی اڑتی یہ خبر سننے کو ملی کہ قریبی شہر کے کسی بھوت بنگلہ میں خوفناک حلیہ، جس کے بال اور داڑھی بڑھی ہوئی منھ پر رنگ ملا ہوا، جوکبھی ہنستا ہے تو کبھی رونے لگتا ہے، عجیب و غریب حرکتوں والا ایک ایسا شخص ہے جس کے متعلق لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ وہ سچ مچ کا آدمی ہے یا اس کا حلیہ فرضی ہے اور لوگ اس کو دیکھنے کے لیے امڈے چلے آتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.